قسط ۱۵

325 23 6
                                    

زوہیب اور عنایہ کے یہاں اچھے دن گزر رہے تھے زوہیب حددرجہ کوشش کر رہا تھا کہ وہ عنایہ کو خوش رکھے اور عنایہ بھی خوش رہنے کی حددرجہ کوشش کر رہی تھی وہ زوہیب کے ساتھ کو بھی قبول کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر یہ اس کے لیے فلحال ناممکنات میں سے تھا ایک ایسے شخص کو زندگی میں اپنا ساتھی قبول کر کہ اس کے ساتھ چلنا جس سے ایک وقت میں آپ کو بات کرنا بھی پسند نہ تھا اور آج وہ شخص آپ کا شوہر ہو ۔ عنایہ کو کل رات سیدھے ہاتھ پر چوٹ لگ گئی تھی جو چاروں انگلیاں دروازے میں آنے کہ سبب ہوا تھا اور اسے ابھی بھی ہاتھ میں کافی تکلیف تھی معمول کے کاموں میں دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ ابھی بھی عنایہ آئینے کے سامنے بیٹھے بال بنانے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ اسے اس زخمی ہاتھ کے ساتھ کافی مشکل لگ رہا تھا اور زوہیب اس کا بیڈ پر بیٹھا بغور جائزہ لے رہا تھا جو برش لیے کب سے بال کنگی کرنے کی ناکام کوشش میں تھی زوہیب بیڈ سے اٹھا اور خاموشی سے چلتا ہوا اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور اپنا ہاتھ اس کے سامنے کر دیا عنایہ نے پہلے اس کے ہاتھ کو اور پھر پیچھے مڑتے ہوئے زوہیب کو دیکھا تھا جس پر زوہیب نے پہلے برش اور پھر اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تھا بولا کچھ نہیں تھا عنایہ نے خاموشی سے برش اس کے ہاتھ میں رکھ دیا اور زوہیب نے خاموشی سے تھام لیا عنایہ نے چہرہ آئینہ کی طرف موڑ لیا وہ آئینہ میں اس شخص کا عکس دیکھ سکتی تھی جو بالکل اس کے پیچھے کھڑا تھا زوہیب ایک ہاتھ میں عنایہ کے لمبے بال لیتا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے برش سے اس کے ہلکے الجھے بال سلجھاتا یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا وہ اس کے بال ہاتھوں میں لیتا اور پھر برش سے بال برش کرتا آہستہ آہستہ کچھ ہی دیر میں تمام بال سلجھ چکے تھے زوہیب نے برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا تھا اور ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھولتے اس میں سے ایک عدد سٹریٹنر نکالا تھا عنایہ زوہیب کو بال بنانی خاموشی سے دیکھتی رہی تھی مگر اب وہ اسے روکنے کے لیے بولی تھی ۔

آپ رہنے دیں میں کر لوں گی ۔ عنایہ تقریباً اس کے ہاتھ سے سٹریٹنر لے چکی تھی ۔

نہیں میں کر دیتا ہوں تم سے بال برش نہیں ہو رہے تھے جو کہ اس سے کئی درجہ آسان کام تھا تو پھر یہ کیسے کرو گی ۔ زوہیب نے سٹریٹنر کا سوئیچ بوڈ میں لگاتے کہا تھا ۔

نہیں آپ کو یہ آتا نہیں ہے ناں تو اس لیے ، بال نہ جل جائیں کہیں ۔ عنایہ کو لگا زوہیب اس پر طنز کر گیا ہے ۔

نہیں جلاتا تمہارے بال فکر مت کرو اور ویسے بھی یہ کون سا میں پہلی مرتبہ کر رہا ہوں ۔ زوہیب اب اس کے بال پکڑ کر سٹریٹ کر رہا تھا، عنایہ نے زوہیب کے اس فقرے پر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا ۔

دھیان سے عنایہ بال جلے نا جلے تمہاری جلد ضرور جل جائے گی پھر تم کہو گی ایک الله دین کے چراغ سے نکلے جن نے تمہیں زخمی کر دیا ۔ زوہیب کا مزاک کا موڈ ہو رہا تھا وہ سنجیدہ چہرہ بنا کر بولا تھا عنایہ نے پھر سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا مگر اس بار دیکھنے سے زیادہ اس نے زوہیب کو گھورا تھا ۔

حیات المیراث CompletedNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ