قسط ۹

400 26 39
                                    

دوپہر دو بج رہے تھے تپتی دھوپ سے زمین انگارہ بنی ہوئی تھی گرمی کا زور بڑھ چکا تھا اور محد جیسا بندہ جو پچھلے آدھے گھنٹے سے اے۔سی والی گاڑی میں بیٹھا تھا اب گاڑی کا دروازہ کھولنا جان کو عزاب ڈالنے سے کم نہ لگ رہا تھا ۔ محد کی نظر سامنے پڑی تو دور اسے ایک لڑکی دیکھائی دی جس پر اسے شارقہ کا گمان ہوا اس نے دروازہ کھولتے باہر نکل کر دیکھنا چاہا باہر نکلتے اس کی آنکھوں میں دھوپ چبھی تھی وہ چلتا ہوا اس لڑکی کے پاس پہنچا قریب پہنچ کر اسے شارقہ کسی سے لڑتی دیکھائی دی عین ممکن تھا کہ وہ سامنے کھڑے شخص پر چڑھ دوڑے اور ایک آدھی رسید کر دے مگر آس پاس کھڑے لوگوں نے اسے روک رکھا تھا سو وہ صرف زبان سے ہی کام لے رہی تھی ۔
باجی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں وہ نہیں ہوں جو آپ سمجھ رہی ہیں ۔ اس شخص نے شارقہ کو پورا یقین دلانا چاہا مگر شارقہ آنکھوں میں غصہ لیے کھڑی اس کی ایک سننے کو تیار نہیں تھی ۔
آس پاس کے لوگوں سے یہ معلوم ہوا کہ شارقہ نے اسے بیچ سڑک روک کر تھپڑ مارا تھا اور اب اس سے قبول کروانا چاہ رہی ہے کہ وہ وہی ہے جس کی اسے تلاش تھی ۔
انسپکٹر صاحب اسے گرفتار کر لیں ۔ شارقہ کا دھیان ساتھ کھڑے محد پر گیا تو وہ اسے مخاطب کرتی بولی ۔
میں انسپکٹر نہیں ہوں اور کیوں گرفتار کروں میں اسے ۔ محد شارقہ کو مخاطب کرتا بولا تھا ۔
دیکھیں انسپکٹر صاحب آپ اسے گرفتار کر لیں یہ بہت خطرناک انسان ہے ۔ شارقہ نے محد کی بات مکمل طور پر نظر انداز کرتے کہا تھا ۔
وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا کیا ہے اس نے جو یہ خطرناک ہے ۔ محد نے خود کو انسپکٹر کہنے پر شارقہ کو ٹوکا نہیں تھا ۔
وہ میں ۔ شارقہ کچھ بول نا سکی اور وہاں سے چل پڑی ۔
سنے تو کہاں جا رہی ہیں آپ بات تو سنے ۔ محد نے وہاں سے چپ چاپ جاتی شارقہ کو روکا تھا اتنے میں وہ آدمی بھی وہاں سے جا چکا تھا ۔
جی بولیں ۔ شارقہ محد کی پکار پر رک گئی تھی ۔
ابھی کچھ دیر پہلے آپ اس لڑکے سے لڑنے مرنے پر تیار تھی اور ایک دم جانے بھی دیا ۔ محد آنکھوں میں دنیا جہاں کی حیرت لیے بولا ۔
کیونکہ میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور قانون اندھا ہوتا ہے ۔ شارقہ اتنا کہتی آگے بڑھ گئی ۔ اور اس شخص کو اندھا میں اپنے ہاتھوں سے کروں گی ۔ شارقہ منہ میں بڑبڑاتی چلنے لگی ۔
کیا کیا تھا اس نے ۔ محد نے اسے پھر سے پیچھے سے پکارا تھا ۔
مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی ۔
تو تم بولی کیوں نہیں عجیب لڑکی ہو ۔ محد کو اس کی اس حرکت پر شدید غصہ آیا تھا ۔
عجیب تو آپ بھی ہیں کبھی تم کہتے ہیں کبھی آپ کہتے ہیں ۔ شارقہ نے اصل بات محد سے چھپا لی تھی تو اب وہ اس کا دھیان اس سب سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
وہ بس ایسے ہی۔۔۔۔۔ یہ چھوڑو یہ بتاو کہ اگر دوبارہ اس نے ایسا کچھ کیا تو کیا کرو گی ۔ محد سے کچھ بن نہ پڑا کہ وہ کیا کہے ۔
فکر نہ کریں عقل ٹھکانے لگا دی ہے میں نے اس کی اب وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا ۔
ہاں لوگوں نے بتایا کہ تم نے اسے تھپڑ مارا ہے کافی ہمت والا کام ہے یہ ۔ محد ہر گزرتے لمحے شارقہ سے متاثر ہوتا جا رہا تھا اس کا بات کرنے کا انداز کبھی کبھار اس کے لہجے میں جھلکتی معصومیت جو شاید اور کسی کی نظر میں نہیں آتی تھی اس کا اعتماد اس کی ایک ایک بات ہر شہ اسے متاثر کرنے لگی تھی ۔
تمہاری بائک کہاں ہے ۔ محد نے اس کے پاس بائک ناں دیکھی تو عام سے لہجے میں بولا ۔
وہ تو ورک شوپ میں پڑی ہے کچھ دن سے بار بار مسئلہ کر رہی تھی ۔
اچھا آؤ پھر میں تمہیں چھوڑ دیتا ہوں ۔
نہیں میں چلی جاؤں گی ۔
کوئی بات نہیں میں چھوڑ دیتا ہوں اس وقت مشکل ہی ہے کہ تمہیں کوئی گاڑی وغیرہ ملے تو بہتر یہی ہے کہ میری پیشکش قبول کر لو ۔
محد کی بات میں صداقت تھی اسے لیے شارقہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
ویسے آپ ہر کسی کے ساتھ ایسے پیش آتی ہیں یا میرے ساتھ کوئی امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے ۔
پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ نے آپ کہنا ہے یا تم ۔ شارقہ غصے میں بولی ۔
سہولت کے حساب سے جو اچھا لگا بول لوں گا آپ میری بات کا جواب دیں کہ تم ۔۔۔
یااللّٰہ ۔ شارقہ منہ میں بولی تھی ۔
انسپکٹر صاحب میں ایسی ہی ہوں مجھے نہیں پتا چلتا کہ میں کب کیا بات کر جاؤں اور کب کیسے پیش آؤں ۔ شارقہ کہتی کھڑکی کی طرف چہرہ موڑ گئی ۔
شرقہ یہی نام تھا ناں ۔۔ تو شرقہ یہ تو بڑی خطرناک بات ہے ( محد کو شارقہ کی طرف سے کوئی جواب ناں ملا تو خود ہی گفتگو کا آغاز جوڑا ) ۔
میرا نام شارقہ شا۔ر۔قہ اور دوسری بات کوئی موڈ سونگ نام کی چیز ہوتی ہے کسی میں کم کسی میں زیادہ کسی میں بہت ہی زیادہ سمجھ گئے آپ انسپکٹر صاحب ۔ شارقہ کو اپنا محد کی گاڑی میں بیٹھنے کا فیصلہ سراسر غلط لگ رہا تھا ۔
میں بھی انسپکٹر نہیں ہوں محد نام ہے میرا او کے ۔ محد کہتا ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
شارقہ کو اپنا فون بجتا سنائی دیا دیکھنے پر سامنے بوس کا نام روشن ہوا تھا اس نے جھٹ سے کال اٹھا لی اس سے پہلے محد موبائل پر ابھرنے والا نمبر پڑھتا ۔
جی انکل کیسے ہیں آپ ۔ شارقہ نے کال اٹھاتے ہی کہا تھا ۔
میں تو بالکل درست ہوں مگر تمہارے حالات کچھ ناساز ہیں آج کل ۔ دوسری طرف سے بوس کی آواز ابھری تھی ۔
کیوں کیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں ۔ شارقہ نے بالکل انجان بنتے کہا تھا حالانکہ وہ سمجھ گئی تھی کہ بوس کا اشارہ کس طرف ہے ۔
یہ مجھے تم سے پوچھنا چاہیے یا تمہیں مجھ سے ۔ بوس غصہ میں بولا تھا ۔ تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تمہاری یہ حرکتیں تمہارے لیے کتنی نقصان دے ہو سکتی ہیں اتنا عرصہ ہو گیا مگر تمہیں اپنے آپ پر قابو نہیں آیا تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی کیا ضرورت تھی بیچ راستے میں تماشہ لگانے کی اور کیا ضرورت تھی اس محد کی گاڑی میں بیٹھنے کی پولیس والوں سے جتنا دور رہو اتنا اچھا ہے ۔
انکل آپ ۔ ۔۔ شارقہ کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے بوس نے اسے ٹوک دیا تھا ۔
ہاں میں نے تمہارے پیچھے آدمی لگا رکھا ہے کیونکہ تمہاری حرکتیں ہی ایسی ہیں کہ تم پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔ بوس نے کہتے فون کاٹ دیا ۔
شارقہ نے گھور کر فون کو دیکھا جیسے سارا قصور اس بےجان ڈبے کا ہی ہو ۔
اس بچارے نے کیا کر دیا جو اس کی جان لینے پر تلی ہیں ۔ محد نے بنا اس کی طرف رخ موڑے کہا تھا ۔
کچھ نہیں ۔ شارقہ چپ چاپ بیٹھی رہی ۔ اس کے بعد سفر خاموشی میں کٹا ۔ جب منزل آئی اور شارقہ گاڑی سے نیچے اترنے لگی تو محد نے اسے مخاطب کیا ۔
کیا ایک بات پوچھ سکتا ہوں ۔ ۔۔۔۔ اس دن آپ نے میری مدد کیوں نہیں لی تھی ۔ محد کے دماغ میں پہلے دن کی شارقہ کہیں بیٹھی ہوئی تھی ۔
پولیس والوں سے جتنا دور رہو اتنا بہتر ہے ۔ یہ کہتی شارقہ گاڑی سے باہر نکل گئی اس ارادے کے ساتھ کہ دوبارہ کبھی نہیں ملے گی ۔
گاڑی سے نکلتے وہ اپنے دو کمرہ مکان کے اندر داخل ہوئی اپنی جیکٹ صوفے پر پھینکی بیگ بھی اچھالا جو دور جا گرا منہ میں ببل ڈالی اور صوفے پر گر گئی ۔ جب سے وہ کوڈ بنی تھی وہ عجیب ہو گئی یا یہ کہنا درست ہو گا کہ جب سے ناز اور ولی اسے چھوڑ کر گئے تھے وہ حد سے زیادہ عجیب ہو گئی تھی کبھی کبھار بنا کسی بات کہ غصہ ہو جاتی تو کبھی بنا بات کہ ہس دیتی موڈ ہوتا تو اگلے کی ہر بات سن لیتی نا ہوتا تو گونگی بہری بن جاتی جب غصے میں آتی تو آپے سے باہر ہو جاتی وہ خود سے تنگ آ چکی تھی کبھی کبھار سر دیوار میں مار لیتی اور گھنٹو بیٹھ کر روتی رہتی وہ مکمل طور پر تنہا رہ گئی تھی جو اپنے تھے انہیں اپنا کہہ نہیں سکتی تھی اور جن کو کہہ سکتی تھی وہ جانتے ہی نہیں تھے یہ اس کا خیال تھا کہ عنایہ اور نورین اسے مکمل طور پر بھول چکے ہیں ایسے میں اس کے پاس بات کرنے کو صرف در و دیوار ہی بچے تھے یونیورسٹی میں بھی اس کی کسی سے ناں بنتی تھی ایک دوست بنی تھی مگر اسے تو دوستی بھی مطلبی ملی جس کے بعد اس نے کوئی دوست نہیں بنایا تھا اب وہ بہاولپور آئی تھی اپنے ایک اپنے کے لیے اس کی نانی جو پچھلے کئی سالوں سے اولڈ ایج ہوم میں رہ رہی تھی شارقہ کی ماں نے ایک شخص کی محبت میں اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور وہ شخص اسے چھوڑ کر چلا گیا پھر اس کی ملاقات ولی سے ہوئی اس نے ولی کے لیے کام کرنا شروع کر دیا اور شرمندگی سے کبھی واپس نا جا پائی اس کا ایک بھائی بھی تھا جو چند سال پہلے اپنی ماں کو اولڈ ایج ہوم چھوڑ آیا شارقہ کو ایک سال پہلے ہی اپنی نانی کا پتا چلا تھا اور تب سے وہ یہاں آتی رہتی تھی یونیورسٹی سے تین دن کی چھٹی بھی ملتی تو وہ یہاں آ جاتی تھی اسے جب اپنی نانی ملی تو وہ لِور کی بیماری میں مبتلہ تھی ۔
***************************************
دانیا نے ابا جی کا حقہ واپس وہیں رکھ دیا تھا جہاں سے اٹھایا تھا اور اب کھانا کھا کر کمرے میں آ گئی تھی کمرے میں آتے ہی اسے ایک خیال آیا تو وہ کمرے سے باہر نکل آئی سامنے اسے عمارہ کھڑی نظر آئی ۔
عمارہ مجھے کافی پینی ہے ۔ دانیا نے فرمائش رکھی تھی ۔
کافی وہ تو عنایہ آپی کو بنانی آتی ہے ۔
ہاں تو اسی کے ہاتھ کی تو پینی ہے ۔ دانیا منہ میں بڑبڑائی ۔
کچھ کہا آپی آپ نے ۔ عمارہ اس کی بڑبڑاہٹ سن نا سکی تو بولی ۔
کچھ نہیں میں نے کہا کہ میں خود بنا لیتی ہوں ۔
ارے نہیں آپی میں ابھی آپی کو بولتی ہوں وہ بنا دیتی ہیں ۔ عمارہ کہتی نیچے آ گئی جہاں اسے عنایہ صوفے پر ہی بیٹھی نظر آ گئی تھی ۔
عنایہ آپی وہ شارقہ آپی کو کافی پینی ہے ۔ عمارہ نے آتے ہی دانیا کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔
عنایہ اٹھ کر کچن میں آ گئی اور کپ میں کافی پھینٹنے لگی ۔ پتا نہیں یہ کون سا ٹائم ہے کافی پینے کا ۔
کافی پینے کا کوئی وقت تھوڑی ہوتا ہے جب دل کرے پی لینی چاہیے ۔ دانیا کہتے کچن میں اسکے پاس آ کھڑی ہوئی ۔
عنایہ کو شدت سے دانیا یاد آئی تھی ۔
آپی یہ کون سا وقت ہے کافی پینے کا کسی نے دیکھ لیا تو مار پڑے گی ۔ عنایہ نے کچن میں رات کے ایک بجے کھڑی کافی بناتی دانیا کو کہا تھا ۔
ارے میری جان کافی پینے کا بھی کوئی وقت ہوتا ہے کیا جب دل کرے پی لینی چاہیے اور مار کا کیا ہے وہ تو ویسے بھی پڑ ہی جانی ہے اگر کسی کو پتا چلا کہ ہم کافی پیتے ہیں ۔
آپی ولی خان بھی تو پیتے ہیں ناں ۔ عنایہ نے معصومیت سے کہا ۔
وہ پیتے ہیں تبھی تو ہم پیتے ہیں جو ولی خان کرے گا وہی عنایہ اور دانیا خان کریں گی ۔ دانیا نے شانوں پر پھیلے بال ایک ہاتھ سے ایک ادا سے لہرائے تھے وہ بچپن میں ایسی ہی شوخ سی تھی ۔
شارقہ آپی آپ کو پتا ہے عنایہ آپی ورلڈ بیسٹ کافی بناتی ہیں ۔ عمارہ نے دانیا کو کچن میں کھڑا دیکھا تو عنایہ کی کافی کی تعریف کرتے بولی ۔
وہ تو پی کر ہی پتا چلے گا ناں ۔ دانیا نے عام سے لہجے میں کہا ۔
یہ لیں آپ کی کافی تھوڑی ہی دیر میں عنایہ نے اس کے سامنے کافی کا کپ رکھا تھا ۔
ویسے عمارہ آپ کی عنایہ آپی کو مجھے آپی کہنا چاہیے ہنہ ۔ دانیا نے نظریں عنایہ پر ٹکائے کہا تھا ۔
آپی عنایہ آپی کسی کو آپی نہیں بولتی ۔
کیوں میں تو کافی بڑی ہوں گی ناں اس سے کم از کم تین سال تو بڑی ہوں گی ہی ۔ دانیا ابھی بول ہی رہی تھی کہ عنایہ وہاں سے چلی گئی اور دانیا اسے جاتا دیکھتی رہی ۔
****************************************
شارقہ بازار میں کھڑی خریداری کر رہی تھی جب ایک شخص اس کے سامنے آ کھڑا ہوا جس سے اس نے دوبارہ کبھی نا ملنے کا ارادہ کیا تھا ۔
کیسی ہو اتنے دن ہو گئے ملی ہی نہیں ۔ محد اس سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے یہ پرانے دوست ہوں ۔
شارقہ نے اسے مکمل نظر انداز کر دیا ۔
دیکھو مانا کچھ لوگوں کو ہوتے ہیں موڈ سونگ مگر اتنے بھی کیا کہ بندہ اگلی ملاقات میں پہچاننے سے ہی انکار کر دے ۔
میں نے کب آپ کو پہچاننے سے انکار کیا ۔
رویہ تمہارا تو کچھ ایسی ہی داستان سنا رہا ہے ۔
ایسا کیا کر دیا میں نے ۔ شارقہ نے چلنا شروع کیا تو محد بھی اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔
کچھ نہیں آپ نے تو کچھ نہیں کیا بس میری ہی آنکھیں خراب ہیں یقیناً ۔
کوئی کام ہے آپ کو ۔ شارقہ نے رخ اس کی طرف موڑتے اس کے مدمقابل کھڑے ہوتے کہا ۔
ضروری تھوڑی ہے کہ بندہ کام کے لیے ہی بات کرے ایسے بھی تو بات ہو سکتی ہے ناں ۔
نہیں ایسے بات نہیں ہو سکتی ۔
مگر کیوں ۔ محد نے کیوں پر زور دیتے کہا ۔
کیا مطلب کیوں۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کرنی بات تو نہیں کرنی ایسا کون سا رشتہ ہے جو ہم آپس میں بات کریں ۔
دوست بھی تو بن سکتے ہیں ناں ہم ۔ محد نے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے کہا ۔
میں یہاں بات نہیں کرنا چاہ رہی اور آپ دوستی کی بات کر رہے ہیں ۔
کوئی بات نہیں آپ کا موڈ خراب ہے اگلی ملاقات پر آپ مجھ سے شیریں میں لپٹے ہوئے الفاظ میں بات کریں گی دیکھنا ۔ شارقہ نے اسے گھور کر دیکھا ۔
او کے فرینڈ چلتا ہوں دوبارہ ملاقات ہو گی ۔ محد کہتا وہاں سے چلا گیا اور شارقہ اس کی پیشانی کو گھورتی رہ گئی ۔
***************************************
ابا جی کمرے میں گم سم بیٹھے تھے کسی گہری سوچ میں تھے جب نورین اجازت لیتے کمرے میں آئی ۔ ابا جی نے نورین کو کوئی ضروری بات کرنے کو کمرے میں بلوایا تھا ۔
جی ابا جی آپ نے بلوایا تھا ۔ نورین نے اجازت طلب کرتے اندر آتے کہا تھا ۔
بیٹھو ۔ ابا جی نے نورین کو ایک طرف اشارہ کر کہ بیٹھنے کو کہا ۔
نورین چپ چاپ بیٹھ گئی ۔
نورین کیا تم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے ۔ نورین نے ابا جی کی طرف دیکھا کہ جان سکے کہ ان کا مطلب کیا ہے اور ان کی آنکھوں میں جھانکنے کی دیر تھی نورین کی آنکھوں میں آنسو اتر آئے اور وہ چلتی ہوئی باہر آ گئی ۔
***************************************
شارقہ اپنے کمرے میں پریشان بیٹھی تھی بات ہی کچھ ایسی تھی کہ اس کا پریشان ہونا بنتا بھی تھا ۔ اس کی نانی کی طبیعت بہت خراب تھی اور اس کی یونیورسٹی کی چھٹیاں بھی ختم ہونے والی تھی تو وہ کافی دیر سوچ بچار کے بعد اس فیصلے پر پہنچی کہ وہ سمیسٹر فریز کروا دے گی مگر اصل مسئلہ عالم خان تھا جو اسے یہ قدم ہر گز نہیں اٹھانے دے گا اس نے موبائل اٹھایا اور عالم کو کال ملا دی ۔
مجھے سمیسٹر فریز کروانا ہے ۔ شارقہ نے بنا کوئی تمہید باندھے کہا ۔
مگر تمہارا یہ آخری سال ہے کوڈ ۔
بوس مجھے نہیں معلوم آپ بس درخواست جمع کروا دیں میں سمیسٹر فریز کروا رہی ہوں نانی امی کو میری سخت ضرورت ہے اور میں فلحال انہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتی ۔
ہم انہیں یہاں لاہور میں لے آتے ہیں یہاں ان کا علاج بھی سہی سے ہو جائے گا ۔ عالم خان نے مشورہ دیا تھا ۔
وہ کبھی نہیں مانے گی مامو کی آس میں بیٹھی ہوئی ہیں اور میں انہیں لاہور لا کر ان کی آس نہیں توڑنا چاہتی ۔
مگر تمہارا سمیسٹر ۔
بوس یہ میرا آخری فیصلہ ہے اسے کوئی نہیں بدل سکتا ۔ شارقہ نے کہتے فون کاٹ دیا ۔
***************************************
محد ہر طرف سے پتا لگا چکا تھا مگر ہر طرف سے اسے مایوسی کا سامنہ ہی کرنا پڑا تھا جہاں بھی نظر گھما کر دیکھتا مایوسی ہی ملتی ہر کوئی یہی کہتا جو وہ سننا نہیں چاہتا تھا جو وہ سننا چاہتا تھا اس کے لیے وہ تمام جتن کر چکا تھا مگر کسی ایک شخص نے بھی اس کی امید کو زندہ کرنے میں ہاتھ نہیں بڑھایا تھا کہ کوئی کہہ دیتا کہ یہ وہی شارقہ ہے اس کی شارقہ ہر کوئی اسے یہی یقین دلانے پر لگا تھا کہ یہ امریکہ سے آئی ہے مگر دل کی گواہی جھوٹی نہیں ہوتی تو اس کا دل کیسے دغا کر جاتا کیسے جھوٹ بول جاتا کیسے کہہ دیتا کہ وہ وہ شارقہ نہیں ہے ۔
**************************************
عنایہ دوڑتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب اس کی ٹکر سامنے سے آتے زوہیب سے ہوئی ۔
کیا ہو گیا ہے اندھی ہو گئی ہو کیا ۔ زوہیب درشتگی سے بولا ۔
عنایہ کا سر اور جھک گیا ۔ زوہیب نے چہرہ نیچے کر کے دیکھا تو عنایہ کی آنکھ میں آنسو تھا ۔
کیا ہوا عنایہ روئی ہو کیا ۔ زوہیب فکر مندی سے بولا ۔
آپ کو کیا لینا دینا آپ کو تو ہر وقت غصہ کرنا ہی ہوتا ہے ناں بس تو کریں غصہ چپ کیوں ہیں بول لیں جو بولنا ہے ۔
کیا ہو گیا ہے عنایہ ۔ زوہیب اور فکرمند ہو گیا تھا ۔
کچھ نہیں ۔ عنایہ کو احساس ہوا وہ کہیں کی بات کہیں لے آئی ہے تو وہ راستہ بناتے ہوئے اوپر چلی گئی ۔
****************************************
رات کے دو بج رہ تھے جب شارقہ کو فون پر کال آتی سنائی دی شارقہ نے نیند میں فون اٹھا لیا مگر آگے سے جو خبر اسے سنائی گئی تھی اس نے اس کے ہوش اڑا دیے تھے اس کی نانی کی طبیعت بگڑ گئی تھی اور اسے اسی وقت ہسپتال بلایا گیا تھا ۔
شارقہ جلدی میں بستر سے نکلی کپڑے بدلتی باہر نکل آئی بائک کو کک لگائی مگر بائک نے چلنے سے انکار کر دیا اس وقت اس کا بائک کو مار دینے کا دل کیا اس نے بوس کو فون لگایا مگر بوس کا فون بند جا رہا تھا ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ وہ بوس کو فون کرے اور فون نا اٹھائیں اس نے مجبوراََ محد کو کال ملا دی محد نے اپنا نمبر پچھلی ملاقات پر اس کے موبائل میں سیو کر دیا تھا ۔
دو رنگ بعد ہی کال اٹھا لی گئی ۔
کہاں ہو ۔ شارقہ نے چھوٹتے ہی کہا تھا ۔
جنگ کے میدان میں ظاہر سی بات ہے بندہ اس وقت سو رہا ہوتا ہے ۔
میری نانی کی طبیعت خراب ہے مجھے ہسپتال جانا ہے کیا تم آ سکتے ہو ۔
دس منٹ میں وہ شارقہ کے گھر کے باہر کھڑا تھا ایک تو رات کے اس وقت ٹریفک کا مسئلہ نہیں تھا اور دوسرا اس نے گاڑی کافی تیز چلائی تھی جو وہ دس منٹ میں پہنچ گیا تھا ۔
****************************************
شارقہ جب ہسپتال پہنچی تو اس کی نانی کی طبیعت بہتر ہو گئی تھی مگر ڈاکٹرز کا کہنا یہی تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ان کی حالت ایسی نہیں کہ وہ بچ سکیں ۔
شارقہ کاریڈور میں بیٹھ گئی منہ ہاتھوں میں چھپا لیا ۔ ایک ایک کر سب کا چہرہ اس کی آنکھوں کے آگے سے گزر رہا تھا جنہیں وہ اپنی زندگی سے جاتا دیکھتی رہی تھی پہلے عنایہ اور نورین انہیں چھوڑ کر حویلی چلے گئے پھر ناز اور ولی اسے اس دنیا میں تنہا لڑنے کو چھوڑ گئے ولی اسے کنگ بنا گیا اور اس نے عالم کو بوس کہہ کر اسے بھی کھو دیا جب اسے اپنی نانی کا پتا چلا تو اسے ایک رشتہ ملا تھا مگر آج وہ بھی اسے چھوڑ کر جانے کو تیار تھا سب ایک ایک کر جا چکے تھے وہ ہر بار اکیلی رہ گئی تھی اور شاید اسے آگے بھی تنہا ہی رہنا تھا محد اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا شارقہ نے اس کے کاندھے سے ٹیک لگا لی اور کب تک روتی رہی اسے یاد نہیں تھا محد نے اسے رونے دیا اتنا کہ اس کے آنسو خشک ہو گئے جب وہ حواس میں واپس آئی تو اپنا سر محد کے کاندھے سے لگا پایا وہ سائڈ پر ہوتے اپنا چہرہ صاف کرتے اپنے بال درست کرنے لگی ۔
فکر نہ کرو میں کسی کو نہیں بتاؤ گا کہ ایک بہادر لڑکی میرے سامنے پھوٹ پھوٹ کر روئی ہے اور روتے ہوئے بھیانک لگی ہے ۔ محد انتہائی سنجیدگی سے بولا ۔
او کے فائن ۔ شارقہ بھی اسی سنجیدگی سے بولی اور پھر دونوں ایک ساتھ ہنس پڑے ۔
اچھی لگتی ہو ۔ ۔۔ ۔ آئی مین ہنستے ہوئے اچھی لگتی ہو ۔
اس دن شارقہ کو اپنا سچا پہلا دوست ملا تھا ۔
****************************************
دانیا کافی پی رہی تھی ساتھ ساتھ عمارہ سے باتوں میں مصروف تھی یہاں آنے کے بعد اسے سب سے زیادہ عمارہ ہی ملنسار لگی تھی عفاف زیادہ تر ماہم کے ساتھ ہوتی تھی محد کا وہ خود سامنہ نہیں کرنا چاہتی تھی زوہیب سے تو بچپن میں نہیں بنتی تھی زین اور صائم بھی اچھے تھے اور عنایہ وہ تو اسے بہت اچھی لگی تھی مگر اسے کہیں نا کہیں یہ محسوس ہوا تھا کہ وہ اسے پسند نہیں کرتی مگر جو بھی ہو وہ اسے منا ہی لے گی ۔
شارقہ زرا بات سننا ۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے اسے اس طرح مخاطب کیا ہو اور وہ بھی اس کی آنی نے ۔
دانیا کافی کا کب ٹیبل پر رکھتے اٹھتے ہوئے ان کے پاس چلی گئی ۔
نورین اس کو اس کے بازو سے پکڑتی ہوئی کمرے میں لے آئی ۔
بیٹھو بیٹا میں نے تمہیں کچھ دیکھانا ہے ۔
دانیا نورین کو دیکھتی رہ گئی اس کا انداز بدلا ہوا تھا وہ اسے وہاں بیٹھا کر خود الماری کی طرف بڑھ گئی تھوڑی دیر میں ہاتھوں میں البم لیے واپس لوٹی اور دانیا کے ساتھ آ بیٹھی ۔
آؤ میں تمہیں کسی سے ملواں ۔ نورین نے البم کھولتے ہوئے کہا تھا اور دانیا مسلسل ان کے چہرے کو دیکھے جا رہی تھی ۔
یہ ہے دانیا ولی خان ناز اور ولی خان کی اکلوتی اولاد مگر جانتی ہو ان سے زیادہ وہ مجھ سے اٹیچ تھی جب میں اس گھر میں گئی تو وہ ایک سال کی تھی ناز آپی اور ولی بھائی تو کام میں لگے رہتے تھے عالم بھی ہر وقت کام میں اور دانیا میری گود میں، وہ مجھے آنی پکارنے لگی تھی جب تک میں اسے اپنی گود میں بیٹھا کر کھانا نا کھلا لوں اس کے دن کا آغاز ہی نہیں ہوتا تھا اسے صرف میرے ہاتھ کی بریانی کھانی ہوتی تھی بیسن کا حلوہ تو وہ منٹوں میں چٹ کر جاتی تھی یہ دیکھو یہ ہماری پہلی تصویر تھی اس وقت جب میں اس گھر میں پہلی مرتبہ آئی تھی دلہن کے جوڑے میں دیکھو میری دانیا میری گود میں بیٹھی کتنی پیاری لگ رہی ہے اور اور یہ دیکھو عنایہ کے پیدائش کے بعد کی ہماری اکھٹے کھینچی گئی تصویر یہ دیکھو یہ والی کتنی شرارتی لگ رہی ہے ناں سارے کپڑے گندے کر لیے تھے اپنی سالگرہ پر جانتی ہو جب عنایہ ہماری زندگی میں آئی تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئی مجھ سے بات نہیں کرتی تھی کہتی تھی اب آپ کو مجھ سے پیار نہیں رہا کہنے لگی میں اب اس سے محبت نہیں کرتی اس سے اتنا پیار نہیں کرتی پھر اسے عنایہ سے مجھ سے بھی زیادہ پیار ہو گیا عنایہ اس کی پرچھائی بن گئی اور دانیا تو تھی ہی ولی خان کی پرچھائی ہر چیز میں ولی خان کی نکل وہ اپنا فرض سمجھتی تھی دونوں رات کو چھپ کر کافی پیا کرتے تھے پھر ایک رات میں نے پکڑ لیا اور کافی لاکر میں رکھ دی تو دونوں منہ پھلا کر بیٹھ گئی ۔ نورین بولتے بولتے ہنسی تھی ۔ اتنی شرارتی تھی وہ کہ مت پوچھو مجال ہے کہ کوئی کام ڈھنگ سے کر لے ہر کام میں مستی رہتی تھی اسے ہر وقت میرا سر کھاتی رہتی تھی مجال ہے جو کبھی مجھے سانس لے لینے دیا ہوتا کہتے کہتے نورین کے گلے میں آنسوں کا پھندا بن گیا پتا نہیں کیا ہو گیا اب وہ مجھ سے بات ہی نہیں کرتی اتنا قریب ہو کر آنی ہی نہیں کہتی ۔
آپ نے بھی تو اسے اکیلا چھوڑ دیا تھا ناں سوچا تھا کیا اس کے بارے میں وہ جس کے دن کا آغاز ہی نہیں ہوتا تھا آپ کی گود میں بیٹھے بنا وہ کیسے جیتی ہو گی جب ناز مارتی ہو گی تو کون بچاتا ہو گا اسے، کون اس کے بال بناتا ہو گا جب بریانی کھانے کا دل کرتا ہو گا تو وہ کیا کرتی ہو گی دانیا کی آنکھوں سے آنسو سیلاب کی طرح بند توڑے نکلے تھے آپ کو پتا ہے کتنے سالوں سے اس نے بیسن کا حلوہ چکھا بھی نہیں ہے کوئی اس کے بال نہیں بناتا تھا تو اس نے بال رکھنا ہی چھوڑ دیے تھے نورین نے اس کے بالوں کو ہاتھ لگایا تھا ۔ ناز کو تو کچھ نہیں آتا تھا ناں پھر بھی چھوڑ گئی تھی ناں آپ ۔ دانیا ہچکیوں میں رو رہی تھی نورین نے اسے سینے سے لگا لیا ۔
معاف کر دو ناں اپنی آنی کو آپ کی آنی بہت تڑپی ہے سچ میں ۔ نورین نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا ۔
ایسا کچھ نہیں ہے ورنہ آپ مجھ سے ملنے ضرور آتی ۔
تاکہ میں کبھی دوبارہ چھوڑنے کی ہمت ہی ناں کر پاتی کس پتھر دل سے آئی تھی میں یہ صرف میں جانتی ہوں تین دن تک عنایہ بخار میں پڑی رہی تھی یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ میں نے اسے کیسے سمجھایا تھا ۔
اب بھی آنی نہیں کہو گی ۔ نورین نے جیسے التجا کی تھی ۔
آنی ۔ دانیا نے زور سے بولا تھا ۔
اور یہ شارقہ والا کیا ڈرامہ تھا زرا یہ تو بتاؤ مجھے ۔ نورین نے اس کے کان کھینچے تھے ۔
ایسے کیسے اتنی آسانی سے بتا دیتی کہ میں دانیا ہوں پھر پتا کیسے چلتا کہ آپ نے مجھے پہچانا کہ نہیں ۔
میں نے کیا ابا جی نے بھی پہچان لیا تھا کہہ رہے تھے وہ چھٹاک بھر کی حقہ چور واپس آ گئی ہے اب میرے حقہ پر پہرےدار بیٹھانے پڑیں گے ۔
ہاہاہا ابا جی کو بولیں پکی چور ہوں پہرےدار سے کچھ نہیں ہونے والا فوج کی نفری بٹھائیں ۔
ہاں ہاں وہ تو وہ بٹھا ہی لیں گے تم زرا مجھے یہ بتاو کہ یہ امریکہ کا کیا چکر ہے تم امریکہ میں رہتی ہو اور کس کے پاس ۔ نورین دلچسپی لیتے بولی تھی ۔
آنی آپ جانتی تو ہیں ناں ہم کون لوگ ہیں ہمیں تو کہانیاں بنانی آتی ہیں ۔ دانیا معصومیت سے بولی تھی ۔
دانیا ۔ نورین کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔
آنی کوئی غصہ نہیں کوئی سوال نہیں آپ سے میں جھوٹ نہیں بول سکتی اور سچ کڑوا ہے شاید نگلا نہ جائے ۔
دانیا تم کوڈ ہو ۔ نورین نے دانیا کے دونوں بازو پکڑ کر اسے جھنجھوڑا تھا ۔
آنی اگر آپ کو مجھ سے رتی برابر بھی محبت ہوئی تو آپ اور کچھ نہیں پوچھیں گی آپ کو میری قسم ۔
دانیا جانتی ہو ناں میں نے عالم کو اسی وجع سے چھوڑا تھا صرف اس وجع سے کہ وہ ایک قاتل تھا اس کی وجع سے میری تمہاری عنایہ کی سب کی زندگی خطرے میں تھی ۔
آنی مگر میں قاتلہ نہیں ہوں کسی کی جان نہیں لی میں نے ۔
مگر تمہاری جان تو خطرے میں ہی ہے ناں کیسے سمجھاؤ میں تمہیں دانیا میری بچی کوڈ اپنی زندگی ہاتھ میں لیے گھومتا ہے ۔
دانیا نے ان کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی ۔ آنی اب اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہو گی ۔
نورین نے بھی دانیا کے سامنے ہار مان لی ۔
اچھا ناز آپی اور ولی بھائی کیسے ہیں ایک عرصہ تک ناز آپی کی کالز آتی رہی تھی مگر پھر اچانک آنا بند ہو گئی ۔ نورین نے عام لہجے میں بولا تو دانیا اسے دیکھتی ہی رہ گئی ۔
کیا ہوا دانیا ناز آپی اور ولی بھائی کا پوچھا ہے کیسے ہیں وہ ۔
آپ کو عالم چچا نے کچھ نہیں بتایا ۔ دانیا حیرت سے بولی ۔
کیا ہوا دانیا بتاؤ بھی ۔ نورین بےچینی سے بولی تھی ۔
ان کی ڈیتھ ہو گئی سات سال پہلے ۔ نورین کو لگا کہ شاید وہ کچھ غلط سن رہی ہے کچھ بہت غلط کچھ ایسا جو اسے سننا نہیں چاہیے تھا ۔
دانیا ایسا مزاق اچھا نہیں ہوتا سچ سچ بتاؤ مجھے وہ کیسے ہیں ۔
آنی میں سچ بول رہی ہوں ۔ دانیا کے لیے یہ سچ بولنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا نورین کے لیے سننا ان کے انتقال کو سات سال ہو چکے تھے مگر نورین کے لیے تو ایسا ہی تھا جیسے وہ ابھی مریں ہوں ۔
دانیا نورین کو لفظ بالفظ سب بتاتی گئی صرف یہ چھپا گئی کہ وہ آج کے کوڈ کی کنگ ہے وہ نورین سے جھوٹ نہیں بول سکتی تھی مگر سچ بتانا مشکل تھا وہ جو کوڈ کے نام پر بوکھلا گئی تھی کنگ کا سنتے تو مر ہی جاتی ۔
دونوں ایک دوسرے کے کاندھے سے سر لگائے بیٹھے تھے ۔
کوڈ نے سب نگل لیا ولی خان ناز تم سب سب کوڈ نے سب نگل لیا ہمارے گھر کی خوشیاں سکون سب تبھا کر دیا اور دانیا تم نے بھی کوڈ کو ہی چنا ۔ نورین روندی آواز میں بولی تھی دانیا چاہ کر بھی اسے کچھ نا کہہ پائی بس اس کے ساتھ اور چپک کر دونوں بازوں کو اس کے گرد لپیٹ کر بیٹھ گئی ۔
نورین نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا تھا اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی تھی ۔ یاد ہے جب ناز آپی تمہیں مارتی تھی تو تم بھاگ کر میرے پاس آ جاتی تھی اور ایسے ہی میری گود میں سر رکھ کر سو جایا کرتی تھی ۔
دانیا نے ہاں میں سر ہلایا تھا ۔ اور میں کیا کہتی تھی کہ آنی بس آپ کا خیال کر کہ مار کھا لیتی ہوں میں ۔ دانیا نورین کا ہاتھ پکڑ کر بولی تھی ۔
ہاہاہاہا سب یاد ہے مجھے ۔
اتنی میں دانیا کی نظر سامنے دروازے پر پڑی جہاں عنایہ عجیب نظروں سے اس سارے منظر کو دیکھ رہی تھی اور پھر جن قدموں سے یہاں تک آئی تھی انہی قدموں سے واپس لوٹ گئی ۔
آنی آپ بیٹھیں آرام سے میں زرا اسے درست کر کے آئی ۔
****************************************
شارقہ کی نانی کی طبعیت خراب ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے اور وقتً فوقتً ان کی طبعیت بگڑتی رہی تھی اور ہر بار شارقہ نے محد کو اپنے ساتھ کھڑا پایا تھا ان کی روز ملاقات ہونے لگی تھی جب شارقہ کی ملاقات محد سے نا ہوتی تو اسے کچھ خالی پن محسوس ہوتا اب شارقہ محد سے اچھے سے بات کرتی تھی محد کی شکل میں اسے ایک دوست مل گیا تھا جس کی اسے سخت ضرورت تھی جس کی کمی اس نے شدت سے زندگی کے ہر اچھے برے وقت میں محسوس کی تھی وہ جو اس کا خیال رکھتا تھا اس کی مدد کرتا تھا اس کا ساتھ دیتا تھا ۔ بوس کو شارقہ نے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ وہ اس کا پیچھا کرنے کو کسی کو نہیں کہیں گے اور شارقہ کو یقین تھا کہ بوس کے کان پر جوں تک نا رینگی تھی تو اس نے اپنا طریقہ استعمال کرنا شروع کر دیا وہ بوس کے آدمی کو پتا لگے بنا گھر سے نکل جاتی اگر وہ اس کا پیچھا کر بھی رہا ہوتا تو وہ چکما دے کر راستہ بدل لیا کرتی پہلے وہ ان سب باتوں پر دھیان نہیں دیا کرتی تھی مگر محد کی وجع سے اسے دینا پڑ رہا تھا بوس نے اس سے ایک بار محد کے بارے میں پوچھ ہی لیا مگر اسے بھی کہانیاں بنانی آتی تھی اسے کام میں تو اسے مہارت حاصل تھی ۔
****************************************
شارقہ اپنے چھوٹے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی جو اس کے کندھے تک بھی نہیں آتے تھے تبھی اس نے دوسرا ہاتھ جیب میں ڈالا اور سگڑٹ کی ڈبی نکال لی اور دوسری جیب سے لائٹر نکالتے سگڑٹ کو آگ لگائی تھی اور پھر وہی سگڑٹ منہ میں رکھ لی تھی اور لائٹر اور سگڑٹ کی ڈبی جیبوں میں واپس رکھ رہی تھی ۔
زرا اپنے ماں باپ کا نمبر دو انہیں بھی تو پتا چلے کہ ان کی بیٹی سگڑٹ پیتی پھر رہی ہے ۔ محد نے اسے سگڑٹ کا کش لگاتے دیکھا تو غصے سے بولا۔
نہیں ہے ۔ شارقہ نے بڑے تحمل سے جواب دیا ۔
کیا تمہارے پاس تمہارے ماں باپ کا نمبر نہیں ہے ۔ محد کو حیرت کا جھٹکا لگا ۔
میرے ماں باپ نہیں ہیں ۔ وہی تحمل تھا اس بار پھر ۔
او افسوس ہوا ۔ محد افسوس سے بولا ۔
اس میں افسوس والی کیا بات ہے کئی لوگوں کے نہیں ہوتے میرے بھی نہیں ہیں ۔ شارقہ بات مکمل کر چکی تھی اور محد نے اس کے منہ سے سگڑٹ نکال کر زمین پر پھینکی اور پاؤں سے مسل دیا ۔
آج کے بعد تم سگڑٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گی ۔شارقہ نے پہلے نیچے پڑی سگڑٹ کو دیکھا جو اسے منہ چڑا رہی تھی اور پھر اپنے سامنے کھڑے چوہدری محد کو اور پھر پیکٹ سے ایک نئی سگڑٹ نکال کر سلگھائی ۔
میں نے کہا آج کے بعد تم اسے ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گی ۔
کیوں تم بھی اور مردوں کی طرح سوچتے ہو کہ ایک سگڑٹ پیتی عورت بدکردار ہے ۔ شارقہ غصے سے بولی تھی ۔
میں نے ایسا کچھ نہیں کہا مگر سگڑٹ پینے سے گردے پھیپھڑے ضرور بےکار ہو جائیں گے اور خود کو مردوں جیسا دیکھانے کے لیے یا خود کو مضبوط دکھانے کے لیے سگڑٹ کے کش لگانا ضروری نہیں شیر کی کھال اوڑھ لینے سے شیر نہیں بنا جا سکتا اس کے لیے شیر کی دھاڑ اور اس جیسا حملہ بھی آنا چاہیے ۔ محد نے کہتے سگڑٹ زمین پر پھینک دی اور شارقہ اسے دیکھتی رہ گئی یہ شخص اسے ہر بار لاجواب کر دیتا تھا اور اس بار بھی کر گیا تھا ۔
شارقہ نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سگرٹ کی ڈبی باہر نکالی اور محد کی ہتھیلی پر رکھ دی ۔
اب کی ہے ناں عقلمندوں والی حرکت ویسے بھی تم اپنی ببل چباو وہی سہی ہے یہ سگرٹ تمہارے لیے نہیں بنی ۔ ویسے ببل سے یاد آیا ایک ببل مل سکتی ہے کیا ۔
ہرگز نہیں ۔ شارقہ نے صاف انکار کیا تھا ۔
نکلی ناں ایک نمبر کی کنجوس ۔ محد اسے چڑاتے ہوئے بولا ۔
بھئ اس میں کنجوسی کیسی حق حلال کی کمائی ہے اب تم پولیس والوں کی طرح تھوڑے ۔ ۔ ۔ شارقہ بولتے بولتے رک گئی کیونکہ محد کی گھورتی ہوئی آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
اچھا ناں سوری مزاق میں کہا تھا میں نے ۔
او کے مگر ایسا مزاق دوبارہ نہیں کرنی اپنی نوکری کو لے کر میں تھوڑا جزباتی ہوں ۔
**************************************
صائم اور زین گاڑی میں بیٹھے تھے گاڑی ہر چیز کو پیچھے چھوڑتے جا رہی تھی ۔
یار خدا کا خوف کر گاڑی کی سپیڈ کم کر خودکشی کا ارادہ ہے کیا ۔ زین بار بار صائم کو گاڑی کی سپیڈ کم کرنے کو کہہ رہا تھا مگر صائم تو جیسے بہرہ ہو گیا تھا ۔
یار مجھے پہلے بتانا تھا ناں توں مرنے جا رہا ہے میں تیرے ساتھ آتا ہی نہیں ۔
میں نے میں نے کہا تھا آنے کو ۔ صائم سینے پر انگلی رکھے اتنی اونچی آواز میں بولا تھا کہ اس کی آواز گاڑی میں گونجی تھی ۔
میرا کیا قصور ہے مجھ پہ کیوں بھڑک رہا ہے ۔ زین سیٹ سے ٹیک لگائے بولا تھا ۔
ہاں ہاں سارا قصور تو میرا ہی ہے میں ہی پاگل الو کا پٹھا ہوں ۔ صائم اتنی ہی آواز سے بولا تھا ۔
یہی بس یہی تیرا غصہ تجھے لے ڈوبے گا ۔ زین سکون سے بولا تھا ۔
صائم نے بریک لگائی اور گاڑی کو ایک سائیڈ پر روک کر سر سٹیرنگ سے ٹکا کر بیٹھ گیا ۔
اب کیا ہوا ۔ زین آرام سے بیگ سے سے چپس کا پیکٹ نکال کر چپس کھانے لگا ۔
کچھ نہیں ہوا ۔ صائم کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا ۔
بس یہی تو تیرا مسئلہ ہے میرے بھائی جب توں غصے میں آتا ہے تو لاوہ بن جاتا ہے جو ہر چیز کو تباہ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے اور پھر دوسرے ہی لمحہ سحرا کی خاک بنا گھوم رہا ہوتا ہے ۔ زین نے بڑے ہی بےرحمی سے اس کی حالت پر تبصرہ کیا ۔
صائم نے ایک نظر بےشرمی سے چپس کھاتے زین کو دیکھا ۔ شرم کرو ۔ صائم نے اس کے ہاتھ سے چپس چھینتے ایک سائیڈ پر پھینکے تھے جو نیچے بکھر گئے تھے ۔
شرم کیا کروں جس بندے کو اپنی حالت پر ترس نا آتا ہو اس سے ہمدردی کرنا سراسر بےوقوفی ہے ایسا شخص جو غصہ میں اپنا نقصان کر جائے لاکھ سمجھانے پر ایک ناں سنے اس کے ساتھ کیا کیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔۔۔۔۔ سمجھا ۔ زین آخری جملہ پر زور دیتا بولا ۔
اسے بھی تو دیکھ میرے سے بات کرنا گوارا نہیں کیا ۔
توں نے کی کیا جا کر پوچھا وہ کیسی ہے غلطی تیری تھی اور یہ بات توں بھی جانتا ہے بہت اچھے سے ۔
اس کی بھی غلطی تھی کیا تھا کہ وہ سب اگر مجھے پہلے بتا دیتی ۔
کوشش کی تھی اس نے شاید توں بھول رہا ہے ۔ زین نے اسے یاد دلایا تھا ۔
توں میرا بھائی ہے اس کا ۔
تجھے تو پتا ہے زین ظفر کو اپنی بہنوں سے کتنی محبت ہے ۔۔۔ فکر نا کر سب بہتر ہو جائے گا محبت کرتی ہے وہ بھی توں بھی بس اب اپنے اس غصے کو سنبھال کر کسی تجوری میں بند کر دے ورنہ میں تیری کوئی مدد نہیں کرنے والا ۔ صائم نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔
یار زین مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ۔
بڑی جلدی نہیں احساس ہو گیا ویسے ۔ زین نے طنز کرتے کہا تھا ۔
اس وقت جب میں نے تجھے کہا کہ اس سے اس طرح بات مت کر آرام سے پوچھ لے مگر توں تو اپنے غصے میں پاگل ہو گیا تھا ایک زرا سی بات کو مدع بنا کر سب رشتے ناطے توڑ دیے ۔
مجھے احساس ہے اپنی غلطی کا ۔
تبھی توں اس سے امید رکھتا ہے کہ وہ تجھ سے آ کر بات کرے ۔
****************************************
محد اور شارقہ چہل قدمی کو نکل آئے تھے سردیاں شروع ہو رہی تھی اور رات میں چلتی ٹھنڈی ہوا نے موسم خوشگوار بنا رکھا تھا ۔ دونوں ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف تھے جب شارقہ کی نظر گولا گنڈا کی ریڑھی پر پڑی اس وقت گولا گنڈا ملنا کسی غنیمت سے کم نہیں تھا بہاولپور جیسے شہر میں رات کے نو بجے ہی رش کم ہو جاتا تھا اور شارقہ کو اتنے عرصے بعد گولا گنڈا کھانے کو ملنے والا تھا ۔
محد وہ دیکھو گولا گنڈا ۔ شارقہ نے اشارہ کرتے کہا ۔
تو ۔
تو کیا ۔۔۔ کھاتے ہیں ناں ۔ شارقہ نے فرمائش کی ۔
ارے اتنی سردی میں کون کھاتا ہے یہ ۔ محد چڑ کر بولا تھا ۔
میں کھاتی ہوں اب تمہیں بھی کھانا پڑے گا ورنہ میں دوبارہ تمہارے ساتھ کہیں نہیں آؤں گی ۔ شارقہ نے انگلی سے اشارہ کرتے کہا تھا ۔
اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے چلو ۔۔۔۔ بھائی دو گولا گنڈا بنا دیں ۔ محد سامنے کھڑے شخص سے مخاطب ہوا تھا ۔
ہائے اتنی سردی ہے اوپر سے یہ گولا گنڈا اتنا ٹھنڈا ۔ وہ منہ میں ڈالتے ہی بولا تھا ۔
ہاہاہاہا گولا گنڈا ٹھنڈا ہی ہوتا ہے ۔ اور ساتھ ہی شارقہ نے اس کے ہاتھ میں پکڑا گولا گنڈا اس کے منہ پر لگایا ۔
اف ۔ اس نے اپنا ہاتھ شارقہ کے ہاتھ سے چھوڑاتے کہا تھا ۔
اب میں کیسے کھاؤں اسے گندا کر دیا تم نے ۔ اس نے گولا گنڈا ٹھیلے پر رکھ دیا ساتھ ہی شارقہ نے بھی گولا گنڈا رکھ دیا ۔
یہ کیا ہے ۔ ۔۔۔
جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں گی ۔ شارقہ ضد کرتی بولی ۔
مت کھاؤ میں تو نہیں کھا رہا ۔ محد کہتے آگے بڑھ گیا ۔
محد تمہاری وجع سے میں بھی نہیں کھا پائی ۔
کس نے روکا تھا کھا لیتی ناں منع تھوڑے کیا تھا کسی نے اور ویسے بھی مجھے یہ پسند نہیں ہے مگر ہاں عنایہ کو کافی پسند ہے وہ بہت شوق سے کھاتی ہے ۔
شارقہ نے عنایہ کے نام پر ہلکی مسکراہٹ دی شارقہ کو کچھ دن پہلے ہی پتا چلا تھا کہ یہ چوہدری محد ظفر ہے ۔
اچھا چلو نیا لے لیتے ہیں ایویں میری وجع سے تم نے بھی نہیں کھایا ۔ محد نے گوکا گنڈا نہ ملنے پر شارقہ کی شکل بنی دیکھی تو اسے نیا دلانے کی پیشکش کی ۔
نہیں اب مجھے نہیں کھانا تمہیں ہی مبارک ہو ۔
***************************************
عنایہ کمرے میں بیٹھی تھی جب دانیا ہاتھ میں دو کپ کافی پکڑے اندر داخل ہوئی تھی آ کر اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور ایک کپ اس کی طرف بڑھا دیا عنایہ نے ایک نظر گھما کر اسے دیکھا اور کافی کھینچنے کے انداز میں پکڑ لی تھی ۔
جیلس ہو رہی ہو ناں ۔ ہنہ ۔ پتا تھا مجھے تم میرے اور آنی سے جل رہی ہو فلوقت ۔ اتنے عرصے بعد وہ عنایہ سے بات کر رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بات کرے کیسے کرے ۔
عنایہ نے نظریں گھما کر غصے سے اسے دیکھا تھا ۔
بھول تو نہیں گئی تھی ناں کہ آنی پر پہلا حق میرا ہے ہاں ۔ دانیا نے جتایا تھا ۔
عنایہ پھر بھی کچھ نا بولی تھی ۔
اچھا ناں یار بس چھوڑ دو غصہ اگلی بار تمہیں بھی بلا لیں گے ۔
میں غصہ نہیں ہوں ۔ عنایہ غصے میں بولی تھی ۔
استغفراللہ ۔ دانیا نے کہتے ہوئے کافی کا گھونٹ بھرا تھا کہ ایک دم عنایہ نے دانیا کو گلے لگایا تھا دانیا کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔
اب کوئی میلو ڈرامہ نہیں ابھی آنی کا میلو ڈرامہ دیکھ کر آ رہی ہوں اب تم مت شروع ہو جانا ۔
میلو ڈرامہ وہ کر رہی تھی یا تم عنایہ اس سے دور ہوتے بولی تھی ۔
ایک منٹ ایک منٹ یہ تم نے تم کس کو کہا آپی ہوں تمہاری عزت سے بات کرو ۔
کوئی آپی شاپی نہیں ہیں اب تم ہی چلے گا ۔ عنایہ اسی انداز میں بولی تھی ۔
او ہو بڑی ہو گئی ہیں عنایہ میڈم ۔ دانیا نے ہلکا سا کان کھینچتے کہا تھا ۔
آپی کان تو مت کھینچنے بڑی ہو گئی ہوں میں ۔
ہاں ہاں پتا ہے اب تو ان بڑی محترمہ کی شادی بھی تو ہو رہی ہے ناں ۔ دانیا نے شرارت سے کہا ۔
میری شادی تو ہو ہی رہی ہے تمہارے کیا سین ہیں ۔ عنایہ نے شرارت سے کہا اور دانیا کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا اور وہ بات گھما گئی ۔
عنایہ اور دانیا گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔
**************************************
شارقہ کی نانی کا انتقال ہو گیا تھا اور یہی وجع تھی وہ آج کافی اداس تھی تمام رسومات ہو گئی تھی کچھ دنوں میں اس کا لاہور واپس جانے کا ارادہ بھی بن گیا تھا مگر ابھی اسے کچھ کام سر انجام دینے تھے جس کے بعد وہ لاہور کے لیے واپسی کر سکتی تھی ۔
انہی کاموں میں سے ایک کام سر انجام دینے وہ پرانی فیکٹری گئی تھی اسے کچھ ثبوت اس جگہ سے ہٹانے تھے ۔
شارقہ نے دبے پاؤں فیکٹری میں قدم رکھا تھا مگر پیچھے سے کسی کی آواز نے اسے پتھر کا بنا دیا تھا ۔
شارقہ تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ بھی اس وقت ۔ محد اسے رات کے اس وقت فیکٹری میں کھڑا دیکھ حیرانی سے بولا تھا ۔
وہ میں ۔ شارقہ بوکھلائی تھی مگر اس نے محد پر اپنی بوکھلاہٹ عیاں نہیں ہونے دے گی تھی ۔
میں تمہیں بتانے کی پابند نہیں ہوں ۔ شارقہ صاف الفاظ میں انکار کرتی مڑی تھی ۔
تم مجھے نہیں مگر ایک پولیس آفیسر کو بتانے کی پابند ضرور ہو ۔۔۔۔۔۔۔ شارقہ میں نے پوچھا ہے کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔
میں تمہیں نہیں بتا سکتی محد ۔ شارقہ نے پھر سے انکار کیا تھا ۔
شارقہ اس جگہ ایک آدمی کو دو دن تک اغواہ کر کے رکھا گیا ہے اور وہ آدمی اب پاگل کھانے میں موجود ہے اور یہ جگہ پولیس کے زیرِ نگرانی ہے تو میں اس بات کا حق رکھتا ہوں کہ تم سے پوچھ سکوں کہ یہاں کیا کر رہی ہو ۔
محد میرا کام بہت راز کا ہے میں ایسے ہی کسی کو نہیں بتا سکتی ۔
میں ایک پولیس آفیسر ہوں بتاو مجھے ورنہ مجھے تمہیں گرفتار کرنا ہو گا ۔
محد وہ وہ کوڈ ۔
کیا ہوا کوڈ کیا ۔ محد شارقہ کو پریشان دیکھ کر بولا تھا ۔
میں کوڈ کے کیس پر کام کر رہی ہوں میں ایک نیوز پیپر کے لیے کام کرتی ہوں اور کوڈ کے کیس پر رپورٹ بنانے کے لیے میں یہاں آئی تھی ۔
کیا مطلب کہنا کیا چاہ رہی ہو ۔ شارقہ کی باتیں اس کے سر کے اوپر سے گزری تھی ۔
کبھی خبروں میں ذرائع کا نام نہیں سنا جو خبروں میں کہا جاتا ہے ذرائع کے مطابق یہ ذرائع کے مطابق وہ وہی ذرائع ہوں میں اور آج کل کوڈ کے بارے میں خبریں اکھٹی کر رہی ہوں ۔ شارقہ کہیں نا کہیں محد کو مطمئن کر دیا تھا ۔
****************************************
زین سے بات کرنے کے بعد صائم کو احساس ہوا تھا کہ اگر غلطی اس کی ہے تو بات بھی اسے ہی کرنی چاہیے اسی وجع سے وہ ماہم سے بات کرنے کے لیے اس کے کمرے میں پہنچ گیا تھا ۔
کیسی ہو ۔ ماہم نے دروازہ کھولا تو اس نے فوراً پوچھا تھا ۔
یہ پوچھنے کے لیے آئے ہو ۔ ماہم غصے سے بولی ۔
صائم کو ماہم کا انداز بدلا بدلا لگا تھا لہجے میں تلخی اور خردرا پن واضح تھا جو وہ چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر سکا تھا وہ وہ ماہم نہیں تھی جسے وہ دو سال پہلے جانتا تھا ۔
ناراض لگ رہی ہو ۔ صائم اس سے بات کرنا چاہتا تھا ماہم کا دل اپنی طرف سے صاف کرنا چاہتا تھا اس سے معافی مانگنا چاہتا تھا جو اس نے دو سال پہلے کیا وہ غلط تھا یہ بات اسے ماہم کے اپنی زندگی سے چکے جانے کے بعد احساس ہوا تھا ۔
دیکھو اگر کوئی ضروری بات نہیں کرنی تو تم جا سکتے ہو ۔ ماہم نے صاف لہجے میں کہا تھا ۔
معافی مانگنا چاہتا ہوں مجھے احساس ہے میں غصے میں بہت زیادہ بول گیا تھا مجھے نہیں بولنا چاہیے تھا ۔
اسے اتنی آسانی سے مت معاف کرنا اپنی عزت نفس کو بھول مت جانا کسی کو اتنی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ جب چاہیے آپ کی زندگی میں آ جائے جب دل چاہیے چلا جائے ۔ دانیا کے کہے گئے الفاظ اس کے کانوں میں گونجے تھے ۔
مانگو معافی ۔ ماہم دونوں ہاتھ باندھے بولی تھی ۔
ہنہ ۔ صائم کو لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے ۔
میں نے کہا ہے کہ معافی مانگو جو مانگے آئے تھے ۔ ماہم عام سے لہجے میں بہت سارا طنز لیے بولا تھا ۔
صائم اس کی آنکھوں میں ہی دیکھتا رہ گیا ۔
چوہدری صائم ظفر مجھے کوئی عام لڑکی سمجھنے کی غلطی مت کرنا جو تمہاری پیار محبت کی باتوں میں آ جائے گی اور تمہیں آسانی سے معاف کر دے وہ اور دن تھے جب ماہم قریشی تم پر مرتی تھی جب وہ تمہاری ہر بات برداش کر لیا کرتی تھی جب تمہارا غصہ برداش کر لیتی تھی مگر اپنی محبت کا گلا تم نے خود دبایا تھا مجھ پر شک کر کے میرے بھائیوں جیسے کزن کے ساتھ میرے رشتے پر شک ڈال کر ۔ ماہم کہتی دروازہ اس کے منہ پر بند کر کے چلی گئی ۔ اس بار آگ کی طرح بھڑکنے والا صائم چوہدری ایک لفظ نا بول سکا تھا بس ایک زخمی مسکراہٹ سجائے وہاں سے چلا آیا مگر کہیں نا کہیں جانتا تھا کہ وہ مان جائے گی زیادہ دن خفا نہیں رہ پائے گی وہ جتنی بھی بدل جائے اس کا دل آج بھی ویسا ہی ہے ۔
***************************************
شارقہ کو بوس کی کال آئی تھی اور وہ شارقہ سے محد کے بارے میں پوچھ رہے تھے اور شارقہ ان پر غصہ ہو رہی تھی کہ انہوں نے اس کے منع کرنے کے باوجود بھی اپنے بندے کو اس کا پیچھا کرنے سے نہیں روکا تھا حالانکہ وہ جانتی تھی کہ بوس کا آدمی اس کا پیچھا کرتا ہے پھر بھی بوس کو اپنی کہانی پر یقین دلانے کے لیے لاتعلقی ظاہر کرنا ضروری تھی ۔
بوس میرا اس شخص کے قریب رہنا ضروری ہے اس سب سے مجھے بہت فائدہ ہو رہا ہے ۔
کوڈ جن فائدوں کی تم بات کر رہی ہو وہ سب تو تم خود بہت آسانی سے کر سکتی ہو ۔
بوس میں آپ کو اتنی دور بیٹھے کچھ نہیں سمجھا سکتی ۔
ٹھیک ہے مگر ایک ہولیس والے کے اتنا قریب رہنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا ۔
جانتی ہوں جانتی ہوں بوس مگر وہ عنایہ کا کزن بھی تو ہے ۔ شارقہ نے ایک نیا مدع لایا ۔
ہاں ہاں جانتا ہوں مگر ہے تو وہ پولیس والا ہی ناں ۔ ۔ ۔۔ اچھا مجھے یہ بتاو کہ وہ کیسا انسان ہے ۔ بوس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا ۔
کافی اچھا اور ذمہ دار انسان ہے ۔ شارقہ نے عام سے انداز میں کہا تھا ۔
ہممم سہی ۔
کیوں کیا ہوا بوس ۔
کچھ نہیں بس وہ اصغر سے بات ہوئی تھی تو وہ بتا رہا تھا کہ عنایہ اور محد کا رشتہ طہ ہو گیا ہے ۔ بوس کے الفاظ اس کے کانوں میں سانپ بن کر جسنے کو گونجے تھے ۔ شارقہ نے کال کاٹ دی ۔ اسے اس لمحے احساس ہوا تھا کہ اسے محد سے محبت ہو گئی ہے مگر اس کی محبت اس کی بہن کی خوشیاں کھا کر کیسے ہو سکتی تھی اس وقت اس نے وہ فیصلہ کیا جس نے سب بدل دیا ۔
****************************************
سب رات کے کھانے کے لیے میز پر بیٹھے تھے جب کھاتے کھاتے اباجی دانیا سے مخاطب ہوئے تھے ۔
دانیا بیٹا کچھ چاہیے ہو تو بتانا کسی چیز کی ضرورت پیش آئے تو بلا جھجک کسی کو بھی کہہ دینا ۔
سب نے نظریں گھما کر پہلے ابا جی اور پھر بیسن کا حلوہ کھاتی دانیا کو دیکھا کہ آیا ابا جی شارقہ سے ہی بات کر رہے ہیں یا سب کو غلط فہمی ہوئی ہے اور پھر سب پر حقیقت کھل گئی کہ شارقہ دانیا ولی خان ہے محد کو تو جیسے کرنٹ لگا تھا صبح تک اسے یہ سکون تھا کہ وہ شارقہ ہے اور اب اچانک اس کا نام ہی بدل گیا تھا اور پھر اچانک اس کے دل میں ایک خیال آیا کہ کیا معلوم وہ ہمیشہ سے ہی دانیا ہو وہ ہمیشہ سے جانتی ہو مجھے اور چار سال پہلے صرف ایک مکوٹھا پہن کر ملی ہو مجھے اگر ایسا تھا تو محد کو کہانی کا ایک رخ کہیں نا کہیں سمجھ آ گیا تھا کہ آخر وہ اسے کیوں چھوڑ کر گئی اب بس اس کی زبان سے اقرار سننا تھا اور یہ جاننا تھا کہ اس نے اپنا اصل نام کیوں چھپایا ۔
*************************************
اسلام و علیکم کیسے ہیں پیارے ریڈرز تو ایپی تو پبلش ہو گئی ہے اب زرا کمنٹ میں بتائیں کیسی ہے شارقہ اور دانیا کی کہانی اور عالیان کو مس کیا کیا ۔ چلیں الله حافظ ۔

حیات المیراث CompletedOù les histoires vivent. Découvrez maintenant