قسط ۱۲

300 21 7
                                    

دانیا اور عنایہ باہر بیٹھے موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے اسی دوران محد بھی ان کے پاس آ کر ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا ۔
کیا ہو رہا ہے اتنی خاموشی کیوں چھائی ہے ۔ محد نے عنایہ اور دانیا کو ایک ساتھ خاموش بیٹھا دیکھا تو بولا کیونکہ یہ نظارہ مشکل سے ہی دیکھنے کو ملتا تھا ۔
کچھ نہیں بس ۔ عنایہ نے ٹھنڈی آہ بھرتے دامن جھاڑتے کہا ۔
ارے ایسے تھکے ہوئے کیوں کہہ رہی ہو ۔
کچھ نہیں یہ دانیا نے میرا موڈ خراب کر دیا ہے بس اسی کی وجع سے ۔ عنایہ نے سامنے بیٹھی دانیا کی طرف اشارہ کیا جو کافی دیر سے درخت پر بیٹھے پرندے کو دیکھنے میں مصروف تھی ۔
کیوں دانیا کیا کہہ دیا عنایہ کو کہ اس کا موڈ خراب ہو گیا ۔ محد کی آواز نے اس کا دھیان ان کی طرف مرکوز کیا ۔
کہہ رہی ہے کہ میری شادی کہ بعد واپس چلی جائے گی بھلا یہ بھی کوئی کرنے والی بات ہوئی ۔ دانیا کی طرف سے جواب عنایہ نے دیا تھا ۔
کہاں چلی جاؤ گی ۔ اب ان دونوں کی نظروں کا مرکز دانیا تھی ۔
جہاں سے آئی تھی ویہیں چلی جاؤں گی ۔۔۔۔۔ عالم خان کے پاس ۔ دانیا نے کہتے رخ دوبارہ درخت کی طرف موڈ لیا ۔
بس اسی وجع سے میرا دل کرتا ہے شادی کی تاریخ آگے کروا دوں ۔ عنایہ نے چڑتے ہوئے غصے سے کہتے ہاتھ باندھ لیے ۔
عنایہ کبھی ڈھنگ کی بات مت کرنا ۔ دانیا سخت لہجے میں کہتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
کہاں جا رہی ہو ۔ عنایہ نے دانیا کو جاتے دیکھا تو روکنے کو بولی ۔
خودکشی کرنے ۔ ۔ ۔ چلو گی ۔
ہاں ضرور مگر دیکھ لینا کہیں میں مر ور نا جاؤں تین دن بعد شادی ہے میری ۔
بس بکواس کروا لو ۔ دانیا کہتی وہاں سے چلی گئی ۔
اسے پتا نہیں کیا ہو گیا ۔ دانیا کو آگ بگولہ ہو کر جاتے دیکھ عنایہ نے تبصرہ کیا ۔
فکر نا کرو ہو جائے گی ٹھیک ہمیشہ سے ہی ایسی ہے ۔ محد اپنی دھن میں بول گیا تب اس نے عنایہ کو خود کو مشکوک نظروں سے دیکھتے پایا ۔ میرا مطلب تھا بچپن میں بھی تو ایسی ہی تھی ناں ۔ محد نے بات سنبھالتے کہا ۔
ہاں سہی کہہ رہے ہو ۔ عنایہ نے کرسی سے ٹیک لگاتے مطمئن ہوتے کہا ۔
***************************************
ماہم یار ایسے تو نہیں کرو ۔
میں نے کیا کیا ۔۔۔۔۔ جو کیا تم نے ہی کیا ہے ۔ ماہم پر سکون نظر آ رہی تھی اور اتنے ہی پرسکون لہجے میں سامنے والے سے مخاطب ہو ۔
ماہم الله کا پکا وعدہ میں نے کچھ نہیں کیا ۔
صائم جھوٹے وعدہ کرنا بند کرو ۔ ماہم کا لہجہ اب بھی اتنا ہی پرسکون تھا ۔
یار اب بیچ سڑک میں تم سے معافی مانگنے سے تو رہا ورنہ مانگ ہی لیتا مگر قسم لے لو میری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے ۔
کیوں نہیں مانگ سکتے (زین جو زبردستی ان کے ساتھ آ گیا تھا اس نے یہاں بولنا اپنا حق سمجھا تھا) ماہم تمہیں تو چاہیے اس کے کان پکڑ کر معافی منگوائو (زین نے ماہم کو مخاطب کرتے کہا) جس پر اسے صائم کی طرف سے کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرنا پڑا ۔
ہاں ہاں وہ جو دس منٹ پہلے ہمارے ساتھ بلکہ تمہارے ساتھ بے تکلف ہو رہی تھی وہ تو تمہاری بہن تھی ناں ۔ ماہم نے زین کی بات مکمل طور پر نظرانداز کرتے کہا ۔
یار میں تو اس لڑکی کو جانتا تک نہیں تھا ضرور وہ زین کی ہی کوئی فرینڈ تھی ۔ صائم نے اپنی معصومیت کا یقین دلانے کی آخری کوشش کرتے کہا ۔
ہاں فرینڈ وہ زین کی تھی اور گپیں تو وہ ایسے لگا رہی تھی جیسے تمہاری بیسٹ فرینڈ ہو ۔
ٹھیک ہے نہیں ماننا نا مانو میں جا رہا ہوں حد ہی ہو گئی اتنی بے اعتباری ۔ صائم تنگ آتا گاڑی کی طرف مڑ گیا ۔
یہ تو ناراض ہو گیا ۔ ماہم نے صائم کو غصے سے گاڑی کی طرف جاتا دیکھتے کہا ۔
تم نے بھی تو زیادہ ہی بول دیا ناں ۔ زین نے سارا قصور ماہم پر ڈالتے کہا ۔
زین پلین تو تمہارا ہی تھا ناں کہ مزا آئے گا تنگ کرتے ہیں ۔
ہاں تو میں نے یہ تھوڑے کہا تھا کہ جا کر میرے معصوم بھائی کو اتنی باتیں سنا دو وہ بھی بلاوجہ ۔
کوئی نہیں جہاں پیار ہوتا ہے وہاں تکرار تو ہوتی ہی ہے ناں وہ مان جائے گا ۔۔۔۔۔ مان جائے گا ناں (ماہم نے زین کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا)۔
مجھے کیا پتا مانے گا یا نہیں بس تم لوگوں کی پوری زندگی ایک دوسرے کو منانے میں ہی گزر جانی ہے ۔ جس پر ماہم نے زین کو غصے سے دیکھا کیونکہ یہ ساری کارستانی زین کی ہی تھی ماہم تو مان بھی نہیں رہی تھی مگر زین کہاں پیچھے ہٹنے والوں میں سے تھا اپنی بات منا کر ہی دم لیا اور دوسروں کے پہلے جھگڑے کرانا پھر صلاح کرانا یہ تو زین کی پورانی عادت تھی ۔
***************************************
عنایہ کمرے کی طرف تیزی سے جا رہی تھی جب اس کی ٹکر سامنے آتے زوہیب سے ہوئی جس کی وجع سے وہ دیوار میں بری طرح جا لگی تھی ۔
منحوس انسان ۔ عنایہ نے آنکھیں میچتے آہستگی سے کہا تھا ۔
خیر ایسا بھی کچھ نہیں کر دیا جو میں منحوس کہلایا جاؤں ۔ زوہیب نے ہلکی آواز میں ہی سہی مگر اس کے کہے الفاظ سن لیے تھے ۔
اف اس اللّٰہ دین کے چراغ سے نکلے جن نے سن بھی لیا ایسے تھوڑے میں اسے جن کہتی ہوں اس کی حرکتیں ہی ایسی ہیں کہ بندہ کیا کرے ۔۔۔۔۔۔ عنایہ چپ کہیں یہ سن ہی نا لے ۔۔۔ عنایہ پاگل ہو گئی ہو کیا اصل کا جن تھوڑے ہے یہ ۔۔۔۔ کیا پتا ہو اور ہمیں پتا نا ہو ۔۔ عنایہ پاگل مت بن ۔ عنایہ اپنے اندر ایک عدالت سجائے بیٹھی تھی ۔
عنایہ کیا سوچ رہی ہو ۔ زوہیب اسے گہری سوچ میں دیکھ کر بولا ۔
یہی کہ آپ جن ہیں کہ نہیں ۔ عنایہ نے اپنی طرف سے یہ الفاظ دل میں کہے تھے ۔
جن ۔ زوہیب پھٹی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اسے یہ تو معلوم تھا کہ عنایہ اسے چراغ سے نکلا ہوا جن کہتی ہے مگر یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اسے اس کے منہ پر جن بول دے گی ۔
میرا مطلب تھا ۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ۔ عنایہ کو کچھ نا سوجا تو خاموش ہو گئی ۔
کوئی بات نہیں ہوتا ہے ایسا ۔ زوہیب کہتا آگے بڑھنے لگا ۔
مگر میں نے تو معافی مانگی ہی نہیں ۔
میں نے پھر بھی معاف کر دیا دیکھو دل کا کتنا اچھا انسان ہوں ۔۔۔۔ امید ہے اب آگے سے مجھے جن کے القابات سننے کو نا ملے شاید ۔ زوہیب کہتا آگے بڑھ گیا ۔
مجھے جن کے القابات سننے کو نا ملے شاید ۔ عنایہ نے اس کی نکل اتاری تھی ۔ جن کہیں کا ۔
عنایہ اتنا برا بھی نہیں ہے وہ جتنا توں نے بنا رکھا ہے اسے ۔۔۔۔۔ اتنا اچھا بھی نہیں ہے جتنا تم لوگ سمجھتے ہو اسے ۔ عنایہ کی اندر بیٹھی عدالت پھر سے شروع ہو گئی اتنے میں ٹھوکر لگنے سے اس کا سر پھر سے دیوار سے جا لگا ۔
دیکھا دیکھا تم ہی سیدھا نہیں چلتی ۔ اندر سے آواز آئی تھی ۔
جی نہیں اسی کی غلطی تھی ۔ عنایہ نے جھٹلایا ۔ ۔۔۔۔۔ ہاں ابھی کی بھی اس بچارے پر ڈال دو ۔ ۔۔۔ ہففف تم لوگوں کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔
***************************************
صائم میری کوئی غلطی نہیں تھی ساری غلطی تمہارے اس بھائی کی تھی ۔ ماہم صائم اور زین گاڑی میں بیٹھے تھے اور صائم ہمیشہ کی طرح گاڑی ہوائوں میں اڑا رہا تھا ۔
صائم دیکھو ختم کرتے ہیں ناں کب تک ہم میں روٹھنا منانا ہی چلتا رہے گا ۔
ہاں تم روٹھو تو سہی اور میں روٹھوں تو کب تک چلے گا ہمارا کتا کتا کتا تمہارا کتا ٹومی ۔
اچھا ناں صائم آج کے بعد ہم اس منحوس زین کی کسی بات پر عمل نہیں کریں گے ۔
ارے ارے بی بی دھیان سے پرائی شادی میں عبداللہ کو دیوانہ کیوں بنا رہی ہو حالانکہ اس بار تو بچارا عبداللہ بولا تک نہیں ۔ زین خود کو منحوس لقب دیے جانے پر اکٹڑ کر بولا تھا ۔
زین توں چپ کر کے پیچھے بیٹھ آگے تیری وجع سے ہوا ہے سب ۔
ہاں لڑو تم دونوں اور چپ بچارا زین بیٹھے یہ کہاں کا انصاف ہوا جج صاحب مجھے انصاف چاہیے جج صاحب مجھے انصاف چاہیے ۔ زین اپنی پوری ڈرامے بازی پر اتر آیا ۔
زین اپنی یہ ڈرامے بازی تو بند کرو اور چپ کر کے سائیڈ پر بیٹھو ۔۔۔۔۔ اور صائم خبردار جو اس ڈرامہ فیکٹری کو اگلی دفعہ اپنے ساتھ لائے ۔ ماہم غصہ سے بولتی صائم کی طرف متوجہ ہوئی ۔
فکر نا کرو مجھے پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں اس منحوس کو اپنے ساتھ لاؤں گا ۔ اب دونوں اپنی لڑائی بھلائے ایک منحوس انسان کے پیچھے پڑے تھے اور وہ منحوس انسان بھی چپ چاپ سب سن رہا تھا کیوں کہ جب جھگڑا اس کی وجع سے ہوا تھا تو صلح کرانا بھی اسی کی ذمہ داری تھی اور جب دو لوگوں کی اسے منحوس کہنے سے لڑائی ختم ہو رہی تھی تو اس میں اس کا کیا جاتا تھا اس نے بھی خاموشی سے اپنا موبائل نکالا کانوں میں ہیڈفون گھسائے اور تیز آواز میں ایک گیمنگ ویڈیو لگا لی اور ان دونوں کو اسے باتیں سنانے میں مصروف چھوڑ دیا ۔
***************************************
صباء نورین اور نادیہ تھوڑی دیر پہلے ہی بازار سے آئے تھے سدرہ کی طبعیت کچھ بہتر نا تھی اسی وجع سے اس نے چلنے سے انکار جر دیا تھا شادی کی تمام تیاری مکمل تھی بس کچھ چھوٹی موٹی چیزیں تھی جو رہتی تھی جیسے ٹیلر سے کپڑے اٹھانے تھے اور بئری کا کچھ سامان باقی تھا اور صباء کو بارات کے لیے کوئی جوتا نہیں پسند آ رہا تھا وہ بھی رہتا تھا تو آج سب چیزیں مکمل کرنی تھی ابا جی کی طرف سے حکم ملا تھا کہ جو خریداری کرنی ہے کر لو بعد میں کوئی شور نا مچائے اور آخری دن کچھ یاد نا آ رہا ہو ۔
تینوں تھکی ہاری گھر لوٹی تو سدرہ نے تینوں کے لیے پانی لایا اور ان کے ساتھ آکر بیٹھ گئی اب وہ ان کی کی گئی شوپنگ دیکھ رہی تھی ۔
دانیا کدھر جا رہی ہو ۔ سدرہ نے پاس سے گزرتی دانیا کو دیکھا تو اسے آواز دی ۔
کہیں نہیں آنٹی وہ عنایہ کے کمرے میں جا رہی تھی ۔ دانیا ان کی طرف آ گئی ۔
اچھا ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو کبھی ۔ سدرہ نے مزاق کرتے کہا تو وہ ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔
آگے کیا سوچا ہے تم نے ۔ سدرہ اب مکمل اس کی طرف متوجہ ہو گئی ۔
کچھ نہیں آنٹی بس واپسی کا سوچ رہی ہوں ۔
ارے اتنی جلدی ابھی کچھ دن اور رہو نا یہیں ہمارے پاس ۔ سدرہ محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے بولی ۔
جی آنٹی وہ میں ضرور رہتی مگر دراصل کچھ کام ہیں وہ بھی مکمل کرنے ہیں ۔
اچھا آگے کی زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے ۔
اتنے میں نورین نے دانیا کو وہاں سے اٹھنے کا اشارہ کیا ۔
وہ عنایہ میرا انتظار کر رہی ہو گی میں بعد میں آتی ہوں آنٹی ۔ دانیا کہتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
آنی نے مجھے اٹھنے کو کیوں کہا ۔ دانیا دل میں سوچتے عنایہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
نورین یہ بچی بڑی ہی پیاری ہے ۔ سدرہ اب نورین سے مخاطب ہوئی ۔
جی بھابی بہت اچھی بچی ہے ۔
تم بات کرو نا اس کے ماں باپ سے زوہیب اور اس کے رشتے کے لیے ۔
اس کی زندگی کے تمام فیصلے اس پر ہیں بھابی یہ مکمل طور پر خودمختار ہے ۔
کیا مطلب خودمختار ہے ماں باپ نہیں ہیں اس کے اور پھر تم اور عالم بھی تو ہو ۔
بھابی اس کی ماں کے انتقال کو تو عرصہ ہو گیا (نورین ولی کے انتقال کی بات گول کر گئی کیونکہ اسے دانیا نے کہا تھا کہ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ ولی خان مر چکا ہے) اور یہ لمبے عرصے سے اکیلی رہ رہی ہے آج تک ہر فیصلہ اپنی مرضی سے لیتی آئی ہے ۔
اچھا تم اس سے اس کی رضامندی تو پوچھو مجھے یقین ہے یہ تمہاری بات نہیں ٹالے گی ۔
جی بھابی میں کروں گی بات (جو کہ وہ نہیں کرنے والی تھی اسے زوہیب اور دانیا کا کہیں سے جوڑ نہیں بنتا دیکھائی دیتا تھا دانیا ایک کوڈ تھی اور زوہیب کو تو ان سب معاملات کی کچھ سمجھ بھی نا تھی وہ سب اندھیرے میں رکھے کیسے کر سکتی تھی وہ دانیا سے جتنی بھی محبت کرتی ہو مگر وہ زوہیب کی زندگی میں یہ طوفان کیسے لے آتی۔)
***************************************
عفاف کے کل سے امتحانات شروع ہو رہے تھے اور عفاف کمرے میں بیٹھی پیپرز کی تیاری کر رہی تھی کیونکہ اس بار زوہیب سے اسے سخت وارنگ ملی تھی کہ اس بار اس کا جی پی اے اچھا آنا چاہیے تبھی دبے قدم عالیان کمرے میں داخل ہوا ۔ عفاف جو کتابوں میں سر کھپائے بیٹھی تھی اس کی موجودگی سے کتابوں سے سر نکالے اسے دیکھنے لگی ۔
عفاف آنکھیں بند کرو ۔ عالیان عفاف کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔
کیوں عالیان ۔ عفاف کتاب بند کرتے پرسکون انداز میں بولی ۔
میں نے کہا ناں آنکھیں بند کرو ۔ عالیان اسی طرح ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔
عالیان دیکھو جو دیکھانا ہے ایسے ہی دیکھا دو میں کوئی آنکھیں نہیں بند کر رہی ۔ عفاف اب کتابیں ایک طرف کرتے ہوئے بولی ۔
عفاف میں نے تو سنا تھا جو لوگ ڈرامے دیکھتے ہیں ناولز پڑھتے ہیں وہ تھوڑے فلمی ہوتے ہیں مگر تمہیں دیکھ کر تو لگتا ہے غلط کہتے ہیں جو کہتے ہیں ۔
اچھا اچھا کرتی ہوں آنکھیں بند ۔ دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھے بولی ۔
یہ ہوئی نا بات چلو اب آنکھیں کھولو ۔ عالیان ہاتھ اس کی طرف کرتا بولا ۔
یہ کیا ہے عالیان ۔ عفاف کو عالیان کے ہاتھ میں ایک فائل نظر آئی ۔
کھول کر خود ہی دیکھ لو ۔ عالیان نے فائل عفاف کو تھما دی ۔
عفاف نے فائل کھولی اور جوں جوں وہ پڑھتی جا رہی تھی اس کے چہرے کے زاویے بدل رہے تھے ۔
عالیان یہ کیا ہے ۔ عفاف نے فائل بند کرتے اسے تھما دی ۔
عفاف مانا تم نالائق عورت ہو نالائقی کی ساری حدیں تم پار کر چکی ہو مگر مجھے تم سے یہ امید ہرگز نہیں تھی ۔ عالیان نے عفاف کو تنگ کرتے کہا ۔
عالیان ۔ عفاف اسے حیرت سے دیکھتے بولی ۔
کیا عالیان ۔
عالیان میں یہ نہیں لے سکتی ۔ عفاف نے اپنا پورا دھیان اپنی کتابوں کی طرف دے دیا ۔
عفاف کیوں نہیں لے سکتی تم یہ ۔ عالیان نے اس کی کتاب اپنی طرف کھینچ لی ۔
عالیان یہ اتنا مہنگا ہے میں کیسے لے سکتی ہوں ۔
عفاف میں نے سوچا تھا کہ یہ تمہیں تمہاری سالگرہ پر دوں گا سب کے سامنے مگر کچھ دن سے (عالیان کہتا کہتا رکا تھا) خیر تب دینا اب دینا وقت سے کیا فرق پڑتا ہے ۔
عالیان ایسے اچھا نہیں لگتا ۔
عفاف میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔۔۔۔
عالیان کیسی باتیں کر رہے ہو ۔ عفاف نے اسے بیچ میں روک دیا تھا ۔
اچھا میری زندگی اتنی قیمتی ہے ۔ عالیان عفاف کو تنگ کرتے کہا ۔
عالیان پلیز ۔ عفاف اس وقت اس کی کوئی بھی بات سننے کے موڈ میں نہیں تھی ۔
عفاف کسی کی بھی زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں ہوتا بس میں یہ چاہتا ہوں کہ جن سے میں محبت کرتا ہوں ان کو خوش دیکھتا اس دنیا سے جاؤں جن سے محبت کرتا ہوں ان کے خواب اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا دیکھوں تاکہ میں بھی سکون کی موت مر سکوں ۔
عالیان مرنے کی باتیں کیوں کر رہے ہو ۔
اچھا نہیں کرتا مرنے کی باتیں اب خوش ۔ ۔
اچھا تمہیں کیسے پتا چلا ۔ عفاف کا اشارہ سامنے پڑی فائل کی طرف تھا ۔
مجھے پتا چل گیا بس ۔ عالیان نے بڑے ہی مان سے کہا ۔
عفاف کے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی ۔
تمہیں معلوم ہے عمارہ کے لیے ایک بائک بھی لی ہے میں نے ۔
سچ وہ تو بہت خوش ہو گی ناں ۔
ہاں کافی خوش تھی کہہ رہی تھی جب وہ سیکھ لے گی تو اس بائک پر مجھے لونگ ڈرائیو پر لے جائے گی وقت اتنی مہلت دے دے بس مجھے ۔
عالیان کہیں تم اس سے ایسی باتیں تو نہیں کرتے رہے ۔
نہیں پاگل تھوڑا ہوں میں جو اس سے ایسی کوئی بات کرتا ۔
عالیان تم میرے ساتھ کھانا بناؤ گے ہم دونوں مل کر اس ریسٹورنٹ کو چلائیں گے پھر اڑرز لینا میں پکاؤں گی ۔
اور وہ جو تمہارا نالائق بھائی ہے وہ کس کام آئے گا ۔
کون زین ۔ عفاف نے ہنستے ہوئے کہا ۔
اور کوئی نالائق ہے کیا اس گھر میں ۔
میں ہوں ناں ۔ عفاف نے دھیمی لہجے میں کہا تھا ۔
ارے اتنی قابل تو میری زوجہ ٹو بی ۔۔۔۔ ان سے اچھے پراٹھے اس دنیا میں کوئی نہیں بناتا ۔
وہ پراٹھے جو تم کھاتے ہی نہیں ۔
عادت ڈال دینا ناں بس لا کر رکھ دینا میرے سامنے اور کہنا کہ کھانا ہے تو کھائیں یہی ملے گا ورنہ بھوکے رہیں ۔
اتنی ظالم بھی نہیں ہوں میں ۔
اچھا جی ۔
ہاں جی اب جائیں مجھے پڑھنے دیں ورنہ بھائی نے میرا کچومر بنا دینا ہے ۔
تمہارے بھائی کی ایسی کی تیسی ۔
اچھا ایسی کی تیسی بعد میں کر لینا آپ اب جائیں مجھے پڑھنے دیں ۔
او کے او کے جا رہا ہوں ۔
***************************************
دانیا مجھے پاپا کی یاد آ رہی ہے ۔ عنایہ دانیا کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی ۔
عالم خان بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں ۔ دانیا نے اس کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا ۔
اگر انہیں اتنی ہی یاد آتی ہے تو پھر وہ مجھ سے ملنے کیوں نہیں آ جاتے ملنا تو دور کی بات انہوں نے تو کبھی مجھ سے فون پر بات کرنا بھی گوارہ نہیں کیا ۔ عنایہ رونے کے در پر تھی ۔
عنایہ ان میں تم سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہے ورنہ وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ دانیا مسلسل اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی ۔
یہ کیسی محبت ہے کہ آپ کو اتنا عرصہ یاد ہی نا آئے ۔ عنایہ کی آنکھ سے آنسو چھنکا تھا ۔
عنایہ ایسی بات نہیں ہے جیسے تم انہیں یاد کرتی ہو ویسے ہی بلکہ تم سے زیادہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں تمہیں یاد کرتے ہیں ۔
مجھے یہ کھوکھلی باتیں نہیں سننی ۔ عنایہ نے منہ موڑ لیا ۔
تمہیں کیا لگتا ہے عنایہ تمہیں کیا لگتا ہے ۔ دانیا کی آواز میں غصہ آیا تھا اس کی چلتی ہوئی انگلیاں رکی تھی عنایہ نے پھر سے منہ اس کی طرف موڑا تھا ۔
تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ خوش ہیں اتنے سال اکیلا رہنا ایک آسان کام ہے اتنا لمبا عرصہ تنہا رہنا اتنے رشتے ہونے کے باوجود ایک شخص تنہا رہ رہا ہے عید کے دن اپنے آفس میں پورا دن بیٹھے گزار دیتا ہے اپنی بیٹی کی سالگرہ پر اس کی تصویر سامنے رکھ کر کیک کاٹتا ہے اپنی شادی کی سالگرہ پر وہ پورانی تصویریں دیکھ کر دن گزارتا ہو کیا لگتا ہے تمہیں یہ سب آسان ہوتا ہے کبھی اپنا اور ان کا موازنہ کرنا تمہیں واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ کس کا پلڑا بھاری ہے ۔ دانیا کہتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور چلتے ہوئے بالکنی میں آ گئی ۔ عنایہ بھی چلتے ہوئے اس کے پیچھے آ کھڑی ہوئی ۔
دانیا تمہاری کوئی دلیل اس بات کو نہیں بدل سکتی کہ وہ اتنا لمبا عرصہ خود اپنی مرضی سے ہم سے دور رہے ہم انہیں نہیں بلکہ وہ ہمیں چھوڑ چکے تھے اگر انہوں نے اتنے کچھ مس کیا ہے تو ایک بیٹی نے بھی اپنے باپ کو اتنا ہی مس کیا ہے کوئی چیز دنیا میں ایسی نہیں جو باپ کی کمی کو بھر سکے اور وہ باپ جو زندہ ہو مردوں پر تو پھر سکون آ جاتا ہے انسان صبر کر ہی لیتا ہے مگر زندوں کی یادیں قاتل ہوتی ہیں وقت کی جزبات کی احساسات کی ہر اس لمحے کی جب انہیں ہمارے ساتھ ہونا چاہیے تھا اور وہ نہیں تھے ۔
عنایہ وہ اپنی مرضی سے نہیں تھے تم سے دور ان کی مجبوریاں تھی ۔
دانیا کیسی مجبوریاں اگر تو ان مجبوریاں کا نام تم ابا جی کے نام لگانا چاہتی ہو تو معاف کرنا دانیا ان جھوٹی باتوں اور دل کو بھلاتی امیدوں سے میں بہلنے والی نہیں ۔
میں ہر گز ابا جی جو موردِ الزام نہیں ٹھرانے والی نا ہی ان کے سر کسی بھی بات کو لگانے والی ہوں ۔
تو ایسی کون سی بیڑیاں تھی جنہوں نے انہیں روک رکھا تھا ۔ عنایہ تنگ آ چکی تھی تین دن میں اس کی شادی تھی اور اس کے باپ کی کوئی خبر تک نا تھی جس وقت عالم خان کو اس کے سر پر سایا بنے کھڑا ہونا چاہیے تھا وہ کہیں بھی نہیں تھا ۔
عنایہ کچھ چیزیں چھپی ہی رہیں تو بہتر ہے ہر چیز ہمارے لیے نہیں لکھی گئی نا ہی ہر بات ہمیں معلوم ہونا ضروری ہے ۔ دانیا نے پیار سے اس کا ہاتھ تھامتے کہا تھا ۔
تو کیا میں امید چھوڑ دوں کہ وہ کبھی آئیں گے کیا میں اپنے دل سے ان کے آنے سے وابسطہ ہر خواہش کو دفنا دوں ۔
عنایہ امید پر تو دنیا قائم ہے اور ہماری خواہشات ہماری زندگی کی گاڑی میں ایندھن کا کام کرتی ہیں اگر ایک وقت میں یہ خواہشات ختم ہو جائیں یا دفنا دی جائیں تو گاڑی دھکوں کی محتاج ہو جائے گی ۔
دانیا تمہاری تو ان سے بات ہوتی ہی ہو گی ناں انہیں کہو ایک بار آ جائیں ۔ عنایہ بےبس نظر آ رہی تھی ۔
عنایہ ایک باپ کو اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے کسی کی سفارش نہیں چاہیے ہوتی وہ تم سے بنا میرے کہے ملنے آئیں گے اور اس بات پر یقین رکھو کہ وہ تم سے بہت پیار کرتے ہیں اتنا ہی جتنا کوئی بھی باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے ۔
***************************************
عالیان شیشے کے سامنے کھڑا گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا جن وجوہات کی بنا پر وہ یہاں واپس نہیں آنا چاہتا تھا وہ آج اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی اس کے ڈر اس کے خوف سب سہی ثابت ہو رہے تھے پہلے تو صرف عمارہ تھی اب عفاف کو کھو دینے کا ڈر اندر ہی اندر کاٹنے لگا تھا وہ اس دہرائے پر آ کھڑا ہوا تھا جہاں سے نا ہی واپسی ممکن ہے اور جہاں سے نا ہی آگے کا صرف دیکھائی دیتا تھا ۔ یاور لاکھانی کمزور ہو گیا تھا وہ فلحال ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا مگر کیا ہو اگر اسے عالیان کے بارے میں معلوم ہو جائے اگر اس پر یہ راز کھل گیا کہ وہ کوڈ جس نے اسے تباہ کیا وہ عالیان ہے تو کیا ہو گا عالیان کو کبھی موت سے اتنا ڈر نہیں لگا تھا جتنا اب لگ رہا تھا اگر عفاف سے شادی کرنے کے بعد وہ مر گیا تو عفاف کی تو پوری زندگی تباہ ہو جائے گی عالیان کا سر بھاری ہو رہا تھا اسے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بھاری چیز اس کے سر پر ماری ہو عالیان کو ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ یاور لاکھانی ان کے ایک کوڈ کو جانتا ہے بلکہ اسے کوڈ کی جگہ کنگ کہنا زیادہ بہتر تھا اور اب یاور لاکھانی کا واحد مقصد کوڈ کو برابر کرنا تھا نست ونابود کرنا اور یاور لاکھانی اتنی آسانی سے چپ بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا وہ تو اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھے ورنہ وہ کنگ جا راز کب کا فاش کر چکا ہوتا دانیا کو ڈرانے کے لیے اس نے جھوٹ تو بول دیا تھا کہ اس کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں جن سے ثابت کیا جا سکے کہ کنگ کون ہے مگر درحقیقت وہ صرف باتیں تھی اور یہ بات دانیا پر بہت جلد کھل گئی تھی مگر یاور لاکھانی کو کمزور کرنا ضروری تھا جو وہ کر چکے تھے مگر اس کے بعد کیا عالیان کا دماغ اس ایک سوچ سے آگے بڑھ نہیں پا رہا تھا وہ شخص جس آنکھیں موت کی طرح لوگوں کے ساتھ چلتی تھی اب اسے خود پر ہر وقت کسی کی آنکھیں محسوس ہوتی تھی اس نے کئی بار اسے اپنا وہم سمجھتے نظرانداز کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناممکن رہا اور وہ احساس اب اسے موت کے احساس کے نزدیک لے جاتا تھا ۔
شیشے پر ایک منظر گزرا ایک کمرہ جہاں لال روشنی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا دو شخص موجود تھے ایک شخص کرسی پر بندھا ہوا تھا جسم زندگی کی کسی رمک کی گواہی نہیں دیتا تھا ابھی جیسے مر جائے اسے پانی پلایا گیا تھا وہ شخص ہوش میں آیا تھا اسے بالوں سے پکڑا گیا تو اس کا چہرہ عالیان کے سامنے آیا وہ شخص چوہدری عالیان حماد تھا کرسی پر بے سہارا کمزور پڑا مرنے کو برقرار نظر آ رہا تھا عالیان نے شیشے پر زور زور سے ہاتھ پھیرتے منظر مٹانا چاہا تو ایک دوسرا منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا پھر سے ایک کمرہ اس کے ہاتھ اوپر کی جانب بندھے ہوئے پاؤں کے نیچے برف پگھل رہی اور ایک ریچھ اس کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا عالیان نے بڑھ کر خود کو بچانے کی کوشش کی تو منظر آنکھوں سے غائب ہو گیا اب ایک پرانی فیکٹری میں وہ لوہے کی تاروں سے بندھا پڑا نظر آیا تھا دور دور تک کوئی مدد کرنے والا نظر نا آتا تھا پانی کی طلب بڑھ رہی تھی عالیان کو اپنا گلا خشک ہوتا محسوس ہوا چیخنا چاہا مگر چیخ نا پایا ہلنا چاہا ہل نا پایا عالیان نے پرفوم کی بوتل اٹھا کر زور سے شیشے پر دے ماری شیشے کرچی کرچی زمین پر بکھر گیا مگر ان کرچیوں میں کئی اور منظر دیکھائی دیے کہیں محد پر گولی چلاتا عالیان تو کہیں لوگوں کی بےبسی کا نظارہ دیکھتا عالیان ہر کرچی میں الگ قسط رونما تھی جیسے سب کرچیاں مل کر اسے اس کی زندگی کی کہانی سنانا چاہ رہی ہوں مگر عالیان سننا نہیں چاہتا تھا عالیان چیخا تھا بلند آواز میں چیخا تھا ۔
چپ چپ سب چپ ہو جاؤ سب چپ ہو جاؤ ۔ وہ مسلسل شیشے کی پڑے ٹکڑوں سے مخاطب تھا ۔ اتنے میں سب گھر والے اس کے کمرے میں جمع ہو گئے ۔ عالیان زمین پر پڑا ٹانگوں کو پیٹ سے لگائے ہاتھوں سے گھٹنوں کو تھامے لمبی سانسیں لے رہا تھا ۔
بھائی کیا ہوا آپ کو ۔ عمارہ بھاگ کر عالیان کی طرف بڑھی تھی ۔
بھائی دیکھو نا بھائی کو کیا ہو گیا ہے ۔ عمارہ نے زوہیب کو مخاطب کیا تھا ۔
عمارہ بچے فکر نا کرو ڈاکٹر آ رہے ہیں بس ۔
زوہیب اور محد نے عالیان کو بستر پر لیٹایا تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر بھی آ گیا تھا ۔
میں نے انہیں سکون کا ٹیکا لگا دیا ہے یہ کسی زہنی دباؤ کا شکار ہیں ان کو اکیلا مت چھوڑیں اور ان کا دھیان رکھیں اور یہ میڈیسن میں لکھ کر دے رہا ہوں انہیں کھلا دیجئے گا ۔ ڈاکٹر عالیان کا چیک آپ کر کے اب زوہیب سے مخاطب تھا ۔
جی ڈاکٹر صاحب ۔ زوہیب بھی ڈاکٹر کی بات سر ہلا ہلا کر سن رہا تھا ۔
عمارہ تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ عالیان کو کیا ہوا ہے ۔ زوہیب ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے گیا تو ابا جی عمارہ سے مخاطب ہوئے ۔
نہیں ابا جی مجھے کچھ نہیں پتا بلکہ آج تو بھائی بہت خوش تھے میرے لیے گفٹ بھی لائے تھے ۔ عمارہ رونے کے قریب تھی ۔
اچھا فکر نا کرو اتنا لمبا عرصہ اس نے گھر والوں کے بغیر گزارا ہے پتا نہیں کن حالات کا سامنا کرتا آیا ہے تم لوگ چلو اب اسے آرام کرنے دو ۔ ابا جی نے کہتے سب کو کمرے سے باہر چلنے کا اشارہ کیا ۔
عفاف کے دماغ میں کچھ دیر پہلے کہی گئی عالیان کی باتیں گونجی تھی اس کا بار بار مرنے کی باتیں کرنا اسے اور تشویش زدہ کر رہا تھا مگر وہ چاہ کر بھی کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کر سکی کیونکہ کسی کو بتانے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا تھا الٹا سب کو اور پریشان کرنے والی بات تھی اسے جو بات کرنی تھی عالیان سے ہی کرنی تھی ۔
***************************************
عالیان کی حالت دیکھنے کے بعد دانیا فوراً کمرے میں آ گئی تھی اور بوس کو کال ملائی تھی ۔
بوس یہ عالیان کو کیا ہوا ہے ۔ دانیا فکرمندی سے بولی ۔
کیوں کیا ہوا ہے ۔ بوس کے ہوچھنے پر دانیا نے بوس کو سب لفظ با لفظ بتا دیا ۔
ایسا کچھ تو نہیں ہوا کہ اس کی یہ حالت ہو جاتی میری تو اس سے یاور لاکھانی کے بعد کوئی بات بھی نہیں ہوئی نا ہی میں نے اسے کوئی نیا کام دیا کہ وہ فیملی کے ساتھ وقت گزار سکے ۔ فوس فکرمندی سے بول رہا تھا ۔
پھر ایسا کیا ہوا جو اس کی یہ حالت ہو گئی ہے ۔ دانیا بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی ۔
تم فکر مت کرو میں اس سے خود بات کروں گا اس کو تم مجھ پر چھوڑ دو اور اپنا بتاو سب ٹھیک ہے ناں ۔
ہاں بوس سب ٹھیک ہے بس محد اور عنایہ کی شادی ہو جائے پھر میں بھی واپس آ جاؤں گی بہت چھٹیاں ہو گئی ۔
ارے دانیا کن چھٹیوں کی بات کر رہی ہو تم نے تو ایک بھی چھٹی نہیں لی بلکہ چوہدری حویلی میں رہتے ہوئے بھی تم اپنے سارے کام باخوبی انجام دیتی رہی ہو ۔
بوس میں پوری طرح واپس آنا چاہتی ہوں اپنی ساری قوت کام پر لگانا چاہتی ہوں ۔
تو یوں کہو نا دانیا کہ دماغی اور دلی طور پر واپس آنا چاہتی ہو وہ دانیا جو چار سال پہلے کہیں کھو گئی تھی اس کی واپسی چاہتی ہو کوڈ کے کام کا بہانا بنانے کی کیا ضرورت ہے سیدھی طرح کہو ناں کہ اب وہاں رہنا تمہارے لیے مشکل ہو گیا ہے ۔ بوس اطمینان سے بولا تھا ۔
بوس ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ دانیا نے پوری طرح انکار کرتے کہا ۔۔
کیا ہے کیا نہیں وہ تو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گا اور کس کو غلط فہمی ہوئی ہے وہ بھی معلوم ہو جائے گی ۔
کیا مطلب بوس ۔
میں آ رہا ہوں کل مگر دھیان رہے اس بات کی بھنک بھی کسی کو نہیں لگنی چاہیے ۔
***************************************
عالیان اٹھا تو سب سے پہلے اس کی نظر عمارہ پر پڑی جو شاید اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہی تھی ۔
اس کے ہوش میں آتے ہی وہ اس پر سوالات کی بوچھار کر چکی تھی ۔
بھائی آپ کو کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں نا بھائی آپ کو درد تو نہیں ہو رہا اور جانے ایسے کتنے سوال ۔
عمارہ میں بالکل تندرست ہوں ۔
بھائی آپ لگ تو نہیں رہے کہیں سے بھی بالکل تندرست ۔
عمارہ میں واقعی میں بالکل سہی ہوں اور اگر تم سچ میں چاہتی ہو کہ میں سہی رہوں تو سب سے کہہ دو کہ مجھے اکیلا چھوڑ دیں اور کوئی مجھ سے کسی قسم کا سوال نہیں کرے گا ۔ عالیان نے حکم سنایا تھا جس میں کسی قسم کی رد و بدل کی گنجائش باقی نہیں تھی ۔
ٹھیک ہے بھائی آپ سے کوئی کچھ نہیں پوچھے گا کوئی سوال نہیں کرے گا بس آپ آرام کریں ۔ عمارہ کہتی اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ گئی وہ سمجھ گئی تھی کہ اسے فلحال تنہائی کی ضرورت ہے ۔
عالیان تھوڑی ہی دیر لیٹا تھا کہ اسے موبائل پر کال آتی سنائی دی موبائل اس سے دور پڑا تھا اس لیے اٹھاتے اٹھاتے کال اینڈ ہو گئی فون اٹھایا تو سامنے بوس کے نام سے مس کال نظر آئی اس نے بوس کو فون ملا دیا ۔
فوس آپ کی کال آئی تھی ۔
ہاں وہ دانیا سے بات ہوئی تھی میری بتا رہی تھی کہ تمہاری طبیعت خراب ہو گئی تھی ۔
کچھ نہیں بوس بس ایسے ہی ہلکا سا سر چکرا گیا تھا ۔
عالیان تم مجھے بتا سکتے ہو کیا ہوا ہے ۔
بوس مجھے خود نہیں معلوم کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے کیا ہو رہا ہے کیا ہونے والا ہے ۔
عالیان تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔ بوس کو اس کی باتیں بہکی بہکی سی لگی تھی ۔
بوس موت کا ڈر ۔ عالیان نے بنا جھجکے بولا تھا ۔
موت کا ڈر ۔ بوس نے دوہرایا تھا ۔
ہاں موت کا ڈر میرے اندر ناسور بن کر پل رہا ہے یوں لگتا ہے کبھی بھی ڈنک مارے گا اور مجھے اپنے ساتھ لے جائے گا ۔
موت کا ڈر کس میں نہیں ہوتا عالیان چوہدری مگر موت کو خود پر حاوی کر لینا یہ کس کتاب میں لکھا موت تو ہر لمحے ہمارے ساتھ چلتی ہے ہماری ساتھی بنے تو پھر اپنے ساتھی سے کیسا ڈر ۔
بوس مجھے آج سے پہلے نہیں تھا ڈر مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اگلی سانس بھی شاید میں نا لے سکوں جب سے اس گھر میں داخل ہوا ہوں ہر لمحے ایسا لگتا ہے کہ کوئی آئے گا اور میری سانسوں کی مالا توڑ دے گا مجھے ابھی زندہ رہنا ہے بوس ۔ عالیان کی آواز بھر آئی تھی وہ آج پہلی مرتبہ بوس کے سامنے رونے کے در پر تھا ۔
عالیان جب تم کسی کو کہتے ہو کہ تمہاری آنکھیں موت بن کر اس کے ساتھ چلیں گی تو اس کا کیا مطلب ہوتا تھا ۔ بوس نے اس کا اکثر کہا جانے والا جملہ اس کے سامنے دہرایا تھا ۔
مطلب ۔ عالیان کسی گہری سوچ میں کسی پرانی یاد میں چلا گیا ۔
میری آنکھیں موت بن کر ساتھ چلیں گی عالیان حماد ۔ ولی خان کے کہے گئے وہ الفاظ کانوں میں گونجے تھے ۔
ولی خان موت بن کر ۔ عالیان حیرت سے بولا تھا ۔
ہاں موت ۔۔۔ جیسے انسان کے پیدا ہوتے ہی موت اس کے ساتھ سفر شروع کر دیتی ہے ہر راہ پر ہر منزل پر موت حیات کی حفاظت کرتی ہے اور پھر جب وقت آتا ہے تو حیات انسان کو موت کے ہاتھوں میں دے دیتی ہے بالکل ویسے ہی میری آنکھیں تمہاری حفاظت کریں گی جب تک خدا کی مرضی نہیں اس وقت تک خدا کے حکم سے یہ تمہاری نگہبان رہیں گی ۔ عالیان ولی خان کا کہا گیا ایک ایک لفظ عالم خان کے سامنے دہرا رہا تھا اور عالم خان باخوبی واقف تھا کہ الفاظ کس شخص کے کہے گئے ہیں ۔
تو عالیان موت کو اس کا کام کرنے دو اس سے کیوں ڈرتے ہو وہ تو خود تمہاری حفاظت میں کھڑی ہے جب وقت آئے گا تو تمہیں اپنے ساتھ لے جائے گی ۔
بوس شکریہ ۔ عالیان کے پاس اس کے سوا کہنے کو کچھ نہیں تھا عالم خان کی باتوں سے اس کے دل کو تسلی ملی تھی دل جس وحشی کے ہاتھوں زخمی تھا ان زخموں کا مرہم ملا تھا ۔
عالیان نے فون رکھ دیا اس کا دل ہلکا ہو گیا تھا وہ جو سب چھوڑ کر جانے کا سوچ رہا تھا اب وہ سوچ کہیں دور اڑ گئی تھی ۔
***************************************
آج عنایہ کی مہندی تھی جو کہ چوہدری حویلی کے صحن میں ہی رکھی گئی تھی صحن کو پھولوں سے سجایا گیا تھا روشنی کا بھی اچھا انتظام کیا گیا تھا گانے کا سسٹم ایک طرف رکھا گیا تھا بڑوں کا یہی فیصلہ تھا کہ لڑکے لڑکی کی مہندی الگ الگ کی جائے جو کہ طریقہ بھی ہے مگر کبھی کبھار بڑوں کو سننی پڑ جاتی ہے اس لیے دونوں کک مہندی ایک ساتھ ہی کی جانی تھی ساتھ ہی تیل کی رسم بھی ہونی تھی سب لڑکیوں نے ایک ہی رنگ کی لہنگا چولے پہن رکھی تھی سبز ہی رنگ کے لہنگے کے اوپر سبز ہی چولی البتہ دوپٹوں کا رنگ پیلا تھا سب لڑکے نیلی کمیز اور سفید شلوار زیب تن کیے ہوئے تھے اور گلے میں ہلکے پیلے رنگ کے مفرل لپیٹے ہوئے تھے یہ سب زین اور صائم کی ہی تیاریاں تھی سب صحن میں اکھٹے تھے مگر ایک شخص کہیں نظر نہیں آ رہا تھا وہ تھا زوہیب ابا جی نے صائم کو کہلوا کر زوہیب کو بلوایا بھی تھا مگر اس نے یہ کہہ کر اسے واپس بھیج دیا کہ وہ فلحال بہتر محسوس نہیں کر رہا جب ٹھیک ہو گا تو خود سے آ جائے گا دوسری طرف دانیا اپنے لہنگے سے جنگ میں مصروف تھی کبھی وہ لہنگا سنبھالتی جو اس کے پاؤں میں آ جاتا تو کبھی نیچے لٹکتا دوپٹا جو بعد میں عفاف نے پن سے سیٹ کر کے دیا تو کبھی ماتھے پر لٹکتا ٹیکا سنبھالنے لگ جاتی ۔ عالیان سب انتظام ایک سائیڈ پہ کھڑا تھا عفاف اور عمارہ مہندی کی تھالیاں سجا رہی تھی محد اور عنایہ ساتھ بیٹھے تھے اور فوٹوگرافر ان دونوں کی تصویریں لینے میں مصروف تھا ۔ عفاف آپی یہ آپ دیکھیں میں زرا بھائی کو بلا لاؤں ابھی مہندی کی رسم شروع ہو جائے گی اور وہ ابھی تک کمرے میں گھسے ہوئے ہیں ۔
ہاں ہاں تم جاؤ میں دیکھتی ہوں ویسے بھی سب تھالیاں تیار ہیں تم بھائی کو بلا لو میں بھی دانیا آپی کو زرا پلیٹ پکڑاوں ۔
ہاں ہاں سہی ہے میں بس ابھی آئی ۔ عمارہ چلتی ہوئی زوہیب کے کمرے کی طرف بڑھی کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا زوہیب نے اندر سے کمرہ لوک کر رکھا تھا ۔
کون ہے ۔ زوہیب کی اندر سے تھکی ہوئی آواز آئی ۔
بھائی میں ہوں عمارہ ۔
عمارہ جاؤ میں ابھی نہیں آ سکتا تم جاؤ ۔ زوہیب اس کے آنے کا مقصد سمجھتے بولا تھا ۔
بھائی آپ آرہے ہیں یا میں کوئی اور راستہ نکالوں ۔ عمارہ نے دھمکاتے کہا ۔
عمارہ پلیز مجھے تنگ مت کرو میں نہیں آؤں گا ۔ زوہیب نے صاف انکار کیا ۔
بھائی میں صرف پانچ تک گنو گی پانچ کی گنتی کے بعد آپ کے ہاتھ سے سب نکل جائے گا ۔ عمارہ نے ہاتھ کی پانچویں انگلیاں ہوا میں بلند کرتے کہا تھا ۔
ٹھیک ہے بھائی تو پانچ ۔۔۔۔۔۔ چار ۔۔۔۔۔۔۔ تین۔۔۔۔۔ دو ۔۔۔۔۔۔ ایک ۔ وہ وقفے وقفے کے الٹی گنتی گن رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی ہاتھ کی انگلیاں جو ہوا میں بلند تھی انہیں ایک ایک کر کے بند کرنا شروع کر دیا ۔
کیا ہے عمارہ ۔ عمارہ مڑنے لگی تو زوہیب نے دروازہ کھولتے غصے سے کہا ۔
بھائی یہ کیا دیوداس بنے ہوئے ہیں حلیہ دیکھیں اپنا ۔ عمارہ اس کے بگڑے ہوئے حلیہ پر تبصرہ کرتے بولی ۔
اف بھائی آپ کا مہندی کا سوٹ کدھر ہے ۔ عمارہ دروازے میں کھڑے زوہیب کو سائیڈ پر کرتی اندر داخل ہوتے بولی ۔
عمارہ میں نہیں آؤں گا ۔ زوہیب نے کمرے میں داخل ہوتی عمارہ کو پیچھے سے پکارا تھا ۔
آپ سے پوچھا کس نے ہے ۔ عمارہ زوہیب کی الماری کی طرف بڑھی اور اندر سے اس کا مہندی کا سوٹ نکالا ۔ واہ بھائی آپ کا سوٹ تو پریس ہوا پڑا ہے میں سوچ رہی تھی کہ مجھے کرنا پڑے گا چلو اچھا ہے ۔ عمارہ سوٹ زوہیب کی طرف بڑھاتی بولی ۔
عمارہ میں نہیں آ رہا ۔ زوہیب کی ایک ہی گردان تھی ۔
بھائی زیادہ وقت نہیں مہندی کی رسم شروع ہونے والی ہے جلدی سے پہن کر نیچے آ جائیں ۔
عمارہ تمہیں سمجھ نہیں آتا ۔ اس بار زوہیب اونچی آواز میں عمارہ سے مخاطب ہوا ۔
بھائی آپ کیوں چاہتے ہیں کہ سب کو شک ہو جائے آپ کیوں چاہتے ہیں کہ سب کی نظروں کو مرکز آپ بن جائیں جو آج تک کسی کو نظر نہیں آیا وہ آج سب کے سامنے آ جائے ۔ عمارہ کی آواز بھی اونچی ہوئی تھی اور شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ عمارہ نے زوہیب سے اونچی آواز سے بات کی ہو ۔
عمارہ میں ایسا نہیں چاہتا ۔ زوہیب بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا ۔
بھائی اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو آپ کو نیچے آنا ہو گا اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے سب کے ساتھ خوش نظر آنا ہو آپ اگر چاہتے ہیں کہ عنایہ آپی خوش ہوں تو آپ کو بھی خوش نظر آنا ہو گا ۔
عمارہ مجھے ڈر لگتا ہے ۔ زوہیب نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دے دیا ۔
عمارہ اپنا لہنگا سنبھالتی اس کے ساتھ آ بیٹھی ۔
یہی کہ میری نظر لگ جائے گی اس کی خوشیوں کو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میری وجع سے کچھ ہو نا جائے ۔
بھائی آپ کے اس طرح کمرے میں چھپ کر بیٹھنے سے کیا جو ہونے والا ہے وہ ٹل جائے گا خدا نے جو ان کے میراث میں لکھا ہے وہ نا ہی آپ بدل سکتے ہیں نا ہی کوئی اور تو پھر خود کو کمرے تک محدود کر دینے کا مقصد کیا ہوا آپ کو تو چاہیے کہ آپ اپنے ڈر کا مقابلہ کریں اس کا سامنا کریں نا کہ اس ڈر کے آگے گھٹنے ٹیک دیں بھائی عنایہ آپی اور محد بھائی شادی کے بعد اسی حویلی میں رہیں گے آپ کی نظروں کے سامنے آپ کو یہ بات قبول کرنی ہو گی کہ آپ تاعمر اس کمر میں بند نہیں رہ سکتے آپ کو کبھی نا کبھی سامنا کرنا ہو گا ۔ عمارہ زوہیب کو آہستہ آواز میں محبت سے سمجھا رہی تھی ۔
زوہیب آگے سے چپ رہا اس کے پاس عمارہ کی باتوں کا کوئی جواب موجود نہیں تھا ۔
بھائی آگے ہی کافی ٹائم نکل گیا اب میں جا رہی ہوں آپ پر ہے اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔ عمارہ لہنگا سنبھالتی اٹھی اور کمرے سے باہر آ گئی ۔
بھائی کہاں ہیں ۔ نیچے آئی تو عفاف نے زوہیب کے بارے میں پوچھا ۔
بھائی بس تیار ہو رہے ہیں طبعیت تھوڑی خراب تھی تو بس میڈیسن لے کر آ رہے ۔
کل تک تو اچھے بھلے تھے پتا نہیں کیا ہو گیا ۔ عفاف فکرمندی سے بولی ۔
آپی آپ کو تو پتا ہے ناں بھائی کو شور سے کتنی چڑ ہوتی ہے اور سر میں درد شروع ہو جاتا ہے بس وہی میوزک کی وجع سے سر درد ہو گیا ہے اور کچھ نہیں ۔
ہاں یہ بھی ہے ۔ عفاف مطمئن ہوتے بولی ۔
تھوڑی ہی دیر میں زوہیب تیار صحن میں آتا دیکھائی دیا ۔
لو بھائی بھی آ گئے ۔ عمارہ زوہیب کو اپنی طرف آتا دیکھ بولی ۔
لو آ گیا میں اب خوش ۔ زوہیب چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولا ۔
ہاں بہت خوش ابھی تو آپ کو ڈانس بھی کروانا ہے بلکہ میں اور آپ اور عفاف تینوں ایک ساتھ ڈانس کریں گے ۔۔۔۔۔ کیوں عفاف ۔
ہاں ہاں ضرور اگر عمارہ کا اخروٹ بھائی مان جائے تو ۔
میں کیسے مجھے تو ڈانس بھی نہیں آتا ۔ زوہیب دونوں ہاتھ نفی میں ہلاتا بولا ۔
ارے بھائی بھنگڑا تو ہر کوئی ڈال لیتا ہے آپ بھی ڈال ہی لیں گے ۔ عمارہ بھی ڈٹ گئی ۔
عمارہ کیوں اپنے بھائی کا تماشا بنانا ہے ۔
فکر نوٹ بھائی تماشا ساتھ ہی بنے گے آپ کی یہ بہنیں آپ کو اکیلے نہیں چھوڑنے والی ۔
ارے ارے دھیان سے ۔ سامنے سے آتی دانیا کو دیکھ زوہیب کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا جو لہنگے سے الجھتے گرتے گرتے بچی تھی ۔
اف یہ لہنگا الله پوچھے اس سے ۔ دانیا غصے سے بولی تھی ۔
اب اس بچارے لہنگے کا کیا قصور ہے ۔
سہی کہا اس لہنگے کا کیا قصور ہے قصور تو سامنے بیٹھی ان میڈم کا ہے (دانیا سامنے بیٹھی عنایہ کی طرف اشارہ کرتے بولی) خود دیکھو کتنے مزے سے بیٹھی ہوئی ہے اور یہ عزاب بلا وجع کا میرے سر ڈال دیا ۔
آپی فکر مت کریں بس تھوڑی دیر کی ہی تو بات ہے اور ویسے بھی آپ نے پہلی بار پہنے ہیں اتنے بھاری کپڑے اسی لیے آپ کو محسوس ہو رہا ہے ۔ عفاف دانیا کو تسلی دیتے بولی ۔
عفاف بارات کا سوٹ تو اس سے بھی بھاری ہے اس میں میں کیسے چلوں گی ۔ دانیا فکرمندی اور پریشانی سے بولی تھی ۔
آپی فکر نا کریں آپ پہن لیں گی اور چل بھی لیں گی ۔ اس بار عمارہ اسے تسلی دیتے بولی تھی ۔
الله کرے ایسا ہی ہو ۔ دانیا نے دلی طور پر خواہش کی تھی دل کا حال ایک بار بھی اس نے چہرے پر آنے نہیں دیا تھا وہ جب سے فنکشن میں خوش نظر آ رہی تھی سب کے ساتھ ہنس بول رہی تھی ہسی مزاق کر رہی تھی وہ واقعی میں عنایہ کی خوشی میں خوش ہونا چاہتی تھی دل سے عنایہ کے لیے اس کی آگے آنے والی زندگی کے لیے دعا مند تھی ۔
***************************************
عنایہ محد کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی جب نوکرانی اس کے پاس آتی ہے اور اس کے کان میں کچھ کہتی ہے تو وہ سے اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔
عنایہ تم کہاں جا رہی ہو ۔ عنایہ کو ٹی وی لانچ کی طرف جاتا دیکھ نورین اسے روک کر پوچھتی ہے ۔
امی بس میں دس منٹ میں آئی ۔ کہتی ٹی وی لانچ کی طرف بڑھ جاتی ہے ٹی وی لانچ میں صوفے پر ایک شخص ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے دونوں ہاتھ صوفے کی ٹیک پر پھیلائے بیٹھا ہوتا ہے عنایہ کے آتے ہی وہ شخص اپنی جگہ سے کھڑا ہو جاتا ہے ۔
پاپا ۔ عنایہ کے منہ سے بے اختیار نکلتا ہے اور وہ جا کر عالم خان کو سینے سے لگا لیتی ہے باپ کو دیکھتے ہی جیسے سب شکایتیں بھول گئی ہوں سب گلہ شکوے معاف کر دیے ہوں عنایہ کی آنکھ سے آنسو نکلے تھے ۔
کیسی ہے میری گڑیا ۔ عالم خان نے عنایہ کو جدا کرتے اس کی گالوں پر محبت سء ہاتھ رکھتے کہا تھا ۔
مجھے تو لگا تھا کہ میری گڑیا مجھ سے اتنی ناراض ہو گی کہ شاید بات تک نا کرے ۔
ناراض تو میں تھی مگر اتنے سال بعد اگر ملتے ہی ناراضگی ہی دیکھانی ہو تو بندہ ملے ہی نہ ۔ عنایہ عالم خان کو متاثر کر گئی ۔
عالم خان کی بیٹی سے یہی امید کی جا سکتی تھی ۔ وہ فخر سے بولا تھا ۔
پاپا آپ کو کچھ دن تو پہلے آنا چاہیے تھا ناں آج تو میری مہندی ہے پھر کل شادی ۔
آنا تو میں چاہتا تھا مگر کچھ کام تھے جنہوں نے روک رکھا تھا اور ابا جی وہ بھی نہیں مان رہے تھے ۔ عالم خان اپنے حق میں صفائی دیتا بولا ۔
اب مان گئے ابا جی ۔ عنایہ جانچتی نظروں سے بولی ۔
نہیں ۔ دونوں ایک ساتھ ہنسے تھے ۔
اب بھی نا آتا تو بہتر تھا میں مر جاتا ۔ عالم خان عنایہ کے سر پر ہاتھ رکھے بولا تھا ۔
پاپا ایسی بات مت کریں آپ کو معلوم ہے میں نے کبھی آپ سے نفرت نہیں کی ہاں غصہ ضرور آتا تھا مگر میں نے ہمیشہ یہی سوچا تھا کہ جب آپ سے ملوں گی تو کوئی شکایت نہیں کروں گی ۔
عالم خان کی آنکھیں بھر آئی ۔
بہت اچھی تربیت کی ہے نورین نے تمہاری ۔ عالم خان کو اپنی اولاد پر فخر محسوس ہو رہا تھا ۔
امی سے ملے آپ ۔
نہیں اس سے تو نہیں ملا میں نے سوچا سب سے پہلے اپنی گڑیا سے ملوں ۔
آپ امی سے مل لیں وہ باہر ہیں صحن میں آپ ادھر ہی انتظار کریں میں انہیں بھیجتی ہوں ۔ عنایہ کہتی باہر جانے لگی ۔
عنایہ میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں باہر کم از کم میری جان تو امان میں ہو گی تمہاری امی یقیناً سب کے سامنے میرا سر پھاڑنے سے گریز کریں گی ۔ عنایہ بے اختیار ہنس دی ۔
اچھا پاپا آپ بھی ساتھ آ جائیں ۔
صحن میں پہلے عنایہ داخل ہوئی تھی اس کے چہرے کی خوشی دیکھنے لائق تھی چہرے سے مسکراہٹ ہٹ ہی نہیں رہی تھی اس کے پیچھے ہی عالم خان صحن میں داخل ہوا تھا عالم خان سب کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا اور عالم خان خاموشی سے نورین کے ساتھ آ کھڑا ہوا ابا جی عالم خان کی طرف بڑھنے لگے مگر ظفر نے انہیں روک دیا ۔
ابا جی سب مہمان جمع ہیں کوئی تماشا نہ بن جائے عنایہ کی شادی کے بعد دیکھتے ہیں اسے ۔ چوہدری ظفر اور چوہدری اصغر کو عالم خان کے آنے کی پہلے سے خبر تھی اور عالم نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ وہ عنایہ کی شادی پر کوئی تماشا نہیں چاہتا تو ابا جی کو سنبھال لیں ۔
نورین کا دھیان دوسری طرف تھا تبھی وہ عالم خان کی فوراً موجودگی بھانپ نہیں پائی تھی ایک دم اس کی نظر اپنے ساتھ کھڑے کالے رنگ کا کمیز شلوار پہنے شخص پر ہوئی اس کی سانس ایک لمحے کو رکی تھی اس نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔
ایسا کیا دیکھ رہی ہو گل تمہارا ہی خان ہے ۔ عالم خان کی آواز سے وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور اپنی نظروں کا رخ موڑ گئی ۔
گل یار کیا کھاتی رہی ہو لگتا ہی نہیں ایک جوان لڑکی کی ماں ہو جس کی ایک دن بعد شادی ہے اور ایک مجھے دیکھو تمہارے غم میں آدھا ہو گیا ہوں ۔ عالم خان اسے تنگ کرتا بولا ۔
جھوٹ تو تم پر ختم ہے خان ۔ نورین نے زبان دانتوں میں دی تھی ۔
ہائے مدت گزر گئی ہمیں اپنا نام ان کی زبان سے سنے اور جب سنا تو کچھ سننا باقی نا رہا ۔ عالم خان کے اس رخ سے صرف نورین ہی واقف تھی ۔
جھوٹا ۔ نورین اس کی طرف دیکھتے مگر اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کرتے بولی تھی ۔
گل تمہارے معملے میں عالم خان جھوٹ نہیں بولتا یہ بات تم اچھے سے جانتی ہو ۔
عنایہ سے ملے ۔ نورین بات کا رخ موڑتے بولی ۔
میں اور عنایہ ساتھ ہی آئیں ہیں تم اپنی کوئی بات کرو ناں ۔
میرا اس وقت موڈ نہیں ہے ۔ نورین کہتی عنایہ کی طرف بڑھ گئی ۔ مہندی کی رسم شروع کی گئی ساتھ ہی تیل کی رسم بھی کی گئی ساری لڑکیاں مہندی کی سجی تھالیاں ہاتھ میں پکڑے عنایہ کے سامنے رکھتی گئی سب نے اس کے ہاتھ پر مہندی لگائی بڑوں نے تو پیسے بھی دیے ۔ محد کے بالوں پر تیل بھی لگایا گیا اس کے بعد ناچ گانا شروع کیا گیا کپل ڈانس ہوئے سب سے زیادہ تعریف عفاف عمارہ اور زوہیب کے ڈانس کو ملی ۔
یہ چراغ کا جن اتنا اچھا ڈانس کر لیتا ہے میں نے تو سوچا ہی نہیں تھا ۔ عنایہ ساتھ بیٹھے محد سے مخاطب ہوئی ۔
عنایہ بچارے کو بخشش دو کیا بگاڑا ہے اس نے اتنا اچھا تو ڈانس کر رہا ہے ۔ جس پر عنایہ نے عجیب سی شکل بنائی تھی ۔
***************************************
اسلام علیکم تو حیات المیراث کی ۱۲ قسط کے ساتھ میں حاضر ہوں پڑھ کر کمنٹ ضرور کیجئے گا اور اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا پیر آگے بھی اپیی جلدی ہی آئے گی ۔

حیات المیراث CompletedWhere stories live. Discover now