قسط ۱۱

283 20 7
                                    

دانیا عنایہ اور باقی سب کے ساتھ گھر آ گئی تھی اب ہسپتال میں عمارہ کے ساتھ عالیان اور زوہیب موجود تھے ۔
دانیا تمہیں کیا لگتا ہے تم نے جو کیا وہ ٹھیک تھا ۔
بوس زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے لگا کہ آج میرا خدا مجھ سے خوش ہوا آج میرے دل نے میرے عمل کی گواہی دی ہے ۔ دانیا پر سکون نظر آ رہی تھی ۔
مگر تم نے جو کیا وہ کیا کوڈ کے لیے بھی سہی ہو گا کہیں کوڈ کو اس کی وجع سے نقصان کا سامنا نا کرنا پڑے ۔ بوس نے اپنے خدشات دانیا کے سامنے رکھے ۔
بوس آپ بھی تو یہی چاہتے تھے ناں ۔
ہاں دانیا میں بھی یہی چاہتا تھا مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہے ۔ بوس فکرمندی سے بولا ۔
بوس آپ ضرورت سے زیادہ سوچ رہے ہیں ۔
دانیا ہمیں عالیان کی اس وقت سخت ضرورت ہے اس پر بھاری زمہ داری ہے ۔
بوس وہ ایک قابل کوڈ ہے اور اگر زیادہ دقت کا سامنا کرنا پڑا تو اور کوڈ موجود ہیں ہم ان کی مدد لے سکتے ہیں ۔
ہمم ۔ دانیا عالیان تمہارے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔ بوس کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔
کیوں اسے شک ہو گیا ہے کیا ۔ دانیا فکرمندی سے بولی ۔
مکمل شک تو نہیں ہوا مگر کہیں ناں کہیں اسے سمجھ آ گیا تھا اور تمہاری طرف سے میں نے اس کے شکوک دور کر دیے ہیں اسے معلوم ہے کہ تم ولی خان کی بیٹی ہو اس لیے شک دور کرنا آسان رہا ورنہ اسے شک تھا کہ تم کوڈ ہو ورنہ اتنے سارے اتفاقات ممکن نہیں پہلے اس کے لنز کا گم ہو جانا پھر اسی مال میں تم لوگوں کا ملنا پھر تمہارا اس سے ٹکراو ہونا اور پھر تمہارا اس کی گلاسس اٹھا لینا یہ سب اتفاق کیسے ہو سکتے ہیں ۔ بوس اسے تفصیلات سے آگاہ کر رہا تھا ۔
اسی لیے وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ دانیا کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔
ہاں میں نے اسے کہہ دیا کہ دانیا ولی خان کو کسی چیز کا علم نہیں اس سے ہر چیز چھپا کر رکھی جائے یہ اوپر سے حکم ہے ۔
اور اس نے سب پر یقین کر لیا ۔۔۔۔ نہیں بوس مجھے نہیں لگتا کہ اس نے اتنی آسانی سے ہر بات پر یقین کر لیا ہو گا وہ کوڈ ہے اسے اتنی آسانی سے مطمئن کرنا مشکل کام ہے ۔
ہاں ہو سکتا ہے مگر اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا سوچتا ہے فلحال یاور لاکھانی کی ہار ہی ہمارا مقصد ہے ۔
***************************************
عالیان جب چوہدری حویلی کی دہلیز پار کر آیا تو جیسے کسی تیز ہوا نے اس کا استقبال کیا ہو اس کے آنے پر اسے خوش آمدید کہا ہو ۔ اتنا سکون اسے آج تک نا ہوا تھا اسے یہاں بہت پہلے آ جانا چاہیے تھا جانے کون سی زنجیریں تھی جنہیں توڑنا اسے ناممکن لگتا تھا وہ آندھی دیوار آج کیسے دھل گئی تھی سب خدشے دور کیسے ہو گئے تھے زندگی نے اسے پہلے اتنی ہمت کیوں نا دی اب دی تو کیا اتنی فرست بھی دے گی یہ زندگی کہ وہ ایک بار زندگی کو قریب سے دیکھ پائے جان سکے کہ یہ چند حروف کے مجموعے کو کیا کہتے ہیں ۔
سب سے پہلے حماد رفیق اس کی طرف بڑھے چہرے کو پکڑ کر اس کے نقوش کا جائزہ لیا اس کی آنکھوں میں خود کے لیے جزبات تلاش کرنا چاہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہونٹوں کے قریب لا کر بوسہ دیا تو آنکھیں خود کو روک نا سکی ۔ عالیان نے اپنے باپ کو سینے سے لگا لیا اتنے سال اس نے صرف ایک شخص کو یاد کیا تھا اس کے دل دماغ میں صرف ایک عمارہ تھی اس نے یہی مانا تھا کہ اس کے لیے اور وہ کسی کے لیے اگر اہم ہے تو وہ عمارہ ہے مگر باپ سامنے کھڑا تھا اور ایک اچھی عمر کا آدمی اس کے سینے سے لگے رو رہا تھا عالیان نے خود پر ضبط کی لگام ڈالی رکھی اسے رونا نہیں تھا وہ رونا نہیں چاہتا تھا مگر ہر چیز چاہ سے منسلک تھوڑی ہوتی ہے کچھ چیزیں لاشعوری طور آپ پر حاوی ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر تب رکتی ہیں جب ہوش آتا ہے ۔ عالیان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا ایک آنکھ سے آنسو چھنکا تھا ۔
حماد رفیق کچھ نہیں بولا تھا نا کوئی سوال نا کوئی شکوہ نا ہی کوئی التجا اس کا رویا ہی سب کہنے کو کافی تھا ۔
عالیان باری باری سب سے ملتا گیا پھر اس کا سامنا اس سے ہوا جس سے وہ نو سال نفرت کرتا آیا تھا نو سال سوائے نفرت کے کوئی جزبہ اس کے اندر پروان نہیں چڑھا وہ صرف اس کی سوتیلی ماں نہ تھی وہ اس کی سگی ماں کی بہن بھی تھی اس کی خالہ ماں جیسی مگر جو اس نے نو سال اس کے ساتھ کیا وہ چاہ کر بھی بھولا نہیں جا سکتا تھا ۔ آنکھوں کے سامنے سے وہ کالی رات نکلی اور اپنے ساتھ بہت سارے کانٹے آنکھوں میں چھوڑ گئی ۔
عالیان اس وقت عمارہ کو پڑھا کر اپنے کمرے میں جا رہا تھا آج کل عمارہ کے امتحانات چل رہے تھے اور اس کی تیاری کی ساری ذمہ داری اس کے کاندھوں پر تھی کل اس کا سائنس کا پرچہ تھا جس کی اسے بالکل تیاری نہیں تھی یہی وجع تھی کہ وہ رات کے گیارہ بجے تک اسے پڑھاتا رہا تھا وہ چاہے کتنی ہی لاڈلی کیوں نا تھی مگر پڑھائی پر کوئی سمجھوتہ نہیں تھا ۔ ابھی وہ اپنے کمرے کی طرف ہی مڑنے لگا تھا جب اسے ٹی وی لاؤنچ سے کسی کے ہنسنے کی آواز آئی وہ ایک مردانہ ہنسی تھی عالیان کے قدم تجسس میں اس طرف مڑ گئے سامنے کوئی چالیس سال کا مرد نادیہ کے بہت قریب ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا اسے وہ شخص بھولا نہیں تھا اس شخص کی وجع سے پہلے بھی حماد اور نادیہ کی لڑائی ہو چکی تھی مگر اس بات کو تو عرصہ ہو گیا تھا پھر آج دو سال بعد یہ شخص یہاں کیا کر رہا تھا ۔
ماما یہ شخص یہاں کیا کر رہا ہے ۔ عالیان نادیہ سے بہت ڈرتا تھا مگر اپنے باپ کی غیر موجودگی میں ایک غیر شخص کی اس کے گھر میں موجودگی اسے قطعاً برداشت نہ تھی اور وہ کوئی بچہ نہیں تھا جسے باتیں سمجھ نا آتی ہوں ۔ ایک سولہ سال کا لڑکا تھا جو ہر شہ سے باخبر تھا ۔
عالیان اپنے کمرے میں جاؤ ۔ نادیہ کو اس کا یوں آ کر سوال کرنا ذرا نہ بھلا تھا ۔
نہیں ماما آپ ان کو کہیں کہ یہاں سے جائیں ۔ عالیان ڈٹا رہا ۔
عالیان تمہاری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی کمرے میں جاؤ اپنے ۔
نہیں ماما میں نہیں جاؤں گا ۔ نادیہ چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی اور کمرے کی طرف اشارہ کرتی آنکھوں میں غصہ لیے کھڑی ہو گئی عالیان بھی اپنی جگہ پر کھڑا رہا ۔
ماما آپ انہیں کہیں یہ یہاں سے جائیں ورنہ میں پاپا کو بتا دوں گا ۔ عالیان کا اتنا کہنا تھا کہ نادیہ کہ ہاتھ زور سے اس کی گال پر لگا ۔
حماد کو بتاؤ گے حماد کو ۔ نادیہ غصہ میں چلائی تھی ۔ اتنے میں عمارہ بھی آواز سنتے کمرے سے باہر آ گئی ۔
ہاں میں پاپا کو بتاؤں گا کہ یہ ان کے جانے کے بعد یہاں آئے تھے ۔ عالیان ڈرتا ڈرتا لفظ ادا کرتا گیا ۔
محسن تم جاؤ اس کو میں دیکھ لوں گی ۔ نادیہ نے اپنے پیچھے کھڑے شخص کو کہا اور وہ وہاں سے چلا گیا ۔
حماد کو بتاؤ گے حماد کو ابھی دیکھتی ہوں کس کو بتاتے ہو ۔ نادیہ اس کا بازو پکڑتی دروازے سے باہر نکل آئی اور اسے باہر چھوڑ کر خود اندر سے دروازہ بند کر لیا وہ دروازہ کھٹکھٹاتا رہا مگر اس کی آواز سے تو جیسے کان پھیر لیے ہوں اسے اندر سے عمارہ کی رونے کی آواز آتی رہی اور پھر وہ بھی رک گئی وہ کافی دیر انتظار کرتا رہا مگر کوئی باہر نا آیا اس نے سوچا کہ چوہدری حویلی چلتا ہوں مگر راستے میں اس پر کتوں کا حملہ ہو گیا اور پھر ولی خان اسے اپنے ساتھ لے آیا۔
عالیان نے سامنے کھڑی نادیہ سے نظریں موڑ لی وہ چاہتا تھا کہ وہ سب بول دے ہر ایک بات ہر ایک زخم کھول کر رکھ دے مگر عمارہ کی آنکھوں کی چمک حماد کے چہرے کی خوشی ابا جی کا ہنستا مسکراتا سراپا اسے روک گیا ۔
***************************************
ماہم یار معاف بھی کر دو مجھے کتنی سزا دو گی ۔ صائم مسلسل ایک ہی بات دہرا رہا تھا آج پھر وہ زین کے ہمت دلانے پر معافی مانگنے چلا آیا تھا ۔
میں نہیں جانتی آپ کون ہیں کیا ہیں تو جب میں آپ کو جانتی ہی نہیں تو معافی کس بات کی ۔ ماہم نے مڑتے ہوئے سپاٹ انداز میں کہا ۔
ماہم مانا مجھے تم پر شک نہیں کرنا چاہیے مانا میں نے جو کیا وہ غلط تھا مگر کیا میرا گناہ اتنا بڑا کہ معافی کا حقدار بھی نا ٹھراؤں ۔
صائم پلیز ۔ ماہم نے دونوں ہاتھ جوڑتے کہا ۔
ارے ابھی سے معافیاں مانگنا شروع کر دی شادی تو ہو جانے دو ابھی سے سر مت چڑھاو اسے ۔ پاس سے گزرتے زین نے تبصرہ کیا تو انہیں احساس ہوا وہ نامناسب جگہ پر کھڑے ہیں ۔
ماہم مجھے معاف کر دو چاہے جس کی قسم اٹھوا لو مگر مجھے معاف کر دو ۔
وہ اسے کیسے بتاتی کہ اب وجع اس کا شک نہیں بلکہ اس کے اپنے گناہ ہیں کوڈ میں قدم رکھ کر قدم پیچھے نہیں کھینچے جاتے ۔
ماہم مجھ پر یقین تو کر کہ دیکھو ۔ ماہم جانے لگی تو اس نے پیچھے سے اسے پکارا ۔
ٹھیک ہے کیا تم پر یقین اب اگر کسی دن میری کوئی غلطی تمہارے سامنے آئی تو کیا تم میں بھی اتنا ظرف ہو گا کہ تم مجھے معاف کر دو ۔
ایک بار یقین کر کہ تو دیکھو ۔
صائم مرد کا ظرف اتنا نہیں ہوتا وہ معافی کا طلبگار تو ہوتا ہے مگر معاف کرنے کا دعویدار ہی رہ جاتا ہے بس ۔
مردوں کے بارے ميں رائے کافی غلط قائم کر رکھی ہے تم نے یہ ثابت کر کے دیکھاؤں گا میں یہ وعدہ ہے میرا ۔
اچھا تو پھر آج آئسکریم کھانے چلیں ۔ ماہم کہتی کمرے میں چلی گئی ۔
***************************************
تمہارے پاس ایک بہت پیاری فراق ہے ناں سفید رنگ کی ۔ دانیا کچن میں کھڑی کافی بنا رہی تھی جب محد اس کے سامنے آ کھڑا ہوا دانیا نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے کافی بنانے میں مصروف ہو گئی ۔
ہر کسی کے پاس ہوتی ہے ۔ دانیا نے کافی میں چمچ چلاتے ہوئے کہا ۔
نہیں وہ سفید رنگ کی جسے تم نے سنبھال کر رکھا الماری میں ۔۔۔ میرے نکاح پر وہی پہننا ۔
دانیا نے کپ زور سے رکھا ۔
آرام سے آرام سے ٹوٹ جائے گا ۔
محد تمہاری تین ہفتے بعد عنایہ سے شادی ہے تمہیں شرم آنی چاہیے ۔
نا ہی میں یہ انکار کرتا ہوں کہ میری شادی ہے اور نا ہی اس بات سے انکار کیا ہے کہ میں عنایہ سے شادی نہیں کروں گا میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم سب اپنی زبان سے اقرار کر لو ۔ دانیا اسے وہاں چھوڑ کر کمرے میں آ گئی ۔
***************************************
عالیان کمرے میں بیٹھا تھا جب نادیہ دستک دیتی کمرے میں داخل ہوئی ۔ عالیان کے ماتھے پر شکن آئی اس سے پہلے کہ وہ غصے میں کچھ بولتا نادیہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی ۔
عالیان مجھے معاف کر دو ۔۔۔ عالیان میں نے سالوں اس ایک لمحہ کا انتظار کیا ہے کہ کب تم آؤ اور میں تمہارے پاؤں پڑ جاؤں تمہاری منتیں کروں ۔
دیکھیں اگر تو آپ یہ سب اس لیے کر رہی ہیں کہ میں کسی کو کچھ نا بتاؤں تو اس کی ضرورت نہیں ہے میں اپنا ارادہ پہلے ہی ترق کر چکا ہوں ۔
نہیں عالیان میں اس لیے معافی ہرگز نہیں مانگ رہی مجھے معافی چاہیے اپنے لیے اپنے اندر اٹھتے طوفان کو ختم کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔ عالیان میں نے تمہارے ساتھ جو کیا اس کی سزا کاٹی ہے میں نے پہلے محسن مجھے دھوکہ دے کر چلا گیا اسے مجھ سے کوئی غرض نہیں تھی اسے تو بس میرے پیسوں سے غرض تھی پھر میں نے اپنے نومولود بچے کو کھو دیا اور پھر میں سالوں اپنی اکلوتی بیٹی کی نفرت دیکھتی آئی ہوں حماد کو میں نے اپنے اور محسن کے بارے میں سب بتا دیا تھا میرے اندر اور ہمت نہیں تھی کہ میں پچھتاوے اور احساسِ جرم میں زندگی گزارتی رہتی مگر میں چاہ کر بھی اسے یہ نہ بتا سکی کہ تم میری وجع سے ۔۔ کہتے کہتے وہ رو پڑی آنسو ہلک میں اترنے لگے ۔ عالیان کو اس کے الفاظ سچے لگے تھے مگر وہ اسے چاہ کر بھی معاف نہیں کر سکتا تھا ۔
میں کوشش کروں گا کہ آپ کو معاف کر سکوں ۔
عالیان اپنے لیے نا سہی اپنی مری ہوئی ماں میری بہن کے واسطہ مجھے معاف کر دو ۔ اس نے پھر سے اس کے پاؤں پکڑ لیے ۔
یہ کیا کر رہی ہیں ۔
جب تک تم مجھے معاف نہیں کر دیتے میں ایسے ہی بیٹھی اپنے گناہوں کی سزا کاٹنے کو تیار ہوں ۔
عالیان نے بہت مشکل سے اسے کمرے سے روانا کیا ۔
***************************************
عفاف رات کا کھانا تیار کر رہی تھی جب عالیان کچن میں داخل ہوا ۔
جی آپ کو کچھ چاہیے ہے کیا ۔ عفاف نے اسے کچن میں دیکھا تو بولی ۔
جی وہ بس میں یہ بتانے آیا تھا کہ میں ۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے رکا ۔  میری لیے ڈائٹ کھانا بنوا دیجئے گا میں یہ دیسی کھانا نہیں کھاتا ۔ عالیان نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو عفاف کی شکل دیکھنے لائق تھی ۔
جی کچھ ہوا ہے کیا ۔ عفاف کو یوں کھڑا دیکھ عالیان حیرت سے بولا ۔
نہیں نہیں کچھ نہیں آپ جائیں کھانا بن جائے گا ۔ ۔۔ مفت کے غلام جو ہیں ابھی آئے چوبس گھنٹے بھی نہیں ہوئے اور فرمائشیں شروع حد ہے ۔ آخری الفاظ اس کے دل نے کہے تھے ۔
وہ کب سے کچن میں کھڑی ساری تیاریاں کر رہی تھی صباء اور نوکرانی تو بس نام کا ہی کچن میں دو تین بار حاضری لگوا کر گئے تھے ۔ اب جب سب تیار ہو گئی تو عالیان نے آ کر ایک نیا حکم سادر کر دیا ۔
جب کھانا رکھا گیا تو ابا جی کی نظر میز پر پڑے خاص عالیان کی فرمائش پر تیار کردا کھانے پر پڑی ۔ ۔۔ یہ کیا ہے ۔
ابا جی یہ انہوں نے کہا تھا بنانے کو ۔ عفاف فوراً عالیان کی طرف اشارہ کرتی بولی ۔
عالیان اتنے دنوں بعد آئے ہو سہی سے کھانا تو کھاؤ یہ کیا گھاس چوہدریوں کے خون ہو تم ایسا کھانا جچتا نہیں ہے تمہیں ۔۔۔۔ عفاف لے کر جاؤ اسے ۔ ابا جی نے حکم دیا ۔
ارے ابا جی میں نہیں کھاتا مجھے عادت نہیں ہے ۔ عالیان نے اپنی صفائی میں بولنا چاہا ۔
عالیان میں کچھ نہیں سن رہا حالت دیکھو اپنی کیا بنا رکھی ہے صاف پتا چل رہا ہے کچھ نہیں کھاتے ۔ ابا جی نے ڈانٹتے ہوئے کہا ۔
عالیان نے اپنا جائزہ لیا ۔ ابا جی اچھا بھلا تو ہوں میں ۔ اباجی نے عالیان کی بات پر کان دہرے بنا کھانے کی طرف اشارہ کیا ۔
میز سے کھانا اٹھاتے ہوئے عفاف کی شکل دیکھنے لائق تھی اور عالیان کی نظریں اسی پر جمی ہوئی تھی نظریں ہٹانا جیسے بھول ہی گیا ہو ایک تو معصومیت اوپر سے غصہ ۔
عالیان کھانا کھاؤ ناں ۔
جی طائی امی میں کھا رہا ہوں ۔ مگر عالیان کا دھیان کھانے میں تھا ہی نہیں اس کو تو اپنے سامنے بیٹھا چہرہ بھلا لگ گیا تھا اور اس کی نظروں کا جغرافیہ گھوم کر ادھر ہی پہنچ جاتا تھا ۔
عفاف کو مسلسل اپنے اوپر کسی کی نظریں محسوس ہوتی رہی ۔
***************************************
بوس یاور لاکھانی کا کیا بنا ۔ دانیا دروازہ اندر سے لوک کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا تھا ۔ آج کل اسے بوس سے بات کرنے کا موقع بہت کم مل رہا تھا زیادہ طر اس کے ارد گرد کوئی نا کوئی موجود ہوتا تھا ۔
عالیان کو کام پر لگایا ہوا ہے یقیناً وہ جلد بہتر نتائج لائے گا ۔
بوس اسے کہیں کام کی رفتار بڑھا دے ۔
دانیا تم تو جانتی ہی ہو ناں ۔
ہاں بوس جانتی ہوں آج کل اس کے لیے کام کرنا تھوڑا مشکل ہے مگر یاور لاکھانی کی مجھے روز کالز آتی ہیں اس سے جتنی جلدی چھٹکارا حاصل کیا جائے اتنا بہتر ہے ۔
***************************************
عفاف برتن سمیٹنے میں نوکرانی کی مدد کر رہی تھی جب عالیان اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا ۔
آئی ایم سوری ۔ عالیان کی ایک دم آتی آواز نے اسے ڈرا دیا تھا وہ ڈر کر پیچھے مڑی تھی ۔
جی ۔
وہ میری وجع سے آپ کو اتنا سارا کھانا بنانا پڑا اسی لیے سوری ۔
نہیں معافی کی کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے کھانا بنانا پسند ہے ۔
وہ تو آپ کی شکل دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ عالیان منہ میں بڑبڑایا تھا ۔
جی آپ نے کچھ کہا ۔ عفاف عالیان کے ادھورے الفاظ سن کر جانچتی نظروں سے بولی ۔
نہیں میں تو بس کہہ رہا تھا کہ کھانے کے ذائقہ سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا ۔ عالیان الفاظ گھماتا بولا ۔
شکریہ ۔ عفاف کہتی ٹیبل کی طرف مڑی ۔
تو کیا میں یہ سمجھوں کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے ۔
میں نے کہا نے معافی کی ضرورت نہیں ہے ۔ عفاف نے بنا مڑے کہا تھا ۔
عالیان وہاں سے روانہ ہو گیا ۔
***************************************
بھائی ۔ عمارہ عالیان کے ساتھ بیٹھی تھی جب سے وہ آیا تھا اسی کے ساتھ سات تھی کبھی اپنی زندگی کے نو سالوں کی کہانی سنانے لگ جاتی تو کبھی اس کی زندگی کے نو سال کی آب بیتی سننا چاہتی جو عالیان چاہ کر بھی سب سچ سچ نہ بتا سکا تھا ۔
ہاں بھائی کی جان اب کیا یاد آ گیا ۔ عمارہ جب بھی یوں بھائی بولتی تو اسے کوئی نا کوئی ماضی کی بات یاد آئی ہوتی تھی ۔
بھائی آپ ان سے ملے ہیں کیا ۔
کن سے ۔
انہی سے جن کی وجع سے آپ کو گھر چھوڑ کر جانا پڑا ۔ عمارہ سر اٹھاتے بولی ۔
ارے امی کی بات کر رہی ہو ان سے تو آتے ہی ملاقات ہوئی تھی ۔
بھائی آپ نے انہیں امی کیوں کہا آپ کو تو ان سے نفرت کرنی چاہیے ۔
عمارہ ماں کو ماں ہی کہا جاتا ہے اور ماں سے صرف محبت کی جاتی ہے نفرت نہیں ماں جیسا لفظ نفرت کرنے کے لیے بنا ہی نہیں ۔
بھائی انہوں نے جو آپ کے ساتھ کیا اس سب کے باوجود ۔
عمارہ ہم ان سے ناراض ہو سکتے ہیں ناراضگی ظاہر کر سکتے ہیں مگر ہمیں نفرت کرنے کا حق کسی نے نہیں دیا اور وہ بھی ہماری طرح ہی ایک انسان ہیں اور غلطی تو انسان سے ہی ہوتی ہے غلطی تو حضرت آدم سے بھی ہو گئی اور پھر آدم نے معافی مانگ لی ۔
بھائی انہوں نے معافی کب مانگی ۔
عمارہ جھوٹ مت بولنا کہ انہوں نے اتنا عرصہ تم سے معافی ہی نہیں مانگی ۔
عمارہ کو اپنی ماں کے جڑے ہوئے ہاتھ یاد آئے ۔
مگر بھائی انہیں معافی تو آپ سے مانگنی چاہیے نا کہ میرے سے ۔
تو ان سے ناراض ہونے کا حق بھی صرف مجھے ہے نا تمہیں ۔ عالیان کان کھینچتے بولا ۔
بھائی لگتی ہے ۔ عمارہ نے کان سہلاتے کہا ۔
بھائی لگتی ہے عالیان نے اسی کے انداز میں دہرایا تھا ۔
***************************************
آج رات چوہدری حویلی میں اس کی پہلی رات تھی اتنے سالوں بعد اپنے گھر اپنی چار دیواری میں وہ کھل کر سانس لے رہا تھا جب عمارہ اسے بلانے آئی ۔
بھائی سونے لگے ہیں کیا ۔
نہیں ارادہ تو تھا مگر نیند ہی نہیں آ رہی ۔
اچھا تو چلیں ہم چھت پر چلتے ہیں ۔
کیوں ۔
کیوں کیا مطلب میں نے سب کو اکٹھا کر رکھا ہے بس آپ بھی آ جائیں ہم لڈو کھیلیں گے ۔
یعنی سارا منصوبہ تیار تھا ۔
بھائی بہن کس کی ہوں پھر ۔ عالیان نے پیار سے اس کا ماتھا پکڑا اور بوسہ دیا ۔
بھائی چلیں بھی دیر ہو رہی ہے سب ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے ۔
ہاں ہاں چلو ۔ عفاف اور عالیان اوپر پہنچے تو سب ان کے انتظار میں فرش پر چادر بچھائے گول دائرے میں بیٹھے تھے ۔ سب نے ساتھ ساتھ ہوتے جگہ بنائی ۔
یار یہ تو مسئلہ ہو گیا ہم تو دس لوگ ہیں اور لڈو میں جگہ صرف چھ بندوں کی ہے ان کے سامنے بڑی چھ بندوں کے کھیلنے والی لڈو موجود تھی ۔ صائم نے تشویش کا اظہار کیا ۔
میں نہیں کھیلتی ویسے بھی مجھے اتنی اچھی کھیلنی نہیں آتی ۔ ماہم نے سائڈ ہر ہوتے کہا میں صائم کی پاٹنر بن جاتی ہوں ۔
چلو اب تین اور لوگ جو کسی کی پاٹنر بننا چاہیں زین نے شرارتً کہا ۔
میں تو کھیلوں گی نا ہی یہاں کوئی میرا پاٹنر ہے دوسری بات مجھے لڈو کھیلنی آتی ہے ۔ دانیا نے لڈو کی لال رنگ کی گوٹیاں اپنی طرف کرتے کہا ۔
ماہم زین اور عفاف کو چھوڑ کر باقی سب نے لڈو کھیلی عفاف بیچ میں اٹھ کر سب کے لیے کھانے کو بسکٹ اور کیک لے آئی جو اس نے صبح ہی بیک کیے تھے ۔
لڈو کا وجیتا صائم قرار پایا ۔
صائم تم نے بہت چیٹنگ کی ہے ۔ دانیا نے لڈو ایک طرف کرتے ہوئے کہا ۔
میں نے کوئی چیٹنگ نہیں کی بس قسمت میرے ساتھ تھی اب آپ کا ایک نہیں آیا تو میرا کیا قصور ہے ۔
اسی لیے میں کہہ رہا تھا لڈو نہیں کھیلنی لڑائی ہو جانی ہے ۔ محد نے دونوں کو لڑتا دیکھ تبصرہ کیا ۔
ہم لڑ تو نہیں رہے ۔
نہیں تم لوگ تو دونوں کے اہم مسئلوں پر اپنی قیمتی اراء پیش کر رہے تھے ناں ۔ محد نے اسی تیزی سے جواب دیا ۔
عالیان تم کیوں چپ بیٹھے ہو ۔ زوہیب نے عالیان کو خاموش دیکھا تو بولا ۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔
ہاں عالیان کچھ اپنے بارے میں بھی بتاؤ کہاں رہے کن لوگوں نے تمہارا اتنا خیال رکھا جوب کیا کرتے ہو ۔
لوگوں کے بارے میں کیا بتاؤں کون تھے بہت ہی بھلے لوگ تھے اور جوب کے بارے میں میں کچھ بتانا نہیں چاہتا ۔ عالیان نے چند الفاظ میں جیسے پوری داستان بیان کر دی ہو ۔
اچھا بھائی یہ بتائیں لڑکی کا کیا سین ہے کوئی پسند آئی ۔ عمارہ نے سوال تو عالیان سے کیا تھا مگر نظروں ہی نظروں میں زوہیب کو بہت کچھ بول دیا تھا زوہیب بھی اتنی پرانی بات یاد کر کہ ہنس پڑا ۔
عمارہ نے بہت پہلے زوہیب سے کہا تھا کہ عفاف اس کی بھابی بنے گی ۔
عمارہ پہلے تمہارا بھائی تو مل جائے اور پھر اگر وہ مل بھی گیا تو کیا گارنٹی ہے کہ اسے کوئی اور پسند نہیں ہو گا ۔
تب عمارہ نے کہا تھا کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔
لڑکی اور مجھے ۔۔ عالیان ہنس کر بولا حالانکہ نظریں عفاف پر ہی تھی ۔
بس سہی ہے پھر آپ کے لیے لڑکی میں ڈھونڈوں گی ۔
ارے کیوں کسی بچاری لڑکی کی زندگی برباد کرنی ہے ۔ عالیان نے سرد لہجے میں کہا ۔
کیوں اتنے اچھے تو ہیں میرے بھائی ۔
عمارہ ضروری تھوڑی ہے اسے بھی میں اچھا لگوں ۔
لگ جائیں گے بلکہ کسی بھی لڑکی کو لگ جائیں گے ۔
سب آہستہ آہستہ چلے گئے مگر عفاف ویہیں کھڑی سب کے جانے کا انتظار کر رہی تھی ۔
سنیں ۔ عفاف نے اسے پیچھے سے آواز دی ۔
آپ ہر وقت مجھے گھورتے رہتے ہیں ۔ عالیان اس کے پاس آیا تو عفاف نے گلہ کرتے کہا ۔
میں ۔۔۔ میں نے کب گھورا تمہیں ۔ عالیان تھوڑا بوکھلایا مگر اس نے بوکھلاہٹ ظاہر نا ہونے دی ۔
ابھی میں نے خود دیکھا آپ کو مجھے گھورتے ہوئے ۔ عفاف نے بھی صاف الفاظ میں کہہ دیا ۔
ارے وہ تو میں تمہاری بالی دیکھ رہا تھا کافی اچھی ہے مجھے کافی پسند آئی کہاں سے لی ہے مجھے بھی چاہیے ایسی ہی ۔ عالیان موضوع اس کے کان میں پہنی بالی کی طرف لے گیا ۔
آپ کو کیوں چاہیے آپ کیا کریں گے ۔ عفاف حیرت سے بولی ۔
کیا کروں گا کیا مطلب پہنو گا میں ۔ وہ اسے حیران کرتا بولا ۔
پہنے گے ۔ عفاف مکمل حیرت زدہ ہوتے بولی ۔
ہاں ناں یہ دیکھو (اس نے اپنے کان کی طرف اشارہ کیا) میرے تو کان بھی سلے ہوئے ہیں ۔
عفاف اسے اسی حیرت سے دیکھتی رہ گئی ۔
ارے حیران مت ہوں مرد بھی کان سلواتے ہیں اور میں آپ کو بالکل نہیں گھور رہا تھا ۔
***************************************
زین صائم عفاف اور ماہم آج مووی دیکھنے آئے تھے انہوں نے باقی سب کو بھی چلنے کو کہا مگر عمارہ نے تو ضد لگا لی تھی کہ پہلے عالیان کو مناؤ پھر وہ مانے گی اور عالیان چاہتے ہوئے بھی یاور لاکھانی کی وجع سے ان کے ساتھ نہیں چل سکا ابھی پہلے اسے یاور لاکھانی کا کام تمام کرنا تھا اسے سائڈ پر کرنا تھا زوہیب اپنے آفس کے کام کے سلسلے ميں مصروف تھا اور محد نے بھی جوائنگ دے دی تھی دانیا کے اپنے کام ہی ختم نہیں ہوتے تھے اور عنایہ کا موڈ نہیں تھا ان کے لاکھ منانے پر بھی کوئی رضامند نہیں تھا ۔
انہوں نے ایک بولیوڈ ہورر مووی کا انتخاب کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ عفاف کتنا ڈر جاتی ہے اور ماہم تو ایک وقت میں ہورر مووی کے نام سے ہی چھپ جایا کرتی تھی مگر زین اور ماہم نے مووی کی چار ٹکٹز خرید لی وہ تو اندر جا کر انہیں معلوم ہوا کہ مووی لگنے کون سی والی ہے عفاف نے گھور کر ان دونوں کو دیکھا اٹھ کر جانا چاہا مگر زین نے اسے چپ کر کے بیٹھا دیا ۔
عفاف میڈم آپ واپس کس کے ساتھ جائیں گی اس لیے چپ چاپ بیٹھ جاؤ ۔ زین کے یوں بولنے پر عفاف نے اسے اور زیادہ گھور کر دیکھا مگر ساتھ ہی چپ کر کے بیٹھ گئی ۔
مووی شروع ہوئی شروع کا آدھا گھنٹہ تو جیسے تیسے گزر گیا بیچ بیچ میں عفاف بار بار کہتی رہی کہ واپس چلتے ہیں مگر اس کی وہاں بیٹھا سن کون رہا تھا ۔ ماہم زین اور صائم مزے سے مووی انجوائے کر رہے تھے پھر ایک نسوانی چیخ ابھری اور ساتھ ہی اس سے کئی گنا بلد عفاف کی چیخ کہ وہاں بیٹھے ہر ایک شخص نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ مشکل سے یہ لوگ وہاں دس منٹ اور بیٹھے ہوں گے ۔
دس منٹ بعد تینوں گاڑی میں بیٹھے تھے ۔
عفاف مسلسل رو رہی تھی یہ سوچ کر کہ وہ رو رہی ہے اسے اور رونا آ رہا تھا اور یہ سوچ کر کہ اسے سب روتا دیکھ رہے تھے اسے اور زیادہ رونا آنے لگتا تھا اسی بیچ صائم ماہم سے مخاطب ہوا ۔
یار تمہیں تو ایک وقت میں بہت ڈر لگتا تھا ناں اب کیا ہوا ۔
ماہم کی آنکھوں سے وہ تمام منظر گزرے لوگے کے زخمی جسم کٹی زبانیں اور جانے کیا کیا اور اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو گئی ۔
بس اب ڈر نہیں لگتا زندگی کی حقیقتیں اور زندہ لوگوں کی مردہ حالتیں اس سے کئی زیادہ ڈراونی ہیں ۔
صائم کو لگا کہ شاید اس کے گھر والوں کی اچانک موت نے اسے اس طرح کا بنا دیا ہے ۔
***************************************
کمرے میں ہر طرف ایک سرخ روشنی پھیلی ہوئی تھی اس کے علاوہ وہ کمرہ مکمل طور پر خالی تھا نا ہی کوئی روشندان موجود نا ہی ہوا کہ لیے کسی کھڑکی کا اسرا اوپر سے کمرا بہت زیادہ کھلا بھی نہیں تھا جس بعض کمرے میں ہبث تھی کہ کمرے میں کھڑا ہونے کا دل نا کرے اور اس ماحول میں ایک شخص کرسی پر زخمی حالت میں پڑا تھا اس کو اتنا مارا گیا تھا کہ وہ زندہ اور مردہ کی حالت کے بیچ میں واقع ہوتا تھا جیسے کسی نے ڈور پکڑ رکھی ہو اور وہ ڈور کبھی بھی چھوٹنے والی ہو ۔ عالیان نے آتے ہی اس کے منہ سے کالے رنگ کا کپڑا اتارا تھا اور اسے چند گھونٹ پانی پلایا تھا کہ وہ زندہ رہ سکے  پانی پیتے اسے اپنی سانسیں بحال ہوتی محسوس ہوئی جیسے جسم میں زندگی ایک لمحہ کو گردش کر کہ گئی ہے ۔
ہاں اب بتا تجھے کیا کیا معلوم ہے ۔ عالیان نے اسے بالوں سے جکڑا تھا مگر وہ شخص اپنی خاموشی توڑنے کو کسی صورت رضامند نا تھا یاور کا مخلص لگتا تھا ۔
شیر اس شخص کی ایک وڈیو بناو جس میں پہلے اس کے ہاتھ کاٹے جا رہے ہوں پھر زبان پھر اس کا دھڑ سر سے جدا کر دیا جائے اور پھر اسے اس کے گھر بھیج دیا جائے ۔ عالیان اس کی کمزوری جانتا تھا مگر ان کے اصول تھے کہ کسی بھی معملے میں کسی بھی شخص کی فیملی کو نہیں گھسیٹا جائے گا کسی بھی صورت نہیں مگر اس بار معملہ مختلف تھا یہ شخص انہیں یاور کی بربادی تک لے جا سکتا تھا ۔
عالیان کے الفاظ کرنٹ بن کر اس شخص کو اپنے جسم میں محسوس ہوئے تھے ۔ وہ شخص بولا تھا اور عالیان کے چہرے پر الگ رونک دوڑی تھی ۔
***************************************
صائم لوگ جب گھر پہنچے تو عالیان بھی باہر سے اندر کی طرف آ رہا تھا ۔
تم لوگوں کو کیا ہوا مووی جلدی ختم ہو گئی کیا ۔ عالیان نے انہیں وقت سے پہلے گھر پہنچے دیکھا تو بول پڑا ۔
مووی کی کیا بات کرتے ہو ہم تو ہر وقت اپنے ساتھ مووی لے کر چلتے ہیں یہ مووی ختم ہو تو کوئی اور شروع کریں ۔ صائم شرارتً بولا ۔
کیا مطلب ۔ عالیان کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی جس پر زین نے عفاف کی طرف اشارہ کرتے کہا ۔
ہم ہورر مووی دیکھنے گئے تھے ۔
عفاف کی شکل اتنی بھی ڈراونی نہیں ہے کہ تم لوگوں کو مووی دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نا ہوئی ۔ عالیان بھی اسے تنگ کرتا بولا ۔
ہاں شکل تو ڈراونی نہیں ہے مگر حرکتیں تو ہیں ناں ۔ صائم کی بات پر سب کا قہقہہ بلند ہوا ۔
عفاف چاروں کو گھورتے کمرے کی طرف چلی گئی ۔
***************************************
عالیان کو یہاں آئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور اس بیچ وہ اپنے پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی پوری کرتا رہا تھا اسی بیچ یاور لاکھانی کی دانیا کو کئی بار کالز آ چکی تھی ہر کال میں ایک ہی دھمکی آج بھی اسے یاور لاکھانی کی کال آ رہی تھی مگر اس بار اس کے چہرے پر الگ رونق تھی وہ جانتی تھی اس بار یاور نے کال کھوکھلی دھمکیاں دینے کے لیے دی تھی اس بار جو اس کے ساتھ ہوا تھا وہ پوری زندگی لگا دے تو بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا دانیا نے ایک ادا سے فون اٹھایا کال اٹھاتے اس نے یاور لاکھانی کو بولنے کا پورا موقع دیا وہ بولتا رہا اور دانیا سنتی رہی اس کی گالیاں اس کی دھمکیاں سب اتنا حق تو تھا یاور کا کوئی بھی شخص اگر یاور کی جگہ ہوتا تو وہ یہی کرتا یاور کا بلیک مارکیٹ کاروبار بند ہو چکا تھا پولیس نے اس کے سب اڈوں پر چھاپہ مار کر سامان قبضے میں لے لیا تھا اور جب پولیس اس کے اڈوں پر چھاپے مار رہی تھی تب وہ اپنے آفس کی عمارت کو راکھ بنتا دیکھ رہا تھا اس کے ساتھ سب کچھ ایک ہی وقت ایک ساتھ ہوا کہ اسے کچھ سنبھالنے کا موقع نا ملا ۔
دانیا تم بہت پچھتانے والی ہو یہ جو تم نے کیا ہے اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا ہو گا تمہیں کیا لگتا ہے جب محد چوہدری کو معلوم ہو گا کہ تم کوڈ ہے تو وہ تمہیں جانے دے گا وہ تمہیں اسی وقت جیل میں ڈال دے گا ۔ ابھی یاور لاکھانی کچھ بول ہی رہا تھا کہ دانیا نے کال کاٹ دی اور موبائل بستر پر پھینک دیا ۔
***************************************
دانیا سفید کمیز شلوار پر سفید ہی رنگ کا دوپتہ اوڑھے بال پونی میں باندھے جن میں سے کچھ زلفحیں اس کے چہرے پر جھول رہی تھی دو زانوں گم سم کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی باہر ہلکی ہلکی بوندا باری ہو رہی تھی جو اس شام کو حسین بنا رہی تھی مگر دانیا کے اندر تک تو اداسی چھائی تھی کسی کو کھو دینے کا غم اندر تک بے چین کیے ہوئے تھا اس کی نظریں سامنے موجود دیوار پر جمی تھی اور سوچ ویہیں ایک جگہ اٹکی ہوئی تھی کہ وہ اب تک آیا کیوں نہیں اب تو اس شخص کا انتظار بھی ختم ہوتا جا رہا تھا جس کے انتظار میں وہ پل پل کاٹ رہی تھی جس پر اسے بھروسہ تھا کہ وہ اسے یہاں سے لے جائے گا مگر یہاں پر ایک ایک منٹ کا انتظار سالوں کا سفر لگتا تھا ۔ ہر طرف سے آتی شور کی آوازیں اس کے کانوں کو بہرا کرنے کو کافی تھی اسے اپنا دماغ مفلوجی کی طرف جاتا دیکھائی دے رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سچ میں پاگل ہو رہی ہے ایک ذہنی مریض بنتی جا رہی ہے ، یہاں پر موجود لوگ اسے ایک گونگے بہرے اور آندھے شخص کی حیثیت سے جانتے تھے جو نہ بولنے سے واقف ہو اور نہ ہی اسے کچھ سنائی یا دیکھائی دیتا ہو حالانکہ پہلے دن دانیا بھی چیخی تھی چلائی تھی مگر جب یقین آ گیا کہ یہاں کوئی اسے سننے والا نہیں اس کی بات بے معنی ہے یہاں اس کے الفاظ سوائے شور کے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اس وقت سے اس نے اپنی زبان پر تالا لگا لیا ۔ اتنے میں اس کے پاس ایک عورت آتی ہے جس کے ذمہ یہاں کی ذمہ داری لگائی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھو ۔ وہ عورت اس کے سامنے کھڑی اس سے مخاطب تھی اس کی آواز پر دانیا اپنے قدموں پر کھڑی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چلو تم سے ملنے کوئی آیا ہے ۔ عورت نے اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا وہ اس کے ساتھ قدم بڑھاتے چل رہی تھی دل کی امید پھر جاگ گئی کہ وہ آ گیا ہے اس کا انتظار بےکار نہیں گیا وہ منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں اسے آئے شخص سے ملاقات کرنی تھی ملاقات کی جگہ زیادہ فاصلے پر نہ تھی اسی لیے وہ جلد ہی پہنچ گئے سامنے کھڑے شخص کی اس کی طرف پیٹھ تھی ان کے قدموں کی چاپ سنتے اس نے رخ ان کی طرف موڑا اس شخص پر پڑنے والی پہلی نظر نے لڑکی کے دل کو سکون دلایا تو جس کا اسے انتظار تھا وہ آچکا تھا اس کے سامنے محد چوہدری کھڑا تھا اس کی امید اس کے بھروسہ کو اس نے ٹوٹنے نہیں دیا تھا وہ آیا تھا اور وہ اسے یہاں سے لے جائے گا اس بات پر اس کا ایمان تھا مگر وہ اتنے دنوں سے یہاں آیا کیوں نہیں تھا کیا وہ بھی سب لوگوں کی طرح اسے زہنی مریض سمجھتا ہے کیا اس کی نظر میں وہ پچھلے چار دنوں سے پاگل خانے میں پڑی ایک پاگل ہے ۔
محد تم آ گئے ۔ دانیا نے امید بھرے لہجے میں کہا ۔
ہاں میں آ گیا ہوں تمہیں یہ بتانے کہ لیے کہ تم میرے لیے کوئی معانی نہیں رکھتی میری نظر میں ایک کوڈ کی کوئی قدر نہیں کوئی مکام نہیں تم جیسی لڑکی اسی کے قابل تھی ۔
محد ایسے مت کہو محد محد ۔ محد وہاں سے چلا گیا اور وہ محد کا نام لیتی رہ گئی ۔
محد ۔ دانیا نے ہلک سے چیخا تھا وہ اس کی امیدیں توڑ کر کیسے جا سکتا تھا ۔
اور پھر دانیا کی آنکھ کھل گئی خود کو اندھیرے کمرے میں پایا روشندان جلا کر کمرے میں روشنی کی ساتھ میز پر پڑے گلاس میں پانی ڈال کر پانی کیا خود کو نارمل کرتی وہ پھر سے سونے کے لیے لیٹ گئی مگر اب نیند ان آنکھوں کے نصیب میں کہاں تھی ۔ پچھلے چار سالوں میں اسے تیسری بار یہ خواب آیا تھا پچھلی دو بار جب آیا تھا تو وہ ایک لمحہ کے لیے سب کچھ بھول جاتی تھی کہ وہ کیا ہے کہاں ہے کیوں ہے مگر اس بار اس کی حالت قدرے بہتر تھی ۔
***************************************
عالیان کمرے میں بیٹھا تھا جب عفاف اس کے کمرے میں اجازت لیتے داخل ہوئی ۔
کوئی کام تھا کیا ۔ عالیان نے اسے اپنے کمرے میں دیکھا تو حیرانگی سے بولا ۔
جی بہت ضروری کام ہے ۔ عفاف نے سپاٹ انداز میں کہا ۔
عفاف نے اپنی ہتھیلی اس کے سامنے کھولی۔
یہ کیا ہے ۔ عالیان نے اس کی ہتھیلی میں پڑی بالی دیکھی تو بولا ۔
بالیاں ہیں بالکل ویسی ہی جیسے آپ کو چاہیے تھی ۔
مگر اس بات کو تو ایک ہفتہ گزر گیا ہے ۔ عالیان مسلسل ان بالیوں کا دیکھ رہا تھا ۔
ہاں مگر اس وقت میں اپنی بالی تو نہیں دے سکتی تھی اسی لیے دھونڈنے میں ٹائم لگ گیا ۔
مگر اس کی کیا ضرورت تھی ۔ عالیان کبھی اسے کے ہاتھ میں پڑی بالیوں کو دیکھتا تو کبھی اسے ۔
آپ یہ بالیاں رکھیں اور آج کے بعد مجھے مت گھورنا ۔
میں نے تمہیں کب گھورا میں نے تو ۔۔۔۔۔
جی جانتی ہوں آپ مجھے نہیں میری بالیوں کو دیکھتے تھے مگر آج کے بعد وہ بھی مت کیجئے گا ۔
مگر مجھے تو بالیوں سے زیادہ بالیاں پہننے والی پسند ہے ۔ عالیان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔
عفاف کو اس سے اس قدر صاف جواب کی توقع نہ تھی ۔
کچھ کہیں گی نہیں بالیاں پہننے والی کے بارے میں ۔ عفاف باہر نکلنے لگی تو پیچھے سے عالیان کی آواز نے قدم جامد کر دیے مگر وہ پھر ہمت کر کہ بنا کچھ بولے باہر نکل آئی اب نا ہی اسے محبت میں کوئی دلچسپی تھی نا ہی محبت کرنے والوں میں اسے محبت لفظ ہی ایک جھوٹ ایک فریب کے سوا کچھ نہیں لگتا تھا ۔
***************************************
آج دانیا کو چوہدری حویلی قدم رکھے ایک ہفتہ ہو گیا تھا محد اور عنایہ کی شادی کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری تھی آخر اب دن ہی کتنے باقی رہ گئے تھے صرف دو ہفتہ اور تیاریاں تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی عنایہ دانیا کے کمرے میں بیٹھی سارے کپڑے بستر پر بکھیرے بیٹھی تھی اور ہر ایک جوڑے کو رد کرتی جا رہی تھی ۔
نہیں یہ بھی نہیں ۔۔ یہ تو بالکل نہیں ۔ ۔ دانیا تمہارا دماغ درست جگہ پر ہے یہ کپڑے یہ ۔۔۔ تم یہ پہنو گی میری مہندی پر ۔
یار کیا کمی ہے ان میں اتنے اچھے تو ہیں ۔ دانیا نے ایک سبز رنگ کا سوٹ اٹھاتے کہا ۔
نہیں نہیں کمی ہی کیا ہے ان میں ایک دم مانگنے والی لگو گی ۔ عنایہ نے سوٹ دانیا کے ہاتھ سے لیتے ایک طرف پھینکا۔
یار اب ایسی بھی خیر کوئی بات نہیں ہے ۔
مجھے لگ رہا ہے مجھ سے زیادہ تو تمہیں شوپنگ کی تمہیں ضرورت ہے ۔
نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں کوئی ناں کوئی پہن لوں گی ۔
جی نہیں بالکل بھی نہیں کچھ ٹھیک نہیں ہے تم آج ہی چل رہی ہو ویسے بھی میں نے برائڈل ڈریس کا جو ارڈ دیا تھا وہ بھی چیک کرنا ہے دونوں کام ایک ساتھ ہو جانے ہیں ۔
یار مجھے سچ میں ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی میں اتنے بھاری کپڑے پہنتی ہی نہیں ہوں ۔
میرے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتی تم ۔ عنایہ نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا ۔
اچھا بابا سہی ہے چلتے ہیں شاپنگ پہ جو کہو گی وہی لیں گے ۔
یہ ہوئی ناں بہنوں والی بات پوری شادی میں پتا چلنا چاہیے کہ دلہن کی بہن کون سی ۔
اور پتا چلا کر کرنا کیا ہے ۔
کیا پتا کوئی لڑکا ہی پسند آ جائے ۔ ۔۔۔۔ ویسے تو لڑکا تو گھر میں بھی موجود ہے خیر ۔
کون وہ چراغ سے نکلا جن خدا کا نام لو عنایہ کیوں میرے ہاتھوں قتل ہونے کے منصوبے بنا رہی ہو ۔ دانیا اپنا سارا غم اپنے اندر چھپائے ہنس ہنس کر باتیں کرتی رہی ۔
***************************************
عمارہ تم یوں منہ پھلا کر کیوں بیٹھی ہو ۔
بھائی فلحال مجھ سے کوئی بات نا کرے تو بہتر ہو گا ۔
زوہیب اسے کیا ہوا ہے ۔ عالیان نے ساتھ بیٹھے زوہیب سے ہوچھا ۔
کچھ نہیں وہ عفاف کا رشتہ آیا ہے تو میڈم کا موڈ خراب ہے (عفاف کے رشتے والی بات پر عالیان کا رنگ بدلا تھا) اتنی دیر سے سمجھا رہا ہوں رشتہ آیا ہے رشتہ طہ نہیں ہوا ۔
مگر اس رشتے کہ بارے میں سوچا تو جا رہا ہے ناں ۔ عمارہ نے منہ پھلائے کہا ۔
ارے اگر کوئی اچھا رشتہ ہوا تو سوچیں گے تو ضرور اور اگر عفاف مان گئی تو اس میں ہرج ہی کیا ہے ۔ ابھی زوہیب کچھ بول ہی رہا تھا کہ عالیان اٹھتا ہوا چلا گیا ۔
عالیان سیدھا عفاف کے کمرے میں گیا ۔
عفاف کیا تم کسی کو پسند کرتی ہو ۔
کیوں آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ۔
میں نے پوچھا کرتی ہو یا نہیں ۔
نہیں ۔
کیا تم مجھے ناپسند کرتی ہو ۔
آپ کیوں اس طرح کے سوال کر رہے ہیں ۔
تم اچھے سے جانتی ہو میں ایسے سوال کیوں کر رہا ہوں تم بس ہاں یا نا میں جواب دو ۔
نہیں ۔
شکریہ ۔ وہ کہتا اس کے کمرے سے باہر نکل آیا ۔
امی آپ چچی سے میرے اور عفاف کے رشتہ کے لیے بات کریں ۔
عالیان کیا ہو گیا ہے تمہیں ایک دم اچانک ۔
امی کچھ نہیں ہوا آپ بس طائی سے بات کریں ۔
پھر بھی تم بتاؤ تو سہی کہ آخر ہوا کیا ہے ۔
امی وہ عفاف کا رشتہ آیا ہے ناں اس سے پہلے طائی ہاں کریں آپ بات کریں ان سے ۔
تمہیں کس نے کہا کہ عفاف کا رشتہ آیا ہے ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی پھر بھی میں بات کروں گی سدرہ سے تم فکر نا کرو ۔
***************************************
عمارہ تماری وجع سے مجھے بھی جھوٹ بولنا پڑا ۔
ارے بھائی کچھ نہیں ہوتا اتنے چھوٹے موٹے جھوٹوں سے آپ کیا چاہتے تھے کہ آپ کی طرح کا ایک اور عاشق پیدا یو جائے ۔
اور تمہیں کیسے پتا کہ وہ عفاف کو پسند کرتا ہے دیکھو عفاف میری بہن ہے ۔
بھائی عفاف میری بھی بہن ہے اور جیسے آپ کی آنکھیں پڑھ لی تھی ناں ویسے ہی ن کی بھی پڑھ لی ۔
بس اسی وجع سے ڈر لگتا ہے مجھے کہیں کوئی جادو وادو نہیں آتا تمہیں ۔
بھائی آتا ہے ناں کالا جادو رات کو چھت ہر الو کی کھوپڑی ہاتھ میں لیے اپنے گرد دائرہ بنائے آگ جلائے ۔
بس بس اتنا کافی ہے ۔
بھائی آپ نے تو سہی سے جادو کا طریقہ بھی نہیں بتانے دیا نوٹ فئیر ۔ ابھی دونوں ہنسی مزاق کر ہی رہے تھے جب سامنے سے عنایہ آتی دیکھائی دی ۔
زوہیب کیا تم ہمیں شاپنگ پر لے جاؤ گے ۔ عنایہ سب سے بات کر چکی تھی مگر ہر کسی کو کوئی ناں کوئی کام تھا اب آخری اوپشن زوہیب بچا تھا ۔
ہاں کس کس نے جانا ہے اور جانا کتنے بجے ہے ۔
میں اور دانیا ہیں بس آدھے گھنٹے میں نکلنا ہے ۔
ٹھیک ہے تم لوگ تیار ہو میں لے جاؤں گا ۔
بھائی کیوں ۔ عنایہ گئی تو عمارہ غصے سے بولا ۔
کیا کیوں ۔ زوہیب نے لاپرواہی سے کہا ۔
بھائی آپ اچھے سے جانتے ہیں میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں ۔
عمارہ بہتر یہی ہے کہ ہم اس بارے میں بات نا کریں ۔
بھائی آپ خود کو تکلیف پہنچا رہے ہیں خود کو درد نا دیں یہ نا ہو کہ زخم جان لے لیں ۔
اب اتنی بھی کوئی والہانہ محبت نہیں ہوئی مجھے ۔
بھائی کتنا جھوٹ بولیں گے آپ میں یہ نہیں کہتی کہ انہیں بھول جائیں یا میں یہ نہیں کہتی کہ جا کر ان سے محبت کا اظہار کر دیں مگر ایسے راستوں پر مت چلیں جہاں کی راہ آپ کے خیال میں آپ کی مددگار ہو گی اس طرح آپ کی بھول ہے کہ آپ انہیں بھول پائیں گے ۔
عمارہ اب میں تمہارے منہ سے ایک لفظ نا سنو ۔
بھائی جیسی آپ کی مرضی میرا کام تھا آپ کو سمجھانا اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتی ۔ عمارہ یہ کہتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ وہاں تنہا رہ گیا اور وہ واقعی تنہا ہی تو رہ گیا تھا سب رشتے آس پاس تھے مگر اندر سے خالی ہو رہا تھا جیسے درخت کھوکھلاتا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ کوئی خوراک اس کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوتی ۔
***************************************
امی مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ کو ایک دم سے میری شادی کی جلدی کیوں پڑ گئی ہے ۔ عفاف اپنے سامنے بیٹھی سدرہ سے مخاطب تھی ۔
ایک دم سے کہاں لڑکیوں کے رشتے تو آتے ہی ہیں اور اگر ایک اچھا رشتہ آیا ہے تو اس پر غور کرنے میں کیا حرج ہے ۔
امی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ۔ عفاف نے صاف انکار کرتے ہوئے اپنا پورا دھیان موبائل کی طرف موڑ لیا ۔
عفاف نادیہ بہت مان سے تمہیں مانگا ہے ۔
تو کیا امی آپ ان کا مان رکھنے کے لیے ایک کل کے آئے شخص کے ہاتھ میں اپنی بیٹی سونپ دیں گی ۔
عفاف عالیان گھر کا بچہ ہے اور ہم کون سا شادی کے لیے کہہ رہے ہیں جان لو سمجھ لو پھر کر لینا شادی ۔
یعنی آپ سب کچھ پہلے سے ہی طہ کر چکی ہیں تو پھر یہ تکلف کیسا آج ہی نکاح پڑھا دیں ۔
عفاف کیسی باتیں کر رہی ہو ۔
امی سہی ہی تو کہہ رہی ہوں اگر آپ کو مجھ سے زرا بھی محبت ہوتی تو آپ ایسے آ کر مجھ سے بات نہیں کر رہی ہوتی ۔
زین تم ہی بات کرو اس سے سمجھاو اسے ۔ زین جو کسی کام سے آیا تھا دونوں کو باتوں ميں مصروف دیکھ مڑنے ہی لگا تھا جب سدرہ نے پیچھے سے آواز دے کر روک لیا ۔
جی طائی امی آپ فکر ہی ناں کریں آپ جائیں میں کرتا ہوں بات ۔
ہاں عفاف کیا کمی ہے عالیان میں ۔ سدرہ کے کمرے سے نکلتے ہی وہ عفاف کی طرف موڑا ۔
بھائی کوئی کمی نہیں ہے ۔
تو پھر ۔
بھائی مجھے ڈر لگتا ہے اور میں انہیں جانتی بھی تو نہیں ہوں ۔
عفاف اپنے دل سے ہر ڈر نکال دو اور پیچھلی  تمام چیزوں کو بھول جاؤ اور رہی بات جاننے نا جاننے کی تو یہ مت سوچو کہ کوئی تم پر زبردستی کر سکتا ہے جب تک میں زندہ ہوں کوئی تماری مرضی کے بغیر تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا ۔ زین اسے تحفظ کا احساس دلاتا کمرے سے باہر نکل گیا ۔
***************************************
زوہیب عنایہ اور دانیا مال میں گھوم رہے تھے سب سے پہلے وہ بوتیک گئے جہاں عنایہ نے اپنے شادی کے جوڑے کا ارڈر دیا ہوا تھا جوڑا تقریباً تیار تھا وہ ایک بھاری لال لہنگا تھا جس کے دوپٹے اور چولی کا کام مکمل ہو چکا تھا لہنگے کا بھی تقریباً ساٹھ سے ستر فیصد کام مکمل ہو چکا تھا ۔ عنایہ نے دوپٹا اپنے سر پر ٹکاتے دانیا کی طرف رخ موڑا تھا کہ اس کی رائے لے سکے زوہیب دانیا کے بالکل پیچھے کھڑا تھا عنایہ کا اس کی طرف رخ ہوا تو وہ اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ گیا ۔
ماشاءاللّٰہ بہت پیاری لگ رہی ہو جب پورا سوٹ پہنو گی تو بیت حسین لگو گی ۔ دانیا نے تعریف کرتے کہا ۔
چلیں یا ابھی اور کوئی کام ہیں ۔ اتنے میں پیچھے سے زوہیب کی آواز سنائی دی ۔
ہاں ہاں چلتے ہیں ۔ عنایہ نے دوپٹا واپس کرتے ہوئے کہا ۔
پورے وقت زوہیب نے آنکھیں چشموں سے چھپا رکھی تھی ۔
***************************************
عفاف تمہیں مجھ سے کوئی مسئلہ ہے کیا ۔ عالیان فکرمندی سے بولا تھا ۔ عفاف کے ردِعمل کے بعد زین نے عالیان سے بات کی تھی اس کے بعد عالیان کی خواہش تھی کہ وہ عفاف سے بات کرے اس کی رضامندی کے ساتھ اور زین کے کہنے پر ہی عفاف عالیان کے ساتھ بات کرنے کے لیے رضامند ہوئی تھی ۔
کیوں آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے ۔ عفاف اس کی طرف دیکھتے بولی ۔
مجھے زین نے کہا کہ تم شادی کے لیے تیار نہیں ہو اور میں امی سے کہوں کہ وہ اس شادی کے مطلق کوئی بات نا کریں ۔
وہ ۔ ۔ عفاف کے پاس کچھ بولنے کو نہیں تھا ۔
عفاف اگر تم مجھے پسند نہیں کرتی یا تمہیں کوئی اور پسند ہے ۔ ۔ ۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ اس سے پہلے عالیان بات مکمل کرتا عفاف نے تردید کر دی ۔
تو پھر کیا بات ہے ۔
میں ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہوں ۔
تم ابھی شادی کے لیے تیار نہیں ہو یا مجھ سے شادی کے لیے تیار نہیں ہو ۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ میں کوئی ایسی برائی نہیں ہے کہ میں آپ کو ناپسند کروں ۔
اچھا تو یعنی میں انتظار کر سکتا ہوں یہ نا کو کہ میں انتظار کرتا کرتا ہی بوڑھا ہو جاؤں ۔
اس کی بات پر عفاف مسکرا دی ۔ اب ایسی بھی بات نہیں ہے عمر ہی کتنی ہے آپ کی زوہیب بھائی کو بھی تو دیکھیں ۔
زوہیب تو ویسے ہی اکلوتا پیس ہے اس کی تو کیا ہی بات کی جائے اس سے ہمارا کیا مقابلہ ۔
ہاہاہا ۔
تم ہنستی بھی ہو مجھے تو لگا تھا صرف عجیب عجیب شکلیں بناتی ہو اور روتی ہو ۔
جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
اوہو چلو تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔ عفاف آئی ایم سوری ۔ عالیان کو کچھ یاد آیا تھا ۔
اٹس او کے ۔ عفاف سمجھ گئی تھی کہ وہ کس بات کے لیے معافی مانگ رہا تھا ۔
عفاف مجھے اس طرح تم سے آ کر نہیں پوچھنا چاہیے تھا بس اس وقت مجھے سمجھ نہیں آیا تھا جب تمہارے رشتے کی بات کا پتا چلا ۔
میں نے کہا اٹس او کے ۔
عالیان کی نظر اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر گئی جس میں اس نے خود کا عکس دیکھا وہ کتنا بدل گیا تھا رشتوں نے محبتوں نے اسے کتنا بدل دیا تھا کہ اسے خود سے سوال پوچھنے پر مجبور کر دیا کہ کیا یہ وہی کوڈ ہی ہے یا عالیان چوہدری کیا کوڈ اور عالیان چوہدری ایک ہی شخص ہیں یا ایک جسم میں دو مختلف لوگ ۔
**************************************
اسلام علیکم مجھے معلوم ہے زیادہ وقت ہو گیا ہے مگر آگے قسط جلد آئے گی امید ہے آپ حیات المیراث اور اس کے کرداروں کو بھولے نہیں ہوں گے ۔
شکریہ !

حیات المیراث CompletedNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ