بادلوں کی گرج اپنی کہانی سنا رہی تھی اور آسمان سے نیچے اترتے رقص کرتے بارش کے قطرے فضا کو مہکائے ہوئے تھے ۔ آسمان کو سیاہ بادلوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا اور اس منظر کا دور سے مشاہدہ کرتے محد نے سگڑٹ سلکھائی تھی اور چلتا ہوا کھڑکی کے پاس آ گیا تھا وہ سگڑٹ پینے کا عادی نہ تھا اور نہ ہی وہ اس کا خاص شوق رکھتا تھا مگر کبھی کبھار پی لیتا تھا ۔ سگڑٹ کا کش لگاتے وہ پوری طرح کھڑکی کے پار منظر میں ڈوبا ہوا تھا ابھی اس نے دو کش ہی لگائے تھے کہ دل بھر گیا اور اس نے سگڑٹ پاس پڑی بِن میں پھینک دی اور خود پھر سے اپنے نگر میں کھو گیا جہاں صرف وہ رہتی تھی اور اس کی یادیں ۔
محد جانتے ہو ۔ شارقہ نے بغور محد کو دیکھا تھا ۔
ہممم ۔ محد اس سے بےنیاز بارش کے رقص کرتے قطروں کو دیکھ رہا تھا شارقہ کو گمان ہوا کہ شاید محد نے اس کی بات سنی تک ناں تھی ۔
شارقہ خاموش ہو گئی محد سے بےنیاز جیسے یہاں دو اجنبی لوگ موجود ہوں ایک دوسرے سے لاتعلق وہ دونوں جانتے تھے انہیں کب بات کرنی ہے کب نہیں وہ ایک دوسرے کو بولنے کے لیے مجبور نہیں کرتے تھے اور یہ بات ان کے بیچ مضبوط رشتہ قائم کیے ہوئے تھی وہ خاموشی میں بھی ہم گو ہو جایا کرتے تھے جب الفاظ ختم ہو جائیں تو جزبات اپنی زبان میں کلام کرتے ہیں اور یہ گفتگو ان کی بیچ خاصی پرانی ہو گئی تھی ۔
محد شارقہ سے جب ملا تو وہ بالکل مختلف تھی جب اس سے بات کی تو وہ بالکل مختلف شخص لگی اور جب جزبات کی زبان شروع ہوئی تو وہ اسے اور مختلف لگی وہ کبھی کھل کر ہنستی تھی بنا بات کہ ہنس دیا کرتی تھی اور کبھی کبھار خاموش سحرا بن جایا کرتی جہاں دور دور پانی کے اثار ملنا بھی مشکل ہوتے وہ لڑکی اس کے لیے پہیلی بن چکی تھی جسے وہ جتنا ہل کرتا وہ اتنی ہی الجھ جاتی جب وہ اس سے ملا تھا تو وہ ایک خاموش سحر تھی جیسے کسی جادو گر نے جادوگری کر کے اسے خاموش کرا دیا ہو ۔ پھر ایک روز اس نے اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا وہ جادو ٹوٹ گیا سحر ٹوٹ گیا جب محد اس سے آخری بار ملا تب وہ اتنی ہی خاموش تھی جتنی پہلی ملاقات پر تھی منو مٹی وہ لیٹی آرام کر رہی تھی محد نے آخری نظر اس کی قبر پر ڈالی اور رخ موڑ لیا اس سے وہاں کھڑا نہیں رہا گیا ایک لمحہ بھی کھڑا رہنا مشکل تھا اسے الوداع کہنا آسان نہ تھا مگر وہ خدا حافظ کہتا اپنی گاڑی میں آ بیٹھا وہ گاڑی کب تک ویہیں کھڑی کیے رہا اسے یاد نہیں تھا بس خود کو یقین دیلانے کی سعی تھی جو وہ اپنی طرف سے کر رہا تھا دل نے گواہی دی کہ وہ یہیں کہیں ہے مگر وہ کہیں نہیں تھی اب اسے اس کی خاموشی یاد آ رہی تھی بارش نے زور پکڑا تھا اور اب بارش رقص کرتے اس کے کمرے میں داخل ہونا چاہ رہی تھی محد نے کھڑکی بند کر دی اور بارش کا راستہ بند کرتے میزبان بننے سے انکار کر دیا ۔ محد نے چھت کو ایک نظر دیکھا اور پھر گردن پیچھے گراتا بیڈ پر ٹیڑھے رخ لیٹ گیا کب آنکھ لگی اور وہ اسی رخ سو گیا اسے خبر نہ ہوئی ۔
************************************
حادیہ کل رات ہی جا چکی تھی سب کے لاکھ روکنے کے باوجود وہ سسرالی معاملات کا بہانا بناتی سب کو مطمئن کرتی روانہ ہو گئی تھی حالانکہ حادیہ کے یوں اچانک جانے میں زیادہ ہاتھ سدرہ کا ہی تھا مگر وہ یہ بات کسی سے نہیں کر سکتی تھی کیونکہ اس صورت میں اسے پوری بات بتانی پڑتی جو فلحال ممکن نہ تھا ۔
گھر میں مہمانوں کے آنے کی تیاریاں مکمل تھی ان کے لیے کمرے صاف کروا دیے گئے تھے اور زوہیب کے ذمہ انہیں ایرپورٹ سے لانا لگا تھا، دوپہر کے کھانے کی تیاریاں جاری تھی ہمیشہ کی طرح چوہدری حویلی میں مہمانوں کے لیے کھانے کی زور و شور سے تیاریاں کی جا رہی تھی آج تو عنایہ بھی دل بڑا کرتے کچن میں گھس گئی تھی ۔
ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ دو بندوں کے لیے سو بندوں کے احتمام کی کیا تک بنتی ہے ۔ عمارہ صوفے پر اڑھی ترچھی بیٹھے بولی تھی آج ہفتہ تھا تو سب گھر پر ہی موجود تھے دانیا نے ہفتے کا دن اسی وجع سے منتخب کیا تھا تا کہ وہ سب سے مل سکے خاص کر عنایہ سے نورین سے تو وہ جب بھی آتی ملاقات ہو جاتی مگر عنایہ کے معملے میں ایسا نہ تھا اس کا دن کا زیادہ حصہ یونیورسٹی میں ہی گزرتا تھا اور دانیا میں اور صبر ہرگز نہیں تھا ۔
یہ ہماری روایت ہے مہمانوں کی خاطر ہم ان کی نہیں اپنی حیثیت کے حساب سے کرتے ہیں اور کیا یہ چوہدری حویلی کو زیب دے گا کہ اس میں آنے والے اس میں آئیں اور اسے بھول جائیں ۔ صباء نے گوشت دھوتے کہا تھا ۔
آپ تو ایسے کہ رہی ہیں جیسے چوہدری حویلی نہ ہو گئی اکبر کا قلعہ ہو گیا ۔ عمارہ نے صوفے پر اپنا زاویہ درست کرتے اٹھ کر صوفے کی پچھت سے ٹیک لگاتے کہا تھا ۔
نورین اور صباء کا ایک ساتھ قہقہہ بلند ہوا تھا ۔
یہ اکبر کا قلعہ ہو نا ہو مگر ابا جی خود کو اس حویلی کا اکبر ضرور سمجھتے ہیں ۔ اس بار جواب نورین کی طرف سے آیا تھا ۔
کیا مصیبت ہے ( عنایہ جو پیاز کاٹ رہی تھی آنکھوں کی جلن کی شدت سے چھری ایک طرف پھینکتے ہوئے بولی تھی ) اکبر کو کہیں دو تین غلام ہی لا دیں قلعے میں کام بہت زیادہ ہے ۔ عنایہ دونوں ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوا میں ہلاتے ہوئے بولی ۔
اور کتنے نوکر چاہیے اتنے تو ہیں ۔ نورین نے عنایہ کی مخالفت کی ۔
کچن کا کام تو مجھ معصوم کو ہی کرنا پڑتا ہے ۔ عنایہ چہرے پر بھرپور معصومیت لیے بولی ۔
عنایہ آپی کتنا بڑا جھوٹ ہے یہ عفاف آپی کرتی ہیں سارے کام وہ تو وہ آج بیمار ہیں ورنہ آپ تو کچن میں نظر تک نہ آتی ۔ عمارہ کی مداخلت پر عنایہ نے اسے ایک نظر گھور کر دیکھا تھا ۔
جو بھی ہے کچن کا کام تو کرنا ہی پڑتا ہے ناں ۔ عنایہ نے اپنے آپ کو درست گردانا تھا ۔
اب ابا جی کو نہیں پسند نوکروں کے ہاتھ کا بنا کھانا تو کیا کر سکتے ہیں ایسے ہی تھوڑے وہ باہر کا کھانا نہیں کھاتے ۔ سدرہ جو مچھلی کو مصالہ لگا رہی تھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالتے بولی ۔ چوہدری حویلی کے تمام کام نوکر ہی کرتے تھے مگر کچن میں کسی نوکر کو گھسنے کی اجازت نہیں تھی اس کی وجع یہ نا تھی کہ ابا جی نوکروں کو حقیر سمجھتے تھے بلکہ اصل وجع ابا جی کا یہ خیال تھی کہ گھر کی بہو بیٹیوں کا فرض ہے باورچی سنبھالنا وہ زرا پورانے خیالات کے مالک تھے ۔
ابا جی اور ابا جی کے شوق عنایہ افسردگی سے بولی ۔
عفاف بوجھل قدم لیے سیڑھیوں سے اترتی دیکھائی دی اور سیدھا کچن میں آ گئی چہرے پر جھولتی ظلفوں کو کانوں کے پیچھے کرتے وہ اب سب کے ساتھ کام کرنے میں مصروف تھی ۔
عفاف بیٹا تمہاری طبیعت درست نہیں تم جا کر آرام کرو ۔ صباء نے عفاف کو کچن میں دیکھا تو فکرمندی سے بولی ۔
نہیں طائی امی میں ٹھیک ہوں ۔ عفاف نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے کہا ۔
ابھی صبح تو جسم انگارہ تھا تمہارا اور تم نے ناشتہ بھی نہیں کیا ۔ سدرہ کو عفاف کی صبح کی حالت یاد آئی تو فکر مند ہو گئی ۔
نہیں امی بس ہلکا سا بخار تھا وہ کل رات بارش ہوئی تھی ناں تو سردی لگ گئی اب ٹھیک ہوں میں ۔ عفاف سب کو مطمئن کرتے بولی ۔
اچھا تم یہ کام وام چھوڑو اور بیٹھو میں تمہارے لیے کھانا نکالتی ہوں ۔ سدرہ کہتی فریج کی طرف مڑ گئی ۔
امی مجھے بھوک نہیں ہے ۔ عفاف نے انکار کیا تھا اور اسے واقع بالکل بھوک نہ تھی ۔
ایسے کیسے بھوک نہیں ہے صبح سے کچھ نہیں کھایا اور دیکھ (سدرہ نے ہاتھ سے عفاف کا ماتھا چھوا تھا ) ابھی بھی بخار سے تپ رہا ہے جسم ۔ سدرہ پھر سے فریج کی طرف مڑ گئی اور سالن پلیٹ میں نکالتے اوون میں گرم ہونے کو رکھ دیا اور خود ایک عدد پراٹھا بنانے میں مصروف ہو گئی ۔
آپی آپ کی دوست آ رہی ہے ۔ عمارہ جو صوفے پر بیٹھی اب ناول پڑھ رہی تھی اور وقفہ وقفہ سے بےعزت ہو چکی تھی ایک خیال کے تحت ناول سے منہ نکالتی ایک دم چیخنے کے انداز میں بولی کہ سب نے اسے گھور کر دیکھا ۔
سوری (عمارہ نے اپنے دانتوں کی نمائش کی ) وہ عفاف آپی آپ کی بیسٹ فرینڈ آ رہی ہے ۔ اور اس بار عمارہ کی آواز کافی ہلکی تھی عمارہ کہتی عفاف کو حیران کر گئی بیسٹ فرینڈ سے عفاف کے زہن میں ایک ہی نام گونجا تھا ۔
کککون ۔ عفاف نے اپنی خوشی چھپاتے پوچھا ۔
وہی ماہم قریشی آپ کی بیسٹ فرینڈ جس نے مڑ کر کبھی آپ کو پوچھا تک نہیں ۔ عمارہ نے کہتے طنز کا تیر چلایا تھا جو اس کا مقصد ہرگز نہ تھا مگر وہ خود کو کہنے سے روک نہ پائی تھی ۔ ماہم جب سے یہاں سے گئی تھی اس نے مڑ کر ایک کال نہیں کی تھی وہ ان کے پڑوس میں ہی رہتی تھی پھر ہوسٹل چلی گئی اور اس کی فیملی نے بھی یہ گھر بیچ دیا اور کچھ ماہ پہلے انہیں خبر ملی کہ اس کے گھر والے جل کر مر گئے ہیں اور ماہم کا کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گئی ۔
عفاف کئی سوال آنکھ میں لیے عمارہ کو دیکھنے لگی جس نے اسے یہ خبر سنائی تھی ۔
امریکہ سے آ رہی ہے اس کے علاوہ مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ عمارہ نے عفاف کی آنکھوں میں ابھرتے سوال دیکھ جواب دیتے کندھے اچکا دیے ۔
وہ اتنا عرصہ کہاں تھی یہ عفاف اس سے خود اگلوا لے گی ۔ عفاف نے دل میں سوچا اور خود کی تکلیف کچھ لمحوں کے لیے بھول کر وہ ماہم قریشی کی سوچوں میں ڈوب گئی تھی ۔
*************************************
آج چوہدری حویلی میں انہیں قدم رکھنا تھا اس حویلی کے باسیوں سے روبرو ہونا تھا ماہم کی دھڑکن غیرمعمولی طور پر بڑھی ہوئی تھی دانیا کو بھی عجیب بے چینی نے اپنے حالے میں لے رکھا تھا مگر وہ بظاہر مطمئن نظر آ رہی تھی ۔
سامان پیک پڑا تھا اور وہ دونوں بھی بالکل تیار کھڑی تھی دونوں نے ہی مغربی لباس زیب تن کیا ہوا تھا ان کے حولیے کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ انداز کرنا مشکل تھا کہ یہ دونوں امریکہ سے نہیں پاکستان کے ہی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جا رہی ہیں ۔
دانیا نے سوٹ زیب تن کر رکھا تھا بالوں کو ہائی پونی ٹیل میں باندھے کانوں میں جگمگاتے ڈائمنڈ ایررنگز جو ٹوپس سائز کے تھے ہاتھ میں ایک قیمتی گھڑی اور لباس کسی بھی بزنس گرل کی طرح شڑٹ پر بلیزر پہن رکھا تھا ۔ ماہم نے جینز پر ہلکی اوف وائٹ کلر کی شڑٹ پہن رکھی تھی اور اوپر لیدر جیکٹ کانوں میں ایرنگز اور ہاتھ میں بریسلٹ ۔ دروازے پر دستک ہوئی تو سامنے اکرم کھڑا تھا جو انہیں لینے آیا تھا دونوں کا سامان اکرم اٹھا کر گاڑی میں رکھ آیا دانیا نے ایک الوداعی نظر اپنے فلیٹ پر ماری اور لفٹ میں چلی گئی ۔
****************************************
زوہیب گاڑی کی رفتار بڑھا چکا تھا کیونکہ اسے کچھ دیر پہلے دانیا کی کال موصول ہوئی تھی جس میں اس نے اپنے پہنچ جانے کی اطلاع دی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اس کا ایرپورٹ کے باہر انتظار کر رہے ہیں وہ بتا دے اگر نہیں آ سکتا تو وہ کوئی کیب لے کر آ جائیں جس پر زوہیب نے انہیں وہاں انتظار کرنے کو کہا ۔ جب زوہیب ایرپورٹ پہنچا تو دو لڑکیاں وہاں کھڑکی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔
سوری مجھے اندازہ نہیں رہا ٹائم کا ۔ زوہیب معزرت خواں ہوا ۔
کوئی بات نہیں دانیا کہتی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔
اسلام الیکم بھائی ۔ دانیا کے پیچھے سے ماہم نمودار ہوئی ۔
والیکم سلام ماہم کیسی ہو ۔ زوہیب کی آواز میں گرمجوشی واضح تھی ۔
ٹھیک ہوں بھائی آپ کیسے ہیں اور باقی سب کیسے ہیں ۔
میں تو تمہارے سامنے ہوں اور باقی سب تمہاری خبر لینے کو بےقرار بیٹھے ہیں زرا گھر تو چلو چھری چاقو سے حملہ بھی ہو سکتا ہے ۔
بھائی ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتی زوہیب نے اسے ٹوک دیا ۔
ساری باتیں یہیں کرنی ہیں کیا باقی باتیں گھر چل کر ۔
جی بھائی ۔ ماہم کہتی گاڑی میں بیٹھ گئی ۔
سارا سفر دانیا خاموشی سے بیٹھ باہر دیکھتی رہی اور ماہم زوہیب کو کچھ سچی باتوں میں جھوٹ کی آمیزش کرتے سناتی رہی ۔
چلو جی پہنچ گئے ہم ۔ زوہیب نے جیسے سفر کے اختتام کا اعلان کیا تھا مگر دانیا کے لیے تو اصل سفر ابھی شروع ہونا تھا وہ خود کو جتنا بہادر سنجھتی تھی کیا وہ اتنی ہی بہادر ہے کیا واقع وہ اتنی بہادر ہے کہ آنی کو آنٹی کہہ سکے کیا وہ اتنی بہادر ہے کہ عنایہ کو گلے لگا کر کئی گھنٹے رونے کی چاہ کو روکے رکھے کیا وہ اتنی بہادر ہے کہ ۔ وہ خود سے سوال نہیں کر سکی تھی جو سوال کرتے ہوئے درد ہو رہا تھا وہ کرتے ہوئے کیا درد نہیں ہونے والا تھا یقیناً اس درد سے کئی گنا درد مگر ایک خوشی تھی جو ہمت باندھے ہوئے تھی وہ تھی ان سب کو اپنے اتنا پاس کھڑا دیکھنا کیسا احساس ہونے والا تھا یہ یا شاید کچھ چیزیں تصورات میں تخلیق نہیں کی جا سکتی ۔
دانیا نے دھڑکتے دل سے گاڑی سے پاؤں باہر نکالا ۔ ان کا سامان نوکر اندر لے جا چکے تھے ۔
جوں جوں فاصلہ کم ہو رہا تھا دل بےقابو ہو رہا تھا عجیب کیفیت نے آن گھیرا تھا دھڑکنیں اتھل پتھل ہو رہی تھی دانیا نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اسے یوں لگا تھا کہ اسے پسینا آیا ہے مگر ماتھا صاف تھا پسینے کی بوند سے پاک ۔ موسم خوشگوار تھا مگر دانیا کی اندر کی گھبراہٹ اتنی تھی کہ باہر کے موسم کا اثر مدہم پڑ گیا تھا ۔
دانیا کیا ہو گیا ہے تم کمزور نہیں ہو تم دانیا ولی خان ہو ولی خان کی بیٹی تم کے-او-ڈی کا ک ہو کنگ ہو، تم ناز ولی کی بیٹی ہو ، تم کمزور نہیں ہو ۔ دانیا نے ایک ایک بات خود کو یاد دلائی اور گہری سانس اندر کھینچی اور خود کو پرسکون کرتے سانس باہر نکالی اور چہرے پر اعتماد سجایا قدموں کو مضبوط بنایا اور اپنا پہلا قدم حویلی کے اندر رکھ دیا ۔
************************************
ابا جی جو اپنے تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے ان کی نظر دروازے سے اندر آتی دو لڑکیوں پر پڑی ان کا ڈھنگ مغربی تہذیب کی عکاسی کر رہا تھا ماہم قریشی کو انہوں نے پہلی نظر میں پہچان لیا تھا اس کا طور بدلا ہوا تھا پہننے کا سلیقہ بالکل مختلف ہو چکا تھا ماہم کے ساتھ زوہیب بھی تھا جو انہیں اچھے میزبان کی طرح گھر کے اندر لا رہا تھا ان دونوں کے بعد ابا جی کی نظر پیچھے آتی لڑکی پر پڑی جو آنکھیں گھما کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جیسے گھر کا معائنہ کر رہی ہو پھر اس لڑکی کی نظر ابا جی پر پڑی تو اس نے ایک مسکراہٹ ان کی طرف اچھالی پھر وہ چلتی ہوئی ابا جی کی طرف آ گئی ابا جی بھی اسے خود کی طرف آتا دیکھ حقے کا رخ موڑتے کھڑے ہو گئے اس نے ابا جی کے سامنے آ کر اپنا سر تھوڑا جھکا دیا تھا اباجی کے چہرے پر خود باخود مسکراہٹ آ گئی اس کا یہ انداز ابا جی کو پسند آیا تھا ابا جی نے اس کا جھکا سر دیکھ اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیا ۔
اس کے بعد ماہم قریشی آگے آ کر ابا جی سے ملی تھی ۔
اتنی دیر میں زوہیب سب کو اطلاع دے چکا تھا سب ان دو پردیس سے آئی لڑکیوں سے ملنے آ چکے تھے ۔
سب باری باری ان سے مل رہے تھے سب نے انہوں خوش آمدید کہا تھا ۔
دانیا کو جن کا انتظار تھا ان میں سے صرف عنایہ اس کے سامنے کھڑی تھی دانیا کی نظریں اس سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی جیسے کسی نے اس سے پلک جھپکنے کی قوت چھین لی ہو عنایہ نے دو بار خود کو دانیا کی آنکھوں کے حثار میں محسوس کیا مگر وہ نظر انداز کر گئی کہ شاید نئے لوگوں میں ہے اس لیے یا شاید وہ زیادہ محسوس کر رہی ہے ۔
پھر دانیا نے دور سے آتی نورین کو دیکھا تھا وہ ایک لمحے کو بھول گئی کہ وہ کئی سالوں سے نورین سے نہیں ملی اسے یاد رہا تو بس یہ کہ وہ اس کی آنی ہے دانیا نے دوڑ کر اسے گلے لگانا چاہا مگر اس نے خود کو روک لیا اپنی مٹھی اتنی زور سے بند کی کہ اس کے ناخن اس کی جلد کو زخمی کر جاتے ۔
نورین خود ہی اپنی سامنے کھڑی لڑکی سے گلے لگ کر ملی تھی پہلے ماہم قریشی کو گلے لگایا تھا پھر سامنے کھڑی دانیا کو گلے لگایا اسے دانیا بہت پیاری اور معصوم لگی تھی جانی پہچانی آنکھوں میں کسی خاص کی جھلک دیکھی تھی ۔
آنیٹی ۔ وہ آنی بولتے بولتے رخ آنٹی کے طرف موڑ گئی تھی ۔
جی بیٹا ۔ نورین نے اس کے چہرے کو چھوا تھا ۔
دانیا کو خود کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہنا کیا چاہتی ہے وہ تو بس ایک بار اسے مخاطب کرنا چاہتی تھی مگر آگے کیا کہنا ہے اسے نہیں معلوم تھا ۔
وہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے میں سونا چاہتی ہوں ۔ اس سے جو بن پڑا وہ بول گئی ۔
عمارہ بیٹا اس بچی کو اس کے کمرے میں لے جاؤ یہ ریسٹ کر لے ۔ نورین نے ساتھ کھڑی ماہم سے باتوں ميں لگی عمارہ کو مخاطب کیا تھا ۔
جی چلیں ۔ عمارہ دانیا کو اپنے ساتھ لے گئی دانیا عفاف کی معیت میں چلتی ہوئی ایک کمرے کے سامنے پہنچ گئی ۔
چلیں آپ ریسٹ کریں میں چلتی ہوں ۔ عمارہ اسے وہاں چھوڑتی چلی گئی ۔
دانیا کمرے کے دروازہ کے سامنے کھڑی تھی اس نے آنکھیں شدت سے بند کر رکھی تھی کاندھوں پر بوجھ محسوس ہو رہا تھا جیسے کچھ وزنی چیز خود پر لاد رکھی ہو اور چاہنے کے باوجود وہ اس بوجھ سے نجات حاصل نہیں کر پا رہی تھی ۔ اس نے بازو اکڑائے کہ شاید تھکان ہے مگر بوجھ کم نا ہوا تھا شاید اس کے جھوٹ کا بوجھ تھا جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اس کے اپنوں سے بولے گئے جھوٹ ۔
شارقہ ۔ اپنے پیچھے سے آتی جانی پہچانی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی ۔
وہ اس آواز پر پلٹنا نہیں چاہتی تھی وہ پتھر کی مورت بننا نہیں چاہتی تھی وہ سانس لینا بھولنا نہیں چاہتی تھی جو وہ چاہتی تھی وہ سب وہ کرنا نہیں چاہتی تھی اس کا دل چاہا وہ اس منظر سے غائب ہو جائے کسی سائے میں پناہ لے لے کسی کے پیچھے چھپ جائے مگر اسے چھپنے کی کوئی جگہ نا ملی اسے کوئی راہِ فرار نا ملی تھی تو اس نے مڑنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
************************************
محد ناشتہ کر کے کمرے میں آ گیا تھا اور تب سے کمرے میں ہی موجود تھا ابھی بھی وہ کمرے میں لیٹا تھا کل ہی وہ ہسپتال سے گھر آیا تھا اور اب اس کا پولیس اسٹیشن جانے کو دل بےقرار ہو رہا تھا مگر وہ زوہیب سے وعدہ کر چکا تھا محد بےربط خیالوں میں کھویا ہوا تھا جب اسے باہر سے کسی کے بولنے کی آواز آئی تھی وہ بے ارادہ کمرے سے باہر نکل آیا عمارہ کسی سے مخاطب تھی عمارہ کی اس کی طرف پشت تھی اور وہ اس لڑکی کے چہرے مقابل کھڑی تھی جس وجع سے وہ اسے دیکھ نہیں پایا تھا ۔ عمارہ اسے کچھ منظر سے غائب ہوئی تو اس لڑکی کی ایک جھلک اسے دیکھنے کو ملی تھی وہ وہ تھی جس کا اسے گمان بھی نا تھا اس کی یادوں کی ساتھی اسے ایک لمحہ نا لگا تھا اسے پہچاننے میں ۔ وہ سامنے کھڑی تھی حقیقت کا روپ اوڑھے دنیا فانی میں مگر وہ اسے مخاطب نا مر سکا تھا اسے یقین کرنے کو ایک لمحہ لگا تھا کہ ہاں یہ وہی ہے شارقہ ۔
شارقہ ۔ محد نے زبان نے ایک مدت بعد یہ حرف ادا کیا تھا اور ایسا لگا جیسا کبھی یہ حرف پرانا ہوا ہی نا ہو ۔
دانیا اسی نام سے اس گھر میں داخل ہوئی تھی اور نیچے اسی نام سے اسے متعارف کرایا گیا تھا مگر یہ آواز یہ لہجہ ہی جدا تھا وہ اسے کیسے نا پہچانتی کیسے غلطی کر جاتی اس کی آواز کر لرزش اس کے کانوں میں آ لگی تھی دانیا نے اپنی روح کو سنبھالا تھا اور پوری طرح مڑی تھی ۔
محد نے اسے نظر بھر دیکھا تھا اور وہ ایک لمحہ ان چار سالوں پر بھاری تھا جو اس کے بغیر گزرے تھے ۔
*************************************
جب سے دانیا اور ماہم چوہدری حویلی پہنچے تھے عالم خان کی بےچینی بڑھ گئی تھی یہ خیال ہی اتنا برا تھا کہ دانیا محد چوہدری کے اتنے پاس ہے برسوں پرانا راز کھل گیا تھا اگر کسی کو پتا چل گیا کہ وہ کوڈ ہے تو اگر محد شارقہ اور دانیا کے راز جاننے کی جدوجہد میں دانیا کی اصل حقیقت تک پہنچ گیا تو کیا ہو گا رفیق چوہدری کو پتا چلا کہ دانیا کو عالم خان نے بھیجا ہے تو ان کا ردِعمل کتنا سنگین ہو سکتا تھا سب چیزیں ایک ساتھ دماغ پر حاوی ہو رہی تھی اور درد سے سر پھیٹا جا رہا تھا اور اوپر سے اس نے عالیان کو اپنے آفس میں بلا لیا تھا جس کام کو بلایا تھا وہ اتنا خاص تھا نہیں جس کہ لیے اسے یہاں بلایا جاتا صرف حیدر کے بارے میں تو وہ فون پر بھی پوچھ سکتا تھا مگر اس وقت وہ اکیلا نہیں رہنا چاہتا تھا ۔
بوس کے چہرے کی بےچینی جو سامنے بیٹھا عالیان سمجھنے سے قاصر تھا عالیان کو بوس نے یہاں بلوایا تھا اور اب بوس ہی کب سے خاموش بیٹھا تھا عالیان بغور بوس کے ایک ایک عمل کا جائزہ لے رہا تھا جس طرح بوس کا سگڑٹ تھاما ہاتھ بار بار ماتھے پر آ رکتا تھا اور ماتھے کو سہلاتا تھا یہ تبھی ہوتا تھا جب بوس کو کوئی پریشانی گھیر لیتی تھی یا بوس کوئی سخت فیصلہ لینے جا رہا ہوتا تھا۔
بوس ۔ عالیان سے اور چپ نہ بیٹھا گیا تھا اور وہ بوس کو مخاطب کر بیٹھا تھا ۔
ہاں بولو عالیان ۔ عالیان کی آواز نے بوس کو اس کی گہری سوچوں سے باہر نکالا تھا ۔
بوس آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں کوئی بات ہے کیا ۔
نہیں نہیں کوئی بات نہیں ہے بس حیدر کا پوچھنا تھا تم نے اطلاع ہی نہیں دی کہ اس کا کیا بنا ۔
بوس میں نے اسے معاف کر دیا ۔ عالیان نے عام سے لہجے میں کہا تھا ۔
ہمممم ۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ کیوں معاف کیا ایسا کس کا واسطہ دیا تھا اس نے جو تم نے اسے معاف کر دیا کیونکہ رحم کھانے والوں میں سے تو تم ہو نہیں ۔ بوس نے ہوا میں تیر چلایا تھا جو سیدھا نشانے پر لگا تھا عالیان آنکھیں نہیں ملا پایا تھا ۔
یعنی جو کام بڑے سے بڑا چور ڈاکو قاتل سمگلر نا کر سکا وہ کام ایک عمارہ حماد کے نام نے کر دیا ۔ بوس دلچسپی لیتے ہوئے بولا تھا ۔
عالیان نے بوس سے آنکھیں ملائی تھی ۔
یار کمال کرتے ہو پیار بھی کرتے ہو اور ملنے بھی نہیں جاتے کبھی کبھار تو قسم سے حیران کرتے ہو ۔ بوس عالیان کی حالت سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔
بوس ضروری نہیں ہر وہ چیز مل جائے جس کی خواہش کی جائے ۔ عالیان بےدلی سے بولا تھا ۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو پانے کی کوشش ہی نا کی جائے ۔ بوس نے حاضر جوابی کا مظاہرہ کیا تھا ۔
وہ ناراض ہو گی مجھ سے ۔ عالیان اپنی ہی بات سے اختلاف رکھتا تھا جو وہ بوس کو کہہ رہا تھا ۔
اتنی نہیں ہو گی جتنی ایک دن کہیں سے تمہاری اچانک موت کی خبر پر ہو جائے گی ۔
تو بہتر ہے ناں وہ پوری زندگی میرے انتظار میں ہی رہے جب مجھے خود معلوم ہے کہ میری موت کی خبر کسی دن اچانک کسی اخبار کی سرخی ہو گی ۔
پل پل مرنا ایک بار مر جانے سے زیادہ دردناک ہوتا ہے عالیان ۔ اس کو پل پل مرتا دیکھ سکتے ہو کیا (بوس تھوڑا اس کی طرف جھکا تھا ) نہیں دیکھ سکتے کبھی جانا اس کے پاس بلکہ نہیں تم تو یہ بھی نہیں کر سکتے عالیان جانتے ہو وہ تمہیں پہچان لے گی اور پھر تمہارے لیے سب کچھ مشکل ہو جائے گا ۔
عالیان اپنی نشست سے اٹھتا آفس سے باہر جانے لگا ۔
تم میری اجازت کے بغیر کہیں نہیں جا سکتے عالیان ۔ عالیان کے قدم رک گئے تھے ۔
ایک بار میری بات پر سوچنا ضرور ۔ بوس دل سے چاہتا تھا کہ عالیان اپنے گھر والوں کے پاس چلا جائے مگر عالیان بوس کی اس ایک بات کے علاوہ ہر بات ماننے کو تیار تھا ۔
بوس کیا میں جا سکتا ہوں ۔ عالیان نے اجازت طلب کی تھی ۔
کاش تم مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں چوہدری حویلی جا سکتا ہوں مگر خیر تمہارا اپنا فیصلہ ہے جاؤ ۔ بوس نے اسے آفس سے جانے کی اجازت دے دی اور وہ تیز قدم بڑھاتا آفس سے باہر نکل آیا ۔
کوڈ میں کام کرنے والے زیادہ تر کوڈ تنہا تھے اندر باہر سے تنہا اور ٹوٹے ہوئے کچھ بچپن سے ہی اپنے پیاروں کو کھو چکے تھے اور کچھ کو معلوم ہی نا تھا کہ آیا ان کا کوئی اپنا زندہ بھی ہے یا نہیں مگر عالیان کے اپنے زندہ تھے اور اسے معلوم تھا وہ اس کے انتظار میں ہیں مگر عالیان ان سے ملنے جانا نہیں چاہتا تھا اور بوس عالیان کو اس کے گھر سے دور رکھنا نہیں چاہتا تھا نو سال پہلے جب وہ انہیں کو ملا تھا تو وہ زخمی حالت میں تھا ٹوٹا ہے آج بھی ٹوٹا ہوا تھا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ وہ کل باہر سے ٹوٹا ہوا تھا اور آج اندر سے اور کل بھی وہ اپنے ٹکڑوں کو سمیٹنا نہیں چاہتا تھا اور آج بھی ان ٹکڑوں کو بکھرا رہنے دینا چاہتا تھا ۔
************************************
سب اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے اور عمارہ اور عنایہ ماہم کے ساتھ بیٹھی اس سے باتیں کر رہی تھی پچھلے کچھ عرصے کی تفصیل وہ آدھے گھنٹے میں بیان کر چکی تھی وہ امریکہ کیسے پہنچی شارقہ اس کی کیا لگتی ہے اس کے ماں باپ کی ڈیتھ کیسے ہوئی اس کی پڑھائی کا کیا بنا سب لفظ بالفظ اس سے پوچھا گیا تھا اور اس نے دانیا کی بتائی کہانی انہیں سنائی تھی ۔
عفاف کا وہ کئی بار پوچھ چکی تھی مگر ہر بار اسے ایک جواب دیا جاتا کہ وہ ابھی آنے والی ہے اب تو اسے لگنے لگا تھا کہ وہ اس سے ملنا ہی نہیں چاہتی اور پھر وہ بھی تو نظر نہیں آ رہا تھا شاید وہ بھی اسے دیکھنے تک کا روادار نہیں تھا وہ ابھی عنایہ کو کچھ بتا رہی تھی جب اسے اپنی کلائی پر کسی کی گرفت محسوس ہوئی اس نے نظروں کا زاویہ بدلا تو سامنے عفاف کھڑی تھی ۔ عفاف اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئی ۔
لو اب اس کے شکوے شکایتیں شروع ۔ عنایہ نے ماہم کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتی عفاف پر تبصرہ کیا تھا ۔
عفاف نے اپنے کمرے میں لے جا کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا تھا ۔
ہاں ماہم قریشی اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھیں پہچانے زرا یہ کون ہے دیکھیں شاید کہیں پہلے بھی آپ کی نظر سے شکل گزری ہو ۔
عفاف یار اب ایسے تو مت کرو تم یاد تھی مجھے بھولی نہیں تھی میں تمہیں ۔
اچھا بھولی نہیں تبھی پچھلے آدھے گھنٹے سے مجھ سے تم دس بار ملاقات کر چکی ہو ہنہ ۔
یار میں نے اتنی بار پوچھا تمہارا ۔۔۔۔
بس ماہم بس اتنی ہی دوستی تھی کہ دو سے تین بار میرا پوچھا جاتا خود سے آ کر نہیں مل سکتی تھی جانتی تھی ناں مجھے ۔ عفاف نے شکوہ کیا تھا ۔
یار یہی تو بات ہے کہ مجھے تیرا پتا ہے اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ میری دوست مجھ سے ناراض رہ ہی نہیں سکتی ۔ ماہم نے اس کے گلے کا ہار بنتے کہا تھا ۔
کوئی دوست نہیں ہوں تجھے تو بس انہی کی ہے ناں وہ ہیں تو توں ہے ورنہ کوئی بھی نہیں ہے ۔ عفاف نے اس کے ہاتھ جھڑکے تھے ۔
نہیں یار بس حالات ہی ایسے بن گئے تھے مجھے امریکہ جانا پڑ گیا ۔ ماہم نے جھوٹ کی گھڑہیں بننی شروع کر دی تھی ۔
ہاں توں امریکہ کیوں گئی تھی جہاں تک مجھے یاد ہے تیرا کوئی رشتہ دار امریکہ نہیں رہتا ۔
نہیں وہ امی کی کزن ہے وہ رہتی ہیں ان کا پورا کاروبار ادھر ہی سٹ ہے تو امی ابو کے بعد میرا یہاں کوئی نہیں تھا تو میں امریکہ چلی گئی تھی ۔
اور تمہاری پڑھائی اس کا کیا ۔ عفاف ماہم سے باتوں میں مکمل طور پر بھول گئی تھی کہ وہ ماہم سے ناراض ہے ۔
پڑھائی پر فرق تو پڑا ہے مگر میں ریکوور کر لوں گی تم فکر مت کرو ۔
وہ کہاں ہے ۔ ماہم کو اس کے خیال ستایا تھا ۔
بھائی ۔ اِدھر ہی تو تھے پتا نہیں کہاں گئے ۔
شاید وہ میری شکل نہیں دیکھنا چاہتا اسی لیے ۔ ماہم بڑبڑائی تھی مگر اس کی بڑبڑاہٹ عفاف کے کانوں تک پہنچ گئی تھی ۔
ایسی بات نہیں ہے وہ اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہیں وہ تمہیں تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے مگر تمہیں تو پتا ہے ناں وہ غصے کے کتنے تیز ہیں ۔
ہاں جانتی ہوں اسے بھی اور اس کے غصے کو بھی ۔
************************************
محد دانیا کے سامنے کھڑا تھا اپنی آنکھوں کو اس بات کا یقین دلانے کو اس نے اس کے چہرے کو چھو کر دیکھا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا کوئی خواب ۔
ایکسکیوز می ۔ کیا میں آپ کو جانتی ہوں ۔ دانیا نے آنکھوں میں حیرت لیے کہا تھا ۔
شارقہ ایسا کیوں کہہ رہی ہو ۔۔۔ محد کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔
کیا ہم پہلے کبھی ملیں ہیں ( دانیا نے آنکھیں اچکائی تھی) ۔
ہاں ملیں ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ مجھے تمہیں یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں ملے ہیں ۔ محد نے دونوں ہاتھ باندھتے کہا تھا ۔
کیوں ضرورت نہیں یاد تو دلانا ہی چاہیے ناں کہ ہم کہاں ملے ہیں اب انسان روز بیسیوں لوگوں سے ملتا ہے تو ہر کسی کو یاد تھوڑی رکھتا ہے ۔
ان بیسیوں لوگوں سے محبت نہیں کر لی جاتی ۔ محد اعتماد سے بولا تھا ۔
دانیا کو اس سے اس جواب کی امید نہ تھی ۔
محبت ( دانیا نے ایک قہقہہ لگایا تھا اور وہ اس ایک قہقہہ میں سب چھپا گئی تھی ) آپ کو بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے جناب آپ ضرور مجھے کسی اور کی امید میں یہ سب بول گئے ہیں ۔ دانیا عام لہجے میں بولتی مڑی تھی ۔
کیا تم شارقہ نہیں ہو ۔ محد پوچھنے پر مجبور ہو گیا تھا ۔
میں شارقہ ہی ہوں ۔ دانیا نے تسلیم کیا تھا ۔ مگر شاید آپ کا دماغی توازن تھوڑا ہلا ہوا ہے وہ اکثر ہوتا ہے ناں کچھ مجنو ٹائپ لوگ ہر دوسری لڑکی میں اپنی محبت ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں کچھ اسی ٹائپ کے لگے ہیں آپ ۔
میری ہمدردی آپ کے ساتھ ہے ۔ دانیا نے محد کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔
آنکھوں میں محبت لیے نام ہمدردی کا لینا اکثر محبت کرنے والوں کی نشانی ہوا کرتی ہے ۔ محد نے اس کا ہاتھ کاندھے سے ہٹایا تھا ۔
آپ جو سمجھنا چاہیں سمجھ سکتے ہیں ایز یو وِششش ۔ وہ کہتی مڑی تھی ۔
اب تو لگ رہا ہے تم اپنی مرضی سے مجھے چھوڑ کر گئی تھی وہ موت وہ سب ایک کہانی تھی جس میں میری حیثیت صرف ایک سامع کی تھی ۔
دانیا اپنے چہرے کے تعاصر چھپاتے محد کی طرف پلٹی تھی ۔
مجھے آپ سے ہمدردی ہے مگر میں کچھ نہیں کر سکتی آپ کے لیے یقین جانے اگر کچھ میرے ہاتھ میں ہوتا تو ضرور کرتی مگر آپ میرا اور اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔
تمہاری یہ باتیں تکلیف دے رہی ہیں ۔ محد نے جیسے اسے جتایا تھا اس کے گناہ یاد دلائے تھے اسے دھوکا دے کر اسے تنہا چھوڑ کر جانے کے گناہ یاد دلائے تھے وہ خود نہیں جانتا تھا مگر وہ سب اس کے ایک جملے نے جتا دیا تھا ۔
تمہارے بال کافی لمبے ہو گئے ہیں اچھے لگ رہی ہو تم ۔ محد کی نظر اس کے پونی میں جھولتے لمبے بالوں پر پڑی تھی ۔
پاگل ۔ دانیا جان بوجھ کر یہ لفظ اتنی بڑبڑاہٹ میں بولتی کمرے کے اندر گئی کہ محد کے کانوں میں اس ایک لفظ کی چھنکار ہو سکے اور دروازہ دھڑاک سے بند کیا ۔
وہ چاہتا تھا دروازہ کھڑکائے اس سے پوچھے کہ اس نے یہ سب کیوں کیا، کیا قصور تھا جو وہ اسے چار سال کی سزا سنا کر چلی گئی اور اب آئی ہے تو عمر قید ہی سنا گئی ہے مگر وہ بےبس اپنے کمرے میں لوٹ آیا دروازہ اندر سے بند کیے بیڈ پر لیٹ گیا ۔ وہ پہلی ملاقات، اس کا کھلکھلا کر بات کرنا، اس کا گولا گنڈا کھانے کی ضد کرنا سب ایک ایک کر کسی فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا ۔
************************************
ان دنوں محد کی پوسٹنگ بہاولپور ہوئی تھی اسے یہاں آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا تقریباً دو ہفتے سے بھی کم عرصہ تھا مگر یہاں کی گرمی اسے راس نہیں آئی تھی اور اس کی حالت بری ہو گئی تھی اوپر سے ماحول اور پانی کے بدلنے کی وجع سے اس کی طبیعت بھی درست نہیں تھی ۔ آج صبح بھی وہ لیٹ اٹھا تھا اور ڈیوٹی سے لیٹ ہو گیا تھا اسی وجع سے وہ بنا کھانا کھائے پولیس کی وردی پہنے نکل گیا تھا ۔ گاڑی میں بیٹھا تھا جب اس کی نظر سنسان سڑک پر ایک لڑکی پر پڑی جو گھٹنوں کے بل ایک بائک کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی ۔ محد نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا اسے ڈیوٹی پر پہنچنے سے لیٹ ہو گیا تھا اور وہ اور لیٹ نہیں ہونا چاہتا تھا مگر یہ لڑکی اسے مشکل میں لگی تھی اس نے اس کی مدد کرنا اپنی ڈیوٹی کا حصہ سمجھا تھا ۔
میڈم میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں ۔ محد نے اس لڑکی کے پاس پہنچ کر کہا تھا ۔
اس لڑکی نے ایک نظر مڑ کر محد کو دیکھا تھا اور پھر سے نظروں کا زاویہ بدل لیا اور اپنے گریس لگے ہاتھوں کو پھر سے اسی کام میں مشغول کر لیا جو وہ چند لمحے پہلے کر رہی تھی ۔
میڈم میں آپ سے بات کر رہا ہوں اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں ۔
اس بار لڑکی نے مڑ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا ۔
عجیب پتا نہیں کس بار کا غرور ہے ۔ محد کہتا ہوا مڑ گیا ۔ محد نے کافی ہلکی آواز میں کہا تھا ۔
ہو سکتا ہے کہ آپ جسے مخاطب کر رہے ہوں وہ گونگا ہو ۔ اس لڑکی نے بنا مڑے کہا تھا ۔
مگر تم تو بول سکتی ہو ۔ محد کو وہ بہت عجیب لگی تھی ۔
اس لڑکی نے جینز کے اوپر شرٹ اور ڈینم جیکٹ پہن رکھی تھی محد کو اس گرمی میں اس کا یہ حلیہ بہت عجیب لگا تھا اور بہاولپور جیسے شہر میں اسے پہلی لڑکی بائک چلاتی نظر آئی تھی شاید وہ صرف بائک ٹھیک کر رہی ہو اس نے خود سے قیاس کر لیا تھا کہ یہ بائک اس کی ہے اس خیال پر اس نے نظریں گھما کر دیکھا مگر اسے کوئی نظر میں نہیں آیا تھا ۔
آپ یہاں اکیلی ہیں کیا ۔ محد نے کسی کو نا پایا تو سوال کر بیٹھا ۔
وہ لڑکی ہاتھ جھاڑتی محد کی طرف رخ موڑتی کھڑی ہوئی تھی ۔
آپ کو کوئی کام نہیں ہے کیا پولیس والے تو شاید خاصے مصروف لوگ ہوتے ہیں ۔ ۔۔ نہیں ۔ لڑکی کہتی پھر سے اسی رخ پر بیٹھ گئی اور یہ یقیناً اس کو جانے کے لیے کہنے کا اشارہ تھا ۔
محد نے اس لڑکی کو ایک نظر دیکھا اور گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا جب اسے ہی مدد کی ضرورت نہیں تو اسے کیا پڑی ہے مدد کرنے کی ۔
لڑکی نے ایک نظر مڑ کر دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا ۔
*************************************
عالیان بوس کے آفس سے گاڑی نکالتا منارِ پاکستان کی طرف آ گیا تھا ۔ گاڑی ایک طرف روک دی تھی جہاں اور بھی گاڑیاں پارک کی گئی تھی اس کا دل بوجھل ہو رہا تھا اور جب بھی وہ خود کو تنہا محسوس کرتا وہ یہاں آ جاتا تھا ۔ ابھی وہ گاڑی سے نکلنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اسکے سامنے کچھ ایسا ہوا جس نے اس کا ارادہ ترک کر دیا سڑک پر گاڑیوں کا کافی رش تھا ہر کوئی اپنی دھن میں تھا جب ایک کتا سڑک سے گزرتے ہوئے ایک تیز رفتار گاڑی کے نیچے آ کر تڑپ تڑپ کر مر گیا عالیان کو نا کوئی تکلیف محسوس ہوئی نا درد ہوا کتوں سے تو اسے خار تھی وہ ڈرتا بھی تھا نفرت بھی کرتا تھا وہ اس کتے کو اور نہیں دیکھ سکتا تھا اس سے کیسے دیکھا جا سکتا تھا اسے سڑک پر لہو میں لد پد کتا نہیں نظر آ رہا تھا بلکہ خود کا وجود نظر آ رہا تھا جو ایک کالی رات اسی طرح لہو میں رنگا ہوا سڑک پر بےاثرا پڑا تھا جسے نا کوئی پوچھنے والا تھا نا ہی اس کی خبر لینے والا اس کے اپنے تو بہت دور پہلے ہی چھوٹ گئے تھے ۔ وہ رات جب اس نے گھر کی دہلیز سے قدم باہر نکالا تھا جب اس نے سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔
وہ دسمبر کی سرد راتوں میں سے ایک رات تھی اور سولہ سال کا عالیان بچوں کی طرح اپنی آنکھ سے نکلتے آنسو بار بار صاف کر رہا تھا مگر آنسوں تو جیسے ان کا کسی نے بند کھول دیا ہو اور جیسے اب یہ سیلاب لانے پر تلے ہوں اور عالیان حفاظتی تدابیر کے طور پر اپنے ہاتھوں سے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وہ کافی دیر سے چل رہا تھا مگر اب ٹانگوں میں جان باقی نہیں رہی تھی تو وہ تھوڑی دیر سستانے کو فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا تھا ۔ اسے پاس ایک کتے کے بھونکے کی آواز آئی تھی وہ آواز سے اتنا ڈر گیا تھا کہ وہ اٹھ کر تیز تیز چلنے لگا وہ کتا اسے چلتا دیکھ اس کے پیچھے بھاگا تھا عالیان کی رفتار چیز ہوئی تھی اتنی تیز کہ اسے اپنا نچلا دھڑ سن ہوتا محسوس ہوا جیسے ابھی جواب دے جائے اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور پورے جسم میں درد ہو رہا تھا مگر کتا ابھی بھی اس کے پیچھے تھا اور پھر وہ کتا اس کے اتنا نزدیک پہنچ گیا کہ باآسانی اسے پکڑ سکتا تھا اور اس نے ایسا ہی کیا اس نے عالیان پر حملہ کر دیا وہ عالیان کے جسم کی بوٹیاں نوچ رہا تھا کھال ادھیڑ رہا تھا عالیان کے جسم سے خون مسلسل نکل رہا تھا عالیان کی چیخیں فضا میں گونجی تھی عین ممکن تھا کہ وہ وہاں پڑا پڑا مر جاتا وہ کتا اسے اس قدر زخمی کر چکا تھا کہ اس کا وجود دور سے مردہ معلوم ہوتا تھا جس کے پاس سانس لینے کی ہمت تک نہ ہو اتنے میں وہاں ایک گاڑی آ رکی جس کی ہیڈلائٹ کی روشنی سے کتا دور بھاگ گیا مگر عالیان وہیں پڑا رہا اس گاڑی میں سے ایک آدمی دوڑتا ہوا باہر نکلا تھا ۔ وہ شخص ولی خان تھا ۔ عالیان کو ہسپتال لے جایا گیا جب اسے ہوش آیا تو عالم خان بھی وہاں آ چکا تھا عالم خان نے آتے ہی اسے پہچان لیا تھا مگر عالیان نے اسے کسی کو بھی بلانے سے روک دیا تھا وہ اپنے گھر نہیں جانا چاہتا تھا کبھی نہیں وہ اس دہلیز پر دوبارہ قدم نہیں رکھنا چاہتا تھا ۔ اسے مرنا منظور تھا مگر اس گھر میں واپس جانا ہرگز منظور نا تھا اور اس دن عالیان چوہدری کے کوڈ بننے کا سفر شروع ہوا تھا ۔ وہ گھر سے کیوں نکلا کیسے نکلا اس کے ساتھ یہ سب کیسے ہوا کسی کو کچھ معلوم نہ تھا اس نے تو جیسے اپنی زبان کو تالا لگا لیا تھا ہر سوال پر اس کی ایک ہی گردان ہوتی کہ اسے گھر نہیں جانا اگر اسے کوئی لینے آیا تو وہ یہاں سے بھی بھاگ جائے گا ۔ جب تک وہ مکمل تندروست نہیں ہو گیا وہ ہسپتال میں ہی رہا اور پھر جب وہ مکمل صحتیاب ہو گیا تو اسے ایک ہوسٹل میں ٹھرایا گیا اس نے اپنی زندگی کا ایک حصہ اسی ہوسٹل میں گزارا ساتھ ساتھ پڑھائی مکمل کرتا رہا پھر ایک دن اسے عالم خان کی کال آئی عالم خان نے اسے جلدی میں اپنے آفس بلایا تھا وہ آفس پہنچا تو کمرے میں عجیب خاموشی چھائی ہوئی تھی عالم خان نے بولنا شروع کیا تو عالیان اسے دیکھتا ہی رہ گیا اسے ان باتوں کی کہیں نہ کہیں پہلے سے خبر تھی اسے ان سب باتوں کا پہلے ہی اندازہ تھا مگر اسے یہ سب برائے راست اب بتایا جا رہا تھا سوائے اس کہ کنگ کون ہے اسے سب بتا دیا گیا تھا اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ولی خان ہی کنگ ہے ۔
ولی چاہتا ہے تم کوڈ بنو عالیان ۔ عالم نے عالیان کی آنکھوں میں دیکھتے کہا تھا ۔
جو حکم ان کا مجھے قبول ہے ۔ عالیان نے ایک لمحہ ضائع کیے بنا کہا تھا ۔
عالیان سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا تم پر کوئی دباؤ نہیں ہے تمہارے پاس انکار کرنے کا حق موجود ہے ۔ عالم خان نے جیسے اسے اگاہ کیا تھا ۔
بوس میں انکار نہیں کرنا چاہتا ۔ عالیان نے عالم کو بوس کہہ کر بلایا تھا جو عالم نے چند لمحوں پہلے اسے بتایا تھا کہ اسے اور ولی کو تمام لوگ بوس کہتے ہیں ۔ عالیان نے خود کو کہیں نہ کہیں بہت پہلے ہی اس سب کے لیے تیار کر رکھا تھا جب ایک دن ہوسٹل کے کمرے میں وہ آرام سے سو رہا تھا اور کوئی اس کی کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوا تھا اس نے چیخ کر سب کو جگانے کی کوشش کی مگر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے چپ کرا دیا گیا تھا اس نے آنکھوں نے چاند کی روشنی میں اس شخص کو شناخت کرنا چاہا تھا تو وہ ولی خان تھا ولی خان نے اس کے چہرے سے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا ۔
ولی انکل آپ یہاں اور یہ آپ کو چوٹ کیسے لگی اس وقت عالیان محض اٹھارہ سال کا تھا ۔
ولی نے اسے آہستہ بولنے کا اشارہ کیا ۔
اس دن ولی نے اسے ایک بات کی تھی ۔
عالیان اگر ایک دن میں تمہیں کہوں کہ مجھ جیسا بن جاؤ تو تمہارا فیصلہ کیا ہو گا ۔
عالیان اس وقت کوئی جواب نہیں دے سکا تھا وہ خاموش رہا تھا ۔ ولی خان اپنے کام کو کہیں سے غلط نہیں سمجھتا تھا اس کے نزدیک وہ جو کر رہا ہے بالکل درست ہے گندگی کو ختم کر دینا صفائی کرنے سے زیادہ بہتر ہے اور وہ قتل کرتا اس گندگی کو ختم کرنے کے مشن پر نکلا تھا ۔ مگر اب کوڈ بدل چکی تھی اب کوڈ کسی کو قتل نہیں کرتی تھی ۔
آپ نے مجھے مان سے کہا ہے میں آپ کا مان توڑ نہیں سکتا میں ولی خان کا احسان بھول نہیں سکتا جس نے میری زندگی بچائی مجھے سہارا دیا میرا مشکل وقت میں ساتھ دیا وہ اگر مجھ سے میری جان بھی مانگ لیتا تو میں دے دیتا میں ہر قربانی کے لیے تیار ہوں ۔
************************************
محد چوہدری بہاولپور کے پولیس سٹیشن میں بیٹھا تھا اور گرمی کی شدت سے اس کا گلا خشک ہو گیا تھا اور وہ تیسری بار ٹھنڈے پانی کا گلاس اپنے اندر انڈیل چکا تھا کہ شاید گلے میں چھبتے کانٹے کو کچھ آرام پہنچے ۔
ایک انسپکٹر اندر داخل ہوا تھا ۔ سلوٹ کرتے اس نے اپنا آنے کا مدع بیان کیا تھا وہ ایک لڑکی کے بارے میں بتا رہا تھا جو بار بار اس سے ملنے کی ضد کر رہی تھی ۔ محد نے اس لڑکی کو اندر بولنے کو کہا ۔
کچھ دیر میں ایک بوب کٹے بولوں والی ڈینم جیکٹ جینز پینٹ شرٹ پہنے لڑکی اندر داخل ہوئی تھی محد لڑکی کو پہلی نظر میں پہچان گیا تھا وہ وہی تھی جسے آتے وقت اس نے سڑک پر دیکھا تھا ۔ محد کے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی ابھی صبح کی تو بات تھی کہ یہی لڑکی اس سے بات کرنے تک کی روادار نہ تھی اور اب ضد کر کے اس سے ملنے تھانے پہنچ گئی تھی ۔
محد نے انسپکٹر کو جانے کا اور اس لڑکی کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا ۔
جی آپ کا نام ۔ محد نے پہلا سوال کیا تھا ۔
شارقہ ۔ دانیا نے جس دل سے بولا تھا وہ ہی جانتی تھی ۔
کیا شاقرہ ۔ محد کو لگا کہ اسے نام سننے میں مشکل پیش آئی تھی ۔
نہیں شارقہ ۔ دانیا نے ضبط پاتے نام دوبارہ دوہرایا تھا ۔
اچھا شرقہ بتایں آپ کس کام سے آئی ہیں ۔ محد نے پھر سے نام غلط تلفظ سے ادا کیا تھا ۔
میرا نام شارقہ ہے ۔ دانیا کو اس وقت اپنے نام کے انتخاب پر دل سے افسوس ہوا تھا بیشتر اوقات اسے اگلے بندے کو کئی بار اپنا نام دوہرا کر بتانا پڑتا تھا ۔
جی جی شرقہ بتایں کیا کام ہے آپ کو ۔
اس بار دانیا نے غصے سے آنکھیں بند کر کے کھولی تھی مگر اس نے محد کی اصلاح نہیں کی تھی ۔
مجھے ایک کیس فائر کرنا ہے ۔ دانیا نے مدعے پر آتے کہا تھا ۔
یہ تو آپ باہر انسپکٹر سے بھی کہہ سکتی تھی اس کے لیے مجھ سے ملاقات ۔ محد کو تھوڑی تشویش ہوئی تھی ۔
مجھے اپنے خلاف ایف آئی آر کٹوانی ہے ۔ دانیا نے محد کو حیران کر دیا تھا ۔
محد نے حیرت سے اسے گھور کر دیکھا تھا ۔
ایک لڑکا مجھ سے پیار کرتا تھا اور اس نے میرے لیے اپنی جان لینے کی کوشش کی ہے میرے خیال سے میں ہی اس کی مجرم ہوں ۔
محد کو دانیا پاگل لگی تھی بھلا یہ کون سی عقلمندی ہوئی بہرحال محد نے معملہ رفا دفا کروا دیا تھا دانیا تو اس بات پر رضامند ہی نہیں تھی وہ ہر حال میں خود پر پرچہ کٹوانا چاہتی تھی مگر محد کے حساب سے کیس صرف اس لڑکے پر بنتا تھا خودکشی بازاتِ خود ایک جرم ہے ۔
************************************
دانیا پولیس سٹیشن سے باہر نکلی تو فون بوس کو ملا دیا بوس نے تیسری رنگ پر فون اٹھا لی ۔ دانیا بہاولپور کچھ عرصے کے لیے آئی تھی ویسے وہ لاہور کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ تھی مگر اسے ایک ماہ کی چھوٹی ملی تھی سمیسٹر کے اینڈ ہونے پر اور اسی وجع سے وہ یہاں کسی کام کے سلسلے میں یہاں آئی تھی آج اس کا دوسرا دن تھا ۔
جی بوس کام ہو گیا ہے آپ فکر مت کریں ۔۔۔۔ جی جی میں نے اسے یقین دلا دیا ہے آپ فکر مت کریں وہ شخص جتنی بھی کوشش کر لے اپنی پوری زندگی بھی لگا دے تو بھی ثابت نہیں کر سکے گا اس شخص کا دماغ پوری طرح سے مفلوج کر دیا جائے گا وہ خود سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اس نے محبت کا اظہار کس سے کیا اس پر حملہ کس نے کیا اور اس پر حملہ کرنے پر جیل میں جانے والی کون ہے ۔
************************************
دانیا دروازہ بند کر کے بیٹھی تھی جب اسے اپنی فون بجتا سنائی دیا دانیا نے بنا دیکھے کال اٹھا لی تھی وہ جانتی تھی دوسری طرف عالم خان کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا تھا ۔
عالم خان نے چھوٹتے ہی اس پر سوالوں کی بوچھار کر دی تھی ۔
عنایہ کیسی ہے نورین کیسی ہے کسی کو کچھ پتا تو نہیں چلا کسی کو شک تو نہیں ہوا محد سے ملاقات ہوئی اس کا ردِعمل کیا تھا اس نے کچھ کہا تم نے کیا جواب دیا اور دانیا ایک ایک کر کے سب سوالوں کے جواب دے رہی تھی ۔
دانیا وہ جان جائے گا وہ پیچھے نہیں ہٹے گا دانیا کچھ کرنا ہو گا ہمیں ۔ بوس بےچین ہو گیا تھا ۔
بوس فکر مت کریں کہانیاں بنانی آتی ہیں ہمیں بس ایک کہانی کا ہی تو محتاج ہے ناں وہ تو بس آپ فکر نہ کریں ۔ دانیا نے کہتے فون کاٹ دیا ۔ دانیا جو کہہ رہی تھی اس سے وہ خود بھی پوری طرح مطمئن نہی تھی محد چوہدری کو کسی بھی بات کا یقین دلانا آسان نہیں ہونے والا تھا یہ بات وہ جانتی تھی وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا یہ بھی وہ جانتی تھی مگر اس سے پہلے وہ کچھ کرے اسے کچھ کرنا تھا ۔
*************************************
ماہم اور عفاف کب کی بیٹھی باتیں کر رہی تھی انہیں اندازہ ہی نہ ہوا تھا دانیا اور ماہم کا آتے ہی سوف ڈرنک اور سنیک سے خاطرداری کی گئی تھی مگر اب دوپہر کا ٹائم ہو چکا تھا تو عمارہ ان دونوں کو کھانے کے لیے بلانے آئی تھی ۔ عفاف اور ماہم عمارہ کے بلانے پر اٹھ کر نیچے چلی آئی جہاں سب ان کا انتظار کر رہے تھے سوائے محد اور دانیا کے سب ہی موجود تھے ماہم ایک کرسی پیچھے کھینچتی بیٹھ گئی بیٹھتے ہوئے اس کی نظر سامنے بیٹھے شخص پر پڑی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ایک وقت تھا جب ان دونوں میں محبت تھی مگر چوہدری صائم کے غصے نے سب ختم کر دیا ۔ ماہم چاہتے ہوئے بھی صائم کو نہیں دیکھ رہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ صائم پر ایسا کوئی بھی تعاصر پڑے جس سے اسے لگے کہ آج بھی ماہم کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ ہے مگر ماہم کو اس کی نظروں کی تبش خود پر محسوس ہوتی رہی ۔
شارقہ بیٹی کہاں ہیں انہیں بھی کوئی بلا لائے ۔ ابا جی نے مرکزی نشست سنبھالتے کہا تھا ۔
جی ابا جی وہ عمارہ گئی ہے بلانے بس آتی ہی ہو گی ۔ نورین نے جواب دیا تھا ۔ لو وہ آ گئی عمارہ ۔ ۔۔۔ عمارہ شارقہ کہاں ہے ۔
وہ کہہ رہی ہیں کہ بس دو منٹ میں آتی ہیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں دانیا سیڑھیوں سے نیچے اترتی دیکھائی دی ہلکے فیروزی رنگ کی گٹنوں تک آتی کمیز اور گلے میں سفید رنگ کا دوپٹا پہنے وہ پہلے سے بہت مختلف لگ رہی تھی سب نے اسے ایک نظر بھر کر دیکھا تھا ۔
ماشاء اللّٰہ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔ سدرہ نے تعریف کی تھی ۔
ہاں بس کہتے ہیں ناں جیسا دیس ویسا بھیس شارقہ آپی نے بڑی اچھی طرح بات سمجھی ہے ۔ عفاف نے تبصرہ کیا تھا ۔
ایک تو انہیں دوسرے بندے کو آپی کہنے کا پتا نہیں کون سا شوق ہے ۔ عنایہ نے منہ میں بڑبڑایا ۔
ویسے آپی اچھی بھی تو لگ رہی ہیں ۔ عمارہ نے تبصرہ کیا تھا ۔
اف ایک اور آپی کی چمچی ۔ عنایہ پھر سے منہ میں بڑبڑائی تھی ۔ عنایہ تجھے کیوں اتنا غصہ چڑھ رہا ہے بلاوجع کیا ۔ عنایہ نے دل میں خود کو مخاطب کیا تھا ۔
میز طرح طرح کے لوازمات سے سجا ہوا تھا مگر دانیا کا تو دل صرف دو چیزوں میں اٹکا ہوا تھا اپنی آنی کے ہاتھ کی بریانی اور ان کے ہاتھ کا بیسن کا حلوا مگر بریانی کا پہلا نوالا لیتے ہی اسے شدت سے احساس ہوا تھا کہ بریانی نورین نے نہیں بنائی تھی کیونکہ اس کی آنی کو بریانی میں لیمو ڈالنا پسند نہیں تھا کیونکہ اسے پسند نہیں تھا وہ لیمو ڈلی بریانی نہیں کھاتی تھی اس نے اپنا ہاتھ بیسن کے حلوے کی طرف بڑھا دیا تھا اور وہاں موجود تمام چیزوں میں بس اس نے وہی کھایا تھا مگر تھوڑا کہ کسی کو شک نہ ہو جائے اس پر ۔
ابھی سب کھانا کھا کر اٹھ ہی رہے تھے کہ ابا جی کا خاص ملازم ان کے پاس دوڑتا ہوا آیا تھا ۔
ابا جی وہ حقہ نہیں مل رہا ۔ جھجھکتے ہوئے وہ بولا تھا ۔
ایسے کیسے نہیں مل رہا دھیان سے دیکھو یہیں کہیں ہو گا ۔ ابا جی تھوڑا روب سے بولے تھے ۔
ابا جی نہیں ہے کہیں بھی میں نے ہر جگہ دیکھا ہے مجھے کہیں نہیں ملا ۔ ابا جی نے اسے گھور کر دیکھا مگر بولے کچھ نہیں اب مہمانوں کے سامنے وہ کیا بولتے ۔
دانیا نے بہت مشکل سے اپنا قہقہہ روک رکھا تھا کیونکہ حقہ وہ آتے ہوئے اپنی من پسند جگہ پر چھپا آئی تھی جہاں کسی کا دھیان جانا ناممکن تھا اور آج رات ہی وہ حقہ واپس اس کی جگہ پر رکھنے والی تھی مگر فلحال وہ ابا جی کی حالت سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی ۔
************************************
یاور لاکھانی تک خبر پہنچ چکی تھی کہ دانیا چوہدری حویلی پہنچ گئی ہے اس وجع سے وہ کافی خوش تھا اسے اب صرف محد اور دانیا کی بربادی کی خبر کا انتظار تھا اور وہ اس دن کو خوش قسمت دن سمجھتا تھا جب اسے کامران نے دانیا کا بتایا تھا ۔
اس رات جب کامران کمرے سے نکل رہا تھا تو کامران کے دماغ میں دانیا کا نام گونجا تھا ۔
کامران نے کمرے سے نکلتے ہوئے مڑتے کہا تھا
سر دانیا ۔ یاور نے آنکھوں میں حیرت لیے دیکھا تھا ۔
سر دانیا کنگ کی بیٹی ہے اور کنگ تو مر گیا ہے تو اب کنگ کون ہے ۔ کامران کی آواز پرجوش تھی ۔ یاور لاکھانی کو کامران ایک ایک بات بتا رہا تھا یاور لاکھانی کو یاد آیا تھا کہ سات سال پہلے ایک خبر اخبار کی سرخی میں آئی تھی کہ ایک عورت کی لاش سڑک پر پڑی ملی ہے اور یاور کو یاد تھا کہ اس کے باپ نے اس دن اپنی تمام سورس لگا کر وہ خبر دبا دی تھی اور اس کے کچھ روز بعد اس کا باپ مر گیا تھا اسے سب یاد آیا تھا تو وہ عورت ناز ولی خان تھی ۔ کنگ کی بیوی اور اس دن کنگ مر گیا تھا اور اگر کنگ مر گیا تھا تو اب کنگ کون ہے یقیناً کنگ کی اکلوتی وارث دانیا ۔
اس وقت یاور لاکھانی کو کامران پر بے انتہا غصہ مگر غصہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ کامران کے الفاظ جادو تھے کوڈ کا ایک راز یاور کے ہاتھ لگ چکا تھا ۔
**************************************
محد دانیا اس وقت بہاولپور کے ایک ہسپتال میں کے ایک وی آئی پی کمرے میں موجود تھے سامنے وہ شخص لیٹا تھا جس کے بارے میں دانیا کا داعوہ تھا کہ وہ اس سے محبت کا اظہار کر چکا ہے اور اس کے انکار پر خود کو ختم کرنے کی کوشش کر چکا ہے ۔ اب اس لڑکے کا بیان لینے بازاتِ خود محد یہاں آیا تھا یہ لڑکا جو سامنے لیٹا ہوا تھا ایک جاگیردار کا چشم و چراغ تھا ۔
اس لڑکے نے دانیا کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا اس کا کہنا تھا کہ وہ اس لڑکی کو آج پہلی بار دیکھ رہا ہے اور اس نے جس لڑکی کو پرپوز کیا تھا وہ کوئی اور تھی اور ساتھ ہی اس کا یہ بھی داعوہ تھا کہ جس لڑکی نے اس پر حملہ کیا وہ نہ ہی سامنے کھڑی دانیا تھی اور نہ ہی جسے اس نے پروپوز کرنے والی وہ تو کوئی اور تھی ۔ اس کی باتوں میں اتنے جھول تھے کہ اسے خود کو شاید اپنی باتوں پر گمان ہوتا اور اوپر سے سامنے کھڑی لڑکی اس بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہی نہیں تھی کہ اس نے اسے پروپوز نہیں کیا ۔
دونوں اسے ہسپتال کے کمرے میں تنہا چھوڑ آئے باہر اس کے ڈاکٹر سے محد کی ملاقات ہوئی تھی ڈاکٹر نے اسے یہی بتایا تھا کہ وہ لڑکا خود ماننا نہیں چاہتا تھا کہ اس نے خود کشی کی ہے مگر اس کی کلائی پر لگا گھاؤ تو یہی بتا رہا ہے کہ اس نے خود کلائی کاٹی ہے اگر کسی اور نے کاٹی ہوتی تو گھاؤ اس رخ میں نہ ہوتا اور ہاتھَ پائی ضرور ہوتی اور ایسا کہیں سے نہیں لگتا تھا ۔
شاقہ میڈم آپ فکر نہ کریں آپ خود کو اس سب میں مت گھمائیں یہ سب جلد نپٹ جائے گا جاگیردار کا بیٹا ہے بدنامی کے ڈر سے خود ہی کیس پیچھے کھینچ لیں گے ۔
مگر مجھے اپنا آپ قصور وار لگ رہا ہے ۔ دانیا معصومیت سے بولی تھی ۔ یہ لڑکی اسے کہیں سے وہ نہیں لگی تھی جو پہلے روز گریس سے رنگے ہاتھ لیے بیٹھی تھی ۔
*************************************
اسلام علیکم پیارے ریڈرز تو ایپی حاضر ہے مجھے معلوم ہے ایپی لیٹ ہے پڑھائی کی وجع سے لیٹ ہوئی مگر میں نے ایپی لمبی اسی لیے دی ہے ۔
آپ کی رائٹر سعدیہ ۔
ووٹ کریں اور کمنٹ ضرور کریں کہ ناول کیسا جا رہا ہے ۔

ESTÁS LEYENDO
حیات المیراث Completed
Ficción Generalکہانی نئے کرداروں کی، محبتوں کی ان کہے جزباتوں کی، رشتوں کی ،مرادوں کی ۔ کہانی ایک شخص نہیں بلکہ کئی لوگوں کے گرد گھومتی ہے کہانی محبت قربان کرتے لوگ دیکھاتی ہے اپنے سے آگے اپنوں کو دیکھاتی ہے خوابوں کو دیکھاتی ہے ۔ کہانی ہے دانیا کے جنون کی لوگوں ک...