قسط #9

236 29 7
                                    


اسلام وعلیکم بابا! پریسہ نے سلام کرتے ہوئے حیرانگی سے یوسف بابا کے ساتھ کھڑے دائس کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا...
"میں بھی مسلمان ہوں پری" دائس کی بات پر یوسف بابا بھی مسکرا دۓ جبکہ پری نے جلدی سے سلام کیا...
"وعلیکم السلام! خیر یوسف بابا اب چلتا ہوں کافی لیٹ ہو گیا ہوں" دائس ان سے اجازت چاہی تو پری نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ اندر نہیں آرہا ورنہ وہ اسے کہاں بیٹھاتی اور وہ کیا سوچتا اسکا چھوٹا سا پرانا گھر دیکھ کر...
"آپ نا ہوتے تو شاید میں ابھی گھر نا پہنچ پاتا پلیز اندر آئیں چاۓ پی کر جائیے گا " ان کے سادھا سے انداز پر پریسہ کا سر پیٹنے کو دل چاہا....
(اوہو یوسف بابا یہ تو دایس کا فرض تھا آخر کو سسر بھی باپ کی جگہ ہوتا ہے) دائس اس وقت بلوٹوتھ سے آنے والی کمیل کی آواز پر کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اسی لئے اسنے دل میں کمیل کو گالی سے نوازا....
" اوے سسر نہیں سسر ٹو بی" اب کی بار سواش بھی بولا تھا وہ چاروں اس وقت بلوٹوتھ کے ذریعے آپس میں کونیکٹڈ تھے بلکہ وہ چاروں تقریباً ہر وقت ہی ہوتے تھے....
"جی یوسف بابا جیسے آپ کی مرضی" دایس ان کی باتوں کو نظرانداز کرتا ہوا بولا تو یوسف بابا بھی اندر کی جانب بڑھے البتہ پری اسکا رستہ حائل کیۓ ابھی تک کھڑی تھی...
"ہٹو لڑکی اندر تو آنے دو" دایس بولا تو اسنے بھی جھجھکتے ہوئے رستہ دے دیا اور خود اب شرمندگی سے دروازہ بندھ کرنے لگی....
یہ نہیں تھا کہ وہ پہلی بار انہیں چھوڑنے آیا تھا وہ اکثر پریسہ کو چھوڑنے آیا تھا مگر اتفاق کی بات وہ اسے باہر سے ہی چھوڑ کے چلا جاتا تھا اور آج پہلی بار وہ پریسہ کے گھر کو حیرانگی سے دیکھ رہا تھا.. دو کمروں کے آگے ایک چھوٹا سا برآمدہ تھا جسکے آگے ایک بڑا سا سحن۔ جس کے درمیان میں ایک چارپائی پڑی تھی  جو کہ اس وقت پریسہ کی کتابوں سے بھری ہوئی تھی اور ایک طرف چھوٹا سا واش بیسن تھا جہاں اب یوسف بابا وضو کر رہے تھے... پریسہ اب انکے پاس تولیہ لیے کھڑی انکا ویٹ کر رہی تھی دایس نے آس پاس بیٹھنے کے لئے کسی چیز کے تلاش میں نظریں دوڈائ مگر اسے کچھ بھی نہیں مل رہا تھا تب ہی پری کی نظر اس پر پڑی....
"اوہ سوری تمہیں تو بھول ہی گئ میں" کہتے ہوئے وہ کمرے کی جانب بھاگی تو دایس بھی ہنس پڑا جبکہ اب وہ اندر سے ایک لکڑی کی کرسی لے آئ تھی جو اس نے چارپائی کے سامنے ہی رکھ دی....
"پری اٹس اوکے تم کرو جو کر رہی تھی میں ٹھیک ہوں" جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا وہ بولا تو وہ بھی جھینپ سے گئ.....
"پری جاؤ بھائی کے لئے چائے وغیرہ بنا کے لاؤ سردی ہے" یوسف بابا کے بھائی کہنے پر دایس کا دل رو دینے کو چاہا "ہاہاہہاہاہاہاہاہ ہاہاہاہاہاہ بھائی ہاہاہاہاہ"جبکہ اب اسکے کانوں میں ان تینوں کے فلک شگاف قہقہے گونج رہے تھے....
" کمینوں منہ بندھ رکھو اپنا" دایس کی سرگوشی پر دوسری طرف قہقہوں میں مزید اضافہ ہوا تھا جب کے پری نے شاید اسکے بات سن لی تھی اسی لئے حیرت سے دایس کو دیکھا....
"تمہیں نہیں کہہ رہا ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں" دایس نے کان کی طرف اشارہ کیا تو اسنے افسوس سے سر ہلایا
"تم چاروں کا کچھ نہیں ہو سکتا پاگل ہو تم لوگ" کہتی ہوئی وہ کچن کی جانب بڑھ گئ....
"ہمارا تو پتا نہیں پری باجی آپ کے دایس بھائی تو سچ میں پاگل ہیں آپ کے عشق میں " ویسے تو موراش کافی سیریس بندہ تھا مگر ان چاروں کے ساتھ تو وہ بھی ایسا ہی ہو جاتا تھا....
"دایس بیٹا آپ بیٹھو میں نماز پڑھ آوں لیٹ ہو جائے گی..." بات ہر دایس نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا اور اب وہ پری کی اسائنمنٹ کو دیکھنے لگا تھا ریجسٹر پر وہ ایک ہی سوال تین بار کر چکی تھی جبکہ وہ ایک نظر میں ہی جان چکا تھا کہ اسکی شروعات ہی غلط تھی..... جبکہ اب وہ اس سوال کو ٹھیک کرنے لگا اور اب وہ پریسہ کی چاۓ کا انتظار کرنے لگا تھا....
.........................
"اچھا چلیں میں چلی اب نہانے تم لوگ دیکھ لینا باقی " آلائنہ نے کچن میں کھڑی تمام لڑکیوں کو کہا....
"آہاں ٹھیک تم جاؤ" پلوشہ نے کباب فرائ کرتے ہوئے کہا تو انشراح جلدی سے بولی...
"آلائنہ تمہارے ڈش کا کریڈٹ میں لے لوں" انشراح کی بات پر سب نے حیرانگی سے اسے دیکھا.....
" آلائنہ کا کریڈٹ لینا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے انشراح جی" آلائنہ نے شرارت سے آنکھ کا کونہ دباتے یوۓ کہا....
"ہاں انشراح آپ کسی اور کا لے لو کیونکہ مرش کو سیکنڈ بھی نہیں لگے گا یہ جاننے میں کہ یہ ڈش آلائنہ نے بنائی ہے سو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس سبکا" عائشہ کی بات پر انشراح کو آلائنہ سے سخت نفرت ہوئ صبح سے وہ جہاں بھی آلائنہ کا زکر سن رہی تھی ساتھ مرش کا نام نا ہو ممکن ہی نا تھا......
" اچھا تو دیکھ لیتے ہیں آج پھر کتنے پانی میں ہیں مرش بھائی " امل نے کہا تو آلائنہ بھی کندھے اچکاتی باہر نکل گئ" ایز یو وش" آلائنہ نے کہا تو وہ؛ سب بھی کاموں میں لگ گئی جبکہ انشراح اب کچھ سوچنے لگی
" اس آلائنہ کا تو کچھ کرنا پڑے گا"
..............
تم یہاں میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو" وہ جو ابھی ہی روم میں آیا تھا سحرے کو دیکھ کر ٹھٹھکا....
" آں.. تم... وہ میں کھانے کا کہنے آئ تھی " اسنے جلدی سے بہانہ بنایا جبکہ اب وہ ہاتھ میں پکڑی چیز کو پیچھے چھپا رہی تھی۔
"کچھ تو گڑبڑ ہے سواش " اسنے سوچا اور پھر جلدی سے بولا" تم مجھے کھانے کا کہنے آئ تھی اتنی نیک تو تم ہو نہیں سحرے فاطمہ سو سیدھی سیدھی طرح بات بتاؤ کہ کیوں آئ تھی "
" او ہیلو شاہ گل نے کہا کہ بول دوں تو آ گئ لیکن تم.. تم تو اس لائق ہو ہی نہیں" گھبراہٹ چھپانے کے لئے اسنے اپنا رخ دوسری جانب موڑ دیا ۔
" ٹھیک ہے تم جاؤ " سواش جان چکا تھا کہ اس سے پوچھنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔اور اب سحرے بھی اسکے دروازے سے ہٹنے پر جلدی سے باہر نکل گئ.......
" آں آں! محمد سواش دال میں کچھ تو کالا ہے یا یوں کہو کہ اس کلو کی پوری دال ہی کالی ہے" سوچتے ہوئے وہ آس پاس دیکھنے لگا مگر اس بیچارے کے تو وہم وگماں میں بھی نہ تھا کہ وہ کیا کر گئ تھی......
............................
سواش کہیں دایس دکھ نہیں رہا کہاں ہے وہ" ابراہیم صاحب نے اسے نا پاتے ہوئے پوچھا آج کل وہ سب ایک ساتھ ہی کھانا کھایا کرتے تھے وجہ میروش کا آنا تھا...
" جی بابا وہ پریسہ کے بابا کو چھوڑنے چلا گیا تھا انکی بائیک خراب ہو گئی تھی" کھانا کھاتے سواش نے جواب دیا....
" امل یہ میری جگہ ہے تم یہاں پر بیٹھ جاؤ" موراش جو ابھی ہی آیا تھا آلائنہ کے ساتھ والی چیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا جبکہ اب وہ اس کے لئے سواش کے دوسری طرف کی چیئر کو پیچھے دھکیل رہا تھا امل بھی مسکراتے ہوئے بیٹھ گئی.....
" اچھا موراش بھائی یہ تیسٹ کریں انشراخ آپی نے بنایا ہے " امل کی بات پر موراش نے کندھے اچکاتے ہوئے وائٹ چکن اپنی پلیٹ میں ڈالا تو کھانا کھاتی انشراخ بھی چونکی مگر یہ کیا وہ کچھ بھی نہیں بولا تھا نا ہی کوئی تعریف بلکہ خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا.... "بھائی بتائیں نا کیسا بنا ہے " امل کو تجسس ہوا..." obvious ہے یار اچھا ہے ۔میں پہلی بار آلائنہ کے ہاتھ کا تھوڑی نا کھا رہا ہوں" وہ جو پہلے کچھ سوچ کے چپ ہو گیا تھا دوبارہ پوچھنے پر بنا جھجھک کے بولا جبکہ اس سب کے دوران آلائنہ نے پہلی بار انشراخ پر جتاتی ہوئی نگاہ ڈالی تو وہ بھی غصے سے چیئر سے اٹھتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی....
" اسے کیا ہوگیا آپا " اسماعیل صاحب کے پوچھنے پر وہ بھی ایکسکیوز کرنے لگیں....
" بھابھی میرے تو شہروز نے بول دیا ماما شادی تو میں کسی مشرقی لڑکی سے ہی کروں گا جسکو گھر کے کام کاج کا پتہ ہو اور کھانا بھی بنا لیتی ہو " انہوں نے آلائنہ کو دیکھ کر اشاروں میں کہا تو موراش نے بھی حیرانگی سے شاہ گل کو دیکھا....
" آپا ایک آپ کی اولاد ہے ماشاءاللہ اور ایک میری اولاد ہے جسکو یہ بھی نہیں پسند کے اسکی بیوی کسی کو کھانا سرو کرے " اور انہوں نے ایک ہی جملے میں پھپھو کے دونوں ارادوں پر پانی پھیر دیا جو موراش کو داماد اور آلائنہ کو بہو بنانے کا سوچ رہی تھیں.....
" ہییں بھابھی کیا مطلب " موراش شادی شدہ ہے؟
پھپھو شادی شدہ نہیں نکاح شدہ اور اب اپنی آلائنہ صاحبہ کے آدھے شوہر کا فریضہ نبھا رہے ہیں" سواش نے مزے لیتے ہوئے کہا تو وہ بھی چپ چاپ کھانا کھانے لگیں جبکہ موراش نے مسکراتی نگاہ شاہ گل پے ڈالی.....
................
" آیت وہ صرف تھوڑی دیر کے لئے آ رہی ہے تم تو ایسے تیاری کر رہی ہو جیسے شادی کر کے یہاں آرہی ہو" حسان اس کو صبح سے یوں تیاری کرتا دیکھ رہا تھا آج سنڈے تھا اسی لئے وہ بھی گھر پر تھا......
"اف میں چاہتی ہوں کہ سب کچھ پرفیکٹ ہو ایک نا ایک دن شادی کر کے بھی تو آئیں گی ہی نا " آیت چہک کر بولی تو حسان بھی مسکرا دیا جب ہی باہر گاڑی کے ہارن پر وہ باہر کی جانب بھاگی جبکہ حسان نے بھی ایک بار خود پر نظر دوڑائی کیجول ڈریسنگ میں بھی وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا....
" بیا یار میں اندر نہیں جا رہا مجھے کام ہے ایک آپ مجھے کال کر لینا میں آپ کو لینے آ جاؤں.... آہہح" کمیل جو بات کر ہی رہا تھا اندر سے جلدی میں آتی آیت سے بری طرح ٹکرایا لیکن اس سے پہلی کہ آیت نیچے گرتی وہ اسے اپنے مضبوط حصار میں تھام چکا تھا لیکن آیت نے اگلے ہی پل سنبھالتے ہوئے حود کو اسکے حلقے سے نکالا.....
" آیت یہ کمیل ہے آلائنہ کا دوست کیا پتا تم جانتی ہو اسے" عائشہ نے مسکراتے ہوئے اپنے برابر میں کھڑے پر وجاہت شخصیت کے مالک کمیل فرہاد کا تعارف کروایا.....
"ہاۓ آیت"کمیل نے چونک کر اس حسن کی مورت کو دیکھا۔
"ہیلو" آیت نے بمشکل اپنا منہ کھولا اور گھبرائی ہوئ سی کھڑی بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔
" آپ سے مل کر خوشی ہوئی آیت" کمیل نے دلچسپ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
"شکریہ" اسکی نظروں سے پزل ہوتے ہوئے آلائنہ نے پہلو بدلہ۔
"اچھا بھائ میں تو اندر جارہی ہوں" عائشہ نے کندھے پر ٹشو کے دوپٹے کو ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
"ایک منٹ عائشہ بیا میں بھی ساتھ چلتی ہوں" آیت بدک کر ایک دم سے بولی۔
" مس.... رک جائیں دو منٹ میں آپ کو کچا نہیں چباؤں گا" وہ ایک دم ہنس کر بولا۔
"آنکھوں سے تو کھانے کا ہی ارادہ لگتا ہے "آیت کا آخری جملہ اسکے کانوں میں گونجا اور پھر شرمندگی کے احساس نے گھیرے میں لے لیا۔وہ اتنا بے اختیار تو نہ تھا'پھر بھی آیت  کو دیکھ کر خود پر اختیار کھو بیٹھا تھا۔
"کمیل اندر آجاؤ " عائشہ کی آواز پر وہ بھی خیالوں سے باہر آیا" نہیں بیا کام ہے مجھے چلتا ہو" چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجاتے ہو وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا تھا اور اب وہ گاڑی سٹارٹ کرنے لگا.....
.................
Give ur reviews guys 💞💞💞
And stay connected 💞💞💞

بنجارے!!! مکمل ناول Où les histoires vivent. Découvrez maintenant