قسط #8

249 25 8
                                    


.....
"مجھے تم لوگوں سے اس بچپنے کی امید بلکل نہیں تھی " وہ بولے تو ان تینوں نے موراش کو مددطلب نگاہوں سے دیکھا جو حود کب سے انکے ساتھ بے عزتی سننے میں ایسے مصروف تھا جیسے اس سے ضروری کام کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا .... "پر سر ہم اسکو اتنی آسان موت نہیں دینا چاہتے تھے اسیلۓ ہم نے اسے نہیں مارا" موراش کی بات پر ان چاروں نے معصومیت سے سر اثبات میں ہلایا...." اور اسیلۓ تم لوگ اس کے بیٹے کو اسکے سامنے موت کے گھاٹ اتار کر اپنی ان شکلوں کی نمائش کروا کر واپس آگۓ کہ ملک عامر اب آپ کو ہمیں مارنے میں مشکل نہیں ہوگی شکل تو دیکھ لی آپ نے ہماری " مارکر سے ان سب کی شکلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولے تو پتا نہیں کیوں موراش کو ان کے اس انداز پر ہنسی آئی لیکن وہ جلدی سے دوبارہ سنجیدگی سے پہلے کی طرح کھڑا ہو چکا تھا....." بہت ہنسی آرہی ہے آپکو کیپٹن موراش!....
"سر وہ آپ کے انداز پر مجھے اپنی ماما یاد آگئی وہ بھی میرے بابا کو ایسے ہی بولتی ہیں 'آگۓ آپ اپنی شکل کی نمائش کررا کے' "اور اسکے ساتھ ہی موراش کی ہنسی چھوٹ گئ جب کہ کرنل ابراہیم نے بھی اپنی لاڈلی اولاد کو دیکھا جو اب سواش کے کندھے پر بازوں رکھے منہ کے آگے ہاتھ رکھے ہنسی روکنے میں مصروف تھا جبکہ باقی سب بھی اب ہنسی دباۓ کھڑے تھے.....
" کیپٹن موراش بی سیریس! " انہوں نے جیسے حکم صادر کیا تو وہ بھی ایک دم سنجیدہ ہوا "اوکے کرنل ابراہیم!" موراش ابھی بولا ہی تھا جب ہی ابراہیم خان کے فون بجنے کی آواز گونجی
"ہاۓ مرش تم ابھی سر کی وائفی کو یاد ہی کر رہے تھے کہ انکا فون آگیا....
" بیٹا جی فون انکی ماما کا نہیں سسر جی کا ہے " بات پر صاف ظاہر تھا کہ فون پر ملک عامر ہے....." اوہ اچھا چلیں اسماعیل ماموں کو سلام کہیے گا "سواش بھی کہاں پیچھے رہنے والوں میں سے تھا اسی لئے چہک کر بولا تو ابراہیم صاحب نے بھی افسوس سے سر ہلایا کیا چیز تھے وہ چاروں .... "تم نے اچھا نہیں کیا کرنل شاید تمہیں 17 سال پہلے کا واقعہ یاد نہیں جو دوبارہ مجھ سے پنگا لیا تم نے لیکن اس بار تم نے میرے بیٹے کو مارا ہے میں تمہارے پورے خاندان کو نہیں چھوڑوں گا " وہ گرج دار آواز میں بولا تو وہ سب بھی چونکے جب کہ ابراہیم صاحب نے جلدی سے فون سپیکر سے ہٹاتے ہوئے کان سے لگانا چاہا لیکن سواش انکا ہاتھ روک چکا تھا...
کیا مطلب ملک عامر تم کس واقعہ کی بات کر رہے ہو  ؟" سواش نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا اور ابراہیم صاحب نے اپنی آنکھیں سختی سے بھینچ لی تھیں....
" اوہ تمہیں بتا ہی نہیں پایا ویسے بلکل باپ کا عکس ہو تم ایک پل کے لئے تو لگا جیسے میجر محمد ہادی ہی میرے سامنے ہو لیکن پھر یاد آیا اسکے تو ٹکرے ٹکرے کر کے پھینکا تھا وہ کیسے ہو سکتا ہے" الفاظ تھے یا سیسہ! سواش نے بے یقینی سے ابراہیم خان کو دیکھا جنہوں نے کہا تھا کہ انکا ایکسیڈنٹ ہوا تھا وہ مزید سننے کی سکت نہیں رکھتا تھا اسی لئے فون آف کر دیا ....
" تو بابا بابا۔۔۔۔کا ایکسیڈنٹ نہیں۔۔۔ ہوا تھا ماموں بابا کو کیا ہوا تھا۔۔۔ماما بھی تھیں نا ساتھ میں وہ ۔۔بھی کیا......." وہ مزید نہیں بول پایا تھا جب ہی موراش نے آگے بڑھ کر اسے تھامنا چاہا مگر وہ ابراہیم صاحب کو ہی دیکھ رہا تھا جب کہ کمیل اور دایس بھی اسکی اچانک اس حالت پر پریشان ہو گۓ....
" انکا ایکسیڈنٹ نہیں ہوا تھا بلکہ ہادی اور سہروش دونوں کا ہی مرڈر ہوا تھا اور انکی لاش اس قابل نا تھی کہ میں سب کو دیکھا پاتا اسی لئے میں نے جھوٹ بولا کہ انکا ایکسیڈنٹ ہوا ہے."وہ اب بول رہے تھے اور وہ دم سادھ کھڑا وہ سب سن رہا تھا اسکے ماں باپ کا قاتل اسکے سامنے تھا شاید اسیلے اس سے اسے اتنی نفرت ہو رہی تھی....."
...............
"سیش میری بات سن تو ٹھیک ہے نا " وہ اس وقت شملہ کی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے انہیں یہاں آۓ ہوئے تقریباً آدھا گھنٹا ہو گیا تھا لیکن ابھی تک اس نے کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی جبھی دایس نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھا...." میں ٹھیک ہوں دایس مگر میں اسے نہیں چھوڑوں گا میں اسے ویسے ہی ماروں گا جیسے میرے ماما بابا کو مارا تھا اسنے" پتا نہیں کیوں دایس کو لگا جیسے وہ رو رہا ہو....
"ہاں میری جان فکر نہ کر ہم تیرے ساتھ ہیں اور تو جیسا چاہے گا ویسا ہی ہوگا" اس سے ایک سٹیپ نیچے بیٹھے موراش نے بھی اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا.....وہ شاید آلائنہ سے بھی زیادہ عزیز تھا اسے " یارا کیا ہو گیا ہے چل سیشی کہیں چلتے ہیں"کمیل نے بھی موڈاچھا کرنے کے لئے کہا تو دایس بولا "بلکہ چل پری کے چلتے ہیں تجھے پری کے ہاتھ کا کھانا بھی کھلائیں گے تجھے بہت پسند ہے نا"....
"واہ بھائی اگر میں ایک بار اور اداس ہوں تو کیا پری مل سکتی ہے مجھے" سواش بھی انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسیلے شرارت سے بولا تو دایس نے بنا اسکی اداسی کا حیال کیۓ اسکے بازوں پر زور سے گھونسا مارا...." ابے سالے بازوں توڑ دیا میرا کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا پتا چل گیا ہے مجھے "بازوں کو پکڑے وہ بولا تو سب ہی ہنس پڑے....
"اوے نہ کرو میری بیوی کو تنگ" موراش کی بات پر ان دونوں نے اسے گھورا...
"ابے کتنی بیویاں ہیں تیری اگر یہ تیری یا تیرا جو بھی ہے بیوی ہے تو آلائنہ کون ہے پھر "کمیل نے جملہ درست کرتے ہوئے کہا.......
" وہ میری شرعی بیوی ہے جبکہ سیشی میرا منہ بولی بیوی ہے"
"اچھا بس اب چلو  یہاں یونیفارم میں بیٹھے اگر لڑکیوں نے دیکھ لیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ہمیں " دایس کی بات پر وہ دونوں بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور اب وہ تینوں ہی سیڑھیاں اترتے سواش کو تنگ کر رہے تھے تاکہ اسکا موڈ اچھا ہو جائے....
..............
اسلام وعلیکم! ان تینوں نے لاؤنج میں بیٹھے تمام افراد کو سلام کیا تو میروش نے بھی ان تینوں کو دیکھا......
" پھوپھو آپ کب آئیں؟" دایس نے حیرانگی سے پوچھا تو وہ لوگ بھی چونکے کیونکہ میروش آخری بار ہادی کی موت پر آئ تھی اور تب ان پانچ سال کے بچوں کو کہاں ہوش تھا اس سب کا.......
"جی میری جان میں ماشاءاللہ بھابھی جوان ہو گئے ہیں میرے بھتیجے تو اللہ نظرِ بد سے بچائے "میروش کی بات پر شاہ گل اور شیریں گل بھی مسکرا دیں...... "اسلام وعلیکم کزنز! سواش نے سلام کیا تھا جب کے موراش نے بس سر جھکانے پر اکتفا کیا....." وعلیکم السلام واہ ماما آپ نے کبھی بتایا نہیں کہ موراش بھائی اتنے پیارے ہیں میں ان پر پویٹری لکھوں گی" ویسے تو خوبصورتی ہمیشہ سے ہی بنگش فیملی کی میراث رہی تھی مگر موراش اور آلائنہ کو تو جیسے خدا نے بڑی فرصت سے بنایا ہو 'ایک موراش ابراہیم تھا جس کے چہرے سے نظریں ہٹانا مشکل تھا اور ایک آلائنہ اسماعیل تھی جسکی گہری سبز آنکھوں سے آنکھیں ملانا 'امل کی بات پر وہ بھی ہنس پڑا ایسے جیسے اسے عادت ہو ان سب الفاظ کی جبکہ اب وہ سنگل صوفہ پر بیٹھی آلائنہ کے ساتھ میں ہی آبیٹھا ....."کیوں بھائی امل انشراح جی بھی کافی پیاری ہیں تم ان پے کیوں نہیں شاعری کرتی "آلائنہ کی بات پر امل نے بھی ایک نظر انشراح پے ڈالی جو موراش کے خود کو اگنور کر کے امل سے بات کرنے پر خاصی تپی ہوئ تھی..... "گھر کی مرغی دال برابر" سواش نے بھی قہقہہ لگاتے ہوئے کہا وہ سب اب امل سے ہنسی مذاق میں مصروف تھے اور بڑے اپنی باتوں میں...." موراش بھائ آپ جیسے کوئی شہزادے ہوں" امل کافی ایمپریس ہوئ تھی اسیلے دوبارہ چہک کر بولی
" مجھے اس جیسی ڈمبو سے اپنے لئیے کوئی شاعری کروانی بھی نہیں" انشراح کا  یوں چھوٹی بہن کا مزاق اُڑانا سب کو عجیب لگا "انشراح ایسی بات نہیں ہے ہمیں تو امل بہت کیوٹ لگی ہے اور باتیں بھی پیاری کرتی ہے" دائس نے امل کو اداس ہوتا دیکھ کر کہا....... "ہاہاہاہا.!کیوٹ اف تم پاکستانی اسے کیوٹنس کہتے ہو او مائ گوڈ "
" انشراح آپی پلیز بس کر دیں" امل نے آنسوؤں کو اندر دھکیلا تو آلائنہ اور سحرے کو بھی برا لگا" اچھا چھوڑو امل یہ بتاؤ کون سی کلاس میں پڑتی ہو تم " سحرے نے کہا جب کے بوئز نے  خیرانگی سے انشراح کو دیکھا جو دلچسپی سے موراش کو دیکھ رہی تھی جیسے اسکی ملکیت ہو "مجھے انشراح کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے" دایس کی بات پر سواش نے آلائنہ کو دیکھا جو امل سے باتوں میں مصروف تھی اسی لئے انشراح کی حرکت نوٹ نہیں کر پائ تھی "کیا ہی مزہ ہو یہ مغرور لیلا مرش کے لئے ایلی کے منہ لگے عقل ٹھکانے لے آۓ ایلی اس کی" سواش کی سرگوشی پر دایس بھی مسکرا دیا اور اب وہ بھی ہمیشہ کی طرح دوسری بار فریش ہونے کے لیے اپنے اپنے رومز کی جانب بڑھ گۓ......
............................
" آپی یہاں سے نہیں نا مجھے وہاں سے لینی ہے جیولری" امل نے آلائنہ کو کھینچے ہوئے کہا.... "اچھا میری ماں وہاں بھی چلے جائیں گے ابھی مجھے تو لینے دو" آلائنہ کو آج پہلی بار پہلاج کی بےچارگی کا  احساس ہوا تھا....
"آلائنہ تم یہاں کیا کر رہی ہو" آیت  آلائنہ کو دیکھ کے خوشگوار حیرت سے بولی تو وہ بھی چونکی...
" آہ آیت تم یارا بس شاپنگ کے لئے آئ تھی مگر مجال ہے جو مجھے اور امل کچھ آچھا لگے" آلائنہ اکتا کر بولی..... "میرو یہ آلائنہ ہے میں نے بتایا تھا نا آپکو ان سب کے بارے میں "آیت نے اب کی بار ساتھ کھڑے حسان کو کہا جو کھڑا اسکی باتیں سن رہا تھا "ہیلو آلائنہ ہاؤ ار یو " اس نے رسماً پوچھا....
" ایک سیکنڈ آپ میر گروپ آف انڈسٹری کے اونر ہو؟ "
"ہاں وہی ہیں تم جانتی ہو انہیں " حسان کی بجائے آیت بولی....
" مانو میں تھک گئی ہوں گھر چلیں" عائشہ جو ابھی ہی وہاں آئ تھی تھکے ہوئے لہجے میں بولی جب کہ حسان کو دیکھ کر وہ  حیران ہوئ.... "آپ یہاں...... " عائشہ نے کہا...
" اوہ آیت یہ میری کولیگ ہیں عائشہ اور عائشہ میری بہن آیت... کل اسی کی وجہ سے میں نے فون بند کردیا  تھا.... " حسان نے تعارف کروایا تو عائشہ مسکرائ اسے پتا نہیں کیوں بہت اچھا لگا تھا یہ سن کے کہ بے بی بہن تھی حسان کی......
"بھائی کیا یہ وہی ہیں جن کا آپ نے بتایا تھا مجھے " آیت کے اشاروں میں پوچھنے پر حسان نے بھی مسکراہٹ چھپائی....
" جی یہ وہیں ہیں میری جان " حسان نے اس سے چھپانا مناسب نہیں سمجھا جبکہ امل اور آلائنہ دونوں کھڑی دلچسپی سے سب  سن رہی تھیں "واہو بھائی! عائشہ آپی کیا میں ایک بار آپکو ہگ کر لوں " آیت کے یوں پوچھنے پر حسان کا سر پیٹنے کو دل چاہا اور آیت اب پتا نہیں کیا باتیں کر رہی تھی دور لے جا کر عائشہ سے اور وہ اسکے یوں پرجوش ہونے پر حیران و پریشان کھڑی سب سن رہی تھی پر جو بھی تھا اسے وہ لڑکی اچھی بہت لگی تھی........
" بھائی ایک بات کہوں آپ کافی کامیاب ہوتے جا رہے ہو اپنے پلین میں محترمہ کافی جیلس تھیں آیت سے" آلائنہ نے آنکھ مارتے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس پڑا کون جانے یہ دونوں کی پہلی ملاقات نہیں تھی بلکہ وہ دونوں تو بہت پہلے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور آج کچھ بھی اتفاقیہ نہیں تھا ........ "یار میں بھی ہوں " امل نے انکو اپنی جانب متوجہ کروایا
........................
وہ اس وقت اسائنمنٹ بنا رہی تھی مگر تیسری بار بھی کرنے کے باوجود اسے سوال سمجھ نا آیا تھا تب ہی دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز پر اس نے  بیزاریت سے پین پیپر بورڈ پر پھینکا اور دروازے کھولنے اٹھ کھڑی ہوئی....
کون ہے ؟....
"پری بیٹا میں ہوں دروازہ کھولو" یوسف بابا کی آواز پر اسنے جلدی سے دروازہ کھولا ......
..............
Stay connected ❤️

بنجارے!!! مکمل ناول Où les histoires vivent. Découvrez maintenant