قسط #2
"دیکھو مغرب کی آذان ہونے والی ہے اور ہم لوگ ابھی تک باہر ہیں" پریسہ نے پریشانی سے ان دونوں سے کہا جو اس وقت لا پرواہی سے کوک کے حالی کین کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھیں...
"اُف کتنی ڈرپوک ہو تم پری یارا حالانکہ ڈرنا تو ہمیں ں چاہیے کیونکہ اس بار تو شیریں گل نے پکا قتل کرنا ہے لیٹ جانے پر "آلاینہ نے اپنی باری پر کین کو کِک مارتے ہوئے کہا تو سحرے نے بھی شیریں گل کا سوچ کے جھرجھری لی....
"یار ڈرپوک ہونے کی بات نہیں ہے ہم لوگ اکیلے ہیں اور اوپر سے اندھیرا بھی پھیل رہا ہے اب تو"پری نے آس پاس دیکھا!! ان کی ایک طرف اوپر کو جنگل تھا جب کے دوسری طرف کھائ تھی
"اوہو میری جان اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے سحرے فاطمہ سب سنبھال لے گی" رین کوٹ کی ٹوپی سر پر کرتے ہوئے وہ کسی ہیرو کی طرح بولی جو اپنی ہیروئین کو بچانے کا یقین دلا رہا ہو تو پری بھی اسکی بات پر مسکرا دی..... اہم اہہمم!" اور اسی بات پر اگر اجازت ہو تو کچھ ارشاد ہو جاۓ"گلا کھنکھارتے ہوۓ آلائنہ نے اجازت طلب نظروں سے انہیں دیکھا تو پری اور سحرے نے بھی" ارشاد ارشاد" کہا اور دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئیں....
"ڈرنا کس بات سے جب تک ہے سحرے فاطمہ".......
واہ واہ واہ!! آگ لگا دی پارٹنر.....
" اوے پورا تو ہو جانے دو لڑکی"پریسہ نے سحرے کے اطالوے پن پر اسے خاموش کرایا....
ڈرنا کس بات سے جب تک ہے سحرے فاطمہ....
کیا کر لیں گی ہمارا یہ بھوتنیاں، چڑیلیں، اور بھٹکی آتما.......
آلائنہ نے شعر پورا کرتے ہی دونوں کو دادطلب نظروں سے دیکھا....تو ان دونوں نے بھی واہ واہ کہا!!
پارٹنر ایک بات کہوں... بھوتنی سے مراد کنزلی تھی نا؟؟؟ سحرے نے ایسے کہا جیسے بڑی راز کی بات ہو تو آلائنہ بھی ہنس پڑی
" پارٹنر مڑے کتنا جانتی ہو نا تم مجھے" اسکے کندھے پر بازو رکھے آلائنہ نے شرارت سے آنکھ کا کونا دبایا....
"اف تم لوگ اور تم لوگوں کا پری زاد"
پریسہ کے چہرے پر بیزاریت واضح تھی....
"جلیس پیپلز "ہنہوں...... دونوں نے ایک ساتھ ہاتھ سے بالوں کو ہوا میں اُڑایا
...................
نمرہ جو برتن دھوتی جلدی سے ہاتھ چلا رہی تھی آخر کو اس وقت ذنان خانے میں ان دونوں کی پیشی جو تھی اور آج تو موراش بھی نہ تھا انہیں بچانے کے لیے سو اسے ہی کچھ کرنا تھا ....
" خدا کی پناہ! مجال ہے جو گھر آنے کا بھی پتا ہو دونوں کو.... بتاؤ زارا ایسی کون سی لڑکیاں ہیں جو اتنے رات گۓتک گھر سے باہر رہتی ہیں" کمرے میں چکر لگاتی شیریں گل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ ان دونوں کا کرے کیا....
"یار پارٹنر میں نے تو ناولوں میں اور ڈراموں میں دیکھا تھا کہ خالہ صرف اپنی اولاد کو باتیں سناتی ہے پر شیریں تو مجھے بھی نہیں چھوڑ رہی"دکھ سے سحرے نے آلائنہ کے کان میں سرگوشی کی... "ہاں سنا تو میں نے بھی تھا کی چھوٹی بیٹی لاڈلی ہوتی ہے ماں کی مگر یہاں تو... "آلائنہ نے باقی کی بات ادھوری چھوڑ دی..." ارے میں تو سوچتی ہوں ایسا کون سا گناہ کیا تھا جس کی سزا دی اللہ نے میرے گھر ان دونوں کو بیجھ کے" شیریں آج فل فارم میں تھی "اب یہ تو گناہ کرتے وقت سوچنا چاہیے تھا نا وہ کیا کہتے ہیں "پچھتائے کیا ہوت جب مرغیاں چگ گئ کھیت " آلائنہ کی زبان میں ایک بار پھر کھجلی ہوئ تو سحرے نے جملہ ٹھیک کرایا "مرغیاں نہیں پارٹنر چڑیاں" لیکن اس سے پہلے وہ اسے کچھ کہتیں دروازے پر دستک ہوئی تو ان دونوں نے بھی دعا کی کہ کاش موراش ہو کیونکہ کہ وہ واحد انسان تھا جو اس وقت انہیں بچا سکتا تھا مگر دروازے پر کھڑی نمرہ کو دیکھ کر دونوں کی آخری امید پر بھی پانی پڑا...
" ماما وہ' آیۓ' کا فون ہے کہہ رہی ہیں آپ سے بات کرنی ہے کوئی خاص.. "اور نمرہ کی بات پر دونوں نے ہی سکھ کا سانس لیا اور پھرتی سے باہر نکل گئیں"نامونیاں" جب کے نمرہ نے مسکراتے ہوۓ سوچا...
................
اسلام وعلیکم!!! عائشہ نے ناشتے کے لیے بیٹھے افراد کو سلام کیا ... وعلیکم اسلام بیا!!!"آئیں بیٹھیں ناشتہ کریں "دائس نے سامنے سے آتی عائشہ سے کہا...
"کیسے ہو چھوٹے بھائی؟ آج کل ملتے ہی نہیں ہو لگتا ہے بھول گئے بہن کو" عائشہ نے اداس سا شکوہ کیا تو دائس کے ساتھ ناشتہ کرتے جبرائیل صاحب اور صائمہ صاحبہ بھی مسکرا دیئے....
"یار بیا ہمیں تو آپ یاد ہو آپ بتاؤ کہاں کھوئ رہتی ہو کہیں حسان میر کو دل تو نہیں دے آئیں انٹرویو کی جگہ؟"دائس نے شرارت سے عائشہ کے کان میں سرگوشی کی وہ رات میں اسے سب بتا چکی تھی جس کا اب اسے شدید افسوس ہوا تھا .....
"لڑکے شرم کر لیا کرو بہن سے کوئی ایسے بات کرتا ہے بلا" عائشہ نے اسے ڈانٹا...
"جو کوئی نہیں کرتا وہی تو چیمپئن کرتا ہے" دائس کے ڈائلاگ پر عائشہ کی بھی ہنسی چھُٹی..." ایسی کون سی باتیں ہو رہی ہیں دونوں بہن بھائی میں ہمیں بھی تو پتا چلے" جبرائیل صاحب نے ہنستی ہوئی عائشہ سے پوچھا...." بابا یار آپ کا بیٹا پاگل ہو گیا ہےاب پتا نہیں سرف ایکسل کا ایڈ سر چڑا ہے یا کوئی پری خوابوں میں آ رہی ہے بچے کے"عائشہ نے دائس کو چھیڑا جب کے' پری' کے نام پر دائس کے ہونٹوں پربھی مسکراہٹ بکھری....." اوہو مسکرایا جا رہا ہے تو مطلب کچھ تو گڑبڑ ہے" صائمہ صاحبہ نے بھی جانچنا چاہا مگر وہ" دائس جبرائیل احمد" تھا جس سے کچھ بھی پوچھنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا!!!
"ماما! چلتا ہوں کل بھی دو کلاسزبیا کے چکر میں مس ہوگئیں اور آج اگر لیٹ ہو گیا تو ایلی اور مرش نے میرا قتل کر دینا ہے"بات کو بدلتے ہوئے وہ جلدی سے چئیر کو پیچھے دھکیلتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا....
اچھا ناشتا تو کر لو کچھ بھی نہیں کھایا تم نے... ان کے چہرے پر فکرمندی واضح تھی جب کے کرنل جبرائیل نے بھی بیٹے کو دیکھا..." ماما اللہ حافظ! یونی کی کینٹین سے کچھ لے کر کھا لوں گا پریشان نہ ہوں آپ" انکی پیشانی پر اپنے لب رکھتا وہ باہر کی جانب بڑھ گیا....
"عائشہ آج کی کیا مصروفیات ہیں آپکی"
جبرائیل صاحب کے پوچھنے پر وہ بھی انہیں بتانے لگی....
................
اوے بی ! "کیا بولا تم نے مرش کو ہمیں بھی بتاؤ"کُمیل نے آلائنہ سے پوچھا جو کب سے موراش کے کان میں کچھ کہہ رہی تھی.... کیوں بتاؤں؟ "پہلی بات تو یہ کہ میں' بی'صرف مرش کی ہوں سو نیکسٹ ٹائم مت کہنا اور ہماری پرسنل بات بھی تو ہو سکتی ہے تمہیں کیوں بتاؤں " آلائنہ نے کُمیل کو چِڑایا تو موراش نے بھی بمشکل مسکراہٹ روکی کیونکہ وہ ویسے ہی سسپنس پھیلا رہی تھی جبکہ بات کچھ بھی نہیں تھی......" ابے دائس چیک کر اب اسکے بھی پرسنل ہونے لگے جو منہ پر ہاتھ رکھ کے روتی تھی کہ کہیں کھلے منہ میں مکھی نہ چلی جائے" سراسر مزاق اڑاتا کُمیل بات تو دائس سے کر رہا تھا پر سنا آلائنہ کو رہا تھا..... "کیوں بے جب فیڈر پیتے بچے فلرٹ کر سکتے ہیں تو یونی لیول پر ہمارے پرسنل کیوں نہیں نہیں ہو سکتے" آلائنہ کی بجائے جواب موراش کی جانب سے آیا تھا اور یہ صاف واضح تھا کہ وہ کمیل ہی کی بات کر رہا ہے ...
" چُپ ہو جاؤ تم سب آج میری پیاری دوست اُداس ہے "دائس نے گُم سُم بیٹھی سحرے کو دیکھ کر کہا جو کب سے اسے ہی نوٹ کر رہا تھا جب کہ باقی سب بھی اب سحرے کی طرف متوجہ ہوئے...." چلو بتاؤ جذباتی لڑکی آج دنیا میں ایسا کیا ہو گیا جو آپ کو اداس کر گیا ہے" پریسہ کی بات پر سب ہی مسکرا دئے کیونکہ واقع چاہے دنیا کے کسی کونے میں کچھ بھی ہو سحرے ان لوگوں کا دکھ سمجھنا اور اس پے دو دن منہ پھلا کے گھومنا اپنا فرض سمجھتی تھی (جذباتی لڑکی).....
" یار پتا ہے آج نہ ایک پوسٹ دیکھی ایک گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا پوری فیملی تھی باقی سب تو بچ گئے مگر مدر کی ڈیتھ ہو گئی کیا حال ہوگا نا ان سب کا کتنا رو رہے ہونگے وہ سب "کہتے کہتے سحرے اینڈ پر رو پڑی.. تو موراش کو اپنی اس جذباتی بہن پر بے انتہا پیار آیا تھا....
" اوہو چھوڑو یار چلو مجھے لائیبریری جانا ہے تم بھی چلو میرے ساتھ کچھ بکس دیکھتے ہیں" پری کی بات پر سحرے کے ساتھ ساتھ آلائنہ بھی جانے لگی تھی مگر کُمیل کی آواز پر رُک گئی...
"وہ میں کہہ رہا تھا میری نانی اماں جان کہا کرتی تھیں کہ اچھی لڑکیاں لڑائی نہیں کرتی تو سیدھی سیدھی جانا اور بنا پھڈے کے واپس آنا ہے" ... سمجھی! کمیل نے عادت کے مطابق نانی امی کا کہا آلائنہ کو کہہ ڈالا اور اب وہ اسکے جوابی حملے کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ وہ کہتی کہ" جی بھائی جیسا آپ کا اور نانی اماں کا حکم "....
" قسم سے کمیل اگر آج میری پارٹنر اداس نہ ہوتی تو میں تمہاری نانی اماں کے ساتھ آئشہ گل کا بھی سر نہ پھاڑتی تو آلائنہ اسماعیل نام نہ ہوتا میرا" ...... کتے کھائیں تمہیں!!! اپنی فیورٹ بددعا جو اس نے خاص طور پر ان سب کے لۓ ہی رکھی تھی کہتے ہوئے وہ دروازے کی جانب بڑھ گئ جب کے پیچھے بیٹھے ان تینوں کا ہی بے ساختہ قہقہہ بلند ہوا تھا.... ایک بات تو طے ہو گئ آج!!!موراش کے کہنے پر ان دونوں نے بھی اسے دیکھا
"اچھا اور وہ کیا ہے مسٹر مرش! "دائس نے کہا اور اب وہ اور کمیل دونوں بازوں میز پر رکھے آگے کو ہو کر بیٹھے....
"یاررا بات یہ ہے کہ اپنے کمیل میں نا ایک خاص نسل کا کیڑا ہے جو میری گھر والی کو سکون سے بیٹھا دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے اور اسے تب تک سکوں نہیں ملتا جب تک کے میری گھر والی کا دماغ نہ گھومے "موراش کی بات پر دائس نے بمشکل اپنا قہقہہ روکا کیونکہ اگر وہ اب پھر سے ہنستا تو کامسٹس والوں نے پاگل سمجھ کہ باہر پھینک دینا تھا کیونکہ وہ کب سے انکی باتوں پر ہنس رہا تھا اور وہ بیچارہ کہتا بھی تو کیا کہ میں پاگل نہیں ہوں میرے دوست ہی حردماغ ہیں.....
" تجھے شکر ہے آج بیس سال بعد پتا چل ہی گیا "کومیل نے بھی ہنستے ہوئے کہا...
.......
جاری ہے....

KAMU SEDANG MEMBACA
بنجارے!!! مکمل ناول
Pertualanganکہانی ہے بنجاروں کی... شملہ کے باسیوں کی..... یاروں کی یاری کی تو... دو دلوں کے ملنے کی... دکھ کی اور خوشی کی... تو محبت اور جنون کی......... .... ایک خوبصورت داستان جس میں یار ہیں، پیار ہے، رشتے ہیں تو رشتوں میں جان ہے....