ولید کادوانی ٹیکسٹائیل انڈسٹریز کے مالک تھے، وہ ایک نامور بزنس مین تھے ،ولید کادوانی اپنے چھوٹے بھائی ریحان کادوانی سے بے تحاشا پیار کرتے تھے ریحان میں ان کی جان بستی تھی اس کی ہر خواہش کو پورا کرنا انہوں نے اپنے پر لازم سمجھا تھا ، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ریحان ان سے چودہ سال چھوٹا تھا ۔ دوسرا ریحان کی پیدائش کے ایک مہنیے بعد مسز مریم کادوانی(ان کی والدہ ) خالق خیقیقی سے جا ملی تھیں ، سہیل کادوانی ( جو ان کے والد ) وہ ان کی جدائی برداشت نہ کرسکے تو ایک مہینے بعد وہ بھی پندرہ سالہ ولید اور ننھے ریحان کو روتا بلکتا چھوڑ کر چل بسے تھے ، رشتے دار تو کوئی تھا نہیں اس لیے وہ دونوں ایکدوسرے کا جینے کا سہارا تھے ، ولید کادوانی ریحان کے ماں باپ بھائی بہن دوست سب کچھ تھے ، انہوں نے اپنے والد کا بزنس بہت اونچایوں تک پہنچایا تھا ، اور ساتھ میں ریحان کی اچھی تربیت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی انہوں نے آج تک شادی کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا وہ ڈرتے تھے کہیں آنے والی ان کو ریحان سے الگ نہ کر دئے کیا پتہ وہ ریحان کو برداشت کر سکے گی یا نہیں،اسی ڈر کی وجہ سے انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔
ریحان پچھلے تین سالوں سے لندن میں اپنی پڑھائی مکمل کر رہا تھا وہ اسے ہر ویکینڈ پر ملنے جاتے تھے ، لیبا کو بھی انہوں نے پہلی دفعہ ایئرپورٹ پر دیکھا تھا جب وہ اییئر پورٹ کے باہر گاڑی کا انتظار کر رہے تب ان کے نظر لیبا پر پڑی تھی جو اپنے ماں باپ کے ساتھ کہیں سے آئی تھی اور گاڑی خود ڈرائیو کرنے کی ضد کر رہی تھی ماں باپ کے ڈانٹنے کے باوجود بھی گاڑی سے ڈرائیور کو باہر نکال کر خود ڈرائیوانگ سیٹ سنبھال لی تھی ، وہ دلچسپی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے انھیں وہ بالکل ریحان جیسی ضدی سی لگی تھی یکدم ریحان کی یاد آئی جسے وہ ابھی مل کر آئے تھے ۔
پھر دوسری دفعہ انہوں نے لیبا کو ساحل سمندر پر کچھ بچوں کے ساتھ دیکھا تھا ، وہ اس سے کافی دور تھے وہ بچوں سے کیا باتیں کر رہی ہے یہ تو سنائی نہیں دئے رہا تھا بس وہ اسے بچوں کے ساتھ اچھل کود کرتے دیکھ کر خود ہی اکیلے مسکرا رہے تھے اس رات پتہ نہیں کس جذبے کی تخت انہوں نے لیبا کا کسی ٹین ایجز کی طرح پیچھا کیا تھا وہ خود ہی انجان تھے
انہیں پینٹگ کا بہت شوق تھا جس کو وہ فارغ وقت پر پورا کرتے تھے ، گھر کی آرٹ گیلری ان کی مختلیف پینٹینگز سے بھری پڑی تھی، ایک دن بے دھیانی میں ہی انہوں نے لیبا کا پوٹریٹ بنا دیا ، ان سے ایسا کیوں ہوا وہ خود ہی سمجھنے سے کاثر تھے ، انھیں بہت جلد احساس ہوا کہ وہ انجانی لڑکی ان کے دل پر اپنا خق سمجھتے ہوئے قبضہ جما چکی ہے پھر انہوں نےاسلام آباد میں لیبا کو ڈاکٹر ہمان کے ساتھ دیکھا ۔ وہ ڈاکٹر ہمان کو اچھی طرح جانتے تھے اس دن اچانک ہی ان کی ملاقات ہمان سے ہوئی تھی اور اس وقت وہ بھی ہمان کے ٹیبل پر ہی موجود تھے جس دن لیبا نے آکر ڈاکٹر آرزو کی پٹائی کی تھی تب انہیں پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر ہمان کی بیوی ہے وہ یہ سن کر کئی پل تک بے یقین رہے تھے کیونکہ وہ دیکھنے میں کہیں سے بھی شادی شدہ نہیں لگتی تھی ، جیسا بھی تھا وہ اب کسی کی بیوی تھی اس لیے انہوں وہ پوٹریٹ جلانے کا سوچا اس سے پہلے وہ ایسا کرتے ریحان جو ویکیشنز پر آیا تھا اس نے وہ پوٹریٹ دیکھ لیا اور سمجھ بیٹھا کہ بھائیا اس لڑکی کو پسند کرتے ہیں کیونکہ آج تک انہوں نے ایسی کوئی پینٹگ نہیں بنائی تھی، اور وہ بہت خوش بھی تھا کہ چلو اب وہ بھی کسی کو بھابھی بولے گا، گھر میں رونق ہوا کرے گی وغیرہ وغیرہ بہت کچھ اس نے سوچ لیا تھا ، ریسٹورینٹ میں لیبا کو دیکھ کر وہ فوار پہچان گیا تھا ، آدھی ادھوری معلومات حاصل کرکے وہ خوشی خوشی سے ولید کادوانی کو ستا رہاتھا، ولید کادوانی نے جان بوجھ کر اسے سچ نہیں بتایا تھا کیونکہ وہ اسے اداس نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے خاموش رہے سوچا جب پڑھائی مکمل کرکے آجائے گا یا پھر اسی دوران کبھی بتا دیں گیے کیونکہ اگر وہ اسے بتا دیتے تو اس نے دکھی ہوجانا تھا اور پڑھائی پر اس نے دھیان بھی نہیں دینا تھا وہ ان کے بارے میں ہی سوچتے رہے گا اور وہ اسے ادھر پردیس میں دکھی کرکے بھیجنا نہیں چاہتے تھے اسی لیے وہ اس سے سچائی چھپا گئے تھے۔
YOU ARE READING
ڈھل گیا ہے شب ہجر کا عالم
Romanceیہ کہانی ہے ایک ضدی طوفانی لڑکی کی جسے پیار نے بدل دیا۔