قسط نمبر ۱

3.9K 81 21
                                    

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱

زرد اور بے نور چاند مشرق کی جانب جھکا تو فضاء میں عجیب سی موت کی خاموشی مسلط ہوگئی۔رات کا دوسرا پہر شروع ہوچکا تھا۔
کراچی کینٹ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر لاڑکانہ جانے والی ریل گاڑی نے دم لینے کو ذرا دیر کے لیے پاؤں پسارے۔
شیڈ کے نیچے بنچوں پر آڑے ترچھے پڑے نیم غنودہ لوگوں نے اچک کر گاڑی پر نظر ڈالی پھر اکا دکا کھنکھارتے ہوئے آنکھیں ملتے کسلمندی سے اٹھے اور اپنا سامان سنبھالنے لگے جبکہ بقیہ پھر سے اونگھنے لگے۔
لاڑکانہ جانے والوں کی تعداد قلیل تھی۔
پلٹ فارم پر کچھ خاص بھگدڑ نہ تھی۔
ننداسے قلی مسافروں کے سامان کا بوجھ بمشکل کندھوں پہ لادے مارے باندھے غم روزگار کو سہہ رہے تھے۔
انکے قدموں میں لڑکھڑاہٹ ہوتی مگر اتنی بھی نہیں کہ فرض کی راہ میں رکاوٹ بنتا۔
رات کے اس پہر ریلوے اسٹیشن کی عمارت بھی کچھ اداس سی نظر آتی تھی۔
ویٹنگ روم میں بھی کچھ ہی لوگ موجود تھے جن میں کچھ تو اونگھ رہے تھے تو کچھ بیزار صورتیں لیے ادھر ادھر تک رہے تھے۔
ٹکٹ گھر کے باہر محض دو لوگ کھڑے نظر آرہے تھے۔
تبھی ٹرین نے وسل بجائی اور یکدم کچھ لوگ چونک اٹھے۔
انہی میں سے ایک جوان لڑکی تھی جو ویٹنگ روم میں ایک جانب سمٹی سمٹائی کھڑی تھی مضطرب سی ہوکر جھکی اور اپنے پیروں کے پاس رکھے چھوٹے سے سفری بیگ کا اسٹریپ تھام کر اسے اٹھایا۔
اور پھر اسکے قدموں میں بجلی بھر گئی تھی۔ منتہٰی قریب قریب بھاگتے ہوئے پلیٹ فارم تک پہنچی.
ٹرین کے دیو ہیکل پہیوں میں حرکت ہونے لگی اور گڑگڑاہٹ کی آواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کردیا۔
وہ ایک ہاتھ میں سفری بیگ تھامے دوسرے ہاتھ سے سیاہ چادر کو ٹھوڑی کے قریب سے تھام نقاب کیے بھاگ رہی تھی۔
اس سمے رش نہ ہونے کے برابر تھا ورنہ پلیٹ فارم پر یوں تیزی سے بھاگ کر گاڑی میں سوار ہونا مشکل ہی ہوتا۔
وہ بمشکل مطلوبہ کمپارٹمنٹ میں سوار ہوئی اور پھر اپنے قدموں کو بدقت جماتے ہوئے اپنی برتھ پر آبیٹھی۔۔
اسکا تنفس غیر متوازن ہورہا تھا اور وہ کچھ گھبرائی سی نظر آتی تھی۔
یہ ایک سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ تھا جس میں مسافروں کہ تعداد بہت کم تھی۔
یا شاید نہ ہونے کے برابر۔ وہ پہلے پہل دھیان نہ دے سکی۔
چونکی وہ اس وقت تھی جب ایک مردانہ آواز نے اسے مخاطب کیا۔
اسنے بے طرح چونک کے گردن گھمائی۔ اسکے عین سر پہ ایک خوش وضع جوان کھڑا تھا اور اسکے ہاتھ میں پکڑی منرل واٹر بوتل کا رخ اسکی جانب تھا. یعنی وہ اسے پانی پیش کر رہا تھا۔
"جی۔۔"
اس نے تیوری چڑھائی۔
چادر کا کونہ اب تک چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا۔
"پانی پی لیں مادام، معلوم ہوتا ہے کافی دور سے تم رننگ کرتی ہوئی آئی ہیں."
وہ لطیف سے لہجے میں بولا۔
وہ ایک عام شکل و صورت کا انسان تھا مگر اسکی آواز و لہجہ بہت مہذب اور پر کشش تھے۔
"شکریہ میرے پاس پانی ہے۔"
اس نے خشک لہجے میں کہتے ہوئے اپنے بیگ میں سے پانی کی بوتل نکالی۔
"اچھی بات ہے."
وہ کہہ کر اپنی برتھ پر واپس چلا گیا۔ پانی پینے ہے بعد ذرا اوسان بحال ہوئے تو اسنے ذرا غور سے کمپارٹمنٹ کا جائزہ لیا اور پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب پورے کمپارٹمنٹ میں اس لڑکے اور اپنے سوا کسی کو نہ پایا۔
وہ دل ہی دل میں جزبز ہونے لگی.
یہ کیسی آکورڈ سی صورتحال بن گئی تھی۔
اور وہ لڑکا جو بلکل اسکی برتھ کے متوازی برتھ پر براجمان تھا مستقل ہونٹوں پر خیر مقدمی مسکراہٹ سجائے اسے ہی تک رہا تھا۔ وہ بلکل کھڑکی کے ساتھ جڑ گئی اور رخ پھیر کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
باہر گھور تاریکی کا راج تھا اور ٹرین بہت تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔

بچھڑے سفر میں...Where stories live. Discover now