قسط نمبر ۲۰

859 39 8
                                    

#بچھڑے_سفر_میںاز قلم #مصطفیٰ_چھیپا قسط نمبر ۲۰

¡Ay! Esta imagen no sigue nuestras pautas de contenido. Para continuar la publicación, intente quitarla o subir otra.

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۲۰

غفران اپنے غصّے میں اتنا اندھا ہوگیا تھا اُسے پتا ہی نہیں چلا وُہ ایک بے ہوش وجود کو مارے جارہا تھا جب وہ مار مار کر تھک گیا تو اُسے ٹھوکر مارتے ہوئے دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گیا...
"سہراب خان کو تمہاری گھر والی بڑی پسند آگئی ہے کہا ہے اُن کی بھی دوستی کروا دو اپنی بیوی سے اگلا ٹینڈر تمہارا پکا..."
اُس کی آنکھوں میں پھر خون اُترنے لگا تھا...
"غفران میرے بھائی خُدا کا واسطہ ہے دروازہ کھول دو  مت کر ایسا وُہ اِنسان ہے اُسے اِنسان سمجھ اتنی بہیمت مت دکھا.."
شائنہ کی آواز بوجھل ہورہی تھی دروازہ مسلسل پیٹا جارہا تھا..
اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا..
"تمہاری گھر والی پسند آ گئی ہے.."
کسی نے پھر صور پھونکی تھی کان میں..
"نہیں نہیں نہیں ..."
اُسے پھر دورہ پڑ چُکا تھا ایک ایک کرکے کمرے کی ہر چیز تہس نہس کردی اُس کا اشتعال کسی صورت میں کم ہونے میں نہیں آرہا تھا اُس نے الماری سے شرٹ نکال کر پہنی اوپر کوٹ پہن کر اُس نے بیڈ کے دائیں طرف کی دراز سے بندوق نکال کر اُس میں گولیاں چیک کرکے بندوق کوٹ کی جیب میں رکھی اور راستے میں پڑے ٹوٹے ہوئے گلدان کو ٹکر مارتا ہوا آگے بڑھ گیا...
اُس نے دروازے کھولا تو شائنہ جو دروازے سے لگ کر ہی کھڑے تھی فوراً اندر بھاگی اُس نے رُک کر ایک نظر منتہٰی کو دیکھا اُس کا طیش مزید بڑھ گیا تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا...
"ماہی آنکھیں کھولو ماہی..."
منتہٰی کا سر اپنی گود میں رکھ کر اُس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا..
"کتنی بے رحمی سے مارا ہے یا اللہ.."
اُس کے سر سے بہتے خون کو روکنے کے کوشش کرتی شائنہ کے لئے خود پر سنبھالنا مُشکل ہوتا جارہا تھا...

_________________________________________

"راسخ راغلی دی لالہ.."
(راسخ آیا ہے بھائی)
سہراب خان اِس وقت کسی دوشیزہ کے ساتھ تھا ایک بندے نے آکر اطلاع دی...
اُس کے منہ حلق تک کڑوا ہوگیا..
"ته لاړ شه"
(تُم جاؤ) اُس نے اُس دوشیزہ سے کہا..
"اوس راځئ"
(ابھی تو آئی ہوں) اُس نے قریب ہوکر کہا...
"ورک شوی"
(دفع ہوجاؤ) وُہ دھاڑا تو لڑکی سہم کر اپنا پرس اُٹھاتی وہاں سے چلی گئی..
ہاتھ کے اشارے سے اُس نے راسخ کی اندر بھیجنے کا کہا اور خود اُس کا انتظار کرنے لگا..
کُچھ ہی دیر بعد ایک شخص دروازے کو ٹھوکر مارتے ہوئے اندر داخل ہوا...
"زہے نصیب زہے نصیب راسخ صاحب خود چل کر ہمارے غریب کھانے تک آئے ہیں تشریف رکھیے..."
سہراب خان نے اُسے اندر آتا دیکھ کر مؤدب انداز میں کھڑے ہوکر اُسے بیٹھنے کا کہا..
"بکواس بند کر اپنی تیری ہمت کیسی ہوئی ایسا سوچنے کی بھی..."
آنے والے شخص نے سیدھا اُس کے گریبان پر ہاتھ ڈالا تھا...
"تاسو دواړه ته لاړ شه او وګورئ چې آیا دا یوازې یا بل څوک راغلی دی"
(تُم دونوں جاؤ اور جاکر دیکھو یہ اکیلے آیا ہے یا کوئی اور بھی ہے ساتھ)
سہراب خان نے آنے والے پر بندوقیں تان چُکے اپنے دو آدمیوں کو حکم دیا...
"راسخ یہ کیسا طریقہ ہوا اپنے میزبان سے پیش آنے کا.."
"میرے طریقے ابھی دیکھے کہاں ہے تُو نے پتا چل جائے گا سب ابھی کے ابھی.."
گریبان چھوڑ کر ذومعنی خیز لہجے میں کہا گیا..
"کم آن راسخ ہم لوگ دوست ہیں ایک ہی دُنیا کے مسافر ہم لڑتے ہوئے اچھے نہیں لگتے اور ویسے بھی یہ بزنس ہے اِس میں کیا تیرا کیا میرا اِس سے پہلے بھی تو تُم نے مُجھے لڑکیاں دی ہیں اور میں نے تمہیں نذرانے دیے ہیں اِس بار بیوی پر دِل..."
"حرام زادے... اپنی زبان سے میری بیوی کا نام بھی مت لینا کاٹ کر رکھ دوں گا تُجھے.."
راسخ نے سیدھے ہاتھ کا گھونسہ اُس کے جبڑے پر مارا...
"اوہ اوہ.. راسخ عُرف (غفران) نکلا وہی مشرقی مرد بیوی کے معاملے میں.."
اُس نے اپنے منہ سے نکلتے ہوئے خون کو کو صاف کرتے ہوئے کہا...
"سور کے بچے آج تو کہہ دیا آئندہ اگر سوچا بھی تو تیری ہڈیوں کا سُرمہ کردوں گا.."
اُس کے جارحانہ تیوریوں سے اُسے دیکھتے ہوۓ کہا...
"د ورور تینیویر غږ ویل کیږي، هغه ویل کیږي چې زموږ د مخدره توکو ټرک په پولیسو کې ودرول او هغه یې ونیول. "
(بھائی تنویر کی کال آئی ہے وُہ کہہ رہا ہے ہمارا ڈرگز والا ٹرک ہائی وے پر پولیس نے روک لیا اور اُنہوں نے اُسے حراست میں لے لیا ہے")
کُچھ دیر پہلے بندوق تانے کھڑے آدمی نے بدحواسی کے عالم میں کر دوبارہ اندر آکر بتایا...
سہراب خان اور راسخ کی نظریں آنِ واحد میں ایک دوسرے کی طرف اُٹھی تھیں ایک کی آنکھوں میں خون ٹکرے مار رہا تھا دوسرے کی آنکھوں میں تمسخر..
"مبارک ہو بیس کروڑ کا نقصان سہراب خان میں نے کہا تھا نا میرے طریقے تُمہیں ابھی پتا چل جائیں تو دیکھ لو اور آئندہ اپنی خیالوں کے بھی خیالوں میں میری بیوی کو سوچنے کی غلطی مت کرنا ورنہ اب کی بار تمہارا سر میرے ہاتھوں میں ہوگا سہراب لالہ.."
اُس نے اپنی سیاہ آنکھوں  میں بے پناہ نفرت لیے اُس کے دھواں دھواں ہوتے چہرے کو دیکھ کر کہا..
سہراب خان نے اپنی ابرو کو جنبش دے کر سامنے کھڑے آدمی کو اشارہ کیا تھا...
راسخ نے اُس کی جنبشِ ابرو دیکھ لی تھی وُہ سرعت سے نیچے جُھکا اور کوٹ میں چھپی بندوق نکال کر سامنے کھڑے آدمی کے سر پر فائر کیا جس سے وہ وہی ڈھیر ہوگیا...
"مت سمجھنا کہ میں بیوقوف ہوں مت بھولو میں بھی اِسی دُنیا کا بادشاہ ہوں آنکھ کے ہر اشارے کو سمجھتا ہوں اور آج تو ہمت کرلی اگر آئندہ موڈ ہوا تو مردوں کی طرح سامنے لڑنا..."
اُس نے بندوق کی نوک اُس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے اُسے مزید طیش دلایا...
"تُم ایسا کیسے کرسکتے ہو غفران.."
سہراب چیخا تھا...
"راسخ" راسخ نام ہے میرا.."
اُس نے تنبیہی انداز میں کہا...
"تمہارے بہت سے راز میرے پاس بھی ہیں اگر اُنہیں میں نے سب کے سامنے کردیا تو تُم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے احسان فراموش..."
سہراب نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بے خوفی سے کہا...
"کون سے راز... مُجھے تو کُچھ یاد نہیں البتہ تمہارے کارناموں کا بہی کھاتا میرے پاس ضرور ہے جس میں سے اگر ایک بھی سامنے آگیا تو تُم منہ دکھانے کے قابل تو کیا اگلا سانس لینے کے قابل نہیں رہو گے.."
اُس نے بے فکری سے کہا...
"تمہیں اِس کا حساب چکانا ہوگا غفران چکانا ہوگا.."
"دیکھتے ہیں کون کیا چُکاتا ہے ابھی کے لئے تُم پھر سُن لو آئندہ میری بیوی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھا تو یہ جو آنکھیں ہیں نا تمہاری کُچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہیں گی.."
اُس کے سر سے بندوق ہٹا کر نیچے کرتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلا گیا...
"آہ غفران آہ کتنے بیوقوف اور جذباتی ہو تُم خود نے آکر مُجھے اپنی کمزوری بتا دی اب بڑا مزہ آنے والا ہے کھیل میں کیونکہ تمہاری "بیوی" جو نشانے پر ہوگی تمہاری "محبت".."
اُس نے کمینگی سے سوچا مکروہ مسکراہٹ اُس کے چہرے پر پھیلتی چلی گئی...

بچھڑے سفر میں...Donde viven las historias. Descúbrelo ahora