قسط نمبر ۱۸

792 40 7
                                    

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۸

"ایک ایکسیڈنٹ کیس آیا ہے ابھی آپکے ہاسپٹل میں.."
سمیر نے ریسیپشن پر پہنچ کر پوچھا...
"کار ایکسیڈنٹ کیس جمشید روڈ کے قریب.."
"جی جی وہی پیشنٹ کہاں ہے؟.."
ریسیپشنسٹ کی بات کاٹ کر سمیر نے پوچھا...
"فرسٹ فلور آپریشن تھیٹر..."
مختصر جواب دیا گیا...
"چلیں انکل.." اُس نے حواس باختہ کھڑے زاہد صاحب سے کہا تو وہ پژمردہ قدم اُٹھاتے ہوئے اُس کے پیچھے چل دیئے...
"انکل خود کو سنبھالنا ہوگا آپکو اِس طرح ہمت مت ہاریں زیان کو کُچھ نہیں ہوگا وُہ بِلکُل ٹھیک ہوجائے گا اللہ سے دعا کریں..."
سمیر نے رُک کر دونوں ہاتھ اُن کر کندھے پر رکھتے ہوئے تسلی آمیز انداز میں کہا..
"میری عُمر بھر کی کمائی ہے میرا بیٹا اُسے کُچھ نہیں ہوگا انشاءاللہ.."
اُنہوں نے بھی خود کو بروقت سنبھالا اور لفٹ میں داخل ہوگئے...
"آپریشن تھیٹر کس طرف ہے.."
اُس نے ایک وارڈ بوائے کو روک کر پوچھا...
"آگے سے دائیں مڑ جائیں چار رومز چھوڑ کر سامنے ہے آپریشن تھیٹر ہے.."
عجلت میں کہتے ہوئے وُہ آگے بڑھ گیا..
وُہ دونوں آپریشن تھیٹر کے باہر پہنچے ہی تھے کہ ڈاکٹر کو باہر آتے دیکھا...
"ڈاکٹر زیان کیسا ہے.."
زاہد صاحب نے بے تاب ہوکر پوچھا...
"یہ والد ہیں پیشنٹ کے اور میں دوست ہوں اُس کا.."
سمیر نے تعارف کروایا...
"وُہ خطرے سے باہر ہیں  اب اچھا ہوا وقت رہتے اُنہیں لے آئے ورنہ نقصان ہوسکتا تھا اُن کے سر میں گہری چوٹ لگی ہے آپریشن تو کامیاب ہوا ہے مگر ہوش میں کب آئیں گے اِس کے بارے میں کُچھ نہیں کہا جاسکتا.."
زاہد صاحب کے کندھے کو تھپکتے ہوئے پروفیشنل انداز میں کہا...
"آپ دُعا کریں انشاءاللہ کُچھ نہیں ہوگا.."
اُنہوں نے سمیر سے کہا...
"آپ فیس ریسیپشن پر جمع کروا دیں.."
کہہ کر ڈاکٹر چلا گیا..
"میں دیکھ لیتا ہوں یہ سب آپ بس فکر مت کریں کُچھ نہیں ہوگا ہمارے زیان کو اللہ سے اچھی اُمید رکھیں.."
زاہد صاحب کی کُچھ ڈھارس بندھی تھی وُہ جیب سے موبائل نکال کر روشانے بیگم کو کال کرنے لگے تھے اُنہیں بھی اُن ہی نے سنبھالنا تھا..

     _____________________________________________

غفران کی آنکھ صبح تقریباً دس بجے کھلی تھی کمرہ اب تک گلابوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا اُس نے لیٹے لیٹے ہی نظریں گھما کر اپنے برابر میں دیکھا تو منتہٰی نہیں تھی وُہ سرعت سے اُٹھ کر بیٹھ گیا اُسے ڈھونڈنے کی ضرورت پڑی ہی نہیں تھی بیڈ سے چند قدم کے فاصلے پر ہی وُہ اُسے بے سُدھ پڑی دکھائی دے گئی غفران کے چہرے پر اطمینان پھیل گیا...
وُہ دوبارہ لیٹ گیا عجیب سرشاری سے کیفیت تھی ایک عجیب فاتح ہونے کا احساس تھا جو اُس کے رگ و پے میں دوڑے جارہا تھا...
"ہر بے عزتی کا بدلہ لے لیا میں نے آج تیری بہن سے اور اب روز لوں گا تیری روح بھی تو مضطرب رہے.."
اس نے نخوت سے سوچا...
سائڈ ٹیبل پر رکھا فون بجنے لگا...
اُس نے موبائل ایئر پلین موڈ پر لگایا  اور بیڈ سے اُٹھ کر وارڈروب سے کپڑے نکالے اور واشروم  گھس گیا ایک نظر منتہٰی کو دیکھا سرشاری دو چند ہوگئی تھی...
کُچھ دیر بعد اُس کی واپسی ہوئی منتہٰی جوں کی توں حالت۔ میں تھی وُہ خراما خراما چلتا ہوا اُس کے پاس آیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا...
"گڈ مارننگ وائف.."
اُس نے منتہٰی کے چہرے سے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے نرمی سے کہا...
کُچھ دیر یونہی دیکھتا رہا مگر وہ نا اُٹھی..
"منتہٰی اُٹھو.."
اُسے بس اِس بات کی فکر تھی کہ وہ مر نا گئی ہو ابھی تو اُسے مزید اذیت دینی ہے..
غفران نے زمین پر پڑے منتہی کے وجود کو جھنجھوڑا تو اُس کے خستہ جسم میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اُس نے بڑی دقت سے اپنی آنکھیں وا کیں منظر دُھندلا دُھندلا تھا جو ہی دُھند چھٹی غفران کو اپنے اوپر جُھکا دیکھ کر وُہ اپنی ساری ہمت مجتمع کرتی غیر محسوس سے انداز میں اُٹھ کر بیٹھ گئی اُسے نہیں پتا تھا وُہ فرش پر کیسے آئی اُسے کُچھ ہوش نہیں تھا مگر اپنے بے طرح دُکھتے جسم سے وُہ رات بھر کی جانے والی درندگی کا اندازہ لگا سکتی تھی...
اُسے اُٹھتے دیکھ کر اُسے اطمینان ہوا تھا ہاں وُہ زندہ ہے اتنی آسان موت نہیں مری..
"کیسا لگ رہا ہے میری جان.."
نہایت اوچھے پن سے پوچھا گیا...
منتہٰی کی آنکھوں میں موتی جھلملانے لگے وُہ بس اُسے رحم طلب نظروں سے دیکھتی رہی....
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو شوہر ہوں تمہارا کوئی غیر نہیں ہوں اب  ہمت ہے تو ہٹا کر دکھاؤ ہاتھ.."
اُس نے دائیں ہاتھ کی دو اُنگلیاں اُس کے گال پر پھیرتے ہوئے بے باکی سے کہا...
"میں نے تو سوچا تھا ایک بار تمہیں حاصل کرنے کے بعد یہ خمار بھی اُتر جائے گا مگر نہیں تمہارا نشہ تو پُرانی شراب جیسا ہے اور بڑھ گیا ہے شاید تمہاری طلب کبھی ختم نہیں ہوگی.."
یوں بولا گیا جیسے وُہ کوئی جسم فروش عورت ہو...
"اب اُٹھو اور اپنی منہ ٹھیک کرو.."
وُہ اُسے دھکا دیتا ہوا کھڑا ہوا..
وُہ اپنے ناتواں جسم کے ساتھ دوبارہ زمین بوس ہوگئی..
"بلو جینز سفید ٹی شرٹ اور بلیک لیدر جیکٹ تنے ہوئے نقوشوں اور اپنے چھا جانے والی شخصیت  کے ساتھ وُہ بے حد پُر کشش اور وجیہہ لگا تھا...
نک سک سے درست کھڑا آئینے میں اپنا جائزہ لے رہا تھا...
منتہی نے پھر سے اُٹھنا چاہا مگر اُس میں اتنی سکت ہی نہیں تھی وُہ شاخ سے ٹوٹے ہوئے پھول کی طرح  پھر زمین پر آگری...
"بیمار عورت سے مُجھے نفرت ہے کھڑی ہو سیدھی۔۔"
وُہ دھاڑا تو اُس نے کھڑے ہونے کی ناکام کوشش کی اگر وہ بروقت نہیں سنبھالتا تو اُس کا سر کانچ کی ٹیبل پر جا لگتا...
"آرام سے اتنی بھی کیا جلدی ہے مرنے کی.."
وُہ مکمل طور پر اس کے رحم و کرم پر تھی...
"مرنے تمہیں میں نے دینا نہیں ہے جی تُم سکو گی نہیں میرے ساتھ درمیانہ حل نکالتے ہیں تُم اپنے احساسات کو مار دو ہر حِس کو بے حِس بنا لو ورنہ تُم نا زندوں میں رہو گی نہ ہی مُردوں میں..."
اُس کے لہجے کی سفاکیت سے منتہٰی کا دِل دہلا جارہا تھا..
"حلیہ درست کرو اپنا.."
غفران نے یکدم اُسے چھوڑتے ہوئے کہا تو وُہ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے سامان پر جاگری اُس کی تھوڑی بری طرح لکڑی کے کونے سے ٹکرائی تھی جس سے آگے کا ایک دانت ٹوٹ گیا تھا اُس کا منہ خون کے ذائقے سے نمکین ہوگیا...
"جلدی سے حلیہ درست کرکے نیچے آجاؤ.."
وُہ اُسے اُٹھا کر کھڑا کرتے ہوئے بولا..
"ہاؤز دی نائٹ.."
ذومعنی خیز انداز میں کہا اور زور دار قہقہہ لگاتا کمرے سے باہر نکل گیا...
وُہ بے بسی کی تصویر بنی اپنا سجا دھجا سراپا تک رہی تھی دائیں کان کے سے خون بہہ رہا ہوگا شاید مگر اب وُہ جم چُکا تھا آنکھوں کا کاجل پھیل چُکا تھا اُس کے ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا جس شخص کا خیال سے بھی اُس کے اندر شرارے پھوٹتے تھے وُہ اُس اِنسان کے ساتھ تھی ۔۔
"دُنیا کے آخری مرد ہو تب بھی نا چنتی یہ دعویٰ ہے مُجھے برباد کرگیا میرے بڑے بول مُجھے لے ڈوبے میں نے ایک بہترین اِنسان کو ٹھکرا کر اِس اِنسان کو چُنا مُجھے چُننا پڑا..."
اُس نے اپنے جسم پر جا بجا غفران کی فتح کے نشانات کو دیکھتے ہوئے سوچا...
اُس نے دوپٹے کو کھینچ کر فرش پر پھینکا اُس کی گردن پر بھی زخم کے نشان تھے...
"یہ تو صرف ایک رات کا حال ہے منتہٰی ابھی پوری زندگی پڑی ہے.."
کہیں اندر سے آواز آئی تھی جو اُس کے شکستہ حوصلوں کو مزید پاش پاش کرگئی...
اُس نے ٹشو اُٹھا کر منہ سے نکلتے خون کو صاف کیا بالوں کو جوڑے کے شکل دے کر اُس نے مزید دو تین ٹشوز اُٹھا کے اپنا چہرہ رگڑ ڈالا ہلکی ہلکی خراشوں سے بھی خون بہنے لگا تھا...
کانچ کی ساری چوڑیاں تو ٹوٹ چُکی تھیں اُس نے کنگن اُتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے اور غفران کے حکم کے مطابق اپنا حلیہ درست کرنے واشروم میں چلی گئی...

بچھڑے سفر میں...Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt