قسط نمبر ۲۵

768 50 8
                                    

#بچھڑے_سفر_میں
                                                          (season 1)
قسط نمبر ۲۵
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا

"چلو یہاں سے میرے ساتھ.."
عماد نے شائنہ کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ لے جاتے ہوئے کہا..
وُہ بے یقینی کی کیفیت میں اُسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی یکدم کُچھ یاد آیا اور اُس کے قدم رُک گئے...
"کیا ہوا شانو رُک کیوں گئی..."
اُس نے حیرت سے پوچھا...
"عماد منتہٰی..."
بس وُہ اتنا ہی کہہ سکی اور رونے لگی...
"ماہی..؟ ہماری ماہی...؟"
اُس نے تصدیق کرنی چاہی شائنہ نے اثبات میں سر ہلایا...
"کیا ہوا ہے اُسے۔۔"
عماد نے دھیمے لہجے میں پوچھا....
"آپ چلیں میرے ساتھ..."
شائنہ عماد کا ہاتھ پکڑ کر اُسے ہاسپٹل عُقبی حصے پر بنے پارک میں لے آئی وُہ دونوں بینچ پر بیٹھ گئے...
"کیا ہوا ہے شانو سچ سچ بتاؤ اور تُم ہاسپٹل میں کیا کر رہی ہو؟ ماہی کو کیا ہوا ہے...؟"
اُس نے ایک ساتھ کئی سوال کرلیے...
غفران اور ماہی کی شادی ہوچکی ہے۔۔۔"
"یہ تُم کیا کہہ رہی ہو..."
باعث حیرت اور غم کے وُہ بس اتنا ہی کہہ سکا...
"ہاں..." شائنہ نے افسوس کے ساتھ کہا...
"مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے سب جانتے ہوئے کہ وُہ اِنسان کیسا ہے ماہی اُس سے کیسے شادی کرسکتی ہے انکل نے کیسے غفران سے شادی ہونے دی کیا وہ نہیں جانتے کہ اُس نے ماہی کے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کی تھی پھر بھی مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آرہا یہ سب کیسے ہوگیا..."
وُہ بے بسی سے بولا اپنا ہاتھ زور سے بینچ پر مارا....
"چاچا کی کم ہمتی کی وجہ سے ہی یہ سب ہوا ہے اُنہوں نے ماہی کی زندگی برباد کردی جانتے بوجھتے اُسے دوزخ میں دھکیلا ہے اُنہوں نے میں نے بہت سمجھایا بہت مگر ماہی نے میری بات نہیں سنی اُسے چاچا نے خود کشی کرنے کی دھمکی دی تھی وُہ مجبور تھی کیا کرتی وُہ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا غفران نے اُس بچی کی زندگی عذاب بنادی ہے عذاب....."
شائنہ نے روتے روتے ساری بات اُسے بتادی۔۔۔
عماد کا غصّہ بڑھتا جارہا تھا...
"اُس نے ہمارے بچے کو بھی مار دیا عماد میری کوکھ میں ہی مار دیا تھا اُس نے ہماری بیٹی کو..."
روح فرسا انکشاف تھا جس ننّھے وجود کو اپنی گود میں لینے کی خواہش نے اُسے زندہ رہنے میں مدد دی تھی وُہ خواہش آج بری طرح ٹوٹی تھی عماد کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر کہیں گم ہوگئے....
"بیٹی ہوئی تھی..."
اُس نے چہرہ دوسری طرف کرکے کہا وُہ نہیں چاہتا تھا شائنہ اُسے روتا ہوا دیکھے مگر اُس کا دِل بری طرح تڑپ رہا تھا...
"اور امی..." وُہ نا ممکن سوال پوچھ رہا تھا جبکہ نسیمہ خاتون کی سانسیں تُو اُس نے خود نے چیک کی تھیں وُہ اُسی وقت چھوڑ کر جاچکی تھیں اُسے....
شائنہ نے متاسفانہ انداز میں نفی کی...
"آپ کیسے بچ...جبکہ اُس نے میری آنکھوں کے سامنے آپکو گولی ماری تھی ایک نہیں تین تین اور وُہ مُجھے وہاں سے گھسیٹتا ہوا لے گیا تھا...."
شائنہ نے ہلکی ہلکی سسکیاں لیتے ہوئے کہا تو عماد نے اُسے دوبارہ اپنے سینے سے لگا لیا...
"بس بس بس... میں تمہارے پاس ہوں ناں بس رو مت..."
وُہ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت سے بولا...
"اُس نے ہمارا بچہ مار دیا عماد میں کُچھ نہیں کرسکی وُہ بلکل  آپکے جیسے تھی بس اُسکی آنکھیں میرے جیسی تھیں آپ یہی چاہتے تھے ناں وُہ ہوبہو آپکا عکس تھی بلکل آپکی پرچھائی مگر جب میرے اِن ہاتھوں میں تھی وُہ بے جان تھی وُہ رو نہیں رہی تھی میں نے اُسے رُلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں روئی نہیں روئی سب چھین لیا غفران نے مجھ سے مگر میں پھر بھی مجبور تو اُسکے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے پر میں اُسے مار بھی نہیں سکتی ورنہ کب کا ختم کرچکی ہوتی اُسے مگر میں مجبور تھی منیر نے کہا تھا فرحان اُس کے پاس ہے اُس نے مرتے وقت ہم دونوں  سے وعدہ لیا تھا کہ ہم اُسکے بیٹے کو کُچھ نہیں ہونے دیں گے غفران کے چنگل سے اُسے نکال لیں گے جب مُجھے لگا آپ نہیں رہے تو میں نے غفران سے کہا تھا میں اُسکے خلاف پولیس میں کمپلین کروں گی تب اُس نے اِس بات کا اعتراف کیا تھا کہ فرحان اُسکے پاس ہے  مُجھے دھمکی دی تھی اگر میں نے منہ کھولا تو وُہ اُسے بھی مار دے گا..."
شائنہ نے نخوت سے کہا...
"تُم ہسپتال میں کیا کر رہی ہو ماہی یہاں ہے کیا..؟"
شائنہ نے اُسے سب بتا دیا تھا مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ منتہٰی کے اوپر آج کیا گزری ہے...
"ماہی ایڈمٹ ہے...؟
اُسے اپنی آواز بہت مدھم سنائی دی...
"کیا ہوا ہے اُسے وُہ یہاں کیوں بے...؟"
عماد تقریباً چیخا تھا...
"بہت ظلم ہوا ہے اُس پر عماد بہت میں آخری وقت میں منیر کو دیا وعدہ نہیں نبھا سکی میں اُسکی ماہی کی حفاظت نہیں کرسکی اُسے مرتے دم تک اپنی ماہی کی فکر تھی جس کی ہاتھ پر ایک خراش آنے پر وُہ تڑپ جاتا تھا آج وُہ نیلوں نیل زخمی روح ٹوٹی ہڈیوں کے ساتھ ہسپتال کے بستر پر پڑی ہے بہت ظلم ہورہاہے اُس پر عماد میں کُچھ نہیں کرسکی کُچھ نہیں اُس نے اپنا بچہ کھو دیا ہے اب وُہ کبھی ماں نہیں بن سکتی...."
منتہٰی کا خون میں سنا وجود اُسکی آنکھوں کے سامنے آ ٹھہرا آنسو روکنا محال ہوگیا...
عماد کی آنکھوں میں کرب کے سائے لہرانے لگے وُہ چاہ کر بھی اپنے کسی غم کا ماتم نہیں کرسکتا تھا منتہٰی کی حالت جو شائنہ نے بتائی تھی سن لیں ہی اُس کی روح کانپ اُٹھی تھی اُس نے کبھی نہ سوچا تھا اُسکی پھولوں جیسی ماہی یوں بے دردی سے روندی جائے گی دِل میں یک گونہ سکون محسوس ہوا کہ منیر زندہ نہیں ورنہ وہ مرجاتا بلکہ اگر وہ ہوتا تو یہ سب ہوتا ہے نہیں اُسکی جان بستی تھی ماہی میں اُسکی روح کتنی تکلیف میں ہوگی..
عماد محض سوچ ہی سکا اُسے منتہٰی کی ساری باتیں یاد آنے لگیں...

بچھڑے سفر میں...Where stories live. Discover now