#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۵"کیا دیکھ رہی ہو...؟"
دعا نے فرم کے گیٹ کو تکتی منتہٰی کو ٹہهوکا..
"کُچھ نہیں.."
"تو چلو یار.."
دُعا نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑتے ہوئے چلنا شروع کردیا...
منتہٰی بھی ساری سوچوں کو ذہن سے جھٹکتی اُس کے پیچھے ہولی...
وُہ دونوں سیڑھیاں چڑھنے لگیں..
"عارفہ طلحہ سر کہاں ہیں..."
دعا نے ایک لڑکی کو روک کر پوچھا..
"وُہ سیکنڈ فلور پر ایچ آر میں ہیں نئے سپروائزر کے ساتھ..."
لڑکی کہہ کر آگے بڑھ گئی..
"اوہ نئے سوئپر وائزر آگئے یا اللہ پہلے والے چاچا بوڑم کی طرح خبطی نا ہو.."
اُس نے ہلکے سے کہا آواز صرف منتہٰی کو آئی اور وہ سپر وائزر کو "سوئپر وائزر" کہنے پر بے ساختہ ہنس دی...
دُعا خود بھی ہنس دی...
"السلامُ علیکم سر..."
دُعا نے سامنے سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے ایک ادھیڑ عُمر کے آدمی کو بڑے مؤدب انداز میں اسلام کیا..
"وعلیکم سلام دُعا کیسی ہیں آپ..؟"
اُنہوں نے شفقت بھرے انداز میں کہا..
"سر یہ منتہٰی ہے نیو ایمپلوئے آج ہی سے جوائن کیا ہے.."
اُس نے منتہٰی کو متعارف کروایا..
"السلامُ علیکم.."
"وعلیکم سلام بیٹا کیسی ہو آپ.."
رسان سے پوچھا گیا..
"بلکل ٹھیک ہوں سر آپ کیسے ہیں.؟"
منتہٰی نے بھی ہموار لہجے میں کہا..
"آئیے میں آپکو باقی لوگوں سے ملواتا ہوں اور دُعا آپکو رمیض ڈھونڈھ رہا تھا "کے ایچ سی" ریلیٹڈ کُچھ ضروری ڈاکومنٹس نہیں مِل رہے اُسے.."
"ہاں سر وُہ میرے لاکر میں ہیں میں جاتی ہوں رمیض کے پاس اور میں تُم سے تھوڑی دیر ملتی ہوں منتہٰی.."
دُعا اُس کا شانہ تھپتھپاتی چلی گئی...
طلحہ معید نے ایک ایک کرکے اُسے ہر ڈیپارٹمنٹ کے ہر امپلوئے سے ملوایا...
"آئیے میں آپکو فرم کے سپروائزر سے ملواتا ہوں اُنہوں نے بھی آج ہی سے جوائن کیا ہے آپکی طرح۔۔"
طلحہ معید سیڑھیاں چڑھتے ہوئے منتہٰی کو بتا رہے تھے...
جہاں سیڑھیاں ختم ہوتی تھی اُس سے چند قدم کے فاصلے پر تین چار کمرے قطار سے بنے ہوئے تھے طلحہ اُسے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر خود اندر داخل ہوگئے...
وُہ وہی کھڑی کڑی نظروں سے ہر چیز نوٹ کرنے لگی پھر اندر چلی گئی...
"ایکسکیوز می مسٹر زیان..."
زیان اپنے ماتحتوں کے ساتھ کُچھ ضروری بات کر رہا تھا بغیر پیچھے مڑے اُنگلی سے دو منٹ کا اشارہ کردیا..
منتہٰی طلحہ کے برابر آکر کھڑی ہوگئی..
"یہ ہمارے نئے سپروائزر ہیں زیان زاہد..."
اُنہوں نے اُنگلی سے ایک لڑکے کی طرف اِشارہ کیا جس کی اُن کی طرف پیٹھ تھی منتہٰی نے اُن کی اُنگلی کی سیدھ میں سامنے کی طرف دیکھا زیان بھی اُسی وقت پلٹا تھا اور اپنے سامنے کھڑی منتہٰی کو دیکھ کر حیران رہ گیا...
"آپ..."
وُہ دونوں بیک وقت ایک ساتھ بولے...
وُہ قدم قدم چلتا ہوا اُن کے قریب آیا....
"آپ جانتے ہیں ایک دوسرے کو.."
طلحہ معید نے دونوں کے ردِ عمل کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا..
"جی..مطلب بس ایک بار ہی ملیں ہیں ."
زیان نے پر شوق نگاہوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا..
"طلحہ سر ایک منٹ ادھر آئیں گے.."
کسی نے اُنہیں بلایا تو وہ چلے گئے...
"کیسی ہیں آپ..؟"
زیان نے اپنے ازلی دوستانہ انداز میں خیریت دریافت کی..
"ٹھیک ہوں.."
منتہٰی نے نپے تلے انداز میں کہا..
"ویسے یہ اتفاق بھی دیکھیں ہم ایک ہی ساتھ کراچی سے یہاں پہنچے اور جاب بھی ایک ہی جگہ مگر ویسے کافی خوشگوار اتفاق ہے.."
"جی.."
منتہٰی نے کوفت سے اُسے پُر گو لڑکے کو دیکھا جو شاید مزید مزاج پرسی کی خواہش رکھتا تھا..
"آپ کراچی سے یہاں جاب کرنے کیوں ."
اُس کی زبان کو کُھجلی ہوئی..
منتہٰی نے محض مسکرا کر اُسے نظرانداز کیا...
وُہ آگے کی طرف چلنے لگی..
"آپ کس ڈیپارٹمنٹ میں ہیں.."
وُہ شاید بے عزتی پروف تھا اُس کے پیچھے چلنے لگا..
"پتا نہیں.."
اُس نے مختصر سا جواب دیا...
"پتا نہیں مگر آپ نے اپلائی کون سی پوسٹ کے لیے کیا تھا..؟"
وُہ بال کی کھال نکالنے کی فطرت رکھتا تھا..
"میرے ابو کی ایک جاننے والے کے توسط میں یہاں ہوں اب مُجھے پتا چلے گا میری کیا پوسٹ ہے.."
اُس نے ذرا تفصیلاً بتایا مبادا وُہ مزید کُچھ نا پوچھ لے..
"اوہ"نیپوٹزم" آئی سی..."
انداز متاسفانہ تھا...
"آپ کو بولنے کی کیا کوئی...."
منتہٰی نے مزید بولنے سے خود کو باز رکھا...
"سوری میں نے کُچھ غلط بول دیا شاید.."
اُس نے فوراً معذرت کی..
"شاید.."
سوال تھا یا جتانا...
"اچھا ویسے آپکا نام کیا تھا بھول گیا.... ہاں منتہٰی... ایم آئی رائٹ..؟"
اُس نے تصدیق چاہی...
منتہٰی کو نا چارہ گردن ہلانی پڑی..
"زیان بات سنیں.."
سمیر نے اُن دونوں کے پاس رُکتے ہوئے کہا..
"آپکو فصیح سر بُلا رہے ہیں آفس میں.."
"ٹھیک ہے.. سی یو لیٹر منتہٰی..."
وُہ برسوں پرانی آشنائی ہونے کا تاثر دیتا سیڑھیوں سے نیچے اُترتا چلا گیا..
"ہائے.."
سمیر نے متوازن لہجے میں کہا..
"ہائے.."
منتہٰی نے بھی اُسی انداز میں کہا ..
"مس منتہٰی آل دی بیسٹ .."
"تھینک یو مسٹر...؟"
اُس نے نام جاننا چاہا..
"سمیر نام ہے میرا بطور منیجر کل ہی سے جوائن کیا ہے.."
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا...
"آپ بھی نیو ہیں.."
منتہٰی کو اُس کا بات کرنے کا نپا تلا انداز اچھا لگا...
اُس کا فون بجنے لگا اُس نے يس کرکے فون کان سے لگایا...
"اوکے سر میں بس آیا..."
"ویل سی یو لٹر اینڈ اگین بیسٹ آف لک..."
سمیر نے فون جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔
"شیور.."
منتہٰی فرم گھومنے لگی..._____________________________
"امّاں غفران کو پتا نہیں اُس چھپکلی میں کیا دکھتا ہے عام شکل کی تو ہے اور خود کو دیکھے کہاں میرا شہزادہ بھائی اور وُہ کمبخت .."
نجمہ نے اخروٹ کی گری منہ میں رکھتے ہوئے نخوت سے کہا...
"عام تو نہیں ہے تب ہی دیوانہ ہوا ہے اُس کے پیچھے اور خاندان بھر میں پتا ہے منتہٰی غفران کی نسبت بچپن سے طے ہے تو اب یہ مسئلہ غیرت کا ہے اور میرا بچہ بڑا غیرت مند ہے.."
بختاور نے اُس کی بات تردید کی...
"امّاں میں کہتی ہوں کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر اِسکی شادی کروا دو سارا بھوت اُتر جائے گا اُس چڑیل کا..."
نجمہ نے اپنی طرف سے بڑے پتے کی بات کی تھی۔۔
"وُہ دیوانہ اُس کے علاوہ کسی اور کا نام سننے کا روادار نہیں کہتا ہے وُہ صرف میری ہے بتا دے جاکر چچا کو سب کی پتا نہیں کیا تعویذ گنڈے کیے ہیں میرے معصوم بچے پر اُس آفت کی پرکالا نے جو وہ مجنوں ہوا ہوا ہے ..".
بختاور دُکھ سے بولی..
"رہنے دے اماں تیرا بیٹا بھی کُچھ کم نہیں ہے.."
نجمہ نے ناک سکیڑتے کہا...
"ویسے میرا ہاتھ جام ہوجائے گا امّاں وُہ تھی تو میں بے فکر تھی بے دام غلام تھی وُہ اب کسی ماسی کو رکھوں تو خرچہ الگ اور آجکل کی کام والیوں کے نخرے توبہ توبہ.."
نجمہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بولی..
"بس کسی طرح میرے بچے کے سر سے اُس نگوڑی کا بھوت اُتار دے..."
اُنہوں نے التجا کی..
"چل غم نا کر کروں گی غفران سے بات تو ٹینشن نا لے۔۔۔"
نجمہ نے تسلی آمیز انداز میں کہا...(جاری ہے)
YOU ARE READING
بچھڑے سفر میں...
Romanceیہ کہانی ہے محبت سے ملے اعتبار اور بھروسے کے ساتھ طلوع صبح کے انتظار کی...