قسط نمبر ۶

827 42 9
                                    

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۶

"کہاں بھٹکتی پھر رہی ہو لڑکی..."
دُعا نے پیچھے سے آکر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا...
"کہی نہیں بس ایسے ہی دیکھ رہی تھی مُجھے بتایا ہی نہیں کے کرنا کیا ہوگا مُجھے.."
اُس نے دُعا کے ساتھ چلتے ہوئے کہا.
"تُم کُچھ دن وُہ جو نیا سوئپر وائزر  آیا ہے اُسکے ساتھ رہو گی اُن کی ہیلپ کیا کرو گی.."
دُعا نے کینٹین کی طرف بڑھتے ہوئے کہا..
"وُہ زیان.."
اُسے یقیناً صدمہ ہوا تھا..
"ہاں وہی پر تمہیں کیا ہوگیا ہونق زدہ شکل کیوں بنا لی ہے.."
"ارے یار وُہ بہت .."
وُہ بولتے بولتے رکی تھی...
"کُچھ نہیں بھوک لگی ہے مُجھے کُچھ کھا لیتے ہیں.."
اُس نے کینٹین ایریا میں رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا...
"کیا کھائیں..؟"
دُعا نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا..
"کُچھ بھی منگوا لو بڑی بھوک لگی ہے ایسا کرو سموسے لے آؤ میرے لئے تو.."
منتہٰی نے مسکین شکل بناکر کہا ...
"اچھا.."
وُہ کہتے ہوئے اُٹھ کینٹین کے اندر چلی گئی...
منتہٰی نظریں گھما کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی تب ہی اُسے زیان آتا دکھائی دیا تو اُس نے رُخ پھیر لیا..
"ہائے.."
اُس نے منتہٰی کی ٹیبل کے پاس رُکتے ہوئے کہا...
"ہائے.."
اُس مروتاً کہنا پڑا..
"کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں..؟"
اُس نے خالی پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اجازت چاہی...
"وُہ میری دوست..."
"شکریہ.."
وُہ جواب سننے سے پہلے ہی کُرسی کھینچ کر بیٹھ گیا..
"یہاں میری دوست بیٹھی ہے.."
منتہٰی نے سختی سے کہا...
"کہاں..."
اُس نے اپنے اِرد گِرد دیکھتے ہوئے کہا...
"جس کرسی پر اب براجمان ہیں موصوف..."
اُس نے لہجہ مزید سخت کرتے ہوئے شائستہ لفظوں میں کہا...
"اوہ معذرت مُجھے لگا آپ اکیلی بیٹھی ہیں تو کمپنی دینے آگیا ورنہ میں اجنبیوں سے بات نہیں کرتا آپ سے تو پُرانی آشنائی ہے اِسی لیے آپ سے بات کرنے آگیا.."
وُہ مہذب انداز میں بولا..
"پُرانی آشنائی..."
منتہٰی نے اُس کے الفاظ دہرائے..
"مُجھ سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ آپ اجنبیوں سے کتنی اجنبیت برتتے ہیں.."
اُس نے طنز کیا تھا...
وُہ شاید واقعی بے عزتی پروف تھا...
"ویسے کہاں ہے آپکی دوست؟"
چند ہی لمحوں میں اُس کی ہڈی کو پھر بے چینی ہوئی...
"آرہی ہوگی.."
اُس نے بے مروتی سے کہا..
                   ______________________
"کتنے پیسے ہوئے بھائی.."
دُعا نے سموسوں کا لفافہ سنبھالتے ہوئے کہا۔۔
"باجی ساٹھ روپے.."
"یہ لو.."
دُعا نے پانچ سو کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا..
"باجی کھلے نہیں ہیں میرے پاس.."
کینٹین والے آدمی نے نوٹ واپس اُس کی طرف بڑھایا..
"کوئی نہیں ایڈوانس رکھ لو اگلے ایک ہفتے تک جو تمہاری کینٹین سے لے لے کر جاؤں گی باقی کے پانچ سو چالیس روپیوں سے کاٹ لینا دھیان سے دیکھ لو میری شکل اگر میرے پیسے مارنے کی کوشش کی یا کینٹین چھوڑنے کی تو تمہارے حلق سے بھی نکلوا لوں گی..."
دُعا نے اُنگلی دکھا کر وارننگ دی..
"کیسی بات کرتی ہو باجی پانچ سو چالیس روپے ہے پانچ لاکھ تھوڑی دے رہی ہو جو میں اپنی اچھی خاصی چلتی دکان چھوڑ کر جاؤں گا.."
اُس نے بُرا سہ منہ بناکر کہا...
"نیت خراب ہوتے کتنی دیر لگتی.."
وُہ کہاں چُپ رہنے والوں میں سے تھی...
"باجی یہ لو اپنے پانچ سو روپے اور سموسے بھی لے جاؤ.."
اُسے دُعا کی باتوں سے تپ چڑھ گئی تھی...
"ایسے کیسے خیرات کے سموسے لے جاؤں میں.."
دُعا مزید موڈ میں تھی..
پیچھے کھڑا سمیر  کافی دیر سے اُس جھلی لڑکی کے پاگل پن کو دیکھتے ہوئے بمشکل اپنی ہنسی روکا ہوا تھا...
"نہیں باجی خیرات کے نہیں بھائی کی طرف سے لے جاؤ .."
کینٹین والے نے نرمی سے کہا..
"ٹھیک ہے آپ نے بہن کہا ہے تو لے رہی ہوں ورنہ کبھی نا لیتی..."
دُعا نے پانچ سو کا نوٹ واپس پرس میں رکھتے ہوئے کہا..
سمیر نے اُس کے پرس سے جھانکتے پچاس سو دس بیس کے نوٹ دیکھ لیے تھے اور وُہ بس اُس لڑکی کو دیکھتا رہ گیا ..
"سوہنی سے لڑکی سے شادی ہو میرے بھائی کی.."
وُہ اُسے دُعا دیتی بولی...
جس پر وُہ صرف مسکرا کر رہ گیا...
وُہ  واپسی کے لیے مڑ گئی بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتی گردن نیچے جھکائے آگے بڑھنے لگی تو مخالف سمت سے ٹھیک آتے سمیر سے بُری طرح ٹکرا گئی اور ہاتھ میں پکڑا سموسوں کا لفافہ زمین بوس ہوگیا۔
"اندھے ہو کیا دکھائی نہیں پڑتا کوئی آرہا نہیں جہاں کوئی لڑکی دیکھی نہیں آ گھس جاتے ہیں آنکھیں ہے یا بٹن..."
وُہ اپنا  بازو سہلاتی کھا جانے والی نظروں سے اُسے گھورتے ہوئے بولی...
"سوری مگر میں بِلکُل ٹھیک آرہا تھا آپ ہی پتا نہیں کہاں دیکھتی چل رہی تھیں..."
سمیر کو بلاوجہ کا الزام ذرا نہ بھایا..
"ہاں ہاں چور نے کبھی کہا ہے کہ وُہ چور ہے..."
وُہ بُرا سا منہ بناکر بولی...
"میرے سموسے گرا دیئے  .."
اُس نے لفافے میں ثابت بچے چار سموسوں کو اُٹھاتے ہوئے کہا...
"ویسے بھی کون سا پیسوں کے تھے.."
وُہ بے اختیار ہی بول گیا...
"کیا کہا تُم نے..."
دُعا کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا مگر وہ دُعا تھی ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی..
"کُچھ نہیں میں معذرت چاہتا ہوں.."
اُس نے بات ختم کرنے کی خاطر کہا...
"کہنا بھی چاہئے.."
وُہ دوپٹہ ایک ادا سے دوسرے کندھے پر ڈالتی واپسی کے لیے مڑ گئی...
سمیر کے ہونٹوں کو نرم مسکراہٹ نے بے اختیار ہی چھوا تھا...
"یہ جانے کا کیا لے گا.."
منتہٰی کو اُس کی موجودگی مسلسل زِچ کر رہی تھی...
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں..؟"
دُعا نے زیان کو منتہٰی کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر کہا....
"ہیلو.."
وُہ اپنی جگہ پر جم کے بیٹھے ہوئے ہی بولا...
"ہائے.."
وُہ کبھی اُس کا لحاظ نہیں کرتی مگر زیان کا تعارف اُس کے ساتھ بطور سپروائزر ہوچکا تھا...
"میں تو ایسے ہی بیٹھ گیا تھا.."
اُس نے بے تکلفی سے کہا...
"ہممم .."
"ویسے یہ ہی آپکی ہیلپر ہے منتہٰی آصف .."
دُعا نے بتانا ضروری سمجھا...
"اوہ یہ تو اچھی بات ہے مطلب میں ٹھیک جگہ بیٹھا ہوں.."
اُس نے ہنستے ہوئے کہا تو دُعا بھی مسکرا دی..
"آپ کھائیں گے..؟"
دُعا نے سموسوں کی آفر  کرتے ہوئے کہا..
"ہاں ضرور.."
اُس نے فوراً ایک ٹکڑا توڑ لیا...
جبکہ منتہٰی کمبل ہوتے اُس اِنسان کو پھٹی نظروں سے دیکھتی رہ گئی...
"تمہیں دعوت نامہ دینا ہوگا کیا بی بی.."
دُعا نے اپنے ازلی ظریفانہ لہجے میں کہا...
"نہیں مُجھے بھوک نہیں ویسے بھی مُجھے سموسے نہیں پسند.."
اُس نے دُعا کو گھوری سے نوازتے ہوئے کہا..
"ہیں تُم نے ہی تو بھوک کا شور مچا رکھا تھا اور سموسے کب سے نہیں پسند تمہیں.."
دُعا کو وُہ دوسری بار پاگل لگی تھی...
"بس ابھی ابھی نا پسند ہوئے.."
اُس نے سموسوں سے انصاف کرتے ہوئے زیان پر نظر ڈالتے کہا...
"زیان کہا تھے تُم میں ڈھونڈھ رہا تھا کے ساتھ میں لنچ کریں گے..."
سمیر نے ٹیبل کے پاس رُک کر کہا اُس نے اب تک دُعا کو نہیں دیکھا تھا...
"میں بھی تمہیں ڈھونڈتے ہوئے ہی اِس طرف آگیا تھا تو یہاں بیٹھ گیا.."
زیان نے مسکراتے ہوئے کہا...
"تُم یہاں کیا کر رہے ہو..."
دُعا سمیر کو دیکھ کر تپ اُٹھی...
"ارے آپ بھی یہاں بھی.."
وُہ اپنے چہرے پر جلا دینے والی مسکراہٹ سجائے بولا...
"بیٹھ ناں یار اور یہ ہاتھ میں کیا پکڑا ہے؟.."
زیان نے ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی برابر والی کُرسی پر بٹھا دیا...
"عجیب اِنسان ہے پہلے بغیر پوچھے خود نے ڈیرے ڈال دیئے اب اپنے دوست کو بٹھا لیا.."
وُہ محض سوچ کر رہ گئی...
"دُعا ہم لوگ دوسری ٹیبل پر چل کر بیٹھ جاتے ہیں.."
منتہٰی نے تنگ آکر کہا...
"ارے آپ تو بُرا ہی مان گئیں میں صرف اِس لئے بیٹھ گیا تھا کہ میں بھی نیا ہوں اِس فرم میں اور آپ بھی تو ہائی ہیلو ہوجائے گی اور سمیر بھمیںی نیا ہے بس باقی آپ کو ان کمفٹربل کرنے کا ارادہ نہیں تھا.."
زیان نے بلا آخر شرمندہ ہوتے ہوئے کہا...
"چل سمیر ہم دوسری ٹیبل پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں.."
زیان نے اُٹھتے ہوئے کہا...
"نہیں ایسی کوئی بات آپ دونوں بیٹھ سکتے ہیں اچھا ہے ایک دوسرے کو جان جائیں گے ساتھ کام کرنا ہے تو اچھا ہے.."
دُعا نے بات بناتے ہوئے کہا.
"ہیں نا منتہٰی.."
دُعا نے اُس کے ہاتھ دبا کر کہا...
"جی.."
چارہ نہ چارہ اُس ہاں کرنی پڑی...
"گڈ ہوگیا جی..."
وُہ پھر مزے سے بیٹھ گیا...
جبکہ دُعا نے سمیر کو غصے سے دیکھا تھا...
"آپ کہاں سے ہیں..؟"
زیان نے دوسرا سموسہ اُٹھاتے ہوئے کہا..
"میں پتا نہیں کہاں سے ہوں مُجھے خود نہیں پتا..."
دُعا نے بات کو مذاق میں اُڑایا..
مگر اِس جواب میں کس قدر صداقت تھی یہ صرف وہی جانتی تھی...
"آپ کہاں سے ہیں..؟"
دُعا نے سموسے کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا...
"کراچی سے تعلق رکھتا ہوں.."
"ہممم ویسے منتہٰی بھی کراچی کی ہی ہے..."
دُعا نے منتہٰی کو دیکھ کر کہا...
"اچھی بات ہے..."
اُس نے انجان بن کر کہا...
منتہٰی کو حیرت بھی ہوئی تھی...
"آپ یہ کھائیں اِن دونوں نے تو سارے سموسے کھا لیے..."
سمیر نے سنڈوِچ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا...
"تھینک یو مگر.."
منتہٰی نے انکار کرنا چاہا...
"کوئی بات نہیں ویسے بھی میں اپنے اور زیان کے لئے لایا تھا اُس نے تو کھا لیا تو اب یہ ایکسٹرا ہے.."
سمیر نے متانت سے کہا...
"شکریہ.."
اُس نے سمیر کے ہاتھ سے سنڈوِچ لیتے ہوئے کہا..
اُسے پہلی ہی بار میں وہ سوبر سا لڑکا اچھا لگا تھا بالکل اپنی طرح خاموش رہنے والا اور اپنے کام سے کام رکھنے والا...
اُس نے ایک نظر دُعا اور زیان کو دیکھا تو وُہ دونوں اب کسی بات پر ہنس رہے تھے وُہ دونوں بھی تو ایک جیسے تھے بے فضول بولنے والے حد سے زیادہ بے تکلف...
"آپ کراچی سے ہیں..؟"
سمیر نے کھاتے ہوئے پوچھا..
"جی.."
"میرے والد کا تعلق بھی کراچی سے ہی ہے اُن کے اِنتقال کے بعد اور جاب کی وجہ سے یہاں شفٹ ہونا پڑا باقی فیمیلی کراچی میں ہی ہے.."
سمیر نے رسان سے کہا...
"آپ کی کیا پوسٹ ہے.؟"
منتہٰی کو اُس سے بات کرنا زیان کی شوخی باتوں کا جواب دینے سے زیادہ آسان لگا...
"مینیجر.."
"اوہ.."
اُس نے ہونٹوں کو سیٹی کے انداز میں سکوڑتے ہوئے کہا...
"مطلب آپ ہم سب میں سے بڑی پوسٹ پر ہیں.."
اُس نے ازراہِ مذاق کہا...
"ہاں پتا نہیں کیسے...!"
دُعا نے طنز کرتے ہوئے کہا...
"ویسے آپ کراچی سے اتنی دور کیوں جاب کرنے آئی ہیں.."
زیان کو ایک وہی سوال بے چین کیے رکھے تھا...
"آپ کی تعلیم.."
منتہٰی دوبارہ اُسے نظر انداز کرتی سمیر سے بولی...
اور ہر بار کی طرح زیان نے بے عزتی محسوس نہیں کی...
"گریجویٹ.."
"لگتا میٹرک فیل ہے..."
دُعا نے ہولے سے کہا۔۔
"کُچھ کہا آپ نے.."
سمیر نے سن لیا تھا...
"نہیں کُچھ نہیں میں نے کیا کہنا آپکو مسٹر گریجویٹ.."
اُس نے کندھے اُچکا کر کہا...
منتہٰی نے دُعا کو آنکھیں دکھائی..
"آپکی ہابیز کیا ہیں؟"
سمیر دوبارہ منتہٰی کی طرف متوجہ ہوا...
"کُچھ خاص نہیں بس گھر کے کام وغیرہ میں کبھی وقت ہی ملا کوئی اور مصروفیت پال سکوں کبھی کوئی رسالہ پڑھ لیا یا کوئی کتاب بس.."
اُس نے ہموار لہجے میں کہا...
"آئی آلسو لو ریڈنگ.. خاص کر سیاست اور تاریخ سے متعلق..."
سمیر نے بھی اُسی انداز سے کہا...
جبکہ دُعا کا قہقہہ بُلند ہوا اُس کا بھر پور ساتھ زیان نے بھی دیا تھا...
"سوری... پر آئی مین سیریسلی سیاست اور تاریخ.."
وُہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی ہنسی ضبط کرتی بولی..
سمیر نے بُرا سا منہ بنایا تھا...
"میں تو اسکول میں سوشل اسٹڈیز میں ہمیشہ فیل ہوتا تھا اور کالج میں میری واحد سپلی مطالعہ پاکستان کی لگی تھی  کون پڑھنا چاہے گا زردای الطاف کے معاشقے ذوالفقار چچا کی پھانسی یا قائد اعظم کے چودہ نکات وُہ تو مُجھے کبھی ایک بھی ڈھنگ سے یاد نہیں ہوئے اور تاریخ میں کیا موہن جو دڑو..."
زیان نے تاریخ اور سیاست کا انت مذاق اڑاتے ہوئے کہا جس پر دُعا نے اُس کی بھرپور تائید کی...
"بے ذوق لوگ.."
منتہٰی نے دونوں کو خفگی سے دیکھ کر کہا...
"تُم دونوں کو ہی مبارک ہو ایسا ذوق جس میں آدمی پچیس کا ہوتے ہوئے پچاس والی حرکتیں کرے.."
دُعا نے ناک سے مکھی اُڑائی...
"میں ایک کال کرکے آتا ہوں.."
سمیر معذرت کرتا وہاں سے اُٹھ گیا...
"شاید بُرا مان گیا.."
زیان نے افسوس سے کہا...
"ہیں اتنا چینٹی سا دِل..."
دُعا نے حیران ہوکر کہا...
"میں اندازہ لگا رہا ہوں شاید واقعی کال کرنے گیا ہو.."
"ہاں کال کرنے ہی گیا ہوگا ورنہ اتنی سی بات پر لڑکیاں بھی نہیں روٹھتی..."
دُعا نے تمسخراڑایا...
"میں واش روم سے آتی ہوں.."
دُعا کہہ کر اُٹھ گئی...
اب وُہ دونوں اُس ٹیبل پر اکیلے تھے..
منتہٰی جانے کے لئے پر تولنے ہی لگی تھی اُس کی زبان کو کُھجلی ہوئی..
"دیکھیں دُنیا سچ میں گول ہے کیسے ہم دونوں پھر مِل گئے ویسے آپ اتنی دور یہاں جاب کرنے کیوں آئی ہیں مطلب کراچی میں بھی تو بہت جابز ہوں گی نا.."
عادت سے مجبور وُہ تیسری بار پوچھ بیٹھا...
"یہی سوال میں آپ سے پوچھوں تو.."
منتہٰی نے اب کی بار ذرا سختی سے کہا..
"ایڈونچر کے لیے.."
وُہ اترنگی جوابوں کا ماہر تھا...
"ایڈونچر...کیسا ایڈونچر..؟"
اُسے یہ منطق سمجھ نہ آئی..
"وُہ میں نے ابھی سوچا نہیں جلدی جلدی میں منہ سے بس ایڈونچر پھوٹا باقی ایڈونچر پر کل پی ایچ ڈی کرکے آؤں گا پھر بتاؤں گا ابھی کے لئے خُدا حافظ.."
زیان نے بھاگ جانے میں عافیت جانی...
"بولنے کی مشین ."
منتہٰی نے بیزاری سے کہا...
"کہاں گئے سب.."
سمیر موبائل میں جیب رکھتا ہوا واپس آیا...
"آپکے دوست کا پتا نہیں میری دوست ریسٹ روم گئی ہے.."
اُس نے آہستہ سے کہا...
"ٹھیک ہے منتہٰی انشااللہ اب تو ملاقات ہوتی رہے گی بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے ہم مزاج لگی آپ مُجھے اور مُجھے اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ بات کرنا ہی پسند ہے.."
سمیر نے مسکراتے ہوئے کہا...
"مُجھے بھی بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے واقعی ہم مزاج لوگوں کا مل پانا واقعی نعمت ہوتی ہے.."
منتہٰی نے پوری صداقت سے کہا اُسے سمیر کی شخصیت بہت متاثر کن لگی...
"خُدا حافظ.."
وُہ کہہ کر پلٹ گئی..
سمیر کے لبوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری تھی وُہ کم گو معصوم لڑکی اُسے بہت اچھی لگی تھی...
"god bless you"
اُس نے دِل میں کہا اور زیان کو آتا دیکھ اُسکی طرف بڑھ گیا...

(جاری ہے)

نوٹ: اگلی قسط انشااللہ کل...
اِس قسط پر بھرپور رسپانس دیجئے گا پلیز...

بچھڑے سفر میں...Where stories live. Discover now