قسط نمبر ۱۴

611 36 1
                                    

#بچھڑے_سفر_میں
از قلم #مصطفیٰ_چھیپا
قسط نمبر ۱۴

"ماہی کیا ہوا ہے انکل ٹھیک ہے نا؟.."
دُعا کو اُس کی اُڑی رنگت دیکھ کر ڈر لگنے لگا...
"مُجھے واپس جانا ہوگا فوراً جتنی جلدی ہوسکے.."
وُہ خود سے باتیں کر رہی تھی..
"ماہی کُچھ تو بتاؤ کیا ہوا ہے گھر پر سب ٹھیک تو ہے نا..؟"
وُہ اب اُسے جھنجھوڑ کر بولی..
"ابو کی طبیعت بہت خراب ہے وُہ مُجھے بُلا رہے ہیں واپسی مُجھے اُن کے پاس جانا ہے میرے پاس صرف ایک وہی رشتہ ہے باقی میں اُنہیں نہیں کھو سکتی.."
وُہ اب اپنا ضبط کھو کر اُس کے گلے لگ کر روپڑی...
"ماہی کُچھ نہیں ہوگا سب ٹھیک ہوجائے گا بس تُم پریشان مت ہو میری جان شاباش چُپ ہوجاؤ..."
وُہ اُس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی...
"میں کراچی کی ٹکٹس بُک کرتا ہوں منتہٰی آپ پریشان مت ہوں کُچھ نہیں ہوگا آپکے ابو کو اللہ سے اچھی کی اُمید رکھیں بس.."
زیان کا دل کر رہا تھا اُس کی آنکھوں سے ایک ایک اپنی آنکھوں میں نچوڑ لے اور اُس کی آنکھوں میں اپنی محبت کی ٹھنڈک پھونک دے۔۔۔
مگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا اُسے تسلی دینے کے علاوہ...
"کل صبح دس بجے کی ٹکٹس بُک ہوگئی ہیں ہماری..."
اُس نے فون بند کر کے اُن دونوں کو بتایا...
"ہماری.."
"ہاں ہماری ہم تمہیں اکیلے تو نہیں جانے دیں گے ماہی.."
دُعا نے اب ذرا سختی سے کہا...
"تُم لوگ پریشان ہو گے میری وجہ سے میں اكيلی جاسکتی ہوں آئی بھی تو تھی اکیلی.."
منتہٰی نے آہستہ مگر زمم کہا..
"ہاں دیکھ لیا تھا میں نے کیسے اکیلے آئی تھیں ایک ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر محترمہ کی آواز حلق میں پھنسی ہوئی تھی.."
وُہ اُس کی ضدی انداز پر چڑ کر بولا۔۔۔
"ہم میں سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے منتہٰی ہم سب دوست ہیں اور وہ دوست ہی کیا جو مشکل وقت میں کام نہ آئے اور اب اِس پر کوئی بحث نہیں ہوگی ہم لوگ آپکے ساتھ کراچی جارہے ہیں آپ فکر نہیں کریں بس اللہ سے دُعا کریں انشاءاللہ آپکے والد بِلکُل ٹھیک ہوجائیں گے.."
سمیر نے روم میں داخل ہوتے ہوئے حتمی انداز میں کہا..
وُہ آج بھی سمیر کے آگے کُچھ نہیں کہہ پاتی تھی...
"دُعا تُم اِنہیں ہوسٹل لے جاؤ اِس حالت میں یہ کام بھی نہیں کرسکیں گی پریشان رہیں گی تُم اِنہیں لے جاؤ.."
زیان کو اُس کی مسلسل برستی آنکھیں دیکھ کر تکلیف ہورہی تھی..
"چلو چل کر آرام کرلو میری جان اور فکر ناٹ چندا سب ٹھیک ہوجائے گا اللہ بہت بڑا ہے.."
وُہ مسلسل اُس کی ہمت بندھا رہی تھی...
وُہ میکانکی انداز میں اُس کے ساتھ چلتے ہوئی باہر نکل گئی...
"یا اللہ رحم کرنا.."
زیان نے دُعا کی...
"ویسے تمہارا اظہارِ محبت کافی ان لکی رہا منتہٰی کے لیے.."
سمیر نے ازراہِ مذاق کہا..
"سمیر ابھی نہیں ابھی میں بِلکُل مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں.."
وُہ بالوں میں اُنگلیاں پھیرتا ہوا بولا...
"آہا...یار کیا ہوگیا ہے تُم اُسے ہمت دیتے ہوئے خود کیوں ہار رہے ہو.."
سمیر نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا...
"پتا نہیں یار ایسا لگ رہا ہے کُچھ غلط ہونے والا ہے عجیب ہی دِل ہورہاہے بہت عجیب..."
وُہ مضطرب دکھائی پڑتا تھا...
"اب یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ مستقبل میں ہمارے لیے کیا سرنہاں ہے ہم اُمید رکھ سکتے ہیں اچھی اور فکر مت کرو اللہ سب ٹھیک کرے گا.."
وہ مسلسل اُس کا موڈ ٹھیک کرنے میں مجتہد تھا..
"انشاءاللہ.."
زیان نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا...
"انشاءاللہ.."
سمیر نے اخلاص مندی سے کہا ..

بچھڑے سفر میں...Where stories live. Discover now