لندن میں سردی اپنے عروج پر تھی ۔اس وقت وہ ایک فلیٹ کے روم میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ دس دن پہلے کمال صاحب کی کال پر کی گئی بات نے اسے بہت جھٹکا دیا تھا۔ وہ اسکی شرط پر راضی تھے بس اسکی ماں کے لیے وہ واپس آجاۓ ۔ لندن میں اپنے ماسٹرز کے بعد اسکا نگارش سے کونٹیکٹ ہوا جس میں اسنے اسے اپنی محبت کا بھرپور احساس دلایا تھا۔ وجی نگارش سے کو بچپن میں پسند کرتا تھا لیکن محبت۔۔۔۔۔۔۔کیا وہ محبت کرتا تھا اس سے ؟ یا سب وقتی لگاؤ تھا۔۔۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔۔۔۔
اس بات کا جواب تھوڑا مشکل تھا ۔ نگارش اسکی کچی عمر کی پسند تھی ۔ لیکن پھر اچانک آفاق صاحب کی موت اور دلآویز کا اسکی زندگی میں آنا اسکے عصابوں تک کو جھنجھوڑ گیا تھا ۔ وہ اسے ہمیشہ سے اپنی بہن سمجھتا آیا تھا اور محض ایک بچی جو اسکے سامنے ہی پیدا ہوکر بڑی ہوںٔی وہ اسے قبول نہ کرسکا تھا ۔ کچھ دل میں اپنوں کے لیے شکایت بھی تھی جنھوں نے اسکی مرضی تک پوچھنے کی ضرورت نہ محسوس کی تھی اسی لیے ضد میں آکر نگارش کی شرط رکھ دی ۔۔۔۔۔
اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا تھک کر پیچھے صوفے سے سر ٹکا گیا۔۔۔۔۔
"جب ۔۔۔ت۔۔۔تم پڑھ کر لوٹو تو اسے ۔۔۔ر۔۔۔رخصت کروا دین۔۔۔دینا ۔۔۔۔۔۔۔"
گہری بڑی براؤن آنکھیں کسی گہری سوچ میں گم تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
🌼🌼
توبہ ہے لڑکی مجھے میتھ کب آتی ہے جو دندناتے ہوئے یہ سوال اٹھا لاںٔی ہو۔۔۔۔؟( دل رات کے گیارہ بجے اپنے کمرے میں کتابیں کھول کر بیٹھی تھی جب جنت بھی اپنی کتاب پکڑے میتھ کا سوال سمجھنے کے لیے لے آںٔی جسکا کل ٹیسٹ بھی تھا)
کوشش تو کرو دل دیکھو اتنا بھی مشکل نہیں ہے ( جنت اسکا حوصلہ بڑھاتے ہوئے بولی)
ہاں نہیں ہے مشکل تو خود ہی کوشش کرلو نا( اسکی بات پر دل تمسخر بھرے لہجے میں بولی )
اب اتنا بھی آسان نہیں ہے لیکن میں کیا کروں میرا کل ٹیسٹ ہے ( اپنی خوبصورت کھلی کھلی آنکھوں میں دنیا جہان کی بیچارگی سمو کر بولی تو دل کو
اسکی حالت پر ہنسی آگںٔی)
ایسا کرو عفان بھاںٔی کے پاس چلی جاؤ انھوں نے اینٹر انجینئرنگ میں ہی کیا ہوا ہے ( دل نے تو اپنی طرف سے زبردست آںٔیدیا دیا تھا لیکن عفان کانام سنتے ہی اسکی نازک سی جان وہیں سوکھ گئی)
ن۔۔۔نہیں وہ مجھے ڈانٹیں گے۔۔۔۔۔۔
اسکی بات پر دل نے مسکراہٹ دباںٔی کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ اسکی جان عفان کے نام سے بچپن سے ہی نکلتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں عفان بھاںٔی کو میسج کردیتیں ہوں وہ میری بات بلکل نہیں ٹالیں گے اور نہ ہی تمھیں ڈانٹیں گے ( دل کی بات پر وہ مطمئن تو نہ ہوںٔی لیکن مجبوراً اٹھ گںٔی کیونکہ یہ ٹیسٹ اور سوال بہت ضروری تھی۔)
دل کے میسج کرنے پر وہ عفان کے کمرے کی طرف بڑھ گںٔی۔۔۔۔
دروازے کے باہر کھڑے ہوکر گہرا سانس لیا پھر کلمہ پڑھتے ہوئے دروازہ ہلکے سے نوک کیا ۔ پہلی دستک پر ہی اندر سے بھاری کم ان کی آواز آںٔی تو وہ دروازہ کھولتی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر آگںٔی۔۔۔۔۔
اسے دیکھتے ہی عفان نے بےزار سی شکل بنا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ فوراً اسکے سامنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
کاپی دو ...( سوال دیکھ کر اس سے کاپی مانگی جو جنت نے فوراً اگے کردی)
اب وہ کاپی میں لکھتا اسے سمجھا رہا تھا اور جنت پوری توجہ سے سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔( پین کو کاپی میں واپس رکھتا اس سے بولا جسکی شکل پہ ہی صاف نا سمجھی کے اثار نمایاں تھے۔)
ایک ۔۔۔اور بار سمجھادیں پلیز ۔۔۔۔( منمناںٔی سے آواز میں کہتی نظریں جھکا گںٔی تو عفان نے بھی کوفت سے اس کی شکل پر ایک نظر ڈال کر دوبارہ سمجھانا شروع کیا۔ اس بار کچھ پلے پڑ ہی گیا تھا۔۔۔۔۔)
چلو سولو کرو اسے ابھی ( وہ جو اب بھاگنے کی طاق میں تھی اسکے نںٔے حکم پر آنکھیں پھاڑ کر رہ گئی)
جی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے اتنے بڑے جی پر عفان نے اسے گھور کر دیکھا اور کاپی اسکے ہاتھوں میں تھما کر حل کرنے کے لیے کہا تو اسے ناچار حل کرنا پڑا۔۔۔۔
عفان اسکے ہاتھ میں کاپی پکڑا کر خود موبائل میں مصروف ہوگیا لیکن وقتاً فوقتاً ایک نظر اس پر ڈال دیتا جو جان توڑ کوشش کرتی اسے حل کرنے میں لگی تھی۔۔۔۔۔
سرخ سفید رنگت، کالے گھنگرالے بال خوبصورت کھلی غلافی آنکھیں، اور خوبصورت سے نقوش کی مالک تھی وہ۔۔۔۔
جھنجھلا کر حل کرتے ہوئے اسکا ڈوپٹہ دونوں شانوں سے سرک کر ایک کندھے پر آگیا جس سے اسکا نو عمر سراپا واضح ہونے لگ گیا تھا۔ عفان نے ناگواری سے نظریں ہٹاکر دوبارہ موبائل پر مرکوز کردیں۔۔۔۔
ہوگیا۔۔۔( خوش ہو کر کہتی اسکے ہاتھ میں کاپی دی جسے اسنے چیک کیا تو سب ٹھیک تھا،)
آزادی کا پروانہ ملتے ہی خوشی سے کود کر جیسے پہ بیڈ سے اتری تو اسکا دوپٹہ شانوں سے سرک کر قدموں میں سلامی دینے لگا ۔ عفان نے اسکی پتلی نازک سی کمر پر گھنگرالے بالوں کی چوٹی اور پھر قدموں میں پڑے دوپٹے کو دیکھا تو دھاڑ اٹھا۔۔۔۔۔
تم سے ایک دوپٹہ نہیں سنبھالا جاتا لڑکی ( وہ جو اپنا دوپٹہ اٹھا کر کندھے پر ڈال چکی تھی اسکی دھاڑ پر کانپ گںٔی).
س۔ ۔۔۔سوری۔۔۔( اپنا بچپن کا مشہور پہلا لفظ کہتی یہ جا وہ جا)
اور عفان پیچھے غصے سے دروازے کو گھور کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷
اگلے دن دل اور جنت کالج کے لیے تیار ہوکر نیچے آںٔیں تو سب خواتین اور مرد ناشتے کی میز پر بیٹھے ہنستے ہوۓ باتیں کررہے تھے۔ دل اور جنت کو یہ منظر کچھ عجیب لگا کیونکہ پچھلے کچھ سالوں سے یہاں سے صرف تلخ کلامی کی ہی آوازیں آتی تھیں۔ دل نے یہ سب دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیا اور ناشتہ کرنے لگی جبکہ جنت نے تجسس سے مجبور ہوکر پوچھ ہی لیا ۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے آج بہت خوش لگ رہیں ہیں آپ سب..؟( جنت کے سوال پر خانم نے مسکرا کہا )
جی بیٹا جی لندن سے وجی کا فون آیا ہے وہ پرسوں کی فلاںٔٹ سے واپس آرہا ہے...( خانم کی بات پر دل کا منہ میں جاتا نوالہ وہیں رک گیا)
جبکہ جنت بھی فوراً خاموش ہوگئی اور دل کی طرف دیکھا جو لب بھینچے پلیٹ کو گھور رہی تھی....
ہاں جنت انکی شرط مان لی گئی ہے نا اسی لیے وہ آرہے ہیں۔۔۔۔( حرا نے آج یونی سے اوف کیا تھا اسی لیے وہ بھی ساتھ بیٹھی تھی)
حرا تم خاموشی سے ناشتہ کرو ( عفان کو اسکی قیاس آرائی ایک آنکھ نہ بھاںٔی )
نجمہ بھی سب کے خیال سے ابھی خاموش ہی تھی ۔ دل نے نگاہ اٹھا کر خانم کو دیکھا جن کے چہرے سے خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی پھر ایک نظر کمال صاحب کی طرف دیکھا جو خاموش سے اپنی پلیٹ پر جھکے تھے۔۔۔۔۔
زبیدہ دواںٔوں کی وجہ سے صبح جلدی ناشتہ کرلیتی تھی اسی لیے وہ یہاں موجود نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔
عصابوں پہ بڑھتے بوجھ کی وجہ سے ایک ہاتھ سے اپنی دکھتی ہوئی گردن کو دبایا اور پھر عفان کے اٹھنے پر خود بھی اٹھ گںٔی۔ پھر سب کو خدا حافظ کرتی عفان کے پیچھے ہی چل دی تو جنت بھی اسکی پیروی میں پیچھے ہی ہولی۔۔۔۔۔
گاڑی میں بھی مکمل خاموشی تھی ۔ عفان چاہ کر بھی اسے مخاطب نہیں کرپا رہا تھا اور نہ ہی جنت ۔ یونی آتے ہی وہ دونوں کو خدا حافظ کرتی اندر کی جانب بڑھ گںٔی تو جنت بھی اسکے کہنے سے پہلے آگے آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔
عفان نے ایک نظر اس پر ڈال کر گاڑی اسٹارٹ کردی۔ کالج کے پاس پہنچ کر گاڑی روکی تو جنت جلدی سے نیچے اتر گںٔی۔۔۔۔۔
ٹیسٹ اچھا ہونا چاہیے ( عفان کی آواز پر مڑتی جی کہہ کر فوراً گیٹ سے اندر چلی گئی).......
ВЫ ЧИТАЕТЕ
FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️
Фэнтезиیہ کہانی ایک جواںٔن فیملی میں دو سوتیلی بہنوں کی ہے اور ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دنیا کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے دھتکاری ہوئی ہے۔ یہ کہانی کسی کے صبر کی ہے کسی کے ہجر کی تو کسی کے فراق کی ہے ۔۔۔۔۔۔💖💖💖