خانم بھابھی حرا آںٔی نہیں اب تک۔۔۔۔؟( نجمہ کچن سے نکلتی ہوںٔی بولیں )
نہیں نجمہ وہ بھی نہیں آںٔی اور دلآویز بھی نہیں آںٔی تین گھنٹے سے زیادہ ہوچلے ہیں۔۔۔۔( خانم نے لاعلمی کا اظہار کیا).
وہ کہاں گںٔی ہے۔۔۔۔؟( نجمہ کو حیرت ہوئی کیونکہ دلآویز کہیں نہیں جاتی تھی)
کہہ کر گںٔی ہے دوست کے گھر جارہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ دونوں بات ہی کررہے تھے کہ لاؤنج میں رکھا فون بج اٹھا ۔ نگارش جو اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی فون کو بجتا دیکھ اسنے اٹھا لیا۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جو مقابل سے سننے کو ملا اسنے اسکا دماغ سن کردیا۔۔۔۔۔
نگارش کیا بات ہے کون ہے فون پہ۔۔۔۔۔۔؟( خانم نے اسے چپ دیکھا )
نجمہ اسکے جواب کے انتظار میں کھڑی تھیں۔۔۔۔۔
مامی۔۔۔۔۔دل کو ۔۔۔۔۔۔۔( اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے بتاۓ )
ہاں نگارش کیا ہوا دل کو بتاؤ۔۔۔۔؟( خانم نے بے چینی سے پوچھا)
م۔۔۔۔مامی۔۔۔۔دل کو ۔۔۔۔گولی لگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا اللّٰہ خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ان دونوں کا ہاتھ اپنے دل تک گیا)
کون تھا فون پہ نگارش بتاؤ کون تھا۔۔۔۔۔؟( خانم نے اسے پکڑ کر پوچھا جو خود سکتے میں تھی)
وجی۔۔۔۔۔( ہلکی سی آواز میں کہتی وہیں صوفے پہ ڈھے گئی)
اللّٰہ بچی کی حفاظت کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سے ہسپٹل میں ہیں وہ ۔۔۔۔؟( خانم نے ہی آگے بڑھ کے پوچھا جب کہ نجمہ بلکل ساکت سی چپ ہوگںٔیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔)
نگارش نے انھیں ہسپٹل کا نام بتایا تو انھوں نے اسی وقت آفس کال کرکے کمال صاحب کو سب بتایا اور کچھ ہی دیر میں وہ سب ہسپٹل کے لیے نکل گںٔے تھے۔ زبیدہ سے یہ خبر فلحال چھپاںٔی گںٔی تھی وجہ اسکی خراب طبیعت تھی ۔ جبکہ جنت کا رو رو کر برا حال تھا ۔ گھر پر ثریا بیگم کو رکنے کا کہا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌼🌼
وہ اس وقت آںٔی سی یو کے باہر لگی چںٔیرز پر بیٹھا تھا ۔ خاموش چہرے بوجھل اعصاب کے ساتھ اور دل تھا کہ دھڑکن محسوس کرنے سے بھی قاصر ہوگیا تھا ۔ گھوم رہا تھا تو بس آنکھوں کے آگے اسکا خون میں لت پت وجود جو وجی کی بانہوں میں تڑپ رہا تھا ۔ اسکی تڑپ اسکا خون اب بھی وجی کے ہاتھوں پہ لگا تھا ۔ اسکی مدھم ہوتی سانسیں اب بھی اسے اپنے پاس محسوس ہورہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا میں گولی چلنے کی آواز کے ساتھ ایک اور آواز بھی گونجی تھی اور وہ تھی دلآویز کے نام کی آواز جو حرا کی گولی خود کے وجود پہ کھا گںٔی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
ولید کے تین کہتے ہی وجی نے فوراً ہاتھ مار کے گن کا رخ بدل دیا تھا لیکن بدقسمتی سے گن سے گولی نکل چکی تھی جو دلآویز نے حرا کو دھکا دے کر اپنے سینے پہ کھالی تھی۔۔۔۔۔۔۔
دل۔۔۔۔۔۔۔۔( حرا کی دلخراش چیخ کے ساتھ وجی بھی اس جانب متوجہ ہوا جہاں وہ خون سے لت پت وجود لیے وہیں ڈھے گئی تھی۔ وجی لمحے کی دیر کیے بغیر اس تک آیا تھا۔۔۔۔۔
اسے گولی لگتا دیکھ ولید بوکھلا گیا اور سیکنڈ میں اپنی گاڑی تک بھاگا اور اسے وہاں سے لے کر فرار ہوگیا۔ وجی نے جب اسکی گاڑی کی آواز سنی تب تک وہ بہت دور جاچکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل۔۔۔۔۔دل آنکھیں کھولو دیکھو میں ہوں۔۔۔۔دل۔۔۔۔۔( وجی چلاتا اسے کہہ رہا تھا لیکن وہ نیم غنودگی میں اسکی بانہوں میں پڑی تھی۔۔۔)
وجی بھاںٔی جلدی کریں اسے ہسپتال لے جاناہے پلیز دیر نہیں کریں۔۔۔۔۔( حرا کی آواز پہ وجی سیکنڈ کی دیر کہے بغیر اسکے وجود کو بازو میں اٹھاتا گاڑی میں لایا اور زن سے
گاڑی آگے بڑھا دی۔ پورے رستے وہ اسے آوازیں دے کر جگاتا رہا لیکن اسکی آنکھیں اب بند ہونے لگی تھیں ۔۔۔۔۔۔
ریش ڈراںٔیونگ کرکے وہ ہسپٹل پہنچے لیکن ڈاکٹرس کے مطابق یہ پولیس کیس تھا ۔ وجی نے فوراً پولیس کو کال کی اور دلآویز کو اسٹریچر پہ اندر لے جاچکا تھا۔ تب سے آپریشن تھریٹر کی لاںٔٹ کے ساتھ وجی کی امید بھی بندھی ہوںٔی تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا اسکی سانسیں تنگ ہوتی محسوس ہورہی تھیں۔ اندر وہ ہستی تھی جو اسے کبھی ناقابلِ برداشت تھی لیکن آج اسکی آتی جاتی سانسوں میں بستی تھی ۔ اسکے جینے کی وجہ تھی اسی کی خوشی کی خاطر وہ اپنی اور اسکی جداںٔی پہ راضی ہوگیا تھا لیکن یہ ہمیشہ کی جداںٔی جس میں دو جہان ہی الگ ہوجاتے ہیں وہ اسے کیسے قبول تھی۔ کیسے وہ اسے جانے دیتا کیسے وہ اسکے بغیر رہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجی۔۔۔۔۔( قریب سے کمال صاحب کی آواز پہ اسنے خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھا )
کمال صاحب خانم ، جنت اور نجمہ کو اسکی آنکھوں سے وحشت سی محسوس ہوںٔی جہاں زندگی کی کوںٔی رمق نہیں تھی۔ لبوں کے کنارے سے سوکھی خون کی لکیر اسکی ابتر حالت کی گواہ تھی ۔حیات صاحب اور عفان بھی آنے والے تھے جبکہ آفتاب صاحب گھر میں رہے ۔ حرا کو کونے میں کھڑا روتا دیکھ نجمہ کو عجیب لگا کہ وہ وہاں کیسے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچے کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔؟ ( خانم نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا)
جنت حرا کے ساتھ کھڑی اسے تسلی دیتی خود بھی رو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
تو وجی نے آپریشن تھریٹر کی طرف اشارہ کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ کی آنکھ سے آج پہلی بار اس بدقسمت کی تکلیف محسوس کرکے آنسو نکلا تھا ۔ وہ مامتا کا آنسو جس کے لیے وہ زندگی کے انیس سال کرب اور اذیت میں گزار گںٔی۔ آج نجمہ کو لگا تھا کہ آسکے وجود کے کسی حصے میں تکلیف ہوںٔی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجی کچھ بولو۔۔۔۔۔( اسے خاموش بیٹھا دیکھا خانم روتے ہوۓ بولیں لیکن وہ بس چپ چاپ زمین کو گھور رہا تھا)
بہادر بنو وجی ۔۔۔۔ تم کمزور نہیں پڑ سکتے ۔۔۔کچھ تو بولو کہ ہوا کیا تھا اور یہ خون ۔۔۔۔۔( کمال صاحب نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے دلاسہ دیا اور اسکے ہونٹوں کے کنارے پہ زخم کی جانب اشارہ کیا لیکن وہ سن ہی کب رہا تھا پھر جب بولا تو محض اتنا ہی۔۔۔۔۔۔۔)
پاپا میں مسجد جارہا ہوں۔۔۔پولیس آۓ گی تو حرا سے پوچھ لیجئے گا کہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔( وجی کی بات پہ سب نے گردن موڑ کر حرا کو دیکھا جو کونے میں کھڑی رو رہی تھی)
وجی کہہ کر جاچکا تھا لیکن نجمہ چلتے حرا کے پاس آںٔیں۔ اسی وقت سامنے سے حیات صاحب اور عفان بھی بھاگتے ہوۓ وہاں آۓ۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا تھا حرا۔۔۔۔۔؟( نجمہ نے اسکی لال روتی آنکھوں کو دیکھ کر ضبط سے پوچھا)
حرا کا سانس انکے سوال پہ سوکھ گیا تھا لیکن آج چپ رہ کر کیا کرنا تھا ۔ جو وہ کرچکی تھی اسکا صلہ اندر وہ بدنصیب بھگت رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسنے آنسوؤں اور ہچکیوں کے درمیان سب انھیں بتا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔( یہ پڑنے والا تھپڑ حیات صاحب کا تھا جو اسکے گال پہ نشان چھوڑ گیا تھا)
بھاںٔی صاحب چھوڑ دیں۔۔۔۔۔۔( خانم نے فوراً آگے بڑھ کر اسکے وجود کو تھاما تھا۔ باقی سب بے یقینی کی کیفیت میں کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔
مر کیوں نہیں گںٔی تو حرا تو مر کیوں نہیں گںٔی وہ گولی تجھے کیوں نہ لگ گںٔی ۔۔۔۔( نجمہ کا ضبط اب سہی معنوں میں ٹوٹا تھا)
ماما مجھ۔۔۔۔مجھے معاف کردیں۔۔۔۔( وہ خود زاروقطار رو رہی تھی۔۔۔۔)
ابھی چھوڑ دو نجمہ۔۔۔بچی کے لیے دعا کرو۔۔۔۔( خانم ان کے نڈھال سے وجود کو رکھی کرسیوں پہ بٹھا کر بولیں)
کیا دعا کروں اس بدبخت کے لیے خانم بھابھی۔۔۔۔اتنی بدبخت میری بچی تھی جسے ماں کی ممتا تک نہ ملی اور آج۔۔۔۔آج اندر پڑی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔۔۔۔۔( وہ روتے روتے بول رہیں )
جنت بھی روتے ہوۓ پرںٔیر روم کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ عفان ضبط سے کھڑا اپنی عزیز وجاں بہن کے لیے دعا گو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷
اسنے مسجد میں جب قدم رکھا تو مغرب کا وقت ہوچکا تھا ۔ تھکے تھکے قدم اٹھاتا اس رب کی بارگاہ میں آیا جسے انسان صرف تب یاد کرتا ہے جب اسے لگتا ہے کہ اب دل درد کی شدت سے پھٹ جاۓ گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم انسان بھی کتنے عجیب شے ہیں ۔ جسنے بنایا جسنے تخلیق کیا اسے ہی بھول جاتے ہیں اسے ایسے فراموش کردیتے ہیں کہ جیسے وہ ہمارا محتاج ہو ہم اسکے محتاج نہیں۔۔۔۔لیکن کہتے ہیں نا خدا کو یاد کرلو ورنہ اسے یاد کروانا بھی آتا ہے تو بس اسکے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو مشکل سے جمعے کی نماز ادا کرتا تھا آج فرض کے بعد نوافل ادا کررہا تھا۔ اور آنسو جو وہ کسی کے سامنے ظاہر نہ کرتا وہ اس رب کے سجدے میں بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں اٹھتے درد کے ساتھ پور پور اسکی زندگی کے لیے دعا گو تھا ۔ دعا کرکے وہ وہیں اس رب کے آگے بیٹھ گیا واپس جانے کی ہمت اب اس میں نہیں تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے بیٹھے کتنا وقت گزر گیا لیکن دیھان تب ہٹا جب مسجد کے میناروں میں عشاء کی اذاث کانوں میں رس گھولنے لگی۔ اسی وقت موبائل بجنے کی آواز پر اسنے جیسے ہی فون اٹھایا تو سامنے سے ملنے والی خبر پہ وہ ساکت ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا رب ہم مطلب پرست لوگوں کی دعاںٔیں بھی ایسے سن لیتا ہے۔ کیا وہ یہ نہیں جتاتا کہ تم گناہوں کی پوٹلی ہو تمھاری دعا نہیں سنی جاۓ گی۔۔۔۔۔نہیں وہ رب ہے وہ رحیم اور کریم وہ غفور ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے وہ چاہے تو مردے میں بھی ھان ڈال سکتا ہے ۔ اور ہوا بھی یہی اسنے اسکی دل کے وجود میں زندگی ڈال دی تھی ۔ اسنے اسے پھر سے لوٹا دیا تھا۔ اور بے شک وہ رب ہر چیز پر قادر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجی بے اختیار ہی سجدے میں گرگیا۔ اسکا شکر کرنے کے لیے جو دے کے جتاتا نہیں اور جو بس اپنی طرف مڑ جانے پہ ہی بخش دیتا ہے۔ بے شک وہ صرف اللّٰہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشاء کی نماز ادا کرکے اسنے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور ہسپٹل کی جانب روانہ ہوگیا۔ اب اسکے وجود میں پہلے سی تھکان نہیں تھی بلکہ وہاں اب زندگی موجود تھی کیونکہ وہ مہرباں رب کی بارگاہ سے وہ پاگیا تھا جس کے لیے وہ آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
YOU ARE READING
FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️
Fantasyیہ کہانی ایک جواںٔن فیملی میں دو سوتیلی بہنوں کی ہے اور ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دنیا کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے دھتکاری ہوئی ہے۔ یہ کہانی کسی کے صبر کی ہے کسی کے ہجر کی تو کسی کے فراق کی ہے ۔۔۔۔۔۔💖💖💖