امی مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔؟( ابتسام انھیں اکیلا دیکھتے ہی کمرے میں آ پہنچا)
ہاں بچے کہو۔۔۔۔۔۔( وہ بکھرے کپڑوں کو طے لگاتے ہوۓ مصروف سے انداز میں بولیں)
امی۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔( اسے سمجھ نہ آیا کہ کس طرح اپنا مدعہ بیان کرے)
اتنا جھجھک کیوں رہے ہو ابتسام کوںٔی بہت سنجیدہ نوعیت کی ہی بات لگتی ہے ۔۔۔( وہ کپڑے ساںٔیڈ پہ رکھتی اب کے اسے جانجھتی نظروں سے دیکھ کر بولیں)
اب اس طرح تو مت دیکھیں۔۔۔( وہ جو پہلے ہی کنفیوز ہورہا تھا انکے اس طرح جانچنے پر بچوں کی طرح بدک کر بولا)
ہاہاہاہا۔۔۔اچھا بابا نہیں دیکھتی بیٹھو ادھر اور بتاؤ کہ میرے بیٹے کو کیا پریشانی ہے ....( اس بار سحر اسرار پیار سے اسے بولیں تاکہ وہ اپنی بات کہہ سکے)
ان کے بلانے پہ ابتسام فوراً سامنے بیڈ پہ ٹک گیا ۔۔۔۔۔۔۔
اب کہو بھی مجھے تو طرح طرح کے وسوسے آرہے ہیں ۔۔۔۔( اب کہ انکو اسکی شکل دیکھ کر پریشانی ہوںٔی)
امی میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔( بلآخر اپنا مدعہ کہہ کر اسنے لمبا سانس لیا)
سحر اسرار پہلے تو حیران لیکن پھر مسکرا اٹھیں۔۔۔۔۔۔
میرا بچہ اتنا بڑا ہوگیا ہے جو شادی کرنی ہے ...( انکے شرارت سے کہنے پہ ابتسام نے مسکرا کر سر کھجایا)
شادی کی اچانک فکر لاحق ہوںٔی ہے پھر تو ضرور لڑکی بھی ڈھونڈ لی ہوگی ۔۔۔( اب کے بار اسنے پھر اثبات میں سر ہلایا تو سحر اسرار ہنسنے لگیں)
اچھا نام بتاؤ اس خوش قسمت کا جو میرے بچے کو بھا گئی ہے۔۔۔؟؟
جنت۔۔۔۔( ابتسام نے جھٹ سے نام لیا جس پہ سحر اسرار کے تاثرات دیکھنے والے تھے)
آفاق کی جنت۔۔۔؟( انھوں نے اپنا شک کو سہی ثابت کرنے کے لیے پوچھا تو ابتسام نے مسکرا کر سر ہلا دیا)
مجھے بھی وہ بچی بہت اچھی لگتی ہے ( انکی آنکھوں کے سامنے اسکا نوعمر سا سراپا لہرا گیا)
لیکن وہ چھوٹی ہے ابھی ابتسام۔۔۔۔
تو میں کونسا کہہ رہا ہوں کل شادی کردیں اب بس زبیدہ ممانی سے بات کریں پھر اسکی پڑھاںٔی کے بعد شادی کردیں ۔۔۔( اسکے پورے لاہے عمل پر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگیں)
تم تو پورا سوچ کر بیٹھے ہو لڑکے کب سے چل رہا یہ سب۔۔۔۔؟( انکے اندر کی تفتیشی ماں بیدار ہوگںٔی تھی)
اسے تو معلوم بھی نہیں ہے امی میں ہی پسند کرتا ہوں آپ پلیز ممانی سے بات کریں نا پلیز۔۔۔۔( اسکے منت بھرے لہجے پر مسکرا کر سحر اسرار نے بھی بات کرنے کی حامی بھرلی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی دھن میں چلی آرہی تھی کہ سامنے سے آتے عفان کو دیکھ نہ سکی آور ایک زبردست قسم کا تصادم ہوگیا۔۔۔۔
ارے بچے دیکھ کر۔۔۔۔( اسکے کراہنے پہ زکیہ بیگم مسکرا کر بولیں جو کہ لاؤنج میں بیٹھی تھیں)
عفان تو مسکراتی نظروں سے اسکا سر پکڑ کے کراہنا دیکھ رہا تھا جو کالے رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں کھڑی کوںٔی پری ہی معلوم ہورہی تھی)
س۔۔۔سوری۔۔۔( جب ہوش آیا تو سامنے موجود ہستی کو دیکھ کر ایک ہی لفظ ہمیشہ والا ادا ہوا)
جس پہ عفان مسکرا دیا۔ اسکو مسکراتا دیکھ جنت زلزلوں کی زد میں آگںٔی.....
یہ انسان مسکرانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔۔۔( وہ صرف سوچ ہی سکی)
جنت زرا ادھر آنا۔۔۔( سامنے سے آتیں خانم نے اسے آواز دے کر پکارا تو وہ جی کہتی آگے بڑھنے لگی تھی کہ عفان کی سرگوشی نے اسے روک دیا)
اٹس ناٹ اوکے جنت آفاق بعد میں حساب چکتا کریں گے ...( اسکے برابر سے گزرتے ہوۓ کہہ کر اوپر کی جانب چل دیا )
اور جنت سن ہوتے کانوں کو لیے خانم کی جانب بڑھ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌼🌼
آج ماںٔرہ کی بارات تھی ۔ ماںٔرہ حرا اور جنت کے ساتھ پارلر گںٔی ہوںٔی تھی جبکہ دل اور باقی سب لڑکیاں کو تیار کرنے کے لیے گھر ہی پر پارلر والی کا انتظام کیا گیا تھا۔ عورتیں سب جلدی جلدی کام نپٹاتیں اپنی تیاریوں میں لگ گںٔی تھیں جبکہ مرد حضرات باہر کا انتظام دیکھتے آخر میں گھر آکر تیار ہوۓ ۔ وجی کی آج سر کی ڈریسنگ چینج ہوںٔی تھی لیکن پھر بھی نیوی بلو سادی شیروانی اور بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ مردانہ وجاہت کا حسین شاہکار معلوم ہورہا تھا۔ ساڑھے نو بجے کے قریب وہ سب ہال کے لیے نکل گںٔے تھے جبکہ ماںٔرہ کو ڈاںٔریکٹ وہیں آنا تھا۔بارات ایک بڑے بینکوںٔٹ میں رکھی گںٔی تھی ہر طرف خوشبو اور رنگوں سے چہکتی لڑکیوں نے رونق لگاںٔی ہوںٔی تھی۔ساڑھے دس کے قریب باراتیوں کے آنے کا شور اٹھا تو سب لڑکیاں مسکراتی ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں سے بھری تھالی لیے انٹرنس پہ کھڑی ہوگئیں۔ بارات کے آتے ہی سب نے ان پہ پھول نچھاور کرکے انکا استقبال کیا۔ باراتیوں کے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد دلہن کے آنے کا شور اٹھا۔اناری اور کاںٔی رنگ کے امتزاج کے لہنگے جس پہ خوبصورت اور باریک بھرا ہوا گولڈن کام ہوا تھا وہ پہنے اور بیوٹیشن کے ماہر ہاتھوں سے تیار ہوۓ ماںٔرہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے آتے دیکھ گرے شیروانی میں زید مسکراتا ہوا کھڑا ہوگیا۔ وجی عفان اور باقی سب لڑکے اسٹیج پہ ہی اسکے پیچھے کھڑے تھے۔ ماںٔرہ کے قریب آنے پہ زید نے اپنا ہاتھ اسکے آگے کیا جسے ماںٔرہ نے کزنز کی ہوٹنگ پر شرماتے ہوۓ تھام لیا ۔ سحر اسرار اپنی بیٹی کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگںٔیں تھیں۔ ساری لڑکیاں مسکراتی انکا یہ پوز اپنے اپنے موباںٔل میں سیو کررہی تھیں۔ نکاح پہلے ہی ہوچکا تھا اسی لیے اب سب اسٹیج پہ باری باری آکر مبارک باد دے رہے تھے ۔ وجی کی بے لگام نگاہیں دلآویز کے حسیں سراپے پہ بار بار بھٹک کر جارہیں تھیں جو سفید رنگ کی کام والی انار کلی فراک می اسکو چارے شانے چت کرگںٔی تھی۔ وہ اب بس یہی چاہتا تھا کہ ہر بدگمانی دور ہوجاۓ ہر تکلیف ختم ہوجاۓ اور وہ دلآویز کے ساتھ ایک پرسکون اور محبت بھری زندگی گزار سکے لیکن وقت کو شاید ابھی اسکی اور آزماںٔشیں مقصود تھیں ۔ ایک گہرا سانس لیتا ابتسام اور ارمغان کے بولانے پہ اسی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتسام سب کا فوٹو شوٹ اپنے کیمرے سے کررہا تھا لیکن اسکا کیمرہ زیادہ صرف جنت کی سمت ہی ہوتا تھا جسے عفان نے شدت سے محسوس کیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی سے کچھ بھی کہے لیکن جنت کے معاملے میں وہ خود کو بے بس محسوس کررہا تھا جو سامنے نیوی بلو کلر کی کام والی فراک میں بیوٹیشن سے تیار ہوںٔی کوںٔی اپسرا ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
کچھ تو سوچنا پڑے گا عفان۔۔۔( خود سے بڑبڑایا )
کچھ دیر میں کھانے کا دور شروع ہوا تو سب اس جانب متوجہ ہوگںٔے۔ وجی دواؤں کے زیرِ اثر بیٹھا تھا ورنہ وقفے وقفے سے سر میں اٹھتی ٹیسیں اسے برداشت نہیں ہورہی تھیں ۔ نگارش خوبصورت گرین رنگ کا کام والا جوڑا پہنے پیار سے اسے ہی دیکھ رہی تھی لیکن پاس جا کے بیٹھ نہیں سکتی تھی کیونکہ دنیا تھی اور دنیا کو تو موقع چاہیے ہوتا ہے ۔ نجمہ حرا کو ساتھ ساتھ لیے لوگوں سے ملوا رہی تھی جسے دلآویز خاموشی سے زبیدہ کے پہلو میں بیٹھی دیکھ رہی تھی۔ اچانک اسکی نظر سامنے بیٹھے وجی پہ گںٔی جو موبائل یوز کرتا ساتھ ساتھ آنکھیں بند کیے اپنے سر کو انگلی کے پوروں سے دبا رہا تھا اسکی اذیت اسکے چہرے سے واضح تھی ۔ لیکن اس تکلیف میں بھی وہ دل لوٹ لینے والی سحر انگیز شخصیت رکھتا تھا ۔ خود پہ نظریں محسوس کرتے وجی نے جب چونک کر سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو وہ اسے ہی سنجیدگی سے دیکھ رہی تھی شاید اسکا دیھان نہیں تھا ورنہ وجی کے دیکھنے پہ فوراً نظر ہٹا لیتی۔ اسے اسی پوزیشن میں بیٹھا دیکھ وجی نے تکلیف میں بھی شرارت سے ایک آنکھ دبا دی جس پہ دل کو اچانک ہوش آیا اور غصے سے اسے گھورتی چہرہ موڑ گںٔی اور اسکی یہ ادا وجی کے دل پہ نقش ہو کے رہ گںٔی۔۔۔۔۔
ذکیہ بیگم سب خواتین کو لیے اسٹیج پر رسموں کے لیے موجود تھیں ۔ بلآخر یہ رات با خیریت اپنے اختتام کو پہنچی تو ماںٔرہ کو دعاؤں میں رخصت کرکے سب نے گھر کی راہ لی ۔ دل جس گاڑی میں بیٹھی تھی اس میں خانم بھی تھیں ساتھ میں لیکن حیرانی تب ہوںٔی جب خانم کے برابر میں آکر وہ لمبا چوڑا مرد بھی بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے کیا ہوا یہاں ۔۔۔؟ (خانم نے مسکرا کر اسکا اپنے کندھے پہ سر رکھنا دیکھ کر بولیں)
سر میں بہت درد ہے مما بس اسی لیے ...( وہ اس وقت ان سے کہتا دلآویز کو بلکل چھوٹا سا بچہ لگا تھا )
دوا لی تھی پھر بھی درد ہوگیا؟۔۔۔( انھوں نے تشویش سے پوچھا)
لی تھی لیکں اب اثر ختم ہورہا ہے تو ٹیسیں اٹھ رہیں ہے ....( سیدھا ہوکر بیٹھتا ہوا بولا اسکی بھاری ہوتی آواز ہی اسکی تکلیف کی نشاندھی کررہی تھی)
بس ابھی گھر چلو تو دودھ کے ساتھ دوا دونگی اپنے بچے کو ۔۔۔( وہ محبت سے اسے پچکارتے ہوئے بولیں وہ وجی ماں کی ممتا بھری محبت پہ مسکرا کر رہ گیا )
گاڑی ابتسام ڈراںٔیو کررہا تھا ساتھ میں اگے ارمغان بیٹھا تھا جبکہ پیچھے دل تھی بیچ میں خانم اور انکے ساتھ وجی بیٹھا تھا ۔ گاڑی چلتے چلتے ہی اچانک دل کو اپنے بالوں میں پیچھے سے کچھ ہلچل محسوس ہوںٔی ڈر کر فوراً مڑی تو وجی کا ہاتھ اپنے بالوں کے پاس دیکھ کر حیران رہ گںٔی لیکن جلد ہی ازلی غصہ غالب آگیا اسکے برعکس وہ خاموشی سے باہر کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا بچے ٹھیک تو ہو۔۔۔۔؟( اسکے چونک کر پلٹنے پہ خانم بولیں)
جی تاںٔی جان میں ٹھیک ہوں ...( مسکرا کر کہتی سیدھا ہوکر بیٹھ گںٔی)
لیکن پانچ منٹ بعد دوبارہ ایسا لگا کہ اسکے بالوں کو کوںٔی اپنے ہاتھ پہ لپیٹتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے۔ دل نے ضبط سے آنکھیں بند کردیں پھر لب بھینچتی اپنا ہاتھ نامحسوس سے انداز میں اپنے بالوں کی جانب لے کر گںٔی اور وجی کے حرکت کرتے ہاتھ کو پکڑ کو ہٹانا چاہا لیکں وہ بھی ڈھیٹ ثابت ہوا کہ ہٹنا تو دود وہ ہلا تک نہیں ۔ مگر جب برداشت نہ ہوا تو اپنے ناخن اسکے ہاتھ میں گاڑھ دںٔیے لیکن مقابل پہ زرا فرق نہ پڑا وہ اسی طرح اسکے بال مٹھی میں لیے بیٹھا رہا ۔ بلآخر یہ کٹھن سفر بھی اختتام کو پہنچا تو وجی نے بھی اسکی جان بخشی کی ۔ گاڑی سے باہر نکل کر سب اندر کی جانب جارہے تھے ۔ دل نے ایک غصے سے بھرپور نگاہ وجی کے خوبصورت چہرے کا جانب دیکھا جو اسے ہی مسکراتی نظروں سے دیکھا رہا تھا اچانک اسنے اپنا ہاتھ جس پہ دلآویز نے اپنے ناخن گاڑھ دںٔیے تھے اسکے نشان پہ اپنے تشنہ لب رکھ دںٔیے۔ یہ دیکھ دلآویز کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گںٔی اور لال ہوتے چہرے سے نظریں چراتی اندر کی جانب بڑھ گںٔی۔ اسکا گلنار چہرہ وجی کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکے ہونے کی وجہ سے سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔ خانم نے سب سے پہلے دودھ گرم کرکے وجی کے کمرے میں دیا تاکہ وہ دوا لے سکے پھر آرام کی غرض سے کمرے کی جانب مڑ گںٔیں۔۔۔۔۔۔۔
وجی دوا لے کر سو چکا تھا جبکہ عفان بالکونی میں کھڑا سیگریٹ پھونک رہا تھا لیکن اسکی سوچوں کا محور صرف اور صرف وہی تھی۔ جو گاڑی میں بھی اس سے ایسے نظریں چرا رہی تھیں جیسے اس سے ڈر رہی ہو ۔ وہ جانتا تھا کہ اسکی ماں زبیدہ کی بیٹی سے کبھی اسکی شادی نہیں ہونے دیگی لیکن اسے چھوڑ دینا بھی اسکے بس میں نہیں تھا اوپر سے ابتسام کی پسندیدگی والی نگاہیں جنت پہ اس سے برداشت نہیں ہوتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷
اگلے دن کا سورج بھی افراتفری والا دن ہی لایا تھا آج ولیمہ تھا ۔ ناشتے لے جانے کی رسمیں انکے ہاں نہیں تھیں ۔ اسی لیے سب اپنے اپنے کام ہی ختم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ وجی آج کچھ بہتر تھا اسی لیے سب کے ساتھ بھاگ دوڑ میں لگا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دس بجے سب میرج ہال میں ولیمے کے لیے نکلے تھے۔ سفید رنگ کی میکسی پہ ہم رنگ کام خوبصورت سوفٹ سا میک اپ اور نازک سی جیولری پہنے ماںٔرہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے خوش دیکھ سب مطمئن ہوگئے تھے۔ لڑکے سارے آج بلیک بینٹ کوٹ میں ملبوس تھے جبکہ لڑکیاں اپنے اپنے رنگوں کے جوڑوں میں ہر طرف روشنیاں بکھیر رہی تھی۔۔۔۔۔
دلآویز خانم کے دںیٔے ہوۓ فان رنگ کے کام والے جوڑے میں بالوں میں ساںٔڈ کا جوڑا بناۓ بہت معصوم اور حسین لگ رہی تھی ۔ وہ کھڑی کسی لڑکی سے بات کررہی تھی کہ پیچھے سے بھاری جانی پہچانی مردانہ آواز پہ پلٹی تو وہیں ساکت ہوگںٔی۔۔۔۔
کیسی ہو میری آتش فشاں۔۔؟( ولید اپنی تمام تر وجاہت کے ساتھ پینٹ کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے اسکے سر پہ کھڑا تھا)
ولید تم؟( دل کو سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے)
ہاں میں ۔۔۔کیوں اچھا نہیں لگا سرپراںٔز ؟( اسکے سراپے کا ایک نظر میں جاںٔزہ لیتا ہوا بولا)
دلآویز نے اسکی نظریں خود پر محسوس کیں تو ناگوار تاثرات کے ساتھ اسے دیکھا....
چلو میں ہی بتا دیتا ہوں۔۔اصل میں میرے ڈیڈ اور اسرار انکل بزنس فرینڈز ہیں اسی لیے میں یہاں آپ کے سامنے۔۔۔۔( مسکرا کر بتاتا دلآویز کو زہر لگا)
وجی جو اسے پہلے ہی دیکھ چکا تھا اب دلآویز کے پاس کھڑا دیکھ تن بدن میں آگ لگ گئی۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا دلآویز کے برابر میں آ کھڑا ہوا۔۔۔
ویلکم مسٹر ولید رانا۔۔۔۔( بلیک پینٹ کوٹ میں مسکرا کر بولا)
اسکی آواز پر دلآویز چونک گئی لیکن اپنے برابر میں اس شہزادے کو دیکھ کچھ حد تک مطمئن ہوگںٔی۔۔۔۔۔۔
تھینک یو مسٹر وجی کمال۔۔۔۔( ولید بھی مسکراتا ہوا بولا)
ویسے آپ کے سر پہ کیا ہوا کہیں مس دلآویز نے کچھ اٹھاکر تو نہیں دے مارا۔۔۔؟( ولید نے مزاق اڑانے والے لہجے میں کہا)
انتہائی بھونڈا مذاق تھا آپ کا ولید رانا۔۔۔ہم دونوں محبت میں ایک دوسرے کو پھولوں کے علاوہ کچھ مار ہی نہیں سکتے ہے نا دل۔۔۔۔( ولید کو آگ لگا کر دل سے تصدیق چاہی جو اسکی بات پر ضبط سے کھڑی رہی پھر مسکرا کر زبردستی اثبات میں سر ہلادیا).....
ایکسکیوز می۔۔۔۔(اسکی بات پہ وجی سب کا لحاظ کرتا مسکرا کر معذرت کرتا چلا گیا)
اسکے جاتے ہی دلآویز نے وجی کا بھاری ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹادیا۔۔۔۔
بی ان یور لمٹس۔۔۔( غصے سے کہتی واک آؤٹ کرگںٔی)
پتا نہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔۔۔۔(اسکی پشت دیکھتا بے بسی سے سوچتا لڑکوں کی جانب چل دیا)
وہ ہاتھوں میں جوس کا گلاس پکڑے اپنی ہی دھن میں آرہی تھی کہ سامنے سے آتے ابتسام کے ساتھ تصادم میں جوس اب گلاس سے نکل کر اسکے کپڑوں پہ تھا۔۔۔۔۔۔
اووو ماںٔی گاڈ۔۔۔۔( اپنی سفید شرٹ کو پیلا ہوتا دیکھ اسکے منہ سے بروقت یہی نکل سکا).
سوری ابتسام بھاںٔی میں نے آپ کو دیکھا نہیں ( جنت اسکی شرٹ دیکھ پریشان ہوتی ہوںٔی بولی)
کیا کردیا جنت بچے کے کپڑے خراب کردںٔیے...( زبیدہ نے بھی اسکی حرکت دیکھ لی تھی).
اٹس اوکے ممانی جان غلطی سے ہوگیا اس سے ابھی صاف ہوجاۓ گا۔۔۔۔۔( ابتسام مسکراتا ہوا بولا)
اب منہ کیا دیکھ رہی ہس جاؤ بچے کے شرٹ صاف کرواؤ داغ رہ جائے گا ورنہ۔۔۔۔( اسے چپ کھڑے دیکھ ایک بار پھر زبیدہ بولیں تو وہ جی کہتی اسکے پیچھے ہولی)۔۔۔۔۔۔۔
لاںٔیں مجھے دکھاںٔیں ( اسکے شرٹ پہ پانی لگاتی پاس ہی کھڑے تھی)
کیونکہ ابتسام یہ کہہ کر کہ" مجھے سے نہیں ہورہا" اپنا پلا جھاڑ چکا تھا۔۔۔۔۔۔
ابتسام بہت قریب سے اور فرصت سے اسکے نقوش دیکھ رہا تھا۔ لاںٔٹ پرپل رنگ کے کام والے جوڑے میں بیوٹیشن کے ہاتھوں سے تیار بالوں کو کرل کر کے کچھ پیچھے اور کچھ آگے چھوڑے وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔
ہوگیا ۔۔۔( اسکی شرٹ پہ پانی لگانے کے بعد اوپر دیکھا تو وہ ٹکٹکی باندھے ہوئے اسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا)
جنت فوراً گھبرا کر پیچھے ہوںٔی۔ اسکے گھبرانے پہ وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔
ڈر رہی ہو ۔۔۔۔؟( اسے جاتا دیکھ ایک سوال پوچھا مقصد صرف اسے روکنا تھا)
نہیں.۔۔۔( یہ کہتی باہر کی جانب چل دی )
کیا ہو تم جنت آفاق۔۔۔۔؟( شیشے میں خود سے مسکرا کر مخاطب ہوا)
عفان جو اندر واشروم کی طرف ہی آرہا تھا جنت کو وہاں سے نکلتا دیکھ حیران ہوا لیکن اندر جا کر ابتسام کو کھڑا دیکھ دماغ کی رگیں تن گںٔیں۔
تم یہاں۔۔۔؟( ممکن حد تک لہجا نارمل رکھا)
جوس گرگیا تھا شرٹ پہ وہی صاف کرنے آیا تھا۔۔۔۔۔۔( مسکرا کر کہتا وہ بھی باہر چلا گیا)
جنت ۔۔۔۔۔۔( اسکے جاتے ہی ضبط سے بڑبڑا کر رہ گیا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری تقریب میں نگارش وجی کو دلآویز کی طرف متوجہ دیکھتی رہی لیکن چاہ کے بھی کچھ نہ کرسکی ۔ وجی کو اب نگارش کی فکر تھی کہ جب وہ دلآویز کو چھوڑنے سے انکار کرے گا تو کیسا ری ایکٹ کرےگی لیکن کچھ بھی ہوجاۓ دلآویز کو اب اس سے کوںٔی دور نہیں کرسکتا یہ وہ سوچ چکا تھا۔ تقریب کا اختتام رات ڈیڈھ بجے ہوا تووہ سب واپسی کے لیے روانہ ہوگئے ۔ دلآویز آج خانم کے ساتھ نہیں بیٹھی تھی کیونکہ وجی کی کل والی حرکت وہ نہیں بھولی تھی۔ سب تھکے ہارے اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے لیکن ایک شخص تھا جسکی بیچینی کم نہیں ہورہی تھی جنت ابتسام کے ساتھ اسکے منع کرنے کے باوجود بھی کیوں تھی یہی بات اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
چھوڑوں گا تو میں بھی نہیں تمھیں جنت ۔۔۔( ضبط سے سوچتا لاںٔٹ اوف کرکے اپنی جگہ پر لیٹ گیا)۔۔۔۔۔۔
آج صبح انکی واپسی تھی لیکن زکیہ بیگم کے بےحد اصرار پر آج رات ماںٔرہ اور زید کی ہونے والی دعوت کے لیے انھیں رکنا پڑا ۔ ناشتے کے بعد سب خواتین لاونج میں بیٹھی تھیں جبکی لڑکیاں رات کی دعوت میں اپنی تیاری دیکھ رہیں تھیں کہ سحر اسرار نے موقع اچھا دیکھ کر بات چھیڑ دی۔۔۔۔۔
زبیدہ بھابھی مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔۔۔( انھوں نے بات کا آغاز کیا تو سب ہی انکی جانب متوجہ ہوئے ۔ )
ذکیہ بیگم جانتی تھیں کہ کیا بات ہے کیونکہ سحر نے ان سے اسی دن بات کرکے انکے پوتے کی فرماںٔش سنادی تھی جسے سن کر وہ کافی خوش تھیں۔۔۔۔
ہاں سحر بلاجھجک کہو۔۔۔( زبیدہ انھیں جھجھکتا دیکھ بولیں)
زبیدہ بھابھی میں آپ سے کچھ مانگنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔( انکی تہمید باندھنے پر سب کا تجسس بڑھ گیا)
مجھ سے ۔۔۔ اگر میں تمھیں کچھ دے سکی تو کبھی منع نہیں کروں گی کہو۔۔۔( زبیدہ پہلے تو حیران ہوںٔیں لیکن پھر مسکرا کر بولیں)......
بات دراصل یہ ہے کہ ابتسام جنت سے شادی کا خواہشمند ہے۔۔۔۔( بلآخر انکی بات پر سب کے منہ کھل گںٔے)
اور میں اور امی جنت کو خود ہی اس گھر کی بہو بنانا چاہتے ہیں ۔ آج میں سوالی بن کر تمھارے پاس آںٔی ہوں جنت میرے عزیز بھاںٔی کی نشانی ہے اسے میں غیروں کے حوالے نہیں کرنا چاہتی بلکہ اپنے ابتسام کی دلہن بنانا چاہتی ہوں ۔ آپ ابتسام کو غلط مت سمجھیے گا اسنے سب سے پہلے اس خواہش کا ذکر مجھ سے ہی کیا ہے تاکہ میں عزت سے اسکا ہاتھ مانگ سکوں۔۔۔۔۔( آنھیں خاموش دیکھ سحر نے پھر بولنا شروع کیا)
ارے واہ سحر یہ تو بڑی اچھی خبر ہے۔۔۔( یہ بولنے والی نجمہ تھیں جنھیں کچھ دنوں سے اپنے بیٹے کا جھکاؤ جنت کی سمت لگ رہا تھا)
بات تمھاری بلکل ٹھیک ہے سحر لیکن میں خود سے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرسکتی ہوں۔ آج تمھارے بھائی ہوتے تو بات اور تھی لیکن جنت کے سارے فیصلے انکے بعد سب نے مل کر کیے ہیں ۔ ابتسام گھر کا بچہ ہے اور اس میں کوںٔی براںٔی نہیں مجھے دل سے پسند ہے وہ لیکن فیصلہ تمھارے بڑے بھاںٔیوں کا ہوگا کیونکہ آفاق کے بعد وہ ہی جنت کے سربراہ ہیں۔۔۔۔۔( زبیدہ نے طریقے سے بات کرکے ان سے مہلت چاہی)
کیوں نہیں بچے تم سب سے مشورہ کرو اور پھر جواب دینا ہمیں جنت اپنی بچیوں جیسے عزیز ہے۔ ہم نے آج تم سے بات کہ ہے انشاء اللّٰہ کچھ دنوں میں ہم سب آںٔیں گے ( اس بار جواب ذکیہ بیگم کہ جانب سے آیا)
جی بھابھی امی بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں میں خود آؤں گی اپنے بھاںٔیوں سے بات کرنے۔۔۔۔۔( سحر اور زکیہ بیگم کے بات پر سب بہت خوش ہوئے)
زبیدہ بھی کچھ حد تک جنت کی طرف سے پرسکون ہوگںٔی تھی کہ اسکی پھپی اتنی چاہ اور محبت سے اسے مانگ رہیں تھی لیکن فکر تھی تو بس دلآویز کی ناجانے اسکی تقدیر میں کیا لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
خانم بھی زبیدہ کی کیفیت سمجھ رہیں تھیں لیکن وہ بھی بے بس تھیں کیا کرتیں وجی انکی لاڈلی اولاد تھا دس سال اسکی جداںٔی کے بعد ان میں اور ہمت نہیں تھی کہ کچھ سہہ سکتیں ۔ دلآویز سے انھیں دلی ہمدردی تھی وہ اسے عجوہ کی طرح عزیز تھی لیکن اولاد کی باری میں آکر ہر ماں بےبس اور خود غرض ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے بعد سب رات کہ تیاری کے لیے کچن کی جانب چل دںٔیے جبکہ عجوہ زکیہ بیگم کے ساتھ ہی بیٹھ گںٔی تھی ۔ جنت بھی اوپر سے آتی سب کے منع کرنے کے باوجود بھی ساتھ کام میں لگ گںٔی۔ جبکہ دلآویز کو کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی اسی لیے کمرے میں ٹی وی کے اگے بیٹھی چینل سرچنگ میں مصروف ہوگئی۔۔۔۔۔
رات سات بجے کے قریب ماںٔرہ اور زید آگںٔے تو ساری کی ساری لڑکیاں جھونڈ بنا کر ماںٔرہ کو گھیر کر بیٹھ گئیں جبکی مرد حضرات سب بیٹھک میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ماںٔرہ کو چند ہی دنوں میں زید کے ساتھ دبںٔی چلے جانا تھا اسکے بعد سحر اور اسرار صاحب بھی واپس کراچی آجاتے۔ آٹھ بجے کھانے کی میز پر سب آبیٹھے۔ کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا ۔ اسکے بعد سب ینگ پارٹی ماںٔرہ اور زید کو لیے باہر لان میں گدیاں رکھ کر بیٹھ گںٔی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو زید بھاںٔی اپکی نںٔی نںٔی شادی ہوںٔی ہے اسی خوشی میں ماںٔرہ کے لیے ایک گانا ہوجاۓ۔۔۔۔( یہ آواز لڑکیوں میں سے حرا کی تھی )
نگارش گول لگی گدیوں پہ وجی کے برابر میں بیٹھی تھی جسے سب نے محسوس کیا تھا لیکن کچھ بولے نہیں کیونکہ وجی نے کسی کو بولنے لاںٔق چھوڑا ہی نہیں تھا۔ جبکہ دلآویز جنت کے ساتھ ڈارک مہرون رنگ کے ہلکے سے کام والے جوڑے میں بالوں کو پونی میں قید کیے نیچرل سے میک اپ کے ساتھ خاموش بیٹھی تھی اور وجی اسکے بلکل سامنے بیٹھا اپنی بے لگام نظروں کو لگام ڈالنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔۔۔۔۔۔
ارے بھںٔی ماںٔرہ کی لیے تعریف کسی گانے میں کہاں ممکن ہے۔۔۔۔( زید کے مسکرا کر کہنے پہ سب لڑکیوں نے جہاں ہوٹنگ کی وہیں ماںٔرہ بری طرح شرما گںٔ)
چلیں نا پھر بھی کوںٔی دو بول کسی گانے کے۔۔۔( اب کی بار ارمغان اندر سے ابتسام کا گٹار اٹھا لے آیا جسے وجی کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا کیونکہ وہ گٹار بہت اچھا بجا لیتا تھا).....
اچھا ٹھیک ہے پھر۔۔۔۔( بلآخر زید نے ہار مان ہی لی)
"بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنم۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنم ۔۔۔۔۔۔
زید نے جب یہ خوبصورت گانا وجی کے بجاتے ہوۓ گٹار کی دھن پہ ماںٔرہ کے لیے گانا شروع کیا تو سارے کزنز نے ہوٹنگ کرکے خوب داد دی۔۔۔۔
قسم چاہے لے لو ۔۔۔قسم چاہے لےلو۔۔۔۔
خدا کی قسمممممم۔۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنم۔۔۔۔
بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنم ۔۔۔۔۔
ساگر کی باہوں میں موجیں ہے جتنی۔۔۔
ساگر کی باہوں میں موجیں ہیں جتنی ۔۔۔
ہم کو بھی تم سے محبت ہے اتنی۔۔۔۔۔۔
کہ یہ بے قراری ۔۔۔۔کہ یہ بے قراری
نہ اب ہوگی کمممممم۔۔۔۔۔۔۔
اس گانے کے خوبصورت بول اور زید کی خوبصورت آواز میں سب کھو سے گںٔے تھے۔ ماںٔرہ شرماںٔی شرماںٔی سی سب کے درمیان بیٹھی تھی۔ عفان کی نظر اچانک ابتسام پہ گںٔی جو مسکراتی نظروں سے دلآویز کے برابر میں بیٹھی مسکراتی ہوںٔی جنت کو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنم۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنم۔۔۔۔۔
قسم چاہے لے لو۔۔۔قسم چاہے لے لو ۔۔۔۔
خدا کی قسممممم۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنم۔۔۔۔۔
بہت پیار کرتے ہیں تم کو سنمممم۔۔۔۔۔
زبردست زید بھاںٔی بہت خوب۔۔۔۔۔( زید کے گانا ختم کرتے ہی سب اس ماحول کے سحر سے باہر آۓ تو محفل میں ارمغان کی آواز گونجی۔)
زید بھی مسکراتا سب سے تعریف حق سنجھ کر وصول رہا تھا ۔ دلآویز بھی انکی محبت پہ مسکرا رہی تھی اور ماںٔرہ کے لیے بہت خوش بھی تھی۔۔۔۔۔
وجی کی نظر اسی پہ تھی جو اس سے بے نیاز بنی بیٹھی تھی۔۔۔۔
ویسے وجی یہ گانے کی لاںٔنز ہم دونوں پہ بلکل سوٹ کرتی ہیں نا۔۔۔۔؟( نگارش نے برابر میں بیٹھے وجی سے سرگوشی میں کہا تو وہ محض مسکرا کر رہ گیا )
لیکن ان دونوں کی یہ سرگوشی دلآویز کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی جبکہ دل کچھ اور بدگمان ہوا۔۔۔۔
چلیں وجی بھاںٔی اب آپکی باری ہے کوںٔی اچھا سا سونگ گٹار کی دھن پہ گاںٔیں ۔۔۔۔( اب کے محفل میں جنت کی آواز پہ وجی مسکرا کر رہ گیا)
عفان نے چونک کر اس پٹاخا کو دیکھا جسکی جان صرف اسی کے سامنے نکلتی تھی باقی سب کے ساتھ باتیں بھی کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
پلیز وجی سنا دو نا....( اس بار نگارش کی آواز پہ دلآویز نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو محبت سے اسے دیکھ رہی تھی۔)
وجی نے بھی اسکی جانب دیکھا تو وہ نظریں پھیر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آے کاش ۔۔۔کاش یوں ہوتا۔۔۔۔
ہر شام ساتھ تو ہوتا ۔۔۔۔
چپ چاپ دل نا یوں روتاااا۔۔۔۔۔
ہر شام ساتھ تو ہوتاااا۔۔۔۔۔
گزارا ہوں تیرے بن گزارا اب مشکل ہے لگتا۔۔۔۔
نظارہ ہوں تیرا ہی نظارہ اب ہر دن ہے لگتا۔۔۔۔
( وجی کی سحر انگیز آواز اور گٹار کی بجتی مدھوش کردینے والی دھن پہ سب ہی حیران رہ گںٔے تو ادھر ہی دلآویز نے بے چینی سے اپنا پہلو بدلا جسے دیکھ وجی مسکراتا ہوا مزید گانے لگا۔۔۔۔)
حالِ دل تجھ کو سناتا دل اگر یہ بول پاتا۔۔۔۔
باخدا تجھ کو ہے چاہتا جاں۔۔۔۔۔
تیرے سنگ جو پل بتاتا وقت سے میں وہ مانگ لاتا ۔۔۔۔۔یاد کرکے مسکراتا ہاں۔۔۔۔۔۔
وہووووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اسنے ضبط سے ایک نظر اس پہ ڈالی جو آنکھوں میں محبت کا ایک جہاں لیے اسے دیکھ رہا تھا۔ دلآویز نے لب بھینچے اسکی بولتی آنکھوں سے نظریں ہٹاںٔیں۔ سارے اسکی مدھوش کردینے والی خوبصورت آواز میں کھو سے گںٔے تھے۔ نگارش تو مسکراتی شرماںٔی سی اسکے پہلو میں بیٹھی تھی۔۔۔۔۔)
گانے کے ختم ہوتے ہی سب کی تالیوں اور داد پہ وجی سر کو ہلکا سا خم دیتا مسکرا دیا۔۔۔۔۔
اسی طرح الگ الگ آوازوں میں یہ محفل رات کو بارہ بجے تک لگی رہی اسکے بعد ماںٔرہ اور زید سب سے ملتے گھر کی جانب چل دںٔیے اور باقی سب بھی کمروں کی جانب بڑھ گںٔے کیونکہ صبح انکی کراچی واپسی تھی۔۔۔۔۔۔🌼🌼
Assalamualaikum reader's..... I hope k ap sb kheriyat se hongy....ma bht khush hn k finally mujhy mere is Novel py response milna shoro hogya h.....ap sb sy guzarish h k please read kr k vote and comments kr k zaror btayn k kesa lga.... inshaa Allah m sb k comments answer krti hn..... Allah bless u reader's....mujhy insta or Facebook py follow krna mt bhooliye ga.... keep supporting me and love me......
Mehrmah shah ☺️

YOU ARE READING
FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️
Fantasyیہ کہانی ایک جواںٔن فیملی میں دو سوتیلی بہنوں کی ہے اور ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دنیا کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے دھتکاری ہوئی ہے۔ یہ کہانی کسی کے صبر کی ہے کسی کے ہجر کی تو کسی کے فراق کی ہے ۔۔۔۔۔۔💖💖💖