دلآویز۔۔۔۔۔۔( یونی کے گیٹ سے اینٹر ہوںٔی تو ولید کی اونچی آواز پر اسنے ناگواری سے مڑ کر اسے دیکھا)
کہاں چلی ہو میری آتش فشاں۔۔؟( اپنے گروپ میں سے نکل کر اسکے آگے اکر کھڑا ہوگیا )
تھپڑ سے بھی تمھیں سکون نہیں آیا ولید رانا جو بے غیرتوں کی طرح دندناتے ہوۓ پھر آگںٔے ہو ( بنا ڈرے چبا چبا کر اسی طرح زور سے بولی)
کہ ولید ضبط کے گھونٹ پی کر رہ گیا لیکن پھر فوراً مسکراتے ہوئے شیو کو انگلی سے مسل کر تھوڑا اسکی جانب جھکا کہ دل بے اختیار پیچھے کو ہوںٔی)
سچ کہوں تو تمھاری انگلیوں کا لمس اب بھی اپنے گال پر محسوس ہوتا ہے تو دل باغ باغ ہوجاتا ہے .......
ولید۔۔۔۔( اسکی اس قدر ںے باکی پر دلآویز کا خون ہی کھول گیا)
جی جانِ ولید ۔۔۔۔۔( وہ بھی بنا اسکے غصے کا اثر لیے بولا )
یو نو واٹ ولید رانا تمھاری نہ خود کی کوںٔی عزت ہے نہ ہی دوسروں کی سمجھتے ہو تم بھونکنے والے گلی کے ان کتوں جیسے ہو جنھیں ہمہ وقت ہر کوںٔی آتے جاتے پتھر مار کر جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی بھونکنا نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
دلآویز۔۔۔۔( اس بار اسکی بات پر ولید کی دھاڑ گونجی تو اسکے گروپ کی دبی دبی ہنسی کو وہیں بریک لگ گیا )
آواز آہستہ رکھو ولید رانا چیخنا مجھے بھی آتا ہے ۔۔۔۔( دلآویز نے بنا لحاظ کیے کہا تو اسی وقت ایک اسٹوڈنٹ نے آکر انھیں روک دیا)
آپ دونوں کو ڈین آفس میں بلا رہے ہیں ۔۔۔( اسکی بات پر دل نے ضبط سے گہرا سانس خارج کیا اور کھا جانے والی نظروں سے ولید کو دیکھا جو اسے ہی بری طرح گھور رہا تھا۔).
چلو ۔۔۔اس اسٹوڈنٹ کو آگے چلنے کا اشارہ کرتی خود بھی پیچھے ہی چل دی تو ولید بھی غصے سے سر جھٹکتا اسکے پیچھے ہولیا۔۔۔۔۔۔۔۔
مس دلآویز آفاق اور مسٹر ولید رانا آپ دونوں کو پچھلے کچھ دنوں سے یونیورسٹی کا نظم و ضبط خراب کرتے ہوۓ دیکھا جا چکا ہے کیا میں اسکی وجہ جان سکتا ہوں ۔۔۔۔۔؟
اس وقت دونوں ڈین کے آفس میں سر جھکائے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔
جی مس دلآویز آپ بتائیے۔۔۔( ڈین نے اپنا چشمہ اتار کر کہا تو دل نے بھی سب کہہ سنایا )
جی مسٹر ولید رانا آپ کیا کہنا چاہیں گے اس بارے میں۔۔۔؟..( ڈین کی توپوں کا رخ اب ولید کی جانب تھا)
سر آپ تو جانتے ہیں میرے پاس اتنا پیسا اور پاور ہونے کی وجہ سے آۓ دن لڑکیاں آگے پیچھے پھرتی ہیں اسنے بھی مجھے خود اپنے ساتھ ریلیشن کے لیے کہا تھا اور جب میں شادی کی پیشکش کی تو اب یہ ڈرامہ کر رہی ہے یونیورسٹی میں تاکہ میں پیچھے ہٹ جاؤں۔۔۔( ولید کی بات پر دلآویز نے اسے حیرت سے دیکھا اسکے بہتان لگانے پر تو اسکا دماغ گھوم گیا)
ولید رانا اپنی اوقات میں رہو۔۔۔( بنا ڈین کا لحاظ کیے دھاڑ کر بولی)
مس دلآویز آپ اس وقت میرے آفس میں کھڑی ہیں ( ڈین نے اسے احساس دلایا )
تو سر آپ اسے سمجھاںٔیے کہ جھوٹ مت بولے ( دل نے اسی طرح دھاڑ کر بولا)
دیکھںٔے سر میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔( ولید اب بھی اپنی بات پر قاںٔم تھا)
ٹھیک ہے مس دلآویز اور مسٹر ولید آپ اپنے گھر سے ابھی اور اسی وقت کسی کو بلواںٔیے ہم انھیں سے بات کریں گے ادر واںٔز آپ دونوں کو نیکسٹ سمسٹر میں بیٹھنے نہیں دیا جاۓ گا ( ڈین اپنا فیصلہ سنا چکا تھا جبکہ دلآویز کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا)
لیکن سر۔۔۔۔
نو ایکسکیوز مس دلآویز۔۔۔( ڈین نے انھیں وہیں روک دیا )
جبکہ ولید پرسکون سا کھڑا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکا باپ اس یونیورسٹی کو بھیک دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔۔
اور دلآویز مجبور ہوتی سوچنے لگی کہ کسے بلاۓ ۔۔۔۔۔ عفان بھاںٔی کی آج امپورٹڈ میٹنگ ہے ، ارمغان خود یونی میں ہوگا ۔۔۔ہاں کمال تایا کو فون کرتی ہوں وہ آجاںٔیں گے ( یہی سوچتی انھیں کال ملاںٔی جو دو رنگز کے بعد اٹھا لی گںٔی)
ہیلو تایا جان ۔۔۔میں دلآویز ۔۔۔وہ کیا آپ پلیز میری یونیورسٹی آجاںٔیں گے یہاں ایک پروبلم ہوگںٔی ہے ( دلآویز پریشان سی انھیں بول رہی تھی )
وہ سب فارنر ڈیلیگیشن کے ساتھ اسوقت ایک میٹنگ میں مصروف تھے اور میٹنگ چھوڑ کر آنا ممکن نہیں تھا۔۔۔( یہ سنتے ہی اسے سہی معنوں میں پریشانی نے آگھیرا)
جبکہ ولید ریلکس سا اپنے باپ کو بلا کر بیٹھا تھا۔۔۔۔۔
لیکن دلآویز کی پریشانی محسوس کرکے انھوں نے اسے کہا کہ وہ کچھ کرتے ہیں پریشان نہ ہو اور کال کٹ کردی۔۔۔۔...( انکی بات پر دلآویز کچھ حد تک ریلیکس ہوکر بیٹھ گںٔی)
ٹھیک پندرہ منٹ بعد ولید کے والد رانا صاحب وہاں موجود تھے۔ انھیں دیکھ دلآویز کو اور ٹینشن ہونے لگی کیونکہ ابھی تک اسکے گھر سے کوںٔی رسپونس نہیں آیا تھا۔۔۔۔
مس دلآویز اپکے گھر سے ابھی تک کوںٔی کیوں نہیں آیا۔۔؟ ( ڈین بیس منٹ کے انتظار کے بعد بولے)
سر وہ۔۔۔۔
اسی وقت انکا دروازہ ناک ہوا اور اجازت ملنے پر اندر آتے شخص کو دیکھ دلآویز زلزلوں کی زد میں آگںٔی۔۔۔۔
السلام علیکم۔۔وجی کمال ...( اپنی بھرپور چھا جانے والی شخصیت کے ساتھ ڈین کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوۓ وہ اسکے سر پر نازل تھا)
مس دلآویز کے۔۔۔؟( ڈین نے مصافحہ کرتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑی تو وجی نے ایک نظر دلآویز کی طرف دیکھا جو سانس روکے کھڑی تھی کہ وہ اب کیا بولے گا )
مس دلآویز کا ہسبنڈ وجی کمال ۔۔۔۔۔۔( اسکے تعارف پر دلآویز نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں وہیں ولید اور ڈین بھی بے یقینی سے اس خوبرو جوان مرد کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔
آںٔیے بیٹھیے۔۔۔مس دلآویز نے کبھی آپ کے بارے میں بتایا نہیں..؟( ڈین اب سامنے بٹھا کر اس سے سوال کررہے تھے)
جی اصل میں ابھی ہماری رخصتی نہیں ہوںٔی ہے انشاء اللّٰہ اسی مہینے ہے ( وجی مسکرایا تو اسکے گڑھوں نے دل کا خون کھولا دیا)
اووو اچھا ۔۔مجھے اچھا تو نہیں لگ رہا آپکی واںٔف کے بارے میں یہ سب کہتے ہوۓ لیکن انھوں نے کچھ دنوں سے یونیورسٹی کا نظم و ضبط خراب کرکے رکھا ہوا ہے ۔۔۔۔
اور رانا صاحب آپکے صاحب زادے بھی اسی کاروائی میں ملوث ہیں۔۔۔۔۔( ڈین کی بات پر وجی نے اپنے برابر میں بیٹھی اس آتش فشاں کو دیکھا جو ضبط کیے ہوۓتھی۔)
اور پھر ڈین نے انھیں دلآویز اور ولید دونوں کی کی گںٔی بات انکے سربراہ کے گوشے گزار کردی۔جسے سن کر وجی کا خون کھول اٹھا۔۔۔۔۔۔
یہ کیا بکواس ہے میری واںٔف یہاں پڑھنے آتی ہے لحاظہ اس قسم کے فضول لوگوں اور باتوں کو تعلیم گاہ سے دور رکھیں ( وجی نے بنا لگی پٹی کے ڈین سمیت رانا صاحب کو بھی سنا دی)
آےےےے۔۔۔( ولید فورا دھاڑ اٹھا جس پر رانا صاحب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا)
وجی کمال صاحب آپ اپنی واںٔف پر بھی توجہ دیں کیونکہ غلطی دونوں کی ہے اسی لیے بات کو بڑھانے کے بجاۓ ایکسکیوز کر لیں ( رانا صاحب کی بات پر تو وجی ہتھے سے اکھڑ گیا)
اگر یہاں کسی نے بھی میری عزت پر بات کی تو اچھا نہیں ہوگا ( انتہائی ضبط سے ولید کی جانب دیکھ کر بولا)
دل نے اسکی بات پر نفرت سے اسے دیکھا.....
دیکھںٔے وج۔۔۔۔۔
بس آپ دونوں پلیز یہاں معاملہ سلجھانے آںٔیں ہیں یا بڑھانے کے لیے اور مسٹر رانا آپ اپنے بیٹے کے سابقہ ریکارڈ سے بھی واقف ہیں اسی لیے پلیز اب بات ختم کریں۔۔( ڈین نے جب معاملہ ہاتھ میں سے نکلتا دیکھا تو فوراً میدان میں کود گیا)
اوکے مسٹر وجی کمال میں اپنے بیٹے کی طرف سے ایکسکیوز کرتا ہوں ۔۔۔۔۔(اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے انھوں نے اپنا ہاتھ آگے کیا جو وجی نے احسان کرتے ہوئے تھام لیا)
چلو دلآویز۔۔۔۔اسے اپنے ساتھ باہر بلاتا خود چلا گیا۔۔۔۔۔۔
وجی کمال۔۔۔۔( وجی دلآویز کے ساتھ واپس جارہا تھا کہ ولید کے پکارنے پر رک گیا)
رانا صاحب جاچکے تھے۔۔۔
اب کیا مسلۂ ہے ولید رانا ؟( وجی اسکے پاس رکتا اپنے گلاسز لگا کر بولا)
بہت خراب جگہ پنگا لے رہے ہو بچ کے رہنا اور بچا کر بھی رکھنا...( ولید کی ذو معنی بات پر وجی مسکرایا۔)
دل بھی ہونٹ بھینچے ہوئے کھڑی تھی۔ ورنہ غصہ اس قدر تھا کہ وجی کا نقشہ بگاڑ دیتی۔۔۔۔
بچے ہو ولید رانا تم بھی بچ کر رہنا اور اپنی ان نظروں کو بھی بچا کر رکھنا میری بیوی پر اگر گندی نظر ڈالی بھی تو یہ آنکھیں اکھاڑ دونگا...( اسکے کندھے پر سے دھول جھاڑنے کے انداز میں بولا)
تو بیوی لفظ پر دلآویز سے اور برداشت نہ ہوا تو ان پر مٹی ڈالتی آگے بڑھ گئی...
وجی بھی اسماںٔل پاس کرتا اسکے پیچھے چل دیا۔۔۔۔۔۔اور ولید رانا غصے سے کھول کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷
چلتے چلتے دل گیٹ کے پاس ہی رک گئی تو وجی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
ارمغان کے ساتھ آؤنگی میں۔۔۔۔( ضبط کرتی بولی)
اسے میں منع کرچکا ہوں۔۔۔( انتہائی اطمینان سے کہا گیا)
اپنی حد میں رہیں مسٹر وجی کمال میں آپ جیسوں کے منہ لگنا بھی پسند نہیں کرتی ( دلآویز کی بات پر وجی نے ماتھے پر سلوٹیں ڈال کر اسے دیکھا)
یہ کس طرح بات کررہی ہو دلآویز۔۔۔۔۔؟
میں اسی طرح بات کرتی ہوں بہتر ہے کہ مجھ سے دور رھیں میں آپ جیسے بھگوڑوں کی طرف تھوکتی بھی نہیں ہوں۔ ....( دلآویز ساری حدیں پار کرتی بولی)
دل۔۔۔۔( اسکی بات پر وجی نے ضبط سے اسے پکارا)
بی ان یور لیمٹس مسٹر وجی کمال دلآویز نام ہے میرا دلآویز آفاق ۔۔۔۔ اپنا سایہ بھی مجھ سے دور رکھنا۔۔۔( اسے انگلی دکھا کر وارن کرتی پاس سے نکلتی چلی گںٔی)
وجی کے ضبط کا انتہائی کڑا امتحان لیا تھا اسنے ۔۔۔۔۔۔۔
غصے سے بری ہوتی حالت کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھا اور زن سے آگے بڑھا دی ۔۔۔۔۔
دلآویز جو بس اسٹاپ تک جارہی تھی اسکے آگے گاڑی ایک جھٹکے سے روکی اور وہ اپنی ساںٔڈ سے نکل کر بغیر اسکی احتجاج کی پروا کیے گاڑی میں بٹھایا اور آگے بڑھا دی۔۔۔۔۔۔۔
انکی یہ لڑاںٔی سارے راہ گزرتے لوگوں نے بھی دیکھی تھی۔۔۔۔۔۔۔
وجی کمال میرا ضبط مت آزماںٔیں ( گاڑی میں اپنی پوری قوت سے چلا کر بولی)
خاموش دلآویز ایک آواز نہ نکلے تمھارے منہ سے ( اسی طرح دھاڑ کر بولا).
لیکن دلآویز کہاں ڈرنے والوں میں سے تھی۔۔۔۔۔
کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپکی بیوی ہوں طلاق دیں مجھے جلد از جلد۔۔۔ ارے آپ جیسے بھگوڑوں سے اچھا وہ ولید رانا ۔۔۔۔۔۔
دلآویز ۔۔۔۔۔( وجی اتنے زور سے دھاڑا کے دلآویز کا دل کچھ لمحوں کے لیے کانپ کر رہ گیا).
تھی تو لڑکی ذات ہی مرد کے ساتھ کب تک مقابلہ کرتی اسی لیے جب ضبط حد سے بڑھا تو دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔۔
وجی کو اسکے رونے پر کوںٔی حیرت نہیں ہوںٔی وہ ایسی ہی تھی بچپن سے غصے کی زیادتی سے رو جاتی تھی۔۔۔۔
گھر آتے ہی بغیر اسکی طرف دیکھے اپنا منہ رگڑتی گھر میں چلی گںٔی۔۔۔۔
کونسا گل کھلایا ہے تم نے جو وجی کو یوں تمھاری یونی ورسٹی جانا پڑا ایمرجنسی میں ...( گھر میں آتے ہی نجمہ اسکے لیے پہلے ہی تنی ہوںٔی بھوؤں کے ساتھ کھڑی تھی).
پروین ابراز، نگارش اور ثریا بھی لاؤنج میں ہی بیٹھیں تھیں۔۔۔۔۔
آپ کو کیا مسلۂ ہے نجمہ تاںٔی میں چاہے جو بھی گل کھلاؤں آپ بیچ میں نہ پڑیں تو بہتر ہوگا..( انکی بات کا منہ توڑ جواب دیتی اوپر کی طرف بڑھ گںٔی)
وجی نے جب اسکی اس قدر بدتمیزی دیکھی تو حیران رہ گیا۔۔۔۔۔
دیکھ لیا وجی کس قدر بد تمیز ہے یہ ۔۔۔( وہ فوراً روتے ہوئے بولیں).
تو وجی ساتھ کھڑی نگارش کو اشارے سے انھیں سنبھالنے کا کہہ کر اوپر چلا گیا۔۔۔۔
اپنے کمرے میں آکر ادھر سے ادھر چکر لگاتا رہا لیکن اسکا غصہ کم نہ ہوا ۔۔۔۔۔
اتنی کڑواہٹ ہے تمھاری اندر دل۔۔۔۔۔
"بی ان یور لیمٹس مسٹر وجی کمال دلآویز نام ہے میرا دلآویز آفاق ۔۔۔۔ اپنا سایہ بھی مجھ سے دور رکھنا۔۔۔"( کان میں اسکی کہی گئی بات گونجی تو ضبط کے گھونٹ پہ کر رہ گیا )
جیب سے اپنی سیگریٹ نکالی اور لبوں کے اندر دبا کر کمرے کی فضا میں دھواں چھوڑنے لگا کیونکہ اندر کی آگ شاید اسی طرح بھجنی تھی۔۔۔۔
"کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں آپکی بیوی ہوں طلاق دیں مجھے جلد از جلد۔۔۔" ( دماغ اب کسی گہری سوچ میں گم تھا)۔۔۔۔۔
کیا بات ہے وجی پریشان ہو۔۔۔؟( نگارش اسکے کمرے میں آتے ہوۓ بولی)
اس وقت وہ صرف تنہائی چاہتا تھا لیکن ڈھول بھی گلے میں اسی نے باندھا تھا اسی لیے اٹھ بیٹھا ۔ ۔۔
نہیں نگارش میں ٹھیک ہوں بس سر میں تھوڑا درد ہے ..( وجی اپنی کنپٹی مسل کر بولا)
تو وہ مسکراتے ہوۓ اسکے پیچھے آکر بیٹھ گئی۔۔۔
تو میں کس مرض کی دوا ہوں لاؤ میں دبا دیتی ہوں( کہتے ساتھ ہی اسکا سر دبانے لگی).
نہیں نگارش میں ٹھیک ہوں پلیز ( وجی فوراً اسکا ہاتھ ہٹا کر اٹھ بیٹھا)
اسکے ہاتھ پکڑنے پر نگارش مسکرا دی۔۔۔۔۔۔
وجی تم مجھ سے شادی کب کروگے ؟( نگارش کا غیر متوقع سوال وجی کو ذرا پسند نہ آیا)
پلیز نگارش تم جانتی ہو پھر بار بار کیوں پوچھتی ہو ( اسکے زچ ہونے پر وہ مسکرا دی)
اسی لیے کہ جب تم بولتے ہو تو تمھارے یہ ڈمپلز مجھے بہت اچھے لگتے ( وہ کہتے ساتھ ہی اسکی شیو پر ہاتھ رکھ گںٔی تو وجی کرنٹ کھا کر پیچھے ہوا)
سٹاپ اٹ یار۔۔۔۔۔
اچھا سنو ایک کام کرو کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم دل کی موجودگی میں مجھ سے نکاح کرلو اسکے بعد جب وکیل آۓ تو پیپرز ساںٔن کرکے اسے دے دینا ....(اسکا لہجہ نظر انداز کرتی ہوںٔی بولی) جنکہ اسکی انوکھی پیش کش پر اسنے حیرت سے اسے دیکھا)
تمھارا دماغ تو نہیں خراب نگارش مجھ سے ایک نہیں سنبھالی جارہی تم دوسری کی بات کررہی ہو (جلدی جلدی میں اسکے منہ سے کچھ اور ہی نکل گیا جسکا احساس بعد میں ہوا)
واٹ یو مین تم کب اسے سنبھالتے ہو ۔۔؟( نگارش کو اسکی بات ذرا سمجھ نہ آںٔی)
میرا مطلب ہے کہ میں ابھی اس بارے میں نہیں سوچ سکتا اسے چھوڑنے کے بعد ہی کچھ سوچوں گا اور ویسے بھی شادی کا تم نے بولا ہے میں نے نہیں ( وجی بات سنبھالتے ہوۓ بولا)
تو کروگے تو تم ہی میرے ساتھ شادی۔۔۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ تم آۓہی اسی شرط پر ہو ۔۔۔۔
آیا تھا لیکن اب ارادے بدلتے لگ رہے ہیں ( یہ بات صرف وجی سوچ ہی سکا)...
لسن نگارش تمھیں کیا جلدی ہے جب میں اسے چھوڑ دونگا تو پھر تو میں یہیں ہوں تمھارے پاس شادی بھی ہوجاۓ گی بٹ پلیز مجھے ابھی اکیلا چھوڑ دو ۔۔۔۔( اسکی بات کا جواب دیتا دھپ سے دوسری ساںٔڈ لیٹ گیا تو نگارش نے بھی اسکی پشت کو گھورتے ہوئے باہر کی راہ لی ۔۔۔)......
ہنہ۔۔۔۔ڈمپلز اچھے لگتے ہیں ( اسکے جاتے ہی دروازے کی طرف دیکھ کر اٹھ بیٹھا).۔۔۔۔۔۔۔۔
🌼🌼
رات میں ڈنر کے وقت سب ہی خاموش تھے وجی نے کمال صاحب کو پہلے ہی ساری بات اپنے طریقے سے بتا دی تھی ۔ وہ وقتاً فوقتاً اس پر بھی نظر ڈال لیتا جو ہر بار کی طرح پتھریلے تاثرات لیے بیٹھی تھی ۔۔۔
آج سحر کا فون آیا تھا۔۔۔۔۔( کمال صاحب نے خاموشی میں اپنی بات شروع کی).
اچھا ۔۔کیسی ہے وہ اور کیا کہہ رہی تھی ؟( خانم نے مسکرا کر پوچھا)
سحر اسرار آج کل اپنے شوہر کے ساتھ اپنے سسرال حیدرآباد گںٔی ہوںٔی تھی اور بچے بھی ساتھ ہی تھے تبھی وجی کو ملنے بھی نہ آسکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکل ٹھیک ہے اور کہہ رہی تھی کہ زکیہ بیگم کی خواہش پر اسکے شوہر کے جاننے والوں میں ماںٔرہ کا رشتہ کردیا ہے اور وہیں شادی کرنے کا کہہ رہے ہیں اسکے بعد وہ لڑکے کے ساتھ دبںٔی سیٹل ہوجاۓ گی۔۔۔۔( انکی بات پر سب نے حیرت سے دیکھا).
اتنی جلدی شادی۔۔۔؟( آفتاب صاحب پوچھے بنا نہ رہ سکے)
ینگ پارٹی بھی پوری توجہ سے سن رہی تھی۔ دل بھی سنتے ہوۓ کھارہی تھی کیونکہ سحر اسرار باقیوں کی بانسبت اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ ماںٔرہ اس سے دو سال بڑی تھی۔۔۔۔۔۔
ہاں کہہ رہی تھی کہ لڑکا دبںٔی سے گھر والوں کی ضد پر شادی کے لیے ہی آیا ہے۔۔۔۔ اب ہم سب کے لیے اسکے اور اسکے سسرال کی طرف سے دعوت ہے ۔۔۔۔۔۔( کمال صاحب مسکرا کر بولے تو ارمغان کا تو چہرہ کھل اٹھا گھومنے کے نام پر)
پھر ہم سب جاںٔیں گے پاپا ...( اسکی خوشی سے بھری آواز پر سب مسکرا دںٔیے)
ایسے کیسے دعوت دی ہے یہ کوںٔی طریقہ تھوڑی نہ ہوتا ہے ( نجمہ اپنی سے باز نہ آئی )...
جس پر دل نے اسے ناگوار نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
اسنے یہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سب کو فون کرکے الگ الگ دعوت دے دی گی کارڈ ممکن نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔( انکی بات پر نجمہ چپ ہوگںٔی)....
لیکن ہم سب کا جانا ممکن نہیں ہے آفس کون دیکھے گا بچے ایسا کریں خواتین چلی جاںٔیں ساتھ میں وجی اور عفان ہوجاںٔیں گے ۔۔۔( حیات صاحب پورے عرصے میں اب بولے تو کسی کو انکی پیش کش بری نہیں لگی)
ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو ہم معزرت کرلیں گے اس سے ( کمال صاحب کو بھی یہی ٹھیک لگا)
ہرےےےے...( خوشی سے ارمغان کا نارہ بلند ہوا تو وجی نے پاس سے محبت بھری ایک دھپ اسے لگاںٔی)
اچانک ہی اسکی نظر سامنے پڑی جو پلیٹ پر جھکی سب کے ساتھ ہی مسکرا رہی تھی ۔ اس وقت صبح والی بات کے تاثرات اسکے چہرے پر کہیں نہیں تھے بلکہ وہ میٹھا سا مسکراتی بہت معصوم لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اتنی جلدی رنگ بدل لیتی ہو دلآویز وجی کمال ......( دل میں سوچتا اسکے نام پر خود بھی حیران رہ گیا)
جانا کب ہے کمال تایا اور کتنے دن کا ٹور ہے کیونکہ میں زیادہ دن آفس نہیں چھوڑ سکتا( عفان کی بھاری سنجیدہ آواز ٹیبل پر گونجی)
کل اسکی بات پکی ہوںٔی ہے اور اسی ہفتے کے آخر میں فنکشن سٹارٹ ہیں اور بامشکل چار سے پانچ دن لگیں گے ۔۔۔( منہ میں چکن پیس رکھتے ہوۓ بولے)
تایا جان میری یونی۔۔۔( دل بھی اسی وقت بولی)
جی بیٹا جان آپ بے فکر رہو میں اپکے ڈین سے بات کرلوں گا ۔۔۔۔( کمال صاحب محبت سے بولے)
حیات صاحب اپنی بیٹی کو دیکھ کر رہ گںٔے جو انکی لاپرواہی سے اتنی بدگمان تھی کہ ان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی تھی).....
تھینک یو تایا جان۔۔۔( مسکرا کر کہتی واپس پلیٹ پر جھک گںٔی)
یو ویلکم بیٹے۔۔۔۔ ہاں تو ینگ پارٹی اپنی تیاری شروع کردیں پھر نہ کہنا پہلے نہیں بتایا تھا( کمال صاحب کی بات پر سب مسکرا دںٔیے )
وجی تم انشاء اللّٰہ کل سے آفس جواںٔن کرو اسکے بعد واپسی میں کنٹینیو کرلینا یا چاہو تو واپس آکر جواںٔننگ دے دو۔۔۔۔( آفتاب صاحب نے اسکی سہولت کے لیے کہا)
واپس آکر جواںٔن کرلوں گا تایا جان ورنہ کام چھوڑ کر جانا اچھا نہیں لگے گا۔۔۔۔( اسنے بھی سہولت سے جواب دیا)
جیسی تمھاری مرضی۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد جنت کچن میں کھڑی سب کے لیے چاۓ بنارہی تھی جب باہر سرو کرنے آںٔی تو عفان وہاں نہیں تھا۔۔۔۔۔
جنت بیٹے عفان آفس کا کام کرنے اپنے کمرے میں ہی گیا ہے وہیں دے آؤ۔۔۔۔( اسکی چاۓ واپس کچن میں لاتی دیکھ ثریا بیگم نے کہا )
میں۔۔۔؟( بےیقینی سے اپنی طرف اشارہ کرتی بولی)
ہاں بیٹے کوںٔی مسلۂ ہے کیا؟.؟( ثریا بیگم نے ناسمجھی سے پوچھا)
ن۔۔۔نہیں توتاںٔی جان میں ابھی دے آتی ہوں۔۔۔۔( اسکا کپ لیے اوپر کی جانب بڑھ گںٔی)
دروازہ ناک کرکے اجازت ملنے پر اندر آںٔی.....
عفان بھاںٔی۔۔۔۔( دروازے کے پاس کھڑی ہوکر اسے پکارا تو اسنے چونک کر اسے دیکھا اور پھر ہاتھ میں کپ کو)
رکھ دو یہاں ۔۔۔( اپنی ساںٔڈ ٹیبل کے پاس اشارہ کرکے بولا تو وہ جی کہتی آگے بڑھ گںٔی)
لاؤ مجھے دے دو ...( پھر اسکے پاس آنے پر ہاتھ اگے کرکے بولا)
تو جنت نے کانپتا کپ اسکی طرف بڑھا دیا....
اتنی کپکپا کیوں رہی ہو ..؟( وہ جو اپنے ڈر میں کھڑی تھی عفان کے اچانک بولنے پر چاۓ سیدھا جا کر اسکی گود میں موجود پیپرز پر گرگںٔی)
واٹ دا ہیل۔۔۔( عفان فوراً دھاڑ
کر اٹھ گیا)
جنت کے تو اوسان ہی خطا ہوگںٔے ۔۔۔۔۔
س۔۔۔سوری۔۔۔۔( ہمیشہ والا جملہ )
کیا سوری یو فول تمھارے سوری سے کیا یہ سب ٹھیک ہوجاۓ گا ۔۔۔۔۔( پیپرز کو ہاتھ میں پکڑتا دیکھ کر غصے سے بولا)
تو جنت ڈر سے رونے والی ہوگںٔی۔۔۔۔
ع۔۔۔عفان۔۔۔۔۔
کیا عفان۔۔۔..( اسکی بات بیچ میں کاٹ کر بولا)
مجھے معاف کردیں۔۔۔( بولتے ساتھ ہی رونے لگی)
عفان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو باقاعدہ رونے لگ گںٔی تھی ۔ لاںٔٹ پرپل پرنٹڈ سوٹ میں گھنگرالے بولوں کو آدھا کیچر میں مقید کیے لال ہوتے چہرے کے ساتھ رورہی تھی۔ اس حسین منظر پر عفان کچھ دیر اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔۔۔
جاؤ یہاں سے ۔۔۔۔( اچانک اسکے حسین چہرے سے نظریں چراتا ہوا بولا)
سوری۔۔۔۔( دوبارہ بولتے ساتھ ہی بھاگ کر اسکے کمرے سے نکل گںٔی)
اور عفان اسکے کالے گھنگرالے بالوں کو دیکھ آنکھیں بند کرکے ایک گہرا سانس بھر کے رہ گیا.........
🌷🌷🌷🌷
بیٹے کیا میں کچھ بات کرسکتی ہوں ۔۔۔( وجی اپنے کمرے میں بیٹھا ٹی وی پر چینل سرچنگ پر مصروف تھا کہ دروازہ ناک کرکے زبیدہ اندر آںٔیں۔۔۔۔۔۔)
آںٔیں نا چچی پلیز اجازت مت لیں ..( وجی فوراً اٹھ بیٹھا )
تو وہ مسکراتے ہوۓ اسکے سامنے صوفے پر بیٹھ گںٔیں تو وجی بھی اٹھ کر انکے برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
آج یونی میں کیا ہوا تھا وجی۔۔۔؟( زبیدہ نے بات کا آغاز کیا تو وجی نے انھیں بنا لگی پٹی کے سب کہہ سنایا کیونکہ وہ دلآویز کی ماں تھی اور ان سے کیا چھپاتا)....
تم نے دل کو اپنی بیوی ظاہر کیوں کیا جبکہ تم یہ رشتہ نہیں چاہتے۔۔؟( پوری بات سننے کے بعد انکے پوچھنے پر وجی نے سر جھکا لیا)
پتا نہیں چچی میں کچھ اور بول نہیں سکا۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے جواب پر وہ مسکرادیں۔۔۔۔۔
دلآویز کی بدتمیزی پر غصہ تو آیا ہوگا؟؟.( ان کے اگلے سوال پر اسکے آگے صبح کا منظر گھوم گیا).
بہت زیادہ لیکن وہ اتنی کڑوی ہوگی میں نے سوچا نہیں تھا۔۔۔۔۔( بغیر چھپائے اپنی بات کہی)
تمھیں نہیں لگتا کہ اسے ایسا بنانے میں تمھارا بھی کردار شامل ہے۔۔۔؟( اس بار وجی نے چونک کر انھیں دیکھا)
میرا۔۔۔لیکن میں تو یہاں تھا ہی نہیں۔۔۔۔( اسے انکی بات سمجھ نہ آںٔی)
تم نہیں تھے یہی تو غلطی ہے تمھاری وجی ۔۔افاق کی وفات کے بعد وہ بہت زیادہ ٹوٹ گئی تھی۔ تم سے نکاح آفاق کا ذاتی فیصلہ تھا اور دلآویز اس وقت نو سال کی بچی تھی وجی ۔۔۔۔۔ تم سے نکاح ہوا تو میں نے سوچا کہ آفاق کا فیصلہ کہیں سہی ہی تھا کہ میرے بعد اسکا کوںٔی مضبوط سہارہ ہوگا گھر میں کسی کو اعتراض نہ ہوا تھا خانم بھابھی کو بھی نہیں لیکن پھر وقت گزرتا رہا اور تمھارے واپس آنے میں کچھ ہی مہینے تھے تب ہمیں تمھاری شرط پتا چلی ۔۔۔۔( وہ نظریں جھکائے بول رہیں تھیں اور وجی آنھیں چپ چاپ سن رہا تھا)...
دلآویز دل کی بری نہیں ہے وجی میری بچی بہت حساس اور معصوم ہے بس رویوں کی بھینٹ چڑھ گئی پچھلے چار سال سے تمھارے نہ آنے کا ذمہ دار اسے ٹھرایا جاتا ہے وہ جو کسی کی بات پر خاموش نہیں رہتی تمھارے ذکر پر ہمیشہ منہ پر قفل لگا لیتی تھی کیونکہ وہ کہیں نا کہیں خود کو ان سب کا قصور وار سمجھتی ہے۔۔۔۔میں یہ نہیں کہتی کہ نگارش سے شادی مت کرو بس میری دل کو مت چھوڑنا بچے وہ ختم ہوجاۓ گی۔۔۔۔( بولتے ساتھ ہی انھوں نے اسکے آگے ہاتھ جوڑ دںٔیے تو وجی نے بوکھلا کر فوراً انکے ہاتھ تھام لیے).
نہیں چچی ایسے مت کریں ۔۔۔( انکے جڑے ہاتھ نیچے کردںٔیے)
وہ بھلے ہی یہ کہے کہ اسے کوںٔی فرق نہیں پڑتا لیکن میں نے اسے پالا ہے وجی وہ میری سگی اولاد سے بھی بڑھ کر ہے تم سے جڑنے کے بعد اسنے کسی کا سوچا بھی نہیں۔۔۔میرا یقین کرو جتنی کڑواہٹ بظاہر اس میں ہے اندر سے اتنی ہی نرم ہے میری بچی۔۔توجہ اور محبت کی ترسی ہوںٔی ہے وجی تم اسے مت چھوڑنا یہ دنیا اسے نگل جاۓ گی۔۔۔۔۔ ( انکے رونے پر وجی لب بھینچے چپ چاپ انکی بات سن رہا تھا پھر انھیں اپنے ساتھ لگاتا چپ کروانے لگا).
فکر نہیں کریں چچی میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔۔۔( اسکے اچانک کہنے پر زبیدہ نے اسکی طرف دیکھا).
سنجیدہ سے چہرے پر کہیں بھی کوںٔی تاثر نہیں تھا۔
مجھے معاف کردو بچے میں بہت خود غرض ہوں۔۔۔۔۔۔۔
نہیں چچی معافی مانگ کر مجھے شرمندہ مت کریں آپ بس آرام کریں اور زیادہ مت سوچںٔے گا دل میری ذمہ داری ہے۔۔۔۔( اس بار زبیدہ کا چہرہ کھل اٹھا).
اور وجی انھیں دلاسا دیتا انکے جانے کے بعد وہیں صوفے پر ڈھے گیا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ زبیدہ کے سامنے کیسے وہ یہ سب بول گیا۔۔۔۔۔۔۔
وجی کمال میرا ضبط مت آزماؤ ( دل کی بات دماغ میں گونجی تو لب مسکرا دںٔیے).
ضبط تو تم نے میرا آزمایا تھا دل کل کچن میں بھی اور آج یونی میں بھی میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے فراق میں تم وہ گلاب بن جاؤ گی جس میں خوبصورتی کے ساتھ کانٹے بھی ہونگے کہ جو بھی اسے پکڑنا چاہے گا تو ہاتھ زخمی کروا لےگا۔۔۔۔۔
مسکرا کر سوچتا بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند گیا۔۔۔۔۔۔
دل ۔۔۔وجی کی دل ( اسکی آخری بڑبڑاہٹ نیند میں سناںٔی دی)
🌼🌼
BẠN ĐANG ĐỌC
FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️
Viễn tưởngیہ کہانی ایک جواںٔن فیملی میں دو سوتیلی بہنوں کی ہے اور ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دنیا کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے دھتکاری ہوئی ہے۔ یہ کہانی کسی کے صبر کی ہے کسی کے ہجر کی تو کسی کے فراق کی ہے ۔۔۔۔۔۔💖💖💖