قسط نمبر ۹

583 32 15
                                    

اچھا بچے پھر ضرور آنا تم سب سے مل کر دل خوش ہوگیا۔۔۔۔( ذکیہ بیگم مسکرا کر سب سے ملتی کہہ رہیں تھیں)
دوپہر کے کھانے کے بعد ان سب کی کراچی واپسی تھی جبکہ پروین ابراز نے بھی لاہور کے لیے نکلنا تھا....
یہ تو آپ کی محبت ہے ذکیہ بی بی آپ نے ہمارا اتنا خیال رکھا اسکے لیے بہت شکریہ۔۔۔( ثریا بیگم بھی مسکراتی ان سے مل رہیں تھیں).۔۔۔
پھر سب ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے باہر کی جانب چل دںٔیے۔۔۔۔
سنو دلآویز بچے۔۔۔۔( دلآویز جو سر پہ دوپٹا درست کرتی باہر نکل رہی تھی زکیہ بیگم کی آواز پر رک گںٔی)
جی آنٹی کہیے ۔۔۔( اسنے احترام سے انکا جواب دیا)....
میں جانتی ہوں بچے جو جیسا دکھتا ہے ویسا ہی نہیں ہوتا اسی طرح تمھارا اور وجی کا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔( زکیہ بیگم کی بات پر دلآویز نے چونک کر انھیں دیکھا)
میں نے تم دونوں کے درمیان سر دیوار محسوس کی ہے جسے وقت پہ گرانا بہت ضروری ہے بیٹا ورنہ وہ مضبوط ہوجاۓ گی اور غلطی کس سے نہیں ہوتی سب ہی سے ہوتی ہے لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ انا میں آکر سب برباد کردیا جاۓ ۔۔۔۔وہ تمھارا شوہر ہے دلآویز اپنی جگہ کو یونہی خالی مت کرو ۔۔۔۔خود سے ایک کوشش کرنا باقی اللّٰہ تمھارا حامی و ناصر ہو آمین۔۔۔۔خیر سے جاؤ...( اسکی حیران سی شکل دیکھ کر اسکی چمکتی پیشانی چومی تو دلآویز بھی ہوش میں آتی جی کہتی مسکرا کر باہر کی سمت بڑھ گئی)
لیکن سامنے کا منظر دیکھ قدم کچھ پل کے لیے رکے تھے جہاں نگارش مسکرا کر سامنے کھڑے وجی سے کچھ بات کررہی تھی جسکا وہ بھی مسکرا کر جواب دے رہا تھا۔ یہ سب دیکھتی نفرت سے سر جھٹک کر گاڑی کے پاس آںٔی لیکن عفان والی گاڑی بھری دیکھ کر مجبوراً وجی کی گاڑی کی طرف آگںٔی۔۔۔۔
راستہ دیں۔۔۔۔( وہ جو بظاہر نگارش سے بات میں مگن گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا دلآویز کی آواز قریب سے سن کر چونکنے کی ایکٹنگ کرتا فوراً ساںٔڈ ہوگیا)
اسکے ہٹتے ہی دلآویز نے دروازہ کھول کر بیٹھتے ہی اسے مارنے کے انداز میں بندھ کیا تو نگارش ڈر گںٔی۔۔۔۔۔
توبہ ہے اس سے تو جب دیکھو آتش فشاں ہی بنی رہتی ہے۔۔۔( نخوت سے کہتی وجی کو مسکرا خدا حافظ کرکے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گںٔی)
اور اس طرح سب حیدرآباد کی شاہراہوں سے ہوتے ہوۓ کراچی کی جانب چل دیئے۔۔۔۔
مما یہ لیفٹ ساںٔڈ سے گاڑی کچھ جھکی ہوںٔی ہے کیا کوںٔی وزن رکھا ہے وہاں؟۔۔۔( روڈ پر دوڑتی گاڑی کی آوازوں میں وجی کی سنجیدہ سی آواز گونجی)
نہیں بچے کچھ بھی نہیں رکھا بس ہم سب ہی ہیں۔۔۔۔( خانم نے ناسمجھی سے اپنے ، زبیدہ اور دل کے ہونے کا بتایا)
جبکہ گاڑی میں باںٔیں جانب کی سیٹ پہ دل براجمان تھی اور اچھے سے سمجھ رہی تھی کہ یہ شخص اسکی بھری ہوںٔی جسامت پہ چوٹ کررہا ہے۔ اسنے غصے سے ایک گھوری سامنے مرر پہ ڈالی جہاں وہ مسکراتی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
دل کے گھورنے پہ بغیر کوںٔی تاثر لیے شرارت سے ایک آنکھ دبا دی جس پہ وہ پہلو بدلتی ضبط کے گھونٹ پیتی نظریں پھیر گںٔی۔ اسکی اس ادا پہ وجی مسکرا کر رہ گیا......
دوسری گاڑی میں عفان ،نجمہ ، حرا جنت اور ارمغان تھے جو ان سے کچھ آگے تھے تقریباً شام کے پانچ بجے وہ کراچی پہنچے۔ مرد حضرات سب اس وقت آفس میں تھے اسی لیے رات میں ملنے کا سوچ سب تھکن کی وجہ سے کمروں کی جانب چل پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔

FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️Место, где живут истории. Откройте их для себя