..........بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم..............
اقبال احمد اور رقیہ اقبال کے بچے۔۔۔۔
آفتاب اقبال۔۔۔۔
کمال اقبال۔۔۔۔
حیات اقبال۔۔۔
آفاق اقبال۔۔۔۔
پروین اقبال۔۔۔۔
سحر اقبال۔۔۔۔۔
آفتاب اقبال اور ثریا آفتاب کے دو بچے۔۔..
آبان آفتاب۔۔۔۔۔
زریش آفتاب۔۔۔
کمال اقبال اور خانم کمال کے تین بچے۔۔۔
عجوہ کمال۔۔۔
وجی کمال۔۔۔
ارمغان کمال۔۔۔
حیات اقبال اور نجمہ حیات کے چار بچے۔۔۔
حریم حیات۔۔۔
عفان حیات۔۔۔۔۔
حرا حیات۔۔۔۔۔
دلآویز حیات۔۔۔۔
آفاق اقبال اور زبیدہ آفاق کی ایک بیٹی۔۔۔
جنت آفاق۔۔۔۔۔
پروین اقبال اور ابراز محسن کے تین بچے۔۔۔
زرلش ابراز۔۔۔
نگارش ابراز۔۔۔
اسد ابراز۔۔۔۔
سحر اقبال اور اسرار اسلم کے دو بچے۔۔۔۔
ابتسام اسرار ۔۔۔۔
ماںٔرہ اسرار۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷
ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی ۔۔۔۔
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی۔۔۔زبیدہ دیکھ لے اسے اب بلاوجہ انکے کھیل میں گھس کر انھیں بھی نہیں کھیلنے دے رہی یہ ( نجمہ حیات اپنے بچوں کے سر پہ سے اس ننھی موٹی سی گڑیا کو دیکھ کر بولیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں پٹپٹا کر انھیں ہی دیکھ رہی تھی)
نہیں نجمہ بھابی یہ بس ان کے ساتھ کھیلنا چاہ رہی ہے ( زبیدہ آفاق سامنے بیٹھے بچوں کے ٹولوں کو دیکھتی اپنی ننھی سی ڈیڈھ پری کو ساتھ لگاتی ہوںٔی بولیں)
کھیلنا نہیں چاہ رہی یہ ان کے کھلونوں کو اٹھا اٹھا کر پھینک رہی ہے۔۔۔۔۔۔( نجمہ غصے سے بولیں)
بچی صرف کھیل ہی رہی تھی انھوں نے انکار کیا کھیلانے سے اسی لیے ضد اور غصے میں کرگںٔی ہے ایسا اور ویسے بھی یہ اپکی بھی بیٹی ہے پھر ایسا رویہ کیوں رکھتی ہیں آپ اس سے ( نجمہ حیات نے زبیدہ آفاق کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی)
وہ ننھی سی جان سہم کر اپنی ماؤں کی تکرار دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
ہاں میری بیٹی ضرور ہے لیکن تربیت تم لوگوں کی ہےاور مجھ سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے لے جاؤ اسے یہاں سے ( زبیدہ آفاق انکی بات ضبط سے سنتیں اس پری کو گود میں اٹھا کر اوپر کمرے کی جانب بڑھ گئیں)
اور تم لوگ سن لو اگر اب وہ یہاں آںٔی تو کوںٔی اسے ساتھ نہ کھیلاۓ گا اور نہ پاس بیٹھاۓ گا ( نجمہ حیات اپنے تینوں بچوں کو جھڑکتی ہوںٔیں بولیں جس پر سب نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا تو وہ سیڑھیوں کی جانب حقارت سے دیکھتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گںٔیں )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌼🌼اقبال احمد اور رقیہ احمد کے چھ بچے تھے ۔سب سے بڑے آفتاب اقبال ،پھر کمال اقبال، حیات اقبال ،آفاق اقبال ،پروین اقبال، اور آخر میں سب سے چھوٹی سحر اقبال تھیں۔ آفتاب اقبال کی شادی انکی خالہ زاد ثریا سے ہوںٔی جن سے انکی دو اولادیں تھیں ۔ سب سے بڑا آبان آفتاب اور پھر زریش آفتاب تھی۔ زکیہ اقبال کا انتقال آفتاب اقبال کی شادی کے بعد ہی ہوگیا تھا ۔ اسی طرح کمال اقبال کی شادی انکے خاندان کے جاننے والوں میں ہوںٔی تھی انکی بیگم خانم تھیں جن سے انکے تین بچے تھے۔ بڑی بیٹی عجوہ اسکے بعد وجی اور پھر ارمغان کمال تھا۔ حیات اقبال اور پروین اقبال کی شادی ساتھ ہوںٔی تھی ۔ حیات صاحب نے اپنی خالہ زاد سے بچپن کی منگنی ختم کرکے اپنی پسند سے شادی کی تھی جس پر خاندان میں کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا اور انکی خالہ نے ان سے قطعہ تعلق بھی کردیا تھا انکی بیوی نجمہ جن سے انکے چار بچے تھے ۔ پہلی بیٹی حریم دوسرا بیٹا عفان اور تیسرے نمبر پر پھر بیٹی حرا تھی۔ بیٹیوں کی وجہ سے انھیں بیٹوں کی چاہ بہت تھی اسی لیے دوسرے بیٹے کی بھی خواہش میں چوتھی بار بھی اللّٰہ نے انھیں نے بیٹی دلآویز دے دی تھی ۔جبکہ پروین اقبال کے تین بچے تھے وہ شادی کے بعد دوسرے شہر چلی گںٔیں تھیں۔ زرلش ،نگارش اور اسد انکے بچے تھے۔ اور آخر میں سحر اور آفاق اقبال کی بھی شادی ساتھ ہی کردی گئی تھی۔ سحر کو اللّٰہ نے دو اولادوں ابتسام اور ماںٔرہ سے نوازا تھا جبکہ آفاق اقبال اور زبیدہ کی اللّٰہ نے اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھا ۔ شادی کے چھ سال بعد بھی جب انکے ہاں کوںٔی اولاد نہ ہوںٔی تو اللّٰہ نے انکا آنگن دلآویز کی وجہ سے کھلا دیا۔ جب نجمہ کے ہاں دلآویز نے جنم لیا تو وہ انتہائی مایوس ہوگںٔیں تھیں کیونکہ اسکے بعد وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تھیں ۔دلآویز کو تو انھوں نے ہاتھ لگانا بھی گناہ کبیرہ سمجھ لیا تھا۔ تب آفاق اقبال کی خواہش پر اقبال احمد نے دلآویز کو زبیدہ کی گود میں ڈال دیا ۔ جس پر نجمہ بہت خوش اور مطمئن تھیں کہ انکی جان چھوٹ گںٔی تھی۔ دلآویز کا نام انھی دونوں نے بڑی چاہ سے رکھا تھا ۔وہ زبیدہ آفاق کی زندگی میں بہاریں لے آںٔی تھی۔دونوں اسے گرم ہوا بھی نہیں لگنے دیتے تھے ۔۔۔۔۔
نجمہ کی عادت تمام بہوؤں میں سب سے الگ تھی ۔ خود پسندی ، غریب گھرانے کی ہونے کی وجہ سے احساسِ کمتری بہت تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر تمام دوسری بھابھیوں سے لڑجاتی تھیں۔ زبیدہ اور آفاق کے لاڈ پیار میں دلآویز میں تھوڑی ضد ،غصہ بڑھ گیا تھا جس پر نجمہ اپنے بچوں اور دلآویز میں واضح فرق کرنے لگیں تھیں ۔ اسے ڈانٹنا ، دھتکارنا، انکا معمول تھا جس پر زبیدہ سے انکی اکثر ان بن رہتی تھی اور لڑاںٔی میں وہ دلآویز کو واپس مانگتیں اور پھر لڑاںٔی آفاق اور زبیدہ کہ منتوں پہ ختم ہوتی تھی۔ انھیں دلآویز کی کوںٔی محبت اور چاہ نہیں تھی بس ضد میں اسے مانگتی تھیں ۔ اپنے ماں باپ میں روز روز کی لڑاںٔیاں دیکھ دل کے دماغ پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا ۔ انھیں دنوں اللّٰہ نے زبیدہ کو دلآویز سے محبت کا جنت کی شکل میں صلہ دیا ۔ شادی کے آٹھ سال بعد انھیں جنت ملی جو دلآویز سے دو سال چھوٹی تھی ۔ جنت کے آنے سے دلآویز کی محبت میں کوںٔی کمی تو نہیں آںٔی لیکن سوتیلے اور سگے کا فرق اگیا تھا جو کوںٔی نہیں لیکن نجمہ واضح کرتی تھی ۔ وہ آۓ دن زبیدہ سے دل کی وجہ سے لڑاںٔیاں کرنے لگی کہ تم ان دونوں میں فرق کرتی ہو اسی وجہ سے زبیدہ کبھی کبار تنگ آکر دل پر غصہ نکال دیتیں لیکن آفاق اقبال کی تو جان تھی وہ اپنی سگی اولاد سے زیادہ اسے فوقیت دیتے تھے ۔ ایک طرف محبت دوسری طرف نفرت اور لڑاںٔیوں نے دلآویز کے اندر ضد اور چڑچڑاپن ڈال دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷
یہاں کیوں بیٹھی ہو گڑیا؟( گیارہ سالہ عفان اپنی بہن سے ماں کی نسبت بہت محبت کرتا تھا وہ اس چھوٹی سی عمر سے ہی لڑاںٔی جھگڑوں کو دیکھ کر اپنی عمر سے بہت بڑا ہوگیا تھا اور اپنی بہن کے ساتھ زیادتی کی وجہ جنت کو سمجھتا تھا)
بھاںٔی۔۔۔وہ سب آپس میں کھیل رہے ہیں مجھے نہیں آنے دیتے... ( چار سالہ دلآویز چپ کرکے صوفے پر بیٹھی تھی )
تو گڑیا میں ہوں نا کھیلنے کے لیے آؤ میرے ٹواںٔز سے کھیل لو ( عفان محبت سے اسکا ہاتھ پکڑتا ہوا بولا)
تو وہ بھی جھٹ سے اپنے پھولے پھولے گالوں سے آنسو صاف کرتی مسکرا کر اٹھ گںٔی )
بھاںٔی ہم اسے بھی ساتھ لے جاںٔیں نا( دلآویز سامنے سیڑھیوں کا سہارا لے کر اترتی نازک سی دو سالہ جنت کو دیکھ کر بولی)
نہیں دل صرف ہم کھیلیں گے وہ ابھی چھوٹی ہے (عفان غصے سے اسے دیکھتا دل کا ہاتھ پکڑ کر اوپر لے گیا )
تمھیں کتنی بار کہا ہے عفان اس فساد کی جڑ کو ساتھ مت لایا کرو ( نجمہ دل کو عفان کے ساتھ کمرے میں آتا دیکھ غصے سے بولیں)
ماما یہ رو رہی تھی نیچے ( عفان کو انکا پتا تھا لیکن پھر بھی اپنی محبت سے مجبور تھا)
انکا رویہ دیکھتی دل سہم کر عفان کے پیچھے ہوگںٔی)
ہاں تو روۓ یہ اس جنم جلی کے نصیب میں ہی رونا ہے ( نجمہ نے انتہائی سنگ دلی سے کہا )
ماما ایسے مت بولیں پلیز میں اسے لے جاتا ہوں ( عفان کو اپنا ماں کا دل کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا بلکل اچھا نہیں لگا)
جاؤ پھر ( انکے بولتے ہی عفان آگے بڑھ کر الماری سے اپنے کھلونے لیتا بغیر انکی سنے دل کو پکڑ کر نیچے گارڈن میں لے آیا جہاں ارمغان پہلے سے بیٹھا تھا )
بھاںٔی آپ بھی آجاؤ نا ہمارے ساتھ ( دل نے اسے تنہا کھیلتے دیکھا تو بولی)
اسکی سنتے ہی نو سالہ ارمغان خوشی خوشی ان کے ساتھ آکر بیٹھ گیا اور تینوں کھیلنے لگے .....
دل۔۔۔۔دل۔۔۔۔۔( زبیدہ بیگم کی آواز پر فوراً جی مما کہتی اپنے چھوٹے موٹے پیروں سے دوڑ کر اندر چلی گںٔی)
دل میری جان کھانا کھاؤگی ؟( زبیدہ جنت کو گود میں بیٹھاۓ سوجی کھلاتے ہوئے بولیں)
نہیں مما ابھی نہیں نا ( دل کو کھیلنے کی جلدی تھی اسی لیے انکار کرگںٔی اور دوڑ کر واپس انکے پاس بیٹھ گئی)۔۔۔۔۔۔
زبیدہ آؤ کھانا لگا دیتے ہیں اتوار کا دن ہے وقت کا پتا ہی نہیں لگتا ان مردوں کی الگ الگ فرماںٔشوں پر ( ثریا اس گھر کی سب سے بڑی بہو تھیں )
جی بھابھی بس جنت کو کھلا کر آتی ہوں( زبیدہ جلدی جلدی جنت کو کھلانے لگیں جو اپنے ہاتھ میں موجود گڑیا سے کھیلنے میں لگی تھی)
اچھا ٹھیک ہے جلدی آنا ( وہ انھیں کہتیں کچن میں دوبارہ چلی گںٔیں)
اسکے بعد سب مرد حضرات کمروں سے آکر ڈاںٔنگ ٹیبل پر بیٹھ گںٔے تھے۔۔۔۔
واہ خانم بھابھی خوشبو تو بہت زبردست آرہی ہے ( آفاق عادتاً بہت ہنسی مزاق والے تھے )
ہاں بھںٔی ہمارا تو کوںٔی کریڈت ہی نہیں ہے ( ثریا مصنوعی خفگی سے بولیں تو سب مسکراتے بیٹھ گںٔے)
جاؤ حریم دادا جان کے کمرے میں کھانا دے آؤ ( خانم بارہ سالہ حریم سے بولیں جو ابھی آکر ٹیبل پر بیٹھی تھی)
جی تاںٔی جی ( حریم فوراً کھڑی ہوگںٔی)
کیسی باتیں کرتیں ہیں بھابھی آپ کے ہاتھوں میں بھی جادو ہے تبھی تو پیٹ میرے وجود سے جدا ہوتا جارہا ہے ( آفاق اپنے نکلتے پیث کی طرف اشارہ کرتے بیچارگی سے بولے تو ڈاںٔنگ ٹیبل پر قہقے گونج اٹھے)
وجی بھاںٔی یہ میں لے لوں ؟( دل وجی کے ساتھ بیٹھی اسکی پلیٹ میں رکھے کھیرے کو دیکھ کر بولی)
بری بات دل ( زبیدہ اسے ڈپٹتی بولیں)
تو ایکدم ہی اسکی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں آنسو آگںٔے......
ارے رو نہیں دل یہ لو میں نے منع کب کیا ( بارہ سالہ وجی کو اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ بہت کیوٹ لگی)
تھینک یو وجی بھاںٔی ( جھٹ سے آنسو پونچھتی اسکی پلیٹ میں سے کھیرا اٹھا گںٔی)
اسکی اس حرکت پر سب مسکرا دںٔیے سوائے نجمہ کے ۔۔۔۔۔
زبیدہ میری بچی کو جو مانگے دیا کرو اسکی آنکھوں میں آنسو نہ آئے ( کمال صاحب کو وہ اپنی بچیوں کی طرح عزیز تھی)
جی بھاںٔی ( زبیدہ نے مسکرا کر کہا)
ہاں تاکہ وہ اور ضدی اور ہٹ دھرم ہوجاۓ ( نجمہ نے اپنی بولنے کا موقع نہیں چھوڑا تو سارے اسکی ٹیبل پر اسکی طرف متوجہ ہوگںٔے)
نجمہ کھانے کے وقت بدمزگی مت پھیلاؤ ( حیات صاحب اسے ڈپٹ کر بولے)
تو آفاق صاحب انکی بات پر صبر کے گھونٹ پی کر رہ گںٔے۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد سب لاؤنج میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے تو ساری عورتیں بچوں کو لیے کمروں میں سلانے لے گںٔیں تھیں۔ شام میں چاۓ کے وقت آفاق اور کمال ساتھ بیٹھے تھے کہ سامنے سے دل وجی کے پیچھے پیچھے موباںٔل مانگتی پھر رہی تھی جس پر وجی کچھ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
یہ دیکھ آفاق مسکرادںٔیے ۔۔۔۔۔۔
کمال بھاںٔی میں سوچتا ہوں کہ دل اپنے وجی کے ساتھ کیسی لگتی ہے ( آفاق کے دل میں اچانک کیا سماںٔی کہ کمال صاحب نے حیرت سے انھیں دیکھا)
میں سمجھا نہیں تمھاری بات ۔۔۔۔؟
کمال صاحب کے ناسمجھی پر آفاق پھر مسکرا دںٔیے....
مطلب بھاںٔی کہ آگر دل کو وجی کی دلہن بنا دیں تو۔۔۔۔۔۔ ( انکی بات پر کمال صاحب پہلے تو حیران اور پھر ہنس دںٔیے)
ارے آفاق ابھی سے بیٹی کی فکر کھانے لگی ہے تمھیں اسکی عمر ہی کیا ہے صرف چار برس ۔۔۔۔۔۔
نہیں بھاںٔی بیٹیوں کے بڑے ہونے کا کب پتا چلتا ہے اور میں اپنی زندگی میں دل کے لیے ہر آسانی ہر سہولت کرنا چاہتا ہوں تا کہ اسے کسی چیز کی کمی نہ ہو( انکی بات پر آفاق سنجیدگی سے بولے)
کیسی باتیں کررہے ہو آفاق تمھیں تو ابھی بہت جینا ہے اور دل مجھے میرے بچوں کی طرح عزیز ہے اگر تم چاہو گے تو ایسا ہی ہوگا( کمال صاحب کی بات پر آفاق کا چہرہ فوراً کھل اٹھا تھا)
اسی وقت دوڑتی ہوئی دل آںٔی۔۔۔۔۔۔
پاپا۔۔۔۔وجی بھاںٔی مجھے فون نہیں دیتے ( وہ آنکھوں سے مصنوعی انسو صاف کرتی بولی)
ارے کیوں۔۔۔۔وجی ( پوچھتے ساتھ ہی انھوں نے وجی کو آواز دی جو فوراً آگیا)
وجی تم میری دل کو کیوں رلا رہے ہو ( انھوں نے مصنوعی روعب سے کہا تو کمال صاحب دل کی خوشی دیکھتے مسکرا دںٔیے)
چاچو میں ریسلنگ دیکھ رہا ہوں اور یہ مجھے کارٹون لگانے کا بول رہی ہے ( وجی بیچارگی سے بولا تو دل نے اسے اپنی چھوٹی نشیلی آنکھوں سے گھور کر دیکھا)
پاپا انھیں کہیں نا( دل کی ضد پر مجبور ہوکر وجی کو اسے فون دینا پڑا)
آپ بہت اچھے ہو وجی بھائی ( دل نے خوش ہوکر کہا تو اسکی خوشی پر سب مسکرا دیئے سوائے وجی کے اسے اپنی ریسلنگ نہ دیکھنے کا غم تھا).......
🌼🌼
اگلے دن سب بچے اسکول کے لیے تیار ہوکر چلے گںٔے تھے۔ مرد حضرات بھی آفس کے لیے نکل گںٔے تھے ۔ اقبال صاحب کا اپنا بزنس تھا جسے سارے بھاںٔی مل کر چلا رہے تھے....
دل بور ہوتی چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ اقبال احمد کے کمرے کی طرف چلی گئی)
صدقے میری دل آںٔی ہے ( اسے دیکھتے ہی وہ بیڈ پر بیٹھتے بازو پھیلا کر بولے).
تو وہ لان کی پرپل فراک میں جھٹ سے انکے بازو دیکھ کر دور ہوگںٔی)
ارے کیا ہوا؟( دادا جان اسے دیکھ کر بولے)
نہیں دادو آپ پپی دے کر منہ گندہ کردیتے ہیں میں نہیں آتی ( اسکی بات پر اقبال احمد کا قہقہہ لگا)
اچھا ٹھیک ہے نہیں کروں گا اب تو آجاؤ ( انکے کہتے ہی دل مسکراتی انکے ساتھ لگ گںٔی)
پھر وہ اسے لیے باہر چکر لگانے نکل گںٔے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

KAMU SEDANG MEMBACA
FiraaQ 🔥(COMPLETE) ☑️
Fantasiیہ کہانی ایک جواںٔن فیملی میں دو سوتیلی بہنوں کی ہے اور ایک ایسی لڑکی کی ہے جو دنیا کی طرف سے اور اپنوں کی طرف سے دھتکاری ہوئی ہے۔ یہ کہانی کسی کے صبر کی ہے کسی کے ہجر کی تو کسی کے فراق کی ہے ۔۔۔۔۔۔💖💖💖