××××××××××××× ماضی ××××××××××××
تیز بارش برس رہی تھی۔ ٹائیگر اس وقت اپنی جیپ میں سوار گھر کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں اس کی جیپ خراب ہوگئی۔ وہ نیچے اتر کر جیپ کو دیکھنے لگا۔ تو اس کے کانوں میں کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔ بارش تیز ہونے کی وجہ سے آوقز بلکل مدھم آرہی تھی۔ ٹائیگر نے اس وقت دھیان نہیں دیا۔ اپنی جیپ ٹھیک کرنے لگا۔ مسلسل رونے کی آواز نے اس کی توجہ اپنی طرف کی۔ جیپ کو چھوڑ کر وہ آواز کی سمت جانے لگا۔ ایک کونے میں اس کوئی ننھا وجود کپڑے میں لپٹا نظر آیا۔ مشکل سے ایک ہفتے کا ہوگا۔ اتنی سردی میں نا جانے کس نے اپنے بچے کو یوں پھینک دیا۔ ٹائیگر نے اس بچے کو اٹھایا جو مسلسل رو رہا تھا۔ ٹائیگر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے۔ وہ اسے یہاں چھوڑ نھی نہیں سکتا تھا۔ اتنی ٹھنڈ میں اور پھر اس سنسان سڑک پہ کتے یا کوئی جانور کھا جاتے اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ اس لئیے ٹائیگر اسے لئیے جیپ کی جانب بڑھا۔ اپنا کوٹ اتار کر اس بچے کو اس میں لپیٹا۔ جیپ کو ٹھیک کیا اور اسے لئیے اپنے گھر چلا گیا۔ شازینہ اور ارحم کے پاس لایا۔ شازینہ کو تو وہ بچی بہت ہی اچھی لگی۔ اس نے اس بچی کو اپنے پاس رکھنے کا کہا۔ اس کو گرم پانی سے نہلا کر اسے ہیٹر کے آگے لٹایا۔ ارحم کو سامان لانے کے لئیے بھیجا۔ ایک فیڈر میں اسے دودھ بنا کر دیا جسے پیتے ہی اس بچی کا رونا بند ہوا۔ اس طرح ایک ہفتے کی بچی کو ان لوگوں نے اپنے پاس رکھا۔ ٹائیگر نے اس کا نام زرنور رکھا تھا۔ ٹائیگر اسے شازینہ کے پاس چھوڑ تو گیا تھا۔ لیکن روز صبح اس سے ملنے اسے دیکھنے آتا تھا۔ اسے وہ بچی بہت عزیز ہونے لگی تھی۔ بلکل کسی باپ کی طرح اس نے اسے پالا تھا۔ پڑھایا لکھایا اس کے ناز نخرے اس کی ہر جائیز نا جائیز خواہش پوری کرتا تھا۔ اسی لئیے تو نور بی بی اس کو ماما کہتی تھی۔ نور بڑی ہوتی جارہی تھی بہت بار شازینہ واجد اور ارحم نے اس سے کہا نور کو بتا دے وہ اس کا پاب نہیں ہے۔ لیکن ٹائیگر ہمیشہ ان لوگوں کو ٹال دیتا تھا۔ اسے ڈر تھا وہ اس سے دور ہوجائے گی۔ اس لئیے نور کو وہ نہیں بتانا چاہتا تھا۔ نور کی ہر خوشی کا خیال رکھتا تھا۔ اس نے ایک بار پوچھا تھا میری ماں کہاں ہے۔ تو ٹائیگر نے اس سے کہا تھا وہ اس کی پیدائیش کے وقت مرگئی تھی۔ اس دن کے بعد نور نے بھی ذکر نہ کیا۔ شاید وہ بچی تھی اس لئیے نہیں پوچھتی تھی۔ ٹائیگر اس سے پیار تو کرتا تھا لیکن غلط بات پر اسے ڈانٹتا بھی ضرور تھا۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ لیکن اس کا غصہ ایسا تھا وہ نہیں دیکھتا تھا سامنے نور ہے شازینہ ہے ارحم ہے یا واجد بس غصہ اتارنا ہوتا تھا اسے۔ کئی بار نور اس سے ناراض ہو کر شازینہ کے پاس چلی جاتی تھی۔
××××××××××××××××××××××
اور آج وہ اسے ڈانٹ تو آیا تھا لیکن اب اسے دکھ ہو رہا تھا۔ وہ آفیس سے بھی جلدی آگیا تھا۔ اب اسے منانے کے لئیے اٹھا اور نیچے چلا گیا۔
اس کے روم کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ اندر آیا ایک نظر اس کے روم میں دوڑائی۔ کمرا چھوٹا مگر نفیس تھا۔ کمرے کے وسط میں بیڈ پڑا تھا۔ اس کے دونوں طرف شائیڈ ٹیبلز ایک طرف تھری سیٹر صوفہ اس کے ساتھ ہی ایک ٹیبل۔ سامنے دیوارگیر آئینہ لگا ہوا تھا۔ دیوراوں کا رنگ وائیٹ اور پنک تھا۔ اس کے روم میں موجود ہر چیز پنک اور وائیٹ ہی تھی۔ اور خود کھڑکی کے طرف منہ کئیے کھڑی تھی۔ جب بھی وہ ناراض ہوتی تھی اسی طرح کرتی تھی۔ ٹائیگر چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔ اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ اس کے انسوں دیکھ کر ٹائیگر گھبرا گیا۔ کیونکہ ایسا پہلی بار تھا جب اس کے ڈانٹنے پہ وہ اس طرح رو رہی تھی۔
YOU ARE READING
رازِ وحشت۔۔
Mystery / Thrillercrime novel ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جسے رات سے وہشت ہوتی تھی جو اپنی بہن کا بدلہ لہنے کے لئیے اس راہ پہ چل پڑا۔۔ اس کہانی میں جانیں گے آخر کیا ہے اس کا رازِ وحشت اس کہانی میں ہمارے معاشرے/ملک میں آج کل ہونے والے واقعات ہیں۔۔