وہ لڑکی سفید کمیز شلوار پر سفید ہی رنگ کا دوپتہ اوڑھے بال پونی میں باندھے جن میں سے کچھ زلفحیں اس کے چہرے پر جھول رہی تھی دو زانوں گم سم کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی باہر ہلکی ہلکی بوندا باری ہو رہی تھی جو اس شام کو حسین بنا رہی تھی مگر لڑکی کے اندر تک تو اداسی چھائی تھی کسی کو کھو دینے کا غم اندر تک بے چین کیے ہوئے تھا اس کی نظریں سامنے موجود دیوار پر جمی تھی اور سوچ ویہیں ایک جگہ اٹکی ہوئی تھی کہ وہ اب تک آیا کیوں نہیں اب تو اس شخص کا انتظار بھی ختم ہوتا جا رہا تھا جس کے انتظار میں وہ پل پل کاٹ رہی تھی جس پر اسے بھروسہ تھا کہ وہ اسے یہاں سے لے جائے گا مگر یہاں پر ایک ایک منٹ کا انتظار سالوں کا سفر لگتا تھا ۔ ہر طرف سے آتی شور کی آوازیں اس کے کانوں کو بہرا کرنے کو کافی تھی اسے اپنا دماغ مفلوجی کی طرف جاتا دیکھائی دے رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سچ میں پاگل ہو رہی ہے ایک ذہنی مریض بنتی جا رہی ہے ، یہاں پر موجود لوگ اسے ایک گونگے بہرے اور آندھے شخص کی حیثیت سے جانتے تھے جو نہ بولنے سے واقف ہو اور نہ ہی اسے کچھ سنائی یا دیکھائی دیتا ہو حالانکہ پہلے دن وہ بھی چیخی تھی چلائی تھی مگر جب یقین آ گیا کہ یہاں کوئی اسے سننے والا نہیں اس کی بات بے معنی ہے یہاں اس کے الفاظ سوائے شور کے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اس وقت سے اس نے اپنی زبان پر تالا لگا لیا ۔ اتنے میں اس کے پاس ایک عورت آتی ہے جس کے ذمہ یہاں کی ذمہ داری لگائی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھو ۔ وہ عورت اس کے سامنے کھڑی اس سے مخاطب تھی اس کی آواز پر وہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چلو تم سے ملنے کوئی آیا ہے ۔ عورت نے اسے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا وہ اس کے ساتھ قدم بڑھاتے چل رہی تھی دل کی امید پھر جاگ گئی کہ وہ آ گیا ہے اس کا انتظار بےکار نہیں گیا وہ منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں اسے آئے شخص سے ملاقات کرنی تھی ملاقات کی جگہ زیادہ فاصلے پر نہ تھی اسی لیے وہ جلد ہی پہنچ گئے سامنے کھڑے شخص کی اس کی طرف پیٹھ تھی ان کے قدموں کی چاپ سنتے اس نے رخ ان کی طرف موڑا اس شخص پر پڑنے والی پہلی نظر نے لڑکی کے دل کو سکون دلایا تو جس کا اسے انتظار تھا وہ آچکا تھا اس کی امید اس کے بھروسہ کو اس نے ٹوٹنے نہیں دیا تھا وہ آیا تھا اور وہ اسے یہاں سے لے جائے گا اس بات پر اس کا ایمان تھا مگر وہ اتنے دنوں سے یہاں آیا کیوں نہیں تھا کیا وہ بھی سب لوگوں کی طرح اسے زہنی مریض سمجھتا ہے کیا اس کی نظر میں وہ پچھلے چار دنوں سے پاگل خانے میں پڑی ایک پاگل ہے ۔
***********************************
لاہور کی اس قدیم حویلی میں چوہدری خاندان کب سے آباد تھا یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر اتنا سب جانتے تھے کہ یہ حویلی برسوں سے چوہدریوں کی ملقیت میں ہے کئی بار لوگوں نے اس حویلی کو خریدنا چاہا مگر یہاں کے مقینوں کو اس جگہ سے عشق تھا نہ وہ اس حویلی کو چھوڑ سکتے تھے نہ لاہور کو ۔ چوہدری رفیق اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ یہاں رہتے تھے جبکہ ایک بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ لندن مقیم تھی سب کی شادیاں کرا کر وہ اپنے فرض سے فارغ ہو چکے تھے اور اللّٰہ کے کرم سے سب ساتھ رہتے تھے ان کے ساتھ اور بھائی چارے میں زیادہ کردار رفیق صاحب کا تھا جنہوں نے انہیں ہمیشہ ساتھ مشکلات سے لڑنا سیکھایا اور اب ساتھ رہنا ان کی مجبوری بن چکا تھا یہ ایک دوسرے کے بنا رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ایک بار سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنی بیوی کے کہنے میں آ کر جائیداد کا حصہ لے کر الگ ہونا چاہا اور وہ ہو بھی گیا مگر زیادہ عرصہ الگ نہ رہ سکا اور صرف دو ماہ بعد اپنے اصل کی طرف لوٹ آیا اور اس دن کے بعد نہ تو اس کی بیوی نے الگ ہونے کی بات کی نہ ہی کچھ ایسا سوچا کیونکہ سوچا تو اس چیز کا جاتا ہے جو ممکن ہو جو بات ممکن ہی نہیں اسے سوچنے کا کیا مقصد ۔ رفیق صاحب کے سب سے بڑے بیٹے اصغر اور بہو سدرہ کی دو بیٹیاں عفاف اور حادیہ اور ایک بیٹا زوہیب تھا زوہیب سب کزنز میں سب سے بڑا تھا اور فلحال بزنس سنبھال رہا تھا جبکہ پورا خاندان یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے باپ کی طرح سیاست میں جائے اس کا باپ سینٹر تھا اور اب سب کی خواہش تھی کہ زوہیب آنے والے انتخابات میں کھڑا ہو مگر سیاست سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی وہ کوئی واسطہ رکھنا چاہتا تھا حادیہ زوہیب سے چھوٹی تھی اور اس کی شادی اس کے خالے کے بیٹے سے ہوئی تھی اور سب سے چھوٹی عفاف تھی جس کا یونیورسٹی میں بی ایس کا سیکینڈ لاسٹ سال چل رہا تھا ۔ اس سے چھوٹے ظفر اور بہو صباء کے تین بیٹے تھے سب سے بڑا محد اور پھر دو جڑوا بیٹے زین اور صائم تھے جو عفاف کی ہی یونیورسٹی میں ایم ایس کے لاسٹ سمیسٹر میں تھے محد کزنز میں دوسرے نمبر پر آتا تھا اور چند سال پہلے اپنے خواب پورے کرنے کی خاطر پولیس میں بھرتی ہوا تھا ۔ سب سے چھوٹے حماد اور بہو نادیہ کی ایک بیٹی عمارہ جو انیس سال کی تھی اور کولج میں بارویں جماعت کی طلب علماء تھی اور اپنے ماں باپ سے سخت نفرت کرتی تھی وجع عالیان تھا جو اس کا سوتیلا بھائی تھا اور اس سے چھ سال بڑا تھا عالیان نو سال پہلے سولہ سال کی عمر میں اپنی سوتیلی ماں کی وجع سے گھر سے بھاگ گیا تھا اور آج دن تک واپس نہیں آیا تھا عالیان اور عمارہ میں بہت محبت تھی اور جب عالیان گھر چھوڑ کر گیا تو کافی ہفتے عمارہ بیمار رہی اور اپنی ماں اور اپنے باپ کو عالیان کے گھر سے جانے کا زمہ دار سمجھنے لگی اور اس دن سے اس کے دل میں ان کے لیے نفرت پیدا ہوتی گئی نہ وہ ان کی کوئی بات مانتی تھی نہ کسی کام کے لیے اجازت طلب کرتی تھی اور اگر کہیں اجازت کی ضرورت پڑتی بھی تو زوہیب سے مانگ لیتی اور زوہیب باقی سب کو بتا دیتا ۔ رفیق صاحب کی بیٹی نورین اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد اپنی بیٹی عنایہ کے ساتھ یہیں رہتی تھی عنایہ زین اور صائم کی ہم عمر تھی اور اس کا اسی یونیورسٹی میں ایم ایس کا آخری سیمسٹر چل رہا تھا وہ پولیٹکل سائنس کی طلبہ تھی اور محد کی منگیتر ان دونوں کی نصبت بچپن میں ہی بڑوں نے طہ کر رکھی تھی جس کے بارے میں انہیں نہیں بتایا گیا تھا تاکہ ان کے دماغوں پر کوئی غلط اثر نہ پڑے بچپن کے طہ کردا رشتے آگے جا کر ٹوٹ جائیں تو بہت دکھ ہوتا ہے اور یہی وجع تھی کہ ان کو اس رشتے سے لاعلم رکھا گیا عنایہ کی محد کے لیے محبت اور عشق سے پورا گھر واقف تھا وہ ایک پراعتماد ، قابل اور ہونہار لڑکی تھی اپنے فیصلے پر قائم رہنے والی کسی کے سامنے نہ جھکنے والی اپنے فیصلے خود کرنے والی لڑکی تھی یونیورسٹی کے تمام لوگ اسے انتہائی سنجیدہ مزاج سمجھتے تھے جو صرف اپنے کام سے کام رکھتی ، اس کی گنتی کی چند دوستیں تھی جن سے وہ بات کرتی تھی مگر اپنے گھر والوں کے لیے وہ بالکل مختلف شخص تھی ۔ رفیق صاحب نے اپنی اکلوتی نواسی کی ہر خوشی پوری کی اسے ہر آسائش دی مگر اس کے اندر موجود باپ کی کمی کو پورا نہ کر سکے پورا خاندان اس کے باپ کے بارے میں غلط باتیں کرتا مگر اس کی ماں نے آج تک اسے اس کے باپ کے بارے میں ہمیشہ اچھی باتیں ہی بتائی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے ماں باپ کی علیحدگی کی اصل وجع کیا ہے مگر وہ اتنا جانتی تھی کہ اس کا باپ عالم خان ایک اچھا انسان ہے اور ایک دن وہ اس سے ملنے ضرور آئے گا ۔ رفیق صاحب جن کو ہر کوئی ابا جی کہتے تھے کھانے کی میز پر بیٹھے امجد کی غیر حاضری کا غصہ سب پر نکال رہے تھے امجد ان کا خاص ملازم تھا جسے انہوں نے خاص اپنے کاموں کے لیے رکھا تھا آج کسی وجع سے غیر حاضر تھا جس کے بعض انہیں اپنا حقہ نہیں ملا تھا اور ابا جی کو حقہ نہ ملنے کا مطلب تھا سب کی شامت اور سب کی شامت ہو بھی رہی تھی سب سے پہلے زین اور صائم کی باری آئی جو ناشتے کے ٹیبل پر موبائل استعمال کر رہے تھے ۔
تم لوگوں کو کتنی دفا منع کیا ہے اس منحوس مارے کا پیچھا چھوڑ دو پتا ہے کتنا نقصان دے ہے یہ آنکھوں کے لیے ۔ ابا جی جو سربراہی کرسی پر بیٹھے تھے زین اور صائم پر بھڑک اٹھے ۔
ان کو کوئی بتائے موبائل سے صرف آنکھیں خراب ہوتی ہیں حقے سے تو پورا کا پورا بندہ ۔ زین نے صائم کے کان میں سرخوشی کی ۔
ابا جی زین کہہ رہا ہے حقے سے پورا بندہ خراب ہوتا ہے ۔ صائم نے اونچی آواز میں بولا تو سب منہ نیچے کیے اپنی ہنسی چھپانے لگے اور زین صائم کو یوں گھورنے لگا جیسے آج ناشتے میں پراٹھے نہیں بلکہ صائم کے تکے کھائے گا مگر ناشتے میں وہ پراٹھوں کے سوائے کچھ کھا بھی تو نہیں سکتا تھا اگر عفاف کے ہاتھ کے بنے پراٹھے اس کی کمزوری نہ ہوتے تو شاید سچ میں صائم کے تکے کھا لیتا ۔
عفاف بیٹا آج ناشتہ دو لوگوں کا کم بنانا ۔ اباجی نے کچن میں کھڑی عفاف کو آواز لگائی جو کچن میں کھڑی پراٹھوں پر پراٹھے بنا رہی تھی آواز سنتے عفاف کے تو دل کو چین آ گیا دو لوگوں کے لیے کم کھانا بنانے کا مطلب تھا چار کم پراٹھے بنانا کیونکہ وہ اچھے سے جانتی تھی یہ دو لوگ صائم اور زین ہونے والے ہیں اور وہ دونوں پراٹھے کھاتے نہیں نگلتے تھے اور روزانہ تفریباً بیس سے بائیس پراٹھے بنانے والی عفاف کے لیے تو یہ کسی غنیمت سے کم نہ تھا صبح ہی صبح اٹھ کر اتنے پراٹھے بنانے پر کتنی محنت لگتی ہے یہ عفاف سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا نا تو کوئی اس کی مدد کرتا تھا نا ہی کوئی کچن میں گھستا وجع یہ تھی کہ کسی کو عفاف کے ہاتھ کے بنے کے علاوہ کچھ پسند ہی نہیں آتا تھا دوپہر اور رات کا تو پھر کسی اور کے ہاتھ کا بنا کھا لیا جاتا مگر ناشتہ عفاف کے سوائے کوئی اور بنائے اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ایک وقت تھا جب کھانا بنانا عفاف کا جنون ہوا کرتا تھا اس کا واحد عشق مگر ان گھر والوں نے اسے باورچی بنا کر رکھ دیا تھا ۔
باہر بیٹھے زین اور صائم نے پہلے ایک دوسرے کو غصے سے دیکھا اور پھر ابا جی کو معصومیت سے جیسے دنیا کے شریف ترین لوگ یہی دو تو ہیں مگر اباجی کو حقہ نہیں ملا تو ان کو پراٹھے کیسے مل سکتے تھے ۔
دونوں کی نظریاں خود پر محسوس ہوتا دیکھ اباجی بول پڑے ۔۔۔۔ زیادہ پراٹھے کھانے سے پیٹ خراب ہوتا ۔ اس سے اباجی کا صاف یہی مطلب تھا کہ بیٹا یہاں سے کچھ نہیں ملنے والا اب بھوکے رہو ۔ زین اور صائم اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ انہیں اب بھوکے ہی یونیورسٹی جانا تھا ۔
بیٹا اتنی جلدی کیا ہے آرام سے بیٹھ کر کھا لو ۔ صباء اپنے بیٹے محد کو کھڑے کھڑے ٹیبل سے جگ میں سے جوس گلاس میں ڈالتا دیکھ بولی ۔
نہیں امی آج نہیں ۔۔ ناشتے کا بالکل وقت نہیں ہے ۔ اس نے جلدی جلدی جوس کا گلاس اندر اتارا اور باہر کی طرف نکل گیا بیٹے کا یہ حال دیکھ صباء نے دکھ سے آہ بھری جب سے پولیس کی نوکری شروع کی تھی اس نے اپنا دیھان رکھنا چھوڑ دیا تھا راتوں کو لیٹ آتا اور صبح جلدی نکل جاتا شروع شروع میں تو پھر حال بہتر تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیس میں جانے کا اس کا شوق جنون بنتا گیا اب تو حال یہ تھا کہ اسے اپنی نوکری کے آگے کچھ دیکھائی ہی نہیں دیتا تھا اپنے کئیریر میں اس نے کئی میڑل اپنے نام کیے تین بار تو اس پر قاتلانہ حملے بھی ہو چکے تھے مگر جسے اللّٰہ رکھے اسے کون چکھے اس نے ہر جگہ چوہدری خاندان کا نام روشن کیا اور سب کو اس پر فخر بھی تھا مگر جب اس کی حالت دیکھتے تو کہتے چھوڑ یہ نوکری اور سنبھال اپنا کاروبار مگر وہ صرف اتنا جواب دیتا ۔۔۔۔۔۔ پولیس کی نوکری میرا خواب نہیں میری زندگی ہے اور اس کے بغیر میں زندہ تو رہ سکتا ہوں مگر زندگی گزار نہیں سکتا ۔ محد کا جنون دیکھتے سب چپ ہو جایا کرتے ۔
محد کو باہر جاتا دیکھ عنایہ بھی اس کے پیچھے لپکی ۔ ۔۔۔۔۔۔ محد محد رکو ۔ محد گاڑی کے پاس پہنچ چکا تھا جب اسے پیچھے سے عنایہ کی آواز آتی سنائی دی اور وہ جانتا تھا کہ یہ کیوں اسے آواز دے رہی ہے ۔۔۔۔۔ ہاں بولو عنایہ ۔ محد نے اس کی آواز پر مڑتے ہوئے کہا ۔
وہ تم نے ناشتہ نہیں کیا تو یہ لو ( ہاتھ میں پکڑے پراٹھے کو فوئل میں رول کی شکل میں لپیٹے ہوئے اس کی طرح بڑھایا ) راستے میں کھا لینا ۔
جانتا تھا تم میرے پیچھے لے کر پہنچ ہی جاؤ گی ۔ محد نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ پراٹھا رول تھامتے کہا ۔
ہاں تو تمہیں محبت بھی تو کروانی ہے نہ خود سے ۔ عنایہ نے ایک ادا سے کہا جس پر محد گاڑی میں بیٹھ گیا اور گاڑی چلا دی اور عنایہ وہاں کھڑی اس کی گاڑی کو دور جاتے دیکھتی رہی ۔ عنایہ محد سے کتنی محبت کرتی تھی یہ تو سب جانتے تھے مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ محد عنایہ سے محبت نہیں کرتا اور یہ بات عنایہ بہت اچھے سے جانتی تھی مگر اسے پورا یقین تھا کہ اس کی محبت محد کو بھی ایک دن اس سے محبت کروا دے گی اگر محد کے دل میں کوئی اور ہوتی تو شاید عنایہ کب کا محد کی محبت سے دستبردار ہو چکی ہوتی مگر یہ تو عنایہ کا خیال تھا کہ محد کا دل خالی ہے مگر یہ تو صرف محد جانتا تھا کہ کسی نے اس کے دل پر چار سال پہلے قبضہ کیا تھا مگر جس نے کیا تھا وہ تو اسے چھوڑ کر بلکہ اس دنیا کو ہی چھوڑ کر جا چکی تھی اور اب محد کے دل پر کسی اور کی محبت کا نام نہیں لکھا جا سکتا تھا کیونکہ عشق صرف ایک بار ہی ہوتا ہے ۔ عنایہ واپس آئی تو سب اسی طرح کھانا کھانے میں مصروف تھے ۔ زین اور صائم یونیورسٹی جا چکے تھے اور غصے میں عفاف اور عنایہ کو گھر پر چھوڑ گئے تھے ۔
عفاف کتنے پراٹھے رہ گئے ہیں بنانے والے ۔ عنایہ نے اپنا ناشتہ ختم کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کیونکہ اب زین اور صائم کے جانے کے بعد عفاف اور عنایہ کو ساتھ یونیورستی جانا تھا اور وہ لیٹ ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ آپی بس یہ آخری ہے زوہیب بھائی کے لیے بنا لوں پھر چلتے ہیں ۔ عفاف نے کچن سے آواز لگائی جس پر عنایہ نے اپنے سامنے بیٹھے زوہیب کو دیکھا جو موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا یہ مغرور سا شخص عنایہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا غصہ تو جیسے اس شخص کی ناک پر بیٹھا ہوتا تھا اس کو کب کس بات پر غصہ آ جائے یہ تو شاید اس کو خود کو بھی معلوم نہ تھا اور عنایہ پر تو یہ اکثر بلاوجع ہی بھڑک جاتا تھا سب کزنز زوہیب کی بہت عزت کرتے تھے منہ پر تو عنایہ بھی بہت عزت کرتی تھی مگر دل میں اس سے برا اسے کوئی نہیں لگتا تھا ہمیشہ یہی سوچتی اگر یہ شخص ان کی زندگی میں نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا مگر خیر کیا ہو سکتا تھا ۔ زوہیب کی ماں نے کتنی ہی بار زوہیب کو کہا کہ وہ شادی کر لے مگر زوہیب نے ان کی ایک نہ مانی یہاں تک کہ محد اور عنایہ کا تین ماہ میں نکاح ہونے والا تھا اصل میں تو یہ نکاح دو سال پہلے ان کے رشتہ طہ ہونے پر ہی ہونا تھا جب عنایہ نے بی۔ایس مکمل کیا تو سب نے عنایہ اور محد کے رشتے کا بازابطہ اعلان کیا عنایہ تو اس سے پہلے ہی محد سے محبت کرتی تھی مگر عنایہ ایم۔ایس کرنا چاہتی اور ساتھ محد کو تھوڑا اور وقت دینا چاہتی تھی مگر اب نکاح عنایہ کے ایم ایس مکمل ہونے کے بعد ہونے والا تھا اور زوہیب کی ماں کی خواہش تھی کہ اس کی شادی بھی ان کے ساتھ ہی کر دی جائے مگر اس نے صاف انکار کر دیا ۔ زوہیب تیس سال کا تھا اور محد سے دو سال اور عنایہ سے پانچ سال بڑا تھا مگر اس کا برتاو ایسا تھا جیسے ان سے دوگنی عمر کا ہو اکثر فیصلوں میں اس کی رائے لی جاتی تھی ہر چھوٹے بڑے فیصلے میں اس کی رائے کو خاصی اہمیت دی جاتی اور کزنز کے معملے میں تو بڑوں نے سب اسی پر چھوڑ رکھا تھا ان کے خیال میں زوہیب نوجوان نسل کا ہے ان کے معملات سہی سے دیکھ سکتا ہے مگر عنایہ کا ماننا یہ تھا کہ چاہے وہ نوجوان نسل کا ہے مگر روح تو بوڑھوں والی ہی ہے نا ۔ تھوڑی دیر میں عفاف زوہیب کو پراٹھا دے کر کمرے کی طرف بھاگی اور دس منٹ میں تیار ہو کر بیگ اٹھائے نیچے آ گئی اتنی دیر میں عمارہ اور زوہیب بھی ناشتہ کر چکے تھے عمارہ کالج کا یونیورم پہنے بیٹھی تھی وہ ناشتہ کرنے سے پہلے کالج کے لیے تیار ہو جاتی تھی ۔
چلو میں چھوڑ آتا ہوں ۔ زوہیب نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ۔ ۔۔۔۔ عمارہ کو روز زوہیب کالج چھوڑ کر آتا تھا اور عفاف اور عنایہ روز زین اور صائم کے ساتھ جاتی تھی مگر چونکہ آج وہ دونوں انہیں چھوڑ کر جا چکے تھے تو ان دونوں کو آج یونیورسٹی اکیلے جانا تھا ۔
نہیں ہم چلے جائیں گے ۔ عنایہ نے عفاف کو چلنے کا اشارہ کیا ۔
جب میں نے کہا ہے چھوڑ آتا ہوں تو سمجھ نہیں آتی ایک بار کی کہی ہوئی بات چوہدری خاندان کی لڑکیاں یوں اکیلے جاتی ہیں ۔ زوہیب کی آواز میں غصہ اور دباو واضح تھا انداز حکم دینے والا تھا اور عنایہ کو یہ بات ہرگز پسند نہیں آئی تھی کہ کوئی اس سے اس انداز میں بات کرے یہ ہوتا کون ہے اس سے اس انداز میں بات کرنے والا یہ انداز تو محد تک کو استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی ۔
ہم اکیلے نہیں ہیں میں اور عفاف ساتھ جائیں گے ۔ عنایہ نے اسے آگاہ کرنا ضرروی سمجھا ۔ زوہیب نے عنایہ کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے عفاف کو مخاطب کیا ۔۔۔۔۔ عفاف تم چلو میں اور عمارہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں گاڑی میں ، دو سیکنڈ میں پہنچو ۔ عفاف نے پہلے باہر نکلتے اپنے بھائی کو دیکھا جس کا حکم پتھر پر لکیر تھا اور پھر خود کو گھورتی عنایہ کو ۔ عنایہ آپی چلیں پلیز ۔ عفاف نے تقریباً ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔ عنایہ کو مجبوراً ان کے ساتھ چلنا پڑا ۔
گاڑی میں اگلی نشست پر عمارہ زوہیب کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور اپنا ٹیسٹ دہرانے میں مصروف تھی آنکھیں بند کیے ہونٹ ہل رہے تھے ، پیچھے عفاف اور عنایہ بیٹھی شیشے سے باہر دوڑتی سڑک کو دیکھ رہی تھی گاڑی اپنی سپیڈ میں چل رہی تھی زوہیب زیادہ تیز گاڑی نہیں چلاتا تھا پہلے گاڑی کالج کی سفید عمارت کے پاس رکی جہاں لڑکیاں کالج میں داخل ہو رہی تھی گیٹ کے باہر کھڑا گارڈ سب کو باری باری کارڈ دیکھ کر اندر جانے کی اجازت دے رہا تھا ۔ عمارہ گاڑی کا دروازہ کھولتی اونچی آواز میں خدا حافظ کہتی باہر نکل گئی جب تک عمارہ کالج کے اندر داخل نہ ہو گئی زوہیب گاڑی روکے وہیں کھڑا رہا جوں ہی عمارہ گیٹ کے اندر داخل ہوئی زوہیب نے گاڑی چلا دی ۔ گاڑی اپنی اسی رفتار سے دوبارہ چل پڑی تھی ۔
گاڑی تھوڑی تیز چلائیں ۔ عنایہ نے پیچھے بیٹھے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا ۔
پہنچ جائیں گے تیز گاڑی چلانے سے زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ کا فرق آئے گا پانچ منٹ میں نہیں ہوتے تم لوگ لیٹ ۔ زوہیب اپنی اسی روبدار آواز میں بولا تو عنایہ چپ ہو گئی کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ گاڑی بالکل درست رفتار پر چل رہی تھی مگر وہ روز زین اور صائم کے ساتھ یونیورسٹی جاتی تھی اور صائم گاڑی چلاتا نہیں اڑاتا تھا اور اسے اس چیز کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ اسے گاڑی کی عام رفتار سست لگتی تھی ۔
کچھ منٹ میں گاڑی یونیورسٹی کے باہر آ رکی تھی عنایہ عفاف زین اور صائم سب اسی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اس کے پیچھے بھی زوہیب تھا جس کے کہنے پر اباجی نے سب کو ایک ہی یونیورسٹی میں داخل کروایا تھا عفاف پڑھائی میں اتنی اچھی نہیں تھی اسے تو پڑھنے کا شوق تک نہ تھا اسے لگتا تھا کہ یونیورسٹی جا کر وہ خاندان کی ناک کٹوا دے گی فیل ہو جائے گی سب لوگ اس کی وجع سے شرمندہ ہو جائیں گے مگر پھر زوہیب کے پیار سے سمجھانے پر وہ یونیورسٹی میں داخلے کا ٹیسٹ دینے کے لیے تیار ہو گئی کیونکہ زوہیب عمارہ کے علاوہ بہت کم کسی کو پیار سے سمجھاتا تھا اور اگر وہ سمجھا رہا تھا تو اس کے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہ بچتی تھی وہ اپنے بھائی کو کبھی انکار نہیں کر سکتی تھی مگر اسے پورا یقین تھا کہ اسے یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملے گا مگر اسے داخلہ مل گیا ۔ عنایہ زین اور صائم کا لاسٹ سمیسٹر چل رہا تھا اس کے بعد زین اور صائم خاندان کا مشترکہ بزنس سنبھالنے میں زوہیب کا ساتھ دینے والے تھے ۔ یونیورسٹی کے اندر داخل ہوتے عنایہ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرح چلی گئی کلاس شروع ہونے میں صرف دو منٹ باقی تھے اور عفاف کینٹین کی طرف بڑھ گئی کیونکہ اس کی کلاس شروع ہونے میں ابھی تھوڑا وقت تھا اور وہ جانتی تھی کہ اس کی دوستیں بھی اسے ویہیں ملنے والی تھی یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ سے پانچ منٹ کے سفر پر کینٹین موجود تھی عفاف پانچ منٹ میں کینٹین پہنچ گئی وہاں اسے اپنی دوستیں تو نظر نہ آئی مگر سامنے زین صائم اور فخر بیٹھے نظر آئے ۔۔۔۔۔ السلام علیکم فخر بھائی ۔ عفاف نے ان کے پاس پہنچ کر سلام کیا جس پر فخر نے سلام کا جواب دیا اور زین اور صائم نے عفاف کو گھور کر دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں بھائی ۔ عفاف نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
اور ویسے آپ لوگ یہاں کیا کر رہے آپ کی کلاس نہیں ہے ہمیں تو لگا تھا آپ کی آج جلدی کلاس ہے اسی لیے آپ ہمیں چھوڑ کر آ گئے ۔ عفاف نے نہایت معصومیت سے کہا وہ اتنی معصوم تھی نہیں مگر اس کی یہی معصومیت اس کا سب سے بڑا ہتھیار تھا لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کس اے کیسے بات منوانی ہے ۔
عفاف تم نے اچھا نہیں کیا ، تمہیں پتا ہے کسی معصوم کو بھوکا رکھنا کتنا بڑا گناہ ہے ۔ زین نے غصے سے کہا ۔
بھائی اباجی نے کہا تھا ورنہ میں آپ کو بھوکا رکھ سکتی ہوں کیا ۔ عفاف نے وہی معصومیت برقرار رکھے ہوئے کہا ، وہ رونے کے دھانے پر تھی ۔
ہاں جانتا ہوں کوئی بات نہیں تم رونا مت ۔ صائم نے عفاف کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا جس پر پاس بیٹھے فخر نے بامشکل اپنی ہنسی روکی عفاف کے پاس اس کی معصومیت اور اس کے آنسو مضبوط ہتھیار تھے جس کے زریعہ وہ کسی کو بھی منا سکتی تھی سوائے زوہیب کے ۔
ٹھیک ہے نہیں روتی مگر آپ ناراض نہ ہونا ۔ عفاف نے اپنی آنکھوں کے وہ آنسو صاف کیے جو ابھی نکلے بھی نہیں تھے ۔
اچھا بھائی میں جاتی ہوں ، میری کلاس شروع ہونے والی ہے ۔ عفاف نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ ۔۔ ۔۔ ہاں ٹھیک ہے تم جاؤ ۔ زین نے اپنی ناراضگی ایک طرف رکھے کہا ۔
عفاف اٹھ کر جا چکی تھی اب وہاں فخر زین اور صائم بیٹھے تھے ۔
تم لوگ اتنے بیوقوف ہو یا بن جاتے ہو ۔ فخر نے ہنستے ہوئے کہا ۔
یار نہیں بیوقوف نہیں ہیں بس بن جاتے ہیں جانتے ہیں وہ اداکاری کر رہی تھی مگر کیا ہے نا وہ بہت معصوم ہے ہمیشہ ہمارا خیال رکھتی آئی ہے ہم سے بہت پیار کرتی ہے رات دو دو بجے بھی کھانا بنا کر دیتی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے اسے کوئی کام کہا ہو اور اس نے انکار کیا ہو تو خود بتاؤ ایسے شخص سے دل ناراض ہو سکتا ہے کیا ، ایسے لوگ تو قیمتی ہوتے ہیں ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتے ۔ صائم نے بڑے فخر سے فخر کو بتایا ۔
***********************************
کالے رنگ کے ٹراؤزر پر سفید رنگ کی ٹی شرٹ پہنے رف سے حولیے میں بال سمیٹتے وہ بیڈ سے اٹھتی ہے اور باتھ روم کی طرف بڑھ جاتی ہے گھڑی تقریباً گیارہ بجا رہی تھی اور وہ ابھی سو کر اٹھی تھی پوری رات جاگ کر کام کرتے گزاری تھی اور صبح سات بجے سارا کام ختم کر کے بیڈ پر لیٹی تھی تاکہ کچھ دیر آرام کر سکے کیونکہ آج اسے بہت ضروری کام کرنا تھا اور نیند کی شدت کے ساتھ وہ کام کرنا قدرے مشکل تھا فریش ہو کر گیلے بال ٹاول میں لپیٹے وہ کچن میں آ گئی کیبنٹ سے کافی کا جار نکالا اور دوسری طرح چولہے پر پانی ابلنے کے لیے رکھ دیا پانی ابلنے پر اس نے پانی مگ میں ڈالا اندر کافی کی ایک چھوٹی چمچ ڈالی وہ سٹرون بلیک کافی پینے کی عادی تھی ، کافی تیار ہوئی تو وہ مگ اٹھائے کچن سے باہر آ گئی ابھی وہ گرم گرم کافی کے مزے لینے ہی والی تھی کہ دروازے پر گھنٹی بجتی سنائی دی جس پر اس نے ایک ناگوار نظر دروازے پر اور دوسری ہاتھ میں پکڑے مگ پر ڈالی مگ ٹیبل پر رکھتی دروازے کی طرف چل پڑی دروازہ کھولا تو سامنے اکرم کھڑا تھا ۔
ہاں بولو اکرم ۔ اسے اندر آنے کا اشارہ کرتی خود صوفے پر بیٹھ گئی اکرم اس کے سامنے والے صوفے پر آ بیٹھا ۔
وہ بوس نے بلایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جلدی ۔ اکرم نے اسے سکون سے بیٹھے ہاتھ میں پکڑی کافی پیتے دیکھ کہا ۔
جانتی ہوں جانتی ہوں بوس کبھی سکون سے آنے کو بھی کہتے ہیں کیا ، ہمیشہ جلدی ہی ہوتی ہے انہیں ۔ دانیا دوبارہ کافی پینے میں مصروف ہو گئی ۔
دیکھو کوڈ ( کے ۔ او ۔ ڈی ) پلیز جلدی کرو ورنہ بوس میرا قتل کر دیں گے تمہیں تو کچھ نہیں کہیں گے میں بلاوجع مارا جاوں گا ۔ اکرم نے التجا کی ۔
اچھا اٹھو ۔ دانیا نے اپنے گیلے بال ٹاول سے نکالتے ٹاول وہیں صوفے پر رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہاں کوئی مجھے ایک سیکنڈ آرام نہیں کرنے دیتا مجال ہے جو دانیا ایک منٹ آرام کا گزار لے جان نہ نکل جائے سب کی ۔ دانیا غصے سے کہتی اپنے بیگ لینے اندر چلی گئی کچھ دیر میں بال پونی میں باندھے نیلی رنگ کی جینز پر بلیک لونگ شرٹ پہنے پیچھے اپنا منی سائز بیگ پہنے وہ باہر آئی اس بیگ میں اس نے اپنی تمام ضرورت کی چیزیں رکھی ہوئی تھی جن میں سب سے ضروری ایک گن اور بہت ساری ببلز تھی ۔
چلو ۔ دانیا اکرم کو حکم دیتی باہر نکل گئی اکرم ان کا ایک عام سا آدمی تھا جو ان کے لیے کام کرتا تھا اس کا کام صرف خبر دینے کی حد تک ہوتا تھا اس سے زیادہ اسے کچھ معلوم نہیں تھا مگر اس کے باوجود اس کی پوری چھان بین کی گئی تھی اسے یہاں بوس کو بوس کہنے کا حکم تھا بوس کا نام تک اسے معلوم نہیں تھا بوس کنگ کا دائیہ اور بائیہ ہاتھ دونوں ہی تھا کنگ کوڈ کا لیڈر تھا کوڈ یعنی کے۔او۔ڈی یعنی کنگ اوف ڈیولز اس گینگ کا نام تھا کوڈ کا ہر فرد اپنے آپ کو فخر سے کوڈین کہلاتا تھا کوڈ گینگ کے لیے کئی لوگ کام کر رہے تھے مگر کوڈ پورے شہر میں صرف پندرہ لوگ تھے اور دانیا ان پندرہ میں سے ایک تھی دانیا کو سب کوڈ کہتے تھے کوڈ ایک اعزاز تھا ایک عہدہ تھا جو صرف کچھ لوگوں کے حصے میں آتا تھا اس نام کو حاصل کرنے کے لیے محنت لگن ایماندار اور وفاداری شرط تھی اور دانیا ان تمام شرطوں پر پوری اتر کر یہ نام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی ۔ کوڈ دنیا کی نظر میں ایک ٹرسٹ تھا جو لوگوں کی مدد کرتا تھا کوڈ ٹرسٹ سے مراد کائنڈ اور ڈونیٹ کے لگائے جاتے یہ ٹرسٹ لوگوں کو انصاف دیلاتا تھا کوڈ کی اصل حقیقت سے سب واقف تھے مگر کوڈ کے خلاف آج تک کوئی ثبوت نہ ملا پولیس نے ایک دو بار کوڈ کی انکوائری کروائی مگر سب صاف نکلا اور اس کے بعد کوڈ کے خلاف کیس بند ہو گیا مگر یہ سب جانتے تھے کہ کوڈ اتنا صاف نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے کوڈ گینگ آج سے پینتیس سال پہلے وجود میں آیا تھا تب اس کی شوہرت کنگ کا ایک قاتل ایک ڈاکو کی حیثیت سے جانے جانا تھا وہ قاتل ڈاکو جس کے خیلاف آج تک کسی کو کوئی ثبوت نہ ملا کیونکہ وہ ہر اس شخص کو قتل کر دیتا جو اس کے لیے خطرہ ہوتا جو لوگ اسے جانتے وہ اس سے نفرت کرتے مگر سات سال پہلے کچھ ایسا ہوا جس نے سب بدل دیا کوڈ کے مقاصد بدلتے گئے اور لوگ پورانے کنگ کو بھولتے گئے اب لوگوں کی نظر میں کوڈ کسی مسیحا سے کم نہ تھے لوگوں کے ہونٹوں پر صرف ان کے لیے دعائیں ہی ہوتی کوڈ نے اپنا کام اتنی صفائی سے کرنا شروع کر دیا کہ اپنے پیچھے کوئی سوراگ نہ چھوڑتے آج بھی کوڈینز کے کئی دشمن تھے مگر وہ بھی کسی نہ کسی وجع سے ان کے خلاف بولنے سے قاصر تھے جن لوگوں کو انصاف نہ ملتا انہیں کوڈ انصاف دلاتا کنگ کو نہ تو آج تک کسی نے دیکھا تھا اور نہ ہی کسی کو معلوم تھا کہ وہ کون ہے کنگ ہر کوڈ سے ایک بار فون پر بات کرتا تھا جب اس شخص کو کوڈ منتخب کیا جاتا اور اسے عہدہ دینا ہوتا اور ساتھ ہی وہ اس شخص کو ایک خفیہ نام بھی دیتا جو صرف کنگ اور اس کوڈ کے بیچ میں راز ہوتا ۔
اپنے دو کمروں کے فلیٹ کو تالے لگانے کے بعد اب وہ لفٹ میں کھڑی تھی لفٹ نے چوتھی منزل سے زمینی منزل کا فاصلہ بہت جلد طہ کر لیا ، لفٹ سے نکل کر وہ پارکنگ کی طرف آ گئے اکرم نے گاڑی کا دروازہ دانیا کے لیے کھولا مگر وہ اسے مکمل نظر انداز کرتی اپنی بائیک کی طرف بڑھ گئی بائیک کو پارکنگ ایریا سے نکال کر سر پر ہیلمٹ پہن کر اس نے بائیک سٹارٹ کر دی اور اس کی فراٹے مارتی بائیک ہوائوں سے باتیں کرنے میں مصروف ہو گئی ۔
بیس منٹ میں وہ آفس پہنچ چکے تھے بوس کے کیبن کے باہر اکرم کو روک لیا گیا جس سے دانیا کو معلوم ہو گیا کہ بات کچھ خفیہ ہے کیبن میں داخل ہونے سے پہلے اس نے منہ میں ببل ڈالی اور ببل چباتے ہوئے کیبن میں داخل ہو گئی جہاں اس کی نظر سامنے بیٹھے بوس پر پڑی ادھیر عمر اس کا بوس آج بھی کتنا ہینڈسم لگتا تھا سیاہ سوٹ پہنے سگرٹ منہ میں ڈالے سامنے فائل پر جھکا تھا اس کے سامنے کوئی لڑکی بیٹھی تھی جس کی دانیا کی طرف پشت تھی دانیا نے کھانستے ہوئے بوس کو متوجع کیا جس پر بوس اور اس کے سامنے بیٹھی لڑکی دونوں نے اس کی طرف دیکھا ۔
دانیا نے آنکھوں ہی آنکھوں میں بوس سے اس لڑکی کے بارے ميں دریافت کیا جس پر بوس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
یہ ہے ماہم قریشی ۔ بوس نے تعارف کروانا چاہا مگر دانیا کا شاید موڈ نہیں تھا تو وہ بولتے بولتے چپ ہو گئے انہیں بات نہ کرتا دیکھ دانیا نے ان کی طرف غور سے دیکھا جو اسے گھور رہے تھے ۔۔۔۔۔ میں سن رہی ہوں آپ بولیں بوس ۔ دانیا نے اپنی صفائی دیتے انہیں بولنے کا کہا ۔
یہ ہے ماہم قریشی ہے آج سے تمہارے ساتھ رہے گی تم اس کی ٹرینگ کرو گی تمام کام سیکھاو گی آج سے یہ تمہارے فلیٹ میں رہے گی ۔ بوس اپنی بات مکمل کر چکے تھے اور آج پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ بوس نے اس کے ساتھ کسی لڑکی کو رکھا ہو آج سے پہلے کوئی سات لڑکیوں کو دانیا ٹرینگ دے چکی تھی جو کوڈ بننے کے خواب لیے آئی تھی مگر ان میں سے صرف تین کامیاب ہوئی باقی سب کوڈ کے عہدے تک نہ پہنچ پائی اور یہ لڑکی بھی یقیناً اسی لیے آئی تھی یہ بات تو دانیا کو اسے یہاں دیکھتے ہی سمجھ آ گئی تھی مگر یہ لڑکی اس کے ساتھ رہے گی یہ بات اس نے سوچی تک نہیں تھی کیونکہ پیچھلی بار جو لڑکی آئی تھی اس نے دانیا کو کافی حد تک تنگ کیا تھا ہر معاملے میں وہ لڑکی اپنی رائے دینے کی کوشش کرتی دانیا کے ہر معاملے میں گھستی جس کے بعد دانیا نے واضح اعلان کر دیا کہ نہ تو اب کسی لڑکی کو اپنے ساتھ رکھنے والی ہے نہ کسی کو ٹرین کرنے والی ہے ۔
بوس ۔ دانیا نے احتجاج کیا ۔
کوڈ ۔ بوس نے زور دیتے ہوئے کہا ۔
اور ہاں آج رات یہ تمہارے ساتھ جائے گی ۔ بوس نے صاف اعلان کیا ۔
بوس ۔ دانیا نے پھر احتجاً کہا ۔۔۔۔ میں نے بہت محنت کی ہے اس کام کے لیے اگر اس کی وجع سے کام خراب ہو گیا تو ۔
کوڈ ہمارا ہر کام محنت طلب ہوتا ہے ہر کام راز ہوتا ہے ہر کام میں خطرے ہوتے ہیں مگر کبھی نہ کبھی تو اسے پہلا موقع دینا ہو گا نا تو آج کیوں نہیں ۔
اچھا اسے سلیم کے ساتھ ایک گھنٹے میں میرے فلیٹ میں چھوڑوا آنا ۔ دانیا کہتی کیبن سے باہر نکل آئی اور باہر کھڑے سلیم پر نظر ڈالی ۔
یہ جو لڑکی اندر بیٹھی ہے اس کی پوری رپورٹ چاہیے کون ہے کہاں سے آئی ہے آگے پیچھے کون ہے سب شام سے پہلے مجھے چاہیے ۔ دانیا نے انگلی سے اندر بیٹھی ماہم کی طرف اشارہ کیا ۔
اس کی انکوائری ہو چکی ہے بوس نے پہلے ہی سب پتا کروا دیا ۔ سلیم نے دانیا کے حکم پر جواب دیا ۔
میری بات ایک بار میں سمجھ نہیں آئی ۔ دانیا نے غصے سے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے کہا ۔
جس پر سلیم نے سر خم کر دیا کیونکہ کوڈ کو انکار کا مطلب سخت سزا ہونا تھا ۔
دانیا ببل چباتی باہر آ گئی بائیک سٹارٹ کی اور اپنے ضروری کام کی طرف بڑھ گئی ۔ وہ کافی دیر سے کسی کو اپنا پیچھا کرتے دیکھ رہی تھی اور وہ اچھے سے جانتی تھی کہ وہ کون ہے دانیا نے بائیک روکی اپنی جینز کی جیب سے موبائل نکالا اور کسی کو کال ملائی ۔
بوس آپ اپنے آدمی کو کہیں میرا پیچھا نہ کرے ۔ دانیا نے چڑتے ہوئے کہا ۔
یہ تمہارے لیے ہی ہے کوڈ جتنی بےباقی سے تم لوگوں کا حال بگاڑتی پھر رہی ہو کتنے دشمن بنا رکھے ہیں تم نے ، کسی کوڈ کے اتنے دشمن نہیں ہیں جتنے تمہارے ہیں ۔ بوس نے غصے سے اسے آگاہ کیا ۔
بوس آئی ایم آ کوڈ اور کوڈ کسی نہیں ڈرتے ۔ دانیا نے کال کاٹ دی اور بائیک پھر سے چلا دی اب اس کا پیچھا نہیں کیا جا رہا تھا کچھ دیر میں وہ منزل پر پہنچ گئی جہاں اسے اپنا ضروری کام سرانجام دینا تھا اور وہ منزل تھی ایک کیفے جہاں اسے ایک کپ کافی پینی تھی جو صبح ادھوری رہ گئی تھی ۔
اندر آتے اس نے کچھ پیسٹریز اور ایک کپ کافی کا آرڈر دیا اور خود ایک کرسی پر آ کر بیٹھ گئی اور نظریں پورے کیفے میں گھومنے لگی دانیا جہاں جاتی تھی اس جگہ کو اپنے دماغ کی سکرین پر ریکارڈ کر لیتی تھی کیونکہ کوئی بھی جگہ ان کے کب کام آ جائے یہ کون جانتا تھا ۔
کوئی مجھے ایک کپ کافی بھی سکون سے نہیں پینے دیتا ۔ دانیا نے ایک ادا سے کہتے شانوں پر آئے بال پیچھے کیے ۔
اب کافی پی کر اسے ٹھنڈے دماغ سے نئی آئی لڑکی کا سوچنا تھا کیونکہ اب پھر سے اس کی اکیلے رہنے والی موج ختم ہونے والی تھی ۔
کچھ دیر میں ویٹر اس کے سامنے کافی کا کپ اور پیسٹریز رکھ کر جا چکا تھا کافی کا کپ ہونٹوں سے لگایا تو منہ کا ذائقہ اندر تک خراب ہو گیا پانچ سو کا یہ کافی کا کپ پانچ روپے کا ذائقہ نہیں رکھتا تھا ۔
اللّٰہ جانے لوگ اتنے مزے سے یہ کافی کیسے پی رہے ہیں ۔ دانیا نے آس پاس بیٹھے لوگوں کو دیکھتے ہوئے سوچا ۔
اس سے اچھی کافی تو میں خود بنا لیتی ۔ دانیا کپ ٹیبل پر رکھ کر پیسٹریز کی طرف بڑھی چوکلیٹ پیسٹریز نے اس کے منہ کے زائقہ کو پھر سے بدل دیا وہ پیسٹریز اپنی رقم پر پورا اترتی تھی دانیا نے پیسٹری کھاتے ہوئے اندر تک زائقہ محسوس کیا ۔
بِل پہ کر کے وہ کیفے سے باہر نکل آئی آج کے بعد وہ کہیں باہر سے کافی نہیں پیے گی یہ عہد وہ دل میں کر چکی تھی مگر پیسٹریز یہاں سے آرڈر ضرور کرے گی یہ بھی اس نے دل میں فیصلہ کیا تھا اور پھر بیگ سے ببل نکال کر اس نے منہ میں ڈال لی ببل اور اس کا پرانا ساتھ تھا ۔
***********************************
عفاف یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی ابھی اس کی کلاس ختم ہوئی تھی اور اگلی کلاس شروع ہونے میں ابھی وقت تھا وہ اپنے ساتھ بیٹھی ماہ نور سے باتوں میں مصروف تھی جب ان کے ساتھ ان کا ایک کلاس فیلو عامر آ کر بیٹھ جاتا ہے جسے دیکھ کر عفاف نے ناگوار نظر اس پر ڈالی ۔
تم مجھے دیکھ کر ایسی شکلیں بناتی ہو یا تمہاری شکل ہی ایسی ہے ۔ عامر نے عفاف کی شکل کے بگڑے زاویے دیکھتے ہوئے کہا ۔
نہیں ہے ہی ایسی ، پیدا ہی ایسی ہوئی تھی ، کیوں کوئی مسئلہ ۔ عفاف غصے میں کہتی اپنی چیزیں اٹھا کر کھڑی ہو گئی ۔
کہاں جا رہی ہو یار ۔ ماہ نور نے اسے اٹھتا دیکھ کہا ۔
جہنم میں ۔۔ چلو گی ۔ عفاف کہتی مڑی تھی کہ عامر نے اس کا ہاتھ اس کی کلائی سے پکڑ لیا ۔
میں چلوں گا ۔۔ لے کر چلو گی مجھے ۔ عامر کا اتنا کہنا تھا کہ عفاف نے کلائی ایک جھٹکے سے چھڑانی چاہی مگر گرفت کافی مضبوط تھی تو وہ ہاتھ چھڑانے میں ناکام رہی ۔
عامر چھوڑو مجھے ، مسئلہ کیا ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔ عامر it is hurting ۔ مگر عامر ڈھیٹ بنا رہا عامر پچھلے دو ہفتوں سے عفاف کو حیراث کر رہا تھا اور اس کے بارے میں اس نے صائم کو بتایا بھی تھا اور صائم نے اس کی اچھی خاصی عزت افزائی بھی کی ویسے تو صائم مار کٹائی میں سب سے آگے ہوتا تھا جہاں کسی دوست کو ضرورت پڑتی وہ پہنچ جاتا مگر یہاں بات بہن کی عزت کی تھی اور وہ یوں اسے پوری یونیورسٹی میں مشہور نہیں کرنا چاہتا تھا صائم سے عزت افزائی پر وہ کچھ دن تو چپ رہا مگر پھر اپنی پرانی حرکتوں پر واپس آ گیا وہ جسٹس کا بیٹا تھا اور اسی لیے اسے کسی بات کا ڈر نہیں تھا ۔
آس پاس کھڑے لوگوں نے عامر کو عفاف کا ہاتھ پکڑے دیکھا تو سب سیڑھیوں کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے تماشہ دیکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے کیسے دے سکتے تھے عامر بےشرم بنا کھڑا تھا نہ اسے آس پاس کھڑے لوگوں کی کوئی فکر تھی نہ اپنے سامنے کھڑی لڑکی کی عزت کی پروا تھی اور نہ اپنی عزت کا کوئی ڈر کہ پیچھے سے اسے کسی کا ہاتھ اپنے کندھے پر محسوس ہوا عامر نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو زین کو سامنے کھڑا پایا ۔ صائم ہوتا تو شاید عامر ڈر بھی جاتا مگر یہاں زین تھا جس کا لڑائی جھگڑوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا سب جانتے تھے کہ وہ لڑائیوں سے کتنی خار کھاتا تھا وہ پوری یونیورسٹی میں ہنسی مزاق کرنے والا ، دوسروں کو ہنسانے والا ، لوگوں کے ساتھ پرینکس کرنے کے معملے میں مشہور تھا ۔
ہاتھ چھوڑ ۔ زین کی آواز میں غصہ واضح تھا اس کی آنکھوں کو دیکھ کر لگتا تھا شاید ابھی عامر کا قتل کر ڈالے مگر عامر پر زین کی کہی بات کا کوئی اثر نہ ہوا وہ ڈھیٹ بنا کھڑا رہا اور پھر وہ ہوا جس کی وہاں کھڑے کسی شخص کو امید نہیں تھی زین نے عامر کے منہ پر مکا جڑ دیا جس کی شدت سے وہ نیچے جا گرا مکا اتنی شدت سے لگا تھا کہ عامر کے ہونٹ سے خون نکل آیا ۔
تیری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کو تنگ کرنے کی ۔ زین عامر پر دھاڑا تھا ۔
کیا بہن بہن لگا ہوا ہے ۔۔ عامر بھی اب سنبھل چکا تھا اور اس کے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔۔ بہت اچھے سے جانتا ہوں تم جیسے لوگوں کو ، منہ پر بہن اور پیچھے ۔ اس سے پہلے کہ عامر اپنے منہ سے کچھ اور بکواس کرتا زین اس پر کسی شیر کی طرح ٹوٹ پڑا جیسے شیر اپنے شکار پر ٹوٹتا ہے وہ عامر پر مکوں کی برسات کر رہا تھا اور سب کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں وہاں بزنس ڈیپارٹمنٹ کے ایچ۔او۔ڈی آ گئے زین بزنس کا سٹوڈنٹ تھا اور اسی لیے سر اسے اچھے سے جانتے بھی تھے ۔
چھوڑو اسے ۔ سر نے عامر کو مارتے زین کو کھینچ کر الگ کیا ۔
زین یہ کیا حرکت ہے ، مجھے تم سے تو یہ امید ہرگز نہیں تھی ۔۔۔۔ دونوں فوراً پرنسپل آفس ملو مجھے ۔ وہ دونوں کو حکم دیتے جا چکے تھے ۔ زین نے ایک نظر سامنے کھڑی اپنی بہن پر ڈالی جو کب سے کھڑی اسے روک رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ آنسو بہا رہی تھی مگر زین کو تو شاید کچھ سنائی ہی نہ دیا تھا جو آخری الفاظ اس کی سماعت تک پہنچے تھے وہ عامر کی کی گئی بکواس تھی جو وہ کسی صورت برداش نہیں کر سکتا تھا کوئی اس کے اور اس کی بہنوں کے تعلق کے مطلق کوئی بات کرے یہ وہ مر کر بھی برداش نہیں سکتا تھا اس کے خاندان میں ایک بار عفاف کا رشتہ زین یا صائم سے کرنے کی بات ہوئی تھی تاکہ خاندان کی لڑکی خاندان میں ہی رہے مگر ان دونوں بھائیوں نے صاف انکار کر دیا ان کے نزدیک ان کا بہن بھائی کا پاک رشتہ ہے اور اس میں کوئی ایسی بات لانا بھی یہ گناہ سمجھتے تھے ۔
کچھ دیر میں وہ پرنسپل آفس میں کھڑے تھے اور پرنسپل انہیں لمبا لیکچر دے رہے تھے اور آخر میں لاسٹ وارنگ دے کر جانے کو کہہ دیا کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو ریسٹیکیٹ کر دیے جائیں گے ۔
عامر ایک مشورہ ہے ۔۔۔ توں یہ سب حرکتیں چھوڑ دے ۔۔۔۔۔ یہ لڑکیوں کو چھیڑنا انہیں تنگ کرنا ۔۔۔ اب توں بعض نہ آیا تو یوں ہی مجھ سے پٹتا رہے گا اور ایک دن ہم دونوں رسٹیکیٹ ہو جائیں گے ، میری تو خیر ہے بی۔ایس کی ڈگری ہے میرے پاس مگر توں تو ابھی بی۔ایس کے تیسرے سال میں ہے ساری محنت ضائع ہو جائے گی اور لوگ کیا کہیں گے جسٹس صاحب کا بیٹا بی۔ایس تک نہ کر سکا ۔ تف تف ۔ زین نے عامر کو آفس سے باہر نکلتے ہی کہا تھا اور کہتے ہی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا آگے بڑھ گیا اور عامر وہاں کھڑا اس کی باتوں میں کھولتا رہا ۔
***********************************
کالج کی چھٹی ہو چکی تھی اور عمارہ کالج کے اندر کھڑی زوہیب کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ زوہیب نے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ جب تک وہ نہ آئے تب تک عمارہ کالج سے باہر نہیں نکلے گی اور جب زوہیب آتا تو گیٹ پر کھڑا گارڈ اسے بتا دیتا تو باہر آ جاتی ۔
کیا ہوا عمارہ تم کچھ پریشان ہو کوئی بات ہے کیا ۔ ساتھ کھڑی عمارہ کی دوست نوشین نے اسے کسی خیال میں دیکھ کر کہا ۔
یار پریشان نہیں ہوں بس کچھ سوچ رہی تھی ۔
وہی تو پوچھا کہ کیا سوچ رہی تھی تم ۔
یار آج بھائی کی برتھ ڈے ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں کیا لوں ۔ عمارہ نے اپنا مدع بیان کیا ۔
اتنے سارے تو تمہارے بھائی ہیں کس بھائی کی ہے یہ تو بتاؤ ۔
عالیان بھائی کی ۔ عمارہ کے جواب پر نوشین نے حیرت سے اسے دیکھا حالانکہ حیرت کرنا بنتا نہیں تھا کیونکہ وہ عمارہ کی پانچ سال پرانی دوست تھی اور جانتی تھی کہ عمارہ ہر سال عالیان کی برتھ ڈے پر اس کے لیے تحفہ لیتی ہے ۔
تم گھڑی لے لو ۔ نوشین نے اپنی حیرت سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا ۔
وہ تو پیچھلے سال لی تھی ۔ اس سے پہلے نوشین اسے کوئی اور مشورہ دیتی گارڈ نے عمارہ حماد کا نام پکارا اور عمارہ نوشین کو خدا حافظ کہتی باہر نکل آئی گیٹ کے سامنے اسے گاڑی کے پاس زوہیب کھڑا نظر آیا وہ چلتی ہوئی اس کے پاس چلی گئی دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی اپنی رفتار پر چل پڑی کچھ دیر میں اسے احساس ہوا کہ یہ تو اس کے گھر کا راستہ نہیں ہے ۔ ۔۔۔۔ بھائی ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ عمارہ نے زوہیب کو مخاطب کیا ۔
تمہارے بھائی کا گفٹ لینے ۔ زوہیب نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے اسے حیران کر دیا۔
بھائی آپ کو پتا تھا ۔ عمارہ نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جزبات کے ساتھ کہا ۔
کیوں تم بھی اپنے زوہیب بھائی کو اپنی عنایہ آپی کی طرح بوڑھی روح سمجھتی ہو ۔ زوہیب نے قہقہہ لگاتے کہا ۔
بھائی آپ کو پتا ہے کہ وہ آپ کے بارے میں یہ سب کہتی ہیں ۔ عمارہ کو اگلا حیرت کا جھٹکا لگا ۔
ہاں تو میں بہرہ تھوڑے ہوں ۔ زوہیب نے عمارہ کو ضروری معلومات دی زوہیب گھر میں سب سے زیادہ اسے سے ہنسی مزاق کرتا تھا وہ عمارہ کے بارے میں سب جانتا تھا اور عمارہ بھی اس کے بارے ميں سب جانتی تھی مگر یہ بات اسے معلوم نہیں تھی کہ عمارہ وہ سب بھی جانتی ہے جو اس نے ساری دنیا سے چھپا کر رکھا ہوا ہے ۔
ویسے بھائی آپ بہت الگ ہو ۔
الگ کیسے ہوں کیا میرے سر پر سینگ ہیں یا ناک نیلی ہے یا میں انسان ہی نہیں ہو ۔ زوہیب کی بات پر جہاں زوہیب خود ہنسا وہاں عمارہ کا قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔۔ نہیں بھائی آپ اخروٹ کی طرح ہو اوپر سے سخت اندر سے نرم ۔ عمارہ نے فخر سے کہا ۔
اخروٹ کڑوے بھی ہوتے ہیں ۔ زوہیب نے یہ بات کیوں کی تھی یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا مگر عمارہ اس کی بات کے اندر چھپے درد کو جان گئی تھی ۔
بھائی آپ نے بھائی کو ڈھونڈا ۔ یہ بات کرتے ہوئے عمارہ کے چہرے پر افسردگی چھا گئی عمارہ نے زوہیب کو عالیان کو ڈھونڈنے کے لیے کہا تھا اور آج سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے کہتی آئی تھی ۔
عمارہ بیٹا ۔۔۔۔ زوہیب نے بڑے پیار سے اسے مخاطب کیا اس کے اس طرح مخاطب کرنے پر عمارہ سمجھ گئی کہ زوہیب اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں لگا پایا اس سوچ کے ساتھ عمارہ کی آنکھیں بھیگ گئی ۔
زوہیب نے گاڑی ایک طرف روک دی کیونکہ اب اسے اپنی لاڈلی بہن کو منانا تھا ۔
میں نے وعدہ کیا تھا نہ ۔ عمارہ نے اس کی بات پر سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔۔ تو بھروسہ رکھو میں اسے ضرور ڈھونڈ نکالوں گا ۔
اگر انہیں کچھ ہو گیا تو ۔ عمارہ نے ہچکیوں میں کہا ۔۔۔۔۔ میں ماما بابا کو کبھی معاف نہیں کروں گی ۔
میرا بچہ ۔ زوہیب اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرے چپ کروا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا اب چپ کر جاؤ ورنہ جو دو گھنٹے لگا کر میک اپ کیا ہے نہ سارا اتر جائے گا اور پھر مجھے کون بچائے گا ۔
بھائی ۔ عمارہ نے آنسو صاف کرتے ہنستے ہوئے کہا ۔
اچھا اب میں گاڑی چلاتا ہوں اور تم چپ کر کے بیٹھی رہنا ، ٹھیک ہے ۔ زوہیب کے کہنے پر عمارہ نے منہ پر انگلی رکھتے اسے یقین دہانی کراوئی کہ وہ اب نہیں بولے گی ۔
***********************************
چاروں گاڑی میں بیٹھے تھے صائم اور زین آگے اور عفاف اور عنایہ پیچھے صائم ہمیشہ کی طرح گاڑی چلا رہا تھا اور عفاف صائم اور عنایہ کو زین کی حرکت کے بارے میں تفصیلی آگاہ کر رہی تھی صائم اور عنایہ کو کچھ کچھ تو یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس سے معلومات مل گئی تھی مگر تفصیلی بات انہیں نہیں معلوم تھی اسی لیے گاڑی میں بیٹھتے ہی صائم نے عفاف سے معاملے کی تفصیل مانگی جس پر عفاف نے ساری کہانی الف سے یے تک انہیں سنا دی ۔
واہ زین آج توں نے ثابت کر دیا کہ توں چودھری صائم کا چھوٹا بھائی ہے ۔ صائم زین سے دو گھنٹے بڑا تھا ۔
مجھے تو خود یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہاں صائم بھائی نہیں زین بھائی عامر کی دھلائی لگا رہے تھے ۔ عفاف نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جزبات کے ساتھ کہا ۔
اسی لیے رو رہی تھی وہاں کھڑی ہو کر ۔ زین نے عفاف کے رونے پر طنز کرتے ہوئے کہا ۔
نہیں بھائی میں تو اس لیے رو رہی تھی کہ عامر نے آپ کو مکا مارا تھا میں نے کہا پتا نہیں بھائی کو لڑنا بھی آتا ہے کہ نہیں یہ نہ ہو کہ ہیرو بننے کے چکر میں زیرو بن جائیں ۔
اور وہ جو میں نے عامر کو اتنا مارا اس کا کیا ۔
ہاں نہ وہ تو پھر بعد میں تھوڑا سکون آ گیا تھا کہ چلو ہاتھ ہلانے آتے ہیں میرے بھائی کو ۔ عفاف کی بات پر گاڑی میں بیٹھے سب لوگ ہنسے تھے ۔
اچھا اب گھر میں کوئی کسی کو نہ بتائے ۔ زین نے سب کو خبردار کیا ۔
مگر پرنسپل نے تو گھر کال کی ہو گی نہ ۔ صائم نے فکرمندی سے کہا ۔
ہاں ابو کو کی تھی کال مگر میں نے انہیں سمجھا دیا ہے تو ان کی ٹینشن نہ لو ۔ زین نے سکون سے کہا ۔
ہاں پھر ٹھیک ہے ۔ پیچھے بیٹھی عنایہ نے سکون کا سانس لیتے کہا ۔
ویسے آج میری کافی محنت لگی ہے اور صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا ہوا ۔ زین نے جتاتے ہوئے کہا ۔
تو ۔ عفاف نے بنا کسی شرمندگی کے کہا ۔
تو کی بچی ۔۔۔ مجھے آج چائنیز کھانی ہے اور تم مجھے بنا کر دے رہی ہو ۔ زین نے پیچھے مڑتے ہوئے کہنی سیٹ کی پشت کے اوپر رکھتے ہوئے کہا ۔
اچھا بنا دوں گی کیا یاد کریں گے آپ ۔
بڑی نوازش ہے آپ کی جو آپ نے مجھ ناچیز کی گزارش قبول کی ۔ زین نے نہایت مودبانہ انداز میں کہا ۔
آج تو عالیان کی سالگرہ بھی ہے ۔ عنایہ کو بیٹھے بیٹھے یاد آیا جس پر کار میں خاموشی چھا گئی ۔
یعنی آج پھر عمارہ اور چچی کی لڑائی ہونے والی ہے ۔ صائم نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا ۔
اللّٰہ نہ کرے ۔ تینوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا تھا ۔
اللّٰہ خیر کرے ۔ صائم کہتا گاڑی چلانے میں مصروف ہو گیا آج عمارہ اور چچی کے بیچ دوبارہ لڑائی نہ ہو جائے اس کی دعا وہ چاروں دل سے کر رہے تھے ۔
***********************************
تو جی حاضر ہوں نئی کہانی کے ساتھ نئے کرداروں کے ساتھ امید ہے پہلی قسط پسند آئی ہو گی اور قسط کافی لمبی ہے بہت محنت سے لکھی ہے اب کنجوسی کوئی نہ کرے ۔ انشاء الله جلد حاضر ہوں گی اگلی قسط کے ساتھ جلدی سے اسے زیادہ سے زیادہ ووٹ کریں کیمنٹ کر کے ضرور بتائیں کے کیسا لگا آغاز ۔
YOU ARE READING
حیات المیراث Completed
General Fictionکہانی نئے کرداروں کی، محبتوں کی ان کہے جزباتوں کی، رشتوں کی ،مرادوں کی ۔ کہانی ایک شخص نہیں بلکہ کئی لوگوں کے گرد گھومتی ہے کہانی محبت قربان کرتے لوگ دیکھاتی ہے اپنے سے آگے اپنوں کو دیکھاتی ہے خوابوں کو دیکھاتی ہے ۔ کہانی ہے دانیا کے جنون کی لوگوں ک...