Episode 1

897 37 6
                                    

ایبٹ آباد میں صبح کا اجالا تو بکھر چکا تھا مگر سرد موسم کی بدولت سورج آج بھی بادلوں کے پیچھے چھپا تھا، ہر کوئی اپنے کام ، اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا ۔ میرپور(ایبٹ آباد ) میں واقع خان حویلی میں بھی معمول کے مطابق خاموش، اداس صبح کا آغاز ہو چکا تھا البتہ آٹھ سال قبل خان حویلی کی صبح اتنی خاموش اور اداس نہ ہوا کرتی تھی ۔
آٹھ سال سے پہ در پہ رونما ہونے والے واقعات کے بعد سے خان حویلی میں ایک بے نام سی اداسی اور افسردگی چھا گئی تھی ۔
آٹھ سال۔ ۔ ۔ ۔ کہنے کو لوگوں کے لیے یہ محض کچھ سال تھےمگر ان سالوں میں وقت اور حالات کے بدلاؤ کے ساتھ خان حویلی کے مکین اور انکی زندگی بھی بدل چکی تھی ۔ خان حویلی کا لاؤنج جہاں بچوں کی کھکھلاہٹ کی آواز چند سالوں میں نوعمری کے قہقہوں میں بدلی اور پھر جہاں خاموش محبتیں پروان چڑھ رہی تھیں اب وہاں اداسی بن بلائے مہمان کی طرح ڈیرہ ڈال چکی تھی ۔
ان سالوں میں خان حویلی کی در و دیوار نے خوشیوں کے مناظر بھی دیکھے مگر وہ خوشیاں اس رنج و غم کی کیفیت کو ختم نہ کر سکیں۔چونکہ حویلی کے مرد اپنی روزمرہ کی مصروفیت میں غرق ہو چکے تھے تو مردان خانہ خاموش و خالی تھا البتہ لاؤنج کے تھری سیٹر صوفہ پر سرخ و سفید رنگت، پختون نقوش کی مالک ایک نفیس سی خاتون سر پر ڈوپٹہ اوڑھے، کندھوں پر شال ڈالے صوفہ کی پشت پر سر گرائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھیں، ایک ہاتھ میں تسبیح تھی جبکہ دوسرا ہاتھ گود میں سر رکھے ایک بچے کے بالوں میں پھیر رہی تھیں، چہرے پر ان گزرے سالوں کی اذیت رقم تھی۔ وہ زندگی کی کتاب کے ماضی کے صفحوں کو کھولے بیٹھیں تھیں، جہاں کہیں خوشیاں اور کھکھلاہٹیں تھیں تو کہیں صف ماتم بچھی تھی۔ ماضی کی سوچیں ان کے چہرے پر ہمہ وقت خوشی و غم کے رنگ بکھیر رہی تھیں۔
مہزلہ خان کی سوچوں کا تسلسل اماز کی چھینک کی آواز سے ٹوٹا وہ حال میں واپس لوٹیں۔ ان کی سبز رنگ آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے جبکہ ہونٹوں پر ایک افسردہ سی مسکراہٹ تھی اور دل میں جلد یا بدیر یہ اذیت اور تکلیف ختم ہو جانے کی امید اب بھی باقی تھی۔
                           ••••••••••••

زندگی کی گاڑی ایک تسلسل سے اپنے سفر پر گامزن رہتی ہے، اس سفر میں آنے والے ناہموار اور پتھریلے راستے گزر تو جاتے ہیں مگر انسان پر اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ وقت اور حالات کے بدلنے سے اکثر لوگ بھی بدل جاتے ہیں، ایک ایسے ہی بدلاؤ نے خان حویلی کے ساتھ ساتھ بروکلین کے ایک گھرانے پر بھی اپنی چھاپ چھوڑی تھی۔
بروکلین میں موسم سرما کی وجہ سے شام کا اندھیرا بھی جلد ہی ہر سو پھیل چکا تھا۔ دائیں ہاتھ سے مضبوطی سے سٹیرنگ تھامے بایاں بازوں گاڑی کی کھڑکی میں رکھے ماضی کی سوچوں کو ذہن سے جھٹکتے کئی بار وہ اپنی توجہ ڈرائیونگ کی طرف مبذول کرا چکا تھا مگر آج ماضی کی یہ دردناک یادیں اسکا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی تھیں۔
وہ ایک اہم میٹنگ اٹینڈ کر کے واپس اپنے آفس جا رہا تھا، سیکرٹری کو وہ پہلے ہی واپس بھیج چکا تھا کیونکہ اسکا ارادہ گھر جانے کا تھا مگر اب ان سوچوں سے پیچھا چھڑانے کا ایک واحد ذریعہ کام ہی تھا اور اب اس کی گاڑی کا رخ اپنے آفس کی طرف تھا۔ گاڑی کی کھلی کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی مگر شاید وہ اپنے ضبط کا خود ہی امتحان لے رہا تھا یا پھر اس وقت اس پر اس سرد ترین موسم کا بھی کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
گاڑی JK انڈسٹریز کے پارکنگ ایریا میں رکی، اس نے گاڑی سے نکل کر اپنا کوٹ درست کیا اور عمارت کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا، جب سیکرٹری نے اسے آتے دیکھا تو وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور مؤدبانہ انداز میں اس کے تھوڑا پیچھے چلنے لگا، سیکرٹری کو اسکا دوبارہ آفس آنا عجیب نہ لگا تھا کیونکہ پچھلے چار، پانچ سالوں سے یہ اسکا معمول بن چکا تھا۔
وجیہہ شخصیت (جو کہ اسے ورثے میں ملی تھی)، سرخ وسفید رنگت، بلند قدوقامت، اونچی ناک اور سبز رنگ آنکھیں جن میں چند سال قبل ایک الگ ہی شوخی اور چمک ہوا کرتی تھی اب وہاں ہمہ وقت سنجیدگی کا بسیرا رہتا تھا۔ تھری پیس سوٹ زیب تن کیے،ایک ہاتھ میں مہنگی رسٹ واچ پہنے اور بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ ایک مغرور شہزادہ لگ رہا تھا۔
سر کی ہلکی سی جنبش اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ سے سٹاف کی مبارک باد وصول کرتے اور کئی ستاںٔشی نگاہوں کو نظر انداز کرتے وہ اپنے کیبن کی طرف بڑھا۔ان گزرے سالوں میں اس کی طبیعت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سیکرٹری کے ساتھ ساتھ آفس کے پورے سٹاف نے محسوس کیا تھا پر اس کی وجہ کوئی نہ جان سکا۔ وہ شخص جو ہر چھوٹی سے چھوٹی خوشی سب کے ساتھ مل کر منایا کرتا تھا آج اتنی اہم ڈیل فائنل ہونے پر بھی اس کے چہرے پر خوشی کی ہلکی سی بھی رمق نہ تھی ۔ وہ پہلے بھی دولت کا پوجاری نہ تھا لیکن زندگی کھل کر جینے والا شخص تھا مگر اب تو جیسے زندگی جی نہیں گزار رہا تھا۔
وہ اپنے چہرے پر سنجیدگی سجائے کیبن میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے کرسی کی پشت پر سر گرا کر آنکھیں موند لیں اور ایک سرد آہ ہوا کے سپرد کی۔ آج کی رات بھی شاید آفس میں جاگ کر ہی گزرنے والی تھی۔ ٹیبل پر ایک نیم پلیٹ رکھی تھی جس پر ضرار ارباز خان لکھا تھا، میرپور کی خان حویلی کا تیسرا جبکہ ارباز جبار خان کا سب سے چھوٹا بیٹا۔۔۔۔

ھسک (✔️Completed) Where stories live. Discover now