"یہ کیا بنایا جا رہا ہے؟" مہرماہ نے لاؤنج میں ٹیبل کے سامنے زمین پر بیٹھے شاہ میر سے پوچھا جو پوسٹر کلرز کی مدد سے کوئی کارڈ بنا رہا تھا۔
"مما میں اپنے کلاس فیلو کے لیے سوری کارڈ بنا رہا ہوں۔" شاہ میر نے کچھ دیر کیلیے کارڈ سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
"سوری کارڈ، پر وہ کیوں؟؟" مہرماہ کے اچھنبے سے کہنے پر اس نے سر مزید کارڈ پر جھکا لیا۔
"کچھ دن پہلے اس نے آپ کو میری سٹیپ مدر بولا تھا تو میں نے اسے تھپڑ مار دیا۔" وہ شرمندگی سے بولا۔ حیرت سے مہرماہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔
"اور آپ یہ مجھے اب بتا رہے ہو۔" مہرماہ نے شکوہ کیا۔
"ڈیڈو نے منع کیا تھا کہ آپ ہرٹ ہوں گی۔" اس کی بات پر وہ تلخی سے مسکرائی۔
(اور جو وہ خود ہرٹ کرتے ہیں اس کا کیا) اس نے دل میں سوچا۔
"ڈیڈو نے مجھے کہا کہ مجھے اس سے اپولوجائز کرنا چاہئیے کیونکہ غلط تو اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ اسی لیے اب میں کارڈ بنا رہا ہوں۔" ضرار کی سوچ جان کر مہرماہ کے دل میں ایک ٹیس اٹھی۔
"ڈیڈ کہتے ہیں ہر سٹیپ مدر بری نہیں ہوتی کوئی تمہاری مما کی طرح اچھی بھی ہوتی ہیں تو اب سے کوئی بھی اگر آپ کو میری سٹیپ مدر کہے گا تو میں بالکل غصہ نہیں کروں گا۔" اکثر ہم آدھی ادھوری بات سن کر اگلی آدھی بات خود سے ہی اخذ کر لیتے ہیں جو کئی بار رشتوں میں دوری کا سبب بنتا ہے۔
مہرماہ نم آنکھوں سے مسکرائی اور شاہ میر کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
اگر اللّٰہ نے اس سے کچھ رشتے چھینے تھے جو کہ اس کی آزمائش تھی ۔۔۔۔۔
تو اسے بہت سے انمول رشتوں سے نوازا بھی تھا جو کہ خدا کی عنایت تھی۔
•••••••••
ہانیہ زوھان کے روم میں کسی کیس کی سٹڈی کیلئے موجود تھی جب ایک نرس ڈور ناک کرنے کے بعد پریشانی سے اندر داخل ہوئی۔
"سر وہ روم نمبر 24 کا پییشنٹ آج پھر میڈیسن لینے سے انکار کر رہا ہے اور پوری وارڈ کو سر پر اٹھا رکھا ہے۔" نرس نے پریشانی سے چائلڈ وارڈ میں موجود بچے کا بتایا جوکہ پچھلے ایک ہفتے سے یہاں ایڈمٹ تھا۔
"آپ پیار سے ہینڈل کریں گی تو وہ کیوں میڈیسن نہیں لے گا۔" ہانیہ کی بات پر نرس نے بےبسی سے زوھان کی طرف دیکھا۔ زوھان کے دماغ میں ایک خیال آیا جس کی تکمیل کا سوچتے ہی اس نے اپنی ہنسی کا گلہ گھونٹا۔
"ٹھیک ہے سسٹر آپ جائیں، اس پیشنٹ کو ڈاکٹر ہانیہ ہینڈل کر لیں گی۔ " ہانیہ اس بچے اور اس کے خرافتی دماغ سے بے خبر تھی اس نے پچھلے ایک ہفتے سے ہر ڈاکٹر، نرس اور وارڈ بائے کو تگنی کا ناچ نچا دیا تھا۔
"ہاں جیڑا بولے اوہی کنڈا کھولے۔" ہانیہ بےدلی سے بڑبڑائی۔
"کچھ کہا آپ نے ڈاکٹر ہانیہ؟" اس نے دانت پیسے اسے شروع سے ہی ہانیہ کے پنجابی بولنے سے چڑ تھی۔
"نہیں، میرا مطلب اوکے سر میں دیکھ لوں گی اس پیشنٹ کو۔"
"گڈ۔" زوھان نے کہتے ہی وہاں کھڑی نرس کو جانے کا اشارہ کیا، نرس کے چہرے پر دبی دبی ہنسی دیکھ کر اسے دال میں کچھ کالا لگا مگر زوھان کی مسکراہٹ دیکھتے ہی اسے پوری کی پوری دال ہی کالی لگی۔
•••••••
شاہ میر کو سوری کارڈ بناتا دیکھ کر مہرماہ کے ذہن میں بھی یہ خیال کوندا کہ اگر وہ ضرار سے بات نہیں کر پارہی تو کارڈ کے ذریعے بھی تو معافی مانگ سکتی ہے۔ اس نے ضرار کے آنے سے پہلے ایک سوری کارڈ بنا کر سٹڈی ٹیبل پر رکھ دیا۔ ضرار رات کے ناجانے کون سے پہر لوٹا تھا اس کے انتظار میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھے ہی وہ سو گئی۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ سلیقے سے بستر پر دراز تھی اور کمفرٹر بھی اس پر اوڑھایا ہوا تھا یہ سب ضرار کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ ضرار کمرے میں موجود نہیں تھا وہ فجر کی نماز کیلیے گیا تھا۔ 'ضرار نے اسے معاف کر دیا' دل میں یہ خیال آتے ہی اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ لیکن جلد ہی اس کی خوشی ماند پڑ گئی جب اس نے اپنے بنائے گئے کارڈ کے ٹکڑے ڈسٹ بین کے پاس گرے پائے۔
••••••••
"اسلام علیکم۔" وہ آفس کیلئے تیار ڈائیننگ ٹیبل کی چئیر گھسیٹتے سپاٹ چہرہ لیے بولا۔
مہرماہ نے اپنا سر اب بھی جھکائے رکھا۔ ناشتے کرنے کے بعد اس نے شاہ میر کو چلنے کا کہا۔
"اگلی بار ایسی بچگانہ حرکتوں سے اجتناب کرنا۔" اس نے مہرماہ کی گود سے پریہان کو لیتے دھیمی مگر سرد آواز میں کہا۔ مہرماہ اس کی بات کامطلب بخوبی سمجھ گئی۔
پریہان کو ضرار سے پکڑتے ہوئے مہرماہ نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ رونے کی وجہ سے اس کی لال انگارا ہوتی آنکھیں ضرار کو بے چین کر گئیں۔ وہ اس سے نظریں چراتے باہر نکل گیا۔
•••••••••
ڈائٹنگ ٹیبل پر بالکل خاموشی تھی، ہر تھوڑی دیر بعد ہانیہ زوھان پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ اچھال رہی تھی۔ حریم ہانیہ کی حرکت پر زوھان کے چہرے پر پھیلتی سرخی کو دیکھ کر کب سے اپنی ہنسی ضبط کر رہی تھی مگر اب تو ہونٹوں کو بھینچ کر اس کے جبڑے دکھنے لگے تھے۔ زوھان نے اب کی بار ہانیہ کے دیکھنے پر غصے سے چمچ پلیٹ میں پٹخا اور حریم کا ضبط جواب دے گیا، خاموش ماحول میں اس کا قہقہہ گونجا۔
"ویسے آپ نے اس 'چھوٹا پیکٹ بڑا دھماکہ' ٹائپ کو ہینڈل کیا کیسے؟" حریم نے زوھان کے اندر کھلبلی مچاتا سوال پوچھا، وہ خود ششدر تھا کہ اس نے یہ سب کیا کیسے، اس بچے پر تو نہ کسی کی سختی اور نہ ہی کسی کے پیار کا اثر ہو رہا تھا۔
"بس چھوٹی سی رشوت اور میرا کام ہو گیا۔" اس کی بات پر زوھان کی آنکھیں پھیل گئیں، حریم نے بےیقینی سے دونوں ہاتھ ہونٹوں پر جمائے۔
"کیسی رشوت؟" زوھان نے اسے گھورا۔
"بس ایک ویڈیو گیم۔" اس نے کندھے اچکائے۔
"وہ کیا ہے ناں ڈاکٹر زوھان ارباز خان جو شخص مہینے میں ایک بار مسکراتا ہو وہ بغیر وجہ مسکرائی جائے تو دوسرے بند کو شک تو ہو گا ناں۔ آپ کی بات بے بات کی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے کسی گربڑ کا احساس ہوا پھر کیا میں نے بھی ٹھان لیا کہ اب تو آپ کو بتا کر ہی رہوں گی کی 'ہانیہ نور' کو آپ بہت ہلکے میں لے رہے ہیں۔" ہانیہ کی بات پر وہ پیچ و تاب کھاتا پلیٹ پیچھے کو دھکیلتا اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی ہانیہ کھل کر مسکرائی، حریم نے غور کیا تھا کہ وہ زوھان کے سامنے ڈوپٹے کی مدد سے خود کو بالکل کور کیے رکھتی تھی اور کبھی کھل کر نہیں مسکرائی تھی ہمیشہ دھیما سا مسکرا دیتی۔
••••••••
"مما ڈیڈو کہہ رہے ہیں خود بھی تیار ہو جائیں اور پریشے پریہان کو بھی تیار کر دیں ڈیڈو کے کسی فرینڈ کی طرف جانا ہے کوئی پارٹی ہے۔" شاہ میر نے مہرماہ کو کندھے سے ہلایا وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔
"آپ کو کیا ہوا ہے؟"
"کچھ نہیں۔"
"پھر یہ منہ پر بارہ کیوں بجے ہیں؟"
"مجھے ڈیڈو کی یہ گیدرنگز بالکل نہیں پسند ہر آنٹی گوسپ کوئین بنی ہوتی ہیں، انکلز کی بزنس ٹاک افففف اور بچوں کا تو پوچھیں ہی مت اتنے ایروگنٹ" وہ ناک منہ چڑھائے اکتاہٹ سے بولا، مہرماہ کھلکھلا کر ہنسی۔
"تو کیا کریں، نا جائیں؟؟؟" مہرماہ نے ایک انکھ دبائی، جانے کا دل تو مہرماہ کا بھی نہیں کر رہا تھا۔
"اونہہ، ڈیڈو نہیں مانیں گے۔" وہ روہانسی ہوا۔
"اور ایک بات وہاں مسز قریشی نام کی ایک لیڈی بھی ہوں گی پلیز ان سے دور رہیے گا۔" اس نے بزرگوں کی طرح ہدایت دی۔
"کیوں؟" وہ الجھی۔
"ایکچولی وہ موم کی فرینڈ رہ چکی ہیں مجھے یہ موم کی ڈائری سے پتہ لگا تھا۔ مگر کہتے ہیں ناں 'تیرے منہ پر تیرا میرے منہ پر میرا' وہ ایسی ہی ہیں وہ موم کے سامنے موم کی ہوا کرتی تھیں مگر اب ان کی اور ڈیڈ کی گوسپس کرتی ہیں مجھے تو سمجھ نہیں آتی موم نے ان سے فرینڈشپ کر کیسے لی۔" وہ تاسف سے بولا۔ مہرماہ نے حیرانی سے اس آٹھ سالہ بچے کو دیکھا جو اس کے دیکھتے ہی مبہم سا مسکرایا۔
"تیار ہو جائیں اب ورنہ ڈیڈو کو غصہ آجائے گا۔" وہ کہتے کمرے سے نکل گیا، مہرماہ کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر مسکرائی۔ وہ شاہ میر جیسے بیٹے کے مل جانے پر اللّٰہ کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔
••••••••••
عادت سے مجبور ہانیہ اور زوھان آج پھر ایک دوسرے کے مدمقابل تھے، ایک سیر تھا تو دوسرا سوا سیر۔ ہمیشہ کی طرح معید اور حریم آج بھی اندازہ نہ لگا پائے تھے کہ جھگڑے کا آغاز کس نے اور کس بات پر کیا ہے؟؟؟؟ معید زبردستی زوھان کو کیفے سے لے کر گیا ورنہ حالات تو ایسے ہو گئے تھے کہ بس ہاتھا پائی ہونی باقی تھی ورنہ زبانی کلامی تو انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
"ایک تو آپ دونوں میری سمجھ سے باہر ہو، آخر مسئلہ کیا ہے آپ کو ایک دوسرے سے؟" حریم نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا۔
"میں جھگڑا نہیں شروع کرتی پہل ہمیشہ تمہارے لالا کی طرف سے ہوتی ہے۔" ہانیہ کی بات پر حریم کچھ پل تو اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔
"اوہ۔۔۔۔ تو لالا کو دکھتے ہی منہ کے زاویے کس کے بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔" حریم نے تیوری چڑھائی۔
"تو کیا مجھے دیکھتے ہی ان کے ماتھے پر شکنیں نہیں پڑتیں۔" ہانیہ بھی آج پوری طرح جرح کے موڈ میں تھی۔
"ماتھے پر شکنیں آپ کو دیکھ کر نہیں البتہ آپ کی حرکتوں سے ضرور پڑتی ہیں۔" حریم نے کندھے اچکائے۔
"یہ تو سراسر الزام ہے مجھ معصوم پر اور ویسے ایک بات تو بتاؤ ذرا یہ تم دوست میری ہو یا ڈاکٹر زوھان ارباز خان کی ؟" ہانیہ نے بچارگی سے کہتے ہوئے آخر میں حریم کے کافی کے کپ کی طرف جاتے ہاتھ کی پشت پر تھپڑ رسید کر کے غصے سے سوال داغا۔
"پہلی بات یہ الزام تو نہیں البتہ حقیقت ضرور ہے، دوسری بات میں صدقے جاؤں آپ کی معصومیت کے اور اگر آپ میری دوست ہیں تو وہ بھی میرے لالا ہیں۔" حریم نے اس کی ناراض نظروں کو بغیر کسی کھاتے میں لائے حقیقت بیان کی جس نے اس کے منہ کے تاثرات کو مزید بگاڑا تھا۔
"تو اپنے لالا کو بھی تو کبھی بتاؤ ناں کہ وہ کتنے کھڑوس، بدتمیز،نک چڑھے،بڈھے اور۔۔۔ اور ۔۔۔"
"ڈاکٹر ہانیہ نور۔" اب کی بار حریم نے اسے غصے سے گھورا۔
"اچھا ناں غصہ کیوں کرہی ہو۔ ویسے ایک بات کہوں؟؟" یانیہ صلح جو انداز میں گویا ہوئی۔
"میرے منع کرنے پر بھی آپ نے کون سا چپ رہ لینا ہے تو کہہ ہی دیں۔"
"انج آپس دی گل اے ہیگا بڑا ودہیا بندہ۔" حریم اسے پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، واپس ان کی طرف آتا زوھان بھی یہ بات سن چکا تھا اور ایک دلکش مسکراہٹ نے اس کے لبوں چھوا تھا۔
"کون؟؟؟ زوھان لالا؟" حریم کو تو اب بھی اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
"ہاں بھئی وہی، اب انہیں بتا مت دینا ایویں شوخ۔۔۔۔" زوھان کو اپنے سامنے دیکھ کر ہانیہ کی باقی بات منہ میں ہی رہ گئی.
"میرا موبائل یہیں رہ گیا تھا۔" زوھان نے اپنا موبائل ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
"ڈاکٹر ہانیہ، تھینکس فار دی کامپلیمینٹ۔" زوھان نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے کہا ورنہ ہانیہ کا رنگ اڑتا دیکھ کر دل تو اس کا قہقہے لگانے کا کر رہا تھا۔
"لیکن سر میں نے تو پنجابی بولی ہے اور اپ کو تو پنجابی آتی ہی نہیں ہے تو آپ کو کیسے پتا کہ میں نے ۔۔" ہانیہ شش وپنج میں مبتلا تھی۔وہ تو اکثر پنجابی میں بولتی ہی اسی لیے تھی کہ اگر وہ سن بھی لے تو اسے کونسا سمجھ آجانی ہے۔
"تمہیں کس نے کہا مجھے پنجابی نہیں آتی؟" زوھان نے اس کی بات درمیان سے ہی اچک لی۔
"سر آپ نے خود ہی کہا تھا کہ میرے سامنے پنجابی میں بات مت کیا کرو۔" ہانیہ اب بھی حیرت میں ڈوبی ہوئی تھی۔
"ہاں تو میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ مجھے پنجابی نہیں آتی۔" زوھان دوٹوک انداز میں گویا ہوا، حریم ہر بات سے بے پرواہ اپنے لالا کے بدلے لہجے اور ہونٹوں پر جمی مسکراہٹ کو ہی دیکھ رہی تھی جو اسے کافی دن سے حیران کیے ہوئی تھی اسکا جواب بھی آج اسے مل ہی گیا تھا۔
"سر آپ۔۔" بےبسی اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں ہی اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
"میں کیا؟ بولو نہ چپ کیوں ہو گئی ہو۔" زوھان خود بھی ہانیہ کے ساتھ اپنے رویے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے باخبر تھا اور حیران بھی لیکن وہ اسے محض ہمدردی کا نام دے رہا تھا۔
وہ غصے اور بےبسی سے پیر پٹختے وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔ زوھان نے حریم کی طرف دیکھا جو اسے ہی جانچتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ زوھان کے سوالیہ انداز میں ابرو آچکانے پر وہ سر نفی میں ہلاتی ہانیہ کے پیچھے ہی چلی گئی۔
••••••
شاہ میر نے جیسا کہا تھا یہ گیدرنگ بالکل ویسی ہی تھی، مہنگے، قیمتی لباس زیب تن کیے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے، ہاتھوں میں مشروبات کے گلاس تھامے خواتین گروپ کی شکل میں کہیں بیٹھی تھیں اور کہیں کھڑی تھیں۔ وہ صوفے پر براجمان اکتاہٹ اور بیزاری سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ پریشے اور پریہان کو وہ ثریا بیگم کے پاس ہی چھوڑ آئی تھی کہ رات کافی ہو جائے گی اور وہ تھک جائیں گی۔ اس نے ضرار کی طرف دیکھا جو کچھ دور ہی کسی لڑکی کے پاس کھڑا تھا اس کی کسی بات پر وہ مسکرایا تھا اس کی دلکش مسکراہٹ دیکھ کر اس کا دل اندر تک جل گیا، وہ غصے سے اس لڑکی کو گھور رہی جب اسے اپنے بلکل پاس سے کسی خاتون کی آواز سنائی دی۔
"جیسے آپ زینیا کو دیکھ رہی ہیں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آپ ہی مسز خان ہیں۔" وہ خاتون شاید تب آکر بیٹھی تھیں جب وہ ضرار اور اس لڑکی کو گھور رہی تھی۔
"میں فبیحہ قریشی۔" قریشی سنتے ہی مہرماہ کے ذہن میں شاہ میر کی باتیں کلک ہوئی تھیں۔ وہ اب بھی زبردستی کا مسکراتے مہرماہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"جب میں نے سنا کہ آج کی پارٹی میں مسٹر خان کے ساتھ ان کی وائف بھی آئی ہیں تو پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ ان کی وائف کی تو ڈیتھ ہو چکی ہے لیکن پھر سمجھ گئی کہ انہوں نے بالآخر چار سالوں بعد دوبارہ شادی کر ہی لی۔" مہرماہ خاموش رہی البتہ دھیما سا مسکرا دی۔
"ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھنے کی عادت ڈال لیں یہ تو آپ کو ہر پارٹی میں ساتھ ساتھ ہی نظر آئیں گے۔" مہرماہ نے اس کی نظروں کے تعاقب میں ضرار اور اس کے ساتھ کھڑی لڑکی پر ایک نظر ڈالی، ابھی بھی وہ کسی بات پر ہنسا تھا، اس وقت اسے ضرار کی دلکش مسکراہٹ زہر لگی۔
"مسٹر خان کی اپنی دونوں وائف اتنی پیاری ہیں آئی مین زرش بھی خوبصورت تھی اور آپ بھی اتنی خوبصورت ہیں۔ ناجانے انہیں زینیا میں کیا نظر آتا ہے، زرش کوبھی مسٹر خان کا زینیا سے اتنا فرینک ہونا ذرا پسند نہیں تھا۔" اس کی باتوں کے جواب میں بھی مہرماہ خاموش رہی تو جلد ہی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
•••••••••
مہرماہ تھوڑی دیر بعد ہی جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھتی شاہ میر کے پاس کھڑی تھی۔
"شاہ میر اپنے ڈیڈ کو کہو ڈرائیور سے کہیں مجھے گھر چھوڑ آئے۔" پلکیں جھپکاتے اس نے آنسوؤں کو پیچھے دھکیلا۔
"کیا ہوا ہے مما، ایک منٹ کہیں مسز قریشی نے تو کچھ نہیں کہا؟؟" وہ مہرماہ کی آنکھوں میں آتے آنسو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
"جو بھی کہا ہے سچ ہی ہو گا۔" شاہ میر نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا، ضرار اور زینیا کو دیکھ کر اسے ساری بات سمجھ آ گئی۔
"مما جیسا آپ سوچ رہی ہیں ویسا کچھ بھی نہ۔۔۔" "مجھے کچھ نہیں سننا بس اپنے ڈیڈ کو کہو، ورنہ میں خود چلی جاؤں گی۔" مہرماہ نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔
" وہ بس ڈیڈو کی پارٹنر ہیں اور موم کی فرینڈ۔" شاہ میر اس کا ہاتھ پکڑتے اسے ایک خاموش گوشے میں لے آیا۔
"تو پھر وہ زرش کی موت کا قصروار خود کو کیوں سمجھتے ہیں؟" مہرماہ خود نہیں سمجھ پائی تھی کہ وہ یہ سوال شاہ میر سے کیوں کرگئی اور شاہ میر کے چہرے کا رنگ بدلتا دیکھ کر اسے آج اپنے بغیر سوچے سمجھے بولنے پر خود سے نفرت ہوئی تھی۔
"کیوںکہ ڈیڈ کسی اور سے محبت کرتے تھے اور۔۔۔۔۔" مہرماہ کی طرف دیکھ کر شاہ میر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا کہ وہ صحیح بات غلط وقت پر غلط طریقے سے کر گیا تھا۔
"میں ڈیڈو کو بلاتا ہوں۔" مہرماہ کو بیرونی دروازے کی طرف جاتا دیکھ وہ جلدی سے اسے روکتا ضرار کی طرف بڑھا۔ ناچاہتے بھی مہرماہ کو رکنا پڑا کیونکہ وہ یہاں کے راستوں سے لاعلم تھی ورنہ اب تو وہ ضرار کی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہ تھی۔
"یہ میری وائف ہیں مہرماہ ضرار خان اور مہرماہ یہ میری بزنس پارٹنر ہیں زینیا بیگ۔" ضرار نے اسے کندھوں سے تھاما اور اس کے اتنے استحقاق کے ساتھ اپنا نام اس کے نام کے ساتھ جوڑنے پر وہ تلخی سے مسکرائی۔
"واؤ ضرار آپ کی وائف تو بہت خوبصورت ہیں۔" اس کی منہ سے تعریف مہرماہ کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اس نے ضرار کی طرف دیکھا جو پاس ہو کر بھی اسے خود سے بہت دور لگا وہ نہ کبھی پہلے اس کا تھا نہ اب۔
"کیا ہوا ماہی، طبعیت زیادہ خراب ہے؟" ضرار نے منہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا جو ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ جواب دینے کی بجائے سر جھکا گئی۔
"اوکے زینیا کل ڈنر پر ملاقات ہو گی۔" وہ مہرماہ کی طبیعت خرابی کے سبب اس سے الوداعی کلمات کہتا باہر کی طرف بڑھا، مہرماہ اس کے حصار سے نکلتی شاہ میر کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھ گئی۔
•••••••
ہانیہ کو بہت تیز بخار تھا، جس کی وجہ سے وہ ہاسپٹل بھی نہیں گئی تھی،اس کا خیال رکھنے کے لیے حریم نے بھی آج کا دن آوف لے لیا تھا۔ لیکن حورعین کو زوھان اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا، ڈےکئیر میں چھوڑنے کی بجائے وہ اسے اپنے ساتھ ہی اپنے ڈیپارٹمنٹ لے آیا۔
"اسلام علیکم ڈاکٹر زوھان یہ پیاری سے گڑیا کون ہے؟" کسی سینئر ڈاکٹر نے حورعین کے گال پیار سے کھینچتے کہا۔
"وعلیکم السلام۔" وہ ابھی انہیں سلام کے جواب کے بعد کچھ کہتا اس سے پہلے ہی ہاسپٹل کا کافی عملا وہاں اکٹھا ہوگیا تھا ابھی صبح صبح کا وقت تھا تو کوئی پیشنٹس بھی نہیں تھے۔ ہر کوئی کھڑوس سے ڈاکٹر زوھان کے ساتھ پیاری سی بچی دیکھ کر حیران تھا۔
"ڈاکٹر زوھان کی بیٹی کتنی پیاری ہے۔" یہ سنتے ہی زوھان کے ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ درآئی۔
"مگر ڈاکٹر زوھان کی شادی کب ہوئی؟"
"میں نے تو سنا تھا سر بیچلر ہیں۔"
طرح طرح کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں وہ مسکراتا اپنے روم کی طرف بڑھا جب پریشان سے زریاب کو دیکھ کر اس کے قدم بےساختہ ہی اس کی طرف اٹھے۔
"کیا ہوا زریاب اتنی پریشانی میں کہاں جارہے ہو؟" اس کی آواز پر ایمرجنسی وارڈ کی طرف بڑھتے اس کے قدم رک گئے۔
"وہ بجو ایڈمٹ ہیں ادھر تو ان کے پاس ہی جارہا ہوں۔" زوھان کے سامنے زمدا کا ذکر کرنے پر وہ بےوجہ خجل ہوا۔
"کیوں کیا ہوا ہے اسے؟" اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔
" سوسائڈ اٹیمپٹ۔" اس کے منہ سے ادا ہوتے لفظوں پر زوھان کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی۔
"یہ؟؟؟" اس نے حورعین کی طرف اشارہ کیا۔
"حورعین۔" اس کے یک لفظی جواب پر زریاب مزید کوئی سوال نہ کر سکا۔
••••••••
گھر آتے ہی بغیر پریشے، پریہان سے ملے کمرے میں آتے بیڈ سے کشنز نیچے گراتے وہ سر گھٹنوں میں دیے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بند آنکھوں کے سامنے بھی زینیا کا خوبصورت سراپا لہرایا، فل آستینوں والی بلیک میکسی پہنے سر پر حجاب لیے بلاشبہ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ ضرار کو اس کے ساتھ کھڑا یاد آتے ہی وہ بیدردی سے حجاب سر سے کھینچتے، کلائی میں موجود بریسلٹ اتار کر پھینکتے وہ پھر سے سر گھٹنوں پر گرا گئی۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ضرار اندار داخل ہوا۔ کمرے اور مہرماہ کی حالت دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔
"مہرماہ طبعیت زیارہ خراب ہے تو اٹھو ہاسپٹل چلتے ہیں۔" شاہ میر اسے مہرماہ کی خراب طبعیت کا کہہ کر لایا تھا اب مہرماہ کی حالت دیکھ کر وہ پریشان ہو گیا۔
"طبعیت نہیں قسمت خراب ہے ہماری۔" وہ سر اسی طرح گھٹنوں پر گرائے بولی، اس نے پریشانی سے اس کے گھٹنوں پر رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"ہاتھ مت لگائیں ہمیں۔" اس نے اس کا اپنا ہاتھ پر دھرا ہاتھ بیدردی سے جھٹکا۔
"پہلے اخزم اور اب آپ، ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے آخر ہمارا قصور کیا ہے؟" وہ تلخی سے کہتی آخر میں چینخی۔ ضرار ابھی بھی اس کی بات سمجھنے سے قاصر تھا۔
"نہیں بلکہ اخزم تو آپ سے قدرے بہتر تھا، منگ تھے ہم اس کی اس کی غیرت کو چوٹ پہنچتی اگر اس کے منگنی توڑنے پر ہم کسی اور سے شادی کر لیتے اس نے تو اپنی انا کی تسکین کے لیے ہم سے شادی کی مگر آپ۔۔" غصے سے اس کا تنفس پھول گیا۔ ضرار حیرت سے یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
"مگر آپ کی تو کوئی مجبوری نہیں تھی، نہ ہم آپ کی منگ تھیں نہ ہی زرش، بلکہ زرش سے تو آپ کی مرضی سے آپ کی شادی ہوئی تھی۔ ہم سے شادی کے لیے بھی آپ کو کسی نے فورس نہیں کیا تھا داجی نے آپکی رضامندی لی تھی اس شادی کے لیے۔" سانس بحال کرتے وہ پھر سے بولنا شروع ہوئی، ضرار سپاٹ چہرہ لیے خاموشی سے اس سن رہا تھا۔
"جب محبت کسی اور سے تھی تو پھر شادی بھی اسی سے کرتے ہم دونوں کی زندگی کیوں برباد کی۔" اس کی بات پر ضرار کا دماغ چکرا گیا۔ وہ غصے سے کہتی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
"بزنس پارٹنر تو ہے ہی وہ آپ کی لائف پارٹنر بھی بنا لیتے۔" اس کی اگلی بات پر ضرار دم بخود رہ گیا۔
"پتا بھی ہے کیا بکواس کر رہی ہو۔" ضرار نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔ بازو پر اس کی گرفت سخت تھی، مہرماہ کو اس کی انگلیاں اپنے بازو میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئیں۔
"تو کیا آپ زینیا سے محبت نہی۔۔۔۔" ضرار کا ضبط جواب دے گیا، اس کا ہاتھ اٹھا اور مہرماہ کے چہرے پر سرخ نشان چھوڑ گیا۔ مہرماہ نے بےیقینی سے اسے دیکھتے اپنے ہونٹ کو ہاتھ لگایا جہاں سے خون کی ننھی بوند نکلی تھی۔ ضرار ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتا باہر نکل گیا۔ ضرار کے چھوڑنے پر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی ٹیبل کا کونہ ماتھے پر لگنے سے وہ کراہی۔
•••••••
نو دس سال بعد وہ زوھان کو یوں روبرو دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنے ماضی کے کیے گئے فیصلے پر افسوس ہوا۔ اس نے زوھان کو اس لیے چھوڑا تھا کہ وہ پابندیوں کی قائل نہیں تھی۔ حویلی سے باہر جاتے وقت خان حویلی کی خواتین کا خود کو چادر سے ڈھاپنا اسے سخت ناپسند تھا۔ لمبے لمبے ڈوپٹے دیکھتے اسے سخت کوفت ہوتی تھی۔ وہ تو موحد خان کی وجہ سے بمشکل ہی سر کو ڈھانپتی تھی کجا کہ چہرے کو بھی ڈھانپنا۔ ماہیر خان کی وسیع النظری اس کے دل کو بھا گئی تھی، زمانے کی غلیظ نظروں سے خود کی حفاظت کے لیے اپنے خاندان کی تعین کردہ حدود اسے تنگ نظری اور جہالت لگتی تھی، سوچ تو اس کی آج بھی نہیں بدلی تھی بلکہ ماہیر خان کی حویلی کی پابندیوں نے اسے مزید باغی کر دیا تھا۔ وہ اب کسی بھی حال میں ماہیر خان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی۔
زوھان نے ایک نظر اس پر ڈالنے کے بعد دوبارہ اسے نہیں دیکھا تھا وہ جتنا وقت وہاں رہا موحد خان، سمعیہ خانم اور ژالے خان سے باتوں میں مصروف رہا۔ وہ اپنے ڈیوٹی آورز ختم ہونے کے بعد زریاب کے ساتھ یہاں آیا تھا زریاب تو کچھ دیر ہی یہاں رہا، زوھان کو سمعیہ خانم نے اصرار کر کے روک لیا۔ وہ زمدا کی لگاتار خود پر پڑتی نظروں سے بےخبر نہیں تھا مگر موحد خان کی وجہ سے ضبط کیے ہوئے تھا۔
"بی بی جان اب مجھے اجازت دیں، یقین جانیں اگر مجھے ضروری کام نہ ہوتا تو کچھ دیر مزید آپ کے پاس رک جاتا۔" زوھان نے ایک نظر ہاتھ میں بندھی گھڑی پر ڈالی، اسے حورعین کو بھی ابھی ڈے کئیر سے لینا تھا اور ہانیہ کی فکر بھی ستا رہی تھی۔
"ٹھیک ہے بچے خیر سے جاؤ، فی امان اللّٰہ۔" سمعیہ خانم نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، ژالے خان نے افسوس بھری نگاہ زمدا پر ڈالی جس نے اپنی ضد میں زوھان جیسے ہیرے کو ٹھکرا دیا تھا، ژالے نے بھی پیار سے اس کے اپنے سامنے جھکے سر پر ہاتھ پھیرا۔ موحد خان سے بغلگیر ہوتے زمدا کو دیکھے بغیر وہ باہر نکل گیا۔
•••••••••
رات کے تین کا وقت تھا جب ضرار گھر لوٹا۔ مہرماہ کی بات نے اسے بہت دکھ پہنچایا تھا وہ بے مقصد ہی نیویارک کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا اب بےدلی سے وہ کمرے میں داخل ہوا۔ مہرماہ پریشے اور پریہان کی طرف رخ کیے سو رہی تھی۔ اس نے اپنا ایک بازو اپنی آنکھوں پر رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرا بازو ایک طرف لیٹیں پریشے، پریہان پر۔ ضرار نے آگے بڑھ کر اس کا بازو اسکی آنکھوں سے ہٹایا۔ مہرماہ کے چہرے پر مٹے مٹے آنسوؤں کے نشان تھے، ماتھے اور ہونٹ کے کنارے پر خون جما ہوا تھا جبکہ گال پر اس کی انگلیوں کے نشان واضح تھے۔ اس نے نرمی سے اس کے سرخ گال کو چھوا وہ ہلکا سا کسمسائی۔ اس کی نیند ٹوٹ جانے کے ڈر سے ضرار نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ اس پر کمفرٹر ڈالتے وہ سٹڈی میں چلا گیا۔
ضرار مہرماہ کو تھپڑ مارنے پر شرمندہ تھا مگر مہرماہ نے اس کے ساتھ ساتھ کسی اور کی ذات کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ مہرماہ کی باتوں نے اسے بہت تکلیف پہنچائی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ مہرماہ شروع سے ہی جذباتی تھی، ہمیشہ کہہ دینے کے بعد سوچتی تھی۔ ضرار آج خاموشی سے اس کی بات سن کر اس کی ساری غلط فہمیاں دور کرنا چاہتا تھا مگر زینیا کے ذکر پر وہ ضبط کھو بیٹھا تھا اور غصے میں اسے تھپڑ جڑ دیا۔
••••••••
"پاخیر راغلے۔" کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہ بغیر دستک دیے ہی اندر آ گیا۔
"پاخیر راغلے لالا، کہاں رہ گئے تھے آپ؟" حریم نے ہانیہ کے پاس سے اٹھتے زوھان سے حورعین کو پکڑا۔
"اب کیسی طبعیت ہے اس کی؟" زوھان نے حریم سے پوچھتے ایک نظر ہانیہ پر ڈالی۔ وہ چادر کو منہ تک ڈالے لیٹی ہوئی تھی۔
"بہتر ہیں، کب سے انتظار کر رہی تھیں حورعین کا۔" حورعین کے نام پر زور دیتے حریم نے شرارت سے کہا۔
"میرا انتظار کریں گی بھی کیوں ؟" زوھان دروازے کی طرف مڑا۔
" کیوں آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بھی انتظار کیا جائے؟" حریم کی بات پر وہ ایکدم پلٹا۔
"اس بات کا مطلب بھی پتا ہے؟" حریم نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا جہاں اطمینان ہی اطمینان تھا، اسے اس کی بات پر ذرا غصہ نہیں آیا تھا۔
"پتہ ہے لالا اسی لیے تو پوچھ رہی ہوں۔ آپ اور ہانیہ ہائے ۔۔۔ کتنے پیارے لگیں گے ایک ساتھ" وہ پرجوش سی دل پر ہاتھ رکھے بولی۔
"اپنی سوچوں کو اور اپنی زبان کو لگام ڈالو۔" ہنستے ہوئے زوھان نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
"لالا کیا ایسا ہو نہیں سکتا؟" ایکدم ساری خوشی ماند پڑ گئی۔
"یہاں بات صرف تمہاری اور میری سوچ اور رضامندی کی نہیں ہے، ہانیہ کی رضامندی کی بھی ہے۔ "
"رشتے وہی پائیدار ہوتے ہیں جو دل سے جوڑے جائیں ورنہ مجبوری کے تحت جڑے رشتے بس پیروں کی زنجیر محسوس ہوتے ہیں۔" وہ بات کرتا کمرے سے باہر آگیا۔
"مطلب اس رشتے کے لیے آپ کی رضامندی تو ہے ناں۔" اس نے زوھان کی اتنی لمبی بات سے صرف اپنے مطلب کی بات اچک لی۔
"اب میں نے ایسا بھی کچھ نہیں کہا۔" زوھان نے کندھے اچکائے۔
"تو آپ نے انکار بھی تو نہیں کیا۔" وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔
"ہانیہ بیمار ہے اور تم اس کی تیمارداری میں لگی رہی اس کا مطلب کھانے کیلیے تو کچھ بھی نہیں ہو گا، اب اس کا انتظام بھی مجھے ہی کرنا پڑے گا۔" حریم کی بات کا جواب دینے کی بجائے وہ خود سے ہی بات کرتا سیڑھیاں اترنے لگا۔
حریم اس کے بات بدلنے پر مسکراتی واپس کمرے میں چلی گئی۔
•••••••
مناہل کو دیکھے اور اس سے بات کیے معید کو پانچ مہینے ہو گئے تھے۔ پشاور آنے کے بعد اسے تقریباً روز ہی مناہل کی کال آتی مگر وہ اٹھانے کی بجائے کاٹ دیتا۔ رفتہ رفتہ کال آنے کا دورانیہ بڑھا اور اب تو وہ سلسلہ بھی کچھ دنوں سے منقطع ہو گیا تھا مگر معید کی مناہل سے ناراضگی ہنوز قائم تھی۔
وہ صرف مناہل کی ہی نہیں بلکہ ہاسپٹل میں آنے والے ہر ڈاکٹر کی بھرپور مدد کرتا تھا بقول اس کے 'ہر خوبصورت لڑکی معید خان کی مدد ڈیزرو کرتی ہے'۔ اس کی نظر میں بھی خوبصورتی کی وہی تعریف تھی جو زوھان کی نظر میں تھی۔ وہ دل پھینک طبعیت کا مالک بھی نہ تھا۔ حریم کو بھی دیکھتے ہی وہ پہچان گیا تھا مگر جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہا تھا، زوھان بھی اس بات سے واقف تھا کیونکہ حریم کی یہاں موجودگی کے متعلق وہ اسے پہلے ہی آگاہ کر چکا تھا۔
آہستہ آہستہ اس کی مناہل سے دوستی محبت میں بدل گئی، وہ آج تک نہیں جان سکا کہ اسے مناہل سے محبت ہوئی کب تھی۔ وہ جانتا تھا اس کی محبت یکطرفہ ہے اور یکطرفہ محبت زیادہ تر لاحاصل ہی رہا کرتی ہے۔ وہ مناہل کی زوھان سے محبت سے بھی واقف تھا۔ فقط اپنی محبت کی خاطر اس نے اپنی زوھان اور مناہل سے دوستی میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ زوھان کی آنکھوں میں ہانیہ کے لیے فکر دیکھ کر مناہل کے دکھ کو اس نے بھی محسوس کیا تھا، بہت بار اسنے چاہا کہ مناہل کو اس کی محبت مل جائے مگر محبت پر کس کا زور ہے۔ محبت تو کبھی کسی پہر بھی بےخبری میں ہی دل میں اپنے پنجے گاڑھ لیتی ہے۔ مناہل کی محبت بھی یکطرفہ تھی اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ مناہل واپس لاہور بھی زوھان کی وجہ سے ہی گئی تھی کیونکہ وہ تین سالوں سے زوھان کے لیے ہی وہاں تھی۔ زوھان کے پشاور آ جانے کے بعد وہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ معید اس کے لاہور جانے کا نہ بتانے پر ابھی تک اس سے ناراض تھا۔
•••••••••
"زمدا ہمارے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے، آغا جان اور بی بی جان بھی وہیں ہیں۔ آج وہ لوگ تمہارا پوچھ رہے تھے تو کل ہاسپٹل جاتے ہی ان سے مل لینا۔" کھانا حریم کے حلق میں اٹکا، اسنے کھانسنا شروع کر دیا۔ زوھان نے جلدی سے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا جو وہ پہلے ہی ہاتھ میں لیے ہوئے تھا وہ جانتا تھا حریم کا ردعمل کچھ ایسا ہی ہوگا۔ ہانیہ نے پریشانی سے چئیر سے اٹھتے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔
"کیا کہا آغا جان مطلب موحد جبار خان میرا مطلب حریم شہیر خان کا پوچھ رہے تھے۔" اس نے خود کی طرف اشارہ کیا، بےیقینی لہجے سے ٹپک رہی تھی جبکہ آنکھیں کھانسنے کی وجہ سے پانی سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے ایکدم قہقہہ لگایا۔
"نہ کریں لالا، ایسی بات مذاق میں بھی نہیں کرتے کسی کا ہارٹ بھی فیل ہو سکتا ہے۔" وہ مصنوئی افسوس سے اس کی طرف دیکھتی آنکھوں سے بہتا پانی صاف کرنے لگی۔ ہانیہ کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا جبکہ زوھان نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
"تو اس کا مطلب آپ آج زمدا بجو کی وجہ سے لیٹ ہوئے ہیں؟" وہ جلد ہی سنجیدہ ہو گئی تھی۔ ہانیہ خاموشی سے اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہو گئی۔ حریم پہلے ہی اسے زوھان اور زمدا کے بارے میں بتا چکی تھی مگر وہ یہ نہ بتا سکی کہ زوھان کے دل میں زمدا کیلئے کوئی فیلنگز نہیں ہیں کیونکہ وہ تو خود آج تک یہی سمجھتی آئی تھی کہ زوھان کے شادی نہ کرنے کی وجہ زمدا ہے۔
"ہاں۔" یک لفظی جواب اسے غصہ دلا گیا تھا۔
"مگر کیوں لالا، آپ کیوں گئے؟" وہ غصے سے چلائی۔
"آرام سے ریم کان کے پردے پھاڑنے ہیں کیا؟؟ اور نہ جانے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔
"تو جانے کی کیا وجہ تھی لالا؟" ہانیہ بظاہر تو کھانے میں مصروف تھی مگر اس کی سماعت اس کی طرف متوجہ تھی۔
"کیا یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ وہ میری فیانسی ہے۔" وہ جان بوجھ کر حریم کو چڑانے کیلئے یہ سب بول رہا تھا۔
"ایکس فیانسی لالا اور ہے نہیں تھی، کوریکٹ اٹ۔" حریم نے دانت پیستے کہا، زوھان اس کی بات پر مبہم سا مسکرایا۔
"ہے نہیں تھی والی تمہاری بات ٹھیک ہے مگر ایکس والی نہیں۔ میرے خیال میں 'فیانسی' فیانسی ہوتی ہے ایکس یا پریزنٹ نہیں، یہ ایکس اور پریزنٹ تو بیوی ہوتی ہے۔" وہ ہر لفظ پر زور دیتے بولا۔
"پر مجھے وہ نہیں پسند۔"
"مجھے تو پسند ہے ناں۔"
"لالا آپ مذاق کر رہے ہیں ناں۔"
"نہیں میں بالکل سیریس ہوں۔"
"لیکن وہ مورجان اور دیدا کو بھی نہیں پسند۔"
"ہاں پھر اس سے دوبارہ نہ ملنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔"
"مطلب صرف ملیں گے نہیں، پسند اب بھی وہی ہے۔"
"پاگل مذاق تھا۔"
اگر زوھان کو معلوم ہوتا یہ مذاق مستقبل قریب میں اسے کتنا بھاری پڑنے والا تھا تو وہ غلطی سے بھی کبھی ایسا مذاق نہ کرتا۔
حریم نے سکھ کا سانس لیا۔ زوھان اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے اٹھ کر چلا گیا۔ ہانیہ کو اپنے منہ میں ابھی بھی کرواہٹ گھلتی محسوس ہو رہی تھی۔
••••••••جاری ہے۔
Don't forget to give your precious reviews 💫
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...