وہ ہمیشہ کی طرح تھری پیس زیب تن کیے، ایک ہاتھ کی کلائی میں گھڑی پہنے دوسرے ہاتھ میں موبائل پکڑے بہت خوبرو لگ رہا تھا۔ چئیر گھسیٹتے اس نے غیر ارادی نظر مہرماہ پر ڈالی جو لاؤنج میں صوفے پر پریشے پریہان کے پاس بیٹھی یک ٹک اسے ہی دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ابھرتی ناگواری دیکھتے ہی وہ سٹپٹائی۔
چائے کا خالی کپ ٹیبل پر رکھتے پریشے اور پریہان کے ماتھے پر ہمیشہ کی طرح بوسہ دیتے وہ سکول کیلیے بالکل تیار کھڑے شاہ میر کو ساتھ لیے،اماں بی کو سلام کرتا بغیر اس کی طرف دیکھے باہر نکل گیا۔
ثریا بیگم بھی افسوس سے اسے دیکھتے کچن کی طرف چلی گئیں۔ وہ آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے آنکھیں بند کرتی صوفے کی پشت پر سر گرائے نیم دراز ہو گئی۔
ضرار کا رویہ پچھلے تین ماہ سے اس کے ساتھ ایسا ہی تھا وہ بغیر کسی کام کے اسے مخاطب بھی نہیں کرتا تھا جہاں وہ ہوتی وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا۔ قصوروار بھی تو وہ خود تھی ۔
اس کی آنکھوں کے سامنے وہ لمحے آ ٹھہرے جب وہ پریشے اور پریہان کے ساتھ بروکلین آئی تھی ضرار اور شاہ میر کی خوشی ان کے چہروں سے ہی جھلک رہی تھی۔ دن ایسے ہی ہنسی خوشی گزر رہے تھے۔ وہ آج بھی یہ اندازہ نہ لگا پائی تھی کہ ضرار اس شادی سے خوش ہے کہ نہیں۔ یہ سوچ اسے اکثر ہی جھنجھلاہٹ کا شکار کر دیتی تھی۔
اسے رات کی تاریکی لیے وہ صبح یاد آئی جو اس کی زندگی کو دوبارہ ویران کر گئی۔ ضرار اسے بہت خوش لگ رہا تھا۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھی جب اسے خود پر ضرار کی تپش دیتی نظریں محسوس ہوئیں اس نے آئینے سے ہی ضرار پر ایک نظر ڈالی وہ بغیر آنکھیں جھپکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ جہاں دل کے ایک خانے میں سرشاری نے ڈیرے جمائے وہیں ایک خانے میں خوف کنڈلی مارے بیٹھ گیا، اسے اخزم کی خود پر پڑتی ستائشی نظریں یاد آئیں ۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں مگن تھی جب اسے اپنے کان کے بالکل قریب ضرار کی آواز سنائی دی۔ وہ اسے کندھوں سے تھامے بلکل اس کے قریب کھڑا تھا۔
"ہمیشہ کی طرح بہت پیاری لگ رہی ہو۔" وہ ضرار کیساتھ جسم کا نہیں روح کا رشتہ چاہتی تھی۔ اس وقت اسے ضرار میں اخزم کی جھلک نظر آئی۔
"دور رہیں ہم سے، ہاتھ بھی مت لگائیے گا ہمیں۔" اس کے ہاتھ اپنے کندھوں سے جھٹکتے اسے پیچھے کو دھکا دیتے وہ غرائی۔
"ہم اس گھر میں شاہ میر کی ماں کی حیثیت سے موجود ہیں، ہمیں اپنی بیوی سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرئیے گا۔"وہ ابھی اس کی پہلی بات نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس کی اگلی بات اسے ششدر کر گئی۔ وہ ضرار کو اس وقت اپنے حواسوں میں نہیں لگی تھی۔
ہوش تو اسے تب آیا جب ضرار دروازہ زور سے بند کرتے کمرے سے چلا گیا۔ انجانے میں ہی سہی مگر ضرار کو وہ خود سے بہت دور کر گئی تھی۔
کئی آنسو لڑیوں کی صورت میں اس کی بند آنکھوں سے نکل کر اس کے رخسار بھگو گئے تھے۔
شروع شروع میں تو مہرماہ نے ضرار کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا کہ کچھ دنوں میں خودی سب صحیح ہو جائے گا مگر سب کچھ ویسا ہی چلتا رہا تو اسے ضرار کی یہ بےرخی کِھلنے لگی۔ پچھلے کچھ دنوں سے اس کے آنسو بات بے بات ایسے ہی نکل آتے تھے۔ وہ شرمندہ تھی ضرار سے معافی مانگنا چاہتی تھی مگر بات کرنا تو دور ضرار اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد دوبارہ دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا۔
•••••••
حریم ہاتھ میں چائے کا کپ لیے کیفے ٹیریا میں ہانیہ کے انتظار میں بیٹھی تھی ہانیہ نے اسے کچھ دیر میں وہیں آنے کا کہا تھا۔ دونوں کی ڈیوٹیز الگ الگ وارڈ میں تھیں مگر فارغ وقت میں کیفے ٹیریا میں ہی پائی جاتیں۔ وہ کافی دیر سے خود پر کسی کی نظریں محسوس کر رہی تھی جب اس نے نظریں اٹھا کر سامنے کی ٹیبل پر دیکھا تو اسے وہم کا گمان ہوا، بار بار آنکھیں جھپکنے پر بھی جب منظر نہ بدلا تو آنکھوں میں حیرانی کی جگہ غصہ امڈ آیا۔ اس کے دیکھنے پر بھی وہ جب مسلسل اسے دیکھتا رہا تو اس نے اسے گھورا مگر حریم اس کی ڈھٹائی کی داد دیے بنا نہ رہ سکی کہ اس کے گھورنے پر بھی اس فلرٹی (بقول حریم) کے دیکھنے میں رتی بھر فرق نہ آیا تھا۔
"بیہودہ انسان تم یہاں کیا کر رہے ہو؟" ایک جست میں اس کے سر پر پہنچ کر وہ دبی آواز میں چینخی۔
"آپ کو دیکھ رہا ہوں۔" وہ اب بھی اسے دیکھے جا رہا تھا۔ حریم کو اس کا دیکھنا، دیکھنا کم گھورنا زیادہ لگ رہا تھا۔
"مجال ہے جو تم کبھی سیدھا جواب دے دو۔" وہ وہاں سے پلٹتے بڑبڑائی، مگر اس کی بڑبڑاہٹ اسے واضح سنائی دی۔
مجال ہے جو آپ کبھی سیدھا سوال کر لیں۔" وہ بھی اسی کے انداز میں بڑبڑایا۔
"اگر تمہاری یہی حرکتیں رہیں تو کسی دن تم میرے ہاتھوں ضائع ہو جاؤ گے۔" وہ تپ ہی گئی تھی اس کی بات پر اور اسکی خود پرجمی نظریں الگ غصہ دلا رہی تھیں۔
"اسی بہانے ہاتھ تو لگائیں گی ناں آپ، یہ کیا اوٹ پٹانگ سوچی جا رہا ہے، ہوش کر زیبی۔" اپنی سوچ پر خود ہی خود کو ملامت کرتے وہ ہنسا۔ حریم اسے خود کی سوچوں میں غرق دیکھ کر وہاں سے واک آؤٹ کر گئی۔
•••••••
"کیا ہو گیا لڑکی مجھے کیفے آنے کا کہہ کر خود اتنی جلدی میں کہاں بھاگی جا رہی ہو؟" ہانیہ نے تیزی سے اس کے قریب پہنچ کر اسے بازو سے پکڑے روکا۔
"کیا ہوا اتنا منہ کیوں پھلایا ہوا ہے؟" غصے سے لال ہوتا اس کا چہرہ دیکھ کر اس نے مزید سوال داغا۔
"لالا کو وہی بتانے جا رہی ہوں ان کو بتاؤں گی تو آپ بھی سن لینا۔" اس کے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہنے پر ہانیہ نے انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسی۔
"آرام سے کسی اور کا غصہ مجھ پر کیوں اتار رہی ہو، اچھا نہ چلو تمہارے لالا کے پاس ہی چلتے ہیں۔" ہانیہ کے جان بوجھ کر 'تمہارے لالا' کہنے پر بھی اس نے اسے نہیں چھیڑا تھا مطلب کہ وہ واقعی بہت غصے میں تھی، ایسا تو نادر ہی ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی خاموشی سے اس کے پیچھے ہی چل پڑی۔
•••••••••
چیزیں پٹخنے کی آواز پر اس کی آنکھ کھلی۔ ضرار کے انتظار میں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جو رات کے بارہ بجا رہی تھی۔ ضرار نے اب بھی واش روم کا دروازہ ایک دھاڑ سے بند کیا۔ وہ اگر غصے میں مہرماہ کو کچھ نہیں کہتا تھا تو اپنا سارا غصہ اسی طرح چیزوں اور دروازوں پر اتارتا تھا۔ وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ ضرار سے اپنے کیے کی معافی کیسے مانگے جب زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز پر وہ چونکی۔
"ہم۔۔۔ آپ کے لیے کھانا لگا دیں۔" ضرار کے بالوں میں برش پھیرتے ہاتھ تھم گئے تھے۔ وہ بالکل اس کے پیچھے کھڑی تھی۔ اس نے آئینے سے ایک نظر اس پر ڈالی۔
"تم اس گھر میں میرے بچوں کی ماں کی حیثیت سے رہ رہی ہو، زیادہ میری بیوی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔" وہ درشتتگی سے کہتا اپنا لیپ ٹاپ اٹھاتا کمرے سے ملحق سٹڈی میں چلا گیا۔
سہنے والے کی اذیت کا صحیح اندازہ تب ہوتا ہے جب اپنے ہی کہے لفظوں کے تیر کسی اور کی کمان سے نکلیں اور اس کا نشانہ ہم ہوں۔
مہرماہ کے آنسو اس کے لفظوں پر نہیں بلکہ اپنے کہے لفظوں سے ضرار کو لگائے گھاؤ کا سوچتے بہہ نکلے تھے۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
دونوں کی رات آج پھر آنکھوں میں کٹنے والی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی حالت سے باخبر ہو کر بھی بے خبر تھے۔
•••••••••
زوھان کے روم کی طرف جاتے وقت رستے میں ہی حریم کو اس کے وارڈ کی نرس بلانے آ گئی۔ ایمرجنسی کی وجہ سے اسے اپنا زوھان کے پاس جانے کا ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ اب وہ دونوں فارغ ہو کر زوھان کے پاس ہی جا رہی تھیں۔ وہ دھڑم سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی۔
"یہ کیا حرکت ہے حریم، یہ گھر نہیں ہاسپٹل ہے۔" وہ ناگواری سے بولا، پیشانی پر بھی شکنیں پڑگئیں۔
"میری حرکت کو چھوڑیں لالا مجھے یہ بتائیں، وہ چھچھورا، ٹھرکی، بیہودہ انسان، ایک نمبر کا فلرٹی۔۔۔۔ اور اور کیا ہوتا ہے ہانیہ۔۔" وہ زوھان کی تنبیہی نظروں اور کمرے میں کسی اور کی موجودگی کو یکسر نظرانداز کیے ہمیشہ کی طرح نان سٹاپ شروع ہو گئی۔ ہوش تو اسے تب آیا جب زوھان کی سامنے کی کرسی پر بیٹھے شخص نے پلٹ کر اس کی طرف ایک شرارتی مسکراہٹ اچھالی۔
" یہ یہاں کیا کر رہا ہے لالا؟" وہ دوبارہ زوھان سے مخاطب ہوئی، اسے دیکھ کر وہ پھر سے آگ بگولہ ہوگئی تھی۔
"جو آپ یہاں کر رہی ہیں۔" زوھان نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا۔
"میں تو یہاں جاب کرتی ہوں۔"
"ظاہر سی بات ہے یہ بھی یہاں جاب کیلیے ہی آیا ہے، کرکٹ کھیلنے تو آئے گا نہیں۔"
"آپ اسے یہاں کیسے رکھ سکتے ہیں؟" وہ بےیقینی سے گویا ہوئی۔
"جیسے آپ کو رکھا ہوا ہے۔"
"لالا لیکن میں آپ کی بہن ہوں حریم شہیر خان۔" لہجہ ایسا تھا جیسے وہ اسے یاد دلا رہی ہو کہ وہ اس کی بہن ہے وہ اپنی بہن کی خاطر اسے نہیں رکھے گا۔
"خور یہ بھی میرا بھائی ہے زریاب دراب خان۔" اس نے پیار سے اسے سمجھانا چاہا مگر اسے تو اپنا مان ٹوٹتا محسوس ہوا وہ بھی اس شخص کے سامنے جو اسے بچپن سے ہی ناجانے کیوں برا لگتا تھا۔
"تو پھر اسے بھی سمجھائیں ناں کہ آپ کی بہن اس کی بھی بہن ہے۔" وہ تنگ آ گئی تھی زریاب کی بولتی نگاہوں سے۔ زریاب کو امید نہیں تھی کہ وہ یہ بات زوھان کے سامنے اس طرح کہہ دے گی مگر وہ حریم شہیر خان تھی دوسروں کی امید سے الٹ کام کرنے والی۔
"آپ جیسے ان کی بہن ہیں ویسے میری بہن نہیں ہیں۔" اس کے دل کی بات انجانے میں ہی صحیح مگر اس کی زبان پر آ ہی گئی تھی۔
"میرا مطلب لالا یہ آپ کی چھوٹی بہن ہیں مگر میری تو بڑی بہن ہیں ناں" وہ زوھان اور حریم کے گھورنے پر گڑبڑایا۔ ہانیہ کے تو کچھ بھی پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ ناسمجھی سے بس انکی شکلیں ہی دیکھ رہی تھی۔
حریم زریاب پر ایک قہر زدہ نظر ڈالتے باہر نکل گئی ہانیہ بھی اس کے پیچھے ہی آ گئی۔
"لالا میں بھی اب چلتا ہوں۔" وہ شرمندہ سا کہتا اپنی نشست سے اٹھا۔
"حریم کسی کی منگ ہے زریاب۔" وہ اسکی بات سنتے ہی ٹھہر سا گیا، بغیر کچھ کہے باہر نکل آیا۔
وہ اس کا اشارہ بھی بخوبی سمجھ گیا تھا مگر یہ سب اس کے بس میں نہیں تھا اس کی حریم سے محبت کا آغاز تب ہوا تھا جب وہ محبت لفظ کے معنی سے بھی آشنا نہ تھا۔ وہ اس کے نا ملنے پر صبر تو کر سکتا تھا مگر اس کا خیال دل سے نکالنا جسم سے روح نکالنے کے مترادف تھا۔
زوھان جانتا تھا کہ ہانیہ اس سے ناراض ہو کر گئی تھی مگر وہ اس کی ہر بے جا ضد پوری نہیں کر سکتا تھا۔
••••••••
ضرار ریوالونگ چئیر کی پشت پر سر گرائے بیٹھا تھا جبکہ نظریں سامنے دیوار پر کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں۔ وہ مہرماہ، پریشے اور پریہان کے بروکلین آنے پر خوش تھا اپنے رشتے کی شروعات کرنے سے پہلے وہ مہرماہ کو کچھ وقت دینا چاہتا تھا مہرماہ کے اندر سر اٹھاتے وہموں سے بھی بخوبی آگاہ تھا وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس نے اس سے شادی اپنی مرضی سے کی ہے نا کہ داجی کے دباؤ میں آکر وہ اس صبح اپنے رشتے کو آگے بڑھانے کا ارادہ کر چکا تھا اور اس ارادے پر اس کا دل پرسکون تھا۔ وہ اس سے جتنا وقت مانگتی وہ دے دیتا مگر وہ سمجھ گیا تھا کہ اسے اس میں اخزم خان نظر آیا تھا مہرماہ کے الفاظ نے اسے تکلیف پہنچائی تھی۔ اسے اپنا آپ اس وقت بہت حقیر لگا تھا کہ مہرماہ کی سوچ اس کے متعلق ایسی تھی اب تو زرش کی باتیں بھی اسے قیاس آرائیاں ہی لگ رہی تھیں۔
وہ جانتا تھا مہرماہ بچپن سے ہی جذباتی تھی اور اکثر خود کا ہی نقصان کر جاتی تھی۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب مہرماہ، خان حویلی آئی تھی۔
•••
"ہم کہہ رہے ہیں ہمیں یہاں نہیں رہنا ہمیں اپنی حویلی واپس جانا ہے۔" مہرماہ نے غصے میں روتے اپنے سامنے موجود ہر چیز نیچے پھینکی۔ وہ جب سے آئی تھی یہی ضد لیے بیٹھی تھی۔
"مہرو بچے دیکھیں اب سے ہم ہی آپکی مور جان ہیں اور یہ حویلی ہی آپ کا گھر ہے۔" مہزلہ خان نے نرمی سے اس کے ہاتھ پکڑے۔
"آپ ہماری مور جان نہیں ہیں، ہمیں ہماری مورجان کے پاس جانا ہے، زارام لالا چلئیے یہاں سے آغا جان کو ہمارا حویلی سے اتنی دیر باہر رہنا پسند نہیں ہے۔" اس نے غصے میں مہزلہ خان کے ہاتھ جھٹکتے بدتمیزی سے کہا۔ وہ اب زارام کے پاس کھڑی تھی۔
"یہ کیا بدتمیزی ہے مہرماہ، مورجان نے آپ کو یہ سب تو نہیں سکھایا تھا۔" زارام نے اکتا کر اسے تھپڑ لگا دیا۔
"زارام یہ کیا حرکت ہے۔" مہزلہ خان نے اسے جھڑکتے مہرماہ کو گلے لگایا جو ان کے ساتھ لگتے ہی رونے لگی تھی۔
"نہیں جا سکتے ہم وہاں قاتل ہیں وہ ہماری مورجان اور ہمارے بابا جان کے۔" وہ اپنے آنسو صاف کرتا لاؤنج کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
مہزلہ خان دکھ سے اپنے ساتھ لگی چار سالہ مہرماہ اور باہر کی طرف بڑھتے نو سالہ زارام کو دیکھ رہی تھیں۔ حریم تو جب سے آئی تھی شانزے نے ہی اسے سنبھالا ہوا تھا وہ تو دنیا میں آتے ہی والدین جیسے بےغرض، بےمول رشتے کھو چکی تھی۔
اس دن کے بعد مہرماہ پورا ہفتہ بخار میں تپتی رہی تھی۔ مہزلہ خان تو اس کے سرھانے سے اٹھتی ہی نہیں تھیں۔ بخار اترنے کے بعد جو بات اس نے کی تھی وہ مہزلہ خان کو سرشار کر گئی۔
"زارام لالا کہتے ہیں اب سے آپ ہی ہماری مورجان ہیں، ہوسپٹل میں مور جان نے بھی آپ کے آنے سے پہلے یہی کہا تھا ہم سے۔" وہ دھیمے لہجے میں بولی ضرار نے اسے حیرت سے دیکھا کیونکہ جب سے وہ آئی تھی بس چینخ ہی رہی تھی۔
"ہاں بچے اب سے میں ہی آپ کی مورجان ہوں۔" نم آنکھوں سے مسکراتے مہزلہ خان نے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
گزرتے وقت کے ساتھ مہرماہ اور زارام، خان حویلی اور اس کے مکینوں سے مانوس ہو گئے تھے۔ حریم کی پوری ذمہ داری شانزے نے لے لی تھی۔
مہزلہ اور ارباز خان کے تین بیٹے گیارہ سالہ ضرم، نو سالہ زوھان اور آٹھ سالہ ضرار تھے۔ ورشہ اور زوریز کی دو بیٹیاں چھے سالہ زرنش اور چار سالہ زرش تھیں۔ احراز کا ایک ہی پانچ سال کا بیٹا شازیم تھا۔ زارام زوھان کا ہم عمر جبکہ مہرماہ زرش کی ہم عمر تھی۔
"مورجان ہمارے بال بنادیں ہم سے نہیں بن رہے۔" اب تو مہرماہ خود سے مہزلہ خان کو اپنے کام بھی کہنے لگی تھی اس نے دل سے مہزلہ خان کو اپنی ماں مان لیا تھا۔
ارذلہ کی موت کو تین سال کا عرصہ گزر گیا تھا سب کچھ ہی بدل گیا مگر جو نہیں بدلا تھا وہ مہرماہ کا احراز کے ساتھ رویہ تھا وہ آج بھی اسے اپنے باباجانی اور مورجان کا قاتل سمجھتی تھی۔ شانزے اور شازیم کیساتھ اس کا رویہ مثبت تھا مگر اسے دیکھتے ہی وہ ہتھے سے اکھڑ جاتی پھر اسے سنبھال پانا کسی کے بھی بس میں نہیں ہوتا تھا۔
حالات کے پیشِ نظر احراز نے لاہور شفٹ ہونے کا ارادہ کر لیا مگر شازیم تو اسی بات پر ڈٹ گیا تھا کہ وہ یہاں سے کہیں نہیں جائے گا۔ شانزے بھی حریم کو چھوڑ کر جانے پر دکھی تھی مگر وہ احراز کی بات بھی سمجھ رہی تھی۔ ناچار انہیں شازیم کو مہزلہ خان کے پاس ہی چھوڑ کر جانا پڑا۔ شانزے کے چلے جانے پر حریم پورا ایک سال بیمار رہی مگر مہرماہ اسے احراز اور شانزے کے پاس بھیجنے پر رضامند نہ ہوئی۔
مہرماہ شروع سے ہی زوھان کے پاس رہنا زیادہ پسند کرتی تھی کیونکہ ضرم اور زارام سکول سے آکر پڑھنے کے بعد اپنا زیادہ وقت مردان خانے میں گزارتے اور ضرار اسے تنگ کرنے سے باز نہ آتا۔ زوھان کو بھی روتی حریم کی نسبت مہرماہ زیادہ اچھی لگی تھی مگر خیال وہ دونوں کا برابر رکھتا تھا کیونکہ مہزلہ خان نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اپنی دونوں بہنوں کی حفاظت ہر حال میں کرے گا، اپنی خوشی پر ان دونوں کی خوشی کو ترجیح دے گا، مہزلہ خان کو اپنی سب اولادوں سےبے پناہ محبت تھی مگر سنجیدہ سا زوھان ان کے دل میں الگ ہی مقام رکھتا تھا وہ اپنے دل کی ہر بات زوھان سے کیا کرتی تھیں۔ مہرماہ کو خان حویلی کا ہر فرد پسند تھا سوائے ضرار ارباز خان کے وہ اس سے بےپناہ چڑتی تھی۔
"مورجان، خان سے کہیں ہمیں ہماری چاکلیٹس واپس کریں۔"
"مور جان خان کو منع کریں یہ آتے جاتے ہمارے بال کیوں کھینچتے ہیں۔"
"مور جان دیکھئیے ناں خان نے ہماری گڑیا پھر سے توڑ دی۔"
"ماہی اگر اپنی گڑیا چاہیے تو میرے سے لے کر دیکھاؤ۔"
"ماہی تم تو ان کپڑوں میں بالکل چڑیل لگ رہی ہو۔"
"خان مت تنگ کریں میری بیٹی کو۔"
"آخر آپ دونوں سکون سے بیٹھ کیوں نہیں جاتے۔"
یہ وہ آوازیں تھیں جو خان حویلی کا معمول بن گئی تھیں۔ مہرماہ مہزلہ خان کی دیکھا دیکھی ضرار کو خان ہی بلاتی تھی وہ کئی بار مہزلہ خان کے ٹوکنے پر بھی اسے لالا کہنے کی زحمت نہیں کر سکی۔ رفتہ رفتہ ٹام اینڈ جیری بیسٹ فرینڈز بن گئے مگر ان کی آپسی نوک جھوک میں کمی نہ آئی۔ سب ہی کی شخصیت ایک دوسرے سے مختلف تھی مگر یکجہتی اٹوٹ تھی۔
مہرماہ اپنے ڈیبیٹ کامپٹیشن کی تیاری میں مصروف تھی جب ضرار کی آواز پر چونکی۔
"اگر یہ ٹرافی تمہیں نہ ملی تو؟؟" وہ دل میں اٹھتے وسوسوں کو زبان دے رہا تھا۔
"تو کیا، پھر میں ٹرافی سے ایک ہی بات کہوں گی۔" لاؤنج میں موجود سب افراد کے کان اس کے جواب کے منتظر تھے وہ سب ہی اس کے کامپٹیشن کو لے کر پریشان تھے۔
"کیا؟" ضرم نے تجسس سے پوچھا۔
"تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی۔" ایک پل کو دل اس کا بھی گھبرایا مگر وہ جلد ہی اپنے ازلی انداز میں لوٹ آئی۔
"مجھے تو لگا تھا مایوس ہو کر تم اگلی بار کسی کامپٹیشن میں پارٹیسپیٹ ہی نہیں کرو گی۔" ضرار نے اس کی بات پر قہقہہ لگاتے کہا۔
"مایوسی گناہ ہے خان تو میں کیوں ہونے لگی مایوس۔۔۔۔ مانگنا میرا کام تھا دینا نہ دینا اللّٰہ کا۔۔۔۔۔ اب جو بھی ہو گا میں اس کی رضا میں راضی رہوں گی۔" وہ پریقین لہجے میں بولی۔ ضرار کو مہرماہ کی یہی بات تو سب سے زیادہ پسند تھی۔ مہرماہ خان کی اعلیٰ سوچ پر مہزلہ خان کو فخر محسوس ہوا تھا۔
اگلے ہی دن مہرماہ کی چہکتی آواز مہزلہ خان کو اندر تک سرشار کر گئی۔
"دیکھئیے نا مورجان ہم نے کہا تھا نا اس بار بھی یہ ٹرافی ہم ہی جیتیں گے۔"
وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر ہی گیا تھا۔ ضرم، زارام تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ارباز خان کا بزنس سنبھال چکے تھے، زوھان میڈیکل کی تعلیم کیلیے اسلام آباد ہاسٹل میں رہتا تھا۔ ضرار جس یونیورسٹی میں بی۔بی۔اے کے فائنل ائیر میں تھا وہیں مہرماہ اور زرش بی۔بی۔اے فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹس تھیں۔ جبکہ زرنش اسی یونیورسٹی کے بائیولوجی ڈیپارٹمنٹ سے بی۔ ایس بائیولوجی کر رہی تھی۔ شازیم بیچلرز کمپلیٹ کرتے ہی (پی۔ ایم۔ اے) آرمی ٹریننگ کے لیے چلا گیا۔ لگاتار بیمار رہنے کی وجہ سے حریم کے دو سال ضائع ہو گئے تھے وہ ابھی گریڈ 6 میں تھی۔
ضرم زرنش کی شادی کی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی، شادی اگلے مہینے تھی مہرماہ نے پوری خان حویلی کو سر پر اٹھا رکھا تھا، وہ اس شادی کیلئے بہت ایکسائٹڈ تھی اور اسے ہر چیز پرفیکٹ چاہیے تھی۔
سب لوگ شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے، مہرماہ لاؤنج کے صوفے پر ہی پاؤں اوپر کیے گھٹنوں پر میگزین رکھے بیٹھی تھی۔
"مورجان ہمیں نا ضرم لالا اور زرنش بجو کی شادی پر ایسا ہی لہنگا بنوانا ہے۔" خاموش لاؤنج میں ایکدم مہرماہ کی پرجوش آواز گونجی۔ سب نے چونک کے اس کی طرف دیکھا، اس لہنگے کو دیکھ کر مہرماہ کی آنکھیں ہی چمک گئیں تھیں، مہزلہ خان اور اسفند خان اس کے انداز پر مسکرائے۔
شادی کے دن بھی سر پر آ پہنچے تھے، خان حویلی اور سیال حویلی کے لوگوں کی تیاریاں بھی تقریباً مکمل ہی تھیں۔ مہرماہ نے ہر چیز اپنی پسند کی لی تھی، حریم کی ساری شاپنگ شانزے اس کے کہنے پر لاہور سے ہی کر آئی تھی۔ شانزے کے مطابق حریم بہت سلجھی اور سمجھدار تھی جبکہ اس کے متعلق شازیم کے خیالات بہت مختلف تھے وہ شازیم کو ضدی، بدتمیز اور منہ پھٹ لگتی تھی اور وہ اپنی ان تمام خصوصیات کا مظاہرہ بھی صرف شازیم کے سامنے ہی کیا کرتی تھی اور دوسروں کے سامنے معصوم بن جایا کرتی تھی شازیم بھی اس کی ہر شکایت زوھان کے پاس لے کر پہنچا ہوتا تھا باقی جگہ تو اس کا کیس سماعت سے پہلے ہی خارج کر دیا جاتا تھا۔ حریم بھی جان بوجھ کر اسے ہی تنگ کیا کرتی تھی اور ہر وہ کام کرتی جس سے وہ چڑتا، شازیم کو حریم کا اسے 'تم' اور 'شازی' کہنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی اپنی ہر بات کا آغاز ان ہی دو لفظوں سے ہی کرتی۔
شانزے کو خان حویلی آئے پندرہ دن ہوگئے تھے مگر احراز نے بارات سے دو دن پہلے آنے کا کہا تھا۔ مہرماہ اب احراز سے نفرت نہیں کرتی تھی مگر اس کا انداز اس کے ساتھ کافی سرد ہوتا تھا۔
چونکہ مہرماہ اور حریم کو مہندی بہت پسند تھی تو مہزلہ خان نے ان کیلئے خصوصاً مہندی والیوں کو بلوایا تھا۔ زوھان کو بھی جب اسلام آباد سے واپس آنا ہوتا تو دونوں کے لیے مہندی اور چوڑیاں سب سے پہلے لیتا تھا۔ اب بھی وہ زنان خانے میں مہندی لگوا رہی تھیں۔
"مورجان دیکھیں ہماری مہندی کا رنگ کتنا تیز آیا ہے۔" مہرماہ کی کھکھلاتی آواز ضرار کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ وہ ڈوپٹے کو حجاب کی طرح چہرے کے گرد لپیٹے لاؤنج میں کھڑی مہزلہ خان کو اپنی مہندی دکھا رہی تھی۔
سچ میں مہندی کا رنگ بہت تیز آیا تھا اور مہندی اس کے ہاتھوں پر لگ بھی بڑی پیاری رہی تھی۔ ضرار نے جلد ہی اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔
ضرم اور زرنش کی بارات کا دن بھی آ پہنچا سب نے ان کی شادی پر اپنے سارے شوق پورے کیے مہرماہ اور حریم نے ساری رسمیں پوری کیں، اپنے مطلب کے لیے کبھی وہ زرنش کی بہنیں بن کر لڑکی والی بن جاتیں تو کبھی ضرم کی بہنیں بن کر لڑکے والی، دونوں طرف سے انہوں نے ضرم کو خوب لوٹا تھا۔
نماز کے لیے لگائے گئے الارم کی آواز پر وہ ماضی سے نکل کر حال میں لوٹا، وہ کمرے میں آیا جہاں مہرماہ جائے نماز پر سجدے میں تھی، روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔ اس پر ضرار کو ترس تو آیا مگر وہ اسے اتنی جلدی معاف نہیں کرنے والا تھا تاکہ وہ ایسی غلطی دوبارہ نہ کرے۔
•••••••
ہاسپٹل سے آنے کے بعد وہ تینوں ڈنر کر رہے تھے جبکہ حورعین کو ہانیہ ابھی سلا کر آئی تھی۔
"لالا آپ نے زریاب کو جاب اس لیے دی ہے کہ وہ زمدا بجو کا بھائی ہے۔" خاموش فضا میں حریم کی آواز گونجی۔ زوھان اندازہ نہ کر سکا وہ یہ پوچھ رہی تھی یا بتا رہی تھی۔
"وہ زمدا کے بھائی کے علاوہ آغا جان ( اسفند خان کا بھائی موحد خان) کا پوتا بھی ہے۔" اس نے سرد لہجے میں کہا۔
"مگر آپ کے لیے تو پہلے وہ زمدا بجو کا بھائی ہی رہے گا آخر کو وہ آپکی منگ رہ چکی ہیں۔" حریم نے ہاتھ میں پکڑا چمچ پلیٹ میں پٹخا۔
"شادی شدہ ہے وہ۔" حریم کی بات سے اسے کافی صدمہ پہنچا اس نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ہاسپٹل والی چھوٹی سی بات کو خود پر اتنا سوار کر لے گی۔
ہانیہ کو اپنی یہاں موجودگی کچھ غیر مناسب لگ رہی تھی۔
"واپس بیٹھو اور اپنا کھانا ختم کرو۔" ہانیہ کو اٹھتا دیکھ کر وہ بولا۔ ہانیہ نے اس کی طرف دیکھا غصہ ضبط کرنے کیلئے اس نے جبڑے بھینچ رکھے تھے جبکہ پیشانی اور گردن کی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔ وہ زوھان کو دیکھتے ڈر گئی تھی اگر حریم اس وقت ہوش میں ہوتی تو غلطی سے بھی اگلی بات نہ کرتی۔
"کیوں ان کا کسی اور کی بیوی ہونا برداشت نہیں ہو رہا آپ سے، منگ آپ کی، بیوی کسی اور کی۔" وہ استہزائیہ ہنسی، غصے میں جو منہ میں آیا وہ بولتی چلی گئی۔
"حریم۔" اس کی بات پر اس کا ضبط جواب دے گیا، وہ کرسی سے ایک جھٹکے سے اٹھتے غرایا، کرسی پیچھے کی طرف گر گئی۔ ہانیہ بھی ڈر کر اپنی جگہ سے اچھل پڑی وہ جلدی سے حریم کو بغیر کچھ بولنے کا موقع دیے گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گئی۔ زوھان نے اپنے سامنے پڑا گلاس اٹھا کر دیوار میں دے مارا۔
••••••
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا نیند تو آج آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ آنکھیں بند کرتے ہی زندگی کی کتاب سے ماضی کے پنے کھلتے چلے گئے۔
وہ اسلام آباد سے میرپور ضرم اور زرنش کی شادی کے لیے آیا تھا۔ اس نے کافی سالوں بعد اپنی بچپن کی منگ زمدا دراب خان کو دیکھا جو موحد خان کے بغل میں ہی صوفے پر براجمان تھی۔ اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اتنے سالوں بعد دیکھنے پر بھی فلموں کی طرح اسے دل میں کوئی ہلچل ہوتی محسوس نہ ہوئی وہ اپنی ہی سوچ پر مسکرایا۔ وہ بہت خوبصورت تھی، لیکن زوھان کو کبھی بھی ظاہری خوبصورتی سے کوئی سروکار نہ رہا تھا اس کے لیے باطنی خوبصورتی ہی سب سے اہم تھی۔ وہ دوبارہ ایک نظر اس پر ڈالتے حویلی سے باہر نکل گیا اگر وہ اسے بہت اچھی نہیں لگی تھی تو بری بھی نہیں لگی تھی۔
ضرم کی شادی سے کچھ مہینے بعد اسے زمدا کی کال موصول ہوئی، اس کے خود کے تعارف پر وہ کافی حیران ہوا۔ انکی فیملی بہت سی پٹھان فیملیز کے نسبت تنگ نظر نہ تھی۔ اپنی حیرانی کو پسِ پشت ڈالتے اس نے زمدا سے کال کرنے کی وجہ دریافت کی۔ مگر زمدا کی بات نے تو اسے سکتے میں ہی ڈال دیا۔ وہ اپنے کلاس فیلو کو پسند کرتی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ زوھان یہ منگنی توڑ دے۔ وہ زوھان کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہتی تھی۔ مگر زوھان نے بغیر کسی جھوٹ کا سہارا لیے زمدا کی کال سے لیکر اپنی سوچ تک سب من و عن خاندان کے بڑوں کے آگے گوش گزار کردیا۔ زوھان یہ منگنی نہیں رکھنا چاہتا تھا اس نے ہمیشہ سے خود کو اپنی شریکِ حیات کی امانت سمجھا تھا اور اس کے لیے مختص احساسات اور جذبات میں کبھی خیانت نہ کی تھی وہ اپنا شریکِ حیات بھی ایسا ہی چاہتا تھا جو زمدا تو بالکل بھی نہیں تھی۔ ارباز خان نے بھی زوھان کی بات کی حمایت کی وجہ زوھان نہیں بلکہ زمدا تھی دراب کے انتقال کے بعد سے ارباز خان نے زمدا کو کبھی باپ کی کمی محسوس ہونے نہیں دی تھی کیونکہ وہ موحد خان کی چہیتی پوتی تھی۔ ارباز خان ہمیشہ سے اسفند خان کی نسبت موحد خان کے قریب رہے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر پختون روایات کی پاسداری میں سفاک بن جاتے تھے جو اسفند خان اور مہزلہ خان کو بالکل پسند نہ تھا ان کے لیے ان روایات سے بڑھ کر انسانیت تھی۔
زمدا اور زوھان کی منگنی موحد خان کے اصرار پر ہوئی تھی اسفند خان ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرانا چاہتے تھے وہ بچپن کی منگنی کے سخت خلاف تھے، مگر ارباز خان اور موحد خان کی ضد کے آگے انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے۔
مگر اس وقت موحد خان نے خود کو کسی دوراہے پر کھڑا پایا ایک طرف جان سے عزیز پوتی تھی تو دوسری طرف پختون روایات وہ دونوں میں سے کسی ایک راہ کو چننے سے قاصر تھے اور ان کی یہ مشکل زوھان نے اپنا فیصلہ سنا کر آسان کر دی تھی۔
زمدا کی ماہیر خان سے شادی کے وقت موحد خان کے علاوہ اسے چھوٹی حویلی کا ہر فرد ہی خود سے شرمندہ نظر آیا، وہ سب کی شرمندگی دور کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا۔ اس کی کسی اور سے شادی پر بھی اس نے اپنے دل و دماغ کو پرسکون پایا اب بھی فلموں کی طرح اس کے دل و دماغ میں کوئی جنگ نہ چھڑی تھی۔
بچپن سے ہی اسے خود سر طبعیت کی مالک زمدا پسند نہ تھی مگر وہ اس کی منگ تھی اور وہ اس بارے میں خود کو بےبس پاتا تھا، البتہ زمدا سے بالکل الٹ طبعیت کا مالک سلجھا ہوا زریاب خان اسے کبھی زمدا کا بھائی لگا ہی نہیں تھا۔ وہ حریم کی اس سے چڑ سے بھی بخوبی واقف تھا اور زریاب کی حریم سے نوعمری کی محبت سے بھی۔ یہی محبت تھی جو حریم کو اسے دیکھتے ہی غصہ دلا جاتی تھی۔ اب بھی زوھان دونوں کا سوچ کر پریشان ہو رہا تھا ایک طرف بہن تھی تو دوسری طرف بھائی جبکہ درمیان میں ہی کہیں اس کا لاڈلا شازیم احراز خان بھی تھا۔
••••••••
وہ پریشانی سے کمرے میں ٹہل رہی تھی، وہ اپنے رات کے رویے پر پشیمان تھی۔ ہانیہ تو اس کی پریشان صورت دیکھ کر قہقہے لگا رہی تھی۔
"ٹھیک ہے نہیں جانا تم نے تو مت جاؤ مجھے تو بہت بھوک لگی ہے، تمہاری اس پریڈ کے چکر میں میں بھوکی نہیں رہ سکتی۔" وہ کب سے اسے زوھان کا سامنا کرنے کیلیے تیار کر رہی تھی مگر وہاں نتیجہ صفر دیکھ کر وہ اکتا گئی۔
ہانیہ کے جانے کے بعد خود میں ہمت مجتمع کرتے وہ زوھان کے سامنے کھڑی تھی۔ ہانیہ نے تو اسکی سفید پڑتی رنگت دیکھ کر بمشکل ہی اپنا کب سے امڈتا قہقہہ دبایا۔
"لالا۔" اس نے زوھان کو مخاطب کیا مگر دوسری طرف سے بھرپور نظرانداز کیا گیا۔
"لالا پلیز اسے میری پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کر دیں۔" وہ اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھے بھرائی آواز میں گرگرائی۔
"پہلی بات یہ آپ کی پہلی غلطی تو بالکل نہیں تھی، دوسری بات آخری غلطی بھی نہیں ہے یہ میں اور آپ دونوں ہی بہت اچھے سے جانتے ہیں کیونکہ حریم شہیر خان اور سدھر جائے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔" اس نے دانت پیستے کہا یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہانیہ اس کے کہے ایک ایک لفظ سے متفق تھی۔
"اب ایسی بھی بات نہیں ہے لالا۔" اس نے کمزور سا احتجاج کیا، اندر ہی اندر وہ بھی اس کی بات سے متفق تھی کہ یہ اس کی آخری غلطی تو بالکل نہیں ہونے والی تھی۔
"تیسری اور آخری بات معافی اتنی آسانی سے نہیں ملے گی معافی کیلئے ہماری ایک شرط ہے۔" بات کے آغاز پر جہاں اس کا چہرہ مرجھایا وہیں اگلی بات پر وہ چہک اٹھی۔
"مجھے آپکی ہر شرط منظور ہے لالا۔" وہ زمین سے اٹھ کر ہاتھ جھاڑتے بولی، ہانیہ اس کے انداز پر ہنس پڑی جبکہ زوھان نے ہونٹوں کو آپس میں پیوست کرتے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔
"شرط یہ ہے کہ آپ اب سے زریاب سے کوئی جھگڑا نہیں کریں گی۔" زوھان کی شرط سنتے ہی اس کی خوشی ماند پڑ گئی۔
"میں بغیر کسی وجہ کے جھگڑا نہیں کرتی وہ جان بوجھ کر حرکتیں ہی ایسی کرتا ہے جو مجھے غصہ دلا دیتی ہیں۔" وہ اپنے لیے کرسی گھسیٹتے ہوئے بولی۔
"شرط منظور ہے کہ نہیں؟" زوھان نے اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھا۔
"ٹھیک ہے میں بے وجہ اس سے جھگڑا نہیں کروں گی۔" اس نے ہتھیار ڈال دیے مگر زوھان کے لیے اتنا کافی نہ تھا۔
"وجہ ہو یا نہ ہو آپ اس سے نہیں لڑیں گی۔"
"اور اگر وہ کچھ بھی کہے چھوٹی سی بات پر اوور رئیکٹ کرنے کی بجائے آپ میرے پاس آئیں گی۔" اسے پھر سے منہ کھولتا دیکھ کر وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے بولا۔
"ٹھیک ہے لالا۔" وہ سر کو خم دیتے اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
زوھان کے اٹھ کر جانے پر اس نے اس کی پیٹھ کو دیکھا (جہاں وہ ہو وہاں کوئی بات چھوٹی نہیں ہو سکتی حریم خان کے لیے تو بالکل بھی نہیں) وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ ہانیہ نے اس کی بڑبڑاہٹ پر اس کی طرف دیکھا مگر وہ سمجھ نہ سکی تھی کہ اس نے کیا کہا ہے۔ حریم اس کی طرف ایک مسکراہٹ اچھالتے دوبارہ سے اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئی۔Don't forget to give your precious reviews 💫
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...