Episode 14

317 29 2
                                    

ضرار مہرماہ کو پکارتے کچن میں داخل ہوا۔ وہ شاہ میر کیلیے براؤنیز بیک کر رہی تھی۔ ثریا بیگم ضرار کو آتا دیکھ کر باہر نکل گئیں۔
کافی دیر مہرماہ اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی جب وہ کچھ نہ بولا تو مہرماہ نے رخ موڑ کر اسے دیکھنا چاہا مگر ضرار کے بلکل اس کے پیچھے کھڑے ہونے کی وجہ سے پلٹتے ہی اس کا ماتھا ضرار کے سینے سے جا لگا۔ اسنے ضرار کو گھورتے اپنا ماتھا سہلایا۔
"اب کچھ بولیں گے بھی یا بس ایسی  ہی گھورتے رہیں گے۔" مہرماہ نے اس کے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر چوٹ کی، وہ شرمندہ ہونے کی بجائے کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
"تم واقعی اتنی خوبصورت ہو کہ بس مجھے ہی لگتی ہو۔" اس کے گھمبیر لہجے میں ایک دم ایسی بات کہہ دینے پر مہرماہ سٹپٹائی۔  ضرار نے اسے اپنے حصار میں لیتے اپنے قریب کیا، اس نے گڑبڑا کر لاؤنج کی طرف دیکھا، اوپن کچن ہونے کی وجہ سے کچن کا سارا منظر لاؤنج سے بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔
"کیا کر رہے ہیں؟؟ چھوڑیں کوئی آ جائے گا۔" مہرماہ کی اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش پر اس نے اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
"کوئی نہیں آتا۔" ضرار نے اپنا چہرہ اس کے کان کے قریب کرتے خمار آلود لہجے میں کہا۔
"ماہی، آئی لو یو۔" اس کے یوں اچانک اظہار پر مہرماہ کان کی لو تک سرخ ہو گئی، اسے اپنے دل کی دھڑکنوں کی آواز کچن کی خاموشی میں صاف سنائی دے رہی تھی۔
"مہرماہ۔" اس کی نرم آواز پر اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
"وہ اسد اور زینیا نے آج ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے۔" ضرار نے ایک ہاتھ سے کان کھجاتے کہا جبکہ دوسرا ہاتھ ابھی بھی مہرماہ کے گرد تھا۔
"تو یہ سب آپ نے مجھے ڈنر کیلیے کنوینس کرنے کیلئے کہا تھا۔" رنجیدگی سے کہتے اس نے اپنی آنکھ کے کنارے سے آنسو صاف کیا، اس کا وہ ایک آنسو ہی ضرار کو ششدر کر گیا۔
وہ ضرار کی خاموشی کو اس کی شرمندگی سمجھتے وہاں سے چلی گئی۔

•••••••

گھر کے گھٹن زدہ ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لیے وہ باہر جا رہا تھا،جب اپنے نام پر اس نے رخ موڑ کر مہزلہ خان کو دیکھا۔ اس کی آنکھیں لال انگارا ہو رہی تھیں جبکہ ہمیشہ سلیقے سے  بنے بال بھی ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔
"کہاں جا رہے ہیں؟" مہزلہ خان اس سے نظریں ملانے سے کترا رہی تھیں، اس سے بات کرتے وقت بھی مہزلہ خان کی نظریں سامنے پڑے میز پر مرکوز تھیں مگر اس سے نظر آتا زوھان کا عکس انہیں تکلیف پہنچا رہا تھا۔
"کہیں نہیں مورے بس یوں ہی باہر جا رہا تھا، آپ کو کوئی کام تھا؟" زوھان نے خود کو کافی حد تک کمپوز کرتے، چہرے پر مصنوئی مسکراہٹ سجاتے کہا، ورنہ وہ ہانیہ کے نکاح کا سنتے ہی سخت اذیت میں مبتلا تھا، دل اور دماغ کے درمیان ایک الگ جنگ چھڑی تھی۔
"آپ حریم اور ہانیہ کو شاپنگ کیلئے لے جائیں، کل نکاح ہے اور ہانیہ کا ڈریس ابھی تک نہیں آیا۔" مہزلہ خان نے تاسف سے کہا۔ زوھان کے چہرے پر تکلیف دے تاثرات ابھرے جن پر وہ جلد ہی قابو پا گیا۔
"ٹھیک ہے میں باہر انتظار کر رہا ہوں آپ انہیں بھیج دیں۔" حورعین کو مہزلہ خان کی گود سے لیے وہ باہر نکل گیا۔

ھسک (✔️Completed) Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon