ضرار موبائل کان سے لگائے کمرے میں داخل ہوا، وہ آج جافیث جلدی گھر آ گیا تھا۔ کمرے میں آنے کی بجائے وہ شاہ میر کے کمرے میں چلا گیا اور ثریا بیگم سے کہہ کر پریشے پریہان کو بھی وہیں بلوا لیا۔ مہرماہ نے اسے دیکھتے ہی آنکھیں بند کرلیں مگر اس کی یہ حرکت ضرار سے چھپی نہ رہ سکی وہ اسے دیکھ کر تلخی سے مسکرایا۔
"اوہ ایم ایکسٹریملی سوری زینیا، میں بہت شرمندہ ہوں آپ لوگوں سے آپ نے اتنے پیار سے ہمیں انوائیٹ کیا تھا مگر مہرماہ کی طبیعت خرابی کی وجہ سے نہیں آ سکیں گے۔" وہ سچ میں بہت شرمندہ تھا۔ کل کی پارٹی میں ہی زینیا اور اسد بیگ (اس کے ہسبنڈ) نے انہیں آج ڈنر کیلیے انوائیٹ کیا تھا مگر وہ مہرماہ کی حرکت کی وجہ سے بھول گیا، ابھی زینیا نے خود ہی کال کر کے پوچھا تھا کہ وہ کب تک آئیں گے۔ زینیا کے نام پر مہرماہ کے کان کھڑے ہوئے۔
"ہاں ابھی بھی طبعیت خراب ہے اور دماغ بھی۔" آخر کے دو لفظ بڑبڑایا جو زینیا تو نہ سمجھ سکی مگر شاید کان اس کی باتوں کی طرف لگانے کی وجہ سے مہرماہ نے واضح سنے تھے۔ اس نے غصے سے آنکھیں کھول لیں۔
"اتنا دکھ ہو رہا ہے نہ جانے کا تو ابھی چلے جائیں، ویسے بھی زینیا کو آپ کے ہونے نہ ہونے سے فرق پڑے گا ہمارے نہیں۔" وہ بیڈ سے جھٹکے سے اٹھتی اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"اب تم حد سے بڑھ رہی ہو مہرماہ۔" ضرار نے غصہ ضبط کرنے کیلئے مٹھیاں بھینچیں۔
"ابھی بھی میں حد سے بڑھ رہی ہوں؟" وہ اپنی طرف اشارہ کرتے استہزائیہ ہنسی۔
"مہرماہ چپ ہو جاؤ میں بہت برداشت کر رہا ہوں مزید میرے ضبط کا امتحان مت لو۔" وہ ٹوٹے لہجے میں بولا۔ وہ کل رات والی غلطی نہیں دہرانا چاہتا تھا مگر مہرماہ اسے ہاتھ اٹھانے پر مجبور کر رہی تھی۔
" مت کریں برداشت، ہاتھ تو اٹھا ہی چکے ہیں باقی جو کسر رہ گئی ہے وہ بھی پوری کر لیں۔"
"آپ حد کی بات کر رہے تھے ناں تو ضرار ارباز خان اپنی خود کی حدود کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، بیوی گھر میں آپ کی پابند رہے اور خود آپ جہاں چاہے منہ مارتے پھریں۔" ضرار کا کالر دبوچے وہ چلائی۔
"بکواس بند کرو اپنی، میں نہیں چاہتا غصے میں میں کوئی ایسی حرکت کر جاؤں جس پر بعد میں ہم دونوں کو پچھتانا پڑے۔" مہرماہ کے اتنے سخت الفاظ اسے طیش دلا گئے، اسنے مہرماہ کے ہاتھ اپنی کالر سے جھٹکے۔
"آپ اس لڑکی کی وجہ سے مجھے طلاق کی دھمکی دے رہے ہیں۔" اس نے بےیقینی سے کہا۔
"دیں طلاق، مجھے بھی نہیں رہنا آپ جیسے انسان کے ساتھ۔" اس نے گال پر بہتے آنسو صاف کیے، ماتھے کے زخم پر بینڈ ایڈ لگی تھی ، بیدردی سے آنسو صاف کرنے کی وجہ سے ہونٹ کے زخم پر پھر سے خون کی ننھی بوند ابھری۔
"طلاق تومیں تمہیں کبھی نہیں دوں گا اور یہ کیا لگا رکھا میرے جیسا انسان ہاں؟؟، جو کچھ بکواس کر رہی کبھی ایسا کچھ اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے؟؟؟؟ بس سنی سنائی باتوں پر تم بکواس کرتی جارہی ہو۔" مہرماہ کو بازوؤں سے دبوچے وہ غرایا۔ مہرماہ کو اس کی سرخ ہوتی آنکھوں سے ایک پل کا خوف محسوس ہوا جس پر وہ اگلے ہی پل قابو پا گئی۔
"میں نے آپ کو خود زینیا کے ساتھ کھڑے دیکھا تھا۔" اس نے کمزور سے دلیل پیش کی۔
"جو بھی دو لوگ ساتھ کھڑے ہوں ان کا افئیر چل رہا ہوتا ہے۔" ضرار نے تمسخر اڑایا۔
"پر آپ ہنس کر بات بھی تو کر رہے تھے میرے سے تو آپ نے کبھی ہنس کر بات نہیں کی۔" ضرار خفیف سا ہنسا۔ (تو سارا قصور اس کی ہنسی کا تھا) اس نے دل میں سوچا۔
"کوشش کی تھی ہنس کر نہیں بلکہ پیار سے بات کرنے کی مگر اس کے بدلے مجھے کیا ملا دھتکار۔" وہ طنزیہ انداز میں بولا۔ مہرماہ نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔
"تف ہے تم پر ضرار ارباز خان، تمہارا کردار دوسروں کی کیا بلکہ اپنی خود کی بیوی کی نظر میں اتنا مشکوک ہے کہ وہ تم پر شک کر رہی ہے وہ بھی محض کسی سے ہنس کر بات کرنے پر۔" وہ چہرے پر ہاتھ پھیرتے خودکلامی کے انداز میں بولا۔
"تم جذباتی تو بچپن سے ہی تھی مگر اتنی بیوقوف بھی ہو یہ نہیں پتا تھا مجھے۔" وہ تاسف سے کہتے باہر نکل گیا، ہوش تو مہرماہ کو دروازہ دھڑم سے بند ہونے کی آواز پر آیا۔ اس کی آخری بات سمجھ آتے ہی اس نے دروازے کو گھورا۔
••••••
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...