وہ کب سے اپنی توجہ ڈرائیونگ کی طرف مبذول کرا رہا تھا مگر اس کی تمام تر سوچیں پھر بھٹک کر صبح ہاسپٹل میں رونما ہونے والے واقعے کی طرف جا رہی تھیں، اس وقت وہ اپنی نائٹ ڈیوٹی انجام دے کر واپس آ رہا جب ان الفاظ نے اسے اس جگہ منجمد کردیا تھا، وہ الفاظ اور مسکراہٹ اسکے ذہن سے لاکھ کوشش کے باوجود بھی نکل نہیں رہے تھے۔
ہاسپٹل میں داخل ہوتے ہی اسکے قدم خودبخود گائنی وارڈ کی طرف اٹھ رہے تھے، اسکا رخ اب اس کمرے کی طرف تھا جہاں وہ لڑکی کل موجود تھی لیکن وہاں سے نکلتی دو نرسز کی باتوں نے اسکی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی تھی جسکا موضوع وہ لڑکی ہی تھی۔
"مجھے توبہت ہی ترس آ رہا ہے بیچاری پر،مگر پھر بھی ہمت والی ہے، اسکی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک ہمت ہی ہار گیا ہوتا۔"
"کہاں کی بیچاری؟ ہمیں کیا معلوم قصور کس کا ہے؟ کوئی تو بات ہو گی ورنہ ایسے بھی کوئی طلاق دیتا ہے، یہاں تک کہ اپنی ہی بیٹی کا منہ بھی نہیں دیکھا اور تو اور کوئی اور بھی اسکے پیچھے ہاسپٹل نہیں آیا اب ہاسپٹل کے ڈیوز کون پے کرے گا۔"
زوھان وہیں کاریڈور میں کھڑا انکی بےتکی باتیں سن رہا تھا جو بغیر اردگرد کی پروا کیے کسی کی ذات پر تبصرے کر رہی تھیں۔
قصئہ مختصر ایک اور ابنِ آدم اپنا حق استعمال کرتے بنتِ حوا کی پیدائش کو وجہ بنا کر دو زندگیاں برباد کر گیا تھا۔
زوھان نے غصے اور دکھ سے آنکھیں بھینچ لی تھیں، اس نے آگے بڑھ کر اس لڑکی اور اسکی اٹینڈنٹ ڈاکٹر کا نام پوچھا تھا۔
••••
"واہ بھئی کیا بات ہے، ویسے آج سورج کدھر سے نکلا ہے مناہل جو ڈاکٹر زوھان ارباز خان خود چل کر ہمارے روم میں تشریف لائے ہیں۔"
اسکے روم میں اینٹر ہوتے ہی ڈاکٹر معید نے لطیف سا طنز کیا تھا جسکے ساتھ ہی زوھان کے لبوں کو ایک دلکش سی مسکراہٹ نے چھوا تھا، اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی ڈاکٹر مناہل کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا تھا جبکہ آنکھیں زوھان کو دیکھتے ہی چمک گئی تھیں۔
"فضول کی مت ہانک، مجھے مناہل سے کچھ کام تھا یہ تمہارے روم میں تھیں تو ناچار مجھے یہی آنا پڑا۔" اسکی صاف گوئی پر معید عش عش کر اٹھا تھا۔
"وہی ہم بھی کہیں ہماری ایسی قسمت کہاں جو زوھان ارباز خان ہم سے ملنے وہ بھی بغیر کسی وجہ کے ہمارے روم میں آئیں۔" اسکی زبان اب بھی اپنے جوہر دکھانے پر تلی تھی کہ کاش کبھی سہی کہیں سہی زوھان کو شرمندہ کر سکے مگر افسوس ہر بار کی ناکامی اس بار بھی اسکا مقدر تھی!
"مناہل مجھے آپ سے آپکی ایک پیشنٹ کے متعلق بات کرنی تھی۔" اس نے معید کی بات ہی کیا سرے سے اسے ہی نظرانداز کرتے مناہل سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تھا۔
"کون؟" مناہل نے اس سے پوچھا، اسکی کوئی پیشنٹ ایسی نہیں تھی جسکا زوھان سے کوئی تعلق ہوتا۔
"ہانیہ جبران۔" مناہل نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا جبکہ معید کی حالت بھی مناہل سے مختلف نہ تھی۔
"کیا ہو گیا میں نے اب ایسی بھی کوئی بات نہیں کی کہ ایسے دیکھا جائے اور تم تو مجھے گھورنا بند کرو۔"
مناہل سے بات کرتے اس نے اکتاہٹ سے معید کو کہا جو کب سے اسے گھورے جا رہا تھا جیسے اسے اسکی دماغی حالت پر کوئی شبہ ہو۔
"تُو اس پیشنٹ کو جانتا ہے؟" زوھان کے منہ سے کسی لڑکی کا نام معید کو حیرت میں ڈال گیا تھا، اور تھوڑی دیر قبل مناہل اسے ہانیہ کے بارے میں ہی بتا رہی تھی، اب اسے یہی بات پریشان کر رہی تھی کہ زوھان اور ہانیہ کا کیا تعلق۔۔۔۔۔
"نہیں، انہیں جاننے ہی تو آیا ہوں۔" اسکے منہ سے نکلے الفاظ معید اور مناہل کے ساتھ ساتھ اسے خود کو ساکت کر گئے تھے۔
" ڈاکٹر زوھان کیا پوچھنا ہے آپ نے؟"
مناہل کو اپنی ہی آواز کسی گہری کھائی سے آتی معلوم ہوئی تھی، دل میں کچھ چبا تھا کہ کوئی اور لڑکی ڈاکٹر زوھان کو پہلی بار ان کے روم تک لے آئی تھی۔
"جو بھی آپ جانتی ہیں۔" اس نے بظاہر سرسری سا کہا تھا مگر اسکا انداز مناہل کوبالکل بھی سرسری نہیں لگا تھا۔
"زیادہ تو نہیں بس اتنا جانتی ہوں پیرنٹس نہیں ہیں انکے اس دنیا میں بس ہسبنڈ تھے وہ بھی بیٹی کی پیدائش کو ایشو بنا کر ڈیورس دے کر جا چکے اور انکی کنڈیشن کی وجہ سے بیٹی ہاسپٹل کی نرسری میں ہے وہ خود بھی ابھی تک اپنی بیٹی سے نہیں ملیں۔" اپنے دل میں اٹھتی تکلیف کو دباتے جو کچھ اسے معلوم تھا سب کچھ وہ بتاتی چلی گئی۔
"انکے ہاسپٹل کے ڈیوز میں کلئیر کر دوں گا کوئی بھی اس سے اس بارے میں بات نہیں کرے اور میں اسکی بیٹی کو دیکھنا چاہتا ہوں۔" اس نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا جسکا صاف مطلب تھا وہ ابھی اسی وقت اس بچی سے ملنا چاہتا تھا۔ مناہل اور معید بھی اسکے ساتھ ہی باہر نکل آئے تھے۔
•••••
"سب ٹھیک ہے؟" معید نے اسکے ساتھ چلتے ہوئے کہا، اسکے لہجے میں اب پہلے والی شوخی اور شرارت مفقود تھی۔ زوھان کے انداز نے اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کر دیا تھا۔
"ہاں سب ٹھیک ہے۔" اسکے تاثرات اب بھی اسکا ساتھ نہیں دے پا رہے تھے، معید نے بھی محض سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا کیونکہ وہ زوھان کو بچپن سے جانتا تھا جب بھی وہ کوئی بات نہیں بتانا چاہتا تو لاکھ اصرار پر بھی نہ بتاتا اور اگر کچھ بتانا ہوتا تو بغیر پوچھے بتا دیتا۔
ان دونوں سے بے پرواہ مناہل اپنی ہی سوچوں میں محو تھی کہ آخر ہانیہ میں ایسا کیا ہے جس نے زوھان جیسے گرلز الرجک بندے کی توجہ اپنے جانب مبذول کرالی جو وہ اتنے سالوں سے نہیں کر پائی تھی۔ مناہل بھی کئی لڑکیوں کی طرح زوھان کو ہاسپٹل میں پہلی باردیکھتے ہی اپنا دل دے بیٹھی تھی مگر یہ وہ واحد لڑکی تھی جو اسکے سرد رویے سے بھی دلبرداشتہ نہیں ہوئی تھی کب وہ پسند محبت میں بدلی وہ خود نہیں جان سکی تھی۔
نرسری کے باہر رکتے ہوئے وہ زوھان سے مخاطب ہوئی۔
"سر آپ اندر چل کر دیکھیں گے کہ یہیں لے آؤں؟"
"نہیں آپ باہر ہی لے آئیں۔"
زوھان نے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔ کچھ ہی دیر بعد مناہل ایک نرس کے ساتھ باہر آئی تھی جس نے کمفرٹر میں لپٹے ایک ننھے وجود کو اٹھایا ہوا تھا۔ زوھان نے آگے بڑھ کر اس سے بچی کو لیا اور بے ساختہ اسکا ماتھا چوما، اس کو تھامتے ہی اسے اپنے دل میں عجیب سے مگر خوش کن جذبات سر اٹھاتے محسوس ہوئے تھے جن کو وہ فلوقت کوئی نام نہ دے سکا تھا۔
"ایک فیور مانگ سکتا ہوں ڈاکٹر مناہل؟" آج تو زوھان کی ہر بات ہر انداز اسے اچنبھے میں ڈال رہی تھی، اس نے سوالیہ نظروں سے زوھان کی طرف دیکھا۔
"آپ کہہ رہی تھیں نا کہ ہانیہ کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے تو پلیز کیا آپ انکی عدت مکمل ہونے تک انہیں اپنے ساتھ رکھ سکتی ہیں؟" اسکی بات پر مناہل کا دل تھم سا گیا تھا تو پھر صاف تھا انکے درمیان ہونے والی ہر بات کا موضوع 'ہانیہ' ہی ہونے والی تھی۔
ناجانے کیوں اسے ہانیہ سے جلن نہیں ہو رہی تھی بلکہ رشک آ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ اسکی شکرگزار بھی ہورہی تھی کہ چلو اس کی وجہ سے ہی صحیح ڈاکٹر زوھان نے اس سے پہلی بار کوئی فیور تو مانگا تھا۔
"مجھے کوئی پروبلم نہیں ہے ویسے بھی فلیٹ میں اکیلی ہوتی ہوں مجھے بھی کمپنی مل جائے گی۔" اس نے خوشگواری سے کہا۔
"مگر سر وہ میرے ساتھ جائیں گی کیوں، مطلب میں ان سے کہوں گی کیا؟" اس کے لہجے میں موجود جوش ایک دم ہی جھاگ کی مانند بیٹھ گیا تھا۔
"ویسے یہ بھی ہے۔" معید نے بھی بات میں اپنا حصہ ڈالا تھا ۔
" ڈاکٹر مناہل میں نے آپ سے فیور مانگا آپ نے دیا۔ اب یہ آپ کا مسئلہ ہے کہ آپ اسے کیسے مناتی ہیں۔" کافی لٹھ مار انداز میں جواب آیا تھا۔
"ویسے بھی ابھی آپکے پاس دو دن ہیں، انکو ڈسچارج تو پرسوں رات کو ہی کیا جانا ہے۔" وہ اپنے ازلی سنجیدہ انداز میں لوٹ آیا تھا۔
مناہل نے بےبسی سے اسے جاتے ہوئے دیکھا تھا کیونکہ ہانیہ اب تک اسے بہت ریزروڈ سی، اپنی ذات میں مشغول رہنے والی لڑکی لگی تھی اور یہ کام اسے مشکل نہیں بالکل ناممکن سا لگ رہا تھا، معید نے بھی اسے اور زوھان کی پیٹھ کو دیکھ کر سر نفی میں ہلایا تھا کیونکہ زوھان اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے بہت مہارت سے اپنا کام کسی اور کے ذمہ لگا گیا تھا۔
••••••••
دو دن گزر گئے تھے، مہرماہ بھی ڈسچارج ہو کر گھر آچکی تھی۔ اب بھی سب بچے اس کے گرد بیڈ پر ہی دائرہ بنائے بیٹھے تھے، شاہ میر تو مہرماہ سے ایک پل بھی جدا نہ ہو رہا تھا۔ مہزلہ خان، داجی، ضرم، زارام، ضرار، زرنش اور عریبہ بھی وہیں کمرے میں موجود صوفوں پر براجمان تھے جبکہ حریم بھی بچوں کے ساتھ بچی بنی انکے درمیان ہی موجود تھی۔
"آنی اسکا نام میں رکھوں؟" شاہ میر نے سب کی توجہ اس جانب کرائی تھی جسے سب ہی بھولے بیٹھے تھے۔
"ہاں کیوں نہیں، آپ نے نام سوچ لیا ہے کیا؟۔" مہرماہ نے پیار سے اسکے گال کھینچتے ہوئے کہا۔
"بالکل آنی اگر ہماری بہن ہوتی تو ہم اسکا نام بھی یہی رکھتے جو ہم نے سوچا ہے، ویسے آنی یہ ہماری بہن ہے نا، صرف ہماری۔" آخر میں اسکا لہجہ بہرام، اذیان، عزم اور اماز کو کچھ جتاتا ہوا تھا، جیسے وہ انہیں سنانے کے لیے کی کہہ رہا ہو۔
"شاہ میر۔" اس سے پہلے مہرماہ کوئی جواب دیتی ضرار نے غصے سے گھورتے تنبیہی انداز میں کہا۔
"ڈیڈو پلیز، رئیلی میں اسکا نام پلوشہ نہیں رکھنا چاہتا مجھے پتا ہے یہ پلوشہ نہیں ہے۔" ملتجائی انداز میں کہتے اسکا لہجہ بھیگ گیا تھا۔
ایک دم کمرے کا ماحول بھی افسردہ ہو گیا تھا، اسکی مکمل بات پر مہرماہ دھیان نہ دے پائے تھی ورنہ وہ یہ سوال ضرور کرتی کہ آخر پلوشہ کون ہے؟؟؟ اسے تو شاہ میر کی بھیگی آنکھوں نے بے چین کر دیا تھا، اس نے آگے بڑھ کر شاہ میر کو اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔
"ہم بھی چاہتے ہیں ہماری بیٹی کا نام شاہ میر رکھے۔" مہرماہ نے کچھ ہچکچاہٹ سے کہا، مہرماہ کے رویے میں سب کےلئے کچھ جھجھک تھی شاید یہ آٹھ سالوں کی دوری کا اثر تھا، یہ کہتے مہرماہ کی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔
"ہاں تو بھئی میرا ووٹ بھی اپنے چیمپ کے حق میں ہے اس چھوٹی سی پیاری سی گڑیا کا نام تو ہمارا شاہی ہی رکھے گا۔" عریبہ نے ماحول میں چھائی اداسی کو کم کرنا چاہا۔
"ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی چچی جان آپ شاہ میر کی مما ہیں یا اذیان کی۔"
عزم نے ہمیشہ کی طرح بحث کرنا ضروری سمجھا تھا ناجانے اسے حریم اور عریبہ کو ہر بات پہ ٹوک کر کیا ملتا تھا کہ وہ زرنش کی گھوریوں کو بھی کسی کھاتے میں نہ لاتا تھا۔
"دونوں کی۔" اذیان نے بھی سمجھداری کا مظاہرہ کیا تھا جو کہ وہ کبھی کبھار ہی کرتا تھا بقول بہرام کے، اپنے بیٹے کی سمجھداری پر زارام بھی حیران تھا۔ اسکی بات پر سب ہی کھلکھلا اٹھے تھے۔
"اچھا تو اب نام بھی بتا دیں لالا۔" اب کہ کافی دیر سے خاموش بیٹھا اماز بولا تھا جبکہ بہرام ابھی تک اس ننھی گڑیا کو ہی گود میں لیے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔
"پریشے۔" شاہ میر کا بتایا نام سب کو بہت پسند آیا تھا۔
"پری۔" بہرام نے بولا تو سب نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا۔
"ہاں یہ بھی ٹھیک ہے پیار سےہم اپنی گڑیا کو پری بھی بلا سکتے ہیں۔" اسفند خان نے چھڑی کی مدد سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
"نہیں داجی یہ نام میں نے رکھا ہے تو پیار سے بس میں ہی اسے اس نام سے بلا سکتا ہوں۔" بہرام کے ضدی انداز میں کہنے پر اسفند خان کے باہر کی طرف اٹھتے قدم رکے تھے، ایک خیال انکے ذہن میں آیا تھا لیکن اسے پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا کیونکہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانا چاہتے تھے۔
"ٹھیک ہے بھئی بہرام خان، اسے پری بس تم ہی کہہ سکتے ہو۔" وہ اسی کے انداز میں کہتے مسکرا کر باہر نکل گئے تھے۔ ان کے نکلتے ہی سب آہستہ آہستہ اپنے کمروں میں جانے کیلئے نکل گئے تھے۔
"چلو بھئی بہت ہوا کمرہ خالی کرو سب، سونا ہے ہم نے تم لوگ تو ویلے ہو ہمیں بہت کام ہیں صبح۔" حریم نے ضرار کو اٹھتے دیکھ کر سب بچوں کو بھی جانے کا کہا جو کہ شاید پوری رات ہی یہیں ڈیرہ جمائے رکھنے کا پروگرام بنائے بیٹھے تھے۔
"کام اور آنی آپ کو، اگر اتنے ہی کام ہوتے ہیں تو پھر پوری پوری رات جاگ کر ناولز کیوں پڑھتی ہیں آپ؟" عزم نے لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ کمر پر ٹکا لیے تھے، مہرماہ اسکے اس انداز پر مسکرائی تھی۔
"آنی پریشے کو ہم اپنے روم میں لے جائیں۔" بہرام نے اب بھی پریشے کو اٹھایا ہوا تھا جسے چھوڑنے کا اسکا کوئی ارادہ نہ تھا۔
"ہیں ہیں۔۔کیا کہا ۔۔۔ دماغ ٹھیک ہے تمہارا، اگر اسے رات کو بھوک لگی تو کیا کرو گے؟" مہرماہ نے حیرت سے حریم کو دیکھا جو بات کم کر رہی تھی کاٹ کھانے کو زیادہ دوڑ رہی تھی۔
"حریم وہ تو بچہ ہے تم تو بچی نہ بنو۔ بہرام بیٹا یہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے ہمارے بغیر کیسے رہے گی جب تھوڑی بڑی ہوگی پھر آپ لے جانا۔" مہرماہ نے حریم کو ٹوکتے بہرام کو بہلایا تھا۔
"پرامس؟" مشکوک انداز میں دیکھتے بہرام نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔
"پرامس۔" مہرماہ کے کہتے ہی بہرام کا چہرہ گلاب جیسا کھل گیا تھا، باقی سب حیرت سے ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے۔
"اب اپنا وعدہ یاد رکھیئے گا آنی، ابی جان کہتی ہیں جو وعدہ توڑتا ہے اللّٰہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔" بہرام نے کسے بڑے بوڑھے کی طرح اسے آگاہ کیا۔
"ہم اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑیں گے۔" مہرماہ نے اسے یقین دلانا چاہا۔ وہ محض سر ہلا کر باہر چلا گیا باقی سب بھی اسکے پیچھے ہی باہر نکل گئے۔ شاہ میر اب بھی وہیں کھڑا تھا ضرار نے اسکی طرف دیکھ کر ابرو اچکائے۔
"ڈیڈو کیا میں آنی کے پاس سو جاؤں؟" اس نے جہاں بھر کی معصومیت چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔
"بالکل نہیں۔" صاف انکار آیا تھا، اس نے مہرماہ کی طرف دیکھا جو اسکے دیکھنے پر بےبسی سے کندھے اچکا گئی تھی وہ بھی ضرار کے ساتھ ہی چلا گیا تھا۔
"ہاں بھئی سب ہی بچے ہیں ایک حریم شہیر خان ہی بڑی ہو گئی ہے۔" مہرماہ اسکی واضح بربراہٹ پر ہنس پڑی تھی جو اسے سنانے کے لیے ہی تھی۔
"پریشے کیا کسی نے ہم سے کچھ کہا ہے؟" مہرماہ نے ہنستے ہوئے پریشے کے لال گلابی گال کھینچے تھے، اسکی بات حریم کو مزید تپا گئی تھی۔
"پریشے اپنی مما سے کہو اگر کہا بھی ہے تو انکو کونسا فرق پڑتا ہے، یہاں پہلے کسی کو میرے ہونے نہ ہونے سے کہاں فرق پڑتا ہے ایک تو میری ہی بھانجی کا نام مجھ سے پوچھے بغیر رکھا گیا اور تو اور اس بہرام کی وجہ سے مجھے ڈانٹا بھی۔" اس نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا،مہر ماہ نے آگے بڑھ کر اس کا منہ اپنی طرف کیا۔
"کس نے کہا تمہارے ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا؟ پڑتا ہے ہمیں بہت فرق پڑتا ہے، تم اندازہ نہیں لگا سکتی ایک بار بس ایک بار دور سے ہی صحیح مگر تمہاری، مورجان کی، لالا کی ، سب کی بس صورت ہی دیکھنے کی کتنی دعائیں مانگی ہیں۔" کہتے ساتھ ہی مہرماہ کی آنکھوں سے آنسوؤں زاروقطار بہنے لگے تھے۔
"سوری دیدا، ایم ایکسٹریملی سوری میں آپ کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔" حریم نے اس کے آنسو پونچھتے اسے گلے لگایا۔
"ہمیں اچھا لگا تھا جب شاہ میر نے کہا کہ وہ ہماری بیٹی کا نام رکھنا چاہتا ہے، ہمیں ایسا لگا تھا کہ وہ شاہ میر نہیں زرش کہہ رہی ہو، وہ اپنی نہیں اپنی ماں کی بات کہہ رہا ہو۔"
(مہزلہ خان نے اس کے بار بار زرش کے بابت پوچھنے پر اسے چار سال قبل ہونے والی زرش کی ڈیتھ کا بتایا تھا جوکہ مہرماہ کے دل کو مزید بوجھل کر گیا تھا، زرش اسکی ماموں زاد، زرنش کی بہن اور ضرار کی بیوی ہونے کیساتھ ساتھ اس کی بیسٹ فرینڈ بھی تھی شاید زرش کی بدولت ہی وہ شاہ میر سے زیادہ اپنائیت محسوس کر رہی تھی)
"سوری نا دیدا میں تو بس مذاق کر رہی تھی۔" حریم نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا، وہ بھی مہرماہ اور زرش کی بہنوں جیسی دوستی سے باخوبی واقف تھی اور اسکا درد بھی سمجھ رہی تھی۔
"دیدا ایک بات پوچھوں؟" حریم نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا، مہرماہ نے اس کی طرف کروٹ بدلتے بھنویں اچکائی تھیں۔
"کچھ ہے جو آپکو پریشان کر رہا ہے؟، دیدا اب یہ مت کہئیے گا ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ آپکی ہنسی مجھے بالکل بناوٹی، کھوکھلی لگ رہی ہے۔" مہرماہ کو اسکی نگاہیں اسکا بریک بینی سے جائزہ لیتی معلوم ہو رہی تھیں۔
"پتا نہیں ریم وہ تو ہم خود بھی نہیں سمجھ پا رہے۔" مہرماہ خود بھی اپنی بے وجہ کی پریشانی سے عاجز آگئی تھی۔
"چلیں دیدا جلدی سے سونے کی تیاری پکڑیں اس سے پہلے کی یہ چھوٹی سی گڑیا ہماری آوازوں سے جاگ جائے۔" اس نے پریشے کے گال چٹاچٹ چومے تھے۔ مہرماہ اسکے انداز پر ہنس پڑی تھی۔
اس کے آنکھیں بند کرتے ہی حریم اپنی ناولز کی دنیا میں کھو گئی تھی جہاں اسے ہر کہانی کی ہیپی اینڈنگ خوشی سے سرشار کر دیتی تھی مگر اکثر اسکے ذہن میں یہ سوال ضرور پنپتا تھا کہ کیا اسکی کہانی کی بھی ہیپی اینڈنگ ہو پائے گی یا اسکی محبت لاحاصل رہنے والی ہے۔
•••••••••
شوپنگ کو ویسٹیج آف ٹائم ( wastage of time) سمجھنے والا زوھان آج گزشتہ دو گھنٹے سے مال کی ہر بےبی شاپ کا کوئی دو بار تو چکر لگا چکا تھا لیکن اب بھی اسکی خریداری مکمل نہیں ہو رہی تھی، بقول معید وہ خود کے ساتھ ساتھ اسے بھی خوار کر رہا تھا۔
"میں کہہ رہا ہوں زوھان یہ آخری شاپ ہے اس کے بعد میں کسی شاپ میں نہیں جاؤں گا، اب تو تھکن کے ساتھ بھوک بھی زوروں کی لگنے لگ گئی ہے۔"
شاپ میں ایک طرف سارے شوپنگ بیگز رکھتے معید نے بے چارگی سے کہا، اس کے چہرے کے زاویے مزید بگڑتے جارہے تھے، زوھان نے اسکی بات کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا اور شاپ میں موجود ٹوائز پر نظریں جما دیں تھیں۔
"یار تو سمجھ کیوں نہیں رہا، ابھی وہ صرف کچھ دن کی ہے ان سب کا کیا کرے گی؟" اس کے چہرے پر کوفت بڑھتی جا رہی تھی، وہ لڑکیوں کی طرح شوپنگ کا دلدادہ آج زوھان کے ساتھ شوپنگ پر آ کر پچھتا رہا تھا۔
"تو کیا تھوڑی بڑی ہو گی تو تب کھیل لے گی ان سے۔" زوھان معید کے بار بار ٹوکنے پر چڑ گیا تھا۔
"ہاں بھئی تجھے جو لینا ہے لے بس مجھے کچھ کھلا دے اب تو چوہوں ںے بھی پیٹ میں گلی ڈنڈا کھیلنا شروع کر دیا ہے۔" ناچار اسکی روتی صورت دیکھ کر زوھان کو بھی اپنی آدھی ادھوری شاپنگ بیچ میں ہی چھوڑ کر فوڈ کارٹ جانا پڑا تھا، جو کہ بس اسکی نظر میں ہی آدھی ادھوری تھی جبکہ معید کے مطابق یہ سب کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تھا۔
••••••••
صبح سویرے خان حویلی کے سب بڑے مہرماہ کے کمرے میں موجود تھے، جہاں حریم سمیت سب بچوں کی اینٹری ممنوع تھی۔ اخزم خان گزرے دنوں میں خان حویلی کے کئی چکر لگا چکا تھا اور ہر بار کوئی نئی دھمکی دی جاتی کہ کوئی بھی اسے اس کی بیٹی اور بیوی سے ملنے سے نہیں روک سکتا تو کبھی معصومیت کا لبادہ اوڑھے منتوں پر اتر آتا کے اسے اسکی اولاد سے الگ نہ کیا جائے۔
"ویسے کہہ تو وہ بھی ٹھیک رہا مہرماہ بیوی ہے اسکی اور پریشے بیٹی اگر ہم نے اسے ملنے نہ دیا تو وہ جرگہ بیٹھا لے گا۔" زارام نے خاموشی توڑی تھی سب ہی متفکر نظر آرہے تھے۔
"لالا اگر آپ کو ہمارا یہاں رہنا اچھا نہیں لگ رہا تو بتادیں ہم یہاں سے چلے جائیں گے لیکن ہم نور حویلی کبھی واپس نہیں جائیں گے۔" وہ بھڑک اٹھی تھی، زارام نے بےیقینی سے اسکی طرف دیکھا تھا کہ اسکی بہن کیا اس سے اتنی بدگمان تھی، عریبہ نے زارام کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
"زارام نے ایسی کوئی بہت نہیں کی جو تم اتنا بھڑک رہی ہو۔" مہرماہ نے ضرار کی طرف دیکھا تھا جسکی نظریں تو جھکی ہوئی تھیں مگر لہجہ خاصا سرد تھا۔
"دیکھو مہرو بچے آپ اپنے لالا کو تو بتاؤ آپ واپس کیوں نہیں جانا چاہتی، آخر آپ اس رات زخمی حالت میں سنسان سڑک پر کیسے پہنچی؟" مہرماہ کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ گیا تھا، اس نے اپنا سر جھکا لیا تھا۔
"اخزم بھی اس بات کو ایسے ہی نہیں جانے دے سکتا، پٹھانوں کا خون ہے جوش تو مارے گا۔ یہاں منگنی توڑنے پر بات خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے تم تو پھر اس کے نکاح میں۔۔۔۔"
"نہیں ہیں ہم اسکے نکاح میں، طلاق دے چکا ہے وہ ہمیں۔" مہرماہ ضرار کی بات بیچ میں ہی کاٹتی چینخ اٹھی تھی۔ سب ہی اپنی جگہ ششدر تھے۔
"چاہے وہ تمہیں طلاق دے چکا ہے لیکن پریشے اسکی بھی بیٹی ہے ہم اس سے اسکا یہ حق نہیں چھین سکتے۔" مہرماہ کو ضرار کے منہ سے اخزم کی وکالت ایک آنکھ نہ بھائی تھی اسنے آنسو چھلکاتی آںکھوں سے ضرار کو دیکھا جو کہ شاید ایک بیٹی سے باپ کا سایہ نہیں چھیننا چاہتا تھا۔
عریبہ اور زرنش نے مہرماہ کو سنبھالا تھا جسکی حالت اپنی بیٹی کو کھو دینے کے خوف سے بگڑتی جا رہی تھی۔
"ہم اس پر بعد میں بات کریں گے۔" ضرار نے مہرماہ کی حالت کے پیشِ نظر اٹھتے ہوئے بات کو اب کےلئے ختم کرنا چاہا مگر لاکھ چاہنے کے باوجود وہ اپنے سرد لہجے کو نارمل نہیں کر سکا تھا جو مہرماہ کو طیش دلا گیا تھا۔
"نہیں، ضرار ارباز خان بات ابھی ہو گی، ہاں تو کیا کہہ رہے تھے آپ اخزم خان ہماری بیٹی پر حق رکھتا ہے۔ تو کیا اگر وہ اسکا باپ ہے تو اپنی ایک بیٹی کے قاتل کو اپنی دوسری بیٹی تھما دیں؟" ہچکیوں کے درمیان اس نے اپنی بات مکمل کی جو کہ سب کو ساکت کر گئی تھی۔ وہ تو آج خان حویلی کے مکینوں کو پہ در پہ جھٹکے دے رہی تھی۔
وہ شروع ہوئی تو تب تک نہ تھمی جب تک اپنے اوپر گزری ہر ایک بات نہ کہہ گئی ہو۔
•••••••
آٹھ سال قبل:
سب کچھ دکھنے میں تو ٹھیک ہی تھا مگر کچھ ایسا بھی تھا جسے اپنے وقت پر ہی آشکار ہونا تھا۔
مہرماہ جب اپنے داجان کے ساتھ اخزم کی دلہن بن کر نور حویلی میں داخل ہوئی تو اسے سب کچھ اپنا اپنا لگا تھا، یہ حویلی بھی تو اسکی اپنی ہی تھی بلکہ یہی تو اپنی تھی اس کے باباجان کی حویلی، اس حویلی سے وہ تب گئی تھی جب وہ چار سال کی تھی اب تو وہ بیس سال کی ہوچکی تھی۔ وقت اپنی رفتار پر گزرتا گیا اسے اخزم خان سے اپنی شادی کا فیصلہ درست لگنے لگا تھا۔ حویلی کے تقریباً ہر فرد کا رویہ اسکے ساتھ ٹھیک تھا مگر حیدا خانم (اخزم خان کی مورے) کا رویہ اسے کچھ اکھڑا اکھڑا سا لگتا تھا اور داعصہ دیار (دیار خان کی بیٹی اور اخزم کی بہن) تو سرے سے اسے مخاطب ہی نہیں کرتی تھی۔ اخزم خان کی محبت اس سرشار کیے رکھتی تھی اور وہ اسی میں خوش تھی، حویلی آکر اس نے اپنا بی۔بی۔اے کا بھی امتحان پاس کرلیا تھا جسکی اجازت داجان نے اسے دیار خان اور حیدا خانم کے خلاف جا کر دی تھی۔
اس کی خوشی مزید بڑھ گئی تھی جب اس نے پہلی بار اپنی بیٹی، حوریہ کو گود میں لیا تھا وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت انسان تصور کر رہی تھی۔ لیکن دل میں ایک کسک اب بھی تھی، ان تین سالوں میں خان حویلی سے کوئی بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا اور نہ ہی وہ خود میں اتنی ہمت پاتی تھی کہ وہ خان حویلی جا سکے، اخزم خان سے شادی کر کے اس نے سب کو ناراض کر دیا تھا حالانکہ یہ رشتہ تو مہرماہ کی پیدائش پر ہی داجان کی خواہش پر طے کر دیا گیا تھا۔ یہ خوشی اسکے لیے عارضی ثابت ہوئی تھی جب اسکی دو ماہ کی بیٹی حوریہ نے اسکے ہاتھوں میں ہی آخری سانسیں لیں تھیں، اسے خود کو اپنی سانسیں تھمتی ہوئی محسوس ہوئیں تھیں، اس وقت اسے مہزلہ خان کی شدت سے یاد آئی تھی، لیکن خان حویلی سے پھر بھی کوئی نہ آیا تھا جو کہ اسکی بدگمانیوں میں مزید اضافہ کر گیا تھا۔
اس قیامت کے گزرنے کے ایک ماہ بعد ہی داجان بھی اسے تنہا کر گئے تھے، حوریہ کی موت کے بعد تو اخزم خان ویسے ہی بدل گیا وہ تو اب اسے حوریہ کی موت کا ذمہ دار بھی قرار دیتا تھا۔ سب کے رویے بدل گئے تھے حیدا خانم اور داعصہ اسکے پاس سے گزرتے اسے سنانا نہیں بھولتی تھیں کہ وہ ایک بدکردار ماں کی بیٹی ہے جسکی وجہ وہ اج تک نہیں جان سکی تھی، اب تو اس نے اپنے کمرے سے نکلنا ہی بند کر دیا تھا اور اخزم خان کو بھی اپنے ہی کمرے میں آئے مہینوں ہو چکے تھے۔
کچھ عرصہ بعد ہی اخزم خان نے حیدا خانم کی بھانجی امرہ خان سے دوسری شادی کر لی تھی، یہ خبر بھی اسے حویلی کے ملازمین سے ملی تھی۔ اب تو مہرماہ نے بھی خان حویلی واپس جانے کا فیصلہ سنا دیا تھا مجبوراً اخزم خان نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسکے حقوق میں کبھی کوتاہی نہیں کرے گا، وہ ناچار یہ بھی مان گئی تھی آخر کو وہ کس منہ سے خان حویلی جاتی ان پانچ سالوں میں نہ کبھی وہ خان حویلی گئی نہ کبھی وہاں سے کوئی آیا تھا۔
وہ پچھلے کچھ سالوں سے زندگی جی نہیں بلکہ گزار رہی تھی، صوم و صلوٰۃ کی پابند لڑکی نماز اب بھی باقاعدگی سے پڑھتی تھی مگر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا چھوڑ چکی تھی، وہ خدا سے نہیں بلکہ خود سے ہی ناراض تھی۔
اس کی زندگی میں ایک رات ایسی آئی تھی جو بہت سی گرہیں تو کھول گئی مگر اس پر زندگی مزید تنگ کر گئی۔ اس رات مہرماہ اخزم کو ڈھونڈ رہی تھی تاکہ وہ اس سے بات کر سکے کہ وہ مہزلہ خان سے ملنا چاہتی ہے لیکن حیدا خانم کے کمرے سے آتی آوازیں اسے ساکت کر گئی تھیں، باہر کسی کی موجودگی محسوس کر کے اخزم دروازے کی طرف بڑھا مگر مہرماہ کو اپنے قدم اٹھانا نہایت دشوار لگ رہا تھا، مہرماہ کو وہاں کھڑا دیکھ کر اخزم خان کا رنگ اڑا تھا مگر جلد ہی وہ خود پر قابو پاتے اسکی طرف بڑھا تھا۔
اس سے پہلے کے وہ مہرماہ سے بات کرتا اسکا ہاتھ اٹھا تھا جسکی آواز پورے لاؤنج میں گونجی تھی پاس کام کرتے ملازمین نے حیرت سے انکی طرف دیکھا تھا، کئی تو آنکھیں پھاڑے ادھر ہی دیکھ رہے تھے کچھ ڈر کے مارے آگے بڑھ گئے تھے۔
"اپنی ہی بیٹی کی جان لیتے وقت تمہارے ہاتھ ذرا نہیں کانپے اخزم خان۔" وہ اسکا گریبان پکڑے دھاری تھی۔
شور کی آواز پر حویلی کے سب فرد وہاں اکٹھے ہو چکے تھے حیدا خانم سب ملازمین کو ڈانٹ کر وہاں سے بھجوا چکی تھیں۔
"ہم ۔۔۔ ہم تمہیں اپنی بیٹی کا خون کبھی معاف نہیں کریں گے اخزم خان۔" سسکیوں کے درمیان وہ دوبارہ چینخی تھی۔ اخزم خان اسکا غصے سے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ رہا تھا مگر اسکے خود کے چہرے پر اپنے کیے پر ذرا ملال، افسوس، شرمندگی نہیں تھی۔
اس بات کو یہی دبانے کیلئے مہرماہ کو تہہ خانے میں بند کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی تھی نور حویلی کے مکینوں کے لیے۔ مہرماہ سے اخزم کو کبھی بھی محبت نہیں تھی وہ بس ایک ضد تھی، اسکی منگ جسے وہ کسی حال میں بھی کسی دوسرے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا تھا، محبت تو امرہ خان ہی تھی یا شاید محبت اسے صرف پیسے سے ہی تھی۔
اخزم خان اپنی کافی زمینیں، جائیداد جّوے میں ہار گیا تھا اب وہ مہرماہ کے حصے کی جائیداد اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دے سکتا تھا۔ اپنی بیٹی کی جان بھی اس نے اسی دولت کی لالچ میں لی تھی کیونکہ مہرماہ اپنا کچھ بھی کسی کو نہیں دے سکتی تھی اسکی ساری جائیداد اسکے بعد اسکی اولاد کی تھی، شاید یاور خان (دا جان) اخزم کی عیاش طبعیت کے پیشِ نظر ہی یہ وسیعت کر گئے تھے مگر انکی یہ دور اندیشی مہرماہ سے اسکی واحد خوشی چھین گئی تھی۔
تہہ خانے میں آئے اسے کچھ دن ہی ہوئے تھے جب اسے اپنی طبیعت کچھ بوجھل سی لگی تھی، اس طبعیت خرابی کی وجہ جان کر وہ خوش بھی تھی اور آنے والے کل کے لیے پریشان بھی۔ اس نے گل بانو کو یہ بات راز رکھنے کا کہا تھا، ویسے بھی وہاں اسکے پاس گل بانو کے علاوہ کوئی نہ آتا تھا۔
تہہ خانے میں بند اسے چھے مہینے گزر گئے تھے جب ایک رات اخزم خان نے وہاں قدم رکھتے اسکا سکون مزید برباد کر دیا تھا۔ اخزم خان اپنی لالچی، دولت پرست طبعیت کے باعث اپنے کسی دوست سے کسی بزنس ڈیل کے عوض مہرماہ کا سودا کر آیا تھا جسے مہرماہ کی صرف ایک جھلک ہی اسکا اسیر کر گئی تھی، اس نے اسے کہاں دیکھا تھا وہ خود نہیں جانتی تھی۔
یہ سب کہتے ہوئے اخزم کی غیرت کہاں سو گئی تھی وہ تو حیرت سے اسکا چہرہ تکتے بس یہی سوچ رہی تھی کہ اسے تو اس انسان کا منہ توڑ دینا چاہیے تھا جب اس نے اسکی بیوی کا نام لیا بلکہ وہ ایک خانزادی کے بارے میں ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟
ہاں جاگی تھی غیرت وہ اپنی بیوی کا کیسے سودا کر سکتا تھا مگر اپنی چچازاد کا تو کر سکتا تھا، وہ اسے طلاق کے کاغذ تھما کر جا چکا تھا۔
اس سب کے بعد وہ اس حویلی میں کبھی بھی نہیں رہ سکتی تھی، گل بانو کی مدد سے وہ حویلی سے نکل آئی تھی اور وہ یہ حقیقت بھی جان چکی تھی کہ زارام، ضرار، ضرم، زوھان یہاں تک کے داجی بھی اس سے ملنے نور حویلی آچکے تھے مگر ہر بار انہیں مردان خانے سے ہی بے عزت کر کے نکال دیا جاتا۔ اب تو بدگمانی کے بادل بھی چھٹ چکے تھے، لیکن رستے میں ہی کچھ آگے جاکر اسکا چلنا دوبھر ہوگیا تھا، اپنی طرف آتے قدموں کی آواز اسے موت کا پروانہ لگ رہی تھی۔ بےہوش ہونے سے پہلے اس نے ضرار کو دیکھا تھا اور بےخودی میں اسکے منہ سے'خان' نکلا تھا۔
•••••••
مہرماہ کے خاموش ہونے کے بعد کمرے کی خاموش فضا میں مہرماہ کی سسکیاں گونج رہی تھیں، عریبہ، زرنش اور مہزلہ خان بےآواز آنسو بہا رہی تھیں، سب مردوں کے چہرے بھی شدتِ ضبط سے سرخ ہو گئے تھے۔
" اخزم خان کو تو میں کسی صورت نہیں چھوڑوں گا۔" ضرار نے دروازے کی سمت بڑھتے طیش میں کہا تھا، غصے سے اسکی رگیں تن گئی تھیں۔
"کیا کرو گے، جان لو گے اسکی؟" اسفند خان کی دھاڑ پر اسکے قدم تھم گئے تھے، اس نے تذبذب سے انکی طرف دیکھا، جبکہ باقی سب کا سر جھکا ہوا تھا۔
"تو کیا کروں داجی، معاف کر دوں اسے؟" سرد مگر دھیمے لہجے میں کہا وہ کبھی بھی ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا۔
"کس نے کہا معاف کر دو؟ مت کرو معاف، مگر فیصلہ اللّٰہ پہ چھوڑ دو وہ بہتر انصاف کرنے والا ہے۔" جواب ارباز خان کی طرف سے آیا تھا جو کب سے خاموش بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ایک نظر مہرماہ پر ڈالی تھی وہ بھی انہیں دیکھتے ہی سر جھکا گئی تھی۔
ایک فون کال کے آتے ہی ضرار باہر چلا گیا تھا، اس کے اشارے پر زارام بھی اس کے پیچھے ہی جاچکا تھا، اس فون کال کے آتے ہی اس نے ضرار اور پھر زارام کے چہرے پر پھیلتی پریشانی بغور دیکھی تھی اسے کچھ دنوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ مہزلہ خان اور وہ دونوں اس سے اور باقی سب سے کچھ چھپا رہے ہیں مگر وہ سر جھٹک گئی۔
•••••••••
وہ آنکھیں موندے بیڈ کی ٹیک سے سر لگائے بیٹھی تھی جب اسے باہر ڈور بیل کی آواز سنائی دی اسے مناہل کے ساتھ اس فلیٹ میں آئے دو دن ہو چکے تھے وہ یہاں نہیں آنا چاہتی تھی مگر مناہل کی دوستانہ طبعیت اور خلوص نے اسے مجبور کر دیا تھا۔ اب باہر سے کچھ لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں وہ نظرانداز کرتی پھر سے آنکھیں موند گئی۔ کچھ ہی دیر بعد مناہل اندر آئی تھی اور اس سے اجازت لے کر اس ننھی سی گڑیا کو باہر لے گئی۔
••••••••
"سر یہ سب تو بہت زیادہ ہے اب تو یہ سامان دیکھ کر لگنے لگا ہے کہ مجھے سٹڈی کو اس ننھی سی گڑیا کے روم میں بدل دینا چاہیے۔" مناہل نے باری باری سب شوپنگ بیگز دیکھے، کیری کاٹ، پرام، بےبی کاٹ کی طرف اشارہ کرتے اسنے حیرت سے کہا۔
"زیادہ۔۔۔۔ زوھان کو تو ابھی بھی یہ سب کم لگ رہا تھا۔" معید نے صوفے پر ہی نیم دراز ہوتے ہوئے زوھان کی طرف طنزیہ مسکراہٹ اچھالی تھی، آج اسے رہ رہ کر اس پر غصہ آ رہا تھا جو کہ بہت ہی آرام سے اسکا چھٹی کا دن برباد کر چکا تھا جسے وہ ہفتہ پہلے ہی نیند کے نام کر چکا تھا۔
"رئیلی سر اٹس ٹو مچ، کئی کپڑے تو یہ ایک بار بھی نہیں پہن پائے گی۔" مناہل نے ان کے لیے چائے بناتے ہوئے اوپن کچن سے ہی تاسف سے کہا۔
"ٹھیک ہے بھئی،جو جو مجھے اچھا لگا میں لے آیا۔" زوھان نے گڑیا کی ناک سے ناک رگڑتے ہوئے خجالت سے کہا اب تو اسے بھی یہ کپڑے کچھ زیادہ ہی لگنے لگے تھے پر یہ اسکا شاپنگ کا پہلا ایکسپیرینس تھا۔
"وہ کیسی ہیں؟" اسنے سرسری سے انداز میں پوچھا، چائے کپ میں انڈیلتے ہلکی سی اسکے ہاتھ پر گری تھی، مگر دل میں اٹھتا درد ہاتھ کی اسکی جلن سے کئی زیادہ تھا۔
"بہتر ہے پہلے سے مگر بولتی تو بالکل بھی نہیں ہے شاید نیچر ہی ایسی ہے۔" مناہل نے کپ معید کی طرف بڑھایا، وہ اسکی تکلیف سمجھ رہا تھا۔ دونوں ہی تو یکطرفہ محبت کا درد سہہ رہے تھے۔
زوھان ان دونوں کی دلی کیفیت سے انجان اس چھوٹی سی گڑیا میں مگن تھا جب اس کا موبائل بجا۔ وہ اسے کیری کاٹ میں ہی لٹا کر کال ریسیو کرنے چلا گیا جو کہ حویلی سے تھی۔
•••••••
کچھ ہی دیر بعد زوھان اور معید مناہل سے معذرت کرتے وہاں سے ںکل آئے تھے۔ اب وہ دونوں زوھان کے فلیٹ کی طرف جا رہے تھے۔ معید زوھان کی پریشانی بھانپ گیا تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ وہ اسے خود بتائے۔
"زوھان تم نے آگے کا کیا سوچا ہے، مطلب کچھ عرصے تک ہم پشاور واپس چلے جائیں گے ہانیہ کا کیا ہو گا؟" معید نے ہی اکتا کر گاڑی میں موجود خاموشی کو توڑا تھا۔
"پتہ نہیں۔" غائب دماغی سے جواب آیا تھا، اس نے چونک کر زوھان کی طرف دیکھا اب تو اس کا شک یقین میں بدل گیا تھا کہ واقعی زوھان کو کوئی بات پریشان کیے ہوئی ہے۔
"کیا مطلب پتہ نہیں، مناہل کو تم نے تو بس عدت مکمل ہونے تک ہانیہ کو اپنے پاس رکھنے کا کہا تھا تو تمہیں پتہ ہونا چاہیئے اس کے بعد کہاں رہے گی وہ؟" معید نے تھوڑا غصے سے کہا، اسکی غیرت کو کیسے گوارہ تھا کہ اسکا دوست کسی کو آسرا دے کر پھر بےآسرا کر دے۔
"مہرماہ واپس آچکی ہے۔" گاڑی سڑک کے کنارے روکتے ہوئے اس نے سیٹ کی پشت پر سر گراتے آنکھیں موند لیں تھیں۔
"میں تمہیں کیا کہہ رہا اور تم مجھے۔۔"
"ایک منٹ، ایک منٹ کیا تم نے ابھی مہرماہ کہا؟" وہ چونکا جیسے اپنی ہی سماعت پر یقین نہ ہو۔
"اخزم اسے طلاق دے چکا ہے۔" اس نے اپنی کنپٹی مسلی۔
"مہرماہ کی دو بیٹیاں ہوئی ہیں، ایک اس وقت پشاور کے ہاسپٹل میں ہے اسکی کنڈیشن کافی کریٹیکل ہے۔" وہ ایک کے بعد ایک اس کے سر پر بم پھوڑ رہا تھا۔
"ایک منٹ زوھان مجھے تیری کچھ سمجھ نہیں آ رہی، یہ سب مطلب مہرماہ، اتنے سالوں بعد، کیسے، تو مجھے سب کچھ طریقے سے بتائے گا؟" وہ چینخ اٹھا تھا، زوھان کا بتایا سب کچھ اسکے اوپر سے ہی گزر رہا تھا۔
زوھان اسے سب کچھ بتاتا چلا گیا جو اسے ابھی کال پر ضرار نے بتایا تھا، اس لیے وہ مناہل سے معذرت کرتا نکل آیا تھا کہ اسے ابھی حویلی کے لیے نکلنا تھا۔
••••••
جاری ہے۔•will be waiting for your precious reviews 💕
•Don't forget to vote and comment 🤗
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...