Episode 15

327 26 2
                                    

مہرماہ اور زینیا کی کافی گہری دوستی ہوگئی تھی، وہ ضرار اور زرش کے بعد اس کی پہلی دوست تھی۔ اب جب کبھی اسے کسی کام سے باہر جانا ہوتا تو وہ ضرار کی بجائے زینیا سے کہا کرتی تھی یہ آفر بھی  زینیا نے اسے خود کی تھی اور اس کی یہ حرکت ضرار کوبہت بری لگی تھی، وہ جب بھی ضرار سے بات کرتی یا تو بات کا آغاز زینیا کے نام سے ہوتا یا  بات کا اختتام۔
"مجھے یہ ڈریس بلیک کلر میں پسند آیا تھا مگر زینیا کو یہ کلر اچھا لگا تو میں نے یہی لے لیا۔"  اب بھی اس کی باتوں کا موضوع زینیا ہی تھی۔
زینیا کی کال آتے ہی وہ ضرار کو یکسر نظرانداز کیے اس سے باتوں میں مگن ہوگئی، ضرار کو اس کا ایسا کرنا سخت ناگوار گزرا تھا۔ وہ پورا دن زینیا کے ساتھ گزار کر آئی تھی اور اب پھر سے اسی کیساتھ مصروف ہوگئی تھی جبکہ ویکینڈ ہونے کی وجہ سے ضرار گھر پر ہی اس کا انتظار کرتا رہا تھا۔
"کیا ہوا کہاں جا رہے ہیں؟" وہ ضرار کے بگڑتے تاثرات سے بےخبر اپنی ہی کہے جا رہی تھی، ضرار کو اپنی جگہ سے اٹھ کر دروازے کی سمت جاتا دیکھ اس نے اچنبھے سے پوچھا۔ لیکن ضرار کے چہرے کے تاثرات نے اسے جلدی سے الوداعی کلمات کہہ کر کال ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔
"باہر، ویسے بھی میرے یہاں بیٹھنے یا نا بیٹھنے سے تمہیں کہاں فرق پڑتا ہے۔" وہ نروٹھے لہجے میں کہتا رخ موڑ گیا۔
"آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟" وہ اب بھی اس کی بات کا مطلب نہیں سمجھی تھی۔
"تم خود تو مصروف تھی میں یہاں بیٹھ کر کیا کرتا۔" اس کا لہجہ ہنوز ناراضگی لیے ہوئے تھا۔
"کال آنے سے پہلے تو آپ سے ہی بات کر رہی تھی۔" مہرماہ نے خفگی سے جواب دیا۔
"کال آنے سے پہلے بھی تم اسی کی باتیں کر رہی تھی جس سے اب بات کر رہی تھی۔" ضرار نے دانت کچکچاتے کہا۔
"میں تو آپ کو اپنی شاپنگ دکھا رہی تھی۔" وہ بیڈ پر بکھرے سامان کو دیکھتے تاسف زدہ سی گویا ہوئی ۔
"تم شاپنگ نہیں دکھا رہی تھی، زبان زیادہ چلا رہی تھی زینیا ںے ایسا کہا، زینیا نے یہ کہا۔ حد ہے مہرماہ بس کر دو اب، مجھے تو اب خود پر ہی غصہ آ رہا ہے میں نے تمہیں اس سے ملوایا ہی کیوں؟؟؟ اس سے ملتے ہی تم تو یہ بھلائے بیٹھی ہو کہ تین بچوں کے ساتھ ایک عدد شوہر بھی ہے تمہارا جس نے تمہارے انتظار میں اپنا چھٹی کا سارا دن برباد کر دیا ہے اور تم میرے ساتھ بھی تو شاپنگ پر جا سکتی تھی کیا ضرورت تھی زینیا کے ساتھ جانے کی؟؟" وہ تو پھٹ پڑا تھا، اس کی اونچی آواز پر مہرماہ نے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے اسے گھورا۔
"کیا کر رہے ہیں آہستہ بولیں، یہ دونوں اٹھی نا تو آپ ہی دوبارہ سلائیں گے۔" وہ دبی دبی آواز میں دانت پیستے بولی۔
"اسد بھائی  پچھلے ہفتے سے واشنگٹن گئے ہوئے ہیں، زینیا بیچاری اکیلی بور ہو جاتی ہے اسی لیے میں اسے شاپنگ پر لے گئی تھی۔" بیڈ سے سامان سمیٹتے اس کی زبان اب بھی فراٹے بھر رہی تھی۔
"اسد گھر پر نہیں تھا، میں تو گھر پر ہی تھا اور زینیا کی بوریت کا سوچتے کچھ میرا بھی خیال کر لینا تھا۔" اس کی خفگی برقرار تھی، مہرماہ نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
"بچے گھر پر ہی تھے۔" اس نے ہر لفظ پر زور دیتے کہا۔
"ہاں ایک دن آوف ہوتا ہے تم مجھے ان کی نینی بنا دیا کرو۔" ایک اور شکوہ کیا گیا۔
"ایک منٹ ذرا، مطلب کیا ہے آپ کا، میں جو باقی دن سنبھالتی ہوں تو کیا میں نینی ہوں ان کی؟؟؟" اس کی  بات نے تو مہرماہ کا دماغ گھما دیا تھا۔
"میری بات کا یہ مطلب نہیں تھا۔" وہ مہرماہ کی بات پر گڑبڑا گیا۔
"تو اور کیا مطلب تھا؟" وہ اس کے روبرو کھڑی اسے کڑے تیوروں سے گھور رہی تھی۔
"تم ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہو۔" وہ افسوس اوردکھ سے کہتا سٹڈی کی طرف بڑھا۔
"کیا کرتی ہوں میں؟" مہرماہ نے نرمی سے کہا کیونکہ وہ سمجھ گئی تھی کہ ضرار اس سے ناراض ہو کر سٹڈی روم میں جا رہا تھا۔
"اپنی غلطی ماننے کی بجائے الٹا میرے پر چڑھ دوڑتی ہو۔" مہرماہ کی نرم آواز پر وہ بھی کچھ ڈھیلا پڑا تھا۔
"آپ بھی تو ہمیشہ لڑائی ختم کرنے کی بجائے اپنا رخ سٹڈی کی طرف کر لیتے ہیں۔" وہ اس کے ناراضگی سے منہ پھلا کر سٹڈی میں بند ہو جانے پر چوٹ کر رہی تھی۔
"کیونکہ مجھے پتا ہوتا ہے میری ماہی مجھے منانے ضرور آئے گی۔" ضرار نے اسے اپنے حصار میں لیتے، اپنا ماتھا اس کے ماتھے سے ٹکراتے، اس کی ناک دبائی، مہرماہ نے خفگی سے اس کی طرف دیکھا۔
"اور آپ ہر بار اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔" اس کی بات پر ضرار کھلکھلا کر ہنستے اپنا ماتھا اس کے ماتھے پر ٹکاتے آنکھیں موند گیا۔ وہ دونوں آنکھیں بند کیے خاموشی سے ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کر رہے تھے۔
محبت تو شروع سے ہی ان دونوں کے مابین قائم تھی، وقت گزرنے کے ساتھ، بدگمانیوں کے بادل بھی چھٹتے چلے گئے تھے، ان کے درمیان قائم ہوتے اعتبار اور احترام نے ان کے اس اٹوٹ، پاکیزہ بندھن کو اور مضبوط کر دیا تھا۔

ھسک (✔️Completed) Where stories live. Discover now