مہرماہ آہستگی سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی، وہ ٹیبل کے سامنے پڑی ریوالونگ چئیر پر سو رہا تھا۔ سوتے وقت اسے وہ کوئی معصوم بچہ لگا ۔ معصوم اور وہ بھی "ضرار ارباز خان" اور بتیس سالہ بچہ ، اپنی ہی سوچ پر مہرماہ مسکرائی تھی۔ اس نے نرمی سے اس کی بند آنکھوں پر انگلی پھیری، جن میں اب کچھ دنوں سے سنجیدگی کی جگہ نو سال پہلے والی شرارتی چمک ہوتی تھی۔ وہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ پر پڑی۔ وہ خط تھا جس پر لکھی تحریر پڑھتے اس کے اعصاب جھنجھنا اٹھے، دل تو گویا خون ہوا تھا۔ کبھی وہ ہاتھ میں پکڑے کاغذ کی طرف دیکھتی تو کبھی ضرار کی طرف، اسے وہاں اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا تو وہ سارے کاغذ ہاتھ میں لیے ہی کمرے میں آگئی۔
ناجانے کتنی ہی بار وہ اس خط کو پڑھ چکی تھی، نہ الفاظ بدلے اور نہ ان کا مطلب۔
"پاخیر راغلے خان!
ویسے میرے خان کہنے سے کسی کی یاد تو شدت سے آئی ہو گی، میں یہ کہہ کر زخم نہیں کرید رہی ویسے بھی مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ جانے انجانے میں ہی سہی مگر ان زخموں کو کریدوں جو خود میری ہی دین ہیں۔ میں تو بس اس دنیا سے جانے سے پہلے ایک بار آپ کو خان کہہ کر بلانا چاہتی ہوں، روبرو نہ سہی اس طرح خط میں ہی سہی کم سے کم کوئی حسرت لیے اس دنیا سے تو نہیں جاؤں گی، ایک اور حسرت ہے جو صرف آپ ہی پوری کر سکتے ہیں مگر وہ خط کے آخر میں بتاؤں گی، پہلے اس سوال کا جواب دیں دو جو آپ کے ذہن میں ضرور ابھرا ہو گا کہ آپ کے زخم میری دین کیسے ہوئے تو ہاں ضرار ارباز خان، آپ کی، مہرماہ کی اور خان حویلی کی خوشیوں کی قاتل ہوں میں ۔ یاد ہے آپ کو آپ سے میں نے ایک بار یونی کے گراؤنڈ میں بیٹھے پوچھا تھا کہ کیا آپ مہرماہ سے محبت کرتے ہیں؟؟؟ اب یہ سوال سوچتے ہی خود پر ہنسی آتی ہے بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات تھی۔
آپ کو آج ایک راز کی بات بتاتی ہوں جو زرنش بجو اور مہرماہ کا راز ہے، اب تو مہرماہ کا نام لکھتے بھی دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ وہ دونوں اس بات سے لاعلم ہیں کہ مہرماہ کی رخصتی کے دن میں نے ان کی ساری باتیں سن لی تھیں۔ اب وہ باتیں سوچتی ہوں تو لگتا ہے میں خودغرضی دکھا گئی تو کبھی دل کہتا ہے زرش خودغرض نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک ماں خود غرض ہوگئی تھی، میں نے اپنی آنے والی اولاد کی خاطر اس دنیا میں موجود اپنے رشتوں کی خوشیاں چھین لیں۔ مجھے آج بھی لفظ بہ لفظ مہرماہ کی بات یاد ہے، اسنے کہا تھا:
"کبھی اپنی زندگی ایسے برباد نہ کرتے بجو اگر دل میں ذرا سے بھی یہ امید ہوتی کہ جس شخص سے سے ہم محبت کرتے ہیں وہ بھی ہم سے محبت کرتے ہیں۔"
جانتے ہیں وہ شخص کون تھا، وہ کوئی اور نہیں آپ ہیں ضرار ارباز خان آپ۔۔۔۔۔
ہماری آخری ملاقات میں آپ کے مہرماہ کے لیے کیے گئے محبت کے اعتراف نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی تھی مگر وہ تکلیف اس بات کی نہیں تھی کہ میرا شوہر کسی اور سے محبت کرتا ہے بلکہ وہ تکلیف تو اس بات کی تھی کہ میں اپنے دوستوں کو نہ سمجھ سکی، میری خود غرضی آپ دونوں کی زندگی برباد کر گئی۔
مہرماہ زبردستی آپ کی زندگی میں نہیں گھسنا چاہتی تھی، وہ کوئی مجبوری یا سمجھوتے کا رشتہ نہیں چاہتی تھی، وہ آپ کو مجھ سے نہیں چھیننا چاہتی تھی مگر وہ اس بات سے انجان تھی کہ مجبوری اور سمجھوتے کا رشتہ تو آپ کا اور میرا ہے، وہ مجھ سے اپ کو کیسے چھینتی آپ تو کبھی میرے تھے ہی نہیں۔ آپ دونوں کی محبت تو بےخبری کی نذر ہو گئی، اب لگتا ہے ہاں محبت اظہار مانگتی ہے۔
ضرار میں اس وقت بہت تکلیف میں ہوں، ہاں مگر یہ تسلی ہے کہ یہ تکلیف آپ کے یہاں آنے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔ میں شرمندہ ہوں آپ دونوں سے، دوستی کا حق ادا نہ کر سکی، قصوروار ہوں آپ دونوں کی ہو سکے تو آپ دونوں ہی مجھے معاف کر دینا۔ میری یہ معافی آپ مہرماہ تک پہنچائیں گے اور یہی میری وہ حسرت ہے جس کا ذکر میں نے خط کے شروع میں کیا تھا۔ پلیز مہرماہ کو خان حویلی واپس لے آنا کیونکہ میرا دل کہتا ہے وہ نور حویلی میں اخزم خان کے ساتھ خوش نہیں ہے۔ شاہ میر کو مہرماہ کے بھروسے چھوڑ کر جا رہی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں وہ کبھی میرے بیٹے کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی، اسے میری آخری خواہش سمجھتے مہرماہ سے شادی کر لیجیے گا۔
ایک ڈائری میری کبرڈ میں پڑی ہے وہ شاہ میر کو دے دیجیے گا میں نہیں چاہتی وہ یہ سمجھے کے میں اسے اکیلا چھوڑ گئی، مہرماہ کے آنے تک وہ ڈائری ہی اس کی ساتھی ہو گی۔
مہرماہ کا خیال رکھیے گا کیونکہ آپ کا، شاہ میر کا اور خان حویلی کے باقی لوگوں کا خیال تو مہرماہ رکھ ہی لے گی۔
فقط آپ کی دوست،
زرش ضرار خان۔"
اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا جب ضرار کمرے میں داخل ہوا، کھٹکے کی آواز پر اس نے سر اٹھایا اسکے آنسو دیکھ کر ضرار ہمیشہ کی طرح بے چین ہوا مگر اس کے ہاتھ میں زرش کا خط دیکھ کر ضرار کے اس کی طرف بڑھتے قدم تھم گئے، وہ وہیں ساکت کھڑا اس کے ہاتھ کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"میں نے کبھی ہمارے مابین رشتے کو مجبوری نہیں سمجھا تھا، وہ رشتہ کبھی بھی سمجھوتہ نہیں تھا، ہماری شادی کے بعد کبھی میں نے تمہارے بارے میں نہیں سوچا تھا وہ مجھے بہت عزیز تھی، اس کے چہرے پر خوشی دیکھتے ہی میرا دن خوشگوار ہو جاتا تھا، وہ اور شاہ میر ہی میری کل کائنات تھے۔ سب کچھ ٹھیک تھا مگر مسز قریشی کی باتوں میں آکر وہ مجھ سے بدگمان ہوئی تھی اور میں اس کی بدگمانی دور کرنے کے چکر میں اپنا سب سے بڑا راز فاش کر گیا، وہ راز مجھ سے زرش اور پلوشے دونوں کو دور کر گیا، وہ جان گئی تھی کہ میں کسی اور سے نہیں تم سے محبت کرتا ہوں، میں سمجھا تھا وہ مجھ سے ناراض ہو کر پاکستان گئی ہے میں اسے کچھ دن بعد جا کر منانے والا تھا، مگر وہ تو خود سے ہی ناراض ہو گئی تھی۔ میری دیری مجھ سے میرے دو انمول رشتے چھین گئی۔ میں اگر اس سے محبت نہیں بھی کرتا تھا پھر بھی وہ مجھے بہت پیاری لگتی تھی، معصوم، دل کی صاف، اپنی خوشی پر دوسروں کی خوشی کو ترجیح دینے والی، وہ بہت اچھی تھی۔ پلوشے کا نام بھی اسی نے سوچا تھا، اسے بیٹی کی بہت خواہش تھی، جاتے جاتے وہ اسے بھی اپنے ساتھ لے گئی۔ کم سے کم اسے تو چھوڑ جاتی میرا گلٹ کچھ تو کم ہوتا۔"
وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے رو رہا تھا، مہرماہ بھی بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھی تھی۔
"میں بھی اخزم خان کی طرح اپنی بیٹی کا قاتل ہوں۔" اس کی بات پر مہرماہ کو دھچکا لگا، وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔
"خان جو بھی ہوا اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں تھا، آپ نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا۔ میرے ساتھ جو بھی ہوا کچھ قسمت کا کھیل تھا اور کچھ میری خود کی بے عقلی کا نتیجہ اور جہاں تک بات زرش اور پلوشے کی ہے تو ان کی زندگی اتنی ہی تھی، یہ تو خدا کے کام ہیں اور ان میں ہم انسانوں کا کیا عمل دخل۔" وہ اس کے ہاتھ تھامے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی، آواز میں نمی گھلی تھی، آنسو بےاختیار گالوں پر بہہ رہے تھے۔
"شازیم کے ساتھ بھی جو ہوا وہ اس کے نصیب میں لکھا تھا اور نصیب کا لکھا تو کبھی کبھار ہماری دعائیں بھی نہیں بدل پاتیں کیونکہ ہم سے بہتر اللّٰہ جانتا ہے کہ ہمارے حق میں کیا اچھا اور کیا برا، آگے کا سب بھی اس پر چھوڑ دیں اور اس خودساختہ احساسِ جرم سے باہر نکل آئیں، اس سے آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنے سے جڑے رشتوں کو بھی تکلیف پہنچا رہے ہیں۔" نرمی سے کہتے مہرماہ نے اس کے آنسو پونچھے۔
"کل زرش کی پانچویں برسی تھی۔" وہ کافی دیر سے اسی پوزیشن میں ضرار کے ہاتھ تھامے نظریں نیچی کیے بیٹھی تھی جب اس کے کانوں سے اس کی آواز ٹکرائی۔
"اسے بروکلین بریج brooklyn bridge بہت پسند تھا، وہ اب بھی ویسا ہی ہے بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے بس وہ نہیں ہے اس کی یادیں ہیں جو اسے کبھی بھولنے ہی نہیں دیتیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ میں اسے کبھی بھولنا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ وہ بہت فرمانبردار بیوی، بہت چاہنے والی ماں اور وفادار دوست تھی۔ وہ جاتے جاتے بھی اپنے سب رشتوں کا حق ادا کر گئی۔" دونوں کے چہروں پر آنسوؤں کے مٹے ہوئے نشان تھے، ضرار افسردگی سے مسکرایا، وہ بہت غور سے اسے سن رہی تھی۔ اس کے ایک ایک لفظ سے زرش کیلئے بےانتہا احترام جھلک رہا تھا، یہی تو ایک چیز تھی جس کی اس نے اخزم سے توقع کی تھی، وہ بھلے ہی محبت نہ دیتا مگر عزت تو دیتا۔
••••••••••
"مورجان میں نے معید سے بات کر لی ہے۔" وہ مہزلہ خان کے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا، پورا ایک دن لگا تھا اسے خود میں ہمت مجتمع کر کے مہزلہ خان سے بات کرنے میں، مہزلہ خان نے اچھنبے سے اس کی طرف دیکھا۔
"کس بارے میں؟" مہزلہ خان اس کی بات کا مطلب نہیں سمجھ سکیں۔
"ہانیہ سے شادی کے بارے میں، میرے سرکل میں اس کے علاوہ کوئی قابلِ اعتبار نہیں ہے۔" اس نے سر ابھی تک جھکا رکھا تھا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کی ضبط سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اس کا بھید جان جائے۔ مگر سامنے موجود ہستی اس کی ماں تھیں، ماں تو اولاد کی رگ رگ سے واقف ہوتی ہے۔
"تو انہوں نے کیا کہا؟" مہزلہ خان کو ذرا بھی امید نہیں تھی کہ زوھان اس معاملے میں معید کو بھی لے آئے گا۔
"وہ ہانیہ سے شادی کے لیے تیار ہے مگر ۔۔۔۔۔" اس نے بات درمیان میں ہی چھوڑتے اپنی آنکھیں بند کرتے کھولیں۔
"مگر حورعین اس گھر سے کہیں نہیں جائے گا۔"
"کیوں؟؟ کیا ان میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ ماں کے ساتھ بیٹی کو بھی اپنا سکیں۔" وہ طنزیہ لہجے میں گویا ہوئیں۔
"مورے اس نے ایسا کچھ نہیں کہا۔" مہزلہ خان کی بات پر وہ ذرا کی ذرا گڑبڑایا۔
"تو پھر حورعین کیوں نہیں جائے گی؟" اس کی بات مہزلہ خان کو الجھا رہی تھی۔
"کیونکہ میں کہہ رہا ہوں۔" وہ بےتاثر لہجے میں بولا۔
"مگر کیوں زوھان خان؟" مہزلہ خان نے غصے پر قابو پاتے کہا۔
"مورے وہ صرف ہانیہ کی بیٹی نہیں ہے، اسے میں نے بھی اپنی اولاد کی طرح چاہا، جان بستی ہے زوھان خان کی اس میں، میں کچھ دیر کیلیے اسے اپنی نظروں سے دور نہیں کر سکتا اور آپ ہمیشہ کیلئے اسے مجھ سے دور کر رہی ہیں۔" اس نے سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھ کر انہوں نے نظریں چرائیں۔ وہ کسی کمزور لمحے کی ضد میں آ کر اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھیں۔ انہیں جو بھی کرنا تھا ارباز خان کے اسلام آباد سے واپس آنے سے پہلے ہی کرنا تھا۔
"اوہ، تو آپ ان سے اپنے اب تک کے کیے گئے احسانوں کا خراج مانگ رہے ہیں۔" اسے مہزلہ خان کا لہجہ طنزیہ لگا۔
"میں نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا۔" اس کا لہجہ مضبوط تھا۔
"اگر آپ حورعین کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتے تو خود ہانیہ سے شادی کر لیں۔" مہزلہ خان کی بات پر زوھان کے چہرے پر پھیلتی خوشی ایک دم ہی ختم ہو گئی۔
"میں ایسا نہیں کر سکتا۔" اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا۔
"ان کی کسی اور سے شناسائی رہ چکی ہے، اس لیے نہیں کر سکتے۔" ایک اور طنز کا تیر چلا تھا جس کی چبھن بہت زیادہ تھی۔
"افسوس مورے کہ آپ کو میری سوچ اتنی گری ہوئی لگتی ہے۔" اس کے دکھی لہجے میں کہنے پر مہزلہ خان نے سرد آہ بھری۔
"تو پھر کیا وجہ ہے زوھان؟"
"مورے باباجان پختون کے علاوہ کوئی ملازم برداشت نہیں کرتے تو کیا وہ پنجابی بہو برداشت کر لیں گے۔" اس نے عجیب لہجے میں کہا۔
"جہاں آپ آج تک اپنی مرضی کر کے انہیں ناراض کرتے آئیں ہیں تو ایک بار پھر سہی۔" زوھان کھلکھلا کر ہنسا۔
"بات صرف میری ہوتی تو کب کا نکاح کر چکا ہوتا مگر ہانیہ اور حورعین کی فکر ایسا کرنے سے روک دیتی ہے۔" اس کی بات کا مفہوم سمجھتے مہزلہ خان کے چہرے پر ناگواری پھیلی۔
"آپ نے اپنے باباجان کو سمجھ کیا رکھا ہے، وہ سردار ارباز جبار خان ہیں کوئی گلی کے غنڈے، بدمعاش نہیں جو ہانیہ اور حورعین کو کوئی نقصان پہنچا دیں گے۔" مہزلہ خان کی اپنے شوہر سے محبت ایسی ہی تھی، وہ ان سے لاکھ اختلاف رکھتیں مگر ان کے خلاف ایک لفظ سننا گوارہ نہیں کرتی تھیں، چاہے وہ ایک لفظ ان کی اپنی چہیتی اولاد کے منہ سے ہی کیوں نہ ادا ہوا ہو۔
"آپ کچھ بھی کہیں مورے مگر میں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔" وہ مہزلہ خان کے ناراضگی سے کہنے پر مسکرایا۔
"میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کیا آپ کو اپنی مورے کے وعدے پر بھی یقین نہیں ہے؟ میں چاہتی ہوں آپ ہانیہ سے شادی کر لیں اور آپ بھی تو حورعین کو اس گھر سے دور نہیں بھیجنا چاہتے۔" مہزلہ خان نے گرم لوہے پر ہتھوڑے سے آخری وار کیا تھا۔
"مورے بات آپ پر یقین کی نہیں ہے بلکہ بات میرے یا آپ کے چاہنے کی بھی نہیں ہے، بات تو ہانیہ کی رضامندی کی ہے وہ مجھ جیسے کھڑوس، بدتمیز، نک چڑھے، بڈھے سے شادی کریں گی ہی کیوں؟؟" سنجیدہ لہجے میں ہانیہ کے اس کے بارے میں کہے الفاظ دہراتے اس نے کمرے کا دروازہ کھول دیا جہاں ہانیہ اور حریم دروازے سے کان لگائے کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھیں۔ وہ دونوں ایک دم دروزاہ کھلنے پر ہڑبڑائیں۔
"اگلی بار چھپ کر کسی کی باتیں سنتے وقت اپنا منہ بند رکھیئے گا کہ پکڑے جانے کے چانسز کم ہوں۔" زوھان نے ان کی باتیں سننے کے دوران انکی کمنٹری پر چوٹ کی۔ حریم نے تو اسے دیکھتے ہی اپنے دانتوں کی نمائش کردی جبکہ ہانیہ شرمندگی سے سر جھکا گئی، یہ شرمندگی بھی صرف مہزلہ خان کے سامنے ایسی حرکت کرتے پکڑے جانے پر تھی، ورنہ مجال ہے جو کبھی وہ زوھان کے سامنے اپنی غلطی ہوتے ہوئے بھی شرمندہ ہو جائے۔
"جب آپ ساری باتیں سن ہی چکی ہیں تو ہانیہ کیا آپ میرے اس "کریلا صفت" بیٹے سے شادی کریں گی؟" اتنے سنجیدہ ماحول میں مہزلہ خان کے ایسے الفاظ پر حریم کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ ہانیہ اپنی ہنسی چھپانے کے لیے سر جھکا گئی۔ زوھان نے خفگی سے مہزلہ خان کی طرف دیکھا جو خود بھی اپنی ہنسی روکنے کی بمشکل کوشش کر رہی تھیں۔
غصے میں زوھان ہانیہ کا جواب سنے بغیر ہی کمرے سے واک آؤٹ کر گیا۔
•••••••
معید اتنے دنوں سے مناہل کے اسے نظرانداز کرنے پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ مہزلہ خان نے اسے ہانیہ اور اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا، حریم کو کیفے ٹیریا میں اکیلے بیٹھے دیکھ وہ اس کے سامنے کی کرسی گھسیٹتے بیٹھ گیا، حریم بھی اسے دیکھتے ہی مسکرائی۔ وہ دونوں باتوں میں ہی مگن تھے جب اسے مناہل ان کی طرف آتی دکھائی دی، ذہن میں ایک خیال آتے ہی ایک محظوظ سی مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں پر بسیرا کر لیا۔
"تو پھر اپنے لالا کے نکاح کی تیاری کیسی چل رہی ہے؟" اس نے کن آکھیوں سے مناہل کی طرف دیکھا، جس کے آگے بڑھتے قدم اس کی بات پر رک گئے۔
"میری تو تیاری مکمل ہے بس ہانیہ کا ہی نکاح کا ڈریس رہ گیا ہے، مورجان کہہ رہی تھیں کہ وہ لالا کیساتھ جا کر خود ہی لے آئے۔" اس کی پرجوش سی آواز سن کر مناہل وہی کرسی گھسیٹتے بیٹھ گئی۔
"کیا ہانیہ اور زوھان سر کا نکاح ہے؟" معید نے اس کے چہرے پر پھیلتی خوشی کو حیرت سے دیکھا، وہ زوھان کے نکاح کا سن کر تھوڑا سا بھی اپسیٹ نہیں ہوئی تھی۔ تو کیا اب وہ زوھان کو پسند نہیں کرتی تھی، اگر نہیں تو وہ یہاں کیا کر رہی تھی؟؟؟؟
"کس نے کہا ہانیہ کا نکاح زوھان سے ہو رہا ہے؟" معید نے اشارے سے حریم کو خاموش رہنے کا کہا، بات سمجھتے ہی وہ بھی حظ اٹھانے کی غرض سے زبان کو قفل لگائے خاموشی سے شو انجوائے کرنے لگی۔
"ابھی آپ نے ہی لالا کا نکاح کہا تھا تو اوبویسلی زوھان سر کی ہی بات ہو رہی ہوگی۔" وہ ساری ناراضگی بھلائے لا پرواہی سے بولی، جتنے سکون سے اس نے کہا تھا وہ سارا سکون ابھی تھوڑی دیر میں رخصت ہونے والا تھا۔
"لالا بھائی کو کہا جاتا ہے اور حریم کے زوھان کے علاوہ اور بھی بھائی ہیں۔" معید کے چبھتے لہجے میں کہنے پر مناہل کی آنکھیں ڈبڈبائیں، وہ اس کے اس لہجے کی عادی نہیں تھی۔
"جانتی ہوں اس کے زوھان سر کے علاوہ اور بھی بھائی ہیں مگر وہ سب میریڈ ہیں تو پھر کس سے ہانیہ کا نکاح ہو رہا ہے؟" اس کی کچھ دیر پہلے والی خوشی ماند پڑ گئی۔
"کس نے کہا زوھان کے علاوہ سب میریڈ ہیں، میں تو ابھی تک شدید کنوارا ہوں۔" مناہل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، شدید کنوارے پر اچھا خاصا زور دینے پر حریم کو بھی چائے پیتے اچھو لگ گیا۔ مگر دونوں اسے یکسر نظر انداز کرتے ایک دوسرے میں مگن رہے، ایک کی آنکھوں میں بےیقینی تھی تو دوسرے کی آنکھوں میں نظر آتا اطمینان قابلِ دید تھا۔
مناہل کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
"نہ کریں لالا، یہ نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔" معید نے سامنے پڑے چائے کے کپ سے نظریں ہٹاتے حریم کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہو گیا تھا۔
"اس نے بھی تو اتنے عرصے سے میرا سکون برباد کیا ہوا تھا، اب میری باری ہے اس کا سکون برباد کرنے کی۔" معید کے کندھے اچکا کر لاپرواہی سے کہنے پر حریم کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"تو آخرکار معید خان پر ڈاکٹر مناہل کی محبت آشکار ہو ہی گئی۔" اب کے حیران ہونے کی باری معید تھی۔
"ڈونٹ ٹیل می لالا کہ آپ کو ابھی تک اپنے لیے انکی محبت کا علم نہیں ہوا تھا۔" حریم کی حیرت میں ڈوبی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی مگر وہ خاموش رہا۔ اس کی پاس تو کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں تھا۔
"جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔" حریم بڑبڑاتے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
تو کیا مناہل زوھان کے لیے نہیں بلکہ معید کے لیے پشاور آئی تھی؟؟؟؟
••••••
"مہرماہ۔" اس کے کانوں سے ضرار کی غصیلی آواز ٹکرائی، اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔ اسے اتنے غصے میں پورے نام سے بلانے کا صاف مطلب تھا کہ مہرماہ ضرار خان پھر سے کوئی غلطی کر بیٹھی ہیں۔
کمرے میں داخل ہوتے اس نے ضرار کی طرف دیکھتے بھنویں اچکائیں۔ اس کے چہرے پر ڈر کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔
"یہ کمرے کی کیا حالت کر رکھی ہے؟" اس نے تنے ہوئے تاثرات سے پوچھا، کہیں بھی گندگی دیکھتے وہ ایسے ہی آپے سے باہر ہو جاتا تھا۔
"کیا مطلب کر رکھی ہے، میں نے کی ہے جو مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟" اس نے بھی تند لہجے میں جواب دیا۔
"تو پھر کس سے پوچھوں؟" وہ سخت جھنجھلاہٹ کا شکار تھا۔
"اپنی بیٹیوں سے پوچھیں، جن کی یہ کارستانی ہے۔ ادھر میں نے ابھی کمرہ صاف کیا نہیں ادھر پھر سے کمرے کی وہی حالت کر دی۔" جواب دوبدو آیا تھا، آج وہ بھی شدید غصے میں تھی۔
"تو کیا ہوگیا بچے یہ گند نہیں پھیلائیں گے تو کون پھیلائے گا؟" اس کا غصہ پریشے اور پریہان کے ذکر پر جھاگ کی مانند بیٹھ گیا تھا، مہرماہ نے خفگی سے اس کی طرف دیکھا۔
مہرماہ کو منہ پھلائے دروازے کی طرف جاتا دیکھ اس نے پیچھے سے ہی اسے اپنے حصار میں لیا۔
"اچھا نہ ماہی سوری، تمہیں تو پتہ ہے جب مجھے کوئی چیز اپنی جگہ پر نظر نہ آئے تو مجھے غصہ آجاتا ہے اور یہاں تو سب کچھ ہی۔۔۔" اسنے اس کا رخ اپنی طرف کرتے کمرے میں بکھرے کھلونوں کی طرف اشارہ کیا۔
"آپ کے آنے سے پہلے سب سمیٹ دیتی ہوں مگر وہ دونوں پھر سے سب پھیلا دیتی ہیں اور اگر انہیں کچھ کہتی ہوں تو آپ کو اس پر بھی غصہ آتا ہے۔" وہ ناراضگی سے گویا ہوئی۔
"ماہی پریشے اور پریہان کی شکایت تو مجھ سے کبھی کرنا ہی مت، کیونکہ میں ہمیشہ انہی کی سائیڈ لینے والا ہوں۔" اس کی ٹھوڑی کو دو انگلیوں کی مدد سے اوپر اٹھاتے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہا۔
"غلطی ان کی ہو پھر بھی؟؟" وہ ناجانے اس سے کیا پوچھنا چاہ رہی تھی۔
"ہاں پھر بھی۔"
"مگر اس طرح تو وہ بگڑ جائیں گی۔"
"تم ہو ناں سدھارنے کے لیے۔" اس کے بے نیازی سے کہہ دینے پر مہرماہ نے خوشمگیں نظروں سے اسے گھورا۔
"وہ مہرماہ اور ضرار کی بیٹیاں ہیں کبھی نہیں بگڑے گئیں اور میں نہیں چاہتا کہ وہ کبھی یہ سوچیں کہ میں نے انہیں سگھی اولاد کی طرح نہیں چاہا۔" ضرار کے سنجیدگی سے کہنے پر مہرماہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔
"تمہاری بھی میرے دل اور میری زندگی میں وہی جگہ ہے جو شاہ میر، پریشے اور پریہان کی ہے مگر میں چاہتا ہوں مجھ سے زیادہ وہ تینوں تمہیں عزیز ہوں، میرے سے پہلے تم ان کی فکر کرو۔" وہ نرمی سے اپنے انگوٹھے سے اس کے گال سہلا رہا تھا۔ اس وقت مہرماہ نے خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ اللّٰہ نے اسے ضرار جیسا ہمسفر ادا کیا تھا، جسے اپنے سے جڑے ہر رشتے سے محبت تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ پریشے اور پریہان بھی اس کی طرح باپ کی محبت اور شفقت سے محروم رہنے والی ہیں مگر اللّٰہ تو بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
"کہیں تم پریشے اور پریہان سے جیلس تو نہیں ہو رہی تھی۔" مہرماہ ہڑبڑا کر نظریں چرا گئی۔
"لائیک سیریسلی ماہی تم اپنی بیٹیوں سے جیلس ہو رہی تھی۔" ضرار نے تو مذاق میں کہا تھا مگر مہرماہ کا رئیکشن اسے چونکا گیا۔
"نہیں تو میں کیوں ہونے لگی جیلس۔" مہرماہ نے شرمندگی سے اپنا کمزور سا دفاع کیا۔
"منی ابدال لوگی (میری بیوقوف بیوی)۔" ضرار نے اس کے چہرے پر جھولتی لٹ کو کان کے پیچھے کیا، وہ غصے سے ایک جست میں اس کے حصار سے نکلتے باہر چلی گئی۔ ضرار اس کے ناراض ہونے پر کھل کر ہنسا۔
وہ بچپن سے ہی ضرار کے بلوچی زبان میں کچھ کہنے سے ایسے ہی چڑ جاتی تھی، زرش اور ضرار بھی ہمیشہ اسے تنگ کرنے کیلئے بلوچی میں بات کرتے تھے، زرش اور ضرار میں ایک چیز مماثلت رکھتی تھی، دوسری زبانیں سیکھنے کا جنون کی حد تک شوق اور مہرماہ کے اوپر سے ہی یہ سب گزر جاتا تھا تو وہ سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتی۔
••••••••
"ہانیہ پلیز چلیں، یار اپنے نکاح کا ڈریس تو خود پسند کر لیں۔" حریم پچھلے دو گھنٹوں سے اسے زوھان کے ساتھ شاپنگ پر جانے کیلئے منا رہی تھی مگر اس کی سوئی ایک ہی بات پر اٹکی ہوئی تھی کہ وہ اکیلی زوھان کے ساتھ چلی جائے۔
"حریم میں کیا کروں گی جا کر تم خود ہی چلی جاؤ۔" وہ اب بھی نہیں مان رہی تھی، حریم نے بچارگی سے مہزلہ خان کی طرف دیکھا۔
"بس بہت ہو گیا ہانیہ جلدی سے اٹھیں، یہ بھی کوئی طریقہ ہے بھلا نکاح آپ کا اور ڈریس حریم لے کر آئے۔" مہزلہ خان نے کرختگی سے کہتے حورعین کو اس سے لے لیا۔ ناچار اس نے اٹھتے حریم کو ایک گھوری سے نوازتے اپنے قدم سیڑھیوں کی طرف بڑھا دیے۔
••••••••••جاری ہے۔
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...