وہ چِت لیٹی چھت پر موجود کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی، اب تو لیٹے لیٹے اس کی کمر ہی اکڑ گئی تھی اس کی سوچ کا مرکز ایک ہی بات تھی کہ کیا وہ یہاں سے نکل کر خان حویلی پہنچ پائے گی؟ اسنے خود سے سوال کیا لیکن جواب ندارد مگر اب وہ اس حویلی میں بھی نہیں رک سکتی تھی اسے کسی بھی طرح آج رات یہاں سے نکلنا تھا۔
"میں مہرماہ شہیر خان، اس حویلی کی خانزادی، اس حویلی کے چھوٹے خان، شہیر یاور خان کی لاڈلی دختر، اپنوں کے انتقام کے بھینٹ چڑھ گئی، ہمیں برباد کرنے والا کوئی اور نہیں ہمارا تایا زاد اخزم دیار خان ہے جسے دا جان نے ہمارا محرم ، ہمارا محافظ بنایا تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے ہماری خوشیوں کا گلہ گھونٹ دیا۔" وہ خود سے ہمکلام تھی۔
"بابا جانی دیکھ رہے ہیں آپ، آپکی مہرو کس اذیت میں ہے۔ اپنی ہی حویلی میں ہم محفوظ نہیں ہیں۔ اخزم دیار خان نے ہماری روح تک کو زخمی کر دیا ہے، اب تو وہ اس زخمی روح کو مزید چھلنی کرنے کے در پر ہے۔" وہ سر اوپر کی طرف اٹھائے گویا ہوئی، آج تو جیسے وہ جسم وروح پر لگے سب زخم شہیر یاور خان کو دکھا دینا چاہتی تھی۔
"بابا جانی آج ہم اپنوں کے دیے زخموں پر آخری بار رو رہے ہیں اور اس حویلی کے لوگوں کے دیے آنسوؤں کو بھی یہی بہا کے جانا چاہتے ہیں۔" اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
دروازہ پر دستک ہوئی اس نے اپنے آنسو جلدی سے صاف کیے اور دروازے کے قریب آئی۔
"کککوننن؟" مضبوط دکھنے کی کوشش میں بھی زبان دغا دے گئی تھی، اس کے منہ سے ڈر کی وجہ سے گھٹی سی آواز نکلی کیونکہ رات کافی ہو چکی تھی باہر حویلی میں بھی اندھیرا چھا گیا تھا جو سب کے اپنے اپنے کمروں میں ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا۔
"خانزادی، ام ہے گل بانو، دروازہ کھولو۔" باہر سے سرگوشی نما آواز آئی اس نے جلدی سے دروازہ کھولا، گل بانو اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر چکی تھیں۔
"کیا ہوا خانزادی آپ رویا ہے کیا؟" گل بانو نے مہرماہ کے ستے ہوئے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔
"کچھ نہیں ہوا گل بی بی، بس آج آخری بار اخزم دیار خان کے دیے گئے زخموں پر آنسو بہا رہے ہیں۔" یہ کہتے ہوئے ایک آسودہ مسکراہٹ نے اسکے ہونٹوں پر بسیرا کر لیا تھا۔ گل بی بی نے اس مسکراہٹ کے ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کی تھی۔
"گل بی بی کیا ہم بچپن کی طرح آپکی گود میں سر رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے لیٹ سکتے ہیں۔" مہرماہ نے افسردگی سے کہا۔
"کیوں نہیں بچے۔" مہرماہ گل بانو کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی تھی، گل بانو اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر رہی تھیں جب مہرماہ پھر سے گویا ہوئی۔
"گل بی بی، آج ہمیں مورے اور بابا جانی بہت یاد آرہے ہیں، باباجانی تو ہم سے بہت محبت کرتے تھے نا آپ کو پتہ ہے جب ہم خان حویلی میں تھے تو زارام لالا اکثر کہتے تھے مورے ہم سے بابا جانی سے بھی زیادہ محبت کرتی تھیں لیکن ہمیں تو ایسا کچھ یاد نہیں۔" وہ نور حویلی کو چھوڑنے سے پہلے ہر سوال کا جواب جان لینا چاتی تھی۔
"کونسا مور اپنا بچے سے محبت نہیں کرتا خانزادی، وہ بھی آپ سے محبت کرتا تھا لیکن خان بی بی کے حسد نے موت سے پہلے ہی ان کو اپنا بچوں اور چھوٹے خان سے دور کر دیا اگر کسی سے دور نہ کر سکا تو وہ زارام خان تھا چھوٹی سی عمر سے ہی زارام خان کافی سمجھ بوجھ رکھتا تھا اور وہ حویلی کے ماحول کو بھی جلد ہی سمجھ گیا تھا اور وہ تو ہمہ وقت چھوٹی خان بی بی کے پاس ہی پایا جاتا تھا جو حویلی کے ہر فرد کو چبھتا تھا اور آپکا دیکھ بھال کا ذمہ داری ام پر تھا۔" تو اسکی ماں سے دوری کا سبب بھی نور حویلی کے یہ بےضمیر لوگ ہی تھے اور وہ سمجھتی رہی اس کی مورے نے کبھی اسے چاہا ہی نہ تھا۔ کاش کہ وہ مور جان کی بات مان لیتی اور اخزم خان کا انتخاب نہ کرتی تو آج اس اذیت میں نہ ہوتی، اب وہ یہ سب سوچ ہی سکتی تھی کیونکہ وقت کا پہیہ تو واپس گھوم کر سب کچھ اسے لٹا نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ حقیقی زندگی تھی کوئی فیری ٹیل نہیں کہ چھری گھما کر سب ٹھیک ہو جاتا۔ مہرماہ نے ایک سرد آہ ہوا کے سپرد کی۔ ساری گرہیں کھل گئیں تھیں اب وہ کسی بھی صورت اخزم خان کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔
KAMU SEDANG MEMBACA
ھسک (✔️Completed)
Fiksi Umumانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...