معید علی خان ارباز خان کے دوست حیدر علی خان کا بیٹا تھا اسکا بچپن خان حویلی کے بچوں کے ساتھ ہی گزرا تھا، خان حویلی ہمیشہ سے اسکا دوسرا گھر رہا تھا اور خان حویلی کے مکین بھی اسے اپنی ہی فیملی کی طرح عزیز تھے۔ وہ زوھان سے پانچ سال چھوٹا تھا مگر زوھان کی سنگت اسے ہمیشہ سے ہی اچھی لگتی تھی، وہ شوخ سی طبعیت رکھنے کے باوجود سنجیدہ سے زوھان کے ساتھ رہنا پسند کرتا، شروع شروع میں تو اکثر زوھان اس سے چڑ جاتا مگر آہستہ آہستہ زوھان بھی اسکی موجودگی، اسکی شرارتوں کا عادی ہوتا چلا گیا۔ زوھان کو آئیڈیلائزیڈ کرتے معید نے بھی میڈیکل کی فیلڈ میں قدم رکھا اور اب اسکے ساتھ ہی اسلام آباد کے پرائیویٹ ہاسپٹل میں جاب کر رہا تھا۔ مہرماہ اسے بھی بہنوں کی طرح ہی عزیز تھی، اب اسکا ارادہ بھی زوھان کے ساتھ ہی خان حویلی جانے کا تھا۔
••••••••
مہرماہ پریشے کے رونے کی آواز پر جاگی تھی، پانی کا جگ خالی دیکھ کر وہ باہر نکل گئی کہ کچن سے پانی لا سکے۔
"ضرار ہمیں تو یہی فکر کھائے جا رہی ہے اگر مہرماہ کو اپنی دوسری بیٹی کا پتہ چل گیا تو اس پر کیا گزرے گی۔" مہزلہ خان کافی پریشان دکھائی دے رہی تھیں، مہرماہ ان کی بات سن کر ٹھٹھکی، اس کے کچن کی طرف بڑھتے قدم تھم گئے۔
"میں نہیں چاہتا مورجان، جس تکلیف سے وہ ایک بار گزر چکی ہے اسی تکلیف سے پھر گزرے۔" مہرماہ کے قدم خودبخود لاؤنج کی طرف اٹھ رہے تھے جہاں زارام اور ضرار مہزلہ خان کے ساتھ موجود تھے۔
"مورجان مجھے بھی لگتا ہے ضرار ٹھیک کہہ رہا ہے وہ صرف اپنی ایک بیٹی کے بارے میں جانتی ہے تو بہتر ہے اسے اسکی دوسری بیٹی کے بارے میں نہ بتایا جائے جب تک اسکی کنڈیشن میں تھوڑی امپروومنٹ نہیں آ جاتی۔" زارام نے مہزلہ خان کے ہاتھوں کو تھاما ہوا تھا۔
"کیا ٹھیک ہے اس میں لالا؟" وہ سب اسکی آواز پر چونکے تھے جو پیچھے ہی ہاتھ میں جگ پکڑے کھڑی تھی، حریم جو مہرماہ کو کمرے میں نہ پا کر اسے دیکھنے باہر آئی تھی یہ سب باتیں اسے بھی ساکت کر گئیں تھیں۔
"انکو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ یہ مجھ سے میری ہی اولاد کے متعلق چھپائیں۔" وہ دھاڑی تھی اس کا چہرہ غصے سے لال انگارا ہو رہا تھا، آنکھیں تو جیسے شعلے برسا رہی تھیں۔
"میری بات سنو گڑیا۔۔" زارام نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، ضرار نظریں جھکا چکا تھا۔
"کیا کیا سنوں لالا، کچھ سننے کو باقی رہ گیا ہے کیا؟" وہ غصے اور بےبسی سے چینخ رہی تھی۔
"کیوں لالا، آخر کیوں چھپایا آپ نے مجھ سے میری ہی بیٹی کے بارے میں؟" زارام نے اسے کندھوں سے تھاما تھا۔
"ہم بس تمہیں مزید کوئی دکھ نہیں دینا چاہتے تھے۔" زارام نے اسے اپنے ساتھ لگاتے کہا۔
"لالا ہم کیسے اسے تکلیف میں وہاں تنہا چھوڑ سکتے ہیں، وہ وہاں تکلیف میں ہے لالا اور ہم یہاں آرام سے رہ رہے ہیں۔" وہ وہیں بیٹھتی چلی گئی تھی، مہزلہ خان نے دکھ سے ضرار کی طرف دیکھا تھا جو اب بھی سر گرائے بیٹھا تھا جبکہ حریم اسی جگہ کھڑی غائب دماغی سے سب کے چہرے دیکھ رہی تھی۔
"لالا۔۔۔ لالا ہمیں اپنی بیٹی کو دیکھنا ہے۔" اس نے ایک دم سر اٹھایا تھا۔
"رات بہت ہو گئی ہے اپنی کمرے میں جاؤ کہیں پریشے نہ اٹھ جائے۔" ضرار سرد سپاٹ لہجے میں کہتا بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
"اگر پریشے ہماری بیٹی ہے نا تو جو اس وقت ہاسپٹل میں اکیلی پڑی ہے وہ بھی ہماری ہی بیٹی ہے ہم اسے وہاں اس حال میں کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔" وہ تڑپ اٹھی تھی۔
"ہاں تو کیا کر لو گی وہاں جا کر تمہارے جانے سے وہ ٹھیک ہو جائے گی کیا؟" ضرار اسکی ضد سے چڑ کر بولا۔
"ماں ہیں ہم اسکی۔" وہ بےبسی سے بولی ، حریم نے بھی آنکھوں میں آس لیے ضرار کی طرف دیکھا۔
"اتنے پتھر دل نہ بنیں ضرار، وہ اگر گھر بھی رہیں تو ایسے ہی بے سکون رہے گیں۔" مہزلہ خان نے دھیمے لہجے میں اسے قائل کرنا چاہا جسے صرف ضرار ہی سن سکا تھا، اس نے مہرماہ کی طرف دیکھا وہ اب بھی زمین پر ہی بیٹھی تھی۔
"میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں۔" وہ کہتا باہر نکل گیا۔
•••••
"یہ سب کچھ کیا ہے؟" ہانیہ نے شاپنگ بیگز کی طرف اشارہ کیا۔
"کیا مطلب کیا ہے، ہماری گڑیا کی ضرورت کی کچھ چیزیں ہیں۔" مناہل اسکے پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
"مناہل یہ بہت زیادہ نہیں ہے۔" اس نے پریشانی سے بولا۔
"ہاں تو بھئی، میری بھانجی کے لیے ہے یہ سب اور تم اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔" مناہل نے کندھے اچکائے۔
"مگر یہ سب کچھ آپ لائیں کب؟" ہانیہ نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں تو میں کب لائی ہوں یہ سب۔" وہ کہتے ہی منہ پھیرتے زبان دانتوں تلے دبا گئی۔
"میں آج کا دن گھر پر تم لوگوں کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی اس لیے یہ سب اپنے کولیگز سے منگوایا ہے۔" اس نے جلد ہی بات سنبھال لی تھی۔ وہ صرف سر ہلا کر رہ گئی۔
"گڑیا کو پکڑو میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔" وہ اسے پکڑاتی باہر نکل گئی۔
••••••
انکیوبیٹر میں موجود نالیوں میں جکڑے اس ننھے وجود کو دیکھ کر مہرماہ کا دل منہ کو آ رہا تھا، مہزلہ خان اور حریم کی حالت بھی کچھ الگ نہ تھی وہ بھی آج پہلی بار اسے دیکھ رہی تھیں۔
"مور جان ہمیں اب سچ میں لگ رہا ہے کہ اخزم ٹھیک ہی کہتا تھا ہم ماں بننے کے قابل ہی نہیں ہیں، اسی لیے اللّٰہ نے ہم سے ہماری بیٹی واپس لے لی اور اب پھر سے۔۔۔۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔
"مور جان اسے اگر کچھ ہوا نہ تو اس کے ساتھ ہم بھی مر جائیں گے، ہم کیسے پھر سے اپنی اولاد کو مرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں مورجان ہمارا دل کر رہا ہے ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی سانسیں روک لیں۔" مہزلہ خان کی گود میں سر دیے وہ بےربط سی گفتگو کر رہی تھی۔
"مہرماہ مایوسی والی باتیں مت کرو، حرام موت کا سوچ کر کیوں اللّٰہ کو ناراض کر رہی ہو۔" خول پر ہلکی سی دراڑ پڑ گئی تھی، مہرماہ کی آنکھ سے نکلتا ہر آنسو اسے اپنے دل پر گرتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے اس کے ساتھ والی نشست سنبھالتے کہا۔
"مایوسی نہیں ہے یہ، نہ ہی حرام موت مرنا چاہتی ہوں۔ اللّٰہ کی رضا میں راضی ہو جانا چاہتی ہوں لیکن اپنوں کے انتقام میں یہ خانزادی پہلے ہی اپنا مان، یقین، محبت، اولاد، اپنا وجود، سب۔۔۔۔ سب ہار گئی ہے خان، اب۔۔۔۔ اب برداشت نہیں ہوتا۔ یہ ۔۔۔۔ یہ سانسیں تکلیف دیتی ہیں خان، یہ تھم کیوں نہیں جاتیں۔۔۔" مہرماہ نے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا مگر وہ تو اس کے دیکھتے ہی نظریں چرا گیا تھا، اس کی سرخ آنکھیں اسے بےچین کر رہی تھیں۔
"میں تمہارا دکھ سمجھ رہا ہوں اللہ پر یقین رکھو۔۔" اس نے متانت سے اسے سمجھانا چاہا وہ درشتتگی سے اسکی بات کاٹ گئی۔
"نہیں، نہیں سمجھ سکتے آپ میرا دکھ کبھی اپنی اولاد کھوئی ہوتی تو میرا دکھ سمجھ پاتے آپ۔" وہ غصے میں بغیر سوچے سمجھے بول گئی تھی حریم نے تاسف سے اسکی طرف دیکھا۔
"ہاں صحیح کہا میں نہیں سمجھ سکتا۔" اس کے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی کرچیوں سی چبھن تھی، اس کے لہجے میں چھپی اذیت پر مہرماہ بھی ٹھٹھکی۔
زوھان اور معید کو زارام کے ساتھ آتا دیکھ کر وہ بھی ان کی طرف ہی چلا گیا، کچھ دیر بعد زوھان مہرماہ کی طرف آیا اور اس کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا
"زوھان لالا۔" اسے دیکھتے ہی مہرماہ کی خشک ہوتی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے تھے۔
"بس، بس مہرو بچے جلدی سے یہ آنسو صاف کرو۔" زوھان نے اسکے آنسوؤں کی طرف اشارہ کیا۔
"پتہ ہے نا آپ کے لالا کو یہ روتی ہی مہرو بالکل پسند نہیں۔" زوھان نے بچوں کی طرح اسے پچکارتے ہوئے کہا۔ اس نے فوراً اپنے آنسو صاف کیے وہ کبھی زوھان کی بات رد نہیں کر سکتی تھی۔ وہ ایسا صرف ایک بار ہی کر سکی تھی جسکا خمیازہ وہ اب تک بھگت رہی تھی۔
"پتہ ہے نا مہرو ماں کی دعا سیدھا عرش پر جاتی ہے۔" اس کے کہنے پر مہرماہ نے سر کسی چھوٹے بچے کی طرح ہاں میں ہلایا تھا۔
"تو بچے رونے کی بجائے اللّٰہ سے اپنی بیٹی کی زندگی کی دعا کرو انشاء اللہ وہ بہتر کرے گا۔" ہاں ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وہ، نور حویلی میں بھی تو اس نے اللہ سے مانگا تھا جسے قبول بھی کر لیا گیا تھا اب بھی وہی ذات اسکی مراد پوری کر سکتی تھی۔
وہ حریم کو ساتھ لیے پرئیر روم کی طرف بڑھ گئی۔
•••••••
مہرماہ کی بیٹی کی طبیعت سنبھل چکی تھی اسے ہاسپٹل سے آج ہی ڈسچارج کیا گیا تھا، ان دنوں وہ صرف دن کے کچھ گھنٹے ہی حویلی میں پریشے کے پاس گزار کر واپس آ جاتی تھی۔ ضرار بھی پاکستان میں اپنے قیام کا دورانیہ بڑھا چکا تھا اور اسکے دن رات ہاسپٹل میں ہی گزرتے تھے۔
"دیدا پتہ ہے ہم انسان نا بہت عجیب ہیں ہمیں اپنا دکھ، اپنی تکلیف دوسروں کی تکلیف کے سامنے بہت زیادہ لگتی ہے۔" مہرماہ پریشے کو کاٹ میں ڈال کر پلٹ رہی تھی جب اس نے حریم کی بات پر اسے اچنبھے سے دیکھا۔
"ہمیں یہ لگ رہا ہے جیسے یہ تم ہمیں ہی سنا رہی ہو۔" مہرماہ نے اس کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھتے کہا۔
"ہاں تو دیدا میں آپ کو ہی سنا رہی ہوں۔" اس نے کندھے اچکائے تھے۔
"وجہ جان سکتے ہیں۔" اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"آپ زرش بجو کی ڈیتھ کی وجہ جانتی ہیں؟" اس کے سوال کے جواب میں سوال پہ مہرماہ جھنجھلا گئی تھی۔ اس کے چہرے کے بگڑتے تاثرات پہ وہ مسکرائی تھی۔
"اس حویلی کی اپنی کوئی بیٹی نہیں ہے، داجی، بابا جان، مور جان، سب نے ہمیں اس حویلی کی بیٹیوں کا مقام دیا مگر ہیں تو ہم سفاک نور حویلی کی خانزادیاں نا۔" وہ لمحے کو رکی اس کے ہونٹوں پر اب بھی تلخ مسکراہٹ تھی۔
"اتنے سالوں بعد زرش بجو نے اس خاندان کو بیٹی کی خوشی دی تھی مگر اس خوشی کی مدت بھی قلیل تھی چار سال قبل زرش بجو اپنے ساتھ ساتھ پلوشے کو بھی لے گئیں۔" وہ کہتے ساتھ آنکھوں میں آتے آنسوؤں کو پلکوں کی باڑ گرا کر روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ پلوشے، ہاں یہ نام شاہ میر نے لیا تھا تو وہ ضرار کی بیٹی تھی۔
"آپ کو یاد ہے دیدا نہیں آپ کو کیسے یاد ہو گا آپ تو غصے میں تھیں، آپ نے لالا سے کہا تھا کہ وہ آپ کا درد نہیں سمجھ سکتے۔" اس کی ہنسی مہرماہ کو طنزیہ لگی تھی۔
"بعض اوقات انجانے میں کہی گئی باتیں دوسرے کے ماند پڑتے زخموں کو تازہ کر جاتی ہیں۔" حریم کی بات پر اسکا جھکا سر مزید جھک گیا تھا۔
"وہ آپ کا نہیں، آپ ان کا درد نہیں سمجھ سکتیں، لالا ایسے نہیں تھے یہ مجھ سے بہتر آپ جانتی ہیں انہیں ایسا حالات اور احساسِ جرم نے بنا دیا ہے۔"
“بہت سی باتوں سے میں لاعلم ہوں، میں نہیں جانتی وہ خود کو آپ کا اور زرش بجو کا قصوروار کیوں سمجھتے ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ مجھے ان سے شکوہ ہے کہ آج شازیم ان کی وجہ سے حویلی سے دور ہیں۔" اس نے سرد آہ بھری۔
"نہیں دیدا مجھےلالا سے کوئی شکوہ نہیں ہے، بلکہ مجھے لگتا ہے اسی میں اللّٰہ کی کوئی بہتری ہوگی۔" مہرماہ نے خوشی اور حیرت سے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا تھا جسے دکھ بھی خدا سے دور نہیں کر پائے تھے بلکہ اس کا اعتقاد تو اور پختہ کر گئے تھے۔ کہتے ہیں نا سونا آگ میں جل کر ہی کندن بنتا ہے مگر شرط تو سونا ہونے کی ہے ورنہ پتھر کو جتنا بھی جھلسا لیں وہ پتھر ہی رہے گا۔
"لالا کو لگتا ہے مجھ نہیں پتا وہ مجھے دیکھتے ہی کیوں نظریں چراتے ہیں، لیکن ہم بھی انہی کی بہن ہیں۔" اب کی بار اس نے ضرار کو نظروں کے حصار میں لیتے کہا تھا جسے وہ تھوڑی دیر پہلے ہی دروازے پر کھڑا دیکھ چکی تھی۔
"سوری۔" لاکھ کوشش کے باوجود اس کی آواز میں نمی گھل گئی تھی۔
"دیدا مجھ سے نہیں لالا سے کہیں۔" حریم نے قدم باہر کی طرف بڑھا دیے تھے مہرماہ بھی ضرار کو دروازے پر کھڑے دیکھ چکی تھی۔
"ایم رئیلی سوری، ہم ناجانے اس وقت آپ کو کیا کچھ کہہ گئے۔" مہرماہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے کہا، اسکی آنکھوں میں موجود نمی اسکا دل ہی تو چیڑ گئی تھی، وہ ان آنکھوں میں نمی کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ نظریں پھیر گیا تھا جو بخوبی مہرماہ نے بھی محسوس کیا تھا۔اس وقت وہ دونوں ہی کمرے میں موجود تھے۔
"ماہی ہمارا ریلیشن کبھی بھی سوری، تھینک یو والا نہیں رہا۔" اس کے ماہی کہنے پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسکی طرف دیکھا تھا جو ہونٹوں پہ دھیمی مسکراہٹ سجائے اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
"میں یہ ہاسپٹل کے ڈاکیومنٹس دینے آیا تھا۔" اس نے اپنے آنے کی وجہ بتائی، وہ اس سے فائل پکڑ کر کبرڈ کی طرف بڑھ گئی۔
"خان کچھ مانگ سکتی ہوں؟" اس نے آس بھرے لہجہ میں پوچھا، ضرار کے باہر کی طرف بڑھتے قدم رک گئے تھے۔
"تم تو ہمیشہ حق سے وصول کرتی آئی ہو تو آج یہ اجازت کیوں؟" اس نے ان آٹھ سالوں میں بنی اجنبیت کی دیوار کو گرانے کی پہلی کوشش کی تھی، مگر مہرماہ خاموش ہی رہی۔ ضرار نے سوالیہ انداز میں بھنویں اچکائیں۔
"ہم چاہتے ہیں ہماری دوسری بیٹی کا نام آپ رکھیں۔" اس کے چہرے کے تاثرات تن گئے تھے۔
"پلوشے کی وجہ سے ہمدردی جتا رہی ہو۔" اس نے کھردرے لہجے میں کہا شاید یہ لہجہ پچھلے کچھ سالوں سے اسکی شخصیت کا خاصہ بن گیا تھا۔
"نہیں ہمارا یہ مطلب نہیں تھا، آپ نے اس کی خاطر جو کچھ کیا ہم تو بس اس لیے کہہ رہے تھے۔" اس کے کھردرے لہجے میں کہنے پر وہ یکدم گڑبڑا گئی۔
"پریہان۔" وہ کہتے ساتھ ہی کمرے سے نکلتا چلا گیا، وہ اسکی پشت دیکھ کر مسکرائی تھی۔
•••••
زوھان کو حویلی آئے ڈیرھ مہینہ گزر گیا تھا، پہلے پریہان اوراب اپنے ہاسپٹل کی کنسٹرکشن کی وجہ سے اسلام آباد نہیں جا سکا تھا۔ اس کا ہاسپٹل تعمیر کے آخری مراحل میں تھا جلد ہی یہ کام بھی مکمل ہو جانے پر وہ اسلام آباد والی جاب چھوڑ کر پشاور والے گھر میں شفٹ ہونے والا تھا۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا وہ ہانیہ کے متعلق مناہل کے ذریعے باخبر تھا۔ اب بھی اسکی سوچیں ہانیہ کے گرد ہی گھوم رہی تھیں مناہل سے تو اس نے بس تین مہینے ہی ہانیہ کو اپنے ساتھ رکھنے کا کہا تھا، ڈیرھ ماہ سے زیادہ کا وقت تو گزر گیا تھا باقی کے ڈیرھ ماہ گزر جانے کے بعد کیا؟؟؟؟ اس کیا کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں پا رہا تھا۔
••••••
"دیدا۔۔۔ دیدا۔" حریم اس کا نام پکارتے کافی عجلت میں کمرے میں داخل ہوئی، اسکی سانس بھی پھولی ہوئی تھیں۔
"آرام سے ابھی سلایا ہے تمہاری آواز سے اٹھ جائیں گی۔" مہرماہ نے سرگوشی میں کہتے پریشے اور پریہان پر کمفرٹر ڈالا۔
"دیدا جلدی چلیں، تایا جان اخزم لالا کیساتھ آپ کو لے جانے آئے ہیں۔" حریم نے اسے ہاتھ سے پکڑتے باہر لے جانے کی کوشش کی۔
"تم جاؤ، ہم ابھی آتے ہیں بس۔" حریم کا ہاتھ جھٹکتے وہ ڈریسنگ روم کی طرف چلی گئی، اس کے جاتے ہی حریم بھی باہر نکل گئی۔
•••••
"ٹھیک ہے داجی، مہرماہ کو یہ بدبخت طلاق دے چکا ہے مگر ہم اپنی بچیوں کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے وہ ہمارا خون ہیں ہم انہیں اس حویلی میں نہیں چھوڑ کر جا سکتے۔" دیار خان نے اخزم کو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے اسفند خان سے کہا، وہ یہاں آنے سے پہلے تک مہرماہ اور اخزم کی طلاق سے لاعلم تھے۔
"لالا وہ اگر آپ کا خون ہیں تو مہرماہ کی بھی اولاد ہیں، آپ ایک ماں سے اسکی اولاد کیسے چھین سکتے ہیں۔" ارباز خان نے اپنا غصہ دباتے معاملہ سلجھانا چاہا البتہ اخزم کو اپنے سامنے دیدہ دلیری سے بیٹھے دیکھ کر ضرم، زارام، زوھان اور ضرار صبر کے گھونٹ پی رہے تھے۔
"تو ٹھیک ہے ایک بیٹی تم رکھ لو ایک ہم اور اگر یہ بھی نہیں منظور تو ہم جرگہ بٹھا لیتے ہیں وہ خود اسکا فیصلہ کر لے گا۔" انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی دی تھی۔
وہاں موجود ہر شخص اس بات سے باخبر تھا کہ دیار خان اپنے اثر و رسوخ استعمال کر کے فیصلہ اپنے حق میں کر لے گا۔ مہرماہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا وہ حویلی کی باقی خواتین کے ساتھ ہی زنان خانے میں موجود جالی نما دیوار سے مردان خانے میں ہوتی گفتگو با آسانی سن چکی تھی۔
"ہماری بیٹیاں ہیں وہ کوئی زمین جائیداد نہیں جن کا آپ بٹوارہ کر رہے ہیں تایا جان۔" ساری تمیز تہذیب کو بالائے طاق رکھتے اس نے مردان خانے کا دروازہ دھاڑ سے کھولتے کچھ تلخی سے کہا۔ البتہ چادر کے پلو سے وہ اپنا سر اچھے سے ڈھانپ کر آئی تھی۔
"اور ہاں آپ جرگہ بٹھانا چاہتے ہیں نا تو ٹھیک ہے بٹھائیں جرگہ ہم بھی دیکھتے ہیں وہ ایک بزنس ڈیل کے عوض اپنی ہی بیوی کا سودا کرنے والے شخص کو ماں کے ہوتے ہوئے بیٹیوں کی کفالت کیسے دیتے ہیں۔" مہرماہ نے ایک ناگوار نظر اخزم پر ڈالی اور دیار خان کی طرف دیکھا جن کے چہرے کے تاثرات اب بھی بالکل نارمل تھے جیسے وہ اس سب سے پہلے ہی باخبر تھے۔
"یہ بات ثابت کیسے کرو گی؟" اخزم طنزیہ مسکرایا، وہاں موجود ہر شخص صبر کے گھونٹ پی رہا تھا، مہرماہ نے قدم اسکی طرف بڑھائے۔
"ثابت کرنے کے لیے یہ پیپرز کافی ہوں گے اخزم دیار خان۔" اس نے ہاتھ میں پکڑی فائل اسکی طرف اچھالی، ان پیپرز کو دیکھنے کے بعد اخزم کا رنگ اڑتا دیکھ مہرماہ کافی محظوظ ہوئی تھی۔
"یاد تو ہو گا اخزم خان اس رات نشے میں دھت ہماری ہی ڈیل کے پیپرز ہمیں دکھا کر ہماری انا کو اپنے پیروں تلے روندنے آئے تھے تم مگر خدا کی کرنی دیکھو تم اپنی ہی بربادی کا سامان پیدا کر گئے۔" مہرماہ نے اس کے ہاتھ سے پیپرز جھپٹنے والے انداز میں لیتے کہا جو اس رات وہ نشے میں ہونے کی وجہ سے طلاق کے کاغذات کے ساتھ وہیں بھول گیا تھا۔
دیار خان نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھتے جھٹکے سے اپنی نشست سے اٹھتے قدم بیرونی دروازے کی طرف بڑھا دیے تھے۔
"ایک منٹ دیار خان۔" اسفند خان کی دھاڑ پر دیار خان کے باہر کی طرف بڑھتے قدم رک گئے تھے۔
"اپنے بیٹے سے کہو ابھی اسی وقت ان بچیوں کی کفالت مہرماہ کے سپرد کرے اور لکھ کر دے وہ دونوں بچیوں پر کوئی حق نہیں رکھتا۔" دیار خان کے پلٹتے ہی اسفند خان پھر سے گویا ہوئے۔
"ورنہ کل ہی ہم جرگہ بلائیں گے اور اس کے بعد جو کچھ ہو گا اس کا ذمہ دار تمہارا بیٹا ہوگا۔" مہرماہ نے بے اختیار داجی کی طرف دیکھا۔
اسفند خان کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی، دیار خان کے کہنے پر اخزم پریشے اور پریہان کی کسٹڈی مہرماہ کو دے کر چلا گیا تھا۔
••••••
"مورجان آپ سے ایک بات پوچھیں؟" مہرماہ مہزلہ خان کی گود میں سر رکھے لیٹی ہوئی تھی۔
"پوچھیں۔" مہزلہ خان کے یک حرفی جواب پر اس نے ایک سرد آہ ہوا کے سپرد کی۔
"کیا ہماری مورے بدکردار تھیں؟" حیدا خانم کے منہ سے اپنی ماں کے لیے ایسا لفظ سننے کی نسبت خود یہ لفظ کہنا مہرماہ کو زیادہ تکلیف دہ لگا تھا۔
"نہیں، نہیں تھی وہ بدکردار۔" مہزلہ خان تو تڑپ اٹھی تھیں۔
"وہ بچپن سے احراز خان سے منسوب تھیں تو انکی شادی باباجان سے کیسے ہوئی؟" وہ آج گتھی سلجھا لینا چاہتی تھی جو ناجانے کب سے اسے الجھائے ہوئی تھی۔
"ہمارے مورجان اور آغا جان کی وفات کے بعد سے ہم یہی اسی حویلی میں رہے، ہماری شادی کے کچھ عرصے بعد زوریز لالا بھی اپنی حویلی چلے گئے، ارذلہ نے انکے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا وہ مورجان (ارباز کی والدہ، مہزلہ کی ممانی) کے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی، وہ پانچ سال کی تھی جب سے مورجان نے اسے ماں کی طرح پالا تھا۔" مہزلہ خان نم آنکھوں سے مسکرائی تھیں۔
“ اچانک سے ارذلہ نے شہر کے ہاسٹل میں ہی رہنے کی ضد شروع کردی کہ وہ روز شہر آنے جانے میں تھک جاتی ہے، احراز کے اعتراض کو نظرانداز کرتے داجی نے اسے اجازت دے دی۔ سب ٹھیک تھا، ضرم کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد احراز اور ارذلہ کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں پہلے تو ارذلہ نے لاکھ حیلے بہانوں سے کام لیا کہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی مگر کسی نے اسکی اس بات کو اہمیت نہ دی تو اس نے احراز سے شادی کرنے سے انکار کر دیا، وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی اس بات سے سب کو جھٹکا لگا تھا اس کی خودکشی کی دھمکی نے داجی کو اس کی بات ماننے پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنی ہی بہن کے قاتل کے بیٹے سے اسکی شادی کروا دیں۔" مہرماہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ مہزلہ خان نے اپنے آنسو صاف کیے۔ ماضی کی کتاب کا یہ باب انکے لیے بہت اذیت ناک تھا۔
"آپ کے داجان (یاور خان) ہمارے آغا جان (زہران سیال خان) کے تایا زاد بھائی تھے، ان کی جائیداد کی لالچ ہم سے ہمارے مورجان، آغا جان کا سایہ چھین گئی۔ یہ بات مجھے تب معلوم ہوئی جب ارذلہ نے شہیر یاور خان کا نام دا جی کے سامنے لیا تھا، مگر ارذلہ کی آنکھوں پر محبت کی پٹی بندھی تھی، اسے داجی کی کہی ہر بات خودساختہ لگ رہی تھی، ناچار ہم سب کے خلاف جا کر داجی نے اسکی محبت کے لیے اپنے بیٹے کی محبت کی قربانی دے دی۔ احراز اس سب کے بعد امریکہ چلا گیا، ہمیں ارذلہ کے بارے میں بھی کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کیسی ہے، چند سالوں بعد احراز نے بھی اپنی ضد چھوڑ کر مورجان کی دوست کی بیٹی شانزے سے شادی کر لی۔" دروازے پر دستک سے دونوں چونکیں تھیں، ملازمہ اسفند خان کا پیغام لے کر آئی تھی کہ وہ دونوں کو اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں۔
•••••
مہرماہ کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ ضرار نے اس کی طرف دیکھا، اس کا چہرہ اور آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ مہرماہ کے بیٹھتے ہی باہر نکل گیا۔
"میں نے ایک ضروری بات کرنے کے لیے تم دونوں کو بلایا ہے، ضرار کی رضامندی ہم لے چکے ہیں مہرماہ اب تمہارا فیصلہ سننا چاہتے ہیں۔" مہرماہ نے ناسمجھی سے وہاں موجود سب کی طرف دیکھا۔
"کیسا فیصلہ داجی؟" مہرماہ کے کہتے ہی ارباز خان کے اشارے پر زوھان اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
"مہرماہ بچے، آپ جانتی ہیں نا آپ کے لالا کبھی آپ کے بارے میں کوئی غلط فیصلہ نہیں کر۔۔۔۔۔" زوھان نے مان سے اس کی طرف دیکھا۔
"لالا ہمارا دل بیٹھے جا رہا ہے آپ صاف صاف بتائیں کیسا فیصلہ؟" مہرماہ نے بیقراری سے زوھان کی بات کاٹی۔
"ہم سب چاہتے ہیں آپ ضرار سے شادی کر لیں۔" ارباز خان نے تو جیسے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔ ان کی بات پر اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔
"داجی یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے یا ہم انکار کرنے کا حق اب بھی رکھتے ہیں؟" مہرماہ کی بات پر اسفند خان مسکرائے تھے۔
"بالکل حق رکھتی ہو بچے، آخری فیصلہ تمہارا ہی ہو گا چاہو تو سوچنے کے لیے تھوڑا وقت لے لو۔" اس نے ایک نظر زارام پہ ڈالی تھی جس نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔
"داجی ہمیں وقت نہیں چاہیے۔" مہرماہ نے رک کر سرد سانس ہوا کے سپرد کی۔
"ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہمیں اپکا ہر فیصلہ منظور ہے۔" سب نے اس کے جواب پر سکھ کی سانس لی، وہ پلکیں نیچے کرتے اپنے آنسو چھپاتی باہر نکل آئی تھی مگر پھر بھی اسکی آنکھوں کی نمی ایک شخص سے مخفی نہیں رہی تھی۔
•••••
وہ جب سے اپنے کمرے میں آئی تھی تب سے تکیے میں منہ چھپائے آنسو بہا رہی تھی ناجانے یہ آنسو اس جلدبازی میں کیے گئے فیصلے پر نکل رہے تھے یا ضرار کی سرخ آنکھیں اسے بےچین کر رہی تھیں۔ دروازے پر دستک کی آواز پر وہ جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کرتے بیٹھ گئی اور اپنی آواز کو نارمل کرتے اندر آنے کی اجازت دی۔ زوھان کو اپنے کمرے میں دیکھ کر وہ مسکرائی۔
"رو رہی تھی۔" زوھان نے تاسف سے سر ہلایا اور اسکے پاس ہی کرسی گھسیٹتے بیٹھ گیا۔
"نہیں تو۔" اس نے آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔
"پوچھ نہیں رہا، بتا رہا ہوں۔" اس نے آنکھیں چھوٹی کرتے کہا۔
"وہ بس۔۔۔" اس نے بہانہ تراشنا چاہا۔
"رہنے دو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے، بس یہ بتاؤ اپنے لالا پر بھروسہ ہے؟" زوھان نے اسکی بات کاٹتے کہا۔
"لالا، آپ اچھے سے جانتے ہیں، ہمیں آپ پر پورا بھروسہ ہے اسی لیے تو ہم نے ہمیشہ زارام لالا سے پہلے آپ سے اپنی ہر بات شئیر کی ہے۔" وہ انگلیاں مرورتے ہوئے بول رہی تھی، زوھان کو ہمیشہ سے اسکی اس حرکت سے چڑ تھی، اس کے چہرے پر پھیلتی ناگواری بھانپتے ہی وہ انگلیاں آزاد کر چکی تھی۔
"ہاں صحیح کہا زارام سے پہلے مجھ سے ہی شئیر کیا ہے مگر ضرار سے شئیر کرنے کے بعد۔" ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
"آپ کی ضرار سے شادی کا مشورہ میں نے داجی کو دیا تھا۔" اس کی ہنسی تھم گئی تھی۔
"لالا ہم نے کہا نا ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔" اس نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
"مہرو مجھے ضرار پر بھروسہ ہے وہ پریشے، پریہان اور شاہ میر میں کبھی فرق نہیں کرے گا۔" زوھان اسکے بےتاثر لہجے سے پریشان ہو رہا تھا۔
"جانتے ہیں لالا۔" مہرماہ کے چہرے پر اب خوشی کی جگہ اضطراب تھا اسے یہی فکر ستا رہی تھی کہ ضرار داجی کے دباؤ میں آکر اس سے شادی کر رہا ہے۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر دونوں نے حریم کی طرف دیکھا۔
"کیا ہوگا ان کا؟ معلوم بھی ہم اندر کوئی اہم بات کر رہے ہیں پھر بھی ذرا صبر نہ ہوا۔" زوھان نے مصنوئی افسوس سے کہا۔
"دیدا پانچ منٹ کی بات ہوئی تھی اب تو دس منٹ ہو گئے ہیں۔" اس نے زوھان کو نظرانداز کرتے مہرماہ سے کہا یہ اس بات کا صاف اظہار تھا کہ وہ ابھی تک جوائیننگ والی بات پر اس سے ناراض ہے، وہ بھی اسے یکسر نظرانداز کرتے باہر نکل گیا وہ غصے سے تلملا اٹھی، مہرماہ اسے دیکھ کر بامشکل ہی اپنی ہنسی کا گلہ گھونٹ رہی تھی۔
••••••
"داجی نے دو دن بعد جمعہ کو نکاح کی چھوٹی سی تقریب رکھی ہے۔" مہزلہ خان کے کہنے پر مہرماہ خاموش رہی۔
"مہرماہ آپ خوش نہیں ہیں؟" مہزلہ خان نے فکرمندی سے کہا۔
"نہیں مورجان ایسی بات نہیں ہے، بس یہ سب کچھ اتنا اچانک۔۔۔" وہ اپنے تاثرات کو نارمل کرتے پھیکا سا مسکرائی۔
"شاہ میر کی پڑھائی کا پہلے ہی کافی حرج ہو چکا ہے اب انہیں واپس جانا ہے تو داجی ان کے جانے سے پہلے نکاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ ضرار آپکو اور اپنی بیٹیوں کو بھی جلد سے جلد یہاں سے لے جا سکیں۔" مہزلہ خان نے پریشے کی ناک دبائی تھی جس پہ وہ منہ بسور گئی تھی، مگر انکی بات پر مہرماہ کا رنگ سفید پڑ گیا تھا۔
"مورجان ہم اتنی دیر بعد آپ سب سے ملے ہیں آپ ہمیں پھر سے خود سے دور کر رہی ہیں۔" مہرماہ خان نے نم آنکھوں سے شکوہ کیا۔
"ہم خود سے دور نہیں کر رہے مہرو، بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بچیوں پر نور حویلی والوں کا سایہ بھی نہ پڑے۔" مہزلہ خان نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا، مہرماہ چپ ہو گئی تھی کیونکہ وہ خود بھی یہی چاہتی تھی وہ حوریہ کی طرح پریشے اور پریہان کو نہیں کھو سکتی تھی۔
•••••
جمعے کا دن بھی سر پر پہنچ چکا تھا، وہ ہلکے گلابی رنگ کی گھٹنوں سے نیچے آتی سادہ سی فراک پہنے گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔ لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی زرنش اور عریبہ نے اسے ہلکا پھلکا میک اپ کردیا تھا اس ہلکے سے میک اپ میں بھی وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی اسکی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔
"کیا ہو گیا ہے دیدا بس کر دیں اور کتنا روئیں گی آپ۔" پریہان کے کپڑے بدلتے حریم نے اکتاہٹ سے کہا وہ اس کے بغیر وجہ کے رونے سے تنگ آ گئی تھی۔
"جب تمہاری باری آئے گی تب ہم تم سے پوچھیں گے۔" حریم کو خود میں اداسی اترتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
"دیدا وہ بس ایک بار لینے تو آئے میں تو خوشی خوشی چلی جاؤں گی۔" اس نے بات کو مزاح کا رنگ دینا چاہا تھا۔
"یہ لیں دیدا ہو گئی یہ دونوں تیار، میں باہر جا کر زرش بجو کی تھوڑی ہیلپ ہی کروا دوں۔" وہ کئی آنسو دل میں اتارتی باہر نکل گئی جبکہ مہرماہ اپنی بغیر سوچے سمجھے بولنے کی عادت پر دل ہی دل میں خود کو کوس رہی تھی۔
•••••••
"شازیم آج ضرار لالا اور دیدا کا نکاح ہے، سب ہیں یہاں بس آپ نہیں ہیں۔" اس نے گود میں رکھی تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا آنسو اسکی رخسار سے بہتے فریم پر گر رہے تھے۔
"مجھے آج آپ کی کمی بہت محسوس ہو رہی ہے کاش آج آپ بھی یہاں ہوتے۔" وہ تصویر کو سینے میں بھینچے زاروقطار رو رہی تھی۔
گزرے چار سالوں سے جب اسکی ہمت جواب دے جاتی وہ سب سے چھپ کر چھت پر بنے سٹور روم میں آکر اس کی تصویر ہاتھ میں پکڑے اس سے رو رو کر اپنی دلی کیفیت بیان کیا کرتی تھی آج بھی صبح سے دل اسکی دید کے لیے بےچین جبکہ آنکھیں بات بات پر بھیگنے کو بےتاب ہو رہی تھیں۔
••••••
آج تو شاہ میر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا سب سے زیادہ وقت بھی تیاری میں اسی نے لگایا تھا اور اب حویلی میں شہزادوں کی طرح چلتا کوئی چھوٹا سا دلہا ہی لگ رہا تھا، شاہ میر کا خوشی سے دمکتا چہرہ دیکھ کر ضرار کے چہرے پر بھی وقتاً فوقتاً مسکراہٹ رینگ رہی تھی جسے وہ ہر بار کمال مہارت سے ضبط کر لیتا تھا۔
نکاح کے کاغذات پر دستخط کر دینے کے بعد وہ زرش کے گلے لگے رو رہی تھی۔
"آہ۔۔ عریبہ بجو اگر میری شادی ضرار لالا جیسے بندے سے ہوئی ہوتی میں تو خوشی سے اب بھنگڑے ڈال رہی ہوتی۔" حریم کے عریبہ کے کندھے پر سر گراتے ڈرامائی انداز میں کہنے پر زرنش اور عریبہ کے ساتھ مہرماہ بھی نم آنکھوں سے کھکھلائی تھی۔
"او، لڑکی شرم کرو یہ تو ہمارے دیور جی سے صاف بیوفائی کی جا رہی ہے۔" زرنش نے اس کے کندھے پر چپت رسید کی۔
"ہاں تو بجو کیا تھا اگر آپ کے چھوٹے دیور جی بھی بڑے بھائیوں کی طرح ہینڈسم ہوتے؟" اس نے اپنے نادیدہ آنسو پونچھے تھے، اب کے عریبہ کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"ہاں کہہ تو ویسے تم ٹھیک رہی ہو مگر کوئی نہیں گزارے لائق تو ہے ہی۔" عریبہ نے مصنوئی افسوس سے کہتے آخر میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی تھی۔
اندر داخل ہوتی مہزلہ خان نے انکی کھلکھلاہٹوں کی دل ہی دل میں کئی بلائیں لیں تھیں۔
•••••
مہزلہ خان کسی کام کے بہانے سے عریبہ، زرنش اور حریم کو باہر لے گئیں تھیں۔ مہرماہ پریشے اور پریہان کے ساتھ کھیل رہی تھی جب کسی کے گلہ کھنگارنے کی آواز پر چونک کر اس نے دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں کھڑا ضرار اجازت طلب نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اجازت ملتے ہی وہ اندر داخل ہوتے پریہان کو اٹھا چکا تھا، وہ دونوں تھی تو ٹونز مگر شکلیں مختلف تھیں۔ آنکھوں کا رنگ دونوں کا ہی مہرماہ کی طرح کرسٹل گرے تھا۔
"نکاح مبارک ہو۔" ضرار نے بغیر اس کی طرف دیکھے کہا وہ خاموش رہی۔
"مجھے مبارکباد نہیں دو گی آخر کو میرا بھی آج نکاح ہوا ہے۔" اس نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تھا، وہ اسکی نظروں سے سٹپٹا گئی تھی۔
"ہمارا کونسا پہلا نکاح ہے۔" وہ اپنی بےتکی بات پر خود ہی زبان دانتوں تلے دبا گئی۔
"اچھا تو دوسرے نکاح کی مبارکباد نہیں دی جاتی، انٹرسٹنگ!" وہ اسکی بات سے کافی محظوظ ہوا تھا، وہ داد دینے والے انداز میں گویا ہوا۔
"پر ہم دونوں کی خوشی سے تو نہیں ہوا۔" وہ ناجانے اس سے کیا سننے کی خواہاں تھی۔
"اچھا۔" اس کا انداز مہرماہ کو صاف مزاق اڑاتا لگا تھا اسکے ہونٹوں پر بسیرا کرتی مسکراہٹ نے جلتی پہ تیل کا کام کیا تھا۔
"ہم کوئی مرے نہیں جا رہے تھے آپ سے نکاح کرنے کیلئے۔" وہ تپ گئی تھی، ضرار نے کچھ کہنے کی بجائے قدم اس کی طرف بڑھا دیے۔ مہرماہ کا دل زور سے دھڑکا تھا۔
"ہم نے یہ نکاح دا جی کے لیے کیا ہے زندگی دوسرا موقع ہر بار نہیں دیتی ہم داجی کے خلاف جا کر انہیں دوسری بار ناراض نہیں کر سکتے تھے۔" وہ خود نہیں سمجھ پائی تھی کہ یہ وضاحت وہ خود کو دے رہی تھی یا ضرار کو، ضرار کے ہونٹوں سے مسکراہٹ اب بھی جدا نہیں ہوئی تھی۔
"مہرماہ۔" اس نے مہرماہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے اس کا نام پکارا تھا۔ مہرماہ کو اپنا دل ایک نئی لہہ پر دھڑکتا محسوس ہوا تھا، دل میں چھپے جذبات اسے پھر سے سر ابھارتے محسوس ہوئے تھے جن کا اقرار وہ کئی سال پہلے بھی خود سے بھی نہ کر پائی تھی۔
"میں تم سے کوئی بڑے بڑے وعدے نہیں کروں گا، بس اتنا کہوں گا زندگی کے ہر اچھے برے وقت میں تم مجھے اپنے ساتھ کھڑا پاؤ گی۔" وہ اسکی تپش دیتی نظروں کی تاب نہ لاتے سر جھکا گئی تھی۔
"پریشے اور پریہان بھی مجھے شاہ میر کی طرح عزیز ہیں میں پریشے، پریہان اور شاہ میر میں کبھی کوئی فرق نہیں کروں گا اور تم سے بھی بس اتنا چاہتا ہوں میرے حقوق میں تمہیں معاف کر دوں گا لیکن اپنی اولاد کی طرف سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔" اس کا آنچ دیتا لہجہ آخر میں سنجیدہ ہو گیا تھا۔ اس کے سنجیدہ لہجہ پر اس نے سر اٹھایا تھا اسکی آنکھوں میں پہلے والی نرمی کا شائبہ تک نہ تھا۔
"میری اولاد میں شاہ میر کے ساتھ ساتھ پریشے اور پریہان بھی شامل ہیں، وہ اخزم کی نہیں ضرار ارباز خان کی بیٹیاں ہیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔" اس کے ہاتھ اب بھی ضرار نے نرمی سے تھام رکھے تھے، اس نے پہلے اپنے ہاتھ چھڑائے تھے نہ اب۔ ضرار اسکے ہاتھ آزاد کرتا پریشے اور پریہان کے ماتھے پر بوسہ دیتا باہر نکل گیا۔
•••••••••••
جاری ہے۔Will be waiting for your precious reviews ❤️
Don't forget to vote and comment 🌸
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...