Episode 18

320 26 2
                                    

"حریم۔" مہرماہ کی چینخ پر ضرار ہڑبڑا کر نیند سے بیدار ہوا،  اتنی ٹھنڈ میں بھی اس کا چہرہ پسینے سے تر تھا۔
"مہرماہ۔" ضرار سمجھ گیا تھا کہ وہ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھی ہے، اسے اپنے ساتھ لگاتے ضرار نے اس کے بال سہلائے۔
"خان، حریم۔" وہ رونے کے دوران بار بار بس یہ دو لفظ ہی دہرا رہی تھی۔
" چپ کچھ نہیں ہوا، بس وہ ایک خواب تھا۔" ضرار نے اسے خود میں بھینچا وہ تھوڑی ہی دیر اپنے آنسوؤں سے اس کی شرٹ بھگو چکی تھی۔
ضرار نے لیٹتے اس کا سر اپنے سینے پر رکھتے اسے اپنے ساتھ لٹایا، وہ اس کے بالوں میں ابھی بھی ہاتھ پھیر رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مہرماہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے نیند کی وادی میں اتر گئی تھی۔ وہ خان حویلی کی ہر خبر سے انجان تھی جبکہ ضرار ہر بات سے بخوبی آگاہ تھا وہ جلد ہی پاکستان جانے کا ارادہ کرتے آنکھیں بند کر گیا۔

••••••

ہانیہ پورا دن اپنے کمرے میں بند رہی تھی ارباز خان اور زمدا کے علاوہ حویلی کے ہر فرد کا رویہ اس کے ساتھ بہت اپنائیت بھرا تھا، حویلی کے ماحول میں پیدا ہوتے تناؤ کی وجہ سے وہ سب سے شرمندہ تھی، اسی شرمندگی میں وہ کسی کا سامنا بھی نہیں کر پارہی تھی۔ وہ حویلی کے کشیدہ ماحول کو بہتر کرنے کیلئے بہت بڑا فیصلہ لے چکی تھی، جس پر عمل بھی اسے آج کی رات ہی کرنا تھا۔ وہ زوھان کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے اپنی اور حورعین کی پیکنگ کر چکی تھی۔

•••••••


"ہانیہ کہاں ہے؟؟" حریم نے مہزلہ خان کے پاس بیڈ پر بیٹھتے ادھر ادھر نظریں دوڑاتے پوچھا۔
"وہ اپنے روم میں ہے۔" عریبہ کو بالکل خاموش بیٹھا دیکھ زرنش نے جواب دیا۔
"ان کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟" وہ فکرمندی سے بولی کیونکہ ہانیہ کبھی بھی اپنے کمرے میں بند نہیں رہ سکتی تھی، یہ بات مہزلہ خان بھی جانتی تھیں اور کہیں نا کہیں وہ اس کے کمرے میں بند رہنے کی وجہ بھی جانتی تھیں۔
"کیا ہوا آپ چپ کیوں ہو گئیں، کچھ ہوا ہے کیا؟" ان کی خاموشی اسے کچھ غلط ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے کمرے تک محدود تھی اور ہر بات سے لاعلم تھی۔
"میں جانتی تھی لالا ہمیشہ ہانیہ کا ساتھ دیں گے۔" اس نے آسودگی سے مسکراتے پرسکون لہجے میں کہا۔
شانزے شازیم سے ملنے ہاسپٹل گئی ہوئی تھی تو حریم مہزلہ خان کے کمرے میں ہی آرام کی غرض سے لیٹ گئی۔
•••••••


زوھان آہستگی سے کمرے میں داخل ہوا، وہ جانتا تھا کہ ہانیہ اس وقت تک سو چکی ہوگی اور ایسا ہی تھا وہ کمفرٹر منہ تک تانے لیٹی ہوئی تھی،  حورعین کو الٹا لیٹ کر سوتے دیکھ کر وہ مسکرایا، اس کے ماتھے پر بوسا دیتے، ہانیہ کے منہ سے کمفرٹر ہٹاتے وہ دن بھر کی تھکن کی وجہ سے لیٹتے ہی سو گیا۔
زوھان کے سونے کے بعد ہانیہ نے اس کی نیند کے پکے ہونے کا یقین کرتے کمبرڈ میں رکھا ہینڈ کیری نکالا اور حورعین کے اوپر سے زوھان کا ہاتھ ہٹاتے وہ دھیرے سے دروازہ کھولتی باہر نکل گئی۔
حویلی سے چلے جانے پر جہاں اسے زمدا کی باتوں نے مجبور کیا تھا وہیں زوھان اور حریم کی زمدا کے متعلق گفتگو نے اس کے لیے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی کی تھی۔

••••••

ہانیہ حورعین کو لیے ناہموار راستے پر چل رہی تھی، وہ حویلی سے نکل تو آئی تھی مگر اب آگے کا سوچتے اس کا دل کانپ رہا تھا یہ وہی باہر کی دنیا جس سے اسے وحشت ہوتی تھی۔ 
حویلی سے نکلنا اس کیلئے مشکل ثابت نہیں ہوا تھا، دوپہر کے وقت ہی وہ حویلی کے پچھلے چھوٹے دروازے کا تالا کھلا دیکھ چکی تھی، جسے وہ اپنے لیے غنیمت جان رہی تھی وہ حقیقت میں زمدا کی کارستانی تھی۔ زمدا جان گئی تھی کہ ہانیہ اس کی باتوں میں آتی گھر چھوڑنے کا ارادہ کر چکی تھی تو اس نے اس کا حویلی سے باہر جانے کا راستہ بھی آسان کردیا تھا۔


•••••••

زوھان صبح سے حویلی کے کئی چکر لگا چکا تھا، مگر پوری حویلی چھان لینے کے بعد بھی اسے ہانیہ اور حورعین کہیں نظر نہیں آئیں تھیں۔
"مورے آپ نے ہانیہ کو کہیں دیکھا ہے؟" وہ بوکھلاہٹ میں لاؤنج میں بیٹھی مہزلہ خان کی طرف آیا۔
"نہیں کیوں کیا ہوا؟" وہ تشویش سے اس کے چہرے پر پھیلتا اضطراب دیکھ رہی تھیں۔
"وہ چلی گئی مورے وہ میری حورعین کو لے کر چلی گئی۔" ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ اس نے ان کے آگے کیا جسے  کمرے کی سائیڈ ڈرار پر پڑا دیکھ کر وہ مذاق سمجھ رہا تھا وہ حقیقت تھی جو اس کا دل دہلا گئی تھی۔
اس کی بےچین آواز پر زرنش اور عریبہ بھی ادھر آئی تھیں۔
" باباجان، ہاں وہ جانتے ہوں گے کہ وہ کہاں ہے؟" وہ بےتابی سے کہتا مردان خانے کی طرف بڑھا۔
"آپ اپنے باباجان پر شک کر رہے ہیں؟" مہزلہ نے یاسیت سے اس کی طرف دیکھا۔
"آپ اب بھی ان کی طرف داری کر رہی ہیں مورے۔" وہ دکھ اور اذیت بھری نظریں  ان پر گاڑے کھڑا تھا، اندر داخل ہوتے اسفند خان اور ارباز خان نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟" صبح ہی صبح زوھان کا یہ انداز انہیں چونکا گیا تھا۔
"کیا ملا آپ کو اسے مجھ سے دور کر کے؟" اس کی آواز غصے اور بےبسی سے کانپ رہی تھی۔ آنکھیں ضبط سے لال انگارا ہو رہی تھیں۔  ارباز خان سمیت لاؤنج میں موجود سب لوگ اسے نافہمی سے دیکھ رہے تھے۔ اس کی بات پر لاؤنج میں آتی زمدا کو اپنے دل میں سکون اترتا محسوس ہوا۔
"خوش ہو جائیں باباجان ہانیہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے اور اپنے ساتھ میری حور کو بھی لے گئی ہے۔" وہ وہیں زمین پر بیٹھتا چلا گیا تھا، اس کی تکلیف پر ارباز خان کے دل میں ٹیسیں اٹھی  وہ شدتِ درد  سے آنکھیں بند کر گئے۔
"مل گیا ہو گا کوئی اور۔" زمدا کی گری ہوئی سوچ پر زرنش اور عریبہ نے تاسف سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
"بکواس بند کرو تم اپنی، اتنے دنوں سے تمہاری گھٹیا حرکتیں برداشت کر رہا ہوں مگر اپنی بیوی کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا۔" اس نے زمدا کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھتے درشتتگی سے کہا۔
"اچھا تو پھر آپ ہی بتا دیں وہ کہاں گئی ہے، فیملی تو اس کی کوئی ہے نہیں۔" وہ تمسخر اڑاتے بولی، زوھان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا، اس کی چپی کو وہ شک سمجھتے اپنی مسکراہٹ دبا گئی۔
"چپ شا زمدا۔" (چپ کر جاؤ زمدا)۔ ارباز خان نے اپنا غصہ دباتے سردمہری سے کہا۔
"ہر کسی کو اپنے جیسا مت سمجھو۔" زوھان کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت اور حقارت دیکھتے زمدا نے اپنی مٹھیاں سختی سے بھینچ لیں۔
مہزلہ خان نے اپنے ہاتھ میں پکڑا کاغذ اسفند خان کی طرف بڑھایا۔ اسفند خان نے وہ کاغذ پڑھے بغیر ہی زوھان کو تھما دیا جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکل گیا۔

••••••••

مناہل نے ہانیہ کے نکاح کے بعد معید کو بھرپور ناراضگی دکھائی تھی مگر معید نے بھی اسے منا کر ہی دم لیا تھا۔ وہ مناہل سے بات کرنے کے بعد اپنے گھر والوں کو اس کے رشتے کے لیے بھیجنے پر آمادہ کر چکا تھا۔ یہ بھی بہت محنت طلب کام تھا، اس کیلیے بھی اس نے بڑے پاپڑ بیلے تھے۔
وہ میرپور سے واپس پشاور جانے کے لیے نکلنے لگا تھا جب اسے زوھان کی کال موصول ہوئی۔
"معید۔" اپنے پرجوش سے سلام کے جواب میں اسے زوھان کی درد بھری آواز سنائی دی تھی۔ اس کا دل بیٹھا تھا۔
"کیا ہوا ہے زوھان؟" اس کے ذہن میں سب سے پہلا خیال شازیم کا آیا تھا کیونکہ پچھلے کچھ دنوں سے اس کی حالت بہت تشویش ناک تھی۔
"حور۔" اس کے یک لفظی جواب نے اس کی پریشان بڑھا دی تھی۔
"تم کہاں ہو اس وقت جلدی بتاؤ میں ابھی آتا ہوں۔" مزید کوئی سوال کیے بغیر، اپنے پشاور جانے کا ارادہ ترک کرتے اس نے گاڑی کا رخ زوھان کے بتائی ہوئی جگہ کی طرف موڑا۔

••••••••


وہ صبح سے معید کے ساتھ ہانیہ کو ڈھونڈ رہا تھا مگر ہر طرف سے ناکامی ہی ہوئی تھی، اب تو اندھیرا چھانے لگا تھا۔ معید ابھی اسے حویلی چھوڑ کر گیا تھا، اس کا ارادہ پاس کے ہاسٹلز اور کلینکس میں چیک کرنے کا تھا جہاں جانے کی ہمت زوھان میں نہیں تھی۔ جب وہ حویلی میں داخل ہوا تو حویلی کی سب خواتین  لاؤنج میں ہی  بیٹھی ہوئی تھیں۔
"چاچو مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔" وہ لاؤنج سے ہوتا سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہا تھا جب بہرام نے اسے روکا۔
"صبح بات کر لینا بہرام ابھی چاچو تھکے ہوئے ہیں۔" زرنش نے اسے ٹالنا چاہا، حویلی کا ہر فرد ہی ہانیہ اور حورعین کے لیے پریشان تھا، ضرم اور زارام بھی اس کی تلاش میں لگے ہوئے تھے، ارباز خان اپنے سارے ذرائع استعمال کر چکے تھے مگر ابھی تک کہیں سے کوئی خبر نہیں آئی تھی۔
"مجھے ہانیہ چچی کے بارے میں بات کرنی ہے۔" ہانیہ کے ذکر پر اس کے سیڑھیاں عبور کرتے قدم رکے وہ سرعت سے اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
جیسے جیسے بہرام اسے زمدا کی ہانیہ سے کی گئی نفرت انگیز باتیں بتا رہا تھا اس کی آنکھوں کی سرخی میں مزید اضافہ ہوا تھا، زمدا کا وہاں بیٹھنا محال ہو گیا تھا، وہ چپکے سے وہاں سے اٹھتے چلی جانا چاہتی تھی مگر بالکل پیچھے ہی ارباز خان کھڑے تھے، انہیں پہلے تو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا مگر زمدا کے چہرے کا بدلتا رنگ انہیں بہت کچھ سمجھا گیا تھا، تھپڑ کی آواز پر سب نے زمدا کی طرف دیکھا تھا جو منہ پر ہاتھ رکھے بےیقینی سے ارباز خان کو دیکھ رہی تھی۔
"ابھی اور اسی وقت ہماری نظروں سے دور ہو جائیں۔" وہ چاہتے ہوئے بھی اپنا لہجہ نارمل نہیں کر پائے تھے، زمدا روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
وہ زوھان سے پہلے ہی شرمندہ تھے، زوھان کے لفظوں نے انہیں ضمیر کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا اور اب زمدا کی حرکت نے ان کی پشیمانی میں مزید اضافہ کیا تھا، وہ ان کی شے پر ہی ہمیشہ زوھان کی زندگی میں مداخلت کرتی آئی تھی۔
زوھان ان کی طرف دیکھے بغیر برق رفتاری سے سیڑھیاں پھلانگتا چلا گیا۔

•••••••

زوھان بیڈ سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھا ہوا تھا وہ کئی بار ہانیہ کا خط پڑھ چکا تھا ہر بار اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
زوھان سر،
میں نہیں جانتی خط کیسے لکھا جاتا ہے پہلے کبھی لکھا ہی نہیں تھا کوئی تھا بھی نہیں جسے لکھتی۔ اب بھی لکھنا کافی عجیب لگ رہا ہے مگر خیر جو کچھ آج تک آپ نے میرے اور حورعین کے لیے کیا اس کے لیے اور آپ کی فیملی کی اتنی اپنائیت کے لیے میں آپ سب کی بہت شکرگزار ہوں، مگر میں مورجان کو اس حال میں  نہیں دیکھ سکتی، نا ہی آپ کے باباجان کو آپ سے ناراض دیکھ سکتی ہوں۔ میں ان رشتوں سے محروم رہی ہوں شاید یہ محرومی زندگی بھر کے لیے ہے مگر میں آپ سے آپ کے ان رشتوں کی دوری کا سبب نہیں بن سکتی۔ میں حورعین کو لے کر ہمیشہ کیلیے جا رہی ہوں۔ ہو سکتے تو مجھے معاف کر دیجیے گا۔

ہانیہ زوھان۔
اس نے ایک بار پھر سے خط پڑھا تھا اسے ہانیہ کی بیوقوفی اور کم عقلی پر شدید غصہ آیا تھا۔ اس نے جھٹکے سے اٹھتے ہذیانی انداز میں چینختے کمرے کی ہر چیز تہس نہس کر دی تھی۔ آئینے کے شیشے کو توڑنے کی وجہ سے اس کا ہاتھ لہو لہان ہو گیا تھا۔ کمرے سے اٹھتے شور کی آواز پر سب زوھان کے کمرے میں داخل ہوئے تھے کمرے سے زیادہ زوھان کی خود کی حالت ابتر تھی۔ خون کی بوندیں ہاتھ سے ٹپکتی فرش بھگو رہی تھیں۔ اس کا بہتا خون دیکھ مہزلہ خان کا دل منہ کو آیا تھا۔ مہزلہ خان نے اسے بہت مشکل سے سنبھالا تھا، ارباز خان اس کا سامنا کرنے کی ہمت مجتمع نہیں کر پائے اسی لیے دروازے سے ہی لوٹ گئے۔ شانزے کے کہنے پر حریم نے اس کا ہاتھ صاف کرتے پٹی باندھی۔ آہستہ آہستہ سب اس کے کمرے سے چلے گئے تھے سوائے مہزلہ خان کے وہ ان کے گھٹنوں پر سر رکھے زمین پر ہی بیٹھ گیا تھا۔
"مورے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کروں، کہاں ڈھونڈوں انہیں، میں خود کو بہت بےبس محسوس کر رہا ہوں، ایک بار۔۔۔ ایک بار وہ مجھ سے بات کر لیتی، مجھ پر بھروسہ کر لیتی، میں سب ٹھیک کرنا چاہتا تھا مورے مگر سب کچھ بگڑتا ہی جا رہا ہے۔ جانے وہ کہاں ہوں گیں وہ تو یہاں کسی کو جانتی بھی نہیں۔ مورے۔۔۔ مورے اس نے خود کہا تھا کہ یہ دنیا وحشت زدہ جنگل کی مانند ہے جہاں کے مرد بھوکے بھیڑیوں کی طرح بے آسرا عورتوں کو بے ضرر، معصوم جانوروں کی طرح نوچ کھاتے ہیں تو وہ کیوں میری بیٹی کو اس کے باپ کی چھاؤں سے دور لے گئی ہے، جانے حور کس حال میں ہو گی مورے آپ تو جانتی ہیں نا وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتی اگر ۔۔۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔۔ مورے اگر میری بیٹی کو ایک کھروچ بھی آئی نا تو میں اپنے ہاتھوں سے اس بےوقوف عورت کی جان لے لوں گا۔"
وہ بے ربط سی گفتگو کرتے ہوئے ایک دم ہی غصے سے دھاڑا تھا، مہزلہ خان دکھ سے زوھان کے بھینچے ہوئے ہاتھ کو دیکھ رہیں تھیں جس سے اب بھی خون بہہ رہا تھا سفید رنگ کی پٹی بھی لال رنگ میں رنگ گئی تھی، زوھان کی ٹوٹی بکھری حالت انہیں تکلیف پہنچا رہی تھی۔


•••••••


معید ہانیہ اور حورعین کو کئی ہاسپٹل اور کلینکس میں دیکھ چکا تھا مگر کہیں سے بھی ان کا پتا نہیں چلا تھا۔ اب وہ ارباز خان کے بتائے گئے ایریا کے ہاسپٹل چیک کرنے آیا تھا، یہ علاقہ تھا تو ایبٹ آباد کا ہی مگر قدرے سنسان تھا۔
جو خبر اسے یہاں سے ملی تھی وہ اسے خوش بھی کر گئی تھی اور تھوڑا پریشان بھی کیونکہ وہ زوھان کے غصے سے باخوبی واقف تھا۔
"اسلام علیکم زوھان۔"
"وعلیکم السلام۔" اس کی خوشی سے چہکتی آواز پر وہ دھیرے سے بولتے دوبارہ سر مہزلہ خان کی گود میں رکھ گیا تھا۔
"ہانیہ مل گئی ہے۔" اس نوید نے اس کی سانسوں کو روانی بخشی تھی۔ دلِ بےقرار کو قرار آگیا تھا۔
"کہاں ہے؟؟ حورعین تو ٹھیک ہے نا؟؟" اس کے چہدے پر پھیلتے خوشی کے رنگ مہزلہ خان کو بھی  سرشار کر گئے تھے۔ وہ بےتابی سے کال ختم ہونے کا انتظار کرنے لگیں۔
"ہاں حورعین تو ٹھیک ہے مگر ہانیہ۔۔۔۔۔۔" اس کی ادھوری بات پر زوھان کو اپنی سانس رکتی محسوس ہوئی۔
"کیا مگر ہانیہ۔۔۔ آگے بھی تو کچھ بولو۔" وہ بےچینی سے بولا، اس کا سائیڈ ڈرار پر پڑی کیز کی طرف جاتا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔
"تم پہلے  پہنچو پھر بات کرتے ہیں۔" وہ ایڈریس بتانے کے بعد کال کاٹ گیا مگر اسکی آدھی ادھوری بات اور ہاسپٹل کا ایڈریس زوھان کے دل کو بےکل اور مضطرب کر گیا تھا۔

•••••••••

زوھان ریش ڈرائیونگ کرتے آدھے گھنٹے کا فاصلہ تیرہ منٹ میں طے کرتے ارباز خان اور مہزلہ خان کیساتھ ہاسپٹل پہنچا۔ زارام اور ضرم پہلے ہی معید کے ساتھ وہاں موجود تھے۔
"تم نے مجھے ہاسپٹل کیوں بلایا ہے، سچ سچ بتاؤ معید حور ٹھیک ہے نا؟؟" ڈاکٹری کے پیشے سے منسلک ہوتے ہوئے بھی آج زوھان کو یوں ہاسپٹل آنا ایک انجانے خوف میں مبتلا کر رہا تھا۔
"ہانیہ کہاں ہے؟" یہ وہ سوال تھا جو معید چاہتا تھا وہ اس سے پوچھے، وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا اسے صرف حور کی فرق تھی، ہانیہ کی کوئی پرواہ نہیں تھی؟؟؟ معیدکے سامنے کی جانب پرائیویٹ روم کی طرف اشارہ کرنے پر وہ بےتابی سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا۔
اس کے پیچھے ہی باقی سب بھی داخل ہوئے، ہانیہ کا رخ دوسری طرف تھا مگر حورعین کہیں نہیں تھی۔
"حورعین کہاں ہے؟" وہ مشتعل ہوتا معید کی طرف بڑھا۔  ہانیہ کے کراہنے کی آواز پر وہ تیزی سے اس کے سر پر پہنچا۔
"میری بیٹی کہاں ہے؟" وہ اس کے پٹیوں میں جکڑے وجود کی پرواہ کرتے اسے بازوؤں سے دبوچے چینخا۔ ہانیہ دوائیوں کے زیرِ اثر ہلکی ہلکی غنودگی میں تھی۔
"کیا کر رہے ہو پاگل تو نہیں ہوگئے؟ چھوڑو اسے۔"  اس کے سختی سے پکڑنے پر ہانیہ کی چینخ نکلی تھی ارباز خان نے اسے ہانیہ سے دور دھکیلا۔
"پوچھیں اس سے حورعین کہاں ہے؟" آواز میں آنسوؤں کی آمیزش بھی شامل ہوگئی تھی، ہانیہ آہستہ آہستہ ارد گرد کے ماحول سے مانوس ہوئی تھی، غنودگی سے نکلتے زوھان کو سامنے دیکھتے اس کا چہرہ فق ہوا۔
"میں تمہیں بتا رہا ہوں ہانیہ حورعین کو اگر ہلکی سی کھروچ بھی آئی ہوئی تو میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔" وہ اس کا گلہ دبوچے غرایا، ہانیہ کی سانسیں رکی تھیں، وہ پھیلی ہوئی آنکھوں سے زوھان کو دیکھ رہی تھی مگر ایک بار بھی اس نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ تو خود ابھی ہوش میں آئی تھی، حورعین کہاں تھی یہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی۔
"یہ یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟" اندر داخل ہوتی ڈاکٹر زوھان کو دیکھ کر حواس باختہ ہوئی جو اب ارباز خان کے قابو میں بھی نہیں آ رہا تھا۔
"چھوڑیں انہیں، کوئی سیکیورٹی کو بلاؤ۔" اس کا ہاتھ ہانیہ کے گلے سے پیچھے کرتی وہ اونچی آواز میں بولی۔
"بابا۔" لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ ہی اندر آتی حورعین بھی اپنا ہاتھ اس سے چھڑواتی روتی ہوئی زوھان سے لپٹ گئی تھی۔ زوھان نے والہانہ اس کا منہ چومتے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
"یہ ان کی بیٹی ہے۔" معید نے ڈاکٹر کی حیرانی بھانپتے کہا۔
"یہ میری وائف ہیں۔" اپنے سینے پر ہاتھ رکھے کھانستی ہانیہ کو دیکھتے  زوھان نے چبا کر کہا جسے اب ڈاکٹر مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
"اوہ۔" بات سمجھتے وہ ہانیہ کا چیک اپ کرنے لگی تھی جو خفگی سے زوھان کو دیکھ رہی تھی۔
"کیسی طبعیت ہے اب میری بیٹی کی؟" ارباز خان نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے پوچھا، وہاں موجود سب نفوس کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔
"اب تو یہ کافی بہتر ہیں، جب آئی تھیں تو خون کافی بہہ جانے کی وجہ سے حالت کافی کریٹیکل تھی۔" ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں انہیں بتایا، زوھان نے حورعین کے ماتھے پر لگی بینڈ ایڈ سے نظریں ہٹاتے ہانیہ کو دیکھا جس کا رنگ کافی زرد پڑ گیا تھا۔ وہ زوھان کی نظریں خود پر محسوس کرتی غصے سے چہرہ موڑ گئی، زوھان اس کی حرکت پر منہ نیچے کرتے دھیما سا مسکرا دیا۔
"بابا۔۔ گاڑی۔۔۔ مما۔۔ میں۔۔۔ خون۔۔۔۔" وہ اپنی ٹوٹی پھوٹی بولی میں زوھان کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر سب کچھ زوھان کے اوپر سے گزر رہا تھا۔
"یہ آپ کو ایکسیڈنٹ کا بتا رہی ہے۔" اس کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات دیکھتے ہانیہ نے اس کی مشکل دور کرتے کہا۔
"ایکسیڈنٹ ہوا کیسے تھا؟" ہانیہ ناراضگی کا اظہار کرتی خاموش رہی، صاف مطلب تھا اگر ایک بار غلطی سے بات کر لی ہے تو زیادہ شوخے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر اس کی حرکت پر ہنسی دباتی باہر نکل گئی۔
"ہانیہ۔" مہزلہ خان کے پکارنے پر اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر کراہ کر رہ گئی۔ زارام اور ضرم باہر نکل گئے تھے۔
"اگر نہیں اٹھا جا رہا تو کیا ضرورت ہے اٹھنے کی۔" زوھان نے اسے سہارے دیتے بٹھایا۔ وہ مہزلہ خان کو دیکھتے آنکھوں ہی آنکھوں میں شکوہ کرتی رونے لگی تھی۔
"سخت کوفت ہوتی ہے مجھے تمہارے یہ آنسو دیکھ کر۔" اگر ہانیہ بات کرنے سے انکاری تھی تو زوھان ہر تھوڑی دیر بعد اپنی زبان کے جوہر ضرور دکھا رہا تھا۔
"اور ابھی مجھے آپ کو دیکھ کر کوفت ہو رہی ہے۔" اس کی بڑبڑاہٹ مہزلہ خان اور زوھان نے واضح سنی تھی، مگر لاکھ کوشش کے باوجود معید کے کان اس کی بات سننے سے محروم رہ گئے تھے۔
"کیا کہا ہے ذرا دوبارہ کہنا۔" زوھان کے تیور بگڑے تھے مہزلہ خان نے اپنی ہنسی دبائی۔
" دوبارہ بےعزتی کرانے کا دل کر رہا ہے۔" معید کے ہنستے ہوئے کہنے پر ارباز خان کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔
"تمہیں تو میں بعد میں دیکھتا ہوں۔"  معید کے اپنے بتیس کے بتیس دانتوں کی نمائش کرنے پر وہ دانت پیستے رہ گیا۔
"بچے آپ نے بتایا نہیں، یہ سب ہوا کیسے؟" ارباز خان نے زوھان کا سوال دہرایا۔
"وہ میں اور حورعین کسی کینوینس کے انتظار میں کھڑے تھے، روڈ کے دوسری طرف  بکری کا بچہ دیکھتے حور نے مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑالیا، سامنے سے گاڑی آتے دیکھ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا  میں نے حور کو تو دھکا دے دیا مگر خود وہاں سے ہٹ نہ سکی۔" وہ ارباز خان کے ملائمت سے پوچھنے پر ڈبڈبائی آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔
"ہاں تو جب اکیلے گھر سے نکلیں تو یہی ہوتا ہے۔" وہ لمحے یاد کرتے ہانیہ کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا، زوھان کے بےرخی سے کہنے پر مہزلہ خان نے اسے ایک زبردست گھوری سے نوازا۔
"معید اسے لے کر جاؤ یہاں سے۔" ارباز خان نے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے اسے وہاں سے نکالا۔ دوائیوں کے زیرِ اثر وہ پھر سے غنودگی میں چلی گئی تھی۔

•••••••

ضرار آفس سے لوٹا تو اسے پریشے اور پریہان لاؤنج میں بیٹھی نظر آئیں، ان کو دیکھتے ہی اس کی ساری تھکن اتر گئی تھی۔ وہ ان کی طرف بڑھا مگر آج دونوں میں سے کسی ایک نے بھی  اسے دیکھتے اپنے بازو  نہیں پھیلائے تھے بلکہ دونوں کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ ضرار کو دیکھتے ہی وہ اونچی آواز میں رونے لگی  مگر ابھی بھی اپنی جگہ سے اٹھی نہیں تھیں۔
"کہا تھا نا اب آواز نہ آئے مجھے تم دونوں کے رونے کی۔" وہ ضرار کی موجودگی سے لاعلم جھلاتی ہوئی لاؤنج میں آئی تھی۔ ڈوپٹہ گلہ سے لاتے کمر کے ایک طرف باندھا ہوا تھا، ماتھے پر پسینے کی چند قطرے چمک رہی تھیں۔
"کیا ہوا ہے انہیں؟" وہ جو اپنے دھیان کچن سے لاؤنج میں آ دہی تھی ضرار کی کرخت آواز پر چونکی۔
"مما۔۔ مارا۔" جواب مہرماہ کی بجائے پریشے کی طرف سے آیا تھا جو اسے بتاتے اور زور و شور سے رونے لگی تھی۔ ضرار کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"کیوں مارا ہے؟" وہ تیوری چڑھائے سخت لہجے میں بولا۔
"ایک نے شاہ میر کی نوٹ بک پھاڑی ہے تو دوسری نے اس کی بُک کو باتھ ٹب میں نہلا دیا ہے۔" وہ چڑ گئی تھی ضرار کے سوال پر، جیسے جیسے وہ بڑی ہو رہی تھیں ان کی شرارتیں دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھیں۔
"تو اتنی سی بات پر تم نے انہیں مارا ہے۔" وہ بےیقینی سے بولا۔
"یہ اتنی سی بات نہیں ہے خان۔" اس نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا۔
"شاہ میر بڑا ہے اسے اپنی چیزیں سنبھال کر رکھنی چاہیے۔"
"اس نے سنبھال کر ہی رکھی تھیں۔"
"جو بھی ہے، آئندہ ان پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا۔" مہرماہ نے ضرار کی طرف دیکھا تھا، اس کی کنپٹی کی رگیں ابھری ہوئی تھیں، جبڑے کو سختی سے بھینچ رکھا تھا۔
"یہ آپ مجھ سے کس لہجے میں بات کر رہے ہیں؟" اس کی آواز رندھ گئی تھی مگر آج بیٹیوں کے آنسوؤں کے سامنے ضرار کو اس کے آنسو نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ اس کی بات نظرانداز کرتا پریشے اور پریہان کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ان کے آنسو صاف کرنے لگا تھا۔ مہرماہ غصے میں کمکمرکا رخ کر گئی۔


••••••

"میں حویلی نہیں جاؤں گی۔" ڈاکٹرز نے زوھان کے اصرار پر ہانیہ کو گھر جانے کی اجازت دے دی تھی مگر اسے  تاکید کی تھی کہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔
"مگر کیوں نہیں جائیں گی آپ؟" مہزلہ خان کی بات پر وہ چپ ہوگئی تھی۔
"مورجان میں حویلی نہیں جانا چاہتی۔" وہ بےبسی سے بولی، اس کی بات پر اندر داخل ہوتے زوھان کی پیشانی پر شکنوں کا جال بن گیا۔
"مورے آپ گاڑی میں جا کر بیٹھیں میں اسے لے کر آتا ہوں۔" وہ مہزلہ خان سے کہتا ہانیہ کی طرف بڑھا، اس نے مہزلہ خان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔
"زوھان آپ۔۔" زوھان کے اشارے پر مہزلہ خان اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالتے باہر چلی گئیں۔
"باقی کا ڈرامہ حویلی جا کے کر لینا ابھی اٹھو، دیر ہو رہی حویلی بھی سب انتظار کر رہے ہوں گے۔" اس نے سہارے کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے وہ نظرانداز کرتی پیچھے کو ٹیک لگا گئی۔
"سیدھی طرح کہیں زمدا انتظار کر رہی ہو گی۔" اس کی بڑبڑاہٹ پر زوھان نے جبڑے سختی سے آپس میں پیوست کرتے خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا۔
"ہانیہ تمیز سے اٹھ جاؤ ورنہ میں وہیل چیئر پر بٹھا کر لے جانے کی بجائے خود اٹھا کر لے جاؤں گی۔" ہانیہ نے بوکھلا کر اسے دیکھا، زوھان سنجیدہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مذاق کا شبہ تک نہ تھا۔
"میں اٹھ رہی ہوں۔" وہ جلدی سے بولتی اپنی طرف بڑھا اس کا ہاتھ تھام گئی کہ کہیں وہ اپنے کہے پر عمل ہی نہ کر دے۔
ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہانیہ کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ ابھی چل نہیں سکتی تھی مگر ڈاکٹرز نے اطمینان دلایا تھا کہ میڈیسن اور ایکسرسائز سے وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی۔


••••••

جاری ہے۔

ھسک (✔️Completed) Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon