حویلی کے سب بچے، داجی، ارباز خان، مہزلہ خان، حریم ڈائٹنگ ٹیبل پر موجود تھے جبکہ مہرماہ زرنش اور عریبہ کے باربار منع کرنے کے باوجود ٹیبل پر کھانا لگانے میں ان کی مدد کر رہی تھی۔
ضرم اور زارام نے بھی آتے ہی اپنی اپنی کرسی سنبھال لی۔
"کیسا ہے میرا بیٹا؟" ضرم نے پیار سے عزم کے گال کھینچتے ہوئے پوچھا۔ اماز نے اپنا چہرہ جھکا لیا جبکہ بہرام نے کچھ دکھ اور کچھ غصے سے اپنے پاپا کی طرف دیکھا۔
حویلی کے باقی افراد ضرم کے اماز کے ساتھ ایسے رویے کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھے۔
ضرم نے خود کھانا کھانے کیساتھ جب پہلا چمچ عزم کی طرف بڑھایا تو اماز اپنی پلیٹ پیچھے دھکیلتے چئیر سے اٹھ گیا، اسے اٹھتا دیکھ کر بہرام نے بےبسی سے اسے پکارا تھا مگر وہ ان سنا کر کے آگے بڑھنے لگا۔
"اماز واپس آ کر اپنا کھانا ختم کرو۔" ضرم کی کرخت آواز پر وہ پلٹا اسکے گال آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے۔ ضرم کی آواز پر سب نے اماز کی طرف دیکھا، زرنش، عریبہ اور مہرماہ بھی کچن سے باہر آگئیں۔
"مجھے۔۔ مجھے بھ۔۔ وک ۔۔ نہیں ہے۔" وہ ہچکیوں کے درمیان بمشکل ہی اپنی بات مکمل کر سکا تھا۔ زرنش اس کی آواز سن کر بے آواز آنسو بہانے لگی مگر اب بھی اس کی طرف دیکھنے سے کترا رہی تھی۔
"میں نے کہا واپس آؤ۔" اس کی گرجدار آواز پر وہ پورا کانپ گیا تھا لیکن اپنی جگہ سے وہ اب بھی نہیں ہلا تھا۔
"اگر اسے بھوک نہیں ہے تو جانے دیں زبردستی مت کریں۔" ضرم کو غصے میں اپنی جگہ سے اٹھتے دیکھ کر زرنش بےبسی سے بولی۔ مگر اس کی بات کو نظرانداز کرتے اس نے اماز کا ہاتھ پکڑا۔
"خدارا بس کر دیں بچہ ہے یہ اسے تو بخش دیں اسے کس چیز کی سزا دے رہے ہیں آپ۔" وہ جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے اماز کا ہاتھ کھینچتے اسے اپنے ساتھ لگاتے چینخ اٹھی۔
"اگر۔۔ اگر اسے میرا بیٹا ہونے کی سزا دے رہے ہیں تو مت بھولیں یہ آپ کا بھی بیٹا ہے۔" اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔
"آپ کو اس پر ترس کیوں نہیں آتا دیکھیں اس کی طرف اس پانچ سال کے بچے کو آپ کے رویے نے کیا بنادیا ہے۔ آپ کے سائے سے بھی ڈرتا ہے جہاں ۔۔۔ جہاں آپ ہوں وہاں جانے سے یہ کتراتا ہے۔" وہ کہتے ساتھ روتے ہوئے اماز کو اپنے سینے سے لگائے وہیں بیٹھتی چلی گئی۔
"زرنش بچے اٹھیں یہاں سے، عریبہ انہیں ان کے روم میں لے کر جائیں۔" مہزلہ خان نے اسے فرش سے اٹھاتے عریبہ سے کہا جو اب بھی بت بنی ناسمجھی سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔
"نہیں، نہیں مور جان مجھے آج سب کچھ کلئیر کرنا ہے تنگ آ گئی ہوں میں روز روز کی اس دھتکار سے، نہیں دیکھ سکتی میں اپنے بیٹے کو مزید اس حالت میں، دل دکھتا ہے جب روز رات کو میرا بیٹا اپنے ہی باپ کی بےرخی پر اپنا تکیہ بھگوتا ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے جب میرا بیٹا مجھ سے آئے دن اپنے ہی باپ کے متعلق سوال کرکے پوچھتا ہے کہ کیا وہ ان کا بیٹا نہیں ہے اگر ہے تو وہ اس کے بہرام لالا اور عزم لالا کی طرح اس سے پیار کیوں نہیں کرتے؟" زرنش کا ضبط آج جواب دے گیا تھا۔ حویلی کا ہر فرد اس کی باتوں پر بےیقینی سے کبھی اسے اور کبھی ضرم کو دیکھ رہا تھا۔
"آج آپ مجھے بتائیں اس ایک دن کے بچے کا کیا قصور تھا جسے دیکھتے ہی اس کے باپ نے نظریں پھیر لی تھیں جسے ایک بار صرف ایک بار گود میں اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کی تھی، کیا قصور ہے اس بچے کا جو پانچ سال سے اپنے باپ کی محبت کے لیے ترس رہا ہے؟؟؟؟ دیں جواب مجھے چپ کیوں ہیں آپ؟"
زرنش سراپا سوال بنے اسے کے پاس کھڑی تھی مگر ضرم کے پاس تو کہنے کے لیے ایک لفظ نہ تھا اسے اپنا آپ آج اپنے بچے کی معصوم خوشیوں کے قاتل کے سوا کچھ نہ لگ رہا تھا۔
" میری وجہ سے مہرماہ اتنے سال حویلی سے دور رہی یہ تو میرا جرم ہے تو اس کی سزا بھی تو صرف میرے حصے میں آتی ہے ناں تو میرا بچہ یہ سزا کیوں بھگت رہا ہے؟" زرنش کا لفظ لفظ اسے آج اماز کے ساتھ کی گئیں اپنی زیادتیاں یاد کروا رہا تھا۔ اس نے اپنا سر مزید جھکا لیا۔
"بجو میرے حویلی سے جانے کا آپ سے کیا تعلق، سب کچھ تو میری اپنی مرضی سے ہوا تھا۔" مہرماہ کے ساتھ باقی سب بھی زرنش کی بات پر چونکے تھے۔
"کیوں تعلق نہیں ہے، ہے تعلق جب یہ اخزم کی اوباش طبعیت کے بارے میں جانتی تھی تو اسے ہمیں بتانا چاہئے تھا۔" ضرم کچھ دیر پہلے کی ساری شرمندگی بھلائے دھاڑا ، اماز زرنش کے پیچھے چھپ گیا ۔
"اگر آپ اسے مال میں کسی اور لڑکی کے ساتھ دیکھنے کی بات کر رہے ہیں تو لالا میں بھی بجو کیساتھ ہی تھی اس وقت اور میں نے ہی بجو سے وعدہ لیا تھا کہ وہ کسی کو بھی نہیں بتائیں گی۔" مہرماہ نے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"لالا آپ تو بجو کو اتنے سالوں سے نا کردہ جرم کی سزا دیتے آرہے ہیں۔ اگر وہ آپ کو بتا بھی دیتی تو کچھ بدلنے والا نہیں تھا کیونکہ اس وقت میں سب کے خلاف جا کر ہی تو اخزم سے شادی کر رہی تھی، آپ کو کیا لگتا ہے آپ اس وقت مجھے منع کرتے تو میں آپ کی بات مان لیتی نہیں لالا نہیں مانتی کیونکہ اس وقت مجھے صرف اپنے باباجانی کا خاندان، اپنا خاندان نظر آ رہا تھا۔" ضرم نے بےیقینی سے زرنش کی طرف دیکھا جس کا ایک ہاتھ بہرام جبکہ دوسرا ہاتھ عزم کے ہاتھ میں تھا اور اماز اب بھی اس کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔
"بجو معاف کر دیں ہمیں۔ ہم نے اپنی زندگی برباد کرنے کے ساتھ آپ کی خوشیاں بھی چھین لیں۔" مہرماہ نے زرنش کے سامنے ہاتھ جوڑتے شرمندگی سے کہا۔
"مہرماہ، اس میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں ہے۔" زرنش نے اس کے آنسو صاف کرتے اسے گلے لگایا۔
"ضرم خان میرے کمرے میں آؤ۔" ارباز خان بےتاثر لہجے میں کہتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی پورا لاؤنج خالی ہوچکا تھا۔
••••••••
"جی بابا جان۔" وہ ارباز خان کے کمرے میں ان کے سامنے مؤدب انداز میں ہاتھ پیچھے کو باندھے سر جھکائے کھڑا تھا مہزلہ خان نے افسوس سے اپنے 35 سالہ بیٹے کو دیکھا، ارباز خان نے طیش میں صوفے سے اٹھتے اسے تھپڑ جڑ دیا۔ مہزلہ خان نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ لیے انہیں ارباز خان سے اس قدر شدید ردعمل کی توقع نہ تھی۔
"مجھے یہ تھپڑ تو تمہیں اسی دن لگا دینا چاہیے تھا جب تم نے ایک چھوٹی سی بات پر ایک سال کے اماز پر ہاتھ اٹھایا تھا۔" ارباز خان ضرم کو اس بات کا حوالہ دے رہے تھے جب اسنے اماز کو تھپڑ لگا دیا تھا کہ اس نے اپنے چاکلیٹ والے ہاتھ اس کے کپڑوں کو لگا دیے تھے۔
ارباز خان کی رگیں غصے سے تن گئی تھیں انہوں نے ضرم کو کالر سے دبوچ رکھا تھا مہزلہ خان آگے بڑھ کر اسے چھرانے کی ہمت خود میں مجتمع نہیں کر سکی تھیں۔
"وہ۔۔۔ کیا کہتے ہو تم مہرماہ اور حریم میری بہنیں نہیں بیٹیاں ہیں تو کیوں بھول گئے کہ زرنش بھی کسی کی بیٹی ہے ضرم خان۔" وہ ایک جھٹکے سے اس کا کالر چھوڑتے دھاڑے تھے ضرم زرا سا لڑکھڑا کر سنبھل گیا۔
"ہم نے ایسی تربیت تو نہیں کی تھی تمہاری ضرم خان تم نے ہمیں زرنش کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔" وہ مدھم لہجے میں کہتے اپنا سر صوفے کی پشت پر گرا کر آنکھیں موند گئے۔
مہزلہ خان کے اشارے پر وہ جھکے سر سے باہر نکل گیا۔
"خان۔" مہزلہ خان کے نم لہجے میں پکارنے پر انہوں نے اسی طرح منہ موڑے ان کی طرف دیکھا۔
"مہزلہ ہم سے اس کی تربیت میں کہاں چوک ہو گئی اور ہم اتنے سالوں میں زرنش کا دکھ بھی نہ سمجھ سکے ہم تو اسے بیٹی بنا کر لائے تھے ناں۔" ان کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھ کر مہزلہ خان بھی بے آواز آنسو بہا رہی تھیں۔
•••••••••
"گڈ مارننگ ۔" ایک چہکتی آواز پر موحد خان نے اپنے چہرے کے آگے سے اخبار ہٹا کر نووارد کو دیکھا تھا جبکہ چہرے پر ناگواری واضح تھی۔
"آج کل کے بچے تو تمیز تہذیب سب بھلائے بیٹھے ہیں۔" موحد خان اخبار میز پر ایک طرف رکھتے گویا ہوئے۔
"سوری، پاخیراغلے آغا جان۔" اس نے اپنے کان کی لو مسلتے شرمندگی سے کہا۔
"پاخیراغلے۔" وہ کہتے ساتھ ہی اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگئے، سمعیہ خانم اور ژالے دراب نے ان کے نرمی سے کہنے پر سکھ سا سانس لیا۔
"گڈ مارننگ ایوری ون۔" ایک نسوانی آواز سب کے کانوں سے ٹکرائی تھی اب کی بار موحد خان کے چہرے پر ناگواری کی جگہ دلکش مسکراہٹ تھی۔
"گڈ مارننگ بچے۔" موحد خان کےاتنے شیریں لہجے میں جواب پر زریاب ایک شکایتی نظر اپنی مورے (ژالے خان) اور بی بی جان (سمعیہ خانم) پر ڈالتے اپنی نشست سے اٹھ کر چلا گیا۔ وہ دونوں بس بے بسی سے اسے جاتا دیکھ ہی سکتی تھی، بچوں کے مابین اس فرق پر موحد خان کے سامنے کچھ کہنے کی ہمت دونوں میں ہی مفقود تھی۔
"زمدا بچے تم واپس اپنے گھر کب جا رہی ہو؟" سمعیہ خانم موحد خان پہ آیا غصہ غلط وقت اور غلط بندے پر اتار رہی تھیں۔
"تمہیں اس کے یہاں رہنے پہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے خانم، یہ حویلی پہلے زمدا دراب خان کی ہے پھر کسی اور کی۔ یہ جب تک چاہے یہاں رہ سکتی ہے۔" زمدا کے اپنی طرف بچارگی سے دیکھنے پر موحد خان کافی کرخت لہجے میں کہتے غصے میں اپنی نشست سے اٹھتے چلے گئے۔ زمدا نے ایک فاتحانہ نظر اپنی بی بی جان پر ڈالی تھی۔
یہ جبار خان کے چھوٹے بیٹے اور اسفند خان کے بھائی موحد جبار خان کی حویلی تھی۔ اکلوتے بیٹے دراب خان کی موت کے بعد سے اس کی بڑی بیٹی زمدا خان ہی موحد خان کی کل کائنات تھی، دراب خان کی موت سے دو ماہ بعد اس دنیا میں آنے والا دراب خان کا بیٹا زریاب دراب خان بھی ان کی زندگی اوردل میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکا۔ اسی لاڈ پیار نے زمدا کو کافی بگاڑ دیا کہ وہ جب دل کرتا اپنے شوہر سے ناراض چھوٹی حویلی میں پائی جاتی اور بچوں کے مابین اس فرق پر زریاب، موحد خان سے کھچا کھچا رہتا تھا۔
•••••••
ڈائٹنگ ٹیبل پر موجود ہر فرد ایک دوسرے سے نظریں چرا رہا تھا، پچھلے پانچ سال سے ضرم کے زرنش کے ساتھ ناگوار رویے کا دکھ سب کو تھا اور سب ہی کو یہ افسوس بھی کل سے کھائے جا رہا تھا کہ وہ اتنے سالوں میں ان کے رشتے میں آئی دوریوں کو سمجھ نہ سکے۔
"کیا ہوا داجی آپ ناشتہ کیوں نہیں کر رہے؟" کافی دیر سے وہاں موجود خاموشی کو زرنش کی آواز نے توڑا۔ اسفند خان جو کب سے اپنے سامنے پڑے کپ کو ہی گھوری جا رہے تھے اس کی آواز پر چونکے۔ زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ زرنش کی طرف دیکھتے کپ اٹھا کر ہونٹوں سے لگا گئے۔
زرنش سب کی شرمندگی سمجھ رہی تھی مگر اسے ان میں سے کسی سے کوئی گلہ نہ تھا جس سے تھا اس نے تو کل کے واقعے کے بعد سے اپنی شکل بھی نہیں دکھائی تھی۔
کیا وہ اپنے کیے پر پشیمان تھا یا حالات اب بھی وہی رہنے والے تھے؟؟؟
••••••••
"اسلام علیکم۔" وہ معید کے ساتھ ہاسپٹل کی کیفے ٹیریا میں بیٹھا تھا جب کال ریسیو کرنے کے بعد اسے اپنے سنجیدہ سے انداز میں سلام کے جواب میں مناہل کی آبدیدہ سی آواز سنائی دی۔ شاید وہ رو رہی تھی یا بس رونے ہی والی تھی۔
"کیا ہوا ڈاکٹر مناہل، سب ٹھیک ہے ناں؟" اس کے پریشان کن انداز میں کہنے پر مناہل نے جو اسے بتایا وہ سب اسے حواس باختہ کر گیا۔
زوھان کے چہرے پر پھیلتی پریشانی اور اس کی حواس باختگی پر معید بھی گھبرا گیا تھا، وہ کال کاٹتے ہی جلد بازی میں ٹیبل سے کیز اور موبائل اٹھائے باہر کی طرف بڑھا، معید بھی بغیر کوئی سوال کیے اس کے پیچھے ہی نکل آیا تھا۔
••••••••
ڈور بیل کی آوازپر اس نے دروازہ کھولا سامنے ہی زوھان اور معید پریشان سے کھڑے تھے۔ گڑیا کو روتا بلکتا دیکھ کر زوھان کی رگیں تن گئیں اس کا ہانیہ پر غصہ اور بڑھ گیا۔
"کب گئی تھی وہ؟" زوھان نے مناہل سے گڑیا کو پکڑا۔
"سر صبح دس بجے کے قریب گئی تھی میں نے ساتھ چلنے کا کہا تو انکار کردیا جاتے وقت بس اتنا کہا کہ آ کر سب بتا دوں گی کہ کہاں جا رہی ہوں۔" رونے کی وجہ سے مناہل کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ زوھان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی۔ ہانیہ کو گئے تین گھنٹے گزر گئے تھے اور اس کا اب تک کچھ پتا نہ تھا۔
•••••••
"زرنش۔" اپنے نام کی پکار پر اس کے ڈریسنگ سے سامان اٹھاتے ہاتھ تھم گئے تھے وہ آواز سے پہلے ہی قدموں کی چاپ پر ہی آنے والے کو پہچان چکی تھی۔ وہ اب بھی منہ موڑے کھڑی رہی۔
"میں جانتا ہوں میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا ہے پر پلیز معاف کر دو میں بہت شرمندہ ہوں اپنے کیے پر۔" ضرم نے کندھوں سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی طرف کیا وہ سر جھکا گئی۔
"ناراض ہونے کا اختیار ہے تمہارے پاس مگر بس اس بار معاف کر دو۔" وہ اس کا ہاتھ پکڑے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا وہ اسے کیا بتاتی یہ ناراضگی کا اظہار تو بالکل بھی نہیں تھا بس وہ ضرم ارباز خان جو شان و جلال میں اپنی مثال آپ تھا اسے کبھی اپنے سامنے اس طرح ٹوٹا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی۔
اس کے ہاتھ جوڑتے ہی زرنش نے ایک دم اس کے سامنے زمین پر بیٹھتے اس کے ہاتھ پر سر ٹیکے ہچکیوں سے رونا شروع کر دیا۔
"میں۔۔ میں آپ سے۔۔ کبھی ناراض نہیں ہو سکتی۔۔ مگر اماز کے ۔۔۔ ساتھ آپ کا اکھڑا ۔۔۔ رویہ ہر بار مجھے تکلیف ضرور۔۔۔۔ پہنچاتا تھا۔" زرنش نے ہچکیوں کے درمیان اپنی بات مکمل کی وہ ماں تھی ناچاہتے بھی شکوہ کرگئی۔
"میں بہت شرمندہ ہوں تم دونوں سے۔" وہ دھیمے لہجے میں بس اتنا ہی کہہ پایا، اپنے لفظوں سے جتنے گھاؤ وہ دونوں کو دے چکا تھا اب وہ فقط چند لفظوں سے ہی بھرنے والے نہیں تھے، ان کو بھرنے کے لیے وقت درکار تھا۔
ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز پر دونوں نے چونک کر دروازے کی سمت دیکھا جہاں اماز بہرام کے ساتھ لگا رو رہا تھا۔ ضرم نے اسے اشارے سے اپنی طرف بلوایا وہ زرنش کے اشارے پر اس کی طرف بڑھا مگر اس کی چال میں واضح لڑکھراہٹ اور ہونٹوں کی کپکپی ضرم کو مزید شرمندہ کر گئی تھی۔
"اپنے پاپا کو معاف کر دو۔" اس نے اماز کے سامنے بیٹھے ہاتھ جوڑے۔
"مور۔۔ مور جان ۔۔کہتی ہیں بڑے مع۔۔افی مانگتے۔۔۔ نہیں معاف۔۔ کرتے اچھ۔۔ے لگتے۔۔ ہیں۔" کپکپاتے لہجے میں کہی بات پر زرنش کو اپنے سب سے چھوٹے بیٹے پر بہت پیار آیا تھا۔ ضرم نے ایک جست میں ہی اپنے اور اس کے درمیان کا فاصلہ مٹاتے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
•••••••
گاڑی کو ایکدم بریک لگانے سے ٹائروں کی زبردست چرچراہٹ خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر گئی۔ وہ سبک رفتاری سے گاڑی سے نکلتے گھر کی طرف بڑھا۔ چوکیدار بھی اسے دیکھتے ہی پیچھے ہٹ گیا وہ پہلے بھی دو تین بار یہاں آچکا تھا۔
لاؤنج کے بیرونی دروازے پر ہی اسے کھڑا دیکھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔ دو گھنٹے کی پریشانی اور خواری کے باعث دل کی تیز ہوتی دھرکن کچھ معمول پر آئی۔
"ویسے داد دینی پڑے گی تمہیں اس بار بھی لمبا ہاتھ مارا ہے، دیکھنے میں تو وہ کوئی امیر زادہ ہی لگ رہا تھا۔" اتنی تضحیک پر اس کا جھکا سر مزید جھک گیا تھا زوھان نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی۔
"ویسے ملاقات کہاں ہوئی تھی میرے سامنے تو بڑا محرم، نامحرم اور یہ پارسائی کا ڈھونگ رچاتی رہی ہو۔" تمسخر اڑاتے لہجے میں کہتے اس نے اس کے حجاب پر چوٹ کی تھی۔ وہ بغیر کچھ کہے باہر کی طرف بڑھی زوھان کو اس کا چہرہ ہرتاثر سے پاک لگا مگر آنکھیں وہ ضبط سے لال انگارا ہو رہی تھیں۔
"لو بھئی آگیا تمہارا آشنا۔" زوھان کو وہاں دیکھ کر جبران لغاری کی زبان نے گل افشانی کی مگر مسٹر اور مسز ابراہیم لغاری کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔
"جا کرگاڑی میں بیٹھو۔" جبران کے بیہودہ الفاظ اسے طیش دلا گئے۔
"میں نے کہا جاؤ۔" ہانیہ کوکچھ کہتا دیکھ کر وہ غرایا ہانیہ یکایک باہر کی طرف بڑھی۔
"اسلام علیکم سر۔" ابراہیم لغاری کو اس کا انداز کافی سرد لگا اور اس کے لہجے میں ہمیشہ پائی جانے والی تعظیم و تکریم بھی آج مفقود تھی۔
"مسٹر جبران لغاری میں کوئی گھما پھیرا کر بات نہیں کروں گا سیدھا مدعے پر آتا ہوں۔" ناسمجھی سے جبران نے اس کی طرف دیکھا۔
"تم جب اپنی خود کی بیٹی کو اپنی بیٹی مانتے ہی نہیں ہو تو اسکی کسٹڈی ہانیہ کو دے دو یعنی اس کے بعد سے تمہارا اس پر کوئی حق نہیں ہو گا۔" اس نے پریشے اور پریہان کو لے کر داجی کی دوراندیشی کا استعمال یہاں کیا۔
"ہاں تو لے لے اس کی کسٹڈی، میں اس عورت سے جڑے کسی بھی انسان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا۔" وہ تنفر سے کہتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔ اس کے جاتے ہی مسز ابراہیم لغاری بھی اپنے کمرے میں چلی گئیں، اب وہاں صرف ابراہیم لغاری اور زوھان موجود تھے۔
"کل میرا لائیر پیپر لے آئے گا آپ پلیز اپنے بیٹے سے سائن کروا کر بھجوا دیجیئے گا۔" وہ سپاٹ لہجے میں کہتا باہر کی طرف بڑھا جب ابراہیم لغاری کی بات پر وہ پلٹا۔
"اس کا ساتھ کبھی مت چھوڑنا زوھان، وہ خود پر مضبوط دکھنے کا خول چڑھائے ہوئے ہے اندر سے وہ بالکل معصوم ہے کسی چھوٹے بچے کی طرح۔ وہ اپنے اس کمزور رشتے کو سنبھالتے، سنوارتے خود بالکل ٹوٹ گئی ہے۔ اس کے بکھرے وجود کو تم ہی پھر سے یکجا کر سکتے ہو۔" زوھان ان پر ایک تاسف بھری نگاہ ڈالتے باہر نکل گیا۔
••••••••
گاڑی واپسی کے سفر پر گامزن تھی۔ وقتاً فوقتاً زوھان اس پر ایک قہر بھری نگاہ ڈالنا نہیں بھول رہا تھا۔ پیشانی اور گردن کی ابھری رگیں اس کے غصے اور ضبط کی واضح نشاندہی کر رہی تھیں۔
گاڑی ایک جھٹکے سے بلڈنگ کے پارکنگ ایریا میں رکی، ہانیہ کا سر بمشکل ہی ڈیش بورڈ کے ساتھ ٹکرانے سے بچا۔ اس کی سائیڈ کا دروازہ کھولتے زوھان نے ایک جست میں اسے کلائی سے تھامے بغیر اردگرد کی پروا کیے بیدردی سے اپنے ساتھ گھسیٹنا شروع کر دیا۔
اس نے معید کے دروازے کھولنے پر ایک جھٹکے سے اس کی کلائی چھوڑی وہ توازن برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے لاؤنج کے صوفے پر جا گری۔ مناہل اور معید نے تحیر سے اس کی طرف دیکھا۔
"ڈاکٹر مناہل کل تک ان کی پیکنگ کر دیں۔" مناہل نے کچھ حیرت اور کچھ ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔ معید سمجھ گیا تھا کہ جو فیصلہ وہ پچھلے چھے ماہ سے نہیں کر پا رہا تھا وہ فیصلہ ہانیہ کی بغیر بتائے جانے والی حرکت نے ایک دن بلکہ کچھ گھنٹوں میں کروالیا تھا۔
"یہ میرے اور معید کیساتھ پشاور جارہی ہے۔" اس نے مناہل کی مشکل آسان کرتے اس کے پوچھنے سے پہلے ہی جواب دے دیا۔
"مگر میں آپ لوگوں کے ساتھ کیوں جاؤں گی؟" اسے زوھان کا اس پر اپنی مرضی مسلط کرنا ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
"کیونکہ ڈاکٹر مناہل واپس لاہور جا رہی ہیں اور تمہارے یہاں مزید قیام کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔" ہانیہ اور معید نے حیرانگی سے مناہل کی طرف دیکھا وہ دونوں سے ہی نظریں چرا گئی۔
"وجہ تو آپ دونوں کے ساتھ جانے کی بھی نہیں ہے۔" وہ سرد انداز میں کہتے مناہل پر ایک ناراض نظر ڈالے کمرے کی طرف بڑھی۔
"تو پھر کہاں جاؤ گی؟" زوھان نے بازو سے پکڑے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔
"کہیں بھی جاؤ یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے، مگر آپ کیساتھ تو بالکل نہیں جاؤ۔۔۔۔۔" زوھان کے انداز پر وہ ایکدم بھڑک اٹھی۔
"چپ ایکدم چپ ، اب اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔" وہ درشتتگی سے اس کی بات کاٹتے اس کے بازو پر ہاتھ کا دباؤ بڑھا گیا تھا جس پر وہ سسکی۔
"آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں ۔" ایک جھٹکے سے اس نے اپنا بازو اس کی گرفت سے آزاد کروایا۔
"خوب بہت خوب، اگر اتنے ہی اچھے سے مجھے جان گئی ہو تو یہ بھی جان لو ہوگا وہی جو میں چاہوں گا۔"
"اگر مزید کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو اپنی بیٹی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گی، جو حرکتیں اب تک تم کر چکی ہو تمہیں ذہنی مریض ثابت کرنا میرے لیے ذرا مشکل نہ ہوگا۔" وہ بےبسی سے اس کی طرف دیکھتی آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتے وہاں سے چلی گئی۔
مناہل اور معید کو زوھان کی باتوں اور حرکت سے کافی دکھ پہنچا تھا مگر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ سب ہانیہ کی بہتری کے لیے ضروری تھا۔
•••••••
"ہانیہ سوری یار میں تمہیں کل بھی یہی بات بتانا چاہتی تھی۔ میں بالکل بھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ بات تمہیں ایسے پتا لگے۔" مناہل نے اس کے کپڑے بیگ میں ڈالتے بات کا آغاز کیا۔ وہ اب بھی بھرپور ناراضگی کا مظاہرہ کرتے منہ پھلائے بیٹھی رہی۔
"موم ڈیڈ کی ڈیتھ کے بعد آپی نے ہی مجھے پالا ہے۔ وہ کب سے مجھے واپس بلا رہی تھیں، اب میں انہیں مزید نہیں ٹال سکتی۔"
"پر سچی یار تم مجھے آپی کی طرح ہی عزیز ہو، میں تم سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں جتنی آپی سے کرتی ہوں۔" وہ کپڑے ایک طرف رکھے ہانیہ کے ایک طرف بیڈ پر ہی بیٹھ گئی تھی۔
"میں آپ کو بہت مس کروں گی۔" مناہل کی بھیگی آواز پر اس کا ضبط بھی ٹوٹ گیا مناہل کے گلے لگے ہچکیوں سے روتے وہ گویا ہوئی۔
"چلو بھئی بس کرو یہ ایموشنل سین میں اچھی اچھی یادیں ساتھ لے کر جانا چاہتی ہوں میں بالکل نہیں چاہتی جب بھی تمہاری یاد آئے تو یہ روتی بسورتی شکل میری آنکھوں کے سامنے آ جائے۔" مناہل اسے خود سے الگ کر کے نم آنکھوں شرارت لیے بولی اس کی بات پر ہانیہ بھی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
ہانیہ بہت ریزروڈ رہنے والی لڑکی تھی مگر ہر بار مناہل اسے اپنا آپ خود پر عیاں کرنے پر مجبور کردیتی تھی۔ وہ اپنی حالت پر خود ہی حیران تھی آج تک وہ کسی کی اتنی عادی نہیں ہوئی تھی جتنا مناہل نے اسے اپنا عادی کر لیا تھا۔
مناہل خود بھی ہانیہ کی عادی ہو گئی تھی وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی مگر اس کی آپی کی شادی پھپھو کی طرف ہوئی تھی وہ تو ناجانے کیسے مناہل کا وہاں رہنا برداشت کر رہی تھیں کجا کہ ہانیہ کو برداشت کرنا۔
•••••••
مناہل اور ہانیہ زوھان کے انتظار میں لاؤنج میں ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے الگ ہونے پر اداس تھیں۔ پچھلے چھ ماہ میں وہ دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی ساتھی رہی تھیں اب ایک دوسرے کے بغیر رہنا دونوں کو ہی مشکل لگ رہا تھا۔
"حورعین وہاں جاتے ہی اپنی خالہ کو مت بھول جانا، اوکے؟؟" اس کی بات پر ہانیہ چونکی تھی اور کچھ حد تک شرمندہ بھی ہوگئی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا نام رکھنا کیسے بھول سکتی ہے۔
"کیا ہے اب میں اتنا بھی میں حق نہیں رکھتی کہ سپنی بھانجی کا نام رکھ سکوں۔" مناہل اس کے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر جھنجھلا گئی۔
"تھینک یو۔" مناہل نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا۔
"فار ایوری تھنگ۔" مناہل کے ابرو اچکا نے پر اس نے وضاحت کی۔
"دیکھا تمہاری ماں نے جانے سے پہلے ہی کر دیا ناں مجھے پرایا۔" اس نے پنجابی لب و لہجہ میں کہتے ڈرامائی انداز اپنایا اور اپنے نادیدہ آنسو صاف کیے۔
"ڈرامہ کوئین۔" اس کی واضح بربراہٹ پر مناہل اور وہ دونوں ہنس پڑی۔
•••••••
حریم حویلی کی سب خواتین کے ساتھ لاؤنج میں موجود تھی رنگ ٹیون کی آواز پر وہ اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوئی مگر کالر کا نام دیکھ کر اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں، دل الگ تیزگام کی سپیڈ پکڑ بیٹھا تھا کہ اب اس سے کیا غلطی سرزد ہوگئی۔
اسلام علیکم لالا، آج مجھ ناچیز کی یاد کیسے آ گئی آپ کو؟" اس کی رگِ ظرافت پھڑکی وہ دل کی حالت کو پسِ پشت ڈالے گویا ہوئی۔ اس کے انداز پر سب خواتین کی ہنسی چھوٹی، زوھان نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
"وعلیکم السلام، اس ناچیز کو اگر جاب کی ضرورت ہے تو میرے پشاور والے ہاسپٹل میں ویکینسی ہے۔" وہ دانت پیستے بولا۔
"مگر لالا میں تو میرپور والے ہاسپٹل...." وہ دکھ سے گویا ہوئی۔ باقی سب خواتین اب اپنی باتوں میں مگن تھیں۔
"میرپور والے ہاسپٹل کا خیال اپنے ذہن سے نکال دو ایسا کبھی نہیں ہوگا چاہے اس بار کسی کی بھی سفارش لے آؤ۔" وہ اسٹیئرنگ کو مضبوطی سے تھامے بولا۔
"لالا آپ یہ جان بوجھ کہ کر رہے ہیں ناں۔" آنسو آنکھوں کی باڑ توڑتے رخسار پر بہہ نکلے تھے۔
"ہاں جان بوجھ کر کر رہا ہوں اگر یہ جاب چاہیے تو آج ہی پشاور پہنچ جانا ورنہ اسے بھی بھول جاؤ۔" وہ سختی سے کہتا کال کاٹ گیا ہمیشہ کی طرح حریم کی آواز میں گھلی نمی اسے بےچین کر گئی تھی مگر وہ مجبور تھا۔ حریم سب سے نظریں چراتی وہاں سے اٹھ گئی۔
•••••••
زوھان کل رات ہی ابراہیم لغاری سے کال پر بات کرنے کے بعد معید کو جبران لغاری کے متعلق بتا چکا تھا کہ وہ ان کے میڈیکل کالج کے پروفیسر ابراہیم لغاری کا بیٹا ہے پہچان تو وہ اسے ہاسپٹل میں پہلی بار دیکھتے ہی گیا تھا ہانیہ کے ہسبنڈ کا نام جاننے کے بعد جو تھوڑا بہت شک تھا وہ بھی دور ہو گیا۔ وہ اپنے سرد رویے کی وجہ سے ابراہیم لغاری سے بہت شرمندہ تھا اس کی معذرت کے لیے ہی وہ دوبارہ اندر گیا تھا مگر ابراہیم لغاری کے لیے وعدے نے اسے ہانیہ اور حورعین کو اپنے ساتھ پشاور لے جانے کا پابند کر دیا ورنہ اب وہ اسے کسی گرلز ہاسٹل میں رکھنا چاہ رہ تھا جہاں وہ اس کی ہر ممکن مدد کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ رات کو دوبارہ ابراہیم لغاری نے اس سے ہانیہ کو اپنے پاس رکھنے کا ہی کہا تھا۔
اب حریم کو بلانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ہانیہ کمفرٹیبل ہوکر اس کے گھر رکھ سکے۔
••••••
معید اور زوھان ہانیہ کو پک کرنے کیلئے مناہل کے فلیٹ پر موجود تھے، وہ تو باہر سے ہی چلے جانے کا ارادہ کیے آۓ تھے مگر مناہل کے پر زور اصرار پر چائے کیلئے رک گئے، معید جب سے آیا تھا لگاتار مناہل کو نظر انداز کر رہا تھا۔
"آپ کو برا نہ لگے تو آپ سے ایک بات پوچھ لوں وہ کیا ہے ناں کہ اگر نہ پوچھی تو مجھے سکون نہیں آئے گا۔" ہانیہ کو مخاطب کرتے معید نے اپنا کان کھجایا۔
مناہل نے حیرت سے معید کی طرف دیکھا کہ آخر اس نے کب سے بات شروع کرنے سے پہلے اجازت لینی شروع کر دی وہ تو بس دوسرے بندے کو دیکھتے ہی نان سٹاپ شروع ہو جاتا تھا۔ شاید ہانیہ کی ریزروڈ طبیعت نے اسے اجازت لینے پر مجبور کر دیا تھا۔
"پوچھیں۔" اس کے دھیمے لہجے میں کہنے پر جہاں معید خوش ہو گیا وہیں زوھان حیرت زدہ تھا اس سے تو اس نے ہمیشہ پھاڑ کھانے والے انداز میں ہی بات کی تھی۔
زوھان کی حیرت سے پھیلی آنکھیں دیکھ کر ہانیہ نے بمشکل ہی اپنی ہنسی ضبط کی وہ زوھان کی خود کے متعلق ابھی کی سوچ کو بآسانی سمجھ گئی تھی۔
"آپ کل ابراہیم لغاری کے گھر میرا مطلب وہاں کس لیے گئی تھیں؟" ہچکچاتے اس نے اپنی بات مکمل کی۔ یہ سوال تو زوھان کے ذہن میں بھی تھا مگر پوچھنے کی غلطی وہ نہیں کر سکتا تھا، اس نے کونسا اسے سیدھا جواب دے دینا تھا۔
"اکیڈمیک ڈاکیومنٹس لینے۔" وہ آہستگی سے کہتے نظریں جھکا گئی۔
معید اور زوھان نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ وہ ان سے بات کرتے نظریں ان کے چہرے پر مرکوز نہیں رکھتی تھی۔
"مگر کیوں؟" زوھان کے لہجے میں تعجب واضح تھا۔
"کیا مطلب کیوں، میں جاب کرنا چاہتی ہوں اسی لیے لینے گئی تھی۔" اب کی بار بات کرتے اس کی ٹون ہی کیا زوھان کو وہ پوری کی پوری بدلی ہوئی لگی۔
"اچھا، تو کوالیفیکشن کیا ہے آپ کی؟" زوھان کا لہجہ اسے تمسخر اڑاتا محسوس ہوا۔
"ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔" وہ دھیمے لہجے میں مجرموں کی طرح کہتے پھر سے نظریں جھکا گئی۔ جبکہ اس کی بات پر زوھان، معید اور مناہل کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
"ان بیلیو ایبل، تمہیں ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کی ڈگری دے کس نے دی۔" زوھان اب بھی اس کی بات پر یقین کرنے سے انکاری تھا۔
"اب ڈگر دکھاؤں کیا اور کیا مطلب دے کس نے دی؟؟؟ جب آپ جیسے کریلا صفت انسان کو مل سکتی ہے تو مجھے ملنا کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں ہے۔" اس کی بات پر زچ ہوتے آخر میں وہ اس کی سنجیدہ مزاجی پر چوٹ کر گئی جس پر ناجانے کتنی ہی لڑکیاں فدا تھیں۔ اس کے 'کریلا صفت' کہنے پر معید کا قہقہہ بے ساختہ تھا جبکہ مناہل اپنی ہنسی چھپانے کی تگ ودو میں منہ نیچے کر گئی، زوھان نے دونوں کو گھورا اور ایک قہر برساتی نظر ہانیہ پر ڈالتے حورعین کو گود میں لیے باہر کی طرف بڑھ گیا۔ معید نے بھی مناہل پر ایک ناراض نظر ڈالتے ہانیہ کا ہینڈ کیری پکڑتے باہر کی راہ لی۔ وہ جاتے سمے ہانیہ کو بھی باہر آنے کا کہہ گیا۔
مناہل کو اس کی ایک ناراض نظر سے ہی اپنے دل میں اداسی اترتی محسوس ہوئی۔ معید وہ واحد شخص تھا جو ہاسپٹل کے شروع کے دنوں سے ہی اس کے ساتھ تھا اس نے ہر موڑ پر مناہل کی بھرپور مدد کی تھی۔ ہانیہ اس سے گلے ملتے باہر نکل آئی دونوں کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں پر دونوں ہی کمال ضبط کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
••••••••••
اسلام آباد سے پشاور کا سفر خاموشی سے گزرا حورعین پورا راستہ زوھان کی گود میں اس کے ساتھ کھیلتی رہی جبکہ ہانیہ اپنی ہی سوچوں میں مگن تھی وہ آنے والے کل کے لیے پریشان تھی کہ ناجانے اب زندگی اسے کس موڑ پر لے جانے والی تھی۔ معید اسی سوچ میں غرق تھا کہ وہ مناہل کو اپنے جانے کے متعلق اسے نا بتانے پر اتنی آسانی سے معاف نہیں کرنے والا۔
•••••••••
وہ زوھان کی کال سے تھوڑی دیر بعد ہی پشاور آنے کا فیصلہ کر چکی تھی اسے یہاں پہنچے پانچ گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا، بوریت بھگانے کے لیے وہ پورے گھر کا چکر لگا آئی تھی۔ وہ اکتا کر صوفوں کے کشنز ہی اِدھر اُدھر پھینکنے لگی ٹیبل سے میگزین اٹھا کر پھینکتا اس کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔ زوھان کے ساتھ آنے والوں کو دیکھ کر تو اسے سکتہ ہی ہو گیا۔
"ہائے میں مر جاواں یہ ۔۔۔ یہ کون ہیں؟ کہیں آپ نے چھپ کر شادی تو نہیں کر رکھی اور اب آپ انہیں ہم سے ملوانے لائے ہیں۔" میگزین ٹیبل پر واپس رکھتے وہ صدمے سے بولی جبکہ ہانیہ کافی حیرانگی سے اس پٹھانی کو دیکھ رہی تھی جو دوپٹہ سلیقے سے سر پر جمائے دونوں ہاتھ لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پر ٹکائے کھڑی تھی جس کی گہری نیلی آنکھیں ہوبہو زوھان جیسی تھیں۔
"مجھے تو پہلے ہی شک تھا، کہا بھی تھا مور جان کو کہ ان پر نظر رکھیں پر میری سنتا ہی کون ہے، آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے زوھان ارباز خان۔" زوھان کی خاموشی سے اپنا ہی مطلب اخذ کرتے وہ ڈرامائی انداز میں گویا ہوئی، ہانیہ نے گھبرا کر زوھان کو دیکھا۔
"حریم شہیر خان۔" اسکے لہجے میں واضح تنبیہہ تھی۔ زوھان نے اپنی گود میں سوئی حورعین کو وہیں لاؤنج میں ہی صوفے پر لٹا دیا۔
"سوری لالا۔" وہ اپنے دانتوں کی نمائش کرتے ہانیہ کی طرف دیکھتے بولی۔
"میں حریم شہیر خان ہوں، زوھان لالا کی چھوٹی بہن۔" اس نے اپنا ایک ہاتھ ہانیہ کی طرف بڑھایا جسے وہ کچھ جھجھکتے تھام گئی۔
"اور آپ؟؟" حریم سوالیہ انداز میں گویا ہوئی۔
"میں ہانیہ۔۔۔" وہ ہچکچائی کہ وہ اسے کیا بتائے کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہی ہے۔
"ہانیہ زوھان خان جیسے میں ان کی بہن ہوں آپ ان کی بیوی اتنا آسان ہے یہ سب کہنا آپ ایویں ہی اتنا ہچکچا رہی ہیں۔ مجھ سے شرمانے کی ضرورت تو بالکل بھی نہیں ہے مانا آپ نے ان سے پسند کی شادی کی ہے ویسے بھی ہر کوئی اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق رکھتا ہے اور میں تو بالکل بھی پسند کی شادی کے خلاف نہیں ہوں بلکہ ہماری فیملی میں کوئی بھی نہیں بس بابا جان تھوڑا مسئلہ کھڑا کریں گے مگر خیر لالا نہ آج تک کونسا کام ان کی مرضی سے کیا ہے جو شادی ان کی مرضی سے کرتے۔" وہ نان سٹاپ شروع ہو گئی تھی، ہانیہ تو اس کی باتیں سن کر ہڑبڑا ہی گئی جبکہ زوھان کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو گیا۔ جب اس کی نظر زوھان پر پڑی تو اسے احساس ہوا وہ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ غلط بول گئی تھی۔
"یہ ہانیہ نور ہے، یہ اب سے یہیں رہے گی مگر یہ میری بیوی نہیں ہے۔" زوھان نے غصے سے دانت پیستے کہا۔ ہانیہ نے سکھ سا سانس لیا ورنہ وہ تو بےوجہ شرمندہ ہوئے جارہی تھی۔ مگر اسے یہ نیلی آنکھوں والی گڑیا بہت پسند آئی تھی۔
"وہی تو میں سوچ رہی تھی اتنی پیاری لڑکی آپ کی بیوی بھلا کیسے ہو سکتی ہے۔" ہانیہ اسکی ستائشی نگاہوں سے سٹپٹا گئی۔ زوھان نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔
"یہ بیوٹیفل لیڈی کون ہیں؟" معید نے سامان ایک طرف رکھتے زوھان سے پوچھا۔
"معید لالا۔" حریم کی خوشگوار حیرت میں ڈوبی آواز ابھری وہ ناجانے کتنے سالوں بعد اسے روبرو دیکھ رہی تھی، معید نے اچنبھے سے اسے دیکھا مگر پہچان وہ اب بھی نہ سکا تھا۔
"اتنی پیاری لڑکی کے منہ سے 'لالا' لفظ بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا۔" حریم اس کے ایسا کہنے پر گڑبڑا گئی اور ایکدم زوھان کی طرف دیکھا۔
"میرا مطلب لالا تو اتنے لوگ کہتے ہیں تم بھائی بول لو۔" وہ زوھان کی گھوری پر برا سا منہ بناتے بولا۔
"حریم ہے یہ۔" زوھان نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے کہا، معید نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
"نا کر یار، ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟؟ یہ وہ روندو کیسے ہو سکتی ہے ؟اس کی ناک تو ہمیشہ بہتی ہی رہتی تھی۔" وہ اپنا سر لگاتار نفی میں ہلا رہا تھا۔
"معید۔" حریم کے نیلے نین کٹوروں کو آنسوؤں سے بھرتا دیکھ کر زوھان نے اسے فوارً ٹوکا۔
"میں تو مذاق کر رہا تھا۔" اس نے کان کھجاتے کہا، وہ خاموش رہی صاف مطلب تھا کہ اسے اس کا مذاق بالکل پسند نہیں آیا۔ کسی کے روندو کہہ دینے پر وہ ایسے ہی برا منا جاتی تھی اور پھر اسے منانا بہت ہی مشکل ہوتا تھا۔
"ریم بچے ہانیہ کو اپنے کمرے میں لے جاؤ یہ اب سے آپ کے ساتھ ہی رہی گی۔" اس نے حورعین کو صوفے سے اٹھا کر حریم کو پکڑایا۔ وہ جو کب سے سر جھکائے بیٹھی تھی فوراً ہی حریم کے پیچھے ہو لی۔
"چلو میں بھی چلتا ہوں اب صبح ہوسپٹل میں ہی ملاقات ہو گی۔" معید نے کھڑے ہوتے کہا۔
"آج ادھر ہی رک جاتے۔" زوھان نے اس کے آرام کی خاطر کہا۔
"نہیں بس چلتا ہوں اب، جاکر اپنے فلیٹ کی حالت بھی ملاحظہ فرما لوں کب سے وہاں کا چکر بھی نہیں لگایا۔" معید نے صاف انکار کرتے باہر کی راہ لی۔
زیادہ تر پشاور میں ہی رہنے کی وجہ سے زوھان کا یہاں اپنا گھر تھا اور معید نے ایک فلیٹ لے رکھا تھا۔
•••••••••
رات کے پچھلے پہر آ کر حریم زوھان سے ہانیہ اور حورعین کے متعلق سب کچھ پوچھ گئی تھی۔ زوھان بھی اسی کے انتظار میں جاگ رہا تھا۔ وہ حریم کو اچھے سے جانتا تھا کہ جب تک اسے سب پتا نہیں چل جاتا وہ سکون سے سو نہیں سکے گی۔ وہ اسے شروع سے اب تک کی ہر بات سے آگاہ کر گیا اور صاف لفظوں میں اسے حویلی میں کسی کو بتانے سے بھی منع کر گیا۔
••••••••
دن ہفتے اور ہفتے مہینوں میں بدلتے چلے گئے اسے یہاں آئے چار مہینے گزر گئے تھے۔ حورعین بھی دس ماہ کی ہو گئی تھی۔ وہ یہاں آنے کے بعد بھی مسلسل مناہل سے رابطے میں رہی دونوں اب بھی ایک دوسرے کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتیں۔ وہ جب کبھی اداس ہوتی حریم اپنی باتوں اور حرکتوں سے اس کا موڈ ٹھیک کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتی ۔ وہ مناہل کو 'ڈرامہ کوئین' کہا کرتی تھی جبکہ حریم تو اسے پوری فلم ہی لگتی جس کا وہ برملا اظہار بھی کر دیتی۔ اس کے اوپر چڑھا ریزروڈ طبیعت کا خول حریم کی صحبت میں دراڑیں پڑنے کے بعد چٹخ کر اتر چکا تھا۔ وہ حریم کی ہر شرارت میں اس کا ساتھ دیتی وہ حرکت تو ضرور کرتی جس کا پتا ہوتا کہ یہ زوھان کو غصہ دلا جائے گی۔ زوھان اور وہ جہاں اکٹھے پائے جاتے جھگڑا کیے بغیر وہاں سے نہ اٹھتے۔
زوھان ہمیشہ ہاسپٹل سے آنے کے بعد کا وقت حورعین کے ساتھ گزارتا وہ دونوں ایک دوسرے کے عادی ہوگئے تھے۔ وہ روتی تو زوھان کو دیکھتے ہی چپ کر جاتی،کھانا اس کے ہاتھ سے کھاتی اور زیادہ تر تو زوھان کی گود میں ہی سو جاتی۔ زوھان کو دیکھتے ہی ہمیشہ ہانیہ کی گود سے اس کی طرف لپکتی۔ ہانیہ اکثر حورعین کی ایسی حرکتوں پر چڑ جاتی۔ حریم تو ہمیشہ ہنستی کہ یہ ہانیہ کی بیٹی کم زوھان کی بیٹی زیادہ لگتی ہے۔ زوھان بھی اسے اپنی بیٹی ہی کہتا تھا۔
حریم اور ہانیہ زوھان کے ہاسپٹل میں ہی جاب کر رہی تھیں، حورعین پورا دن ہاسپٹل کی ڈے کئیر میں گزارتی اور واپسی پر ان کے ساتھ ہی آ جاتی۔••••••••••
جاری ہے۔
Don't forget to give your precious reviews 🌸
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...