"ہانیہ جاگ رہی ہو؟" زوھان نے اسے کندھے سے جھنجھوڑا وہ ہڑبڑا کر نیند سے اٹھی۔
"سو رہی تھی؟" زوھان کے سوال پر مندی مندی آنکھوں سے اس نے اسے گھورا۔
"تم مجھے اس دن اپنے بارے میں بتا رہی تھی۔" زوھان نے سامنے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھتے کہا، کبھی کبھار دوسروں کے دکھ سن کر انسان کو اپنا دکھ چھوٹا لگنے لگ جاتا ہے اور کبھی تو وہ دکھ بھی نہیں لگتا۔
"آپ سچ میں سننا چاہتے ہیں؟" ہانیہ کو بھی ایک سامع کی تلاش تھی جو اس کا دکھ سنے اور شوہر سے بڑھ کر تو کوئی اور سننے والا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ پرجوش سی نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی وہ ہاں میں سر ہلاتے روبارہ گھڑی کی طرف دیکھنے لگا۔
"میں نے لاہور کے ایک اورفینیج میں ہوش سنبھالا تھا، جب بڑی ہوئی تو ہمیشہ یہی سننے کو ملا کے میں ایک آیا جی کو اورفینیج کے گیٹ پر پڑی ملی تھی انہی آیا جی نے ہمیشہ خیال رکھا، مجھے میرے اللّٰہ کے قریب کیا۔ ماں باپ کون ہیں؟؟ مجھے کیوں یہاں چھوڑ دیا؟؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب کبھی میں نے تلاشنے ہی نہیں چاہے۔ اس اورفینیج میں میری ساری بنیادی ضروریات پوری ہو رہی تھیں، سب کچھ ٹھیک تھا مگر ایک دن آیا جی نے مجھ سے پوچھا زندگی اور عزت میں سے کوئی ایک چیز چننی پڑے تو کیا چنوں گی سوال کافی غیر متوقع تھا مگر جواب صاف تھا، عزت۔ میرے جواب سے وہ آسودہ سی مسکرا دیں۔ اس وقت جو سوال عجیب لگا تھا کچھ دنوں بعد ہی س کی حقیقت بھی کھل کر آ گئی تھی، اورفینیج کی نگران کچھ لوگوں کو لڑکیاں سپلائے کرتی تھیں۔ تب میں چودہ سال کی تھی جب یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی، عمر اتنی بھی کم نہیں تھی کہ بات سمجھ نہ پاتی۔ میں نے اپنی نگران کو خود کچھ لوگوں سے ڈیل کرتے سنا تھا، دکھ ہوا حوا کی بیٹی اتنی بےمول ہے جسے یوں چند ٹکوں کے عوض بیچ دیا جاتا ہے۔ اس روز پہلی بار شکوہ کیا کہ ہمارے والدین ہمیں دنیا میں لانے کے بعد کیوں یوں بےاسرا چھوڑ دیتے ہیں مگر کچھ ہی دیر بعد اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ میں اب تک محفوظ تھی۔" ہانیہ نے گود میں رکھے کشن پر اپنی گرفت مضبوط کی، وہ ہونٹ کاٹتے آگے کی بات کہنے کیلیے خود کو تیار کر رہی تھی۔
"میں عزت کو چنتے اورفینیج سے بھاگ نکلی تھی، مگر جانتی نہیں تھی اب کہاں جاؤں گی۔ اس اندھیرے رات سڑک پر چلتے شدت سے باپ، بھائی کی کمی محسوس ہوئی تھی۔ اتنی رات گئے اکیلی لڑکی کو ہر درندہ اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ اس رات میں نے مرد کا بھیانک روپ دیکھا تھا، ایک آدمی مجھے غلیظ نظروں سے دیکھتے میرا ڈوپٹہ چھین چکا تھا، اپنی عزت بچانے کے لیے بھاگی تھی مگر باہر بھی عزت کے لٹیرے ہی تو پھر رہے تھے۔ میں سہمی ہوئی اس درندے کو دیکھ رہی تھی جب ایک گاڑی کا ہارن میرے لیے اس وحشی سے نجات کا ذریعہ بنا تھا۔ اس گاری سے نکلتی خاتون سے بھی مجھے خوف محسوس ہوا تھا۔ قصۂ مختصر وہ ایک گرلز ہاسٹل کی وارڈن تھیں انہوں نے مجھ پر ترس کھاتے اپنے ہاسٹل میں رکھ لیا۔ جو باتیں ماں اپنی بیٹی کو بتاتی اور سمجھاتی ہے وہ باتیں مجھے اس وحشت زدہ، سیاہ رات اور اس وحشی کے چہرے سے ٹپکتی درندگی نے سمجھائی تھیں۔" زوھان نے ہانیہ کو اپنے ساتھ لگایا تھا، ہانیہ کی آنکھیں رونے سے سرخ تھیں تو زوھان کی ضبط سے۔
"ہاسٹل میں رہتے میں نے اپنی پڑھائی جاری رکھی، کالج کے دوران ایک چھوٹی سی اکیڈمی میں ٹیچنگ کی کیونکہ میں ان وارڈن پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ میں ان کی ذمہ داری تو تھی نہیں جن کی تھی انہوں نے بھی بوجھ سمجھتے پھینک دیا۔" وہ تلخی سے ہنسی۔
"میڈیکل کالج میں میں نے کوئی دوست نہیں بنائی تھی اگر بناتی بھی تو میری اصلیت جاننے کے بعد سب کی طرح مجھے چھوڑ ہی دیتی۔ ایک دن میری ملاقات جبران سے ہوئی تھی، وہ میرے سینئر تھے، دوستی کی پیشکش بھی انہوں نے ہی کی تھی مگر میں ایک نامحرم سے دوستی نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ کافی عرصہ مجھے دوستی کرنے کیلئے مجبور کرتے رہے، ایک دن اچانک ہی ان کی دوستی کی پیشکش نکاح کی پیشکش میں بدلی تھی۔ فیملی میری تھی نہیں، پھر بھی اگر کوئی مجھے عزت سے اپنا رہا تھا تو مجھے اور کیا چاہیے تھا۔ ان کی فیملی کی موجودگی میں ہمارا نکاح ہوا تھا، انہوں نے کیسے اپنے پیرنٹس کو منایا میں نہیں جانتی تھی۔ کچھ عرصے بعد وہ ابروڈ چلی گئے تھے، سپیشلائزیشن کے لیے، میرا بھی ایم بی بی ایس ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ دن، ہفتے،مہینے گزرنے لگے، تین سال گزر گئے تھے میری بھی ہاؤس جاب کمپلیٹ ہو گئی تھی، شروع شروع میں وہ کال کر لیتے تھے مگر آہستہ آہستہ ان کی کالز آنی بند یو گئیں، میں سمجھی مصروف ہوں گے، ہاں مصروف تھے اپنی دوسری بیوی کے ساتھ۔ جب ان کے پیرنٹس کو یہ بات پتہ لگی تو پاپا مجھے ہاسٹل سے اپنے اسلام آباد والے گھر لے آئے تھے، گھر آنے کے بعد پتا لگا کہ ان کی مما کو میں شروع سے ہی نہیں پسند تھی، سہ بھی غلط نہیں تھیں، جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو، اس بےنام لڑکی کو کوئی پسند بھی کیوں کرے گا؟" وہ خود اذیتی کی انتہا پر تھی یا شاید یہ حقیقت پسندی تھی۔
"پتہ نہیں پاپا نے انہیں کیا کہا تھا وہ واپس تو آگئے تھے پر مجھے ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تھے میری جو باتیں انہیں پہلے اچھی لگتی تھیں پھر وہی باتیں جہالت لگنے لگی تھیں، میرا حجاب لینا، کسی نامحرم سے بات نہ کرنا، ہاتھ نہ ملانا تنگ نظری اور قدامت پسندی لگنے لگا تھا۔ میں ان کے ساتھ ان کی سوسائٹی میں موو نہیں کر سکتی تھی اور ان کی سکینڈ وائف کی طرف سے بھی تھوڑا پریشر تھا واپس انگلینڈ جانے کا تو بس مجھے اور حورعین کو چھوڑ دیا۔" آخری بات اس نے بہت عام اور پرسکون انداز میں کہی تھی۔
"میں بعد میں ڈر گئی تھی کہ آپ زمدا کیلئے مجھے چھوڑ دیں گے۔" زوھان نے اس کی بات پر اپنی مسکراہٹ دبائی۔
"میں ابھی بھی ایسا کر سکتا ہوں۔" زوھان کے سنجیدگی سے کہنے پر اس نے اس کے ہاتھ پر اپنے ناخن گاڑھ دیئے۔
"تمہیں چھوڑنے کی میرے پاس لاکھ وجوہات ہوسکتی ہیں مگر ان میں سے کوئی وجہ کبھی بھی دوسری عورت نہیں ہو گی۔" اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"اور نہ چھوڑنے کی وجہ؟"
"حورعین۔" زوھان کا یک لفظی جواب اسے مطمئن کر گیا تھا کہ اس کی بیٹی باپ کے سائے سے محروم نہیں رہے گی۔
"مجھے تو جبران کا شکرگزار ہونا چاہیے۔" زوھان کی بات پر اس کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔
"اگر وہ تمہیں نہ چھوڑتا تو مجھے حورعین جیسی بیٹی کیسے ملتی۔" ہانیہ اس کے سینے پر سر رکھتی نم آنکھوں سے مسکرائی۔
"میں بہت خوش قسمت ہوں کہ اللّٰہ نے مجھے تم جیسی بیوی سے نوازا ہے۔" اس کے الفاظ اس کے زخموں کیلئے مرہم کا کام کر رہے تھے۔
"تھینکیو۔" وہ سر اٹھاتے اس کی آنکھوں میں دیکھتے بولی۔
"آج لاسٹ ٹائم چھوڑ رہا ہوں اگر آئندہ میرا ہاتھ زخمی کیا تو سارے ناخن کاٹ دوں گا۔" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے بولا کیونکہ وہ پچھلے کچھ عرصے میں جان چکا تھا کہ ہانیہ کو ایک بار نیند سے اٹھ جانے کے بعد نیند نہیں آتی تھی۔
"پکا آئندہ ناخن نہیں ماروں گی۔" نیند میں جاتے وہ اپنے ہاتھوں کو اس سے دور کرتی آہستگی سے بولی۔
بے شک دعا، توکل اور صبر زندگی سنوار دیتے ہیں۔
••••••
"وہ منحوس دنیا میں آتے ہی اپنے ماں باپ کو کھا گئی، پھر اس کے خان حویلی آتے ہی احراز کو حویلی سے جانا پڑا اور اب اس کی نحوست احراز سے اس کا اکلوتا بیٹا بھی چھین گئی اور تم چاہتی ہو میں اس نحوست کی پوٹلی کو بہو بنا کر اپنے گھر لے آؤں۔" انہوں نے نخوت سے کہتے حریم کی ذات کے بخیے ادھیڑ ڈالے تھے۔
" خان صاحب، وہ صرف آپ کے دشمن یاور خان کی پوتی ہی نہیں آپ کی لاڈلی بہن رباب کی نواسی بھی ہے۔" سمعیہ خانم نے افسوس سے کہا، انہیں ان کی سوچ پر بہت دکھ پہنچا تھا۔
"تم کچھ بھی کہو خانم، ہمیں ابھی اپنی پہلی بےعزتی نہیں بھولی اور تم دوبارہ رشتہ لے جانے کی بات کر رہی ہو، ایسا ہمارے جیتے جی تو کبھی نہیں ہوگا۔" وہ سر جھٹکتے اپنی انا کے گرتے بت کو دوبارہ کھڑا کرتے بولے۔
"اپنے پوتے سے کہو بھول جائے اسے۔" وہ کتاب بند کر کے سائیڈ پر رکھتے کھڑے ہوئے۔
"بس کر دیں خان صاحب کیوں اپنے ہی پوتے کی خوشیوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ایسا نہ ہو آپ کی انا اس حویلی کی باقی خوشیوں کو بھی کھا جائے۔" وہ اپنے آنسو پونچھتی باہر نکل گئیں مگر موحد خان کے لیے وہ سوچوں کے کئی در کھول گئی تھیں۔
•••••
موحد خان کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا، کچھ بیماری اور کچھ بھرتی عمر انہیں کافی کمزور کر گئی تھی۔ انہیں گھر آئے دو دن ہوگئے تھے، زریاب کے چہرے پر اپنے لیے پریشانی اور فکر دیکھ کر وہ مزید پشیمانی میں گھرے جا رہے تھے۔ زمدا کو سمجھا کر وہ ماہیر خان کے ساتھ روانہ کر چکے تھے، سمجھاتے ہوئے موحد خان نے کسی سخت لفظ کا استعمال نہیں کیا تھا مگر پھر بھی وہ پانی پانی ہو گئی تھی۔ وہ موحد خان کی بگڑتی طبیعت کی وجہ سے ان کی ہر بات آسانی سے مان گئی تھی اگر اسے کسی سے سچی محبت تھی تو وہ صرف موحد خان ہی تھے۔
•••••••
زوھان کی اجازت پر حریم اب میرپور والے ہاسپٹل میں ہی جاب کر رہی تھی۔ وہ تھکی ہاری ابھی بستر پر آڑی ترچھی لیٹی ہوئی تھی جب دروازے پر دستک کی آواز پر سیدھی ہوئی۔
"اسلام علیکم۔" زریاب کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر اس کا غصہ آیا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہے ہو؟؟" وہ دبی آواز میں چینخی۔
"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہتے ہیں۔" وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
"کیوں آئے ہو یہاں؟" اس کے چہرے پر مچلتی مسکراہٹ اسے زہر لگی تھی۔
"میں بی بی جان اور آغا جان کو رشتے کیلئے بھیجنے سے پہلے آپ سے آپ کی مرضی جاننا چاہتا ہوں۔" وہ سنجیدگی سے کہتا شاید اسے پرپوز کر رہا تھا۔
"میرا جواب اب بھی نا ہی ہے۔" وہ بےرخی سے کہتی منہ موڑ گئی۔
"آخر مجھ میں کمی کیا ہے؟" وہ اس کا جواب پہلے سے جانتے بھی جھلا کر رہ گیا۔
"تم دو سال چھوٹے ہو مجھ سے۔" وہ دو انگلیاں اس کے سامنے لہراتے بولی، اس کے انداز پر وہ اپنی ہنسی دبا گیا۔
"کم از کم کمی تو وہ بتائیں جسے میں پورا کر سکوں۔" اس کے سکون میں رتی برابر فرق نہیں آیا تھا وہ ایسے ہی ٹیک لگائے کھڑا رہا۔
"میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔" وہ بےبسی سے بولی۔
"میں محبت کرتا ہوں آپ سے۔" اس کے اظہار ہر وہ سٹپٹائی۔
"مگر میں نہیں کرتی۔" پھر سے عذر تراشا گیا۔
"کوئی نہیں، میری محبت ہی آپ کو مجھ سے محبت کرنے پر مجبور کر دے گی۔" اس کا پریقین لہجہ اسے چونکا گیا۔
"اگر پھر بھی نہ ہوئی تو؟" اس کی خود پر پڑتی نظروں سے اسے الجھن ہو رہی تھی۔
"آزما کر دیکھ لیں۔" وہ دیوار سے ٹیک چھوڑتے سیدھا کھڑا ہوا۔
"صرف یہ آزمانے کیلئے میں تم سے شادی کر لوں۔" وہ اس کی عجیب منطق پر بے ساختہ ہنسی۔
"کرنے میں حرج ہی کیا ہے، آپ کا تو کچھ نہیں جائے گا بس ایک معصوم کا بھلا ہو جائے گا۔" اس کے ایک آنکھ بند کرنے پر حریم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
"منہ تو بند کر لیں، کوئی مکھی چلی جائے گی۔" اس نے آگے بڑھتے ٹھوڑی سے پکڑتے اس کا منہ بند کیا۔
"تو پھر میں کل بی بی جان اور آغا جان کو بھجوا رہا ہوں، پلیز انکار مت کیجئے گا۔" وہ کہتے باہر نکل گیا، حریم اس کی ڈھٹائی پر عش عش کر اٹھی۔ مگر اس کا ارادہ اب بھی انکار کرنے کا ہی تھا۔
•••••
"آنی آپ زیبی چاچو سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟" عزم نے اس کے قریب ہوتے رازداری سے پوچھا کہ کہیں باقی کی پلٹون نہ سن لے۔
"نام نہ لو اس کا زہر لگتا ہے وہ مجھے۔" اس نے بھی سرگوشی میں جواب دیا۔
"مگر کیوں؟" وہ الجھا۔
"پتہ نہیں، بس لگتا ہے تو لگتا ہے ۔" اس نے مونگ پھلی کا دانہ منہ میں ڈالتے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
"کیا وہ آپ کے ناولز کے ہیروز کی طرح ہینڈسم نہیں ہیں؟"
"نہیں ہینڈسم تو ہے۔"
"پھر اچھے نہیں ہوں گے؟"
"نہیں اچھا بھی ہے۔"
"آپ کی عزت نہیں کرتے ہوں گے؟"
"نہیں عزت بھی کرتا ہے"
"تو کیا محبت نہیں کرتے؟"
"محبت بھی کرتا ہے۔"
"تو پھر ان سے شادی کیوں نہیں کرنی؟" وہ چڑ گیا تھا۔
"چھوٹا ہے مجھ سے۔" وہ میکانکی انداز میں اس کے ہر سوال کا جواب دے رہی تھی۔
"پھر تو آپ کو انہی سے شادی کرنی چاہیے بڑے ہونے کا روعب بھی ڈال سکتی ہیں اور جب چاہے ڈانٹ بھی سکتی ہیں۔" اس کی پرجوش آواز پر چونکتی وہ اس کی نرالی منطق پر ہنس پڑی۔
•••••••
وہ بستر پر لیٹی کب سے کروٹ پر کروٹ بدل رہی تھی، نیند تو آج اس سے روٹھ ہی گئی تھی۔ کبھی اس کے کانوں میں شازیم کے الفاظ گونجتے تو کبھی حریم کی باتیں اس کے دماغ پر ہتھوڑے برساتیں اور کبھی شانزے کی رندھی ہوئی آواز اسے بے چین کرتی۔
زریاب کے کہے مطابق موحد خان، سمعیہ خانم اور ژالے خان حویلی آئے تھے مگر حریم نے سب کے سمجھانے کے باوجود انہیں تہہ دامن لٹایا تھا۔ مہرماہ نے تو اسے کھری کھری سنائیں تھیں، مگر مہرماہ کا ایک جملہ تو ذہن سے نکل ہی نہیں رہا تھا۔
"یاد ہے حریم تم نے کہا تھا ہم سفاک خان حویلی کی خانزادیاں ہیں تو میں نے سمجھا تھا کہ اُس حویلی میں پرورش پانے کی وجہ سے تھوڑی سفاکی بس میری طبیعت میں ہی ہے مگر تم نے ثابت کر دیا کہ چاہے تم نے وہاں پرورش نہیں پائی مگر ہو تو تم بھی اسی سفاک نور حویلی کی سفاک خانزادی۔"
مہرماہ کے لفظ اس کے دل پر پیوست ہوئے تھے مگر کہہ تو وہ سچ ہی رہی تھی کتنی سفاکی سے وہ زریاب کا دل توڑ رہی تھی۔
شانزے نے بھی اسے بہت سمجھایا تھا مگر وہ ضد پر ڈٹی رہی تو شانزے اپنی آخری بات کہتے چلی گئیں،
"حریم شازیم کبھی واپس نہیں آنے والا، خدا کا واسطہ ہے بھول جاؤ اسے۔ زریاب سے شادی کے لیے ہاں کر دو۔"
مہرماہ اور شانزے کی باتیں اسے بہت حد تک کنونیس کر گئی تھیں مگر شازیم کی آخری ملاقات میں کہی گئی بات نے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا تھا۔
"میں تمہیں آج اپنی محبت سے آزاد کرتا ہوں۔ مجھے بھول کر آگے بڑھ جانا۔"
وہ زریاب سے شادی کا فیصلہ کرتے آنکھیں بند کر گئی۔
••••••••
بارہ سال بعد:
"وقت گزر جاتا ہے اگر بہت سے زخموں کو مندمل نہیں کرپاتا تو بھی ان زخموں کے ساتھ ہی اپنوں کی خوشی کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھا دیتا ہے۔ مما کا دکھ بھی بڑا تھا مگر وہ میرے لیے ہر دکھ کو بھلائے چہرے پر مسکان سجائے جی رہی ہیں، پاپا، مما، بی بی جان، ژالے ماما، مورجان اور باباجان عمرے کیلئے گئے ہوئے ہیں تو حویلی بہت خالی خالی لگ رہی ہے بچوں کے ساتھ ساتھ یہ بڑے بھی گھر کی رونق ہوتے ہیں۔
داجی اور آغا جان کو بھی اس دنیا سے گئے کافی سال گزر گئے مگر زندگی اپنی رفتار برقرار رکھے گزر رہی ہے۔ میں جو کہتی تھی شازیم کے بغیر مر جاؤں گی، آج بھی زندہ ہوں، بس اتنا جان گئی ہوں کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا بس جینے کا سلیقہ بدل جاتا ہے۔ کوئی کسی کو رپلیس بھی نہیں کرتا ہر کسی کا اپنا ایک خاص مقام ہوتا ہے جو تا عمر اسی کیلیے رہتا ہے۔ میری اور زریاب کی شادی کو بارہ سال ہونے والے ہیں، اس کی محبت جوں کی توں نہیں بلکہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، ہاں بس تھوڑی سی بٹ بھی گئی ہے، وہ تھوڑی سی محبت ہمارے بیٹے حازم اور دو دن کی بیٹی ہانم کو دینے لگا ہے۔ اس نے سچ ہی کہا تھا اس کی محبت مجھے اس سے محبت کرنے ہر مجبور کر دے گی، ہاں حریم زریاب خان زریاب دراب خان سے محبت کرنے لگی ہے جس کا اظہار میں کبھی اس کے سامنے نہیں کر سکتی مگر مجھے پتا ہے وہ میری محبت سے بےخبر نہیں ہے۔" اس کا ڈائری پر چلتا قلم رکا۔
"بس کردیں آپ کو کتنی بار کہا ہے اتنی دیر ایسے مت بیٹھیں ابھی زخم بھی ٹھیک سے نہیں بھرا۔" اس کی فکر پر وہ اپنی مسکراہٹ دبا گئی۔
"کہاں سے آ رہے ہو تم؟" وہ تیوری چڑھائے اسے دیکھ رہی تھی۔
"کتنی بار کہا ہے تم مت کہا کریں، اپنا آپ بچہ لگنے لگ جاتا ہے۔" وہ ناراضگی سے بولا۔
"ہاں تو چھوٹے ہی ہو تم مجھ سے۔"
"مگر اب آپ کا شوہر ہوں۔"
"میں تو تمہیں آپ نہیں کہنے والی اگر اتنا ہی مسئلہ ہے تو اپنے سے کسی چھوٹی لڑکی سے شادی کر لیتے۔" اس نے اسے کرسی سے اٹھاتے بیڈ پر بٹھایا، کمر میں اٹھتے درد کی وجہ سے لیٹ گئی۔
"محبت آپ سے تھی تو میں کسی اور سے شادی کیسے کر لیتا۔" زریاب اس پر جھکے خمار آلود لہجے میں بولا۔
"آئی سویر، مما پاپا میں نے کچھ نہیں دیکھا۔" اپنے ننھے ہاتھ آنکھوں پر رکھے حازم معصومیت سے بولا۔ زریاب نے حریم کی بغل میں لیٹی ہانم کو گود میں لیا۔
حریم اپنی اس چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
••••••جاری ہے۔
ESTÁS LEYENDO
ھسک (✔️Completed)
Ficción Generalانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...