Episode 16

332 29 0
                                    

"مہزلہ، مہزلہ۔۔۔۔" ارباز خان کی غصیلی آواز پر خان حویلی کے سب مکین ڈر کر لاؤنج میں اکٹھے ہو گئے تھے۔
"پشاور کیوں گئی تھی تم؟؟" مہزلہ خان نے ان کی غراہٹ پر سختی سے آنکھیں بند کر لیں، سب تعجب سے ارباز خان کو دیکھ رہے تھے انہوں نے کبھی بھی مہزلہ خان سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔
"کچھ پوچھا ہے تم سے۔۔۔" وہ مہزلہ خان کو بازو سے دبوچے دھاڑے تھے۔
"یہ کس لہجے میں تم مہزلہ سے بات کر رہے ہو؟" اسفند خان نے ناگواری سے انہیں ٹوکا وہ مہزلہ خان کا بازو چھوڑے اسفند خان کی طرف مڑے۔
"تو اور کس لہجے میں بات کروں داجی؟؟؟" وہ دھیمے لہجے میں بولے۔
"ٹھیک ہے مت بتاو کیوں گئی تھی، بس یہ بتا دو کہ زمدا جو زوھان کے بارے میں کہہ رہی ہے وہ سچ ہے کہ نہیں؟"  مہزلہ خان اب بھی خاموش رہی ہیں۔
"پہلیاں کیوں بھجوا رہے ہو سیدھی طرح بتاؤ بات کیا ہے؟" اسفند خان نے مہزلہ خان کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتے پریشانی سے پوچھا، زمدا کا ذکر انہیں بھی اضطراب میں مبتلا کر گیا تھا۔
"ان کا لاڈلا چھپ کے شادی کر چکا ہے، ایک بیٹی بھی ہے اسکی۔" وہ بولے نہیں پھنکارے تھے، غصے سے ان کا تنفس پھول گیا تھا۔
"تو؟؟؟" یہ بات اسفند خان کو بھی چونکا گئی تھی مگر جلد ہی اپنی حیرانگی پر قابو پاتے انہوں نے عام سے لہجے میں کہا۔
"تو کیا آپ بھی یہ جانتے تھے داجی۔" وہ بےیقینی سے گویا ہوئے، مہزلہ خان اب صوفے کی پشت کے سہارے کھڑی تھیں۔
"جس نے آپ کو یہ اطلاع دی ہے کیا اس نے خود پسند کی شادی نہیں کی؟" اسفند خان نے بھنویں اچکائے کوفت سے کہا، انہیں ہمیشہ سے زمدا کی زوھان کی زندگی میں مداخلت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ وہ خود تو اپنی زندگی کی خود مختار تھی مگر دوسروں کی زندگی پر حکمرانی چاہتی تھی۔
"اس کی شادی کا یہاں کیا ذکر؟" زمدا کے ذکر پر ارباز خان ایکدم جھنجھلائے تھے۔
"کیوں ذکر نہیں ہے جب وہ بچپن کی منگنی توڑ کر اپنی پسند سے شادی کر سکتی ہے تو زوھان اپنی پسند سے شادی کیوں نہیں کر سکتا۔" اسفند خان درشتگی سے بولے باقی سب افراد خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ مگر زوھان کی شادی اور بیٹی کا سن کر جہاں انہیں حیرت کا جھٹکا لگا تھا وہیں وہ زوھان کے لیے خوش بھی تھے۔
"اس کی شادی اپنوں کی موجودگی میں ہوئی تھی۔" اسفند خان سمجھ نہیں پائے تھے کہ وہ سب زمدا کے دفاع میں بول رہے تھے یا اپنے خود کے بیٹے کو غلط ثابت کرنے کیلئے۔
"کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کی خوشیوں کو ان فرسودہ  روایات پر ترجیح دی جائے گی، تم بتاؤ اگر اس وقت زمدا کی جگہ زوھان ہوتا تو کیا تم دیتے اس کا ساتھ؟؟" وہ تلخی سے کہتے مزید ارباز خان کی کوئی بات سنے مہزلہ خان کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
ارباز خان کے مردان خانے کی طرف جاتے زرنش، عریبہ، زارم اور ضرم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا تھا سب کے چہروں سے ہی خوشی جھلک رہی تھی۔

•••••••

"پلیز آپ اور حریم چلے جائیں ہمیں یہیں رہنے دیں۔" وہ میرپور جانے کیلئے اپنی پیکنگ کر رہا تھا جب اس کے کانوں سے ہانیہ کی بھیگی آواز ٹکرائی تھی، وہ یہ جملہ پچھلے ایک گھنٹے سے کئی بار دہرا چکی تھی جب سے اسے زوھان نے بتایا تھا کہ داجی نے انہیں حویلی بلوایا ہے۔
"اگر تم نے دوبارہ ایسا کچھ کہا تومیں تمہیں واقعی یہیں چھوڑ جاؤ گا مگر صرف تمہیں حورعین کو نہیں۔" آخری بات زوھان نے دانت پیستے کہی تھی، پہلی بات پر جہاں ہانیہ کے آنسو تھمے تھے وہیں بات مکمل ہونے پر اسکے آنسوؤں میں مزید روانی آگئی تھی۔
"بند کرو یہ رونا۔" اس نے جھنجھلا کر ہاتھ میں پکڑے کپڑے بیڈ پر پٹخے تھے، اس کی دھاڑ پر حورعین بھی نیند سے اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
"اگر تم اب بھی چپ نہ ہوئی تو میں بہت بڑی طرح پیش آؤں گا۔" اس نے غصے سے کہتے قدم اس کی طرف بڑھائے، حورعین بیڈ پر بیٹھی یک ٹک دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"اب نہیں رک رہے یہ آنسو تو کیا کروں؟؟" بچوں کی طرح ٹشو سے ناک رگڑتے اس کے اتنی معصومیت سے کہنے پر زوھان کے لبوں کو ایک دلکش مسکراہٹ نے چھوا۔
"ہانیہ، رونا بند کرو۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تم میری بیوی ہو، بغیر کسی ٹھوس وجہ کے بس باباجان کے کہہ دینے پر میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا،  حورعین میری بیٹی ہے اور یہ ایک ایسی وجہ ہے جو مجھے کبھی تم سے الگ نہیں ہونے دے گی۔" اس نے ہانیہ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے انتہائی ملائمت سے کہا، ہانیہ کے آنسو اس کی بات پر تھم تو گئے تھے مگر دل تو اب بھی کئی وسوسوں سے بھرا تھا۔
"دیکھو ذرا رو رو کر ان آنکھوں کا اور ناک کا کیا حال کر لیا ہے، جلدی سے جاؤ اور فریش ہو کر آؤ۔" زوھان کے کہنے پر ہانیہ اپنے کپڑے تھامتی واشروم کی طرف بڑھ گئی، حورعین کو تھپکتے اس نے پھر سے سلا دیا تھا۔
زوھان دوبارہ پیکنگ کرنے لگا، وہ  ہانیہ کے بدلے انداز کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ یہ وہ ہانیہ نہیں تھی جسے وہ جانتا تھا۔ ہمیشہ اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہنے والی اب اس سے خوف کھاتی تھی، دھڑلے سے کچھ بھی کہہ دینے والی لڑکی نے خاموشی سادھ لی تھی۔ نکاح کے دو بولوں نے اسے بدلہ تھا یا طلاق کے تین بولوں نے، ہاں دوبارہ کسی کو کھو دینے کے خوف نے اسے کمزور بنا دیا تھا۔ زوھان نے صوفے پر بیٹھتے آنکھیں بند کر لیں میاں بیوی کا رشتہ جتنا مضبوط ہوتا ہے اتنا ہی کمزور بھی، مرد کے غصے میں کہے تین بول اور یہ معاشرہ عورت کو مرد کے آگے بےبس کر دیتے ہیں۔

••••••••


ضرار مہرماہ کو ڈھونڈھتا کچن میں داخل ہوا، اس کی بات کے جواب میں جب مہرماہ خاموش رہی تو اسنے اسے کندھے سے ہلایا۔
"کیا ہوا ہے مہرماہ کیا سوچ رہی ہو؟" ضرار نے اسے کندھوں سے تھامتے چولہے کے آگے سے ہٹایا، چولہے کی آنچ بند کرنے پر مہرماہ نے دیگچی کی طرف دیکھا جس میں پیاز جل کر سیاہ ہو چکا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟" ضرار نے اسے کندھوں سے تھامتے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
"ہمیں ڈر لگ رہا ہے؟" آنکھیں آنسوؤں سے بھیگنے لگی تھیں۔ ضرار کو اس کے آنسوؤں سے سخت کوفت ہوئی تھی مگر اس کی حالت کے پیشِ نظر اس نے خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا تھا۔
"کیسا ڈر اور کس سے؟" وہ اس کے آنسو پونچھتے اچنبھے سے پوچھ رہا تھا۔
"بابا جان سے، اگر انہوں نے ہانیہ کو ایکسیپٹ نہیں کیا تو؟؟" وہ اس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتے اپنے ہاتھوں میں تھامے  اپنے وہموں کو زبان دے رہی تھی۔
"تو وہ خان حویلی سے چلی جائیں گی۔" اسنے عام سادہ سے لہجے میں کہتے کچن کی دیوار سے ٹیک لگائی۔
"آپ۔۔۔ آپ کو احساس بھی ہے کیا کہہ رہے ہیں؟" اس نے بےیقینی اور غصے کی ملی جلی کیفیت میں ہاتھ میں پکڑی چھڑی پٹخی، ضرار کے تاثرات میں ذرا فرق نہ آیا۔
"وہی کہہ رہا ہوں جس کے امکانات زیادہ ہیں۔" ضرار کے پرسکون لہجے میں کہنے پر تو مہرماہ کو تو پتنگے لگ گئے۔
"اس معصوم ہانیہ کا نہیں تو زوھان لالا کا ہی خیال کر لیں، اگر وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ رہے ہیں، اتنے خوش ہیں تو آپ کو ان کی مدد کرنی چاہیے ویسے  وہ میرے لالا سے پہلے آپ کے لالا ہیں۔" آخر میں مہرماہ نے جتاتے ہوئے کہا، بات کے دوران ہی بن موسم کی برسات بھی شروع ہو گئی تھی، آنسو کرسٹل گرے آنکھوں سے نکلتے گالوں پر بہنے لگے تھے۔
"ایک تو تم ہر بات پر رونا شروع کر دیا کرو، الجھن ہوتی ہے مجھے تمہارے یہ آنسو دیکھ کر۔" اس نے کچن کی ٹیبل پر پڑا ٹشو باکس اسے پکڑاتے سخت کوفت سے کہا۔
"ہاں توکچھ کریں نا ، ایک کام کریں آپ باباجان سے بات کریں۔" اس نے اپنے آنسو پونچھتے منت بھرے لہجے میں کہا۔
"بہت چالاک ہو تم اپنے لالا کو باباجان سے بچانے کے لیے مجھے ان کے سامنے پیش کر رہی ہو۔" اس نے مہرماہ کو گھورتے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
"مگر اس بار میں کچھ نہیں کرنے والا جو کرنا ہو گا زوھان خود کرے گا،  اسے اپنی جنگ خود لڑنی چاہیے۔" اس کی بات پر مہرماہ کا چہرہ بجھ گیا تھا۔
"ویسے بھی اگر باباجان کے سامنے کوئی کچھ بول سکتا ہے تو وہ زوھان ہی ہے اور وہ اپنی بات منوانے کا خاصا ہنر رکھتا ہے اور آئندہ ان آنسوؤں سے مجھے کسی بات کیلیے منانے کی کوشش نہ کرنا۔" وہ مسکراتے ہوئے اس کے آنسو صاف کرتا باہر نکل گیا۔
مہرماہ اپنا سر جھکاتے مسکرا دی، وہ کسی بحث میں ہارتے ہوئے یا ضرار سے کوئی ضد منوانے کیلئے رونا شروع کر دیتی تھی اور یہ آنسو ہمیشہ جھوٹے ہی ہوتے تھے ورنہ ضرار کا ساتھ پانے کے بعد وہ آنسوؤں کو خیرباد کہہ چکی تھی، وہ اب تھوڑی پرسکون تھی کہ اگر ضرار نے اتنے یقین سے کہا ہے تو زوھان ضرور کچھ نہ کچھ کر ہی لے گا۔

••••••

"شازیم ہم میرپور آ رہے ہیں مگر اس بار میں خوش نہیں ہوں کیونکہ اس بار میں آپ سے ملنے نہیں آؤں گی۔ میں آپ کا سامنے کرنے کی ہمت خود میں مفقود پاتی ہوں، میں بہت کمزور ہوں نہیں دیکھ سکتی آپ کو اس حالت میں۔ آپ کا مشینوں میں جکڑا ہوا وجود دیکھتے دل خون کے آنسو روتا ہے، صحیح سے اپنی بےبسی کا احساس ہوتا ہے۔" وہ ڈائری میں لکھتے  ہر لفظ زبان سے دہرا رہی تھی جیسے شازیم سے ہمکلام ہو، آنسو رخسار سے بہتے ڈائری کے کاغذ میں جذب ہو رہے تھے، پورا صفحہ اس کے آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔
یہ ڈائری اس کی تکلیف، اذیت اور درد کی گواہ تھی، اس ڈائری کا ایک ایک صفحہ اس کی شازیم سے بےپناہ محبت کی داستان سنا رہا تھا، شازیم کے اپنے لیے جس احساس کو وہ ہر صفحے پر محبت لکھتی تھی وہ احساس تو کب کا محبت کی منزلیں طے کرتا عشق کی وادی میں داخل ہو چکا تھا،  شازیم کو اس سے  محبت نہیں عشق تھا اور آرمی اس کا جنون۔
وہ آنے والے کل سے انجان اپنی ڈائری، اپنے شازیم میں مگن تھی، جس سے نہ ملنے کا ارادہ کیے وہ میرپور جا رہی تھی وہ تو خود اس سے خان حویلی ملنے آنے والا تھا۔ زندگی کچھ ہی دنوں میں بدل جانے والی تھی اگر اس بدلاؤ سے وہ باخبر ہوتی تو میرپور جانے کی بجائے یہاں سے کہیں دور چلی جاتی جہاں نا خان حویلی ہوتی، نا شازیم احراز خان اور نا ہی زریاب دراب خان۔۔۔۔۔۔




••••••

زوھان ڈرائیونگ کرتے گاہے بگاہے ایک نظر ساتھ فرسٹ پیسنجر سیٹ پر بیٹھی ہانیہ کو بھی ڈال رہا تھا جو دروازے سے چپکی باہر دیکھ رہی تھی مگر وہ زوھان کو باہر دیکھتی کم، سوچوں میں الجھی ہوئی زیادہ لگ رہی تھی۔
حریم حورعین کو گود میں لیے سو رہی تھی۔
"اور کتنی دیر لگے گی۔" ہانیہ نے پیچھے حورعین پر ایک نظر ڈالتے زوھان سے پوچھا، یہ پہلی بات تھی جو اس نے اب تک کے سفر کے دوران کی تھی۔
"بس تھوڑی ہی دیر میں حویلی پہنچنے والے ہیں۔" اس نے سامنے سے نظر ہٹاتے ہانیہ کے چہرے پر پھیلتی وحشت کو بغور دیکھا تھا۔
"ہانیہ بس کر دو، میں تمہیں حویلی لے کر جا رہا ہوں کسی بھوت بنگلے میں تو نہیں جو تم اتنا ڈر رہی ہو۔" زوھان نے اپنی کنپٹی انگوٹھے سے مسلتے سر میں اٹھتی ٹیسوں کو کم کرنے کی کوشش کی، ارباز خان کے ردعمل اور ہانیہ کے خدشات کے بارے میں سوچتے اس کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔
"وہاں آپ کے باباجان بھی تو ہیں۔" جلدی میں کہہ دینے کے بعد اس نے اپنی زبان دانتوں میں دبائی۔
"تم میرے باباجان کو بھوت کہہ رہی ہو؟؟" اس نے مصنوئی غصے سے کہتے اسے گھورا۔
"نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" وہ زوھان کے گھورنے پر گڑبڑائی۔
"تو کیا مطلب تھا؟" زوھان کو اس سے بات کرنے میں مزا آ رہا تھا، تقریباً ہفتے بعد وہ اس سے بغیر روئے کوئی بات کر رہی تھی۔
"مجھے بس ان سے ڈر لگتا ہے۔" وہ بےبسی سے بولی۔
"تم پھر سے انہیں انڈیریکٹلی بھوت ہی کہہ رہی ہو۔" وہ تاسف سے کہتے سامنے دیکھنے لگا، وہ ہانیہ کی جھنجھلائی ہوئی حالت سے کافی محظوظ ہو رہا تھا۔
"آپ کو ان سے ڈر نہیں لگتا۔" اس کے طنزیہ لہجے میں کہنے پر زوھان نے کچھ پل خاموش نظروں سے اسے دیکھنے  کے بعد اس کو ایک ہاتھ سے اپنی طرف کھینچتے اپنے ساتھ لگا گیا۔
زوھان کو بیک مرر سے پیچھے دیکھتے ہانیہ نے پیچھے دیکھا، حریم کو محفوظ ہوتی نگاہوں سے اپنی طرف دیکھتے وہ ہڑبڑا کر زوھان سے الگ ہوئی۔
"نہیں لگے رہیں، کوئی خیال ہی نہیں ہے دو عدد بچے بھی ہیں آپ دونوں کے ساتھ اس گاڑی میں۔" حریم نے مصنوئی تاسف سے انہیں دیکھا۔ ہانیہ تو شرم سے سرخ پڑتی نظریں جھکا گئی۔
"مجھے شرم دلانے سے پہلے آپ اپنی حرکتوں پر غور کر لینا، کیسے شازیم کے جانے سے پہلے ایک ہی رٹ لگائے بیٹھی تھی کہ۔۔۔؟" حریم کے سفید پڑتے چہرے پر نظر پڑتے زوھان کی زبان کو بریک لگی، یکدم ہی اس کے تاثرات سخت ہوئے تھے، پیشانی پر بھی شکنوں کا جال بن گیا تھا۔
"تم تو سو رہی تھی۔" گاڑی میں موجود افسردہ سی خاموشی کو ہانیہ نے توڑا، ایکدم سے چھا جانے والی اس افسردگی سے اسے الجھن ہو رہی تھی ۔
"آپ کی آوازوں سے آنکھ کھل گئی۔" وہ کہتے ساتھ پیچھے سر گرائے آنکھیں بند کر گئی، ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلتا بالوں میں جذب ہو گیا۔
"مجال ہے جو آہستہ بات کر لیتے ، نہیں بھئی اونچی اونچی گلہ پھاڑ کر ہی بات کرنی ہے۔" وہ بند آنکھوں سے مسکرا دی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ زوھان کے لب بھی مسکراہٹ میں ڈھل گئے ہوں گے اور ایسا ہی تھا وہ بھی پھیکا سا مسکرا دیا تھا۔


••••••••


زوھان کی گاڑی خان حویلی میں داخل ہوئی، ہانیہ کے ساتھ ساتھ لاؤنج میں موجود مہزلہ خان کی دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو گئی تھیں۔
زوھان نے گاڑی روکتے ہانیہ کے سائیڈ کا دروازہ کھولتے اسے باہر آنے کا کہا مگر وہ لگاتار اپنا سرنفی میں ہلا رہی تھی، زوھان نے آگے بڑھتے سیٹ بیلٹ کھولتے اسے باہر نکالا۔
"یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے؟" لاؤنج کے دروازے سے داخل ہوتے اس کے کانوں سے ایک مردانہ آواز ٹکرائی، اس نے آواز کے تعاقب میں دیکھا ارباز خان اسے ہی حقارت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس نے زوھان کی اوٹ میں چھپتے اس کی شرٹ کو مضبوطی سے تھاما۔
"ارباز خان انہیں میں نے بلایا ہے۔" اسفند خان نے تنبیہی نظروں سے انہیں دیکھا، زوھان نے اسے آگے کرتے اسفند خان سے سلام کرنے کا کہا۔
"اسلام علیکم داجی۔" اس نے زوھان کے بغل میں ہی کھڑے ہوتے اسفند خان کی طرف دیکھا۔ اسفند خان نے آگے بڑھتے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
زوھان نے لاؤنج میں ایک نظر دوڑائی، وہاں مہزلہ خان کی علاوہ سب موجود تھے۔ بادلِ ناخواستہ رسمی سلام کے بعد ارباز خان حویلی سے نکل گئے تھے، انہوں نے  زوھان سے سلام کے دوران بھی ہانیہ کو یکسر نظرانداز کیا تھا۔
"میں بھی آئی ہوں کوئی مجھ سے بھی مل لے۔" حریم کی روٹھی آواز پر سب اس کی طرف متوجہ ہوئے مگر اس سےملنے کی بجائے سب اس کی گود میں موجود حورعین کو دیکھ رہے تھے۔
عریبہ کے اس کی گود سے حورعین کو اچکنے کے بعد سب بچے ایک دم حریم پر چڑھ دوڑے تھے، عزم تو اس سے ایسا لپٹا کہ اس سے الگ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اسے ایسے ہی اپنے ساتھ لگائے صوفے پر بیٹھ گئی وہ دونوں ہمیشہ لڑتے رہتے تھے مگر دونوں کی محبت بھی نرالی تھی۔
"مور جان۔" صوفے کی طرف بڑھتے اس نے مہزلہ خان کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھا، حریم اور زوھان سے ملنے کے بعد وہ ہانیہ سے ملی تھیں، وہ تو ان کے گلے لگتے بچوں کی طرح رونے لگی تھی۔
"چلیں اب رونا بند کریں، زرنش انہیں ان کے روم میں لے جائیں تھوڑا آرام کر لیں۔" ہانیہ تھری سیٹر صوفے پر زوھان اور مہزلہ خان کے درمیان بیٹھی تھی مہزلہ خان کی بات پر اس نے زوھان کو طرف کھسکتے مضبوطی سے اس کا بازو تھام لیا، وہاں موجود سب نے اس کی اس حرکت پر اپنی ہنسی دبائی زوھان الگ شرمندہ ہوا، دل خوش بھی ہوا تھا کہ  ہانیہ پہلی بار اس کے اتنا قریب آئی تھی۔

"باباجان حویلی میں موجود نہیں ہیں۔" ضرم نے اپنی نظریں ہاتھ میں موجود سیل فون پر مرکوز کرتے آہستگی سے کہا، وہ ایک جھٹکے میں زوھان سے الگ ہوتی کھڑی ہوئی۔
"اسے میں تھوڑی دیر تک آپ کے روم میں چھوڑ جاؤں گی، کوئی پروبلم تو نہیں ہے ناں؟؟" عریبہ نے اس کی نظریں خود پر محسوس کرتے لجاجت سے کہا۔  وہ سر ہاں میں ہلاتی مسکراتے ہوئے زرنش کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔

••••••

ہانیہ بیڈ پر بیٹھی کمرے کا جائزہ لے رہی تھی، یہ کمرہ بھی زوھان کے پشاور والے گھر کے کمرے جیسا ہی تھا، سادہ، سلیقے سے سجایا ہوا۔
حویلی کے ہر فرد کو اس نے ویسا ہی پایا تھا جیسا اسے زوھان اور حریم نے بتایا تھا۔
وہ دوسروں کی نظروں میں اپنے لیے حقارت اور نفرت دیکھنے کی عادی تھی مگر مناہل، زوھان، حریم اور معید کی آنکھوں میں اپنے لیے احترام اور اپنائیت دیکھنے کے بعد ارباز خان کی آنکھوں میں ابھرتی ناگواری اور حقارت اسے چبھی تھی۔

••••••


"مورجان کوئی آرہا ہے کیا جو حویلی میں آج اتنی تیاریاں ہو رہی ہیں، طرح طرح کے لذیذ کھانے پک رہے ہیں؟؟" وہ پرجوش سی کچن میں موجود ٹیبل کی کرسی گھسیٹنے کے بعد بیٹھتی مہزلہ خان کو دیکھ رہی تھی  ہانیہ مہزلہ خان کے منع کرنے کے باوجود کچن میں ہی میز پر رکھی سبزی بنانے میں مصروف تھی۔ زرنش، عریبہ اور مہزلہ خان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
"اب آپ لوگ ایک دوسرے کی طرف کیا دیکھ رہے ہیں، کوئی مجھے بھی کچھ بتائے گا۔" اس نے ناراضگی سے کہتے ہانیہ کی گھوریوں کو نظر انداز کرتے اس کے سامنے پڑی پلیٹ سے گاجر اٹھائی۔
"آنی جو بھی پوچھنا ہے بعد میں پوچھ لینا آپ ابھی میرے ساتھ چلیں۔" عزم کے حریم کو زبردستی وہاں سے لے جانے کے بعد مہزلہ خان نے سرد آہ بھری۔
"مور جان آپ نے حریم سے بات نہیں کی؟"  عریبہ کی حیرت بھری آواز پر اس نے ان تینوں کی طرف دیکھا۔ مہزلہ خان بھی کرسی دھکیلتے ہانیہ کے پاس بیٹھ گئیں۔
"نہیں۔" اس یک لفظی جواب نے عریبہ اور زرنش کی ہوائیاں اڑا دی تھیں، ہانیہ اب بھی ناسمجھی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"اب کیا ہو گا مور جان؟؟" زرنش نے پریشانی سے پوچھا، مہزلہ خان جواب دینے کی بجائے سر ہاتھوں میں تھام گئیں، جواب دیتی بھی تو کیا کہنے کیلیے کچھ تھا ہی نہیں۔

•••••••

حریم سر پر ڈپٹا ٹکائے کوفت سے وہاں بیٹھی تھی، مہزلہ خان کے بےحد اصرار پر بھی اس نے سادہ سے سوٹ کے ساتھ میک اپ کے نام پر بس لپ گلوز لگایا تھا۔ کوفت اسے وہاں موجود لوگوں سے نہیں بلکہ وہاں کے ماحول سے ہو رہی تھی۔ حریم کو کچھ بھی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا، اس کا دل کچھ غلط ہونے کا اندیشہ دے ریا تھا۔ ہانیہ کو جب سے زرنش نے سب کچھ بتایا تھا وہ خود بھی عریبہ اور زرنش کی طرح اسے پریشانی سے دیکھ رہی تھی اور کچھ پریشانی کی وجہ زمدا کی وہاں موجودگی بھی تھی۔
سمعیہ خانم نے اس کے پاس بیٹھتے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنائی، وہ پتھرائی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھی اس کا سکتہ ژالے خان کی آواز پر ٹوٹا۔
"مبارک ہو بھابھی۔" وہ مہزلہ خان سے گلے مل رہی تھیں مہزلہ خان کی آنکھیں تو حریم پر ٹکی تھیں جو بےیقینی سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"ویسے کیا بات ہے تم بہنوں کی، کیسے دو دو کو پیچھے لگائے رکھتی ہو۔" زمدا نے تنفر سے کہتے مٹھائی اس کی طرف بڑھائی۔
"شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ۔" اس نے اس کا ہاتھ جھٹکتے میز پر پڑی مٹھائی کی پلیٹ فرش پر پھینک دی۔
"کیا کہا زمدا؟" سمعیہ خانم نے ناگواری سے زمدا کی طرف دیکھتے پوچھا۔
"میں نے تو سچ ہی کہا تھا شاید بھابھی جان کو برا لگ گیا۔" وہ تمسخر اڑاتے صوفے پر بیٹھ گئی، نظریں اس کی ہانیہ پر ٹکی تھیں۔
"ہانیہ لالا کہاں ہیں؟؟" وہ سرخ آنکھوں سے ہانیہ کی طرف دیکھتی غرائی تھی، سب دم سادھے اسے پہلی بار اتنا غصے میں دیکھ رہے تھے۔
"مردان خانے میں۔" ہانیہ کے کہتے وہ مردان خانے کی طرف بڑھی، مہزلہ خان نے اسے روکنا چاہا مگر وہ سب کو نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئی۔

••••••••

حریم کے دروازہ کھولنے سے پہلے ہی اندر کی طرف سے دروازہ کھلا۔ اس کا دروازے کی طرف جاتا ہاتھ پہلو میں گرا، زریاب اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا، اس کی سرخ آنکھیں زریاب کا دل خون ہوا تھا اپنی وجہ سے اس کی یہ حالت، اس نے تو کبھی ایسا نہیں چاہا تھا۔
سب حریم کی موجودگی سے بےخبر اپنی باتوں میں مصروف تھے، جب ایک دم مردان خانے میں تھپڑ کی آواز گونجی تھی۔ سب نے حیرت سے حریم کی طرف دیکھا تھا جو غصے سے زریاب کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے رشتے کیلئے بی بی جان کو لانے کی بلکہ تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟؟ کیا بھول گئے تھے میں حریم خان شازیم خان کی منگ ہوں؟؟ ارے میرا نہیں تو اس کا ہی خیال کر لیا ہوتا بھائی ہے وہ تمہارا اور اس رشتے سے تمہاری بھابھی ہوں میں۔" وہ غصے سے اسے کالر سے دبوچے چینخ رہی تھی، احراز مردان خانے میں داخل ہوتا اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ زنان خانے میں موجود شانزے نے بھی اس کے الفاظ سنے تھے، شازیم کے ذکر پر انکی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
"کیا کر رہی ہیں آپ یہ، پیچھے ہٹیں۔" زارم نے اسے زریاب سے دور کرتے غصے سے کہا۔ حریم نے زوھان کی طرف دیکھا۔
"آپ بھی جانتے تھے نا یہ سب؟" زوھان نے سر اٹھاتے اس کی طرف دیکھا وہ اس پر شک کر رہی تھی۔
"میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا ۔" اس نے صفائی پیش کی۔
"نہیں جانتے تھے آپ سب کچھ اسی لیے آپ میرے لاکھ انکار کے باوجود مجھے حویلی لائے تھے۔" وہ سسکی تھی، زوھان نے ایک دردزیدہ نگاہ زنان خانے کی جالی دار دیوار پر ڈالی تھی، مہزلہ خان جانتی تھیں وہ ان سے شکوہ کر رہا ہے۔
"اگر جانتا تھا تو بھی کیا غلط ہے اس سب میں؟" حریم کی بیکار کی ضد زارام کو غصہ دلا گئی تھی۔
" غلط ہے کیونکہ میں شازیم کی۔۔۔۔" اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی گئی تھی۔
"آپ شازیم کی منگ ہیں جانتے ہیں سب، لیکن صرف منگ ہیں۔ کب تک ان کے انتظار میں بیٹھی رہیں گی آپ، ایک سال، دو سال یا ساری زندگی؟؟؟ کیا پتا وہ کبھی اٹھے گا بھی کہ نہیں۔" وہ بےیقینی سے احراز کو دیکھ رہی تھی جس نے کتنے آرام سے وہ بات کہہ دی تھی جو وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی، اندر موجود شانزے کو بھی زمین بوس ہونے سے پہلے زرنش نے تھاما تھا۔
"میں بیٹھی رہوں گی ان کے انتظار میں، چاہے مجھے ایک سال یا دو سال پوری زندگی ان کا انتظار کرنا پڑے میں کروں گی ان کا انتظار۔" وہ بیدردی سے اپنے گال رگڑتی لاونج میں داخل ہوگئی، سب مرد بھی اس کے پیچھے ہی لاونج میں آئے تھے۔
"کیوں خود کے ساتھ ساتھ ہم سب کو بھی تکلیف دے رہی ہیں آپ، سب بھول کر آگے کیوں نہیں بڑھ جاتیں۔" وہ خود بھی تکلیف میں تھا ایک طرف جگر کا ٹکڑا تھا تو دوسری طرف جان سے عزیز بیٹی۔
"بھول جاتے پاپا، سب بھول جاتے، آپ کیلیے، مما کیلئے، مور جان کیلئے اور خان حویلی کی خوشیوں کے لیے آگے بھی بڑھ جاتے مگر نکاح کے وہ دو بول بھولنے ہی نہیں دیتے۔" اس نے آرام سے کہتے سب کے سروں پر بم پھوڑا تھا۔
"کیا بولا ہے ابھی آپ نے؟؟" شانزے نے اگے بڑھتے اس کا رخ اپنی طرف کیا۔
"میں شازیم کے نکاح میں ہوں، منکوحہ ہوں ان کی۔" اس کی بات پر سب کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔ شانزے کے کانوں میں شازیم کے الفاظ گونجے تھے "مما میرے بعد حریم کا  خیال رکھیے گا اب وہ شازیم خان کی زندگی ہے۔" جنہیں وہ جذبات میں کہے الفاظ سمجھ رہی تھیں اس کی حقیقت تو کچھ اور ہی تھی۔
لاؤنج میں خاموشی چھا گئی تھی، وہ بےیقینی اور افسوس سے حریم کو دیکھ رہی تھیں۔ ان کا پہلو میں گرا ہاتھ اٹھا تھا اور حریم کے رخسار پر نشان چھوڑ گیا تھا۔
"اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے چچی جان۔" زوھان نے آگے بڑھتے حریم کو اپنے پیچھے کیا تھا۔
"تم یہ سب جانتے تھے؟" ارباز خان نے کڑی نظروں سے اسے گھورتے استفسار کیا۔
"جی۔" اس کا یک لفظی جواب ارباز خان کے کب سے دبائے غصے کو ہوا دے گیا تھا وہ طیش میں اس کی طرف بڑھے۔
"لالا کی کوئی غلطی نہیں ہے باباجان۔" حریم ان کے سامنے آتے بولی۔
"ہاں تم دونوں کی کوئی غلطی نہیں ہے سارا قصور تو ہم سب کا ہے۔" وہ غصے سے کہتے صوفے پر ڈھے گئے تھے۔
"یہ سب کچھ کیا ہے زوھان؟" اسفند خان کے دریافت کرنے پر وہ انہیں سب کچھ بتاتا چلا گیا  کیونکہ اب چھپانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں تھا۔

•••••••••

جاری ہے۔

ھسک (✔️Completed) Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang