"مہرماہ ترا چارا نوکے سرءَ چی منا تئی گونا محبت بی، تو روچ بہ روچ وش رنگ بیا گئے یا خالی منی اے دلءَ ہی اچو دوست بئے"(مہرماہ مجھے تمہیں دیکھتے ہر بار نئے سرے سے محبت ہوتی ہے، تم دن بہ دن خوبصورت ہوتی جارہی ہو یا بس اس دل کو ہی اتنی پیاری لگتی ہو)۔ مہرماہ لاؤنج میں داخل ہوئی تو ضرار نے ایک جذب کے عالم میں اسے دیکھتے اپنے دل پر ہاتھ رکھے کہا۔ مہرماہ ناسمجی سے اسے دیکھنے لگی۔ جبکہ پانی پیتی پریہان کو اچھو لگ گیا۔
"ابا ما بھی ادا استے" (ڈیڈ ہم بھی یہیں ہیں)۔" شاہ میر نے اپنے، پریشے اور پریہان کی طرف اشارہ کرتے دانت کچکچائے۔ ان گزرے سالوں میں وہ تینوں بھی بلوچی سیکھ چکے تھے اگر کسی کو ابھی بھی سمجھ نہیں آتی تھی تو وہ مہرماہ ہی تھی۔
" آؤ گڑا بروئے وتی بانَ (ہاں تو چلے جاؤ اپنے روم میں)۔" وہ لاپرواہی سے کہتا ابھی بھی مہرماہ کو ہی دیکھ رہا تھا، جس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
"ابا تو اے ابرا اردو ، انگریزی دگے پشتو توکا بی گشگ کت کنے( ڈیڈ آپ یہ بات اردو، انگش یا پشتو میں بھی تو کہہ سکتے تھے) ۔" پریشے نے ضرار کے ساتھ چلتے الجھ کر پوچھا، وہ لوگ ائیرپورٹ کیلئے نکلنے جو تیار تھے بس مہرماہ کا ہی انتظار ہو رہا تھا۔
"آؤ دانکہ تئی مات بگوشی کہ نوں کسی یے لوگا شپے نانے ورگا رواگے واسطہ منا مکھن جناگئے (ہاں تا کہ پھر تمہاری مما کہتیں اب کس کے گھر ڈنر پر جانے کے لیے مکھن لگایا جا رہا ہے) ۔" وہ تپی ہوئی مسکراہٹ کیساتھ بولا۔ زینیا اور اسد کے ہاں ڈنر کے بعد ضرار کے اظہار پر جب اس نے ایسے پوچھا تو ضرار نے بھی بلوچی میں اظہار کرنا شروع کر دیا تھا، ایسے وہ اپنے دل کی بات بھی کہہ لیتا تھا اور مہرماہ کے طعنوں سے بھی بچ جاتا تھا۔
ضرار نے پیچھے مڑ کر دیکھا مہرماہ ابھی بھی سرخ چہرہ لیے اس کی پشت کو ہی گھور رہی تھی۔ وہ ہنسی دباتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
•••••
"مما، یہ ایک انکل نے آپ کیلئے دیا تھا۔" حورعین نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ میں پکڑا کارڈ ہانیہ کو تھمایا۔
"میرے لیے۔" وہ حیرت سے بڑبڑائی، کارڈ پر نام دیکھتے ہی اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
"کہاں ملی تھی تم جبران سے۔" وہ پہلی بار حورعین سے اتنی سختی سے بات کر رہی تھی۔
"کیا ہو گیا ہانیہ بازو چھوڑو اس کا، اگر مل بھی لیا ہے تو کیا ہو گیا۔" زوھان نے حورعین کو اس سے دور کرتے نرمی سے اپنے ساتھ لگایا۔
"آپ جانتے بھی ہیں، یہ آج کس سے مل کر آئی ہے۔" ڈر سے اس کی آواز کانپ رہی تھی، ہاتھ بھی تھنڈے پڑ گئے تھے۔
"میری ہی اجازت سے ملی ہے۔" زوھان نے اس کے ماتھے پر نمودار ہوتے ننھے قطرے اپنے ہاتھ سے صاف کیے۔
"مگر کیوں؟؟"
"وہ باپ ہے اس کا، اور تمہیں کیا لگا تھا تم اس کی دھمکیوں کے بارے میں مجھے نہیں بتاؤ گی تو مجھے پتا نہیں چلے گا۔" وہ شکوہ کناں تھا۔
"میں ڈر گئی تھی۔" وہ ہانیہ کے ساتھ حورعین کے تاثرات بھی غور سے دیکھ رہا تھا، آج وہ اسے تھوڑی بدلی بدلی لگی تھی۔
"حور بیٹا جائیں حنین کو دیکھیں کیا کر رہی ہے وہ؟" اس نے حورعین کو خود سے الگ کیا جو خاموشی سے اس سے دور ہو گئی۔
" وہ میری بیٹی مجھ سے چھین لیں گے ۔" وہ درد سے بلبلائی تھی۔
"اگر حورعین جانا چاہے تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔" زوھان کی الفاظ ہانیہ کو ساکت کر گئے تھے حورعین کے باہر کی طرف بڑھتے قدم بھی رکے تھے۔
"میں نہیں جانا چاہتی۔" وہ بھاگ کر زوھان کے پاس آتی منت بھرے لہجے میں بولی۔
"بابا وہ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں، وہ مما کیلئے غلط بول رہے تھے بابا مجھے آپ کے پاس ہی رہنا ہے بی کوز آئی لو یو بابا۔" وہ زوھان سے لپٹی رو رہی تھی، ہانیہ نے اس کی بات پر سکھ کا سانس لیا۔
"بابا بھی آپ سے بہت محبت کرتے ہیں میری جان۔" زوھان نے اسے اپنے ساتھ لگائے ہی ہانیہ کے چہرے پر آتی بالوں کی لٹ کو انگلی پر گھمایا وہ ناراضگی سے چہرہ موڑ گئی۔
"حنین سے بھی زیادہ نا؟؟" وہ چہرہ اوپر کو اٹھاتی مان بھرے لہجے میں بولی، وہ زوھان کے لیے اتنی ہی پوزیسیسو تھی، شروع میں حورعین حنین کی آمد پر بہت انسیکیور ہوئی تھی، اسے خود کو وہ بہت عزیز تھی کسی کو اس کے پاس بھی بھٹکنے نہیں دیتی تھی مگر زوھان کی وہ فرسٹ پریوریٹی رہنا چاہتی تھی جو کہ وہ تھی بھی۔
"بالکل حنین سے بھی زیادہ۔" وہ ہمیشہ کا دیا جانے والا جواب سن کر خوش ہوتی باہر نکل گئی۔
"آپ کو حورعین کو جبران سے ملنے نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔" وہ شکوہ کر رہی تھی، کچھ خوف بھی آنکھوں میں ابھرا تھا۔
"ہانیہ اس کا نام پیپر ورک پر میں نے اسی لیے حورعین لغاری لکھوایا تھا کہ میں اس سے کوئی بات نہیں چھپانا چاہتا، یہی باتیں کوئی باہر والا اسے بتاتا تو اسے زیادہ دکھ ہوتا، کیا پتہ وہ ہمارے سچ بتانے پر بھی کبھی ہم پر یقین بھی کر پاتی یا نہیں۔" ہانیہ اب بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔
"اگر حورعین اس کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیتی۔" وہ ماں تھی یہ سوچتے بھی تڑپ گئی تھی۔
"پہلی بات مجھے اپنی بیٹی پر یقین تھا وہ ایسا کبھی نہیں کرے گی اور دوسری اور آخری بات اگر وہ ایسا کر دیتی تو میں یہ ہی سمجھتا کہ میری محبت میں ہی کہیں کمی رہ گئی ہو گی۔"اس کے جواب پر وہ پرسکون ہوئی۔
ہانیہ نے آئینے میں اپنا اور اس کا عکس دیکھا تھا وہ بہت عام شکل و صورت کی تھی جبکہ اس کے برعکس زوھان بہت خوبرو شخصیت کا حامل تھا کئی دلوں کی خواہش تھا مگر اللّٰہ نے اس جیسے نیک ہمسفر سے اسے نوازا تھا۔
"کیا سوچ رہی ہو؟" زوھان نے آئینے کے سامنے کھڑے پیچھے سے اس کر گرد اپنے بازو باندھے۔ زوھان کے مطابق وہ دونوں پرفیکٹ کپل لگ رہے تھے۔
"بس یہی کہ آپ مجھ سے کتنے بڑے لگ رہے ہیں اور بال بھی کتنے سفید ہو گئے پر خیر یہ تو عمر کا تقاضا ہے۔" اس کی رگِ ظرافت پھڑکی تھی، وہ اس کے داڈھی کے بالوں کو ہاتھ میں لیے بولی۔
"تم مجھے بڑی عمر کا طعنہ دے رہی ہو۔" وہ اس کا رخ اپنی طرف کیے مصنوئی غصے سے بولا، جب سے ہانیہ کو پتا چلا تھا کہ زوھان اس سے نو سال بڑا ہے تو وہ ہر بات کا اختتام یوں ہی کرتی تھی۔
••••••••
"اگر آپ میری طرف آئے تو میں پھر سے ناخن مار دوں گی۔" ہانیہ اپنے ناخن زوھان کے سامنے لہراتے غصے سے بولی۔
"آج تو میں نے ان ناخنوں کو ہی ختم کر دینا ہے۔" وہ ہاتھ میں نیل کٹر لیے اس کے پیچھے آیا۔
"پلیز اس بار چھوڑ دیں آئندہ پکا نہیں کروں گی۔" وہ بیڈ پر سے بھاگتی دوسری طرف پہنچی۔ حورعین اور حنین اپنے ماں باپ کو اس طرح کمرے میں بھاگتا دیکھ ہنس رہی تھیں۔
"نہیں بالکل نہیں، نیند میں بھی تم نے کیسے بلیوں کی طرح میرے ہاتھ کو نوچا ہے۔" وہ اج اس کے ناخنوں کو بخشنے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔
"آپ نے وعدہ کیا تھا آپ میرے ناخن دوبارہ کبھی نہیں کاٹیں گے۔" وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے اس کی کہی بات یاد دلا رہی تھی۔
"تم نے بھی وعدہ کیا تھا کہ مجھے آئندہ کبھی ناخن نہیں مارو گی۔" وہ بھی اسی کی کہی بات دہرا رہا تھا۔
"میں نے جان بوجھ کر تھوڑی نہ مارے ہیں، خواب میں غصہ آیا تو مار دیے۔" اس کے جواز پر زوھان کو تو سکتا ہی ہو گیا تھا۔
"غصہ خواب میں آیا تھا تو اس میں میرے ہاتھوں کا کیا قصور تھا۔" اس نے اس کے سر پر پہنچتے غصے سے کہا۔
"تو خواب میں غصہ بھی تو آپ پر ہی آیا تھا۔" وہ غصے سے چینخی، زوھان کے ساتھ حورعین بھی اس کی بات پر عش عش کر اٹھی۔
"بیٹھو۔" وہ اسے کھینچتے ہوئے بیٹھا رہا تھا۔
"نہیں۔" ہانیہ رونے لگی، حنین کی ہنسی تھم گئی۔
"حورعین حنین کو باہر لے کر جاؤ، ابھی تھوڑی دیر پہلے بہرام آپ کا پوچھ رہا تھا۔" بہرام کا نام سنتے اس کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
"بہرام لالا آگئے۔" وہ خوشی سے چہکتی باہر نکل گئی۔
ہانیہ کے رونے کی پروا کیے وہ اس کے سارے ناخن کاٹ چکا تھا، وہ اپنے ہاتھ اس سے کھینچتی خونخوار نظروں سے اسے دیکھنے لگی، زوھان کے چہرے پر بڑی دلکش فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر وہ اندر تک جل گئی۔
••••••••
"بہرام لالا۔" وہ دھڑم سے دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی۔
"آرام سے لڑکی کیوں آندھی طوفان بنی آ رہی ہو۔" اذیان نے اسے ہنستے ہوئے کہا۔
"تم نوک کر کے نہیں آ سکتی تھی۔" عزم نے تیوری چڑھائے مصنوئی غصے سے پوچھا۔
"میرے لالا کا کمرا ہے میں جیسے بھی آؤں میری مرضی۔" وہ اتراتے ہوئے کہتی بہرام کی طرف بڑھی جو اسے دیکھتے اپنی بک چھوڑتا کھڑا ہو گیا تھا۔
"لالا، آپ کو پتا ہے میں نے حویلی آتے سب سے پہلے آپ کو ڈھونڈا تھا مگر آپ حویلی میں تھے ہی نہیں۔ ابھی بابا نے بتایا کہ آپ میرا پوچھ رہے تھے۔" وہ لاڈ سے کہتی اس کے آگے سر جھکا گئی، بہرام نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"ہمیں دیکھ کر تو تمہیں کبھی اتنی خوشی نہیں ہوتی، ہم بھی تو تمہارے بھائی ہیں۔" عزم نروٹھے پن سے بولا۔
"مگر آپ بہرام لالا تو نہیں ہیں۔" وہ لاپرواہی سے کہتی کندھے اچکا گئی۔
"اسے کیا ہوا ہے؟" عزم نے دروازے کے پاس کھڑی روتی ہوئی حنین کو دیکھا۔
"کچھ نہیں لالا، بس وہی مما بابا کے نیلز کاٹ رہے تھے، مما نے رونا شروع کیا تو یہ بھی رونے لگی۔" کہنے کے ساتھ ہی وہ ہنسنے لگی، اس کی ہنسی میں عزم اور اذیان کی ہنسی بھی شامل ہو گئی تھی۔
"حد ہے حورعین اگر وہ رو رہی تھی تو تمہیں چپ کروانا چاہئیے تھا۔" اماز نے تاسف سے کہتے پانچ سالہ حنین کو گود میں بٹھایا، اس کے پکڑتے ہی وہ اور زور سے رونے لگی۔
"اسی لیے چپ نہیں کروایا تھا۔" حورعین نے نفی میں سر ہلایا، وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتی تھی اگر کوئی اسے چپ کرواتا تو اور اونچا رونے لگ جاتی۔
"بس چپ کر جاؤ حنین مما،بابا تو بس مذاق کر رہے تھے، اگر ہماری گڑیا چپ ہو گئی تو اماز لالا اسے ابھی چاکلیٹ دیں گے۔" بہرام نے اس کے سامنے فرش پر بیٹھتے پیار سے کہا۔
"مجھے بھی لالا۔" اسے چپ یوتا دیکھ حورعین نے بھی فرمائش کی۔
"اپنے بہرام لالا سے ہی مانگو۔" اماز ناک چڑھاتے حنین کو لیے باہر چلا گیا۔
یہ تو ہر بار کا معمول تھا جب بھی زوھان اور ہانیہ حویلی آتے بچوں سے زیادہ وہ خود لڑتے، خان حویلی کے سب بچے تو انہیں "ٹام اینڈ جیری" ہی کہتے تھے مگر صرف پیٹھ پیچھے۔ اور بچوں کی یہ نوک جھوک بھی عام تھی، حورعین اور حنین بہرام کے ساتھ ساتھ باقی تینوں کو بھی بہت عزیز تھیں۔
حورعین جب بھی عزم سے لڑتی تو وہ اپنی اور شاہ میر کی کال یاد کرتے اور تپ جاتا اس نے کتنا جتاتے ہوئے شاہ میر کو بتایا تھا کہ اب اس کی بھی ایک بہن ہے مگر وہ تو صرف بہرام کی ہی بہن بن کر رہ گئی تھی۔
••••••••
"عریبہ تم بڑی کب ہو گی؟" زارام کی جھنجھلائی ہوئی آواز پر اس نے میگزین سے سر اٹھاتے اس کی طرف دیکھا۔
"اب کیا کر دیا ہے میں نے؟" وہ میگزین ٹیبل پر پٹختی کمر پر ہاتھ ٹکائے کھڑی تھی۔
"زحل کا فیڈر تم نے بیڈ پر رکھا تھا نا دیکھو میرا سارا کوٹ گیلا ہو گیا ہے۔" وہ اپنا دودھ میں نہایا ہوا کوٹ اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے بولا۔
"ہاں تو آپ کو جگہ دیکھ کر اپنا کوٹ رکھنا چاہئیے تھا۔" زارام کے گھورنے پر اسے جوابی گھوری سے نوازتے وہ سر جھٹکتے دوبارہ سے میگزین کے صفحے پلٹنے لگی تھی۔
اتنے سالوں گزر جانے کے بعد عریبہ اور زارام کی بوک جھوک بھی ویسی ہی تھی۔
•••••••
"بہرام میں کتنی بار کہہ چکی ہوں نہیں سننی مجھے تمہاری کوئی بات۔" زرنش نے غصے سے بہرام کو دیکھا جو ڈھٹائی سے چئیر پر بازو ٹکائے کھڑا تھا۔
"تو میں بھی کہہ چکا ہوں مور جان اگر آپ نے میری بات نہیں مانی تو میں بھی واپس انگلینڈ نہیں جاؤں گا۔" وہ کچن میں داخل ہوتے شاہ میر کی طرف دیکھتا ہلکا سا مسکرایا۔
"کیوں تم نے ضرم سے مار کھانی ہے۔" زرنش نے کسی کے سن لینے کے ڈر سے کچن کے دروازے کی طرف دیکھا۔ وہ شاہ میر کی موجودگی سے لاعلم تھیں۔
"مور جان آنی نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور ابی جان کہتی ہیں اپنا وعدہ نہیں توڑنا چاہیے۔" وہ جھلاتے ہوئے بولا، شاہ میر فریج سے پانی نکالتا حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"بڑوں کی باتوں میں سے بس اپنے مطلب کی بات ہی تم لوگوں کو اچھے سے یاد رہتی ہے۔" وہ تلخی سے بولیں۔
"مور جان ایک بار ضرار چا چو سے بات کر کے تو دیکھیں۔" وہ ان کے ہاتھ تھامے التجائی انداز میں بولا۔
"پریشے ابھی بہت چھوٹی ہے بہرام۔" پریشے کے نام پر شاہ میر کے کان کھڑے ہوئے۔
"میں بھی تو ابھی بس نکاح کا ہی کہہ رہا ہوں۔" وہ زرنش کے بار بار انکار پر جھنجھلا کر رہ گیا، پانی پیتے شاہ میر کو اچھو لگا۔ زرنش نے اس کے کھانسنے پر اسے دیکھا تو بےبسی سے بس بہرام کو گھور کر رہ گئی۔
"لالا، دماغ ٹھیک ہے آپ کا، نکاح وہ بھی پریشے سے؟؟ ابھی صرف تیرہ سال کی ہے وہ؟؟" ہاتھ پر پکڑا گلاس ٹیبل پر پٹختے وہ غصے سے چلایا۔
"آہستہ بولو شاہ میر کوئی سن لے گا۔" زرنش نے لجاجت سے کہتے باہر کی طرف دیکھا۔
"نہیں مورے، ان کی ہمت بھی کیسے ہوئی ہماری بہن کے بارے میں ایسا سوچنے کی؟" وہ جذباتی ہوتے بہرام کے بڑے ہونے کا لحاظ کیے بغیر بولا۔
"جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو آ جانا پھر اس بارے بات کریں گے۔" وہ سکون سے کہتا کچن سے باہر چلا گیا۔
"مجھے ابھی بات کرنی ہے لالا۔" وہ غصے سے اس کے پیچھے آیا۔
"یہ آپ بہرام سے کس لہجے میں بات کر رہے ہیں شاہ میر۔" ضرار نے حیرت اور ناگواری سے شاہ میر کے بدلے انداز کو دیکھا۔
"اگر یہ ایسی بات نہ کرتے تو میں کبھی اس لہجے میں ان سے بات نہ کرتا۔" بات وہ ضرار سے کر رہا تھا مگر اس کی آگ برساتی نظریں بہرام پر ٹکی تھیں۔
"اب میں نے کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں کی کہ اتنا اوور رئیکٹ کیا جائے۔" وہ لاپرواہی سے کندھے اچکا گیا۔
"پریشے سے نکاح کی بات آپ کیلئے معمولی ہو گی میرے لیے نہیں۔" اس کی بات سب کو ساکت کر گئی تھی۔
"آنی نے مجھ سے خود وعدہ کیا تھا کہ جب وہ بڑی ہو گی تو میں اسے لے جا سکتا ہوں۔" اتنے سنجیدہ ماحول میں بھی جس بات کا حوالہ اس نے دیا تھا حریم مسکراتے ہوئے سر جھکا گئی۔
"میرا یہ مطلب بالکل نہیں تھا۔" مہرماہ نے ضرار کی بڑھتی ہوئی گھوریوں سے گڑبڑاتے جلدی سے کہا۔
"مگر میرا یہی مطلب تھا۔"
"تب تم صرف گیارہ سال کے تھے۔"
"لیکن اب میں تئیس سال کا ہوں۔"
"پریشے چھوٹی ہے۔"
"میں انتظار کر لوں گا۔"
وہ لاؤنج میں اٹھتے ہر سوال کا جواب تحمل سے دے رہا تھا جیسے پہلے ہی اپنے آپ کو ایسے حالات کے لیے تیار کیے ہو۔
"مگر پھر بھی میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کر سکتا۔"
"لیکن کیوں چاچو؟"
اس سوال کا جواب ضرار کے پاس خود بھی نہیں تھا، اسے مشکل سے نکالتے زوھان نے جواب دیا۔
"تم اس سے دس سال بڑے ہو۔"
"آپ بھی تو مجھ سے نو سال بڑے ہیں۔"
زوھان کی بات کا جواب ہانیہ کی طرف سے آیا تھا۔ لاؤنج میں موجود سب نفوس ہنس پڑے تھے سوائے زوھان اور ضرار کے، زوھان غصے سے ہانیہ کو دیکھ رہا تھا جبکہ ضرار بہرام کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی بات پر کان دھرنے کی، اگر آج اس کی بات مان لی تو کل کو شاہ میر کہہ دے گا مجھے زحل سے شادی کرنی ہے اور پھر ان دونوں کو حورعین اور پریہان سے اور پھر ان صاحبزادے کو حنین سے کرنی ہو گی۔" ضرم نے بہرام کو سناتے، شاہ میر، عزم، اذیان اور اماز کو بھی اچھا خاصا گھورا۔ عزم کو تو کھانسی کا دورا ہی پڑ گیا۔
"کیا ہوا تمہارے دل کی بات کہہ دی ہے میں نے؟" عزم تو ان کی سخت آواز پر اچھا خاصا گھبرا گیا تھا۔
"جیسے آپ نے جوڑیاں ملائی ہیں نا باباجان یہ ہمارے نہیں بلکہ آپ کے دل کی بات ہی لگ رہی ہے۔" شاہ میر نے اپنی ہنسی دباتے کہا۔
"اور ایک منٹ ذرا میں اور اس روندوں سے شادی، نو نیور۔" اماز نے اپنی گود میں موجود حنین کو دیکھتے جھنجھلا کر کہا جو اب اسے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
"میری بیٹی کو کچھ مت بولنا۔" زوھان فوراً میدان میں آیا تھا۔
"ہاں تو چاچو پکڑیں اپنی بیٹی جسے دیکھو اماز اسے پکڑ لو تم سے ہی چپ کرتی ہے۔" دینے کی بجائے اس پر اپنی گرفت مضبوط کرتے اماز نے مصنوئی غصے سے کہا۔ بہرام نے کوفت سے سب کو دیکھا جو پٹری سے ہی اتر گئے تھے۔
"مگر مجھے ابھی نکاح نہیں کرنا، میں تو ابھی صرف تھرٹین ائیرز کی ہوں۔" لاؤنج میں پریشے کی آواز گونجی تھی جو بہرام کے اپنی طرف دیکھنے پر رونی صورت لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
"مطلب اعتراض صرف ابھی نکاح پر ہے؟؟ لالا سے نکاح پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟؟" عزم غور سے اس کی شکل دیکھتے دور کی کوڑی کھینچ لایا تھا۔ وہ اس کے سوال پر معصومیت سے ہاں میں سر ہلا گئی۔
اس کی ہاں پر سب کے چہروں پر تبسم پھیل گیا تھا۔
خان حویلی میں اتنے سالوں سے چھائی بےنام اداسی اور افسردگی بچوں کے قہقہوں میں دب گئی تھی، یاسیت کے بادل بھی چھٹ گئے تھے۔
اس کہانی کے منفی کردار بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے، دیار خان اور حیدا خانم مہرماہ سے معافی مانگنے کی خواہش دل میں لیے اور ناجانے کتنے مظلوموں کی آہیں سمیٹتے دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ دولت کے پجاری اور عیاشی میں مدھوش رہنے والے اخزم کی غربت اور مفلسی میں اس کی دوسری بیوی امرہ بھی اپنے بیٹے کو لیے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ بیٹی جیسی رحمت ٹھجرانے کے بعد اللّٰہ نے جبران جو دوبارہ اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا تھا مگر وہ اب بھی نہیں سدھرا تھا ہانیہ کو بلیک میل کر کے وہ حورعین کو اس سے دور کرنا چاہتا تھا، جسے پہلے اس نے ٹھکرایا تھا آج وہ اسے ٹھکرا گئی تھی۔
زندگی کے سفر میں کہیں ہموار راستے ہوتے ہیں تو کہیں پتھیریلے اور ان راستوں کو پار کرنے کیلئے صرف جذبہ ہی نہیں بلکہ صبر کیساتھ اللّٰہ پر پختہ اعتقاد ہونا اور ازدواجی زندگی میں ایک دوسرے پر اعتماد بھی ضروری ہوتا ہے جو انسان کو زندگی کے دکھ سکھ میں ثابت قدم رہنے کا حوصہ دیتا ہے۔ زوھان اور ہانیہ، حریم اور زریاب، مہرماہ اور ضرار، زرنش اور ضرم، زارام اور عریبہ کی کہانی کی کوئی ہیپی اینڈنگ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی فیری ٹیل تھوڑی ہے جہاں دوبارہ کبھی جوئی نشکل ہی نہ آئے یہ تو حقیقی زندگی ہے جہاں دکھ سکھ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، کہیں آنسو ہوتے ہیں تو کہیں قہقہے، کہیں صبر ہوتا ہے تو کہیں شکر، خان حویلی بھی آزمائشوں سے گزرتے، اپنی غلطیوں سے سبق لیتے زندگی جینے کا سلیقہ سیکھ گئے تھے جو آئندہ زندگی کی آزمائشوں میں ان کےلئے کارآمد ثابت ہو گا۔
یہ ان کی کہانی کا اختتام نہیں ہے بلکہ ایک باب کا اختتام ہے، زندگی کی کتاب تو اب بھی بہت سے ابواب سے بھری ہوئی ہے، ان کی کہانی کا اختتام نئی نسل کی کہانی کا آغاز ہو گا۔
وہ کہتے ہیں نا
"ہر انجام یو نئے پہر دئے۔"
(ہر انجام ایک نئی شروعات ہے)
ختم شدDo vote & comment 🌸
Don't forget to give your precious reviews 💫
#FarwaAnsari
YOU ARE READING
ھسک (✔️Completed)
General Fictionانتقام کی آڑ میں کسی اپنے کو برباد کر دینے ۔۔۔۔ اور اپنوں کے ہاتھوں اعتبار و محبت کے قتل کی داستان۔۔۔۔ دلوں اور رشتوں کے ٹوٹ کر بکھرنے۔۔۔۔ اور پھر نئے سرے سے جڑنے کی داستان۔۔۔۔ اپنوں کے غیر ہو جانے۔۔۔۔ اور اجنبی سے ہمسفر بن جانے کی داستان۔۔۔۔ اللہ پ...