باب : ٥

247 24 11
                                    

”فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے میرا؟“فون اٹھاتے ساتھ ہی وہ بھڑک اٹھی تھی۔

”خیر ہے!آج لوگوں کو ہماری یاد آ رہی ہے۔“اس کا انداز شرارت لیے ہوۓ تھا۔
”تمہیں یاد کرتی ہے میری جوتی۔“ٹکا سا جواب آیا تھا۔
”چلو کوئی تو یاد کرتا ہے ہمیں……تمہاری جوتی ہی سہی۔“وہ اسے تپانے کے فُل موڈ میں تھا۔
”شٹ اپ!……میں نے تمہاری فضولیاں سننے کے لیے فون نہیں کیا۔“وہ تقریباً چیخی۔وہ اس وقت گھر کے اندر موجود تھی۔باقی سب تو صحن میں ہی ناچ رہی تھیں ابھی تک۔
”چلو! کسی وجہ سے تو یاد فرمایا آپ نے اپنے اس مجازی خُدا کو۔“وہ اسے چڑا رہا تھا،اور مزے کی بات ہے وہ چڑ بھی رہی تھی۔
”زیادہ خوش فہمیاں پالنے کی ضرورت نہیں۔مجھے یہ بتاؤ کہ تم اس وقت کہاں ہو؟“وہ سیدھا مدعے کی بات پر آئی۔
”خُدا کی قسم،بیگم! میں اس وقت کسی بھی لڑکی کے ساتھ موجود نہیں ہوں۔“وہ شرارت سے بولا،ایمن کا بی پی شوٹ کر گیا۔
”میں نے پوچھا ہے کہ اس وقت کہاں ہو؟یہ نہیں پوچھا کس کے ساتھ ہو!“
”میں ایک لڑکے کے ساتھ ہوں۔“وہ شرارت کرنے سے باز نہ آیا۔
”میں نے کیا پوچھا ہے تم سے،حدید!“وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی۔
”ہاں ہاں پتا ہے۔تم روایتی بیویوں کی طرح مجھ سے یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہو کہ میں کسی لڑکی کے ساتھ تو موجود نہیں۔“وہ اسے آگ پر اچھی طرح بھنا چکا تھا۔
”تم بتا رہے ہو کہ نہیں!…“وہ اچھی طرح بھن چکی تھی۔
”اپنے گھر پر ہوں یار۔“وہ نہایت معصومیت سے بولا،جھوٹ بولا۔
”جھوٹ مت بولو!……“وہ بے یقین تھی۔
”نہ نہ……یہ جھوٹ والے کام میں نہیں کرتا۔“اس نے جیسے کانوں کو ہاتھ لگایا۔جھوٹا معصوم۔
”پکا نا؟……مجھے یقین نہیں تم پر۔“اس کا دل کہہ رہا تھا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
”آپی کی قسم یار۔“اس نے معصومیت سے گوہر کی ہی قسم اٹھا دی۔جھوٹی قسم۔اور اُدھر گوہر اس کی جھوٹی قسم پر سیڑھیوں سے گِر چکی تھی۔یہ تو ہونا ہی تھا۔اس بچاری کو کیا پتا اس کا بھائی اپنی بیوی کے لیے اسی کی جھوٹی قسمیں اٹھاتا پھر رہا ہے۔
”پھر تمہارا وہ جو میسج………“اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
”آہ بیگم!……دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔“اس نے جیسے ٹھنڈی آہیں بھریں۔ایمن نے افسوس سے فون کاٹ دیا۔وہ شخص اسے کبھی بھی سیدھی طرح کوئی بات نہیں بتا سکتا تھا۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی………وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

۞……۞……۞

رات کے دو بجے کا وقت تھا۔جب سب بڑے سو گئے تو وہ پانچ لڑکیاں باہر صحن میں آچکی تھیں۔ہاں ہاں ہماری پیاری رانیہ،اریبہ،طیبہ،علوینہ اور علیزہ۔
”چلو بھئی! علوینہ جلدی سے کوئی دھوم دھڑاکے والا گانا لگا دے۔“علیزہ نے گردن اکڑا کر جیسے حکم نامہ جاری کیا۔وہ شاید آج زمین ہلا دینے کا ارادہ رکھتی تھی۔
”ہاں ہاں لگا دے کوئی جلدی سے۔آج بس ہم نے سونا نہیں ہے یہی کرنا ہے۔“اریبہ نے بھی کہہ دیا۔
”ہاں آج کسی نے نہیں سونا۔کوئی سویا نا تو میں نے اس کے سر پر بم پھاڑ دینا ہے۔“رانیہ شاید دبنگ بننے کا ارادہ رکھتی تھی۔علوینہ نے گانا لگا دیا تو سپیکر نے بھی اپنا گلا پھاڑنا شروع کردیا۔علوینہ نے ڈی جے کا کام سنبھال لیا تھا اور وہ چاروں ناچ کے لیے ایک دوسرے کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھیں۔

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Where stories live. Discover now