”تمہیں بابا بُلا رہے ہیں نیچے۔“حدید نے آکر اسے اطلاع دی۔راحیل کل سے ہی کمرے سے باہر نہ نکلا تھا۔بس منہ پھلاۓ بیٹھا تھا۔کھانے پینے سے اس نے مکمل طور پر قطعی تعلق کر لیا تھا۔وہ کسی کا بھی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔رامین اسے کئی بار کال کر چکی تھی مگر وہ سب کچھ نظر انداز کیے ہوۓ تھا۔اس نے تو اپنا فون ہی بند کر ڈالا تھا۔
”کیوں؟…اب کیا مسئلہ ہے انہیں!…لگتا ہے میرا دل توڑ کر جی نہیں بھرا ان کا۔“راحیل سخت غصے میں بیٹھا تھا۔
”مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔انہوں نے نیچے تمہارے رشتے کے لیے کچھ لوگوں کو بُلایا ہوا ہے۔وہ اب بس جلدی سے تمہاری شادی کر کے تمہیں ٹرکھانا چاہتے ہیں۔“حدید نے کندھے اچکا کر جیسے افسوس ظاہر کیا۔راحیل کو تو آگ ہی لگ گئی۔وہ جھٹ سے بیڈ پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں مجھ سے پوچھے بغیر۔“بلکل ہی بےیقینی طاری تھی۔
”ایسا کر نہیں سکتے،کر چکے ہیں۔“حدید کا کہنا تھا کہ راحیل اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتا نیچے کی طرف چل دیا۔
”ان لوگوں کو تو میں بتاتا ہوں۔ان رشتے والوں کو بھی گھر سے دھکے دے کر باہر نہ نکالا تو میرا نام بھی رانا راحیل ریاض نہیں۔“
وہ نیچے آ کر اب بڑے آرام سے ریاض صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا۔کونسے دھکے؟…کہاں کے دھکے؟
”بابا!……یہ……یہ کب ہوا؟“راحیل ریاض کے ساتھ بیٹھا حد سے زیادہ حیران تھا۔ہاں راحیل ہی جس نے تھوڑی دیر پہلے کہا تھا کہ ان رشتے والوں کو دھکے دے کر گھر سے نکالے گا اور ابھی ان ہی کے ساتھ بیٹھا تھا کیونکہ نیچے آ کر اس نے جو منظر د دیکھا تھا اس نے اس کی پوری دنیا ہی ہلا کر رکھ دی تھی۔
”تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ رامین صدیقی صاحب کی بیٹی ہے۔تم مجھے پہلے ہی بتا دیتے تو یہ سب نہ ہوتا۔“وہ کافی خوش نظر آ رہے تھے۔راحیل کے لیے سب کچھ ہی بےیقین تھا۔کیا اس کے بابا صدیقی انکل کو جانتے تھے؟مگر کیسے؟سامنے ہی صدیقی اور ان کی بیوی بیٹھی تھیں۔راحیل بھی کئی سوچوں میں گُم ان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا۔کچھ ہی دیر میں وہ لوگ جا چکے تھے۔رشتہ پکا ہوچکا تھا۔منگنی کی ڈیٹ بھی فکس کر دی جا چکی تھی اگلے ہفتے کی۔راحیل تو حد سے زیادہ خوش تھا۔یہ تو معجزہ ہی ہوگیا تھا۔وہ خوشی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر گیا۔اپنے اور حدید کے مشترکہ کمرے میں داخل ہو کر اس نے اسے گلے سے لگا لیا۔
”یہ کون سی مردانہ کمزوری نے جکڑ رکھا ہے تمہیں!…دور ہٹو مجھ سے۔“حدید نے اسے اپنے آپ سے دور کیا۔لیکن راحیل نے بھی اس کی طرح ڈھیٹ پن کی انتہا کرتے ہوۓ اسے پھر سے گلے لگا لیا۔
”بھائی تو کتنا اچھا ہے یار!……تو نہ ہوتا تو میرا کیا ہوتا؟ آئی لو یو یار!“ وہ اس کے گلے لگے اس کی محبت کے گُن گا رہا تھا۔
”خیر تو ہے،آج بڑا پیار آرہا ہے مجھ پر۔“حدید نے پھر سے اسے اپنے آپ سے الگ کیا اور آبرو اچکائی۔
”مجھے پتا ہے یہ سب تو نے ہی کیا ہے۔تو نے ہی بابا کو اس سب کے بارے میں بتایا ہے۔“خوشی تو راحیل کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔
”کیا بتایا ہے میں نے بابا کو؟“وہ حیران ہوا۔
”اچھا بس کر اب یہ ایکٹنگ۔جھوٹ بولنے کی عادت تو تیری کبھی نہیں جاۓ گی۔“راحیل نے اس کے سینے پر آہستہ سے مکاہ رسید کیا۔
”یار گوہر آپی کی قسم میں نے کچھ………“وہ اس سے پہلے جھوٹی قسمیں اٹھا کر گوہر کو اوپر پہنچاتا راحیل نے جلدی سے اس کی بات کاٹ کر گوہر کی جان بچا لی۔
”چُپ!…اس سے آگے کچھ نہ بولیں تجھے خُدا کا واسطہ ہے یار۔“راحیل نے منت کی۔حدید نے آنکھیں گھمائیں۔ایک تو بنٹے جیسی اس کی آنکھیں تھیں،اتنی خوبصورت کے جب وہ گھُماتا،واللّٰہ قیامت ہی ڈھاتی تھیں۔
”اب بندہ یقین دلانے کے لیے قسم بھی نہ اٹھاۓ۔“اُف……کیا معصومیت تھی۔
”لاحول ولاقوة!…خُدارا تو قسم نہ اٹھایا کر میں ویسے ہی یقین کر لیا کروں گا۔“وہ خفیف انداز میں بولا۔
”اچھا میری ماں!…تم نے کہہ دیا میں نے سُن لیا۔“حالانکہ وہ اچھے طریقے سے ایک کان سے سُن کر دوسرے سے نکال چُکا تھا۔ڈھیٹ انسان!
”ویسے مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ رامین ہماری ذات کی نہیں ہے۔“حدید نے صاف گوئی سے کہہ دیا۔
”محبت میں اختلافات نہیں دیکھے جاتے،یہ تو بس ہو جاتی ہے۔“حدید نے چونک کر اسے دیکھا،”اور تو تو مجھ سے بہتر جانتا ہے۔“راحیل نے اس کی محبت پر چوٹ کی۔
”میں مانتا ہوں۔“وہ بلا جھجک کہہ چکا تھا۔اسے اس کی بات پر مکمل طور پر یقین تھا۔
YOU ARE READING
"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)
Mystery / Thrillerیہ "محبت" وہ کہانی جو کہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزری ہے۔یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے،جس کو میں ناول میں لکھے اپنے الفاظوں کے ذریعے آپ سب کے سامنے پیش کرنا چاہوں گی۔اس کے کردار تو حقیقی ہیں لیکن نام فرضی۔ یہ وہ کہانی ہے جس میں،میں نے اپنی نظروں کے سام...