باب : ٦

249 18 4
                                    

"کدھر تھے دو دن سے؟"
وہ دو دن بعد گھر آرہا تھا وہ بھی رات کے گیارہ بجے۔وہ کیسے یہ سوال نہ کرتا۔
"اوہ پلیرز،راحیل!......اب میری اماں بن کر مجھ سے سوال جواب نہ کرنے لگ جانا۔"وہ سخت اکتایا ہوا تھا۔
"کیسے نہ پوچھوں!......ہم سب کی محبت نے تمہیں اتنا بگاڑ دیا ہے کہ اب کسی کا بھی لحاظ نہیں تمہیں۔"راحیل بھی اس پر سخت تپا ہوا تھا۔حدید بھی اس کی بات کا جواب دیے بغیر اپنے بوٹ اتارنے میں مصروف تھا۔اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ خود ہی بول پڑا۔
"یا پھر میں یوں کہوں کہ اس ایمن کی محبت میں بگڑتے جا رہے ہو تم۔"اس بار حدید چونکا تھا۔بوٹ اتارتا ہاتھ ایک دم سے ساکت ہوا تھا۔وہ ناگوار نظروں سے راحیل کو تکنے لگا۔
"راحیل خاموش ہو جاؤ!میں اس وقت بہت تھکا ہوا ہوں تمہاری بکواس سننے کے موڈ میں بلکل نہیں ہوں۔"اس نے اپنے آپ پر ضبط باندھا۔راحیل نے اسے گھورتے ہوۓ ایک گہری سانس خارج کی۔
"تمہیں پتا ہے آپی سیڑھیوں سے گِر گئ تھیں۔"اس نے اطلاع دینا ضروری سمجھا۔
"کیا بنا؟......مر گئیں؟"وہ ایک دم خوشی سے چہک کر بولا تھا۔راحیل نے خفیف انداز میں اسے گھورا۔
"بدقسمتی تمہاری!......بچ گئی ہیں وہ۔"راحیل کو اب اس پر دلی افسوس ہورہا تھا۔"تھوڑی سی ہی شرم کر لو۔دو بچوں کی ماں ہیں وہ۔ان کا نہیں تو ان کے دو بچوں کا ہی خیال کر لو۔"
"وہ خیال کیوں نہیں کرتیں اپنے بچوں کا۔ان کا باپ ان کے سروں پر ابھی سلامت ہے پھر بھی ان کو کوئی خیال نہیں کہ اپنے لیے نہ سہی اپنے بچوں کے لیے ہی ان کے ساتھ گزارا کر لیں۔"اسے راحیل کی بات پر سخت غصہ آیا تھا۔سب گھر والے اس وقت سو رہے تھے۔وہ تو چُپ چاپ اپنے کمرے میں داخل ہورہا تھا کہ راحیل نے اسے جا لیا تھا۔
"تو اور کیا کریں وہ بچاری!..."راحیل اپنی بہن کی طرف داری کر رہا تھا۔
"بچاری!......بچاری اور وہ! بس کر دو راحیل! سب جانتا ہوں میں کہ وہ اپنے گھر کیوں نہیں جارہیں۔جائیداد میں سے حصہ چاہیے انہیں،کیونکہ وہ کسی اور لڑکی کو یہاں آکر اکیلے عیاشی کرنے نہیں دے سکتیں۔"حدید کی بھنویں غصے سے بھینج گئی تھیں،"وہ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ہر لڑکی اپنا نصیب لے کر آتی ہے۔ان کو یہ برداشت نہیں کہ وہ خود اُس سات مرحلے کے مکان میں رہیں اور ان کی نند اِس محل میں آکر عیاشی کرے۔"حدید سچ ہی تو کہہ رہا تھا۔راحیل کی تو خود کی بولتی بند ہوچکی تھی۔اب وہ اسے اور کیا کہتا اپنی بہن کے حق میں۔جو صرف اپنا فائدہ دیکھ کر ہی یہ سب کارنامے انجام دے رہی تھی۔
"اچھا اب اتنے روکھے کیوں ہورہے ہو؟تم فریش ہو کر آؤ۔میں پیزا اورڈر کرتا ہوں تب تک۔مل کر کھائیں گے۔"راحیل نے اسے گرم کرنے کے بعد اب ٹھنڈا کرنے کی کوشش شروع کردی۔

۞......۞......۞

ایمن کے تو ہوش ہی ٹھکانے پر نہ آۓ تھے ابھی۔وہ ابھی تک اسی صدمے میں تھی کہ حدید وہاں آیا تھا۔اسے خوف میں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے سب کو ہی معلوم ہے کہ حدید اِدھر آیا تھا۔خیر خوف میں انسان کو ایسے ایسے ہی الہام اٹھتے ہیں۔گُلوکارا آچکی تھی اور ماحول پر چھا چکی تھی۔گا گا کر اس نے پورے ہال کو ہلا ڈالا تھا۔سب ہوٹنگ کر رہے تھے۔چیخوں سے پورا ہال سہما ہوا تھا۔سب لوگوں نے جدید زمانہ فیشن کی مت مارتے ہوۓ ڈانس سٹیج پر ہی اپنے قدم جما دیے تھے۔اور وہیں پر اپنے ڈانس نکال رہے تھے اور چیخیں مار رہے تھے۔گُلوکارا صوفہ سٹیج پر دلہا دلہن کے ساتھ کھڑی اپنے کام میں جاری تھی۔اور ڈانس سٹیج پر وہ سب اپنے کام میں جاری تھے۔دُلہن والوں نے تو خیر ڈانس کا کام سنبھالا ہوا تھا لیکن دُلہے والوں نے بھی چیخوں اور ہوٹنگ کا کام اچھے طریقے سے سنبھالا ہوا تھا۔سب پاگل عوام وہاں پر اکٹھا تھی۔جدید زمانہ کے پاگل لوگ
"اووووووہ!........."جیسے ہی کچھ دیر کو چیخیں کم ہوتیں۔علیزہ صاحبہ اپنا گلا پھاڑنا شروع کر دیتیں۔اور اس کی دیکھا دیکھی باقی سب بھی اپنا گلا پھاڑنا شروع کر دیتے۔ایمن بھی اب سب کچھ بھولاۓ ماحول کے زیرِاثر لطف اندوز ہو رہی تھی۔

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ