باب : ٨

206 20 1
                                    

"ہاۓشکر اللّٰہ کا اندر ہیٹر چل رہا ہے۔"طیبہ نے سُکھ کا سانس خارج کیا۔
"بےوقوف ہمارا میک اپ میلٹ ہوگیا تو۔"رانیہ کو اپنے میک اپ کی فکر نے آن گھیرا تھا۔
"یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔"طیبہ نے سر پر ہاتھ مارا۔
"دماغ ہوگا تو ہی سوچو گی۔" رانیہ نے طنز کیا۔
"تیرے پاس جیسے ہاتھی جتنا بڑا ہے۔"روکھے انداز میں جواب آیا۔
"دماغ تم دونوں میں ہی نہیں دراصل!...پاگل لڑکیوں میں اپنے ساتھ فیس پاؤڈر لائی ہوں نا۔"علیزہ نے اپنے عقل مند ہونے کا ثبوت دیا۔
"اوہ ہاں میں تو بھول گئی تھی۔"طیبہ پرسکون ہوگئی۔
"چلو اب ہم اپنا فوٹو شوٹ کر لیں۔"مجھے تو لگتا ہے شادی دوسرے لوگوں کے لیے فوٹوشوٹ کا میدان ہوتا ہے۔جہاں صرف وہ یہ کام دکھانے آتے ہیں۔انہیں بس تیار ہوکر تصویریں بنانے کی خوشی ہوتی ہے جس کو ان کے علاوہ کسی نے بھی نہیں دیکھنا ہوتا۔وہ اگلے کئی سال تک ان تصویروں کو دیکھ کر اپنا دل بھرتے رہتے ہیں۔اور پھر وہ تصویریں کہاں جاتی ہیں کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔پھر اس کے کچھ سال بعد انہیں اپنی تصویروں کو خود ڈیلیٹ کر دینے کا دُکھ کھاۓ رہتا ہے۔اور ایک عدد فون سے کیے گۓ فوٹو شوٹ کی بس اتنی سی کہانی ہوتی ہے۔جس کے لیے ہم ایک شادی پر خوار ہو کر رہ جاتے ہیں۔خیر میں جوان نسل کی بات کر رہی ہوں۔اور آج کل تو کچھ آنٹیوں کو بھی اس چیز کا شوق چڑھا ہوا ہے۔خیر ہم کیا کہہ سکتے ہیں سب کے پاس ہی دل ہوتے ہیں۔سب کا ہی دل کرتا ہے۔
"ایمن آپی ہُن ساڈیاں وی تصویراں کھچ ہی دے۔"رانیہ اپنے مخصوس پنجابی سٹائل میں بولی۔
"آ جاؤ کھڑے ہوجاؤ ایک ایک کر کے تصویریں بنا دیتی ہوں۔"ایمن نے انہیں تاکید کی۔جبکہ علیزہ کی نظریں اپنی ماں کو ٹھونڈ رہی تھیں۔اس کا بھی بڑا دل کر رہا تھا ایمن کے فون میں تصویریں بنانے کو۔ایمن کے فون کا کیمرہ رزلٹ بہت اچھا تھا اس کے فون کی بانسبت۔لیکن اسے اب اپنی ماں کے خوف نے آن گھیرا تھا۔وہی خاندانی لڑائیاں اور ان کی ناراضگیاں۔
"آجاؤ علیزہ! تمہاری بھی تصویر بنا دیتی ہوں۔"ایمن شاید اس کے دل کی بات کو جانچ چکی تھی۔علیزہ نرمی سے مسکرا دی۔لیکن دل اس کا تیز رفتاری سے دوڑ رہا تھا جیسے وہ خود کسی میرتھن کی ریس میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا ہو۔علیزہ ڈر کو بھاڑ میں جھونک کر سامنے جا کھڑی ہوئی۔اور تصویر بنوانے لگی۔اس نے جاتے ساتھ ہی ایکشن مار کر پوز جھاڑ دیا۔
"اوہو!...اوہو!...واہ علیزہ!"علیزہ کے ایکشن کو دیکھتے ہوۓ طیبہ،اریبہ اور رانیہ نے ہوٹنگ شروع کر دی۔علوینہ تو اندر آتے ہی پتا نہیں کہاں ہی غائب ہو گئی تھی۔خیر ان لوگوں نے کچھ دیر پہلر اسے دُلہن کی بہنوں کے ساتھ دیکھا تھا۔بےوفا علوینہ!
"کلچ!......کلچ!......کلچ!"ان لوگوں نے کیمرہ مین کو زبردستی اپنی تصویریں بنوانے کے لیے گھسیٹا تھا۔اب وہ بچارا ان کی تصویریں بنانے میں مصروف تھا۔
"پتا نہیں ہماری صلح کب ہوگی ایمن آپی سے!"علیزہ نے ایمن کو دیکھتے ہوۓ دل میں مایوسی سے سوچا۔خیر کون جانتا تھا آگے کیا کیا ہونے والا ہے۔

۞......۞......۞

"کیا حال ہے جانم؟"حدید نے ایمن سے فون کال پر پوچھا۔وہ لوگ فنکشن سے واپس آگۓ تھے۔وہ اب اپنے کمرے میں موجود تھی۔
"یہ فضول طریقے کے ناموں سے بلانا بند کر دو مجھے۔"ایمن اس کے جانم کہنے پر ایک دم سے سرخ ہوئی تھی۔
"کیوں جانم؟"وہ صدا کا ڈھیٹ انسان!
"مجھے اچھا نہیں لگتا سمجھے؟"وہ اس کے ڈھیٹ پن پر ناراضگی سے بولی۔
"کیوں اچھا نہیں لگتا جانم؟"وہ اسے تپانے لگا۔
"مجھے ایسے الفاظ بہت بےہودہ لگتے ہیں۔"اس نے غصے سے وجہ ظاہر کی۔خیر آگے حدید نے کیا کہنا تھا یہ اندازہ آپ سب کو بھی ہو گیا ہوگا۔
"کیوں بےہودہ لگتے ہیں جانم؟"اس شخص سے یہی توقع تھی۔
"دیکھو!......اگر تم ایسے الفاظ استعمال کرو گے تو میں تم سے بات نہیں کروں گی۔"وہ دھمکیوں پر اتر آئی۔
"اچھا اب دھمکی کیوں دیتی ہو جانم؟"وہ نہیں سدھر سکتا تھا۔ایمن نے ایک گہرا سانس لے کر افسوس کیا۔
"تم کیوں میری بات نہیں مانتے؟"
"لو!......یہ بھی کوئی ماننے والی بات ہے۔اب میں اپنی بیوی کو جانم نہیں کہوں گا تو اپنی سیکیٹری کو کہوں گا۔"وہ معصومیت سے بولا۔
"خاموش ہوجاؤ!......تمہیں نہیں لگتا تم بہت بولتے ہو!"وہ چڑ کر بولی۔
"لو بھلاں!...میں کہاں بولتا ہوں اتنا؟"وہ حیران ہوا۔
"جب دیکھو چپڑ...چپڑ...چپڑ سٹارٹ ہوتی ہے تمہاری۔"کیا جواب دیا گیا۔
"ہاں تو جن سے محبت ہوتی ہے انہیں سے بہت سارا بولتے ہیں۔"وہ اس وقت اپنے کمرے میں بیٹھا سرِعام راحیل کے سامنے گفتگو میں محو تھا۔راحیل تو بس اسے گھوری جا رہا تھا۔حدید نے دونوں ابرو اچکا کر اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اور کوئی کام دھندا نہیں تمہیں۔
"بےشرم!"راحیل سر جھٹک کر کہتے ساتھ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"مجھ سے یہ محبتوں والے بول نہ بولا کرو۔"اسے عجیب سا محسوس ہورہا تھا۔
"کیوں جانم؟" وہ پھر سے اپنی "جانم جانم" شروع کر چکا تھا۔
"اُف!......"ایمن نے نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔
"کیا ہوا جانم؟"اس کی معصومیت ناقابلِ یقین تھی۔
"تم اپنی یہ بکواس بند کرو جانم جانم!"وہ اکتائی۔
"شکریہ جانم۔"وہ شرمیلے انداز میں بولا۔
"کس لیے؟"وہ حیران ہوئی۔
"مجھے جانم کہنے کے لیے۔"اس کا انداز پھر سے شرمیلا تھا۔
"رحم کرو مجھ پر حدید!..."وہ جیسے ہاتھ جوڑ چکی تھی اس کے سامنے۔
"کیوں جانم؟" وہ پھر سے چپڑ چپڑ شروع ہو چکا تھا۔
"اُف میرے خدایا۔"ایمن نے کہا اور فون کاٹ دیا۔حدید نے مسکرا کر اپنے فون کی جانب دیکھا جو کہ کٹ چکا تھا۔اس کی مسکراہٹ تو تب سمٹی جب اس نے سامنے دیکھا۔راحیل ہاتھ باندھے اس کے سامنے ہی کھڑا تھا۔
"تم گۓ نہیں تھے؟"اس نے اچھنبے سے پوچھا۔
"آپ جناب کی گفتگو اتنی دلچسپ تھی مجھے موقع ہی نہ ملا۔"اس نے کندھے اچکاۓ۔
"بیٹا یہ تو میں تب کہوں گا جب تم رامین سے باتیں جھاڑ رہے ہو گے۔"وہ بھی ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔راحیل نے حیرت سے اسے دیکھ کر اپنا تھوک نگلا۔
"کون رامین؟"وہ انجان بن گیا۔
"یہ رامین!..."اس نے اپنے فون کی سکرین اس کے سامنے کی۔جہاں پر راحیل کسی ریستوران میں ایک عدد لڑکی کے ساتھ بیٹھا کھانا نوش فرما رہا تھا۔
"یہ......یہ کون ہے؟"اس نے اپنی ساری حیرت پر قابو پایا اور پھر سے انجان بن گیا۔
"بیٹا جی یہ تو آپ کو تب یاد آۓ گا جب میں ابّا حضور کو یہ تصویر دِکھاؤں گا۔"کہتے ساتھ ہی وہ کمرے سے نکلنے لگا۔راحیل نے ہڑبڑا کر جھٹ سے اس کی کہنی تھامی۔
"یار کیوں میری عزت کا بیڑا تڑ کروانا چاہتا ہے؟میں بھی تو تیری ہر بات چھپاتا ہوں بابا سے۔"راحیل جیسے منت کرنے لگا۔
"اچھا!...کیا بات چھپائی ہے تم نے میری بابا سے آج تک؟"وہ جیسے پوچھ رہا تھا۔
"یہی کہ تو لاہور نہیں بلکہ خانیوال گیا تھا۔"راحیل نے اسے ایک عدد مثال پیش کی۔
"تو؟........."وہ حیرت میں غوتے کھاتے ہوۓ بولا،"میں ڈرتا تھوڑی ہوں تم بتا دو جا کر۔"اس نے بھی آرام سے شانے اچکا دیے۔راحیل کا ہارٹ فیل ہوتے ہوۓ رہ گیا۔
"میری عمر کا ہی لحاظ کر لے دو سال بڑا ہوں تجھ سے۔"راحیل نے اسے شرم دلائی۔اور وہ ٹھہرا صدا کا بےشرم۔
"بیٹا تمہارا پتہ تو میں کٹواتا ہوں۔"وہ اپنی کہنی جھٹک کر پھر سے باہر جانے لگا۔راحیل پھر سے ہڑبڑاتا ہوا اس کے پیچھے گیا۔
"اچھا اچھا یار!......تو میرا پیارا چھوٹا سا بھائی نہیں۔دیکھ میں تیری طرح دلیر تھوڑی ہوں جو سیدھا جا کر اس لڑکی سے نکاح کر لوں۔اس کے لیے بابا کو منانے کے لیے مجھے وقت چاہیے اور تم سیدھا جا کر ان کے سر پر ایٹم بم پھینکنے کی تیاری کیے بیٹھے ہو۔"
"واٹ؟......تم مجھ پر طنز کر رہے ہو۔"وہ اپنی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوۓ حیرت سے منہ کھول کر پوچھنے لگا۔
"یار میری توبہ جو میں تم پر طنز کروں۔"وہ چڑچڑے انداز میں بولا۔
"لیکن میرا بڑا دل کر رہا ہے یہ تصویر ان کو دکھانے کو۔آۓ ہاۓ کتنا مزہ آۓ گا نا جب وہ یہ دیکھیں گے۔ان کی نظر میں اگر نکاح کر کے میں بُرا بن گیا ہوں تو تمہیں رنگ رلیاں مناتے دیکھ تو ضرور ان کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔"وہ تصوّر میں ہی یہ سب سوچ کر خوش ہوگیا۔اور پھر سے باہر جانے لگا۔لیکن راحیل کی اگلی بات پر اس کے قدم ایک دم سے ساکت ہوگۓ۔
"تجھے ایمن کا واسطہ ہے یار۔" اس نے ایمن کا واسطہ دیا تھا۔وہ کیسے نہ رُکتا۔
"ٹھیک ہے۔"وہ آنکھیں گھما کر بولا اور پھر سے جا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔کیا چیز تھی یہ ایمن بھی۔
"شکر الحمدللّٰہ!"اس نے شکر کیا اور ڈھ جانے والے انداز میں بیڈ پر دراز ہو گیا۔جیسے پتا نہیں کون سی جنگ عظیم جیت لی ہو۔

۞......۞......۞

جاری ہے......

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Where stories live. Discover now