باب : ١٨

181 17 9
                                    

گوہر کی بجتی فون بیل نے اسے جگانے پہ مجبور کر دیا۔وہ نیند کی حالت میں اٹھ بیٹھی۔اس نے پہلے سامنے گھڑی کی طرف دیکھا جو کہ صبح کے پانچ بجا رہی تھی۔مرتی کیا نا کرتی اس نے سائڈ ٹیبل پہ سے فون اٹھایا اور سکرین پہ جگماتا نمبر دیکھ کر وہ چونک گئی۔ہمنہ کی کال تھی۔کئی وسوسے ایک ساتھ ہی ذہن میں امنڈ آۓ۔
”خیریت ہمنہ؟اتنی صبح صبح کال؟“آنکھوں کو مسلتی وہ دریافت کرنے لگی۔
”خیر نہیں ہے آپی۔حدید بھائی نے نیند کی گولیاں اتنی زیادہ مقدار میں کھا لیں ہیں کہ ہم سب اس وقت ہسپتال میں ہیں۔“ہمنہ نے جیسے بم پھوڑا تھا۔وہ شدتِ غم سے رو رہی تھی۔
”یہ……یہ کیا کہہ رہی ہو؟“وہ بےیقین ہوئی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہوں۔مرتے مرتے بچے ہیں وہ۔اب آپ بس جلدی سے ملتان آ جائیں۔“
”لیکن اس نے ایسا کیوں کیا؟“عجیب کی سی حالت ہو رہی تھی گوہر کی۔وہ متذبذب تھی'پریشان تھی۔
”پتا نہیں آپی۔یہ تو اب وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔آپ بس جلدی سے آ جائیں۔“ہچکیوں کے ساتھ کہتی وہ  گوہر کا دماغ درست کر گئی۔
”ا……اچھا میں آتی ہوں۔“شور کی وجہ سے فراز بھی آنکھیں مسلتا ہوا اٹھ بیٹھا۔
”کیا ہوا؟کون تھا فون پہ؟“
”فراز!ہمنہ کا فون تھا۔حدید نے نیند کی گولیاں کھا لیں ہیں پتا نہیں کیوں؟“کہتے ہوۓ وہ خود بھی رونے لگی۔
”کیا؟……وہ ٹھیک تو ہے نا؟اس نے گولیاں کیوں کھائیں؟“وہ پریشان ہوا۔
”پتا نہیں۔بس آپ جلدی سے ملتان لے چلیں مجھے۔“وہ رنج میں تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے تم اٹھو اور تیار ہو جاؤ ہم ابھی نکلتے ہیں۔“
گوہر نے اثبات میں سر ہلایا۔اور وہ دونوں ہی اٹھ کھڑے ہوۓ۔

۞__۞__۞
”ایمن دروازہ اچھی طرح بند کر لو ہم ملتان جا رہے ہیں۔ابو اٹھیں تو انہیں بھی بتا دینا۔“وہ آگاہ کر رہا تھا جبکہ ایمن متحیر تھی۔
”خیریت بھائی؟اتنی صبح صبح ملتان۔“
”ہونہہ۔حدید نے نیند کی گولیاں کافی زیادہ مقدار میں کھا لیں ہیں۔مرتے مرتے بچا ہے۔ہم ہسپتال جا رہے ہیں اسی کے پاس۔“فراز متذبذب دکھائی دے رہا تھا۔جبکہ ایمن تو ایک جگہ منجمد ہو گئی تھی۔
”ک…کیا؟لیکن کیوں؟“ہمت مجتمع کر کے اس نے پوچھ ہی لیا۔
”یہ تو وہاں جا کر ہی معلوم ہوگا۔“
”چلو!…فراز۔“گوہر محمل کو گود میں اٹھاۓ ایک نظر تنفر سے ایمن کو دیکھ کر فراز کی طرف متوجہ ہوئی۔
”ہونہہ!…چلو۔“فراز راہداری کی جانب بڑھ گیا جبکہ گوہر ایمن کے مقابل کھڑی ہوئی۔
”ضرور یہ تمہاری بدعاؤں کا نتیجہ ہے جو میرا بھائی اس حال میں ہے۔پانچ وقت کی نمازیں بھی ضرور اسی لیے پڑھتی ہوگی کہ گوہر کی ساری خوشیاں چھن جائیں۔“کراہت سے ایمن کو دیکھتی وہ راہدای کی طرف بڑھ گئی۔
ایمن ابھی تک بےحس و حرکت اور ساکت کھڑی تھی۔اس کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔سب کچھ دماغ میں اکٹھا ہوگیا تھا ایک ساتھ اور وہ اپنے قصوروار نہ ہونے کی دلیل خود کو ہی دے رہی تھی۔
راہداری کا دروازہ جب کھٹ سے بند ہوگیا تو وہ ہوش کی دنیا میں پٹخی۔
قدم قدم چلتی وہ دروازے کی طرف بڑھی۔قدم من بھر کے ہو رہے تھے۔کوئی احساس محسوس ہونے سے قاصر تھا سواۓ ایک احساس کے۔اسے قصوروار ہونے کے۔
دروازے کو آہستگی سے بند کر کے وہ اپنے کمرے کی جانب بھاگی۔حدید کے الفاظ ہتھوڑے کی طرح اس کے کانوں میں برسنا شروع ہوچکے تھے۔
(مجھے وصل کا انتظار ہے ہجر کا نہیں۔اگر تم نہ مانی تو مجھے مرنا بہت پسند ہے۔)
وہ کمرے کے دروازے کی چٹخنی چڑھاتی پلٹی اور اپنے بال نوچتے ہوۓ بیڈ پہ تقریباً دھپ سے بیٹھ گئی۔آنکھوں سے اشک بےوجہ ہی بہنے لگے تھے۔
”میرا……میرا کوئی قصور نہیں۔میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔یہ سب…یہ سب اس نے کسی اور وجہ سے کیا ہوگا میری وجہ سے نہیں۔یقیناً اسے کوئی اور پریشانی ہوگی۔“وہ خود کو تسلی دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی تھی لیکن دماغ میں گردش کرتی اس بات کو وہ کیسے جھٹلاتی جو حدید نے اس سے کہی تھی۔
”یا اللہ……کوئی اور وجہ ہو جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کیا ہو۔یہ میری وجہ سے نہ ہوا ہو بس۔“وہ آنسو پینے کی جدوجہد کرتی لیکن آنسو تو بےاختیار ہوتے ہیں۔باہر نہیں گرتے تو دل پہ گرتے ہیں۔
”یا اللہ میں کیا کروں؟کس کے پاس جاؤں؟مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔اگر یہ سب میری وجہ سے ہوا ہوگا تو میں کیا کروں گی۔یا اللہ مجھے کوئی راستہ دکھا۔“اللہ سے دعا گو ہوتی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Where stories live. Discover now