باب : ٢

326 21 17
                                    

اس کی آنکھ اپنے فون کی بجتی گھنٹی سے کھُلی۔وہ ابھی بھی دروازے سے ٹیک لگاۓ اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی،آنکھوں کے پپوٹے رونے کی وجہ سے سوجھ چکے تھے۔اچانک ہی اسے دوپہر میں شگفتہ سے کی جانے والی گفتگو یاد آئی اور ایک بار پھر سے اس کی آنکھوں سے آنسؤں کی برسات جاری ہوچکی تھی۔اُسے تو کب سے چیختے چنگھارتے اپنے فون کی بھی پرواہ نہ تھی۔وہ اپنے رونے کے شغل میں پھر سے مصروف ہوچکی تھی۔لیکن فون کرنے والا بھی نہایت ہی ڈھیٹ معلوم ہوتا تھا،فون نہ اٹھاتے دیکھ بھی اس نے اپنی کوشش تُرک نہ کی تھی۔فون مسلسل بج رہا تھا لیکن مالک کو تو جیسے ہوش ہی نہ تھا اور فون کرنے والا بھی شاید اپنے ہوش سے غافل تھا جو فون پر فون کر رہا تھا۔ایمن تنگ آکر اٹھی اور مرے ہوۓ قدموں سے چلتی ہوئی اپنے ٹیبل پر پڑے فون کی طرف بڑھی۔سامنے جگمگاتا نام دیکھ تو اس کا منہ غصے کی شدت سے سرخ ہوچکا تھا۔اس نے ایک بھی لمحے کی تاخیر کیے بغیر فون اٹھایا اور تقریباً چیختے ہوۓ بولی۔
"مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ہاں؟خاندان میں ذلیل و خوار کر کے بھی تمہیں سکون نہ ملا جو اب تم مجھے فون کر کے میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہو۔"
"ہوا کیا ہے ایمن؟ایسے کیوں بات کر رہی ہو؟"فون میں سے حدید کی بھاری اور فکر مند آواز گونجی۔
"واہ!......یہاں پر میری عزت کو تار تار کرکے تم پوچھ رہے ہو کہ کیا ہوا!"وہ طنزً بولی۔
"ہوا کیا ہے ایمن!مجھے بتاؤ تو سہی کیا ہوا ہے؟"وہ بہت بےچین اور فکر مند دکھائی دیتا تھا۔اس وقت وہ اپنے آفس میں موجود تھا۔
"شرم آ رہی ہے تمہیں مجھے رُسوا کر کے؟"غصے اور غم کی شدت سے اس کی آواز بھیگ گئ۔
"خُدارا مجھے سچ میں نہیں معلوم کہ تم ایسے پیش کیوں آرہی ہو۔"اس کی بھیگی آواز سُن کر وہ فوراً سے اپنی آفس چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"ہاہ!......کیا ضرورت تھی باجی گوہر کو نکاح نامہ دکھا کر سب کچھ بتانے کی......انہوں نے مجھے سارے خاندان میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔"روتے ہوۓ کہتے ساتھ وہ آخر میں پھر سے چیخی۔حدید اپنی جگہ ساکت کھڑا رہ گیا تھا۔اس کے تو ذہہن و گماں میں بھی نہیں تھا کہ گوہر ایسا کر جاۓ گی۔ایمن اب پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ایک تو اس کا رونا اسے شدید تکلیف میں مبتلا کر رہا تھا۔
"پلیز ایمن!خود کو سنبھالو،خدارا مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ ایسا کر جائیں گی۔"آفس میں ٹہلتے ہوۓ اس نے اپنی کنپٹی کو دو انگلیوں سے مسلا۔اسے اس وقت حد سے زیادہ بےچینی محسوس ہورہی تھی۔
"بس کر جاؤ!......مت کرو اتنا دِکھاوا......میرا دل کٹ جاتا ہے۔"وہ روتے ہوۓ التجائیہ بولی،اب تو حدید کا دل بھی کٹ کے رہ گیا،وہ اس کی محبت کو کیسے دِکھاوے کا نام دے رہی تھی۔
"ایمن پلیز!......ایسے مت کہو۔"وہ جیسے اس کی منت کرنے لگا۔
"چُپ کر جاؤ تم!......جب سے میری زندگی میں داخل ہوۓ ہو،میری زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیا ہے تم نے۔معلوم نہیں کون سی منہوس گھڑی تھی جب میرا تم سے پالا پڑ گیا تھا۔"اس کا لہجہ ٹوٹا اور بکھرا ہوا تھا،حدید کا مانو کسی نے دل پسیج لیا تھا۔
"صبر رکھو ایمن!......سب کچھ ٹھیک ہوجاۓ گا۔"اس نے اسے پرسکون کرنے کی ایک ناکام سی کوشش کی۔
"کیسے صبر رکھوں میں......کیسے پرسکون ہو جاؤں،ہاں!......میرا دل پھٹ رہا ہے حدید۔مجھے ایسے لگتا ہے مجھے کچھ ہوجاۓ گا۔"وہ ڈھے جانے والے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی،"نہیں ہے مجھ میں ہمت زمانے سے لڑنے کی......اب کیسے مقابلہ کروں گی میں لوگوں کا۔"ایک بار پھر سے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔حدید نے فوراً سے فون کاٹ دیا۔اسے تکلیف میں دیکھ کر خود ہھی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔وہ کس منہ سے اسے چُپ کرواتا!سارا کیا دھرا تو اسی کا تھا،وہ صرف اس کی وجہ سے تکلیف میں تھی۔وہ خود بھی بےبس ہوگیا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ایک طرف اس کے آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے تو دوسری طرف اسے اپنی آپی پر حد سے زیادہ غصہ آرہا تھا۔
"یا اللّٰہ! ایمن کو صبر عطا کر،اسے ہمت دے۔"چہرے پر تھکے ہوۓ انداز میں ہاتھ پھیرتا وہ جھٹ سے اپنی ٹیبل کی طرف بڑھا اور وہاں سے اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھاتا وہ آفس سے باہر نکل گیا۔اس وقت اس کا ارادہ اپنی آپی کی خبر لینے کا تھا،جو اس کے غصے کو ہوا دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی۔

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora