باب : ٩

216 21 6
                                    

آج ولیمہ تھا۔یعنی شادی کی تقریبات کا آخری دن۔وہ سب ہی مایوس دکھائی دے رہی تھیں۔آج ساری تقریبات کا آخر تھا یہ سوچ کر ہی انہیں ہول اٹھ رہے تھے۔پھر کل سے وہی روٹین سکول اور کالج کی۔صبح جلدی اٹھنا۔اُف۔
"یار آج شادی ختم ہوجاۓ گی۔"علیزہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"ٹھیک کہا یار! اتنے دن سے ہم سب شادی کی تیاریاں کر رہے تھے۔چار دن میں ہی شادی کا کا اینڈ ہوگیا۔"طیبہ کا بھی منہ لٹکا ہوا تھا۔
"مجھے تو سب سے زیادہ صبح جلدی اٹھ کر سکول جانے کی ٹینشن ہے۔میرے تو بورڈ کے پیپرز بھی ہونے والے ہیں۔میری زندگی کا پہلا بورڈ۔"علیزہ نویں جماعت کی طلبہ تھی۔یہ فکر تو ہونی ہی تھی۔
"ہاۓ! تجھے پتا ہے بورڈ کے پیپرز میں لڑکیاں کیسے تیار ہو کر آتی ہیں!"طیبہ نے پرجوشی سے اس سے پوچھا۔علیزہ نے نفی میں سر ہلایا۔
"کچھ لڑکیاں تو شرارے گرارے پہن کر آ جاتی ہیں۔رانیہ بتا رہی تھی جب وہ پیپر دینے گئی تھی نا تو ایک لڑکی تو تقریباً پوری دلہن بن کر آئی ہوئی تھی۔"طیبہ خوش ہوتے ہوۓ بتایا۔
"ہیں سچی!..."علیزہ بےیقین تھی۔
"ہاں یار! تجھے رانیہ سے پچھوا دیتی ہوں۔"کہتے ساتھ ہی طیبہ نے اپنی ٹیبل سے در کھڑی رانیہ کو آواز دی جو کہ ایمن کے فون کو پوز مار کر دکھا رہی تھی۔رانیہ ان کے بلاوے پر فوراً سے ان کی ٹیبل کے قریب آئی۔
"ہاں کیا ہے؟"رانیہ نے سوال کیا۔تو طیبہ نے اسے ساری بات بتائی۔
"ہاں یار ایک لڑکی آئی تھی پوری ہی دلہن بنی ہوئی تھی۔شاید شادی شدہ تھی۔کیا اس نے منہ پر میک اپ تھوپا ہوا تھا،شرارہ پہنا ہوا تھا،بندی لگائی ہوئی تھی اور ہاتھوں میں بھر بھر کر چوڑیا پہنی ہوئی تھیں۔اس کا شرارہ بلکل ریڈ کلر کا تھا۔"رانیہ نے کھی کھی کرتے ہوۓ اسے بتایا۔علیزہ کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔وہ اب بھی بےیقین تھی۔
"یار اسے شرم نہیں آئی ہوگی ایسے تیار ہوکر آتے ہوۓ۔"علیزہ صدا کی بےشرم خود ایسی بات کر رہی تھی۔
"کوئی ناں۔وہ تو مٹک مٹک کر چلتی پھر رہی تھی۔"رانیہ نے منہ بنا کر ایک ادا سے کہا۔ان کی گفتگو ایسے ہی جاری تھی۔
"کیا باتیں چل رہی ہیں؟"ایمن،زرتاشہ،اریبہ اور سعدیہ بھی ان کے قریب آکر بیٹھ گئیں۔سعدیہ اریبہ کی بڑی بہن تھی۔جس کے پیپرز کل ختم ہوۓ تھے اور وہ کل رات ہی اپنی ماما کے ساتھ آئی تھی۔جبکہ اریبہ پہلے ہی آچکی تھی۔
"ایمن آپی آپ کو پتا ہے یہ طیبہ اور رانیہ مجھے کیا بتا رہی ہیں۔"علیزہ نے کہا اور پھر ساری رام گھڑت انہیں سنا دی۔
"شادی شدہ ہوگی۔"ایمن نے ٹھیک اندازہ لگایا۔
"ہاں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔"رانیہ نے اس کی تائید کی۔
"یہ اریج کو تو ولیمے والے دن بھی چین نہیں ہے۔کب سے بچارے ڈانس فلور کی کمر توڑ رہی ہے۔"علیزہ نے چغلی کا ایک نیا موضوع نکالا۔وہ سب بھی اس موضوع کو تفصیلاً جاری کر چکی تھیں۔
"تم لوگ بھی کوئی ڈانس وغیرہ کر لو!..."وہ ساری اب ڈانس فلور کے سامنے کھڑی ان کو ڈانس کرتے ہوۓ تاک رہی تھیں جب بلال بولا۔
"ہاں ہاں!......تا کہ کل ہم لوگ پورے خانیوال میں مشہور ہو جائیں......دیکھ نہیں رہے آپ کتنے سارے باہر کے لوگ کھڑے ویڈیوز بنا رہے ہیں۔پتا نہیں وہ ویڈیوز کہاں کہاں تک جائیں گی اور کتنے لوگ اسے دیکھیں گے۔"علیزہ کا منہ کھُلا تو اس میں سے اس بار سمجھداری کی باتیں ٹپکنے لگیں۔بلال کا منہ بھی بند ہوچکا تھا۔ان سب نے علیزہ کی بات پر اپنی مسکراہٹیں دبائی تھیں۔
"دیکھا میں نے کہا تھا نا!......کہا تھا نا میں نے!......یہ بھائی بلال کب سے اس اریج کی تاک میں ہیں۔میں پہلے ہی بتا رہی ہوں میری چھٹی حس بڑی خراب والی خبریں دے رہی ہے۔"علیزہ نے رانیہ کے کان میں سرگوشی کی تو اس بار رانیہ کو بھی یقین ہونے لگ گیا۔لیکن پھر سے سر جھٹک دیا۔یہ سوچ کر کہ وقتی ٹھرک پن ہے۔

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Where stories live. Discover now