باب : ١٥

225 22 9
                                    

"حدید!...یار دروازہ کھول دو۔"
راحیل کب سے دروازہ پیٹتے ہوۓ اس کی منت کر رہا تھا۔
"حدید یار! بتا تو سہی ہوا کیا ہے؟"وہ مسلسل دروازے پر ہاتھ مار رہا تھا۔
"آج کورٹ کی پیشی تھی،بتا کچھ ہوا ہے وہاں پر؟"ْوہ اس کے لیے بہت فکر مند تھا،آخر بڑا بھائی جو ٹھہرا۔
"پلیز حدید!...میرا دل بہت گھبرا رہا ہے کچھ تو بتا۔"اس کی پریشانی میں گھری آواز حدید صاف سُن سکتا تھا۔
"دیکھ!...اگر اب تو نے دروازہ نہ کھولا نا تو میں......میں دروازہ توڑ دوں گا۔"اب وہ اسے خبر دار کر رہا تھا۔
پھر بھی جب حب حدید نے دروازہ نہ کھولا تو وہ تیار ہوگیا...دروازہ توڑنے کے لیے۔
"دیکھ!...میں دروازہ توڑنے لگا ہوں۔پھر نہ کہیں کہ بتایا نہیں......ایک ، دو ، تین ......"وہ دروازہ توڑنے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ آگے بڑھا ہی تھا کہ دروازہ کھول دیا گیا۔
سامنے کا منظر دیکھ کر راحیل کا دل ایک دم زور سے دھڑکا۔آنکھوں میں حیرت ، فکر مندی اور تکلیف ، سب کچھ ایک ساتھ سمٹ آیا۔
وہ سفید شرٹ اور کالی پینٹ میں ملبوس تھا۔شرٹ کا ایک کونہ پینٹ کے اندر تھا جبکہ ایک کونہ پینٹ سے باہر۔گریبان کے دو بٹن کھُلے ہوۓ تھے۔بال ماتھے پر بکھرے ہوۓ تھے۔اس کی ناک اس وقت حد سے زیادہ سُرخ ہورہی تھی۔آنکھوں میں گلابی لکیروں نے اپنا قبضہ کر رکھا تھا،جو کہ صاف اس کے رونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔وہ اس وقت ٹوٹی،بکھری حالت میں دکھائی دیتا تھا۔
راحیل نے آج سے پہلے اسے کبھی بھی اس حالت میں نہیں دیکھا تھا۔وہ تو بہت زیادہ پُر اعتماد شخص تھا۔تو پھر آج ایسا کیا ہوا تھا جو وہ اس حالت میں تھا۔اس کا دل کٹ رہا تھا۔
"حد......حدید! میری جان یہ......"
اس سے پہلے کہ وہ وہ کچھ بولتا،حدید کی اگلی حرکت نے اسے منجمد کر دیا۔وہ اس کے گلے لگا پھوٹ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔وہ ساکت تھا،بےیقین تھا،وہ تو جیسے حرکت کرنا بھول گیا۔ساری کائنات جیسے تھم سی گئی تھی،اگر کچھ سنائی دے رہا تھا تو وہ اس کے بھائی کی سسکیاں تھیں۔
"ک...کیا گوہر آپی تم لوگوں کو م...مجھ سے زیادہ پیاری ہیں؟"وہ ہچکیوں کے درمیان اٹکتے ہوۓ بولا۔راحیل کے تو دل کی دنیا تہس نہس ہوچکی تھی۔
"ان کے رشتے کی آڑ میں بابا میرا رشتہ کیوں خراب کر رہے ہیں؟"
سیڑھیاں چڑھتے ریاض صاحب کی سانس جیسے ساکن ہوچکی تھی۔وہ خود بھی زینے پر ساکت تھے۔
"آخر کون سا ات...اتنا بڑا گناہ کر دیا میں نے؟صرف ایک نکاح ہی تو کیا تھا۔کیا نکاح کرنا غلط ہے؟"
اس کی بھیگی آواز،اس کی ہچکیاں،ان دو وجود کا دل چیر رہی تھیں۔
"مانتا ہوں طر...طریقہ غلط تھا میرا،لیکن...لیکن اگر میں آپی،بابا یا ماما سے کہتا تو کوئی مانتا؟"
راحیل کی آنکھوں سے کب بےاختیار آنسو بہنا شروع ہوۓ اسے معلوم ہی نہ ہوا۔اس کی زبان پر تو جیسے قفل لگ چکے تھے۔ہاتھوں نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
"راحیل!...راحیل!مجھے وہ چاہیے،مجھے میری محبت چاہیے۔"وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔
ریاض صاحب کی آنکھوں کے سامنے کل کا منظر پھر سے لہرایا جب وہ اپنے بیٹے سے کہہ رہے تھے کہ...
"تو میں تمہیں ساری جائیداد سے عاق کر دوں گا۔"کہہ کر انہوں نے حدید کے چہرے پر کچھ تلاش کرنا چاہا۔
حدید کچھ دیر تو انہیں اچنبھے سے دیکھتا رہا اور پھر اس کا قہقہہ بےساختہ تھا۔
"ہاہاہاہا...آپ کو کیا لگا؟آپ مجھے...آپ مجھے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دیں گے اور میں مان جاؤں گا؟"وہ ہنس رہا تھا۔وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا۔ریاض کو اس کی عقل پہ شبہ ہوا۔انہیں لگا وہ شاید ان کی بات کا تمسخر اڑا رہا ہے یا پھر اسے شدید صدمہ لگا ہے۔اس کا وہ تاثر بلکل نہ تھا جو انہیں لگا تھا کہ ہوگا۔
کچھ دیر بعد اس کا قہقہہ تھما،مسکراہٹ سمٹی،اور چہرے کے نقوش تن گئے۔"آپ مجھے جائیداد سے عاق کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں۔ارے میں لات مارتا ہوں آپ کی اس جائیداد کو۔"
کہہ کر اسے نے جھٹ سے اپنی کلائی سے برینڈڈ گھڑی اتاری اور بیڈ پہ اچھال دی۔پھر اپنی جیب سے بٹوا نکالا اور وہ بھی بیڈ پہ اچھال دیا۔
ریاض نے ایک نظر بیڈ پہ بکھری چیزوں پہ ڈالی اور پھر اپنے بیٹے پہ۔جو انہیں سختی سے گھورتا مڑ گیا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے کے دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ ریاض نے اسے روکا۔"رُکو برخوردار!"
وہ رُکا تھا لیکن ابھی بھی اس کا رُخ دروازے کی جانب تھا۔
"یہاں سے نکلنے کے بعد کہاں جاؤ گے؟"ْوہ شاید پوچھ رہے تھے۔لیکن حدید نے کوئی جواب نہ دیا۔
"ایمن کے گھر؟"جواب نہ پا کر انہوں نے خود ہی اندازہ لگایا۔
"مثال کے طور وہ تمہارے ساتھ رہنے بھی لگے گی۔جہاں تم کہو گے۔لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟"
وہ کچھ دیر کو خاموش ہوۓ اور پھر سے بولے۔
"تمہارے گھر میں رزق کی تنگی ہوگی۔تمہاری اتنی تعلیم نہیں ہے کہ کہیں تمہیں اچھی نوکری ملے۔اور مثال کے طور پر اگر کہیں مل بھی گئی تو کیا ہوگا؟......میں تمہیں وہاں سے فارغ کروا دوں گا۔بلکہ جہاں بھی تم نوکری کرو گے وہاں سے میں تمہیں فارغ کروا دوں گا۔تم سڑک پر آجاؤ گے۔تم کہاں سے کھلاؤ پلاؤ گے اپنی بیگم کو۔بیوی ہوگی تو ظاہر ہے بچے بھی ہونگے،ان کو کہاں سے کھلاؤ پلاؤ گے؟...بھوکا مارو گے انہیں،یا مز دوری کرو گے؟......وہ پڑھی لکھی لڑکی تمہارے ساتھ رہ لے گی ایسے حالات میں؟جس کو ان مشکلات میں ڈالنے والے بھی تم خود ہو۔"
ریاض نے اسے جیسے حقیقت کا آئینہ دکھایا تھا۔اس کے جسم سے تو گویا روح فنا ہو گئی تھی۔ان کی کسی ایک بات میں بھی اسے ایسا نہیں لگا کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں یا پھر جھوٹ بول رہے ہیں۔اسے اپنے باپ کی بےحسی پہ شدید حیرت ہوئی تھی۔
وہ آہستہ سے مُڑا اور شاکڈ کی سی کیفیت میں اپنے باپ کو دیکھا۔
"سچ ہے۔کڑوا ضرور ہوگا لیکن نگلنا تو پڑے گا ہی۔میں تمہیں بس حقیقت سے آشناس کروا رہا تھا۔آگے تمہاری مرضی۔اب یہ تم پہ منحصر کہ تم ایمن کو ایک اچھی زندگی دینا چاہتے ہو یا عدالت کے سامنے میری کہی ہوئی باتیں کہتے ہو۔"
کہہ کر وہ رُکے نہیں اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے کمرے سے باہر نکل گئے۔اور وہ تو ایک دم ساکت کھڑا رہ گیا تھا اپنی جگہ پر۔
کل کا منظر آنکھوں سے جیسے دھوئیں کی طرح غائب ہوا تھا۔انہیں یاد تھا کیسے وہ اپنی گفتگو کے تیر اس پہ برسا کر گئے تھے۔انہیں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔انہیں اس ماحول سے گھٹن ہونے لگی۔یا پھر ان کی روح کو اپنے وجود سے گھٹن ہو رہی تھی۔انہیں اپنے گال پر کوئی تر چیز محسوس ہوئی۔انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اپنے گال کو چھوا تو وہ حیران رہ گئے۔وہ رو رہے تھے۔
وہ لڑکا اگر خود رویا تھا تو اس نے کسی اور کو بھی رُلانے کی کسر نہ چھوڑی تھی۔
انہیں سانس لینا مشکل لگ رہا تھا۔انہوں نے اپنا سینا ہتھیلی سے مسلا۔
"اگر...اگر وہ میری زندگی میں نہیں آئی تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا۔میں...میں خود در بدر کے دھکے کھا لوں گا۔مر جاؤں گا لیکن یہاں نہیں آؤں گا کبھی۔"وہی بھیگا لہجہ،وہی ہچکیاں ریاض کو اپنا دل پھٹتا محسوس ہوا۔وہ وہاں سے جانے کے لیے مُڑے ہی تھے کہ ان سے دو زینے چھوڑ کر نیچے زینب کھڑی تھیں۔وہ خود بھی رو رہی تھیں۔بلکہ وہ ہی نہیں،نیچے لاؤنج میں سارا گھر اکٹھا تھا۔اور تقریباً سب کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ریاض کا چہرہ جھک گیا۔وہ تو اپنے آپ سے بھی نظر ملانے کے قابل نہ رہے تھے۔
حدید کے رونے کی آواز اتنی بلند تھی کہ سب لوگ سن چکے تھے۔اس کی باتیں،اس کی بےلگام ہچکیاں،سب کے کانوں میں سیسہ انڈیل رہی تھیں۔
ہمنہ،گوہر،راحیل اور حدید کے سب سے بڑے بھائی جو کہ ابھی ہی تشریف لاۓ تھے وہ بھی۔گوہر بھی موجود تھی،لیکن وہ رو نہیں رہی تھی،پر اس کی آنکھیں نم تھیں۔چھوٹے بھائی کی تکلیف...سب بہن بھائیوں کو ہی محسوس وہ رہی تھی۔
"راحیل!...اب وہ مجھ سے کبھی بات نہیں کرے گی۔میں نے آج اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بےیقینی دیکھی ہے۔اس کا...اس کا مان توڑ دیا میں۔اس کا بھروسہ...سب کچھ خاک میں ملا دیا میں نے۔وہ مجھ پہ یقین کرنے لگی تھی۔وہ بھی توڑ دیا میں نے۔آخر میری ہر غلطی کا خمیازہ وہ لڑکی ہی کیوں بھگتے؟"وہ آخر میں روتے ہوۓ چیخا تھا۔
سب لوگوں کو اس کی چیخ اپنے کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔
راحیل کے ہاتھوں نے آہستہ سے حرکت کی۔اور اس کی پیٹھ کو آہستہ سے تھپکا۔شاید وہ حوصلہ دینے کی شروعات کر رہا تھا۔لیکن وہ ناکام ہو رہا تھا۔اس کے لب آہستہ سے وا ہوتے لیکن اس کی ہچکیاں سُن کر فوراً سے بھینج جاتے۔

جاری ہے......

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Where stories live. Discover now