باب :٧

209 17 2
                                    

"کہاں سے تشریف لا رہے ہو دو دن بعد؟"ریاض نے اسے سیڑھیاں پھلانگ کر آتے دیکھ پوچھا۔وہ اس وقت لاؤنج میں بیٹھے چاۓ پی رہے تھے۔زینب بھی کچن سے نکل آئی تھیں۔
"لاہور گیا تھا آؤٹنگ پر!"اس نے گہرا سانس لے کر اپنے باپ سے سفید جھوٹ بولا۔
"جبکہ مجھے اس بات پر شک ہے۔"پیچھے سے آتے راحیل نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔حدید نے اسے گھور کر دیکھا۔
"کم از کم ہمیں بتا کر تو جاتے۔"وہ ناراض ہو رہے تھے۔ہوے بھی چاہیے تھے۔وہ ان کا سب سے چھوٹا اور ضدی ترین بیٹا تھا۔
"رہنے دیں!......آگے اس نے ہمیں بتا کر کوئی کام کیا ہے جو اب بھی یہ کچھ بتاتا۔"زینب تو ریاض سے بھی زیادہ سخت ناراض معلوم ہورہی تھیں۔
"یار آپی ناشتہ ہی کروا دیں۔میری اماں جان تو لگتا ہے حال بھی نہیں پوچھیں گی ہم سے۔"صوفے پر دھپ سے بیٹھتے اس نے ہمنہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ہمنہ اپنی مسکراہٹ دباتی کچن کی طرف چل دی۔
"دیکھ رہے ہیں کس قدر بدتمیز ہوتا جا رہا ہے یہ۔"زینب سخت نظروں سے حدید کو گھورتے ہوۓ بولیں۔
"ہاہ اماں جان! بقول آپی کے میرے سر پر ایمن کا بھوت سوار ہے۔بقلول راحیل کے میں تمیز بھولتا جا رہا ہوں۔اور بقول آپ کے میں بدتمیز ہوگیا ہوں۔اب آپ ہی بتائیں میں اس سے بڑھ کر کیا کروں۔"وہ ٹھنڈی آہ بھرتا بےخوف انداز میں بولا۔
"دیکھا! دیکھا آپ نے۔کس طرح یہ اس لڑکی کا نام لے کر ماحول میں خلل ڈال رہا ہے۔ "وہ غصہ نہ ہوتی تو کیا ہوتی۔وہ لڑکا جان بوجھ کر انہیں غصہ دلا رہا تھا۔
"اوہ پلیز امیّ!یار اب آپ تو آپی کی طرح شروع نا ہو جائیں۔"وہ اکتا گیا تھا۔
"ہاں ہاں!......جو کام آپ نے کیا ہے اس پر تو میں آپ صاحبزادے کی آرتی اتاروں گی۔"وہ غصے میں میٹھے انداز میں بول کر اس پر کھُلا طنز کر رہی تھیں۔
"اوہ رئیلی امّی!......پھر دیر کس بات کی۔آپ آرتی منگوائیں میں آپ کی بہو کو لے کر گھر میں پرویش کرتا ہوں۔"وہ کھلکھلا کر بولا اور ان کا پارہ مزید ہاۓ کر گیا۔
"اسے تو بس بہانہ چاہیے اس لڑکی کو اس گھر میں لانے کا۔میں بتا رہی ہوں تمہیں حدید!میں اس لڑکی کو کبھی بھی اپنی بہو کے طور پر قبول نہیں کروں گی۔"انہوں نے صاف لفظوں میں اسے جتا دیا۔
"مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں کہ آپ اسے قبول کرتی ہیں یا نہیں!بس وہ میری بیوی ہے میرے لیے یہی کافی ہے۔"شان کے ساتھ کہتا وہ ان کے دماغ میں تیل ڈال کر تیلی لگانے کا کام کر گیا۔
"کام دیکھیں اپنے اس لاڈلے کے! جب سے آیا ہے اسے یہ خیال نہیں آیا کہ بہن کی ہی خبر لے لوں۔بچاری بستر پر پڑی ہے۔پوچھا تک نہیں اس کا۔بچاری سیڑھیوں سے گِر گئی تھی۔"وہ سر جھٹک کر غصے سے بولیں۔ریاض نے گھور کر انہیں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں،"لائک سیریسلی!...لاڈلا اور وہ بھی میرا؟"
"اب مجھے خواب تھوڑی آیا ہے کہ وہ سیڑھیوں سے گر گئیں۔"وہ ایسے بولا جیسے اسے اب معلوم ہوا ہے۔راحیل پانی پی رہا تھا کہ اس کی بات سُن کر اسے زور کا اچھو لگا۔
"راحیل! تم نے بتایا نہیں اسے؟"انہوں نے راحیل سے تصدیق کرنا ضروری سمجھا،انہیں اپنے اس بیٹے پر تو رتی بھر بھی بھروسہ نہ تھا۔
"بھول گیا تھا امّی!" جناب نے آج کا سب سے بڑا جھوٹ فرمایا۔ہمنہ نے ناشتہ لاکر حدید کے سامنے رکھا تو وہ کھانے سے انصاف کرنے لگا۔راحیل بھی اس کے ساتھ کھانے میں شامل ہوگیا۔
"تم بھی اس کے ساتھ رہ کر اسی کی طرح ہوتے جا رہے ہو۔"انہوں نے راحیل کو بھی جھڑک دیا۔
"ماموں! میلی نئی تار۔"احمد حدید اور راحیل کو اپنی نئی کار دکھانے لگا۔حدید بھی ان سے بحث کرنے کی بجاۓ احمد سے باتیں کرنے لگا۔ناشتہ کر کے وہ جیسے ہی اٹھا زینب کا منہ ایک بار پھر کھُلا۔
"اب کدھر تشریف لے کر جارہے ہو؟"
"آپی گوہر کی جہنم میں۔"یہ کہتے ساتھ ہی وہ گوہر کے کمرے کی جانب چل دیا۔ہمنہ،راحیل اور ریاض نے اپنی مسکراہٹ دبائی جبکہ وہ اسے گھور کر جاتا ہوا دیکھنے لگیں۔
"دیکھا! دیکھا آپ نے اسے!"زینب نے شکایتی انداز میں ریاض سے کہا۔
"اس کی پیدائش سے لے کر اب تک سے دیکھتا آرہا ہوں۔شکل بھی حفظ ہے ماشااللّٰہ سے۔اور کتنا دیکھوں!"ریاض کا جواب تھا کہ کمان کا تیر۔سیدھا ان کے آر پار ہوا تھا۔
"اس بات پر مجھے ایک شعر یاد آگیا۔"راحیل نے ہمنہ کے کان میں سرگوشی کرتے کہا،"میں نے اسے اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا،لیکن پھر بھی ان دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا۔"شعر بول کر وہ دونوں ہی کھی کھی کرنے لگے۔
"آپ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔"وہ خفگی سے کہتی اٹھ کر چلی گئیں۔ریاض بھی گہرا سانس لے کر اپنی چاۓ پینے لگے جو کہ ان کی گفتگو میں ٹھنڈی ہوچکی تھی۔
"آگیا بہن کا خیال!...مل گئی اس ایمن سے فرصت!"وہ اسے کمرے میں آتا دیکھ ہی شروع ہوگئی تھی۔
"میں اس وقت کسی فضول بحث کرنے کے موڈ میں نہیں۔"وہ کہتے ساتھ ہی کمرے میں موجود صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جماۓ بیٹھ گیا۔جیسے پتا نہیں کتنی ہی لمبی گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
"تو پھر کیوں آۓ ہو اِدھر؟"اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ حدید کو کچا نگل جائیں۔پکّا کر بھی نہیں مطلب کچا۔مطلب کہ یار حد نہیں ہوگئی۔
"میں تو اپنی گڑیا سے ملنے آیا ہوں۔اِدھر آؤ محمل!"حدید کے بلاوے پر کھلونوں سے کھیلتی محمل بھاگ کر اس کے پاس آئی۔
"کیسا ہے میرا چندا؟"وہ اس کے گال پر پیار دیتا ہوا بولا۔
"ماما نے ابھی مجھے اِدھر تھپڑ لگایا ہے۔"اس نے روندو سا منہ لے کر اپنے گال کی طرف اشارہ کیا۔
"آااں!......کوئی بات نہیں۔میں ماما کو سمجھا دوں گا۔آئندہ وہ نہیں ماریں گی آپ کو۔"وہ جیسا بھی تھا ان بچوں کے سامنے اس نے گوہر کو کبھی کچھ نہ کہا تھا۔وہ اتنا بےوقوف نہیں تھا کہ ان بچوں کی تربیت میں کوئی اونچ نیچ کرتا۔"چلو شاباش مجھے اپنا ہوم ورک لا کر دکھاؤ جو میں نے دیا تھا۔"اس کی بات پر محمل اچھلتی کودتی اپنے چھوٹے سے بیگ کی طرف بھاگی۔
"اگر کمرے میں آہی گۓ تھے تو بہن کا حال احوال ہی پوچھ لیتے۔"وہ اب شاید اس پر طنز کے تیر برسانے کا ارادہ رکھتی تھی۔لیکن آگے بھی حدید تھا۔
"الحمدللّٰہ سے اندھا نہیں ہوں۔دِکھتا ہے مجھے۔"تڑک کر جواب دیا گیا۔
"اندھے ہی ہو تم جو اس منہوس ایمن کو ٹھیک سے نہیں دیکھ سکے۔"وہ بھی منہ سے آگ ہی اگلتی تھی۔
"اندھا میں نہیں آپ ہیں۔جو جانتی ہیں کہ آپ کو اس جائیداد میں سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملے گی پھر بھی اپنا کماؤ میاں کا گھر چھوڑ کر اِدھر اپنی زندگی ضائع کر رہی ہیں۔"ٹکا سا جواب دیتے وہ محمل کا لایا گیا ہوم ورک چیک کرنے لگا۔
"بدتمیز!..."سر جھٹک کر بولتی وہ اپنا منہ بند کرگئی۔اس لڑکے سے بحث کرنا یعنی اپنا ہی سردرد بننے کے مترادف تھا۔

۞......۞......۞

"علیزہ! فیس پاؤڈر اور لپ سٹک رکھ لی نا؟"طیبہ علیزہ سے پوچھنے لگی۔
"ہاں یار رکھ لیے ہیں میں نے سارے بم اور بارود وغیرہ۔جیسے ہی میک اپ ہلکا ہوا کرے گا ہم منہ پر تھوپ لیا کریں گے۔اور ٹھاہ ٹھاہ لشکارے مار کر قہر برسا دیا کریں گے۔"انہوں نے بارڈر،......میرا مطلب ہے شادی پر جانے کی اچھی تیاری کر لی تھی۔
"چلو صحیح کیا۔"طیبہ نے گہرا سانس خارج کر کے شکر ادا کیا۔
"ہاں صحیح کیا۔دو چار پستولیں بھی سنبھال لینی تھیں۔اور ایک عدد بم بھی رکھ لینا تھا۔دو چار پٹاخے بھی رکھ لیتی،کسی کے کان میں رس گھولنے کے کام آسکتے ہیں۔"ایمن نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپی! شادی ہال پر قہر برسانے کے لیے جا رہے ہیں۔اس کو اڑانے کے لیے نہیں۔"علیزہ نے شرما کر کہا۔ایمن کے دونوں ابرو حیرت سے اٹھ گۓ۔
"توبہ ہی ہے قسمے!"وہ ہنسی۔
"ایمن آپی!ایک تصویر ہی بنا دو۔"رانیہ مسکین سی شکل لے کر کھڑی تھی۔
"آ جاؤ!" رانیہ کی مسکین شکل واقعی ترس کھانے کے قابل تھی۔
"دیکھ کر رانیہ!کہیں کیمرہ ہی نا شرما جاۓ......آپ کے مینڈک جیسے کیے گۓ میک اپ پر۔"علیزہ نے دانت نکالتے کہا۔
"ویسے اللّٰہ ہی مالک ہے تم لوگوں کا۔"ایمن نے انہیں چھیڑا۔وہ آج خود بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔

۞......۞......۞

"سس......سس......سردی!"وہ ابھی ہال کے باہر کھڑے تھے کہ سردی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
"بیٹا جی اندر چلو! ساری سردی فیشن مارنے میں ہی نکل جاۓ گی۔"ایمن نے ان کی باتوں پر ایک بار پھر اپنا منہ کھولا۔
"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو آپی!...بس اب جلدی سے اندر پہنچ جائیں۔ایک تو پتا نہیں بھائی ارمان کو کیا مسئلہ ہے۔سارے لوگ آ گۓ ہیں لیکن ایک وہی نہیں آۓ۔لینڈ کروزر میں آنا تھا لگتا ہے اب کھوتا ریڑھی پر آرہے ہیں۔"اریبہ کی زبان پھسلی۔علیزہ نے زور سے کہنی اریبہ کو مار کر علوینہ کے ہونے کا احساس دلایا۔اریبہ نے اپنا تھوک نگلا۔"میرا مطلب ہے......میرا مطلب تھا......"اس سے اب کوئی بات نہیں بن پارہی تھی۔علوینہ کی شکل دیکھ کر لگ رہا تھا وہ اس کی بات سُن چکی ہے۔اس کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا مکمل طور پر۔
"وہ دیکھو آ گئی دلہے کی کار۔"ایمن نے یہ کہہ کر جلدی سے ماحول کو نارمل بنایا۔اب سب دُلہے کی کار کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔اس کے نکلنے کے بعد ہی سب کو مل کر اکٹھے اندر جانا تھا۔
"ہی ہی ہی ہی! میں اڑی اڑی جاؤں ہوا دے نال۔"علیزہ اڑتے اڑتے ہواؤں میں لہراتی ہوئی بولی۔
"ہی ہی ہی ہی!اور میں رینگتی رینگتی جاؤں ان کیڑوں کے ساتھ۔"اریبہ بھی علوینہ کی نظروں کی تپش سے بچنے کے لیے علوینہ کے پیچھے بھاگی۔

۞......۞......۞
جاری ہے......

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Where stories live. Discover now