وہ کالج سے کچھ فاصلے پہ گاڑی پہ بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا۔قاضی صاحب بھی اس کے ساتھ بیٹھے تھے۔ساتھ ہی ایک گاڑی بھی موجود تھی۔گواہان کا بندوبست بھی وہ اچھے سے کر کے آیا تھا۔
آنکھوں پہ سن گلاسز لگاۓ،سٹئیرنگ پہ ہاتھ رکھے،بار بار گھڑی کو دیکھتا وہ بہت بےچین دکھائی دیتا تھا۔
وہ کالج سے نکلی۔اور آنکھیں گھما کر ادھر اُدھر تلاشنے لگی۔آنکھوں میں سرخ ابھرتی لکیریں'یقیناً وہ کلاس میں بیٹھی بھی آنسو پیتی رہی تھی۔بہت سوچ بچار کے بعد بھی کوئی راستہ نہ نکلا۔کوئی راستہ نکلتا بھی کیسے۔سارے راستے تو حدید نے بند کر دیے تھے۔اس کی ٹانگیں تقریباً کانپ رہی تھیں۔
تھوڑی ہی دور اسے حدید کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔مرے مرے لکھڑاتے قدم اٹھاتی وہ گاڑی کی طرف بڑھنے لگی۔آنکھوں سے آنسو پھر سے بہنے لگے۔ہاں'ایک یہ کام تھا جو وہ کر سکتی تھی۔
حدید نے شیشے میں دیکھا تو وہ اسی کی طرف آرہی تھی۔اس کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
گاڑی کا دروازہ کھولتی وہ اندر آ بیٹھی۔آہستہ سے دروازہ بند کرتی وہ خود سے ہی نظریں چرانے پہ مجبور تھی۔اس کے بیٹھتے ہی حدید نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔دوسری گاڑی بھی ان کے ساتھ ہی نکلی۔
سنسان رستے پہ انہوں نے گاڑی روک دی۔
"قاضی صاحب شروع کریں۔"وہ قاضی کی طرف متوجہ ہوا۔
"جی ٹھیک۔"انہوں نے اپنا رُخ پیچھے کی جانب کیا۔حدید اپنی طرف کا دروازہ کھول چکا تھا۔دوسری گاڑی میں سے چند لڑکے نکل کر ان کی گاڑی کے قریب کھڑے ہوچکے تھے۔وہ سب ہی افسوس سے اس پاگل عاشق کو دیکھ رہے تھے۔
"ایمن رمضان ولد رانا رمضان شعیب آپ کا نکاح رانا حدید ریاض ولد رانا ریاض شکور سے دس لاکھ سکہ رائج الوقت کیا جاتا ہے۔کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"قاضی صاحب پوچھ رہے تھے۔جبکہ وہ آنسو بہاتی گود میں پڑے اپنے ہاتھوں کو گھور رہے تھے۔
"ایمن جواب دو۔"اسے خاموش پا کر وہ بولا۔
ایمن نے نظریں اٹھا کر آنکھوں کا پیالہ بھر کر اسے دیکھا۔شکوہ،شکایت،اذیت،تکلیف،رنج سب کچھ تھا ان آنکھوں میں۔حدید نے خودساختہ نظریں چرائیں۔
ایمن نے واپس نظریں جھکا لیں۔
"قبول ہے۔"
قبول و ہجاب کا مرحلہ طے پانے کے بعد قاضی صاحب نے رجسٹر اور قلم ایمن کی طرف بڑھایا جسے اس نے کانپتے ہاتھوں سے تھام لیا۔قاضی صاحب نے اشارے سے اسے دستخط کی جگہ بتائی۔
ایمن نے قلم کو مضبوطی سے تھاما اور کاغذ پہ رکھا۔دستخط کے لیے جیسے ہی ہاتھ کو حرکت دی وہ تیزی سے کانپنے لگا۔آنسو ایک بار پھر سے پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے۔لبوں کو دانتوں میں دباۓ ضبط کرتی وہ قلم کاغذ پہ گھسیٹنے لگی۔کانپتے ہاتھوں کے ساتھ دستخط آخر کار آڑے ترچھے انداز میں ہو ہی گئے۔
حدید کی طرف سے بھی قبول ہجاب کا مرحلہ طے پایا گیا اور اس کے بعد دعا کروائی گئی۔
ایمن نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور باہر کو دھکیلتی تیزی کے ساتھ وہاں سے بھاگی۔منہ پہ ہاتھ رکھے وہ اپنی سسکیاں دبانے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی۔حدید نے شیشے میں سے جاتے ہوۓ اسے دیکھا۔دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔
کیا اس نے جو کیا تھا،وہ ٹھیک تھا؟
۞__۞__۞
وہ گھر پہنچی اور اپنے آپ کو سنبھالتی،ٹھیک کرتی بیل پہ ہاتھ رکھا۔دروازہ فراز نے کھولا تھا۔ایمن کو تعجب ہوا۔آج وہ کالج سے جلدی گھر کیسے آگیا تھا۔یا پھر وہ آج کالج پڑھانے گیا ہی نہیں۔
گھر میں گوہر کی اونچی اونچی آوازیں گونج رہی تھیں۔وہ فراز سے ہی گفتگو بحث تھی۔یا ایسا کہنا ٹھیک ہوگا کہ وہ جھگڑ رہے تھے۔ایمن نے جلدی سے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کیا۔یک دم اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔اسے پسینے آنے لگے'گلا خشک ہونے لگا۔وہ کانپنے لگی۔جیسے کسی کی چوری پکڑ لی جاتی ہے۔آنکھوں میں سرخ ابھار واضح تھا۔لیکن وہاں کوئی اپنے ہوش میں ہوتا تو ہی اس کی آنکھوں میں جھانکتا۔
"آگئی منحوس...شکر ہے جو آگئی۔ورنہ تمہارا کوئی بھروسہ نہیں کسی دن کالج سے ہی بھاگ جاؤ۔تمہارے جو لین لچھن ہے سب معلوم ہیں مجھے۔"گوہر اپنے الفاظوں سے ماحول میں کڑواہٹ گھول رہی تھی۔اور نفرت و کراہت لیے ایمن کو گھور رہی تھی۔
"بھا......بھابھی وہ میں نے......"ایمن کو ایک بار پھر سے رونا آنے لگا۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا تھا۔کیا گوہر کو کچھ معلوم ہوگیا تھا اس کے بارے میں۔
"یہ کیسے بات کر رہی ہو تم ایمن سے۔دماغ ٹھکانے پہ ہے تمہارا۔جھگڑا تمہارا اور میرا ہے اس بچاری کو کیوں گھسیٹ رہی ہو بیچ میں۔"فراز نے اسے جھڑکا۔
"او ہیلو!......اس بلا کے لیے کوئی کمیّ ذات کا رشتہ ڈھونڈو اور چلتا کرو یہاں سے۔میں اور نہیں جھیل سکتی اسے۔ویسے بھی اس کے لیے اب کسی کمیّ ذات کا رشتہ ہی آۓ گا کسی شہزادے کا نہیں۔جب سے اس گھر میں بیاہ کر آئی ہوں اسے ہی جھیل رہی ہوں۔اس کی اور اس کے باپ کی وجہ سے نہ ہم کہیں گھومنے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی آسانی سے گزار سکتے ہیں۔اور آخر کماتا ہی کیا ہے فراز۔تیس ہزار کی تنخواہ میں آخر کس کس کا گزر بس کریں ہم۔رانیوں کی طرح پلی تھی میں اپنے گھر میں اور اس گھر میں آتے ساتھ ہی نوکرانیوں جیسی زندگی کر دی ہے میری تم لوگوں نے۔اور تم ایک عذاب........."
گوہر اس کے آگے کچھ بولتی ماحول میں فراز کے زور دار طمانچے کی آواز گونجی۔
"چٹاخ!..."
گوہر کے مانو دل پہ ضرب لگی تھی۔اسے لگا اس کی انا کو کسی نے تھپڑ مارا ہے۔
"خاموش ہو جاؤ بدتمیز عورت!...تمہیں معلوم بھی ہے کہ تم کیا کہہ رہی ہو۔اگر میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا تو پھر نہ کرتی مجھ سے شادی۔میں نے زبردستی نہیں کہا تھا کہ مجھ سے شادی کر لو۔کسی کو الزام دینے کی بجاۓ ایک عورت کو اپنا گھر بسانے کی جدوجہد خود کرنی چاہیے۔نا کہ دوسرے افراد کو اس کا قصوروار ٹھہرانا چاہیے۔بن ماں کی بچی پہ ترس نہیں آتا تمہیں۔اور ایمن کا خرچہ میں نہیں ابوّ اٹھاتے ہیں۔الحمدللہ ابھی اس کے ابوّ زندہ ہیں۔اس لیے دوسروں کو الزام دینا بند کرو۔دراصل تم میرے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی۔اور صاف صاف کہو نا کہ اس چھوٹے سے گھر میں گھٹن ہوتی ہے تمہیں اور اپنا محل نما گھر یاد آتا ہے۔"فراز سے بھی برداشت نہ ہوا۔آخر کار اس نے بھی اپنی بھڑاس نکال ہی لی۔آخر وہ کیوں سہتا اپنی بہن کی بےعزتی۔غیرت جاگ اٹھی تھی۔
ایمن خاموش تماشائی بنی آنسو بہا رہی تھی۔ایک دُکھ کم تھا جو دوسرا بھی آن پہنچا تھا۔اور جسے گوہر کہہ رہی تھی کہ اس کے لیے کسی کمیّ ذات کا ہی رشتہ آۓ گا اسے کیا معلوم وہ اس کے شہزادے بھائی کی ہی منکوحہ بن چکی ہے۔
بےشک اللہ کی لاٹھی بےآواز ہوتی ہے۔
"جاہل انسان!تم نے مجھے تھپڑ مارا۔مجھے!......"گوہر بےیقینی سے فراز کو دیکھ رہی تھی۔"اور وہ بھی اپنی اس کمیّ بہن کے کیے۔"تنفر سے ایک نظر ایمن کو دیکھا۔
"ٹھیک ہے رکھو اپنی اس بہن کو اپنے پاس۔جا رہی ہوں میں یہاں سے۔تعلق ہی نہیں رکھنا مجھے تم سے کوئی۔"گوہر نے جلدی سے نیچے زمین پہ کھیلتی محمل کو اٹھایا اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
"بھائی!...انہیں روکیں۔وہ جا رہی ہیں۔آپ کو معلوم تو ہے کہ وہ کتنی ضدی ہیں۔واپس کبھی نہیں آئیں گی پھر۔ پلیز بھائی۔"ایمن فراز کی کہنی کو زور سے ہلاتے ہوۓ اس کی سماجت کرنے لگی۔
"جانے دو ایمن اسے۔شوق پورا کر لینے دو اسے اپنا۔جاتی ہے تو جاۓ۔دماغ خراب کیا ہوا ہے ہم سب کا۔"فراز تنفر اور غصے سے کہتا گھر سے باہر نکل گیا۔ایمن بےبسی سے کبھی راہداری کو دیکھتی تو کبھی گوہر کے کمرے کو۔
وہ جلدی سے گوہر کے کمرے کی طرف بھاگی۔
گوہر سامنے بیگ میں کپڑے ڈال کر اپنا سامان باندھ رہی تھی۔
"پلیز بھابھی!...رک جائیں۔بھائی ابھی غصے میں تھے اس لیے انہوں نے ایسا کر دیا۔ورنہ آپ تو جانتی ہیں وہ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔پلیز بھابھی رک جائیں۔"وہ روتے ہوۓ منت کر رہی تھی۔لیکن گوہر تو اس کی ایک نہ سن رہی تھی۔
"رکھو اپنے بھائی کو اپنے پاس۔نہ مجھے وہ چاہیے نہ اس کی محبت۔اس نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا ہے'گوہر پہ۔اب تو وہ منانے بھی آیا تو میں نہیں مانوں گی۔اسے بھی تو پتہ چلے کہ گوہر کے ساتھ بُرے کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ہونہہ۔"گوہر کہتی جا رہی تھی اور ایمن روتے ہوۓ اس کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔
اور پھر گوہر نے ایک نہ سنی اور چلی گئی۔ایمن گھر میں یک دم اکیلی ہوگئی۔گھر میں اب کوئی نہ تھا۔ابوّ بھی کام پہ گئے ہوۓ تھے۔
وہ اشک بہاتی بس روتی ہی چلی گئی۔
سب کچھ یک دم سے جیسے ختم ہوگیا۔زندگی یک دم سے الٹ پلٹ ہو گئی۔تقدیر کے پنےّ اپنی تحریر دوہرا رہے تھے۔اور وہ بےبس و لاچار تھی۔۞__۞__۞
BẠN ĐANG ĐỌC
"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)
Bí ẩn / Giật gânیہ "محبت" وہ کہانی جو کہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزری ہے۔یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے،جس کو میں ناول میں لکھے اپنے الفاظوں کے ذریعے آپ سب کے سامنے پیش کرنا چاہوں گی۔اس کے کردار تو حقیقی ہیں لیکن نام فرضی۔ یہ وہ کہانی ہے جس میں،میں نے اپنی نظروں کے سام...