باب : ١١

194 19 0
                                    

اس نے گاڑی لا کر ایک ریستوران کے آگے روکی تھی۔ایمن نے آنکھیں پھاڑ کر ریستوران کو دیکھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"اس نے مسکراہٹ دباتے سوال کیا۔
"یہ کہاں لے آۓ ہو تم مجھے!" اس کا پارہ تھا کہ چڑھتا ہی جا رہا تھا۔
"اس بچارے کو انگلش میں ریسٹورنٹ ، اُردو میں ریستوران اور پنجابی میں ہوٹل اور ڈھابہ کہتے ہیں۔"ایمن نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہ ہو۔
"اچھا اب ایسے کیوں گھور رہی ہو چائینیز میں بھی بتا دیتا ہوں۔اسے شاید چائینیز میں چینگ چونگ چا کہتے ہیں۔"اس نے اپنی طرف سے غلط ترجمہ کیا تھا کہ ایمن نے کون سا چائنہ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
"حدید تم کیا چیز ہو!..."ایمن نے اپنا سر پکڑ لیا۔
"شکر الحمدللہ اللہ کی اشرف المخلوقات میں سے ایک ہوں۔"فخر سے بتایا گیا۔
"لیکن مجھے اس پہ شک ہے۔"اس کے فخر کو ایک پل میں مٹی میں ملایا گیا۔لیکن وہ بھی غلط انسان سے بحث مول لے چکی تھی۔
"کیوں!......کیا میں انسان نہیں ہوں۔کیا میری چار ٹانگیں ہیں؟...یا پھر میرے سر پر بڑے بڑے سینگھ ہیں۔یا پھر میرے پیچھے کوئی دُم لٹکتی ہے۔"اس کا انداز ایسا تھا کہ اس بار ایمن ہنس دی،پھر ہنستی ہی چلی گئی اور ہنس ہنس کر دوہری ہونے لگی۔حدید بھی اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔
"تم کتنے مضحکہ خیز ہو۔"وہ بولی تو اس کی مسکراہٹ جھٹ سے سمٹ گئی۔
"دھت تیری کی!......مجھے لگا تم ابھی بولو گی آئی لو یو اور بلاہ بلاہ بلاہ۔"وہ منہ چڑھا کر آنکھیں گھوماتے ہوۓ بولا تو ایمن کو اور زیادہ ہنسی آنے لگی۔
"چلو بھی!......اب کیا میری گاڑی کو لکی ایرانی سرکس بنانے کا ارادہ ہے۔"کہتے ساتھ ہی وہ گاڑی سے اُتر گیا اور پھر ایمن کی طرف کا دروازہ کھول کر اسے جھٹ سے باہر نکالا۔اور اندر کی طرف چلنے لگا۔
"ارے میرا ہاتھ تو چھوڑو سب دیکھ رہے ہیں۔"ایمن نے اِدھر اُدھر دیکھتے کہا۔ایمن کی بات پر وہ جھٹ سے رُکا اور انہیں کی طرف دیکھتے ایک آدمی کو اپنی انگلی کے اشارے سے پاس بُلایا۔اس کی انگلی کا اشارہ سمجھ کر وہ آدمی اس کے پاس آیا۔
"کیا بے؟...ہاں؟ایسے کیا دیکھ رہا ہے بیوی ہے میری۔"وہ دانت کچکچا کر غصے سے بولا۔وہ آدمی ہڑبڑا کر فوراً سے چلتا بنا۔
"جاہل!..."وہ اسے جاتے دیکھ بڑبڑایا۔
"حدید!...یہ کیا بدتمیزی تھی؟"ایمن نے اسے گھورا۔
"بدتمیزی؟...بدتمیزی میں کر رہا تھا کہ وہ۔کب سے آنکھیں پھاڑے تمہیں دیکھ رہا تھا۔غیرت جاگ گئی میری۔"اس کا چہرہ غصے سے لال سُرخ ہو رہا تھا،ایمن بھی چُپ ہوگئی۔وہ اسے اندر لے گیا۔ایک خالی ٹیبل ڈھونڈ کر وہ اس پر بیٹھ گۓ۔ایک ویٹر جھٹ سے ان کی طرف آیا۔حدید نے جلدی سے اپنا آرڈر دیا۔اور ایمن کو دیکھنے لگا۔
"ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟" اسے اس کی نظروں سے چُبھن ہوئی۔
"ارے...میں تو اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں تمہیں اس سے کوئی مسئلہ؟......اگر ہے تو تمہارا ایسا بولنے کا کوئی حق نہیں بنتا۔میں حق رکھتا ہوں تم پر۔"وہ بڑے حق سے بولا۔
"تو ایسے نہ دیکھو۔مجھے چُبھن ہوتی ہے تمہاری نظروں سے۔"اس نے اپنا تھوک نگلا۔ایک تو اس کی آنکھیں،واللہ کتنی خوبصورت تھیں،اوپر سے اسی پر جمی تھیں۔اسے کیسے چُبھن نہ ہوتی!
"چُبھن ہوتی ہے یا شرم آتی ہے۔"وہ شرارت سے بولا ایمن کا دماغ گھوم گیا۔
"اُف...کتنی خوش فہمیاں ہیں تمہیں۔"کہتے ساتھ ہی وہ اس کی نظروں سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔اس کی بات پر حدید جو شروع ہوا پھر رُکنے کا نام ہی نہ لیا۔ایمن کا تو سر درد ہوگیا اس کی باتوں سے۔وہ ایمن سے ایسی باتیں کیا کرتا تھا جس کا کوئی سر پیر ہی نہ ہوتا تھا۔شاید وہ اسے اپنے ساتھ گفتگو میں مصروف کرنے کے لیے یہ سب کرتا تھا۔کچھ ہی دیر میں ان کا آرڈر آگیا۔تو انہوں نے کھانا کھایا۔حدید تو خیر بڑی تسلی سے کھاتا رہا تھا لیکن ایمن کو ڈر کے مارے بےچینی لگی ہوئی تھی۔اگر بھائی اور ابّو کو معلوم ہوگیا تو!...یہی سوچ اسے خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔کھانے کے بعد وہ دونوں وہاں سے نکل لیے۔حدید نے گاڑی اس کے گھر کے راستے پر ڈال دی تھی۔گاڑی میں بھی ان کی بحث چلتی ہی رہی تھی کبھی کس بات کو لے کر تو کبھی کس بات کو لے کر۔حدید نے گاڑی اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر روکی۔ایمن جھٹ سے گاڑی پر سے اتری۔اسے جلدی سے جاتے دیکھ حدید نے اسے آواز دی۔
"میڈم صاحبہ زرا واپس آئیں۔"ایمن جھٹ سے اِرد گرد دیکھتی اس کے پاس آئی۔صد شکر گلی میں اس وقت ایک آدھ بچے کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
"کیا ہے؟" پھاڑ کھانے والے انداز میں پوچھا گیا۔حدید نے پچھلی سیٹ سے چار پانچ شاپنگ بیگز اٹھاۓ اور اس کے سامنے کیے۔
"یہ کیا ہے؟" ایمن نے پہلے شاپنگ بیگز کو دیکھا اور پھر سوالیہ نظروں سے حدید کو۔
"تمہارے لیے کچھ سامان لایا تھا۔"وہ عام سے لہجے میں بولا۔
"کیوں؟..."ایمن نے آنکھیں نکال کر پوچھا۔
"کیوں کا مطلب کیا؟...تمہارا شوہر ہوں،تمہاری ضرورتوں کا خیال رکھنا میرا فرض ہے۔"وہ اس کی حیرت کو کسی خاطر میں لاۓ بغیر بولا۔
"تو نکاح ہوا ہے ابھی صرف،رخصتی نہیں جو تم ابھی سے اپنے حق ادا کرنے لگ گۓ ہو۔"دانت پیس کر کہا گیا۔
"وہ بھی ان شاءاللہ جلدی ہو جاۓ گی۔ٹینشن کیوں لیتی ہو؟۔"اس کے لہجے میں شرارت نمایا تھی۔
"تم!......"اس پہلے کہ وہ کچھ بولتی حدید پھر سے بول پڑا۔
"اب پکڑو یہ بیگز میرا ہاتھ تھک گیا۔اگر تم نے نہ پکڑے تو خود چل کر تمہارے گھر دینے آؤں گا۔پھر دے لینا جواب تم اپنے باپ اور بھائی کو۔"دھمکی آمیز لہجے میں کہتا وہ ایمن کو ڈرنے پر مجبور کر گیا۔ایمن نے تقریباً جھپٹنے والے انداز میں اس کے ہاتھ سے بیگز لیے۔اور دوبارہ سے چل پڑی۔حدید نے اسے آواز دے کر پھر سے ایک بار بُلایا۔اس بار وہ گاڑی کے قریب نہیں آئی تھی بلکہ سوالیہ نظروں سے اسےسے۔کبھی دیکھا تھا۔
"دو ہفتے بعد کورٹ میں پیشی ہے۔تم نے گھبرانا نہیں۔میں سب سنبھال لوں گا۔"وہ سنجیدگی سے بولا تھا۔ایمن اثبات میں سر ہلاتی گھر کی طرف چل دی۔لیکن اسے اب پیشی کی بلکل بھی فکر نہیں تھی۔اسے معلوم تھا۔حدید سب سنبھال لے گا۔

۞......۞......۞

جاری ہے......

"محبت" بقلم جیاءرانا(✓Completed)Where stories live. Discover now